دین کی تفصیل: عقائد، اعمال، اور احوال

سوال نمبر 274

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



سوال:

حدیث جبرائیل میں آپ ﷺ نے دین کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس میں عقائد، اعمال اور احوال شامل ہیں۔ ایک عام مسلمان کے لیے ان تینوں کا کم سے کم کس درجہ میں مستحضر ہونا ضروری ہے؟ کیونکہ علمی طور پر بہت ساری چیزوں کو انسان جانتا ہے لیکن مستحضر بہت کم چیزیں ہوتی ہیں۔ اور حديث جبرائيل کی رُو سے جن چیزوں کا مستحضر ہونا ضروری ہے اس کے لیے ایک عام مسلمان کیا عملی ترتیب کر سکتا ہے؟

جواب:

یہ سوال تین چیزوں کے بارے میں ہے۔ حدیث جبرائیل میں بھی تین چیزوں کا ذکر ہے۔ "مَا الْاِیْمَانُ، مَا الْإِسْلَامُ" اور "مَا الْإحْسَانُ"۔ چنانچہ "مَا الْاِیْمَانُ" کا جواب صحیح عقائد ہیں، اور عقائد کے معاملے میں آپ تخصیص نہیں کر سکتے کہ یہ عقیدہ رکھ لوں گا اور ممکن ہے یہ نہ رکھوں۔ بلکہ عقیدے سب صحیح رکھنے ہیں اور ایمان مفصل اور ایمان مجمل ان میں موجود ہے، بہشتی زیور میں عقائد کی پوری list موجود ہے۔ ان سارے عقائد پر اسی طرح یقین کرنا چاہیے، ایمان رکھنا چاہیے۔ مجھے جب حضرت نے بيعت فرمایا تو مجھے فرمایا کہ بہشتی زیور میں جو عقائد درج ہیں ان کو پڑھو، سمجھو اور ان پر ایمان رکھو۔ الحمد للہ! یہ ہمارے فرض عین علم کا جزِ اعلی ہے۔

دوسری بات "مَا الإِسْلَامُ" ہے۔ چنانچہ اسلام کے بنیادی ارکان کا علم ضروری ہے کیونکہ علم کے بغیر وہ اعمال ادا نہیں کیے جا سکتے۔ مثلاً نماز ہے، روزہ ہے، زکوۃ ہے اور حج ہے۔ اس حد تک ان کے مسائل کا جاننا ضروری ہے کہ ان میں کوئی غلطی نہ ہو۔ ایک بات بہت اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے میرا خیال میں بہت مناسب موقع پہ یاد آ گئی کہ ہر عمل اگر کتابوں میں لکھے گیے طریقے کے مطابق صحیح صحیح کیا جائے تو وہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ مثلا نماز اگر صحیح صحیح طریقے سے پڑھی جائے تو بہت آسان ہے۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’نماز سنت کے مطابق پڑھیے‘‘ چند صفحات کی کتاب ہے اس کو آدمی مستحضر رکھے اور پڑھے اور اس کے مطابق پڑھے تو نماز بہت آسان ہے۔ لیکن اگر غلطی ہو تو اس کا پتا ہی نہیں چلتا، بعض دفعہ مفتی حضرات بھی بے بس ہو جاتے ہیں، اور پھر کتابوں میں ڈھونڈنا پڑتا ہے اور دار الافتاء کے چکر لگانے پڑتے ہیں، بعض دفعہ بڑے مسائل ہوتے ہیں۔ ’’عماد الدین‘‘ بہت ضخیم کتاب ہے نماز کے مسائل پر اور سوال جواب کی صورت میں ہے۔ جتنے سوال اس میں کیے گیے ہیں اس سے سو گنا مزید سوالات ہو سکتے ہیں جیسے آپ کے فتاوٰی میں بے شمار مسائل موجود ہیں، جیسے ’’آپ کے مسائل ان کا حل‘‘ ہے اور مزید بھی بہت سارے سوالات ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ غلطی کا خمیازہ بہت بھگتنا پڑتا ہے۔ اور اگر صحیح علم حاصل کیا جائے تو عمل بہت مختصر ہو جاتا ہے۔ جیسے ہم جب جرمنی میں تھے تو مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے ہر چیز کو مشکل کیوں بنایا ہوا ہے؟ یہ کھاؤ، یہ نہ کھاؤ، یہ کھاؤ یہ نہ کھاؤ۔ چونکہ جرمنی میں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور عیسائی تو پرواہ ہی نہیں کرتے، وہ اباحیت کے قائل ہیں کہ ہر چیز ٹھیک ہے۔ لہذا ان کے لیے یہ سوال واقعی بڑا natural تھا۔ تو میں نے اسے جواب دیا کہ در اصل جو چیزیں حرام اور ممنوع ہیں وہ بہت تھوڑی ہیں، انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہیں۔ لیکن تم لوگوں نے اس میں یہ عجیب حرکت کی ہے کہ ساری حرام چیزیں اپنی ہر چیز میں شامل کر دی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے مشکل پیدا ہو گئی کہ فلاں حرام چیز کی وجہ سے فلاں چیز نہیں کھا سکتے۔ کسی دوسری چیز کی وجہ سے فلاں چیز نہیں سکتے، کسی تیسری چیز کی وجہ سے یہ نہیں کھا سکتے۔ اگر آپ ان کو علیحدہ رکھ لیتے تو ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں تھی۔ اور ہمیں انتخاب کرنا بڑا آسان ہوتا۔ چنانچہ بنیادی مسئلہ یہی ہے، complication یہی ہے۔ لہذا اگر اعمال کا صحیح علم ہو اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے، اور اپنے اجتہاد کو چھوڑ دیا جائے، بلکہ جیسے لکھا گیا اسی طريقے پر عمل کر لیا جائے تو دین بہت آسان ہے۔ نماز کے بھی چند ہی مسائل ہیں، روزے کے بھی چند ہی مسائل ہیں، زکوۃ کے بھی چند ہی مسائل ہیں۔ باقی عملی چیزیں ہیں مثلاً زکوٰۃ کے مستحق کو ڈھونڈنا اور اس تک زکوٰۃ پہنچانا یہ ایک عملی مسئلہ ہے، اس سلسلے میں کتاب آپ کی مدد نہیں کرے گی۔ کتاب سے آپ کو صرف مستحق کا پتا چلے گا، پھر ڈھونڈنا آپ کا کام ہے۔ اسی طرح حج کے بھی چند ہی مسائل ہیں۔ ہم جب 1993 میں ship کے ذریعے حج پہ جا رہے تھے تو اس پہ آٹھ دن کا سفر تھا، آٹھ دن میں بہت time مل جاتا ہے سیکھنے اور سکھانے کے لیے۔ اس لیے ہم نے سکھانے کی ٹیمیں بنائی ہوئی تھیں جو مختلف جگہوں پہ جا کر مردوں اور عورتوں کو حج کے مسائل سکھاتی تھیں۔ اخیر میں ہمارا اتنا تجربہ ہو گیا تھا کہ پانچ منٹ میں ہم پورے حج کی بنیادی باتیں بتا دیتے تھے۔ اگر کوئی نیا آدمی مل جاتا تو چونکہ اس کے پاس اتنا time نہیں ہوتا تھا کہ حج کے تمام مسائل سیکھے، تو اس کو پانچ منٹ میں ہم حج کے بنیادی مسائل سکھا دیتے۔ کیونکہ بنیادی مسائل بہت کم ہیں کہ اگر کوئی ان کو سیکھ لے تو اس کا حج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کو کسی سے مسئلے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ باقی تو تفصیلات ہیں۔ چنانچہ ہر چیز کا بنیادی اور فرضِ عین علم اگر انسان واقعی صحیح معنوں میں حاصل کر لے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن فرضِ عین علم صرف عبادات تک محدود نہیں ہے۔ کیوں کہ حرام سے بچنا بھی فرض ہے، لہذا فرض کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔ یہ اس لیے میں کہ رہا ہوں کیونکہ بعض لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف عبادات کافی ہیں۔ معاملات کیا چیز ہے؟ جب کہ اگر آپ سے کوئی ایسا کام ہو گیا جس سے آپ کا کھانا پینا حرام ہو گیا تو اس سے بچنا بھی تو فرض ہے، لہذا اس کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے معاملات کے بنیادی مسائل کو جاننا بھی لازم ہے، کم از کم اپنے آپ کو سود سے بچاؤ، غلط معاملات سے بچاؤ۔

معاملات کے بعد معاشرت کے مسائل ہیں، جیسے حقوقِ واجبہ کا معاملہ ہے، اگر آپ کو اپنے حقوقِ واجبہ معلوم نہ ہوں تو کیسے عمل کریں گے؟ لہذا حقوق و فرائض کا معلوم ہونا معاشرت کا بنیادی اصول ہے۔ پھر اس کے بعد اخلاق کا درجہ ہے۔ کیونکہ جو عمل آپ کی ساری چیزیں تباہ کر دے اس سے بچنا بھی لازم ہے۔ مثلاً حسد ساری نیکیوں کو ڈبو دیتا ہے لہذا حسد سے بچنا لازم ہوا۔ اسی طرح بغض اور کینہ ہے۔ چنانچہ تمام فرائض اور تمام غلطیاں جن سے بچنا لازم ہے، ان کا سیکھنا لازم ہے۔ بس اتنا سیکھو۔ جہاں تک تصوف کا تعلق ہے تو کم از کم اپنی اتنی اصلاح فرض ہے کہ کم از کم ظاہری اور باطنی کسی فرض کے چھوڑنے کے مرتکب نہ ہوں۔ بزرگ بننا فرض نہیں ہے۔ بس اس درجے کی اصلاح ضروری ہے کہ ظاہری اور باطنی طور پر کوئی ایسا عمل واقع نہ ہو جس کی وجہ سے آپ پکڑے جائیں۔ یعنی آخرت میں نجات کے لیے ظاہری و باطنی جو عملی ضرورت ہے وہ آپ کو عملی طور پورا کرنا پڑے گی۔ جو کہ "مَا الْإِحْسَانُ" کا مفہوم ہے۔ دیکھیے! یہاں علم کی بات نہیں کی، بلکہ فرمایا: "اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ" ’’تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے‘‘ لیکن یہ آپ تب دیکھ سکتے ہیں یا اس کا دیکھنا مستحضر کر سکتے ہیں کہ جب وہ تمام چیزیں چھوڑ دیں جو نفس آپ کو دکھا رہا ہے اور آپ کو مستحضر کرا رہا ہے۔ کیونکہ مانع تو وہی ہے۔ جیسے بعض لوگوں کی آنکھوں کے سامنے پردہ آ جاتا ہے، تو doctor کے پاس جاتے ہیں کہ وہ اس پردے کو ہٹا دے۔ کیونکہ اس میں دیکھنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے، doctor کہتا ہے پیچھے نظر ٹھیک ہے لیکن اس پر پردہ آیا ہوا ہے، اس پردے کو ہٹانا ہوتا ہے، اور اس کے لیے انسان کو تیار ہونا پڑتا ہے، operation کروانے کے لیے کسی ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ جس کے بعد اس کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ چنانچہ تصوف کی بھی یہی مثال ہے کہ ہم موانع ہٹا دیں تاکہ خود عمل کر سکیں اور اللہ جل شانہ کے اپنے سامنے ہونے کا استحضار کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرما دے۔

وَ آخِر دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِينَ