اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰی ۚ وَ إِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلیٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَ أَقَامُوْاْ الصَّلٰوةَ ۚ وَ مَنْ تَزَكّٰی فَإِنَّمَا يَتَزَكّٰی لِنَفْسِهٖۦ ۚ وَ إِلَى اللهِ الْمَصِيرُ﴾ (فاطر: 18)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جس کسی پر بڑا بوجھ لدا ہوا ہو وہ اگر کسی اور کو اس کے اٹھانے کی دعوت دے گا تو اس میں سے کچھ بھی اٹھایا نہیں جائے گا چاہے وہ جسے بوجھ اٹھانے کی دعوت دی گئی تھی کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اے پیغمبر تم انہی لوگوں کو خبردار کر سکتے ہو جو اپنے پروردگار کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتے ہوں اور جنہوں نے نماز قائم کی ہو اور جو شخص پاک ہوتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لیے پاک ہوتا ہے اور آخر کار سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
یہ واقعی ایک بہت معرکۃ الآراء مفہوم کی حامل آیت ہے جس کی بہت زیادہ ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اصل میں ہم لوگ اگر کسی کی مان کے چلیں تو اس سے ہماری یہ سوچنے کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کہ وہ ہمیں کس طرف لے جا رہے ہیں، خیر کی طرف لے جا رہے ہیں یا شر کی طرف۔ کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں صحیح اور غلط کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا ہے۔ یعنی اللہ پاک نے ہم سب کو تین چیزیں دی ہیں۔ عقل، قلب اور نفس۔ چنانچہ قلب و نظر یا جس کو دل و دماغ کہتے ہیں، یہ دو چیزیں سوچنے اور سمجھنے کے لیے دی گئی ہیں۔ یعنی انسان ان کے ذریعے سے سوچتا اور سمجھتا ہے، لہذا اگر انسان ان چیزوں کو بالکل ڈل کر دے اور دوسروں کے پیچھے چلنے لگے اور وہ اس کو گمراہی کی طرف لے جائیں، تو ضالین اسی کو کہتے ہیں، گمراہ لوگ انہی کو کہتے ہیں۔
جو لوگ دوسروں کو گمراہی کی دعوت دیتے ہیں وہ ’’المَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ‘‘ ہیں، کیونکہ ان کو علم ہے کہ ہم غلطی پر ہیں اس کے باوجود دوسرے کو خراب کرتے ہیں۔ لیکن جو دوسرے لوگوں کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں وہ گمراہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہٸیں۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ چونکہ مجھے فلاں نے گمراہ کیا ہے لہذا میرا بوجھ بھی اس پہ پڑے گا، تو ایسا نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو کسی کو غلطی کی طرف لے جاتا ہے تو اس غلطی پر چلنے والے اور اس کو غلطی کی طرف دعوت دینے والے دونوں کی اس سزا ملتی ہے۔ یعنی دعوت دینے کی سزا اسے ضرور ملے گی۔ گویا وہ سارے لوگوں کے جرم اپنے سر پہ لاد لیتا ہے، لیکن اس سے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کے بوجھ میں کمی نہیں آتی۔ لہذا کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکا۔
ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ یونیورسٹی میں professor بھی تھے، ایک دن فرمانے لگے ہماری meeting جاری تھی vice chancellor بھی بیٹھے ہوئے تھے، نماز کا وقت گزر رہا تھا، میں نے عرض کیا کہ نماز کے لیے کچھ وقفہ کیا جائے، نماز پڑھ لیں۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یہ بہت اہم بات ہے، آپ میرے کھاتے میں ڈال لیں اگر کچھ ہو گیا تو میں ذمہ دار ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ تو یہ کہ رہے ہیں، لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰى﴾ (فاطر: 18) کوئی اور کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لہذا ہمیں تو نماز پڑھنی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ انسان اپنی نماز کی حفاظت کرے، اپنے اعمال کی حفاظت کرے، کسی اور کی خاطر اس کو ضائع نہ کرے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت قریبی ہی کیوں نہ ہو اگر اس سے بوجھ اٹھانے کا کہا جائے گا تو وہ خود ہی پریشان ہو گا آپ کا بوجھ کیا اٹھائے اور اگر اٹھانا بھی چاہے گا تو نہیں اٹھا سکے گا۔ آگے یہ فرمایا ہے کہ پیغمبر کا کام بھی خبردار کرنا ہے، طریقہ بتانا ہے اور سمجھانا ہے، اس سے زیادہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان بالغیب رکھتا ہے یعنی اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پاک سے ڈرتا ہو تو وہ کام کا ہے۔ اور کوئی شخص جو نماز پڑھتا ہے یا اس کا تزکیہ ہوتا ہے وہ اس کے اپنے فائدے کے لیے ہے، وہ کسی اور کے لیے نہیں ہے، اگرچہ اوروں کو اس کا فائدہ یقیناً پہنچے گا، لیکن در حقیقت وہ کام اس کے اپنے لیے ہے۔ اور سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کے جانا ہے۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ آخِر دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِيْنَ