اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ﴾ (القمر:17) ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے‘‘۔
اس آیت سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن آسان ہے اور جو علماء قرآن کو سمجھنے کے لیے صرف و نحو و منطق و فلسفہ وغیرہ جیسے علوم کو ضروری سمجھ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں قرآن سمجھنے کے لیے ان علوم کی ضرورت نہیں تھی۔ کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں ان حضرات کا استدلال صحیح ہے؟
جواب:
دیکھیے! قرآن میں تین طرح کے مضامین ہیں۔ ایک مواعظ یعنی نصیحت کی باتیں، دوسرے احکامات اور تیسرے متشابہات بھی ہیں۔ جہاں تک بات ہے نصائح پر مشتمل آیات کی وہ تو بلا شبہ آسان ہیں۔ کوئی بھی ان سے نصحیت حاصل کر سکتا ہے۔ ابھی میں نے جو آیت تلاوت کی ہے بہت آسان ہے، بالکل لگی بندھی مثالیں ہیں۔ اس کی تفسیر میں آپ اگر نہ بھی جائیں تب بھی آپ کو معلوم ہو رہا ہے کہ کیا بیان ہو رہا ہے، بلکہ عین ممکن ہے جو سپیڈ سپیڈ specialist ہو جیسے کوئی سائنٹسٹ ہو تو وہ اپنے لحاظ سے بڑی گہرائی میں جا کر اس کا کوئی معنی نکال لے، اور شاید وہ عالم جسے یہ چیزیں معلوم نہ ہوں اس تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن جہاں تک احکامات کی بات ہے تو ان کے لیے واقعی بڑی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور متشابہات تو اور بھی زیادہ گہرے ہیں۔ لہذا یہ stage by stage ہیں۔ اور وعظ اور نصیحت والا حصہ زیادہ لمبا بلکہ اکثر وہی ہے عقیدے کی درستگی کے لیے ، اللہ کی بڑائی کے لیے اور دنیا کی بے ثباتی کے لیے۔ لہذا قرآن سے نصیحت حاصل کرنا مشکل نہیں ہے ﴿وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ﴾ (القمر:17) اس آیت میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان ہے، یہ نہیں فرمایا کہ احکامات حاصل کرنے کے لیے آسان ہے۔ گویا تین جز ہیں۔ متشابہات کے بارے میں تو علماء راسخون ہی بات کریں گے، عام علماء بھی نہیں کر سکتے اور جہاں احکامات کے متعلق آیات ہیں، ان کے لیے فقہاء کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ قرآن تو ایک ہے، اللہ کا کلام ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لیے بہت ساری چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے مثلاً عربی ضروری ہے اگر کوئی عربی دان نہ ہو تو اسے عربی سیکھنی پڑے گی، عربی سیکھنے کے لیے اس کو صرف بھی سیکھنا پڑی گا، نحو بھی سیکھنا پڑے گی، کیونکہ زیر زبر سے معنی بدل جاتا ہے لہذا اس کو یہ دونوں علوم سیکھنے پڑیں گے۔ نیز اسے اصول بھی سمجھنے پڑیں گے، احادیث شریفہ کی روشنی میں اس کا معنی جاننا پڑے گا، اسے احادیث شریفہ کا علم بھی حاصل کرنا ہو گا، اسی طرح بہت سے علوم ہیں جنہیں حاصل کرنا ضروری ہے، چنانچہ اس حصے کو سمجھنے کے لیے کافی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ لیکن جو حصہ نصیحت پر مشتمل ہے وہ آسان ہے، اسی لیے آسان ہونا نصیحت ہی کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے، احکامات کے لحاظ سے نہیں فرمایا گیا۔ چنانچہ نصیحت پر مشتمل حصہ یقیناً بہت آسان ہے، نیز قرآن کا حفظ اتنا آسان ہے کہ کوئی اور چیز اس کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتی، اتنی موٹی کتاب کسی کو ترتیب کے ساتھ پوری کی پوری یاد ہو جائے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بعض دفعہ چیزیں انسان کو یاد ہوتی ہیں لیکن ترتیب نہیں ہوتی بلکہ کوئی چیز کہیں سے لے لی، کوئی کہاں سے لے لی، موقع بہ موقع وہ چیزیں یاد آتی رہتی ہیں، وہ چیزیں memory میں store ہوتی ہیں، لیکن اگر اس کو بتانے کا کہا جائے تو وہ ترتیب کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا۔ جیسے مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے شیخ تھے میں ان کے بہت واقعات بیان کرتا ہوں الحمد للہ! لیکن میں اگر ایک جگہ بیٹھ کر ان کو لکھنا چاہوں کہ مجھے کتنا یاد ہے یقین جانیے پانچ چھ صفحات سے زیادہ نہیں لکھ سکوں گا۔ لیکن جتنے میں نے بیان کیے ہیں اگر ان کو جمع کیا جائے تو کئی کتابیں بن جائیں گی۔ چنانچہ یہ واقعات موقع بہ موقع یاد آتے ہیں، ترتیب کے ساتھ یاد نہیں رہتے۔ لیکن قرآن انسان کو ترتیب کے ساتھ یاد ہوتا ہے یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ یہ شان نزول کے مطابق اترا ہے، ترتیب کے ساتھ مدوّن ہوا ہے، ترتیب کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور شان نزول کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ کسی اور کلام میں ایسا نہیں ہے، یہ نادر چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح اپنے کلام کا ظہور لوگوں کے درمیان کروایا ہے۔ اس کی بلاغت، اس کی مثالیں اور اس کی ترتیب، یہ سب عجیب خصوصیات ہیں، جو جانتا ہے اس کو ان خصوصات کا ادراک ہے۔
مصری لوگ عربی ادب میں کافی ماہر ہوتے ہیں اور کافی گہرائی میں جاتے ہیں، وہ لوگ علم تو رکھتے ہیں لیکن آزاد خیال لوگ ہیں، بعض دفعہ زیادہ پرواہ نہیں کرتے، امامِ مسجد کی بھی داڑھی نہیں ہوتی، pant shirt میں ملبوس ہوتے ہیں، اور مصلے پہ کھڑا ہو جاتے ہیں، اس طرح کی اور بہت ساری باتیں ہیں۔ اگرچہ سارے ایسے نہیں ہیں، بڑے اچھے اچھے لوگ بھی ان میں ہیں، بہت زیادہ متشرع اور سنت پہ چلنے والے حضرات بھی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ آزاد خيال ہیں۔ بہرحال ایک دفعہ مصر کے کچھ professor type لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک کہتا ہے: کہا جاتا ہے کہ قرآن میں بلاغت ہے ہمیں تو وہ بلاغت نظر نہیں آئی، وہاں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے جو ان چیزوں کو جانتے تھے، انہوں نے کہا: آپ لوگ بہت اچھی عربی جانتے ہو، ذرا یہ بات بیان کرو کہ جہنم بہت زیادہ وسیع ہے، دیکھتے ہیں کیسے بیان کرتے ہو؟ تو وہ کہنے لگے "اِنَّ جَھَنَّمَ لَوَسِیعٌ، اِنَّ جَھَنَّمَ لَوَسِیعٌ" جب ان سب نے اس قسم کے الفاظ کہے تو انہوں نے قرآن پاک کی آیت پڑھی: ﴿يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَ تَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ﴾ (ق: 30) سب لوگوں نے رانیں پیٹ لیں اور کہنے لگے، اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ جس دن جہنم سے کہا جائے گا ﴿ھَلِ امۡتَلَاۡتِ﴾ ”کیا تو بھر گئی؟“ تو وہ کہے گی: ﴿ھَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ﴾ ”کیا کچھ اور بھی ہے“؟ اس اندازِ بیان کا مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ در اصل قرآن مجید میں practicality ہے، practicality سے مراد یہ ہے کہ اس میں مضامین ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جہنم اور جنت کے واقعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ یہ کتنی دفعہ آیا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے اس سے اثر کتنا ہوا ہے، جو اثر لینے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کون سی چیز کس مقصد کے لیے ہے اور کس طریقے سے ہے۔
بہر حال قرآن آسان ہے نصحیت حاصل کرنے کے لیے۔ جہاں تک احکامات کی بات ہے تو وہ بچوں کا کھیل نہیں ہے، صرف میراث کے مسائل پر مشتمل سورہ نساء کا رکوع ہی دیکھ لیں، صرف ایک رکوع ہے اسے نکال کر حل کریں۔ میں علماء کی بات کر رہا ہوں عام لوگوں کی بات نہیں کر رہا، علماء کو میں نے جب سورۃ النساء کا یہ رکوع پڑھایا تو ان میں سے ایک عالم سید ظفر علی شاہ صاحب جو باقاعدہ مردان میں قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ مجھے کہنے لگے شبیر صاحب! اچھا ہوا کہ آپ نے ہمیں یہ سمجھایا ورنہ جب یہ رکوع آتا ہے تو ہم جلدی جلدی اس سے گزرتے ہیں تاکہ کوئی سوال نہ کرے، کیوں کہ اگر کسی نے سوال کر لیا تو پوری سراجی ان کو پڑھانی پڑے گی، جو کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ آپ نے ما شاء اللہ اسی ایک رکوع میں ہی سارا کچھ بتا دیا، لہذا یہ فن ہے، لا محالہ اس کے لیے فن کے جاننے کی ضرورت تھی، ورنہ انہوں نے یہ بات کیوں کی؟ انہیں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی، وہ مسلسل قرآن پاک پڑھا رہے تھے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیزیں فن کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، جن کو وہ فن آتا ہو ان پر اللہ تعالیٰ وہ چیزیں کھولتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں وہ چیزیں موجود نہیں ہوتیں، لیکن اس کے لیے کوششیں کرنی پڑیں گی۔ فنی چیزیں حاصل کرنی پڑیں گی، صَرف بھی سیکھنی پڑے گی، نحو کا علم بھی حاصل کرنا ہو گا۔ کیونکہ ایک ایک لفظ سے نکات نکلتے ہیں۔
مناجات مقبول کی ایک دعا ہے میں جب اسے دیکھتا ہوں تو جھوم جاتا ہوں، اس میں نحوی قاعدے مسلسل آتے ہیں رفع کے بھی، نصب کے بھی اور جر کے بھی۔ تینوں قاعدے ایک ہی دعا میں آتے ہیں۔ "وکُلُّہٗ، کُلَّہٗ، اور کُلِّہٖ" اخیر میں: "کُلِّہٖ" آتا ہے۔ اور تمام اعراب اس میں آتے ہیں۔ لہذا صرف و نحو جاننی پڑے گی۔ اصول جاننے پڑیں گے، طریقے جاننے پڑیں گے، مختلف علمائے کرام کی discussion سے گزرنا پڑتا ہے، احادیث شریفہ جاننا پڑتی ہیں، اس کے بعد کسی نتیجے پہ پہنچتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں: "وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوابِ" یعنی حقیقت حال کا اللہ ہی کو پتا ہے کہ اصل بات کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک سے زیادہ سے زیادہ علوم و فیوض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآن کو ہمارے لیے ہر حوالے سے آسان فرما دے۔ اور اگر وہ آسان کر دے تو اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ