اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم حضرت شاہ صاحب۔ آپ کی برکت سے ظہر سے پہلے مناجاتِ مقبول کی ایک منزل اور عشاء کی نماز کے بعد منزل جدید پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ ایک مسئلہ درپیش ہے کہ منزل پڑھتے ہوئے سخت نیند آتی ہے۔ نیند میں اتنی تیزی ہوتی ہے کہ چند لمحوں کے لئے ادھر ہی سو جاتا ہوں، پھر پڑھنا شروع کرتا ہوں پھر نیند آ جاتی ہے لیکن پہلے اور بعد میں نیند کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔
جواب:
جس چیز میں ہمارے لئے آخرت کا فائدہ ہوتا ہے اس کے لئے شیطان ہمیں کیسے چھوڑے گا۔ یہ شیطانی نیند ہوتی ہے۔ اگر آپ تجربہ کرنا چاہیں تو کبھی سفر کے دوران غور کیجئے کہ سفر میں آدمی نماز کے لئے وضو کر کے بیٹھے تو جب تک نماز نہ پڑھی ہو تب تک اتنی نیند آتی ہے جس کا روکنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ وقت گزر جائے، نماز پڑھ لے یا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے بعد پھر نیند نہیں آتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا سارا زور اسی پر لگا ہوتا ہے کہ یہ نماز نہ پڑھ سکے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عام ذکر سے درود شریف افضل ہے کیونکہ اس میں ذکر بھی ہے، دعا بھی ہے اور درود بھی ہے لیکن مشائخ جو ذکر دیتے ہیں وہ درود شریف سے بھی زیادہ افضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشائخ کا دیا ہوا ذکر فرض کے قائم مقام ہے کیونکہ وہ اصلاح کے لئے ہوتا ہے اور اپنی اصلاح کرنا فرض ہے فرض کا مقدمہ بھی فرض ہوتا ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ اس ذکر میں بھی شیطان بہت رکاوٹیں ڈالتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ آدمی کی اصلاح ہو۔
مجھے اکثر خواتین فون کرتی ہیں کہ شاہ صاحب تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار والا ذکر جو روزانہ سو سو دفعہ کرنا ہوتا ہے وہ تو ہم کر لیتی ہیں لیکن مراقبہ ہمارے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ مراقبہ آپ کے لئے بھلا آسان کیوں ہو گا، مراقبہ میں آپ کی ترقی ہے اس کے ذریعہ آپ کی اصلاح ہو رہی ہے جبکہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار والا ذکر ثوابی ذکر ہے، ثواب کو ضائع کرنا شیطان کے لئے کوئی بڑا کام نہیں ہے وہ ثواب کو بہت آسانی کے ساتھ ضائع کر سکتا ہے۔ آپ کے حج کو بھی ضائع کر سکتا ہے، آپ کی تہجد کو بھی ضائع کر سکتا ہے، آپ کی خیراتوں کو بھی ضائع کر سکتا ہے۔ یہ سب اس کے لئے مشکل نہیں ہے لیکن اگر کسی کی اصلاح ہو جائے تو اسے بھٹکانا اس کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لئے وہ حتی الامکان آپ کا دھیان ایسی چیزوں سے ہٹانے کی کوشش کرے گا جن سے آپ کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ لیکن آپ نے بھی ہمت نہیں ہارنی بلکہ ڈٹ جانا ہے۔ آپ طے کر لیں کہ اپنے معمولات کو بالکل نہیں چھوڑنا، چاہے جو مرضی ہو جائے۔ معمولات شروع کرنے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیا کریں کیونکہ آیت الکرسی کا توڑ شیطان کے پاس نہیں ہے۔ اس لئے پہلے آیت الکرسی پڑھ کے اپنے اوپر دم کر لیا کریں پھر ذکر کر لیا کریں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی امید ہے آپ خیریت سے ہیں۔ میں سعودی عرب ریاض سے بات کر رہا ہوں۔ میرے ذکر کی تفصیل درج ذیل ہے:
ذکر:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 200 مرتبہ اور ”اللہ“ 100 مرتبہ۔
مراقبہ:
5 منٹ لطیفۂ قلب پر، 5 منٹ لطیفۂ روح پر، 5 منٹ لطیفۂ سر پر، 5 منٹ لطیفۂ خفی پر اور 5 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر ہے۔ جس میں یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر کر رہی ہے میرے لطائف بھی اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اسے سننے کی کوشش کرنا۔ اس کے علاوہ 15 منٹ مراقبہ شیونات ذاتیہ جاری ہے جس میں یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی شیوناتِ ذاتیہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب پر آ رہا ہے اور آپ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ سر پہ آ رہا ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ استقامت نصیب فرمائیں۔ ابھی یہی معمولات جاری رکھیں البتہ ان میں اتنی تبدیلی کر لیں کہ اب مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ کی بجائے 15 منٹ کے لئے مراقبۂ تنزیہ شروع کر لیں۔ اس مراقبہ کی تفصیل یہ ہے کہ تنزیہ کا فیض اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پہ اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ خفی پر آ رہا ہے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت جی۔ میں بہاولپور سے بات کر رہی ہوں۔ آپ نے جو اذکار بتائے تھے الحمد للہ وہ سب باقاعدگی سے کر رہی ہوں۔ قلب پہ 10 منٹ، روح پر 10 منٹ اور سر پہ 15 منٹ مراقبہ کرتی ہوں۔ قلب و روح پر محسوس ہوتا ہے جبکہ لطیفۂ سر پر ابھی پوری طرح سے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ابھی مزید ایک مہینہ یہی معمولات کریں، تاکہ لطیفۂ سر پر محسوس ہونا شروع ہو جائے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی پانچویں ہفتہ کی کار گزاری درج ذیل ہے۔ تکبیر اولیٰ کا چلہ جاری ہے۔ ذکر 200 200، 200، 500، 5000 مرتبہ والا جاری ہے۔ ایک مرتبہ 5000 والا ذکر رہ گیا ہے۔ تاکیدی دعا برائے نماز اور قلب کی حفاظت کی دعا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کو مزید استقامت نصیب فرمائے ابھی یہی معمولات جاری رکھیں۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً 30 دن ہو گئے ہیں: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 4500 مرتبہ۔ ذکر کے بعد دل کی طرف 5 منٹ توجہ کرتا ہوں کہ وہ اللہ اللہ کر رہا ہے یا نہیں۔ حضرت جی عرض ہے کہ مجھے اپنے دل کی ایسی کیفیت محسوس نہیں ہو رہی۔ آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہے رہنمائی فرمائیں۔ مزید یہ کہ آج کل مجھے کسی ایک جگہ بیٹھ کر یکسوئی سے ذکر کرنے کا وقت کم وقت ملتا ہے۔ اس لئے چلتے پھرتے ذکر مکمل کرنا پڑتا ہے۔ دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔
جواب:
اس سوال کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا۔ ایک بات یہ ہے کہ سب کے لئے ایک راستہ نہیں ہے، سب کے لئے ایک طریقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے لوگ پیدا کئے اتنے ہی راستے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے ہیں۔ اگر آپ لطائف والا ذکر نہیں کر سکتے تو ضروری نہیں کہ لطائف والے ذکر سے ہی آپ منزل تک پہنچیں۔ زبانی ذکر کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ پہنچا دیتے ہیں۔ اب آپ اس طرح کریں کہ اگلے ایک ماہ کے لئے ذکر کی ترتیب یہ رکھیں۔ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 5000 مرتبہ شروع کر لیں۔ 5 منٹ والا قلبی ذکر اب نہ کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنا فائدہ چاہتے ہیں تو آپ کو اس ذکر کے معمول کو Top priority دینا ہو گی تب ہی فائدہ ہوگا۔ چلتے پھرتے علاجی ذکر کرنے سے اس کا اثر کافی کم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ذکر میں الفاظ اتنے اہم نہیں ہیں جتنی اہم توجہ ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ حضرت ہم یہ جو ”اِلَّا اللہ“ اور ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہیں بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم وہ نہیں کہہ رہے ہیں جو کہنا چاہیے۔ مثلاً ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ کا پورا تلفظ تجوید کے قاعدے کے مطابق ادا نہیں ہو پا رہا ہوتا۔ حضرت نے اس سوال کا بڑا عجیب جواب دیا اور میرے خیال میں یہ جواب سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ حضرت نے فرمایا: ثوابی ذکر میں تجوید ہے کیونکہ اس ذکر کا اجر و ثواب الفاظ کی ادائیگی میں ہے چاہے آپ آہستہ کریں چاہے آپ پکار کے کریں چاہے بیٹھ کے کریں چاہے چلتے پھرتے کریں، اس میں صحیح پڑھنا لازم ہے کیونکہ اس میں اجر ہی ان الفاظ کا ہے جو آپ ادا کرتے ہیں۔ جبکہ علاجی ذکر میں اصل مقصود علاج ہے اور وہ اس توجہ کے ساتھ ہوتا ہے جو ذکر کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ کا مفہوم آپ کے ذہن میں مستحضر ہے اور آپ کو توجہ کی کیفیت حاصل ہے تو الفاظ چاہے پورے نہیں بھی نکل رہے پھر بھی آپ کو اس کا پورا فائدہ حاصل ہو گا۔ کیونکہ اس میں الفاظ مطلوب نہیں ہیں اس میں وہ کیفیت مطلوب ہے۔ اس لئے علاجی ذکر ایسے طریقہ سے کرنا چاہیے جس میں توجہ کامل ہو اور کامل توجہ اس طرح حاصل ہو گی کہ ایک وقت اور جگہ متعین کر کے روزانہ اسی وقت اور اسی جگہ پر بیٹھ کر علاجی ذکر کیا کریں۔ ہاں ثوابی ذکر جیسے تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار وغیرہ چلتے پھرتے پورا کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فجر کی نماز کے بعد مَشی(walk) کیا کرتے تھے اسی دوران تلاوت بھی کرتے رہتے تھے، قرآن مجید کا ایک چھوٹے سائز کا نسخہ ساتھ موجود ہوتا تھا جہاں ضرورت ہوتی تھی وہاں سے دیکھ لیتے تھے، اور واک کے دوران تلاوت بھی ہو رہی ہوتی تھی۔ چلتے چلتے پڑھتے جاتے تھے پھر واپسی میں بھی چل رہے ہیں اور پڑھ رہے ہوتے تھے تو مشی بھی ہو رہی ہوتی، تلاوت بھی ہو رہی ہوتی تھی، قرآن پاک کی منزل بھی ہو رہی ہوتی تھی۔
اگر آپ کوئی بھی ذکر ثواب کے لئے کر رہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ چلتے چلتے کرنے سے ثواب میں کچھ کمی ہو جائے لیکن ثواب ضرور ہوگا۔ لیکن علاجی ذکر کی صورت ایسی ہے کہ اگر چلتے پھرتے کریں تو پھر اس سے علاج نہیں ہو پائے گا کیونکہ اس میں توجہ کی ضرورت ہے اس میں اہتمام کی ضرورت ہے۔ جب تک آپ نے اس کا اہتمام شروع نہیں کیا ہو گا تب تک ٹھیک ہے، آپ چلتے رہیں ذکر کرتے رہیں، نہ ہونے سے تو کم از کم بہتر ہی ہو گا لیکن اس سے زیادہ فائدہ کی توقع نہ رکھیں اس طرح مکمل فائدہ اور علاج نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ علاجی ذکر کے لئے جو طریقہ بتایا گیا اس طریقہ کے مطابق کیا کریں۔
سوال نمبر6:
حضرت اقدس سیدی و مولائی شاہ صاحب دامت برکاتہم بصد احترام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ پاک آپ کو حیاتِ طیبہ اور عافیت والی زندگی نصیب فرمائے اور ہم سب متعلقین کو کما حقہ آپ سے استفادہ نصیب فرمائے۔ نومبر دسمبر کے احوال کی تفصیل خدمتِ اقدس میں حاضر ہے۔ الحمد للہ تمام نمازیں اور تہجد کا سلسلہ جاری ہے۔ نومبر کے تیسرے ہفتے میں ایک ہی روز دفتر میں ظہر اور عصر قضا ہو گئیں جبکہ وضو اور تیاری بھی تھی۔ اس وقت کچھ urgency, دفتر کے معاملات پیش آ گئے اور باوجود اس کے کہ ذہن میں alarm بجتا رہا تھا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے لیکن نماز کا وقت قضا ہو گیا حتیٰ کہ مغرب کا وقت داخل ہو گیا۔ ”اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“۔ ان شاء اللہ اس ہفتے سے 6 روزے رکھوں گا۔ رجوع الی للہ اور توبہ کی توفیق ہو گئی تھی۔ استغفار کے نوافل کا ارادہ ہے۔ خاموشی کا مراقبہ نومبر سے دوسرا مہینہ جاری رہا لیکن دسمبر میں ذہن متوجہ نہیں رہا۔ کوشش رہی کہ جب تک رائے طلب نہ کی جائے تب تک رائے دینے سے احتراز کیا جائے۔ ”اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ“ کا 313 بار تسبیحات کا سلسلہ نومبر کے دوسرے ہفتے سے شروع کیا لیکن اس میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں تسلسل برقرار نہ رہا کیونکہ رات کافی ہو جاتی تھی۔ کئی راتیں alarm لگا کر اٹھ کر پڑھنا پڑا اور کچھ راتیں باوجود alarm کے نہیں اٹھ سکا۔ ساتھیوں سے وقت تبدیل کرنے کا مشورہ ہوا لیکن یہ تجویز قرار پائی کہ وقت نہ بدلا جائے لہٰذا وقت تبدیل نہیں کیا اب 2 ہفتے سے routine بحال ہو گئی ہے۔ تین سے چار گھنٹے چہل قدمی جاری ہے اس میں روزانہ کا بیان توجہ سے سننا نصیب ہو جاتا ہے اور بہت سے اشکالات اور سوالات کا جواب بنا پوچھے مل جاتا ہے۔ دسمبر کے اوائل میں ایک بیان میں قرآن پاک کی تلاوت سمجھنے کا ارشاد ہوا جس کے بعد قرآن پاک سننے کا ارادہ کیا۔ الحمد للہ روزانہ ایک سپارہ بمع ترجمہ سن لیتا ہوں۔ 23 پارے مکمل ہو گئے ہیں۔ دفتر آتے جاتے بیان اور قرآن مکمل سن لیتا ہوں۔ پہلے بیٹھ کر سنتا تھا لیکن دماغ پر غنودگی طاری رہتی تھی اب walk میں سنتا ہوں تو ذہن بھی متوجہ رہتا ہے۔ بچپن میں سبق بھی چل کر یاد کرتا تھا شاید reflexes اس طرح ہو گئے ہیں کہ بیٹھ کر سننے سے چل کر سننا زیادہ مؤثر محسوس ہوتا ہے۔ اب کوئی 3 مہینے کا تجربہ کیا تو فائدہ محسوس ہوا۔ بیوی کا مراقبہ ابھی شروع نہیں ہو سکا۔ یاد دہانی کروانے پر ہمیشہ سے طعنوں والی کیفیت دیکھی لیکن عمل میں تعطل ہے۔ میں عرض کر دیا کرتا کہ حضرت جی سے شکایت کروں گا امید ہے کہ شاید سن کر عمل نصیب ہو جائے گا۔ بچوں کے درود شریف کی تعداد مقرر نہیں کی جا رہی ہے ان کے مراقبات و اوراد شروع کروائے جا سکتے ہیں۔ عمر درج ذیل ہے: بیٹا 16 سال، بیٹی 12 سال، بیٹا 7 سال۔ نمازیں سب پڑھتے ہیں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
ہر شخص کو ایک جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ہر ایک کی ایک ترتیب نہیں ہوتی۔ آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ دفتر میں آپ سے نماز قضا ہو جائے گی اس لئے یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تلافی کرنے کی توفیق عطا فرمائے یہ بہت سنگین غلطی ہے اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی انتہائی مکروہ صورت ہے اس کو اتنا ہلکا نہ لیں یہ بہت بڑی غلطی ہے میرے خیال میں اس کی تلافی 6 روزوں سے بھی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ ایک صحابی رسول ﷺ کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے باغ میں نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ بہت گھنا باغ تھا۔ اس میں کوئی پرندہ آیا اور باہر نہیں نکل پا رہا تھا۔ صحابی کی نظر پرندے پر پڑی، نماز میں ان کا خیال اس کی طرف چلا گیا۔ اس سے ان کے اوپر اتنا اثر ہوا کہ وہ آپ ﷺ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ میری دنیا نے میرے دل کو اپنی طرف متوجہ کر لیا میں اس باغ کو صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ اور انہوں نے اس باغ کو صدقہ کر دیا۔ اب ہمیں بھی صحابہ کے طریق پر چلنا ہے لہٰذا اس کی تلافی کی کوئی صورت اگر آپ کے ذہن میں ہو جس سے کم از کم مجھے اطمینان ہو سکے تو آپ اس کے لئے سوچیں کیونکہ یہ معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ ایسے مواقع پر نماز جلدی جلدی بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ میں اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا ہوں کہ جلدی جلدی نماز پڑھنا بھی سیکھیں اور آہستہ آہستہ نماز پڑھنا بھی سیکھیں۔ کئی بار سفر میں ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ وقت بہت کم ہوتا ہے اس وقت نماز جلدی جلدی پڑھ لینی چاہیے، اس لئے جلدی نماز پڑھنے کی ترتیب کا علم ہونا چاہیے۔ ہماری زندگی میں کئی دفعہ اس قسم کے مواقع آئے ہیں صرف ایک بتاتا ہوں۔ ایک دن ہمارے دو viva تھے۔ عموماً ایک viva ہوتا تھا لیکن اس دن دو تھے۔ پتا بھی نہیں تھا کہ کس وقت بلائیں گے۔ ہمارے کچھ ساتھیوں نے کھانا بھی نہیں کھایا، ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھی۔ میں نے سوچا جو مرضی ہو جائے میں نے کھانا بھی کھانا ہے اور نماز بھی پڑھنی ہے۔ میں چلا گیا کھانا کھا کر نماز پڑھ کر واپس آیا تو ابھی تک سب انتظار میں بیٹھے تھے۔ ہم بھی بیٹھ گئے اس دوران ایک viva تو ہو گیا دوسرا viva عصر کے بعد تھا اور عصر کی نماز کا وقت بالکل جا رہا تھا لیکن میں با وضو تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب وہ project دیکھنے کے لئے آئیں گے تو میں ادھر کھڑا ہوں گا جیسے ہی وہ روانہ ہو جائیں مجھے اشارہ کر دیں۔ انہوں نے جیسے ہی مجھے اشارہ کیا: میں نے اسی وقت رومال بچھا کے چار رکعات پڑھ لیں۔ ان کے واپس آنے سے پہلے پہلے میں نے نماز پڑھ لی تھی۔ اس کے بعد دوسرا viva ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس میں بہت اچھے نمبرات دے دیئے۔ اور الحمد للہ اس دن مزاج بھی بڑا خوشگوار رہا۔ بلکہ viva لینے والے صاحب نے سٹوڈنٹس سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کھانا کھایا ہے؟ دو نے کہا کہ نہیں کھایا۔ میں نے کہا: میں نے کھانا بھی کھایا ہے نماز بھی پڑھی ہے۔ کہنے لگے: آپ ایک دن کھانا بھی نہیں چھوڑ سکتے کیسے مجاہد ہیں۔ میں نے کہا: کفار کے ساتھ جب لڑائی ہوتی ہے تو اس کے لئے طاقت بھی چاہیے اور طاقت کے لئے کھانا بھی کھانا چاہیے نماز بھی پڑھنی چاہیے۔ یہ سن کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور ہمیں بڑے اچھے نمبر دیئے۔
مقصد میرا یہ ہے کہ یہی امتحان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آئندہ اس قسم کی حرکت تو بالکل نہ ہو۔ اگر اس قسم کے حالات آ سکتے ہیں تو ایک چھوٹی جائے نماز ملتی ہے وہ انسان جیب میں بھی ڈال سکتا ہے وہ انسان کے پاس ہو تو جہاں بھی موقع مل جائے وہیں نماز پڑھ لو۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔ باقی باتیں پھر ان شاء اللہ میں آپ سے خط کے ذریعے کر لوں گا۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم۔ حضرت جی آج مولانا مکی حجازی صاحب کا بیان سنا جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ لڑکی والوں کی طرف سے پکایا جانے والا کھانا کھانا حرام ہے۔ حالانکہ بارات کے کھانے کا لڑکی والے ہی بندوبست کرتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ صحیح مسئلہ کیا ہے اور یہ بھی بتا دیں کہ اگر کوئی ماضی میں اس غلطی میں مبتلا رہا ہو تو وہ اس غلطی کا ازالہ کیسے کرے۔ مجھے یہ بات جان کر بہت پریشانی ہوئی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ اس پریشانی پہ بہت بہت مبارک باد۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید خیر کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل میں بارات بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ شادی کے لوازمات میں سے نہیں ہے۔ پہلے وقتوں میں جب دلہن کو بیاہ کر کہیں دور لے جانا ہوتا تھا تو اکثر رات کے وقت جاتے تھے۔ رات کے وقت چونکہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا خطرہ ہوتا تھا اس لئے کچھ ہٹے کٹے جوان ساتھ ہوتے تھے۔ اصل میں بارات یہی ہوتی تھی۔ ان لوگوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا تھا کیونکہ وہ تو bodyguard ہوتے تھے۔ اب تو یہ سب ایک رسم بن گیا ہے۔ بالکل قریب کے گھر میں دلہن نے جانا ہوتا ہے پھر بھی بارات ہوتی ہے۔ اس بارات کی کوئی اہمیت نہیں ہے لہٰذا اس کا کھانا بھی کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ محض رسم ہے اور رسمی چیزوں کو چھوڑنا چاہیے۔ بہرحال چونکہ آپ کو اب تنبیہ ہو گئی ہے اس لئے گزشتہ پہ توبہ کریں اور آئندہ کے لئے ایسے کھانے سے احتیاط کریں۔ اللہ جل شانہ توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم شاہ صاحب۔ میرا مجاہدہ 40 دن تک تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھنا تھا۔ محض اللہ کے فضل و کرم سے آج مکمل ہو گیا۔ یہ سلسلے کی برکت ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے مجھے یاد نہیں ہے کہ مسلسل 5 نمازیں جماعت کے ساتھ نصیب ہوئی ہوں۔ آج اللہ کے فضل سے 40 دن با جماعت نماز بلا ناغہ مکمل ہوئی۔
جواب:
یقیناً اس عمل کی بہت فضیلت ہے۔ اس کے بارے میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھنے سے دو پروانے مل جاتے ہیں ایک نفاق سے بری ہونے کا اور ایک جہنم سے خلاصی کا۔ اللہ کا شکر ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دے دی۔ اس پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ابھی آپ نے تکبیر اولیٰ کا اہتمام جاری رکھنا ہے۔ کیونکہ یہ اسی لئے ہوتا ہے تاکہ آپ کو اس چیز کے ساتھ دلی لگاؤ ہو جائے۔ 40 دن میں انسان میں بڑی تبدیلی آتی ہے۔ جب آدمی مسلسل 40 دن کوئی کام کرتا ہے تو اس کے لئے وہ کام آسان ہو جاتا ہے۔ اب چونکہ آپ کے لئے یہ کام ممکن ہو گیا ہے اس لئے آپ اسے جاری رکھیں اور تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھتے رہیں۔ اللہ جل شانہ اس کی توفیق ہم سب کو، ہمارے سلسلے کے سارے ساتھیوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو عطا فرماتے رہیں۔ (آمین)
سوال نمبر9:
حضرت جی میرے وظیفے کی مدت پوری ہو گئی ہے۔ ساڑھے چھ ہزار مرتبہ اسمِ ذات دیا تھا جو مکمل کیا ہے۔ مجاہدہ یہ تھا کہ جب عورتوں کی آپس میں بحث ہو رہی ہو تو خاموش ہونے کے بعد ان کو بتانا ہے کہ غلط کہا یا درست کہا۔
جواب:
اب اسمِ ذات کا ذکر 7000 مرتبہ کر لیں۔ جہاں تک مجاہدے کا تعلق ہے تو اب اس مجاہدے کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے بارے میں آپ نے report بتانی ہے کہ اس سے آپ نے کیا فائدہ حاصل کیا۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم حضرت جی میں راولپنڈی سے ہوں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کا سایہ سلسلے والوں پر ہمیشہ قائم رکھے اور دین کی راہ میں آپ کی تمام کوششوں کو قبول فرمائے اور دین و دنیا دونوں کی بھلائی آپ کو نصیب فرمائے (آمین)۔ حضرت جی مجھے جو لطائف آپ نے دیئے تھے، لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح 10 10 منٹ کے لئے جبکہ لطیفۂ سر کی مقدار 15 منٹ تھی، ان لطائف پہ مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ الحمد للہ تینوں لطائف محسوس ہوتے ہیں۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ تینوں لطائف پر 10 10 منٹ کریں اور لطیفۂ خفی پہ 15 منٹ شروع فرما لیں۔ ایک مہینہ تک اس طرح کریں پھر اطلاع کریں۔
سوال نمبر11:
حضرت جی میں اپنے اندر یہ مرض پاتا ہوں کہ مجھے اپنے ماضی کے فیصلوں پر قلق ہے۔ اس بارے میں کیا سوچ اپنائی جائے کہ اطمینان ہو جائے۔ کیا سب کچھ تقدیر پر ڈال دیں؟ اس بارے میں بھی بتائیے کہ کیا اپنے پچھلے اعمال کی نحوست جاری رہے گی؟
جواب:
جب انسان کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے تو ایسا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ سوچ کا معاملہ بھی یہی ہے غلط سوچوں پر توبہ اور استغفار سے وہ چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ہاں ان کا اثر کچھ عرصہ مزید جاری رہ سکتا ہے لیکن اس اثر کو دھونے کے لئے محنت ہوتی ہے وہ محنت کرنی پڑتی ہے پھر اثر بھی ختم ہو جاتا ہے۔
کسی بھی غلطی یا گناہ کے بعد سب سے قیمتی چیز یہ ہے کہ انسان کو اس غلطی کا تجربہ حاصل ہو جاتا ہے اس کے اسباب و دواعی کا علم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا آئندہ کے لئے آپ اس تجربے سے کام لیں اور جو فیصلے آپ نے غلط کئے ہیں ان کے بارے میں آپ کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ان میں غلطی کیا تھی اب آئندہ غلطی سے اجتناب کریں اور جو اچھے فیصلے آپ نے کئے تھے ان کا بھی آپ کو تجربہ ہو گیا ہے اس سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ بجائے اس کے کہ آپ ماضی کی غلطیاں سوچ سوچ کر کڑھتے رہیں‘ آپ یہ کریں کہ ان غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں، ان پر توبہ و استغفار کر لیں اور جو اچھے فیصلے ہوئے ہیں ان پر اللہ پاک کا شکر کریں اور آئندہ کے لئے ان اچھے فیصلوں سے کام لیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللہ پاک کا نہایت کرم اور شکر ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کچھ عرصے سے یہ حالت ہے کہ نماز کے لئے اگلی صف میں کھڑا نہیں ہو پاتا۔ کوئی اصرار کرے یا نمازی کم ہوں تو مجبوراً پہلی صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ورنہ کوشش پچھلی صف کی ہوتی ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ میری وجہ سے باقی لوگوں کی نماز خراب یا رد نہ ہو جائے حالانکہ اللہ پاک تو علیم و بصیر ہے۔ ہمارا آفس اب دوسری جگہ منتقل ہو گیا ہے یہاں نزدیک کوئی مسجد نہیں ہے اس لئے ہم آفس میں ہی نماز پڑھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جماعت پڑھانے والا کوئی نہیں ہے، اس لئے مجبوراً مجھے نماز پڑھانی پڑتی ہے۔ جبکہ میں نہیں چاہتا کہ نماز پڑھاؤں۔ ایک طرف جماعت کی سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا دوسری طرف جماعت نہیں کرانا چاہتا۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا کروں۔
جواب:
اس کا آسان حل یہ ہے کہ خود سے کبھی نماز پڑھانے کی خواہش نہ کریں اور جب آپ کو آگے کیا جائے اور آپ میں امامت کی شرائط پوری ہوں تو انکار نہ کریں۔ شرائط سے مراد ظاہری شرائط ہیں باطنی شرائط کا تو اللہ کو علم ہے لیکن ظاہری شرائط پوری ہونی چاہئیں۔
باقی رہی آپ کی یہ بات کہ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ آپ کی وجہ سے دوسروں کی نماز خراب نہ ہو جائے۔ ایسا اعتماد تو بڑے سے بڑے بزرگ کو بھی اپنے اوپر نہیں ہوتا بلکہ جتنا بڑا بزرگ ہو گا وہ اپنے آپ کو اتنا ہی کم درجہ اور گناہ گار سمجھے گا، اگر اس وجہ سے لوگ نماز پڑھانا چھوڑ دیں پھر تو کوئی بھی نماز نہیں پڑھائے گا اور نماز با جماعت کا نظام ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔ نماز تو پڑھانی پڑتی ہے با جماعت نماز کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ خود نماز پڑھانا چاہتے ہیں اور آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو آگے کیا جائے تو یہ غلط ہے اور اگر آپ کی اپنی خواہش نہیں ہے بلکہ دوسرے آگے کرتے ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں آپ آگے ہو جائیں اور اللہ پاک کے بھروسے پہ نماز پڑھا دیا کریں۔ ان شاء اللہ‘ اللہ پاک آپ کو بھی اس کا فائدہ پہنچائے گا اور باقیوں کو بھی۔
ہدایت:
بعض حضرات مجھے سلام بھیجتے ہیں، السلام علیکم لکھتے ہیں لیکن پورا نہیں لکھتے۔ صرف ”a.o.a“ لکھ دیتے ہیں۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت سے محرومی ہے کہ آپ کو اللہ پاک کا نام ”السلام“ لکھنے کا موقع مل رہا ہے لیکن آپ اس کی جگہ انگلش کے تین حروف لکھ کر اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں۔ اس محرومی سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
اسی طرح جو لوگ ”ﷺ“ کی جگہ صرف ”ص“ لکھ دیتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔ پہلی دفعہ ایسا کرنے والے کا ہاتھ گل گیا تھا۔ ایسا کرنا درود پاک سے اعراض ہے۔ یہ تو خوش قسمتی کی بات سمجھنی چاہیے کہ اس بہانے سے درود پاک لکھنا نصیب ہو رہا ہے۔ میں نے مفتی حبیب اللہ صاحب سے پوچھا کہ حضرت اس درود پاک ”وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ“ میں ”وَ“ کا لفظ اضافی لگ رہا ہے، اگرچہ حدیث شریف میں یہ ”وَ“ آیا ہے لیکن درود پاک تو ”صَلّٰی“ سے شروع ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا: آپ اپنے نامۂ اعمال سے 10 کم کیوں کر رہے ہیں، آپ کو ایک لفظ زیادہ پڑھنے سے 10 نیکیاں زیادہ مل رہی ہیں تو اسے غنیمت سمجھیں اور زیادہ نیکیاں حاصل کریں۔ اس لئے میں سب کے سامنے یہ بات کہہ رہا ہوں اسے نوٹ کر لیں کہ ”a.o.a“ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ”السلام علیکم“ لکھنا چاہیے۔
بعض لوگ صرف سلام لکھ دیتے ہیں اپنا تعارف نہیں کراتے۔ نتیجتاً مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے سلام کیا ہے۔ حالانکہ سلام محبت کا اظہار ہے۔ جس سے محبت کا اظہار کیا جائے اسے یہ بھی پتا چلنا چاہیے کہ یہ اظہار کون کر رہا ہے۔ ارشادِ نبوی ہے کہ اگر آپ کو کسی کے ساتھ محبت ہو تو آپ اس کو بتا دیں۔ اس لئے جب سلام بھیجیں تو ساتھ اپنا نام بتا دیا کریں۔ اچھی بات ہے سلام کرنا، میں اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہہ دوں گا۔ خط یا پیغام کی ابتدا سلام مسنون سے کی جائے اور اس کے بعد اپنا تعارف کرا دیا جائے کہ میں کون ہوں۔ یہ دونوں باتیں خط کے لوازم ہیں۔ جس کو خط لکھ رہے ہو اس کا یہ حق ہے کہ آپ پہلے اس کے لئے یہ دو کام کریں۔ ایک سلام مسنون اور دوسرا اپنا تعارف۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ حضرت جی اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور ہمیں آپ کا ذوق نصیب فرمائے۔ (آمین) سوال یہ ہے کہ جب لطائف فعال ہو جاتے ہیں تو کیا یہی ذکر قلبی ہوتا ہے؟
جواب:
یہ سمجھیں کہ اصل میں ذکر کہتے کسے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے کہ ذکر کس کو کہتے ہیں حالانکہ یہ ایک بنیادی بات ہے۔ ذکر یاد کو کہتے ہیں مثلاً مجھے کوئی یاد ہے تو وہی اس کا ذکر ہے۔ زبانی ذکر اسی یاد کی ابتدائی صورت ہے، پہلا مرحلہ زبانی ذکر اور اس کی طرف دھیان کا ہوتا ہے اس کے بعد ذکر کا دوسرا مرحلہ آتا ہے، دوسرا مرحلہ یہ کہ ذاکر کی طرف توجہ کی جائے یعنی جو چیز ذکر کر رہی ہے زبان یا دل، اس کی طرف توجہ اور دھیان کیا جائے، پھر تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ مذکور کی طرف توجہ کی جائے یعنی اس کی طرف توجہ مرکوز کی جائے جس کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ اصل یاد ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ”اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ مذکور اللہ ہو جائے“۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ آپ کو یاد ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”اصل ذکر یہ ہے کہ آپ سے گناہ سرزد نہ ہو“۔ کیونکہ گناہ تب سرزد ہوتا ہے جب انسان غافل ہوتا ہے اور جب انسان غافل نہ ہو اسے اپنا رب یاد ہو تو پھر گناہ سرزد نہیں ہوتا“۔ اب لطیفۂ قلبی کا ذکر یہ ہے کہ لطیفۂ قلب پر ذکر محسوس ہو لیکن اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دنیا سے انسان کا دل کٹ جاتا ہے اسے پھر دنیا میں واپس لانا ہوتا ہے۔ دنیا کی 2 حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اس لئے اس کے ساتھ محبت نہ کی جائے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ دنیا آخرت کی تیاری کی جگہ ہے اس لئے اسے آخرت کی تیاری کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگر دنیا کی پہلی حیثیت (اس کا فانی ہونا) آپ کے اوپر اتنا حاوی ہو جائے کہ آپ بالکل ہی عضو معطل ہو جائیں تو یہ بات دنیا اور آخرت دونوں کے لئے نقصان دہ ہوگی، اصل میں تو آپ کو یہ کرنا ہے کہ اپنی دنیا کو آخرت کے لئے کار آمد بنانا ہے۔ اس کام کے لئے لطیفۂ قلب کے بعد لطیفۂ روح پہ محنت کرنی ہوتی ہے وہ آپ کو واپس دنیا میں لاتا ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جو قابل ذکر ہے۔ ایک خاتون ہمارے سلسلے میں شامل تھیں۔ ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے ٹیلی فون کیا کہنے لگیں حضرت بڑا مسئلہ ہے، میرا دنیا سے بالکل جی کٹا ہوا ہے، مجھے دنیا میں بالکل دلچسپی نہیں ہے، میرے سسرال والے اس پہ بڑے فکر مند ہیں اور پریشان ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے۔ اس کی بات بھی ٹھیک تھی کیونکہ نئی نئی دلہن ہو اور اسے دنیا میں کوئی دلچسپی نہ ہو تو سسرال والوں کو فکر ہونا لازمی ہے وہ تو پریشان ہوں گے ہی کہ نہ جانے اس کو کیا مسئلہ ہے کہیں ڈپریشن وغیرہ تو نہیں۔
بہرحال میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا لطیفۂ قلب کیسا چل رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ٹھیک چل رہا ہے۔ میں نے پوچھا: لطیفۂ روح کیسا چل رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لطیفۂ روح ٹھیک نہیں چل رہا۔ پھر میں نے لطیفۂ سر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ سر پہ زور کم کر لیں اور لطیفۂ روح پہ بڑھا دیں۔ انہوں نے اس پہ عمل کیا تو چند ہی ہفتوں میں ان کے حالات نارمل ہو گئے اور ان کا مسئلہ حل ہو گیا۔
اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ لطائف کا معاملہ عام نہیں ہوتا۔ لوگوں نے اس کو ہلکی پھلکی بات سمجھا ہوا ہے۔ اس کے ہر ایک پر اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اصل ذکر ”یاد“ ہے یعنی انسان کو اللہ یاد ہو جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152)
ترجمہ: ”مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا“۔
اب ہمارے لئے اللہ پاک کو یاد کرنے کے مختلف مراحل ہیں۔ سب سے پہلے زبانی طور پہ یاد کا اہتمام ہو اس کے بعد قلب پر توجہ ہو اور اس کے بعد مذکور اللہ ہو جائے۔ جب مذکور اللہ ہو جائے گا تو پھر ہمیں اللہ کو یاد کرنا نہیں پڑے گا بلکہ اللہ پاک ہمیں ہر وقت یاد ہوں گے۔ یہ آخری مرحلہ ہمیں حاصل کرنا چاہیے تاکہ اللہ پاک ہمیں ہر وقت یاد ہوں اور ہم پر اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بھتیجے کا ذکر:
200، 400، 600 اور 1500 مرتبہ ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“۔ آگے ان کے لئے کیا حکم ہے۔
جواب:
باقی ذکر ویسے ہی کرتے رہیں صرف ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ کو بڑھا کر اب 2000 مرتبہ کیا کریں۔
بھابھی اور بھتیجی کا ذکر:
2000 مرتبہ ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ ایک مہینے کے لئے مکمل ہوا۔ 10 منٹ کا مراقبہ دل پر اور 15 منٹ کا لطیفۂ روح پر ایک مہینہ کے لئے مکمل ہو گیا ہے۔ دل میں اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے لیکن لطیفۂ روح پر محسوس نہیں ہوتا۔
دوسری بھتیجی کا ذکر:
ایک بھتیجی جن کو 3000 مرتبہ اللہ کا ذکر 15 منٹ کا ملا تھا اس کو دل میں اللہ اللہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔
جواب:
الحمد للہ یہ میسج اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم لوگ جو زبانی ذکر اور اس کے بعد قلبی ذکر کراتے ہیں یہ القائی طریقہ ہے۔ پہلے لوگ انعکاسی طریقہ استعمال کرتے تھے لیکن وہ عارضی ہوتا تھا۔ چلے گئے تو ہٹ گیا۔ یہ القائی طریقہ ہے، یہ خود سے حاصل کرنا ہوتا ہے اور جو اسے خود حاصل کرتے ہیں ان سے پھر یہ چھوٹتا نہیں ہے۔ ہمیں یہ تجربہ ایسے ہوا کہ بہت سارے لوگ جب کثرتِ ذکر کر لیتے ہیں تو ان کے لطائف خود بخود چل پڑتے ہیں حالانکہ ان کو لطائف کا پتا بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیا چیز ہیں لیکن پھر بھی ان کے لطائف چل پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ ہم نے یہ ترتیب رکھی ہے کہ زبانی ذکر کے بعد سالک کو لطائف کے ذکر پہ لاتے ہیں، جن کی مناسبت ہوتی ہے ان کو فوراً محسوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور فائدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کسی کو ابتدائی مرحلہ میں، کسی کو درمیان میں اور کسی کو اخیر میں جا کر فائدہ ہو جاتا ہے۔ الحمد للہ ان کو بھی محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ آپ اب ایسا کریں کہ 15 منٹ والے مراقبہ کو 10 منٹ کر لیں اور لطیفۂ روح کا مراقبہ 15 منٹ کے لئے کیا کریں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرا ذکر 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 1000 مرتبہ ”اللہ“ ہے اور 15 منٹ کا لطیفۂ قلب کا مراقبہ ہے۔ مراقبہ میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
سوال نمبر16:
حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی غزل ہے:
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
تیرے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
اس غزل کا دوسرا شعر ہے:
زبردستی لگا دی آج بوتل منہ سے ساقی نے
میں کہتا ہی رہا ہاں ہاں نہیں ساقی نہیں ساقی
حضرت دوسرے شعر کا مطلب بتا دیں۔ کیا یہ غزل انہوں نے اپنے شیخ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمائی تھی؟
جواب:
جی آپ درست سمجھے ہیں۔ ساقی سے مراد اپنے شیخ ہیں۔ زبردستی منہ سے بوتل لگانے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس قابل نہیں تھا لیکن پھر بھی مجھے روحانیت کے انعام سے نوازا۔ یہاں شراب سے مراد کیفیت ہے۔ مجھ پہ کیفیت طاری کروا دی۔ میں اپنے آپ میں برداشت نہیں کر پا رہا تھا، ہاں ہاں میں یہی کہتا رہا نہیں ساقی مزید نہیں، مزید نہیں لیکن وہ مزید دیتے رہے۔ اس شعر میں ”ہاں ہاں“ اور “نہیں نہیں“ کا زبردست شعری جوڑ ہے۔
میں کہتا ہی رہا ہاں ہاں، نہیں ساقی نہیں ساقی
یعنی ہاں ہاں میں یہی کہتا رہا کہ نہیں ساقی نہیں ساقی مزید برداشت نہیں مزید برداشت نہیں ہے۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم حضرت جی میری بیٹی کی تاریخ پیدائش 19 مئی 2019 ہے، دن اتوار وقت صبح 5۔ بجے میں نے اپنی بیٹی کا نام رکھنا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
شاید انہوں نے ہمیں کوئی عامل سمجھ لیا ہے۔ بھئی ہم ان حسابات کو نہیں جانتے ہم حسابوں والے لوگ نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں فون کرتے ہیں کہ حضرت یہ مسئلہ ہے میری والدہ کا یہ نام ہے میرا یہ نام ہے تو میں ان سے کہتا ہوں نہ تمہارے نام کی ضرورت ہے نہ تمہاری والدہ کے نام کی ضرورت ہے یہ تو عامل لوگوں کا کام ہوتا ہے ہم عامل نہیں ہیں بلکہ عملیات سے دور بھاگنے والے لوگ ہیں۔ ہم عملیات کو ناجائز نہیں سمجھتے، جو لوگ صحیح عملیات کرتے ہیں وہ اچھا کرتے ہیں لیکن اب اس میں غلط لوگ اتنے زیادہ آ گئے ہیں کہ اب بہت مسائل ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنا آپ اس سے الگ رکھنا ہے۔ ہمیں جو کام سونپا گیا ہے وہ یہ کام نہیں ہے۔ ہم اپنے کام پہ زور دیں تو یہی اچھا ہے بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کا کام کریں۔
بہرحال جہاں تک بچی کے نام کا تعلق ہے تو آپ ہمیں اگر اتنا بتا دیں کہ آپ کے ہاں پہلے بچیوں کے کون سے نام چل رہے ہیں اس سے میں اندازہ لگا لوں گا کہ کون سا نام آپ کے لئے مناسب ہے۔ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے اتنی خدمت میں کر سکتا ہوں اور کرتا رہتا ہوں البتہ حساب کتاب نہیں جانتا اور نہ میں حساب لگاتا ہوں۔
سوال نمبر18:
ایک بچی کے معمولات پیش خدمت ہیں۔ تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ 15 منٹ کے لئے کرتی ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو تجلیاتِ افعالیہ کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ بتا دیجئے۔ صفات ثبوتیہ 8 ہیں وہ آپ دیکھ لیں، ان کی تفصیل ہماری کتاب میں موجود ہے۔
سوال نمبر18:
حضرت جی کیا جذب کی تکمیل کی کوئی ظاہری علامت ہوتی ہے؟
جواب:
ہاں بالکل ظاہری علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان والہانہ طور پر اللہ جل شانہ کو پانے کے لئے ہر محنت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ جذب کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان راہ سلوک کی مشقتیں اور ریاضتیں برداشت کرنے کو تیار ہو جائے۔ سلوک میں مشقت ہوتی ہے اور مشقت کے لئے انسان آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ وہ جذب کے قائم مقام ہو جائے۔ اگر کسی کو اپنے شیخ سے ایسی محبت ہو گئی ہے تو اسے جذب وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پہلے وقتوں میں ایسا ہوتا تھا کہ شیخ کہ ساتھ اتنی محبت ہوتی تھی کہ اس محبت کی وجہ سے لوگ شیخ کا ہر حکم ماننے پہ تیار ہوتے تھے۔ شیخ کی یہی محبت انہی راہ سلوک پر چلنے میں مددگار ہوتی تھی۔ جب وہ زمانہ نہ رہا تو پھر اس چیز کو پیدا کرنے کے لئے دوسرے ذرائع کی ضرورت ہوئی اور نقشبندی سلسلہ میں یہ ذریعہ جذب قرار پایا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زبردست بات کی ہے کہ چشتیہ سلسلہ خواص کا ہے اور نقشبندی سلسلہ عوام کے لئے زیادہ مفید ہے۔ نقشبندی سلسلے والے لوگ شاید اس پہ ناراض ہو رہے ہوں کہ دیکھیں ہمیں عوام کہہ دیا لیکن میں کہتا ہوں کہ عوام کے لئے جو چیز مفید ہے وہ تو بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ جو چیز سب کے لئے مفید ہو وہ بہ نسبت اس کے زیادہ اچھی ہوتی ہے جو چند خاص لوگوں کے لئے مفید ہو۔ خواص تو کوئی کوئی ہو گا لیکن عوام بہت سارے لوگ ہیں۔ اس لئے جو سب کے لئے مفید ہے وہ بہت اچھی چیز ہے۔ نقشبندی سلسلہ کے عوام کے لئے مفید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جذب سے ابتدا ہوتی ہے اور خواص کو جذب کی ضرورت نہیں پڑتی ان کو پہلے ہی یہ چیز حاصل ہوتی ہے لہٰذا وہ بڑی سے بڑی قربانی دے دیتے ہیں۔ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے کا واقعہ آپ نے سنا ہوگا۔ انہیں ابتدا ہی میں بہت سارے مجاہدے کروائے گئے تھے، اور انہوں نے ان مجاہدوں کو بلا چوں و چرا پورا کیا کیونکہ وہ اس کے لئے تیار تھے، ان کو جذب کی ضرورت نہیں تھی، ان کا جذب یہی تھا جو اللہ پاک نے ان کے دل میں ڈال دیا تھا کہ مجھے یہ چیز حاصل کرنی ہی ہے۔ اس کے حصول کے لئے انہوں نے ہر طرح کی قربانی کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا۔ اگر کوئی ایسا ہے کہ جس میں یہ چیز پہلے سے موجود ہو تو پھر ان کو جذب پہ نہ چلایا جائے بلکہ سلوک کی راہ پہ ڈال دیا جائے کیونکہ علاجی اذکار اور علاجی مراقبات وغیرہ مقصود نہیں ہیں، یہ صرف جذب حاصل کرنے کے ذرائع ہیں۔ اس لئے جب اتنا جذب حاصل ہو جائے کہ اب سالک سلوک طے کر سکے تو پھر اسے سلوک طے کرنے پہ لگانا چاہیے اور جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کیفیتِ احسان حاصل کرنی چاہیے۔ کیفیت احسان حاصل ہو گئی تو سمجھیں مقصود مل گیا اب بس آگے پوری زندگی طریق صحابہ پہ چلتے رہیں۔ یہی مقصود و مطلوب ہے اور یہی منزل ہے جس کے لئے سب کچھ کیا جا رہا تھا۔
سوال نمبر19:
حضرت جی آپ نے ایک مجلس میں فرمایا تھا کہ جب انسان کا جذب مکمل ہو جائے تو اسے سلوک پہ چلا دینا چاہیے لیکن آج کل یہ سلسلہ ہے کہ اسباق پہ زیادہ زور لگایا جاتا ہے لیکن اصل مقصود یعنی سلوک طے کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مکتوبات شریفہ میں حضرت مجدد صاحب نے بھی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کیا اس مکتوب کا نمبر معلوم ہو سکتا ہے تاکہ حوالہ کے طور پر نوٹ کر لیا جائے۔
جواب:
اصل میں حضرت مجدد صاحب نے اس بارے میں کسی ایک جگہ بات نہیں کی بلکہ مختلف جگہوں پر بہت اشارے کئے ہیں۔ لیکن ماننے والے مان لیتے ہیں۔ جیسے آپ نے ان کو مان لیا ہے۔ حضرت نے متعدد جگہ یہ بات فرمائی ہے کہ تصوف کا اصل مقصد یہ ہے کہ عقائد کی پختگی حاصل ہو جائے اور انسان شریعت پر آسانی سے چل سکے۔ یہ کیفیت حاصل ہو جائے تو بس کافی ہے اور باقی چیزیں میں نے اہل ذوق کے سپرد کر دی ہیں۔ حضرت مجدد صاحب نے اس قسم کی بہت باتیں کی ہیں۔
الحمد للہ حضرت نے ہم تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ اسباق پر زور نہ دو اس کے اثر پہ زور دو کہ اس کا اثر کیا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے۔ اس فائدے کو اٹھاؤ۔ اسباق پر زور دینا بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ لوگوں نے تصوف کے Chapter wise اسباق بنا دیئے ہیں اور ان اسباق کے مکمل ہونے کو تکمیل کہتے ہیں۔
مولانا عبد الکریم صاحب ہمارے نقشبندی سلسلہ کے بزرگ تھے ان کی ہمارے ساتھ بڑی اچھی دوستی تھی۔ جب وہ جاتے تھے تو اپنے ساتھی کو میرے حوالے کر جاتے تھے کیونکہ میں ادھر اعتکاف کرتا تھا۔ ایک دن ان کے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ میرے اسباق بھی پورے ہیں۔ میں نے کہا ماشاء اللہ بڑی اچھی بات ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میرے اسباق بھی پورے ہیں تو والد صاحب ساتھیوں کو میرے حوالے کر کے کیوں نہیں جاتے۔ لوگ اپنے آپ کو اسباق پورے ہونے پر کامل سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس وقت ہم بہت گھمبیر حالات میں ہیں۔ لوگوں نے تصوف کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ قادریہ سلسلہ کے ساتھ کیا کر دیا ہے۔ چشتیہ کے ساتھ کیا کر دیا اور نقشبندیہ کے ساتھ کیا کر دیا۔ چشتی حضرات نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے لئے موسیقی جائز اور حلال ہے۔ حالانکہ ہم نے اصل چشتیوں کو دیکھا ہے۔ آپ حیران ہوں گے میرے شیخ چشتی تھے اور بالکل خالص چشتی تھے۔ اگرچہ ان کو اجازت چاروں سلسلوں میں تھی لیکن نسبت کے لحاظ سے وہ خالص چشتی تھے۔ جب میں نے حضرت کے ہاتھ پر بیعت کیا تو دو چیزیں بغیر کسی محنت کے اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت کی بیعت کی برکت سے نصیب فرمائیں۔ ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ مجھے موسیقی سے سخت نفرت ہو گئی۔ کس سے بیعت ہونے پر؟ ایک چشتی بزرگ سے بیعت ہونے پر مجھے موسیقی سے اتنی نفرت ہو گئی کہ موسیقی بجنے سے میرے سر میں درد ہو جاتا تھا۔ ان دنوں میں سٹوڈنٹ تھا اور بسوں سفر کرنا ہوتا تھا، جن میں اکثر گانے وغیرہ چلتے تھے اور میرے سر میں درد ہو جاتا تھا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت یہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے مجھے وظیفہ کہ یہ وظیفہ کر لیا کرو ان شاء اللہ اللہ پاک حفاظت فرمائیں گے: ”یَا ھَادِی یَا نُور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ“۔ دوسری چیز مجھے حضرت کی برکت سے یہ ملی کہ میں لوگوں سے گلے نہیں مل سکتا۔
یہ بات بتانے سے مقصد یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ لوگوں نے چشتیوں کے ساتھ ایسی ایسی عجیب و غریب باتیں منسوب کی ہوئی ہیں جن سے چشتیہ سلسلے کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کیا کیا باتیں باندھی گئی ہیں۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کیا کیا باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ افسوس اتنے بڑے بزرگ کو لوگوں نے ڈوم بنا دیا۔
اسی طرح قادری سلسلہ کا حال دیکھ لیں اس میں عجیب عجیب عبادتیں شامل کر دی گئی ہیں صلوٰۃ غوثیہ تک لوگوں نے شروع کر دی ہے۔ حالانکہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ توحید میں تشدد کی حد تک سخت ہیں۔ آپ حضرت کی کتاب غنیۃ الطالبین کا سرورق ہٹا دیں پھر ان لوگوں سے کہیں کہ ذرا پڑھ کے بتاؤ یہ کس کی کتاب ہے۔ لوگ کہیں گے یہ وہابیوں کی کتاب لگتی ہے۔ اسی طرح سہروری سلسلہ کے ساتھ ہوا کہ ملنگوں نے اپنے آپ کو اس سلسلہ کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نظام سارا گڑ بڑ ہو چکا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس کی درستگی میں کامیاب ہو جائیں اور ان بزرگوں کی اصل محنت کو سامنے لائیں۔ اس پر میں نے ایک بہت دکھ بھری غزل لکھی ہے۔ اتنی دکھ بھری غزل تھی کہ جسے لکھتے وقت میں رو پڑا تھا۔
ہمارے ایک انگلینڈ کے ساتھی ہیں، عالم ہیں، انہوں نے اس غزل کو بڑے اچھے انداز میں محبت کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب ہم انگلینڈ گئے تو وہ سفر کے دوران ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے تھے اس غزل کو پڑھتے تھے۔
غزل
کاش دل مل جائے میرا سوز اٹھانے کے لئے
اور جو ہے پیغام اس کو پہنچانے کے لئے
یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی مقصود نہ ہو
اس میں بھی چاہیے یہی ایک بات بتانے کے لئے
جو کہ اللہ کے فضل سے ہے بزرگوں سے ملا
دل میں پوشیدہ پڑا جو ہے خزانے کے لئے
اپنی جو آواز ہے کمزور ہے پہنچے کہاں
یہ کلام الہامی آمد کے سنانے کے لئے
جذب کے دم سے سلوک طے ہو دم بدم سب کا اب
جذب سے سوختہ سلوک کے واسطے اٹھانے کے لئے
قلب و نفس کو درست کرنے کے واسطے ہے سلوک
جب ہو یہ درست سیر فی اللہ پہ چلانے کے لئے
کیونکہ یہ راستہ بزرگوں کا ہوا بنجر جو تھا
آہ و ہمت سے اسے سر سبز بنانے کے لئے
بس طریقہ نبی پر ہو خدا کے ہونے کو
سیر الی اللہ بس یہی ایک بات سمجھانے کے لئے
تشریح:
(پہلی بات یاد رکھیں کہ اللہ کے لئے سب کچھ کرنا اور دوسری بات طریقۂ نبوی کے مطابق کرنا۔ اسی پر بات ختم ہو جاتی ہے)
عشق کی ہو یا سلاسل کی امانت جو ہے پاس
لے کے یہ شبیر دلوں کو ہے جلانے کے لئے
تشریح:
اصل بات بس اتنی سی ہے۔ اگر اس سے زیادہ کوئی بات ہو تو ہمیں بتا دے ہم کہہ دیں گے کہ بھئی ہمارے اکابر تو اتنا ہی کہتے ہیں۔ سب اکابر یہی کہتے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں۔ لیکن ان باتوں کی طرف لوگوں کا دھیان نہیں ہے۔ جو اضافی باتیں طریقت سے تعلق رکھتی ہیں، راستے کی باتیں ہیں ان کے پیچھے لوگ پڑے ہوئے ہیں۔ جیسے اگر میں نے لاہور جانا ہے تو راستے میں بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا لیکن کیا میں لاہور جا کر اپنا کام کروں گا یا ان چیزوں کو دیکھوں گا؟ ظاہر ہے میں نے تو اپنا کام کرنا ہے، میں نے تو اپنی منزل مقصود ہی کے بارے میں غور کرنا ہے۔ اگر میں راستے ہی کی باتیں کرتا رہوں کہ میں نے فلاں چیز دیکھی، فلاں چیز دیکھی اور فلاں چیز بھی دیکھی اور کوئی مجھ سے پوچھے کہ اچھا بھئی ساری چیزیں تو دیکھ لیں یہ بتاؤ لاہور جا کر وہ کام بھی کر لیا جو کرنے کے لئے چلے تھے؟ تو میری کیا حالت ہو گی۔ تصوف کے ساتھ آج کل یہی مسئلہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ