اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔
سوال 1:
السلام علیکم
محترم و مکرم حضرت اللہ پاک آپ سے ہمیشہ راضی ہو۔ رابطہ کی غرض خیر و عافیت معلوم کرنا ہے اگر اجازت ہو تو اطلاع فرما دیں۔ مزاج کیسے ہیں، صحت کیسی ہے اور گھر میں سب خیر و عافیت ہے؟ مزید یہ کہ اعمال اشغال کا نظام اچھا چل رہا ہے۔ طالبِ دعا فلاں۔
جواب:
الحمد للہ! اللہ جل شانہ کا شکر ہے یہاں پر عافیت ہے، اللہ جل شانہ آپ کے ہاں بھی مکمل عافیت رکھے۔
سوال 2:
جناب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! معمولات کا میرا آج تینتالیسواں دن ہے 300 اور 200 والا ذکر۔ اگلا سبق کیا ہے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اگر آپ سے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی یعنی کوئی ناغہ نہیں ہوا تو اگلا سبق یہ ہے: تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار (100,100) دفعہ، یعنی ”سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ 100 دفعہ۔ درود شریف (مختصر درود شریف بھی پڑھ سکتے ہیں) ”وَ صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْمُحَمَّد“ اور استغفار 100 دفعہ (مختصر استغفار بھی کر سکتے ہیں) ”اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ“ اور 100 دفعہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 100 دفعہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 100 دفعہ حَقْ، 100 دفعہ اَللہ۔ تیسرا کلمہ درود شریف اور استغفار یہ (100,100) دفعہ عمر بھر کے لیے رہے گا۔ اور یہ جو ابھی میں نے ذکر کیا، یہ ایک مہینے کے لیے ہو گا اور ہر نماز کے بعد جو بتایا ہے وہ بھی عمر بھر کے لیے رہے گا۔
سوال3:
السلام علیکم حضرت جی!
I cannot call you because my child was sick without meditation. I don’t feel relaxed during rohani meditation. I felt that my brain and my heart, even my whole body was saying اللہ at the same time but during all that, I found one more sound of اللہ but I cannot properly find that place in my body. How can I find my روح? please guide me فلاں.
جواب:
یہ اصل میں روح نہیں ہے لطیفۂ روح ہے۔ ایک ہوتا ہے لطیفۂ قلب اور ایک ہوتا ہے لطیفۂ روح، ایک ہوتا ہے لطیفۂ سر، ایک ہوتا ہے لطیفۂ خفی اور ایک ہوتا ہے لطیفۂ اخفیٰ۔ یہ عالم امر کے لطائف ہیں اور ان کے ذریعے سے ماشاء اللہ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنتا ہے۔
لطیفۂ قلب آپ کو پہلے دیا تھا اگر آپ کو ہر جگہ محسوس ہو رہا ہے تو آپ اس کو اس طرح کریں کہ دل پر انگوٹھا رکھ کر آپ یہ تصور کر یں کہ اللہ اللہ ادھر ہو رہا ہے تاکہ آپ دل پر focus کریں اور لطیفۂ روح میں اگر آپ پورے جسم کو آدھا کر لیں تو آدھا کرنے والی لائن سے left side پر جتنے فاصلے پر دل ہے اتنے ہی اس جگہ سے right side پر لطیفۂ روح ہے پھر وہاں پر بھی انگوٹھا رکھ کر اس کے نیچے آپ اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس کریں۔ اس کے بعد پھر جب آپ مجھے بتائیں گی تو میں آپ کو ان شاء اللہ اگلا سبق دوں گا، یہ ایک مہینے کے لیے ہے۔
سوال 4:
السلام علیکم
اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین۔ آپ نے جو مجھے مہینے کا معمول دیا تھا الحمد للہ وہ پورا ہو گیا ہے، اب آگے کی رہنمائی فرمائیں۔ ہمارے لیے دعا فرمائیے گا بہت مہربانی۔
جواب:
دعا پر تو یقیناً آمین ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرما دے، البتہ تھوڑا سا عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ آپ نے مجھے کہا کہ میرا معمول پورا ہو گیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ آپ کا معمول تھا کیا؟ اب میں اس کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں؟ ایک دفعہ میں ڈاکٹر ریحان کے پاس گیا تھا ہمارے family doctor تھے تو ان کو میں نے کہا آپ نے دوائی دی تھی اس دن مجھے، چونکہ میں پشاور سے direct گیا تھا تو میرے پاس prescription نہیں تھی جو ڈاکٹر نے مجھے لکھ کے دی تھی۔ اس نے کہا میں نے تو ہزاروں patients کے لیے چیزیں لکھی ہیں تو مجھے کیسے یاد ہو گا۔ تو یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے کہ مجھے کیا یاد ہو گا کہ آپ کو میں نے کیا دیا تھا؟ تو آئندہ کے لیے کم از کم یہ غلطی نہ کریں۔ آپ جب بھی کبھی مجھ سے رابطہ کریں تو پہلے والا معمول بتا دیا کریں کہ پہلے آپ کا یہ ذکر تھا؟ وہ پورا ہو گیا اب اگلا کیا ہے اور اس کے ساتھ جو احوال وغیرہ آپ کے ہوں وہ بھی بتا دیا کریں۔ یہ مکمل information ہے ورنہ پھر ایسے ہی آپ کا وقت ضائع ہو گا اور ہمارا وقت بھی ضائع ہو گا۔
سوال 5:
السلام علیکم میں نے چالیس دن والا وظیفہ پورا کر لیا اب آگے کیا وظیفہ ہو گا؟
جواب:
اگرچہ ابھی آپ نے بھی وہی غلطی کی ہے جو آپ سے پہلے والے نے کی ہے کہ آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو وظیفہ کیا دیا گیا تھا لیکن چونکہ آپ نے چالیس دن کا نام لیا ہے تو چالیس دن کا وظیفہ ایک ہی دفعہ ہوتا ہے لہذا مجھے سمجھ آگئی کہ آپ نے پہلے وظیفے کے بارے میں بات کی ہے تو اگر اس کا مطلب تین سو دفعہ”سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ“ اور دو سو دفعہ”وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ سے تھا تو ٹھیک وہ پہلا ابتدائی وظیفہ تھا۔ اب آئندہ آپ کو اگلا سبق دیا جا سکتا ہے، لیکن ایک اور سوال یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ عورت ہیں یا مرد۔ آپ نے اپنا نام ہی نہیں بتایا تو یہاں سے مردوں اور عورتوں کے لیے وظیفہ تبدیل ہو جاتا ہے اس لیے میں اب آپ کو نہیں بتا سکتا کہ آپ کو کیا وظیفہ کرنا ہے۔ پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں پھر اس کے بعد بتاؤں گا ان شاء الله۔
سوال 6:
السلام علیکم حضرت جی میں فلاں ہوں، آپ کو اللہ پاک صحت نصیب کرے۔ حضرت جی میرے اصلاحی ذکر کو تقریباً ایک ماہ ہو گیا تھا۔ سب لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت لطیفۂ سر پر تھا۔ حضرت جسمانی اور ذہنی تکلیف رہتی ہے، نیند اور سر درد کا بھی مسئلہ زیادہ تھا تو ڈاکٹر عمر صاحب کے مشورے سے check up کرایا تھا، نیند کی دوائی اب لے رہی ہوں ڈاکٹر نے anti-depression بھی دی ہے اس سے طبعیت بہتر ہے الحمد للہ، لیکن اصلاحی ذکر کا وقت کچھ تبدیل بھی کرنا پڑا ہے، نیند کبھی زیادہ محسوس ہو پھر بھی کوشش کرتی ہوں ذکر اچھے وقت میں کر سکوں fresh ہو کر چائے پی کر، لیکن پھر بھی کبھی کبھی ذکر میں غنودگی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ نہیں سمجھ آیا کہ ذکر میں یکسوئی بہتر ہے کہ ذکر محسوس ہو اور وہ ٹھیک ہے اس لیے زیادہ نہیں محسوس ہوئی، یا دوائی کی وجہ سے۔ کیوں کہ اس ماہ میں بھی شروع میں وقت تبدیل کیا تھا تو ذکر کی یکسوئی مراقبہ میں تھوڑی کم تھی لیکن پھر ٹھیک ہو گئی تھی الحمد للہ۔ بس نیند تھوڑی زیادہ کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے بعض اوقات ذکر کے درمیان میں ایک دم بھول جاتی ہوں کہ کون سے لطیفہ پر ہوں، پھر گھڑی اور وقت دیکھ کر اندازہ لگا لیتی ہوں کیونکہ محسوس تو ذکر اور مراقبہ ٹھیک ہوتے ہیں الحمد للہ۔ بس کبھی کبھی نہیں بھی محسوس ہوتا اور پچھلے کچھ ماہ سے آخر میں مراقبے تک پہنچنے تک تھوڑا تھک چکی ہوتی تھی اور کبھی کبھار لیٹ کر پورا کر لیتی تھی اگر مزید نہ بیٹھ سکوں۔ خیالات بھی تھوڑے کم ہوئے ہیں تو اب غیر اختیاری چیزوں کے بارے میں کوشش کرتی ہوں زیادہ توجہ نہ دوں اللہ کی رضا پہ راضی ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتانا تھا کہ حضرت جی اصلاح کی فکر کر رہی ہوں زیادہ تر کہ یا تو اللہ کی مخلوق کو فائدہ دینے کے بارے میں سوچتی ہوں۔ کبھی کبھی تھک جاتی ہوں بیزار سی ہو جاتی ہوں کہ اس سے زیادہ اچھی نہیں ہو سکتی اور ڈر لگتا ہے کہ اللہ پاک مجھ سے اچھے کاموں کی توفیقات واپس نہ لے لیں، ناقدری یا ناشکری نہ ہو جائے۔ دعا بھی کرتی ہوں طبعیت جیسی بھی ہو معمولات میں بیماری کی رعایت نہیں کرتی، بعض اوقات پریشانی ہو تب بھی نہیں کہ اگر ہر چیز میں صحت کو دیکھا تو پھر ایک ایک کر کے معمولات چھوٹ نہ جائیں۔ تقریباً ڈیرھ سال سے ایک نماز قضاء ہوئی ہے، جس کے لیے دو روزے مشکل سے رکھے اور کوشش کر رہی ہوں تیسرا بھی رکھ لوں، آپ کے حکم میں تاخیر نہ کروں جس کی وجہ سے پریشان تھی، کوشش ہے کہ 3 پورے ہو جائیں۔ ان شاء اللہ۔ بتانے کا طریقہ شاید ٹھیک نہیں، غلطیوں کے لیے معذرت۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو صحت بھی نصیب فرمائے اور اللہ جل شانہ اصلاحی کام میں آپ کی مدد بھی فرمائے۔ دل سے آپ کے لیے دعا گو ہوں کیوں کہ آپ بڑی کوشش کر رہی ہیں اور کوشش کرنے سے ہی فائدہ ہوتا ہے۔ جب کام آسانی کے ساتھ ہو رہا ہو تو اس میں ذکر کا ہی فائدہ ہو گا یعنی دل بنے گا اور اگر آسانی سے نہیں ہو رہا ہو اور اس میں مشقت ہو رہی ہو اور بوجھ پڑ رہا ہو تو اس میں نفس کی بھی اصلاح ہو گی، کیونکہ نفس مجاہدے سے ٹھیک ہوتا ہے لہذا یہ بھی ایک اضطراری مجاہدہ ہو گا جس کا اثر آپ کے نفس پر پڑے گا اور آپ جو نفس کے ساتھ جنگ کر رہی ہیں ان شاء اللہ آپ اس میں کامیاب ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ اب اگلا لطیفہ ہے مراقبۂ احدیت، تو خفی کے اوپر مراقبۂ احدیت کر لیں۔ باقی چیزیں تو آپ کی وہی رہیں گی ان شا اللہ۔
سوال 7:
السلام علیکم حضرت الحمد للہ آج چھ ستمبر کو تیس دن کا ذکر 200، 400، 600 اور 500 مرتبہ اللہ اور پانچ منٹ کا تصور پورا کر لیا، ایک دن پندرہ اگست کو نہ ہوا۔ زیادہ دن محسوس ہوا کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور کبھی کبھی کپکپی آ جاتی تھی۔
جواب:
ذکر آپ یہی 200، 400، 600 اور 500 ہی رکھیں اور پانچ منٹ کی جگہ دس منٹ تصور کر لیں کہ اللہ اللہ قلب پر محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک مہینے کے لیے ہے۔
سوال 8:
السلام علیکم حضرت جی عرض ہے کہ میرا ابتدائی ذکر دس منٹ دل پر، دس منٹ لطیفۂ روح پر اور پندرہ منٹ لطیفۂ سر پر اللہ سننے کا ایک مہینے کا ہو گیا الحمد للہ۔ لیکن اس دوران لطیفۂ سر پر صرف چند دن وہ کیفیت رہی جو محسوس ہو رہی تھی لیکن دل پر اللہ کے نام کے ساتھ محسوس ہوئی ہے۔ البتہ خیالات کی وجہ سے توجہ نہیں رہتی۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اور خیالات آ جائیں مگر اب ذکر کے دوران بہت زیادہ خیالات آتے ہیں۔
جواب:
دیکھیں ہمارا مقابلہ شیطان کے ساتھ ہے اور نفس کے ساتھ بھی ہے۔ دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے۔ آپ نے اگر دل کا علاج کرنا ہے تو مجھے بتاؤ شیطان آپ کو فارغ چھوڑے گا؟ اگر آپ نے دل کا علاج کرنا ہو تو شیطان آپ کو فارغ نہیں چھوڑے گا وہ ضرور وسوسے ڈالے گا۔ آپ کی ہوشیاری یہ ہو گی کہ آپ اس کے ساتھ الجھیں نہیں، آپ اس کے بارے میں سوچیں نہیں۔ اب دیکھیں ناں اس وقت ہمارا AC شور کر رہا ہے لیکن ہماری اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے، باہر بھی بہت ساری چیزیں شور کر رہی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے۔ اگر ہم نے اس کے اوپر توجہ دینی شروع کی تو پھر کام خراب ہو جائے گا۔ اس وجہ سے آپ ان چیزوں کی طرف توجہ نہ دیں، توجہ صرف اپنے مراقبے پر دیں اور ان چیزوں کے ساتھ adjust کرنا سیکھ لیں، ان شاء اللہ العزیز مزید ترقی ہو گی۔ اب آپ اس طرح کریں کہ قلب پر، لطیفۂ روح پر اور سر پر دس دس منٹ اور لطیفۂ خفی پر پندرہ منٹ کریں ان شا اللہ۔
سوال 9:
مجھے آپ سے پوچھنا تھا لفظ تکوین کا کیا مطلب ہے؟ جیسے تکوینی احکام کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
جواب:
یہ ما شاء اللہ ایک علمی سوال ہے۔ ایک ہوتے ہیں شرعی امور اور ایک ہوتے ہیں تکوینی امور۔ شرعی امور یہ ہیں کہ جو پیغمبر کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے احکامات آئیں ان پر عمل کرنا ہے، یہ شرعی احکام ہیں جو کہ فقہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اس پر ہم نے عمل کرنا ہے یہ شرعی امور ہیں۔ اور ایک ہوتا ہے اللہ جل شانہ براہِ راست فرشتوں کو جو حکم دیتے ہیں یا اللہ پاک نے جو اسباب پیدا کیے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو صفات پیدا کی ہیں، چیزوں میں خاصیتیں پیدا کی ہیں یہ سب تکوینی امور ہیں۔ تو یہ تکوینی امور اپنے طور پہ رہتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر کھانا کافر کو بھی کھانا ہوتا ہے مسلمان کو بھی کھانا ہوتا ہے، سونا مسلمان کو بھی ہے کافر کو بھی ہے، مرتا مسلمان بھی ہے کافر بھی، پیدا مسلمان بھی ہوتا ہے اور کافر بھی۔ یعنی جس پہ انسان کا کوئی اختیار نہ ہو جیسے موسم پر کوئی اختیار نہیں، یہ تکوینی امور ہیں۔ ایک صاحب اگر کہہ دے کہ مجھے نیند نہ آئے اور میں بغیر سوئے بھی چاق و چوبند رہوں یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ حضرت تھانویؒ سے کسی نے کہا کہ حضرت مغرب کی نماز میں تین رکعتیں ہیں یعنی طاق ہیں اور باقی نمازوں میں جفت ہیں یہ کیا وجہ ہے؟ تو حضرت اکثر ایسے لوگوں کو جو خواہ مخواہ کج بحثی کرتے تھے بہت مختصر جواب دیتے تھے وہ جواب اکثر الزامی ہوتا تھا۔ تو حضرت نے اس سے پوچھا کہ تمہاری آنکھ آگے کو ناک آگے کو لگی ہے پیچھے کو نہیں لگی کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا اللہ پاک نے ایسا ہی بنایا ہے انہوں نے کہا بس اللہ پاک نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔ تو بنانے کا تعلق بھی تکوینی کے ساتھ ہے لیکن جو حکم آیا ہے ہمارے کرنے کو وہ تشریعی امر ہے۔ تو جیسے تکوینی امور ہمارے اوپر لازم ہیں مطلب اس کے مطابق کام کرنا ہے اس طریقے سے تشریعی امور میں اللہ پاک کا حکم ماننا لازم ہے۔ تو تکوینی امور وہ ہوتے ہیں جن پہ ہمارا بس نہیں ہے البتہ ایک بات ضروری ہے ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41) قرآن پاک میں یہ آیت ہے جو ایک چیز کی تشریح کر رہی ہے کہ تکوینی و تشریعی نظام کیسے link ہوتا ہے۔ چنانچہ اس میں فرمایا که ”لوگوں کے اعمال کی وجہ سے خشکی اور تری پر فساد ظاہر ہو گیا“۔ اس کا مطلب ہے کہ جو سیلاب آتے ہیں اور جو مختلف قسم کی بیماریاں آتی ہیں یہ سب کسی نہ کسی تشریعی امر کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن اس کی پوری تفصیل معلوم کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ البتہ قرآن و حدیث میں رہنمائی ہوئی ہے کہ اگر مثال کے طور پر کوئی زکوۃ نہ دیتا ہو اس کے ساتھ کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں، اگر سود عام ہو جائے تو اس سے کیا مسائل ہو جاتے ہیں، اگر زنا عام ہو جائے تو اس سے کیا مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ تو یہ آپس میں interlinking ہے لیکن تکوینی امور اللہ کی طرف سے آتے ہیں ہم سے پوچھے بغیر اور تشریعی امور میں ہمیں اختیار دیا گیا ہوتا ہے کریں یا نہ کریں۔ لیکن دونوں صورتوں میں اس کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اگر شرعی امور پر ہم عمل کر لیں تو دونوں جہانوں میں ہمیں فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اگر نہ کریں تو پھر دونوں جہانوں میں نقصان ہوتا ہے۔
سوال 10:
السلام علیکم اللہ پاک آپ کو اور ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور آپ کے فیوض و برکات سے مستفید فرمائے۔ حضرت جی کچھ عرصے سے ہمیں ایک مسئلے کا کافی زیادہ سامنا ہے، حضرت جی ذکر کے دوران بہت گندے اور غلط خیالات آتے ہیں پہلے تو عام سی بات سمجھتا تھا مگر اب چلتے پھرتے اکثر اور شدت سے آتے ہیں۔ حضرت جی سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں کبھی ڈر کا احساس ہوتا ہے تو کبھی زچ ہو کر ڈر سا جاتا ہوں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں میں کیا کر سکتا ہوں، لیکن ایسا کرنے سے نہ تو مسئلہ حل ہو رہا ہوتا ہے اور نہ ہی جان چھوٹنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں آ رہا ہے۔
جواب:
اصل میں بنیادی بات یہ ہے کہ آپ ان کو توجہ دیتے ہیں۔ ابھی میں نے تھوڑی دیر پہلے ایک صاحب کو یہ جواب دیا ہے کہ دل میں الہامِ رحمانی بھی آتا ہے الہامِ شیطانی بھی آتا ہے۔ تو شیطان کا تعلق دل کے ساتھ ہے، اس وجہ سے شیطان جو وسوسے ڈالتا ہے اس پہ کسی کا اختیار نہیں ہوتا لیکن اس کا انسان ذمہ دار بھی نہیں ہے جب تک اس کو مانے نہیں، جب تک اس کے پیچھے نہ چلے۔ مثلاً اگر شیطان مجھے مسلسل کہتا ہے فلاں کو قتل کرو، فلاں کو قتل کرو، فلاں کو قتل کرو، فلاں کو قتل کرو، جب تک میں نے اس کی بات مانی نہیں تو مجھ پہ کوئی گناہ نہیں بلکہ اجر ہے۔ کیونکہ اس میں مجھے جو تکلیف ہوتی ہے اس پر مجھے اجر ملے گا اور اگر میں نہ مانوں تو بس کوئی مسئلہ نہیں پھر پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اس وجہ سے میں یہ عرض کروں گا کہ آپ بالکل اس کی پرواہ نہ کریں، شیطان آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا جو کچھ کر رہے ہیں آپ خود اپنا کر رہے ہیں۔ مثلاً بڑے سے بڑے کفریہ عقیدے بھی وسوسے کے طور پر دل میں آئیں، تو کوئی پرواہ نہ کرے اس سے کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اجر ملے گا۔ آپ ﷺ کے پاس کچھ صحابہ آئے تھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہمیں تو ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر وہ ظاہر ہو جائیں تو اس کے ظاہر ہونے پر ہم مرنے کو ترجیح دیں گے، جل کر کوئلہ ہونے کو ترجیح دیں گے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا آپ لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ہو گئی ہے۔ فرمایا "ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَان" ”یہی تو اصل ایمان ہے“۔ اب دیکھو اصل ایمان نہیں ہے تو کیا ہے کہ اس کے باوجود بھی آپ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو ایمان کی وجہ سے نہیں ہیں، یعنی اس سے جو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے یہ ایمان کی وجہ سے ہے۔ لہذا آپ اس کی پرواہ نہ کریں اور اس پہ خوش ہو جائیں کہ مجھے وہ خیالات اچھے نہیں لگتے بس اسی پر خوش رہیں، اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آپ کی مدد فرمائیں گے۔
سوال 11:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اَللہُ اَللہ 200 مرتبہ اور اَللہ 100 مرتبہ اور مراقبہ پانچ منٹ لطیفۂ قلب، پانچ منٹ لطیفۂ روح، پانچ منٹ لطیفۂ سر، پانچ منٹ لطیفۂ خفی، پانچ منٹ لطیفۂ اخفیٰ پھر کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر کر رہی ہے سننا اور لطائف اللہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور پندرہ منٹ یہ مراقبہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے فیض میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے فیض میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔
جواب:
آپ سارا کچھ یہی کریں گے البتہ صرف یہ ہے کہ آپ لطیفۂ روح پر مراقبۂ احدیت نہیں کریں گے بلکہ لطیفۂ سر پر کریں گے باقی چیزیں وہی ہیں۔ فیض میں یہ ہوتا ہے کہ جو بھی چیز آپ کو فائدہ پہنچا دے وہ فیض ہے تو گویا کہ دینی و دنیاوی سب فائدے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رہے ہیں آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب اور پھر وہاں سے میرے لطیفۂ سر پر، ان شاء اللہ یہ کریں۔
سوال 12:
السلام علیکم حضرت جی بہت ہی زیادہ غفلت اور لاپرواہی کی زندگی میں مبتلا ہوں، احوال اتنے خراب ہیں کہ رابطہ کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی لیکن سوال و جواب کے بیانات سننے کی برکت سے message کرنے کی ہمت ہوئی ہے۔ حضرت جی شوال، ذی القعد، ذی الحجہ اور محرم میں صرف پانچ وقت نماز اور تین سو تیرہ مرتبہ ”اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ“ کا وظیفہ جاری رہا باقی سب آہستہ آہستہ ان تین چار ماہ میں چھوٹ گیا ہے۔ اب صرف دو نعمتیں پاس رہ گئی ہیں تو ڈر کر message کر دیا کہ دجالیت کا وقت ہے اور اگر خیر سے تعلق ٹوٹا ہے تو شر ہی باقی رہ جائے گا۔ تھیوری ساری پکی یاد ہے بیانات کی برکت سے کہ سستی نہیں چستی اور نفس کا علاج کروائیں، لیکن practical بہت خراب چل رہا ہے۔ جو مراقبہ چھوڑا ہے اس مراقبے کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر اللہ اللہ سننے کا تصور یہ تو الحمد للہ پکا ہے پھر پچیس منٹ مراقبۂ احدیت کا تیسرا سبق کہ اللہ پاک کا فیض آپ ﷺ کے قلب اطہر پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلب اطہر سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ خفی پر۔ یہ مراقبہ ہدایات کے مطابق بلا ناغہ دو ماہ کیا لیکن لطیفۂ خفی پر کچھ محسوس نہیں ہوا، اب ساڑھے تین ماہ سے مراقبہ نہیں کیا۔ اب رہنمائی چاہیے کہ دوبارہ کہاں سے شروع کروں؟
جواب:
سب سے پہلے تو آپ یہ بات سمجھ لیں کہ جب انسان بیمار ہو اور حالت خراب ہو تو ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ آپ کا اس بات کا انتظار کہ میں ٹھیک ہو جاؤں پھر رابطہ کروں گا یا کروں گی یہ بہت بڑی جہالت ہے اس سے توبہ کریں۔ یہ کس قسم کی سوچ ہے کہ آپ ٹھیک ہو جائیں پھر رابطہ کریں گویا کہ آپ مجھ سے اپنی تعریف کروانا چاہتے ہیں کہ میں آپ کی تعریف کر لوں واہ واہ آپ کتنا اچھا کام کر رہے ہیں، یہ تو فساد ہے۔ شیخ کا کام تو اصلاح ہے اور اصلاح میں تو ڈانٹ ہوتی ہے، اصلاح میں سختی کرنی ہوتی ہے۔ اگر آپ اس سے ڈرتی ہیں تو مجھے بتائیں پھر اصلاح آپ کی کیسے ہو گی۔ لہذا آئندہ کے لیے کم از کم یہ دماغ درست کر لیں کہ جس وقت کام خراب ہو گا اس وقت اطلاع کرنی ہے کام ٹھیک ہو گا تو وہ اللہ کا فضل ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور معمول کے مطابق اس کی اطلاع کر دیں لیکن جب خراب ہونا شروع ہو جائے تو پھر فوراً بتانا چاہیے۔ ایک تو یہ بات اپنے طور پر نوٹ کر لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی لطیفۂ نہیں چل رہا تو اس کا مطلب یہ کہ ہے سب کچھ چھوڑ دیا جائے؟ یہ تو بڑی عجیب thinking ہے مجھے تو سمجھ نہیں آرہی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کھا نہیں سکتیں تو پینا بھی چھوڑ دیں؟ یہ تو بڑی عجیب سوچ ہے تو آئندہ کے لیے کم از کم ان تمام چیزوں سے توبہ کر لیں اور مراقبہ حسب حال شروع کر دیں۔ وہ یہ ہے کہ جو مراقبۂ احدیت ہے وہ آپ کا لطیفۂ خفی پہ تھا تو اب لطیفۂ سر والا شروع کر دیں، جب وہ ٹھیک ہو جائے تو پھر لطیفۂ خفی پہ جائیں گے ان شاء اللہ۔
سوال 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I hope you are well dear حضرت. I am فلاں from U.K Birmingham. I have these questions. What’s the way for a سالک to benefit from other علماء and مشائخ whilst not going against توحیدِ مطلب?
شیخ asked his پیر regarding شرعی مسائل. They do not pertain to تصوف or is he allowed to ask any reliable عالم about such مسائل freely? I do understand اردو.
جواب:
ماشاءاللہ توحیدِ مطلب یہ ہے کہ تربیت میں کسی ایک شیخ کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لینا، انقیاد اس کو کہتے ہیں۔ اور اس کا اعتقاد کہ مجھے فائدہ ادھر ہی سے ہو گا یہ تو ہے تصوف سے متعلق اور تربیت کے متعلق۔ جہاں تک تعلیم کے متعلق بات ہے تو تعلیم آپ کہیں سے بھی لے سکتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ہزاروں تھے چار ہزار کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں اور شیخ ایک تھا۔ تو اسی طریقے سے شیخ ایک ہونا چاہیے اس کو توحیدِ مطلب کہتے ہیں۔ اور وہ یہی ہے کہ آپ کو صرف شیخ سے ہی تصوف سے متعلق معلومات لینی چاہٸیں اور اس کے زیر تربیت رہنا چاہیے، اس کے ساتھ ہی رابطہ رکھیں۔ البتہ جو علمی مسائل ہیں وہ آپ کسی بھی عالم سے معلوم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ تو آپ کہیں سے بھی معلوم کر سکتے ہیں کتاب سے بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ مشائخ کی جو بات ہے کہ from the other مشائخ۔ تو مشائخ کی صحبت میں آپ صحبت صالحین کی نیت سے بیٹھ سکتے ہیں تربیت کی نیت سے نہیں۔ تربیت آپ کی ایک شیخ سے ہو گی البتہ صحبت صالحین کے لیے آپ کسی اور شیخ کے پاس بیٹھ سکتے ہیں اگر وہ شیخ کو بتائیں کہ فلاں کے ساتھ بیٹھ رہا ہوں تو وہ زیادہ مفید ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں جن کا طریقہ ذرا آپ کے شیخ سے مختلف ہو گا تو اس سے پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک طبیعت پہ یا انقباض آتا ہے یا پھر تشویش لاحق ہو جاتی ہے، اشکالات پیدا ہوتے ہیں، اس وجہ سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اگر شیخ کے علم میں ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے لیکن علمی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ اگر علماء کی صحبت میں بیٹھتے ہیں علمی لحاظ سے تو پھر اس پہ کوئی اشکال نہیں ہے۔
سوال 14:
Dear حضرت beside the above questions, I wanted to share with you the strange experience I had during my ۔معمولات yesterday. I was doing my اصلاحی ذکر with a lot of focus on اللہ and my حال became like crying abruptly during my ۔ذکر I started hearing a voice eco faintly repeating what it was saying in ذکر. I could only hear this voice in my right ear. This scared me and slightly caused me to panic and caused my concentration to go all over the place. This voice lasted for a while during the ذکر perhaps a minute long. I think that once my focus due to the fear mood was away from اللہ I think the voice went away too. I did manage to complete the rest of the ذکر.
Answer:
آپ ان چیزوں کی طرف توجہ نہ دیں یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں یہ درمیان میں ہوتے رہتے ہیں، کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ نہ اس کی طرف توجہ دیں اور نہ اس کی وجہ سے ذکر کو روکا کریں۔ یہ تو ماشاء اللہ experiences ہوتے رہیں گے لہذا آپ اپنا ذکر جاری رکھیں۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ محسوس ہوتا ہے تو اگر وہ اچھی بات ہے تو محمود سمجھیں اور اگر اچھا نہیں ہے تو اس کی طرف توجہ نہ کریں اور بس اپنے ذکر کی طرف ذہن رکھیں۔
Question 15:
Respected حضرت I also wanted to request دعا for my wife as we are okay۔
Answer:
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ help you in this regard and make all the things easy for you.
آڈیو سوال کا جواب:
شائد بہت وقت گزرنے کی وجہ سے آپ کو کچھ اصول یاد نہیں رہے اور میں سب کو بتا چکا ہوں کہ سوال و جواب کے session میں کوئی ایسی audio نہ بھیجا کریں بالخصوص ladies کے لیے ضروری ہے کیونکہ ladies کی آواز بھی ستر ہے تو میں ادھر سنا تو نہیں سکتا تو اس لیے صرف text ہی بھیجا کریں۔ text سے دو فائدے ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ مجھے سارا سامنا ہوتا ہے لہذا میں بہت جلدی پڑھ لیتا ہوں اور اس میں جو مطلب کی بات ہے وہ مجھے نظر آ جاتی ہے جبکہ audio پوری سننی پڑتی ہے۔ تو اب اگر میں audio سنتا نہیں ہوں تو پھر پورا جواب نہیں ملتا اور اگر audio سنتا ہوں تو مسئلہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان سنوں تو پھر ear phone لگانا پڑتا ہے مطلب تردد ہے کافی، اس وجہ سے آئندہ کے لیے یہ سبق یاد رکھیں کہ کوئی audio وغیرہ نہ بھیجا کریں۔ ایک بات۔ چونکہ میں اس کو سن چکا ہوں لہذا میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کا چڑچڑا پن اگرچہ justified ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں لیکن یوں سمجھ لیجئے کہ ایک کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔ لہذا جنہوں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کی سزا آپ اپنے شوہر کو نہ دیں اور اس طرح کر لیں کہ آپ ان کے ساتھ اچھے تعلق کو اور بڑھائیں، تاکہ وہ آپ کی help کریں اور دوسری طرف یہ بات ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کریں اور اللہ پر بھروسہ کریں۔ اور اس کو اپنے لیے ایک غیر اختیاری اور اضطراری مجاہدہ سمجھیں جس کے ذریعے سے ان شاء اللہ آپ کو روحانی ترقی ہو گی تو اس موقع کو آپ ضائع نہ کریں اور بلاوجہ چڑچڑے پن کی وجہ سے اپنے جو اچھے حالات ہیں ان کو برے حالات میں تبدیل نہ کریں۔
سوال 16:
السلام علیکم!
فلاں here. One more month of meditation is completed. Meditation was 15 minutes لطیفۂ روح and 15 minutes لطیفۂ قلب in which ذکر of اللہ has to be felt۔ I do feel ذکر for three to four minutes in لطیفۂ قلب and four to five minutes in لطیفۂ روح.
ذکر is continued as well. Three days were skipped. Should I continue with this?
Answer:
Yes of course you should continue this because you have to feel it for the full time. It means ten minutes and fifteen minutes. So fifteen minutes for both. So then ان شاء اللہ we should be able to change. You should continue it at this time.
سوال 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا لطیفۂ قلب پر پندرہ منٹ اللہ اللہ کا ذکر کا معمول ہے کافی عرصہ ہوا لیکن محسوس نہیں ہو رہا۔
جواب:
کوئی بات نہیں یہ کوئی ایک راستہ تھوڑا ہے بہت سارے راستے ہیں جیسے لاہور کو جاتے ہیں تو اس وجہ سے ہم صرف ایک راستے کو نہیں بتاتے۔ آپ اس طرح کر لیں کہ بجائے لطیفۂ قلب پر پندرہ منٹ اللہ اللہ کرنے کے آپ زبانی طور پر اللہ اللہ کا ذکر ایک ہزار مرتبہ کر لیا کریں اور ساتھ ہی محسوس کیا کریں کہ میرا دل بھی اس کے ساتھ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ ایک مہینہ کرنے کے بعد پھر مجھے اطلاع کر دیجئے ان شاء اللہ۔
Question 18:
This week سلوک سلیمانی مجلس
This week سلوک سلیمانی مجلس was extremely powerful, important and beneficial regarding ہمت، استقامت time management ذرائع and مقاصد.
حضرت والا also touched upon حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ being a bridge between چشتی and نقشبندی سلوک.
حضرت والا you mention that those things in چشتی that needed اصلاح it was fine through نقشبندی and those things that needed اصلاح in نقشبندی was fine through چشتی. This point please need some more explanation for us خدام so that no one misunderstands this and we can learn from you by actual examples of how these مبارک silsila have helped each other.
جواب:
ماشاء اللہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہوا ہے ہم پر کہ ہم لوگ ایسے سلسلہ میں ہیں جہاں practically نقشبندیت بھی ہے اور چشتیت بھی ہے۔ یہ دو بہت بڑے سلسلے ہیں اصلاحی۔ نقشبندی حضرات کا جو سلوک کا طریقہ ہے وہ جذب کو ابتدا میں شروع کر کے پھر سلوک پہ لاتے ہیں اور اس سلوک کے بعد پھر جذب وہبی عطا ہوتا ہے، پہلے جذب کسبی پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد سلوک طے کرایا جاتا ہے، اس کے ذریعے سے پھر سلوک کے طے کرنے کے نتیجے میں جذب وہبی عطا ہوتا ہے۔ اور چشتی طریقے میں براہ راست سلوک سے شروع کرایا جاتا تھا اور اس سے جذب وہبی ہوا کرتا تھا۔ تو اب نقشبندی طریقے سے یہ فائدہ ہوا کہ چونکہ آج کل لوگوں میں شوق کم ہے نتیجتاً نقشبندی طریقے سے استفادہ کیا گیا اور ذکر کے ذریعے سے اگرچہ وہ ذکر جہری ہے، لیکن ذکر کے ذریعے سے ابتدا کروائی گئی جو کہ دل پر ہی محنت ہے۔ کیونکہ ذکر کے ذریعے سے دل بنتا ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کے لیے ایک صقالہ ہوتا ہے (صفائی کا آلہ ہوتا ہے)، دلوں کے لیے صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے۔ تو گویا کہ خفی ذکر ہو یا جہری ذکر ہو جس قسم کا بھی ذکر ہو اس کا اثر دل پر پڑے گا۔ اصلاحی ذکر کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اس وجہ سے یہ ہمارے چشتی حضرات نے بھی ابتدا میں ذکر دینا شروع کیا۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں بھی ابتدا میں ذکر دینا شروع کر لیا اس سے ماشاء اللہ طبیعت میں نرمی آگئی اور سلوک کے مجاہدات طے کرنا آسان ہو گیے۔ یہ تو نقشبندیت سے گویا کہ چشتیت کو فائدہ ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نقشبندی حضرات میں ایک وقار ہوتا ہے یعنی وہ mixing زیادہ نہیں کرتے اور چشتیت میں فدائیت ہے وہ اپنے آپ کی پرواہ نہیں کرتے۔
عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی، یحییٰ علیہ السلام بہت روتے تھے اور اتنا روتے تھے کہ ان کے رخسار مبارک پر آنسوؤں کی وجہ سے لکیریں بن گئی تھیں اور ان کی والدہ محترمہ اس کے اوپر پھاہے رکھتی تھیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام متبسم تھے مطلب ہے کہ طبیعت خوش اور ہشاش بشاش تھی۔ تو یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسرے سے کہا یعنی پہل کس نے کی مجھے نہیں معلوم لیکن بہرحال یحییٰ علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ اللہ پاک کے ڈر سے مستغنی ہو گیے جو آپ اس طرح ہنستے ہیں، تو عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا آپ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہو گیے ہیں کہ اس طرح روتے ہیں۔ اب یہ اپنے اپنے مزاج تھے تو فرشتہ آ گیا ان کے درمیان محاکمہ کرنے کے لیے۔ اس نے کہا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے عیسیٰ تم دن کے وقت تو ایسے رہو جیسے اب ہو لیکن رات کے وقت ایسا بن جانا جیسے یحییٰ علیہ السلام ہیں۔ اور یحیی علیہ السلام سے کہا کہ تم رات کے وقت تو ایسے رہو جیسے اب ہو دن کے وقت ایسے بن جانا جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہیں تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جمع فرما دیا۔ اس طریقے سے کئی دفعہ ایسا ہوا ہے مختلف مزاجوں کو جمع کیا گیا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہری تلاوت کرتے کہ شیطان کو بھگاتا ہوں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت کرتے تھے آہستہ کہ اللہ پاک تو ہر ایک چیز سنتا ہے یعنی باریک چھپی ہوئی آواز بھی سنتا ہے تو پھر ان کے درمیان آپ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ نہ اتنا زیادہ ہو اور نہ اتنا کم ہو مطلب درمیان میں ہو۔ تو وہاں پر بھی درمیان پر ہی فیصلہ ہوا۔
یہاں پر بھی یہ ہوا کہ چونکہ ولولہ انگیزی چشتیت میں تھی، فدائیت اور وقار نقشبندی میں سبحان اللہ، اس وجہ سے نقشبندی حضرات میں بہت سارے علماء تھے اور چشتی حضرات میں بہت سارے فدائین تھے۔ تو اللہ پاک نے جب ان دونوں کو جمع کیا تو فدائین علماء پیدا ہو گیے سبحان اللہ۔ جس کو کہتے ہیں دیوبند، دیوبند ان دونوں کا مجموعہ ہے یعنی دیوبند والے حضرات ایسے تھے کہ وہ ایک وقت میں فدائین کا رول ادا کرتے تھے اور دوسرے وقت میں پُر وقار بن جاتے تھے۔ اس طرح بہت ساری چیزیں جو تھیں نقشبندیت کی وہ چشتیت نے لے لیں مثلاً یہ ذکر جہری جو ہے یہ چشتیوں سے نقشبندی حضرات نے سیکھ لیا کہ بعض مقامات میں جہری ذکر کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آج کل کے دور میں مراقبات سے ابتدا کرنا بڑا مشکل ہے کیونکہ انتشار ذہنی بہت زیادہ ہے تو اس کے لیے پھر جو ان چیزوں کو نہیں مانتے تو وہ پھر اور techiques استعمال کرتے ہیں اور technique کیا ہے کہ کبھی شاعری سناتے ہیں جس کی وجہ سے جذبہ دلاتے ہیں اور ان میں حرکت پیدا کرتے ہیں۔ یا پھر توجہ سے کام لیتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں وقتی ہیں چاہے شاعری کے ذریعے سے آپ ان کو مجلس میں گرما دیں یا پھر آپ توجہ کے ذریعے سے ان کو گرما دیں تو یہ انعکاسی فیض ہے۔ لہذا یہ اس وقت ہو گا بعد میں نہیں رہے گا جبکہ ذکر جہری اگر کسی کو دیا جائے اور اس کے ذریعے سے اگر ان کو گرما دیا جائے تو ان کے ساتھ ہے، وہ جہاں پر بھی ذکر کرے گا تو اس کے ساتھ ہی ہو گا۔ تو اس وجہ سے ذکر جہری سے صلاحیت پیدا ہو جائے۔ جیسے پنکھا چلتا ہے تو پنکھا چلنے سے ہم لوگ اس کے شور کے عادی ہو جاتے ہیں تو ہمیں پھر باہر کے شور کا پتا نہیں چلتا تو وہ باہر کے شور سے یکسوئی ہو جاتی ہے۔ اگر بجلی چلی جائے پھر پتہ چلتا ہے اوہ باہر تو بڑا شور ہے۔ تو اس طریقے سے ذکر جہری بذات خود یکسوئی پیدا کرنے والا ہے، اس یکسوئی سے پھر آپ مراقبات پہ چلیں اس میں فائدہ حاصل ہو گیا۔ تو چشتیت سے نقشبندیت کو فائدہ ہوا اور نقشبندیت سے چشتیت کو فائدہ ہوا، دونوں چیزیں آپس میں ایک چیز پر جمع ہو گئیں۔ اور بہت ساری باتیں اس میں آپ بیان کر سکتے ہیں۔
پھر ایک بات بڑی ہے کہ نقشبندی حضرات کی کچھ چیزیں ایسی تھیں جو ان کے بزرگوں نے اس وقت کے حالات کے مطابق شروع کی تھیں، جس کی بعد میں ضرورت نہیں رہی تو چشتیت کے ملنے کی وجہ سے سبحان اللہ ان کا بر وقت پتہ چل گیا اور وہ چیزیں پھر نہیں رہیں، جیسے توجہ کی بات ہے یہ ایک سطحی چیز ہے، ایک وقتی چیز ہے تو چشتی حضرات کے ہاں یہ توجہات نہیں ہیں بلکہ وہ حضرات فرماتے ہیں کہ دعا قلبی یہ توجہ ہے۔ قلبی دعا میں اللہ پر ہی نظر ہوتی ہے، کسی مخلوق پر تو نظر نہیں ہوتی، لہذا نقصان بھی نہیں ہوتا توجہ کرنے والے کو اور دوسرا ان کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ﴿فادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (غافر: 60) پر عمل ہو گیا اللہ پاک نے اس کا کام کر دیا لہذا کام ان کا ہو گیا تو بہت ساری چیزوں کی اصلاح ہو گئی اور ادھر سے چشتیوں کی بھی اصلاح ہو گئی۔ ان دونوں مبارک سلسلوں کے آپس میں اجتماع سے ہمارا بہت فائدہ ہوا۔
Question 19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I hope حضرت is well and the family. الحمد للہ I have completed my معمولات for the month without missing a day. These aamaals are:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200
لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400
حَقْ 600
اَللہ 500
الحمد للہ the effect of this ذکر is wanting to do things for اللہ and wanting اللہ, living for اللہ, always wanting to please اللہ, always being in world in which my اللہ will be happy with me جزاک اللہ خیرا.
حضرت for your guidance and I humbly request for حضرت
توجہ and دعا. Could حضرت please explain in English regarding the combination of the چشتی and نقشبندی and حضرت حاجی امداد اللہ being a bridge. It's very interesting but I didn't understand fully.
Answer:
Yes of course you are right because I have explained this in Urdu.
ماشاءاللہ now you have to do
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200
لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400
حَقْ 600
اَللہ 300
ان شاء اللہ for the next month. And the combination of چشتی and نقشبندی what I could understand is this that چشتی has فدائیت. It means they are all the time ready to sacrifice themselves for اللہ سبحانہ و تعالیٰ and becoming مجاھدین because of them and also sacrifice of the wishes for the sake of اللہ. So, this is needed in سلوک and the نقشبندی حضرات has وقار. It means this status-consciousness to be at a distance from مریدین to grant them فیض but not be influenced by them. So this was also required at that time and for some people it is good. So the combination of this چشتی and نقشبندی has brought such people. Because of this, علماء were interested in نقشبندی سلسلہ and عوام were interested in چشتی سلسلہ. So, because of this combination الحمد للہ both عوام and علماء came to the same سلسلہ which was combination of چشتی and نقشبندی. And those علماء who got this message, they came to this combination and دیوبند came into existence. So because of this, دیوبند was best and the concept of حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ teachings. And there are some different things also involved for example, ذکر جہری and ذکر قلبی. So because we know that in چشتی سلسلہ the start was from سلوک and after that جذب وہبی would be obtained and in نقشبندی سلوک first, we start from جذب and then we go to سلوک and then جذب وہبی comes. So this was at that time used in نقشبندی سلسلہ only. After this combination people came to know that now those people who do not have that much zeel for starting سلوک independently, there should be some start for them. So this start was gained by having ذکر. So they also started ذکر in the start. So, by doing ذکر that جذب is attained which brings them to the سلوک easily. So this was obtained from نقشبندی سلوک and چشتی حضرات got this. But on the other hand, as مراقبہ became very much difficult to start with at this time because of انتشار ذهنی you can say, many things coming to the mind nowadays, because the information you can say, storm, is there all the time in the mind, so to break this, we have to focus ourselves. So just as the fan is running and there is noise because of that and that noise takes us away from the noise outside and with that noise we are habitual, so there, if we don’t feel it, so this brings sort of focus to the things. So in this way چشتی نقشبندی حضرات started ذکر جہری and by that ذکر جہری they get focused on the مراقبات and after that, they can do the مراقبات easily. So, through the combination, it became very easy for both the نقشبندی سلوک and for the چشتی سلوک and we are الحمد للہ benefiting from it and there are many other things but this time I think this is enough.
سوال 20:
السلام علیکم حضرت جی یہ ہفتہ روٹین میں گزرا الحمد للہ نمازیں ادا ہو رہی ہیں، کوئی خاص جوش و ولولہ محسوس نہیں ہو رہا۔ غیر معمولی معاملہ ایک یہ ہوا ہے کہ دو میاں بیوی کے درمیان صلح کروائی، کروا کے اپنے گھر لایا ہوں جو میرا محرم رشتہ ہے اور معاملے میں کچھ تنقید کا نشانہ بھی بنا ہوں، دل اس پر مطمئن ہے کہ شوہر کی رضا مندی سے لایا ہوں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ناراضگی سے لایا تھا۔ آپ کے حکم اور رہنمائی کا منتظر؟
جواب:
سبحان اللہ میاں بیوی کے درمیان صلح کرانا یہ انتہائی محبوب چیز ہے اللہ پاک کے ہاں، کیوں کہ شیطان کو یہ سب سے زیادہ نا پسند ہے تو اس کا جو opposite ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اگر کوئی اور غلطی اس میں نہ ہو یا کوئی اور جرم وغیرہ نہ ہو تو پھر کوئی بات نہیں پھر ایسی باتوں پہ انسان کو عمل کرنا چاہیے۔ صلح کی باتیں اللہ پاک کو پسند ہیں باقی جوش و ولولہ ضروری نہیں ہے یہ تو کیفیات ہیں جبکہ اصل چیز تو ملکات ہیں تو وہ حاصل کرنے کے لیے آپ محنت کر رہے ہیں ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازے۔
سوال 21:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت یہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں جب کسی کو مخاطب کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اے محبت کے نشان والے اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
تھوڑی سی اصلاح اس میں بھی ہے ”یہ“ لفظ کچھ بے ادبی کی طرف جا رہا ہے "حضرت یہ مجدد الف ثانی"۔ جیسے ہم کہتے ہیں یہ آدمی اس طرح کام کر رہا ہے، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑی ہستی ہیں ان کے بارے میں ہم تھوڑا سا محتاط رہیں۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے تو اے محبت کے نشان والے کا مطلب ہے جو محبت کرتا ہو اور محبت سے چلتا ہو تو یہ محبت کے نشان والے ہیں۔
سوال 22:
اور دوسرا یہ کہ جب بھی آپ مکتوب پڑھتے ہیں یا مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی بات کرتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہی بات کر رہے ہوں۔
جواب:
سبحان اللہ یہ آپ کا حسن ظن ہے اللہ تعالیٰ اس کو اور بھی بڑھا دے اس سے آپ کو فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔
سوال 23:
اسی طرح جب کوئی واقعہ سناتے ہیں کسی کا بھی مولانا اشرف علی رحمۃ اللہ علیہ یا مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ یا کسی بھی بزرگ کا تو اس وقت مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ یا مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بول رہے ہیں۔
جواب:
یہ آپ کا حسن ظن ہے الحمد للہ۔
سوال 24:
یہاں تک کہ جب آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی کوئی بات بتاتے ہیں کہ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو مجھے اس وقت لگتا ہے کہ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک بات فرما رہے ہیں ایسے انداز میں کہا ہو گا تو آپ نے ایک دفعہ واقعہ سنایا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی بھی آواز سن لی تھی کہ اے چیونٹیو سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے آ رہے ہیں اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ تو جس لہجے میں آپ نے بولا کہ اے چیونٹیو! تو مجھے ایسے لگا جیسے کہ چیونٹیوں نے ایسے ہی بولا ہو گا حضرت ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے؟ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو۔
جواب:
یہ محبت کی بات ہے، شیخ کے ساتھ محبت بہت بڑی دولت ہے تو چونکہ یہ محبت کی علامت ہے لہذا یہ خیر کی بات ہے اور شیخ کے ساتھ محبت اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
سوال 25:
حضرت آپ کا حکم سر آنکھوں پہ یہ جو دوسرا ذکر آپ نے بتایا کیا آنکھیں بند کر کے مراقبہ کی position میں کرنا ہے؟ اور زبان سے کرنا ہے یا دل میں؟ اور back pain کی وجہ سے کسی دوسری پوزیشن میں بھی کر سکتا ہوں کیا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ توجہ اور یکسوئی کے لیے جو قلبی ذکر ہوتا ہے وہ آنکھیں بند کر کے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ویسے اصل توجہ اگر پکی ہو جائے تو پھر تو انسان گاڑی کے ساتھ لٹک کے بھی جا رہا ہو تو مراقبہ کر سکتا ہے اور اس وقت واقعی ہونا بھی اس طرح چاہیے کیوں کہ عین جہاد میں انسان کو اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ تب ہو سکے گا جب اس کا مراقبہ پکا ہو گا۔ بہرحال ابتداء میں ایسا نہیں ہوتا تو ابتداء میں ذرا step by step جانا ہوتا ہے تو آنکھیں بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر آپ یکسوئی کہ ساتھ توجہ کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ باقی back pain وغیرہ ہو تو دوسری position میں بھی کر سکتے ہیں، جس position میں آپ کا مراقبہ زیادہ بہتر ہو سکتا ہو اس position میں آپ کر لیا کریں اگر معذوری ہے، ورنہ اسی طرح کریں جس طرح کہ عام لوگ کرتے ہیں اس میں زیادہ فائدہ ہے۔ باقی آپ نے جو emoji لگائے ہیں تو ہمارے ہاں اس چیز پر پابندی ہے ہم emoji استعمال نہیں کرتے کیوں کہ یہ تصویر کی طرح ہیں۔ exactly اگر تصویر نہ بھی ہو تو تصویر کی طرح ہے کیونکہ یہ چہرہ ہے اور یہ چہرہ والا حصہ آپ نے دکھایا ہے تو آئندہ اس سے احتیاط کریں۔
سوال 26:
میں پشاور سے فلاں message کر رہی ہوں۔ میں آپ سے بیعت بھی ہوں میں نے پہلا وظیفہ پورا کر لیا ہے اب آگے کا کیا ہے؟ تین بار میں نے فون کی کوشش کی مگر میں نہیں کر پائی اس لیے چپ ہو گئی۔
جواب:
اصل میں ٹائم پر اگر کیا ہے تو پھر تو ان شاء اللہ نہیں ہو گا البتہ عین ممکن ہے کہ کسی وقت میں available نہیں ہوں تو پھر ظاہر ہے کہ وہ موبائل پر کرنا ہوتا ہے لیکن بہرحال جیسے بھی آپ کے ساتھ ہوا اس کا تو مجھے پتا نہیں ہے۔ پہلا وظیفہ واقعی اگر آپ نے پورا کر لیا ہے تو چونکہ آپ عورت ہیں اس وجہ سے میں آپ کو اگلا نصاب دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ آپ عمر بھر کے لیے کریں گی اور دس منٹ کے لیے قبلہ رخ بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے زبان کو تالو کے ساتھ لگا کے آپ نے سوچنا ہے کہ جیسے ساری چیزیں اللہ اللہ کر رہی ہیں اس طرح میرا دل بھی کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں۔ آپ نے سننے کی کوشش کرنی ہے کروانے کی نہیں۔ یہ دس منٹ کے لیے آپ نے روزانہ بیٹھنا ہے ایک خاص وقت مقرر کر کے ایک مہینہ ان شاء اللہ آپ نے کرنا ہے۔
سوال 27:
السلام علیکم حضرت جی ہمارے مدرسے کے ایک استاد جی اپنے شاگردوں کو اپنے شیخ کی خانقاہ میں سہ روزہ کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ باقی شاگرد جاتے ہیں کبھی کبھار، لیکن میں کبھی نہیں گیا۔ شیخ بھی سال میں ایک دو بار اسلام آباد آتے ہیں اس بارے میں آپ رہنمائی کریں کہ کسی اور شیخ کی مجلس میں جانے کی دعوت قبول کرنا چاہیے اپنے استاد سے، یا اجتناب کرنا چاہیے یا کوئی اور مناسب بات؟
جواب:
اصل میں تعلیم تو ہر جگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے جیسے آپ اس استاد سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں بالکل ٹھیک ہے تعلیم آپ ہر جگہ سے حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جو تربیت ہے وہ کسی ایک شیخ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ سہ روزہ لگانے کے لیے تربیت کے لیے جانا ہوتا ہے لہذا آپ اس کے بارے میں یوں کہہ دیں کہ میں پہلے سے ایک شیخ سے بیعت ہوں اور ان کے ہاں جاتا ہوں تو میرے لیے وہ کافی ہیں بہرحال تعلیم تو میں آپ سے حاصل کر لیا کروں گا۔ ادب کے ساتھ ان سے بات کر لیں ان شاء اللہ وہ محسوس نہیں کریں گے۔
سوال 27:
حضرت!
I have the last question: Who started the 35 اسباق in the نقشبندی سلسلہ ?
جواب:
Brother! as far as نقشبندی سلوک is concerned, it’s coming from حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ and there were few اسباق in that. After that, some اسباق were added by حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ and then after that most modifications were done by حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ. But he guided the people in such a way that things were going to develop. But one thing, that as far as 35 اسباق are concerned so in this, one thing should be considered that:
حقیقتِ موسیٰ، حقیقتِ عیسیٰ، حقیقت محمدی، حقیقت احمدی
these حقائق which are actually مراقبات either we should go through this or we should go through
حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ صلوۃ، حقیقتِ قرآن.
By this there is an option. There are some people who are using 35 اسباق. They are doing this sequentially not parallelly. So it is not sequential, it is parallel. Either you should go this way or you should go that way. These all اسباق are only for جذب. So if جذب is attained at any stage, we should shift to سلوک to complete 10 مقامات of سلوک as guided by حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ because the target is سلوک. Target is not جذب .جذب is only the means for attaining سلوک. So at any stage, if جذب is attained even at the first stage, then we should shift to the سلوک because that is must and we have to complete all the ten مقاماتِ سلوک. So this is what we learned from مکتوب no. 287 of حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant him too much اجر for this.
So I think we have completed one section and let's check whether there is something to answer in the next whatsapp group.
Question 28:
One brother from France ask us, can you please tell me the way of doing صلاۃ الحاجۃ, salat of need and what can be the best دعا after it?
Answer:
صلاۃ حاجت is done for some need as you express. The procedure is that you have to offer just two رکعت صلاۃ with the intention of صلاۃِ حاجۃ. The only فرق difference is the intention. No difference at all in the صلاۃ. It's the same نفل. So you can perform this, you can perform this.
So it is the same نفل with the intention of صلاۃِ حاجۃ and after that you can ask the best دعا which is دعا for ہدایت. As far as the life hereafter is concerned so the best دعا is ہدایت
﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡن﴾(الفاتحۃ: 5-6)
and for دنیا عافیت
"اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"
very very good combination. So this way ان شاء اللہ and you can ask anything you need from اللہ سبحانہ و تعالیٰ after this and also ask for us as well for the ہدایت and عافیت.
سوال 29:
السلام علیکم! پیر صاحب وقاص بات کر رہا ہوں۔ آپ کے ساتھ پہلے بھی communication ہوئی ہے دو تین دفعہ میں نے والد اور والدہ کو بیعت کروایا تھا نعمان عاشر صاحب کے حوالے سے تو ان کا آپ نے کوئی ورد بتایا تھا اسی whatsapp communication میں موجود ہے تو آج اس کو ایک مہینہ complete ہو گیا ہے۔
جواب:
نمبر میں نے بتا دیا ہے کہ آئندہ اس نمبر پر پوچھا کریں کیونکہ یہ سوال و جواب کا نمبر ہے اور آپ جس نمبر پہ رابطہ کر رہے ہیں پھر اس پہ بڑا junk ہوتا ہے بہت سارے اس پہ message آتے ہیں تو گم ہو جاتے ہیں آئندہ کے لیے اس وجہ سے احتیاط کر لیں۔ اور ابھی میں بتا دیتا ہوں کہ اپنے والد کو بتا دیں کہ اب تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ سو سو دفعہ روزانہ کرنا ہے اور پھر اس کے ساتھ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 100 دفعہ جہری اور لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو سو دفعہ اور حَقْ سو دفعہ اور اَللہ سو دفعہ۔ یہ آپ نے ان کو بتانا ہے کہ ایک مہینہ وہ اس کو کریں اور نماز کے بعد والا ذکر بھی اسی طرح جاری رکھیں۔ ایک مہینے کے بعد پھر بتانا ہے اور جو والدہ ہیں ان کو یہ بتانا ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار تو وہ بھی سو سو دفعہ عمر بھر کریں اور نماز کے بعد والا بھی عمر بھر کریں، البتہ مزید یہ کہ قبلہ رخ بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے زبان تالو سے لگا کے یہ سوچیں دس منٹ کے لیے کہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے تو میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں۔ بس اس کو سننے میں گم ہو جائیں اور یہ تقریباً دس منٹ روزانہ اس طرح کریں اور ایک مہینہ کے بعد مجھے اطلاع کر دیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر پر جمع فرما دیں (آمین)
وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ