عنوانات:
1- سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے فضائل۔
2- طریقۂ نقشبندیہ مجددیہ کی بعض تفصیلات۔
3- طریقۂ ذکر کی تعلیم اور دیگر نصائح۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے فضائل:
دفتر اول مکتوب نمبر 58 میں سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ کرام قدس اللہ تعالی اسرارہم نے دوسرے سلسلوں کے مشائخ کرام قدس اللہ تعالی اسرارہم کے بر خلاف اس سیر کی ابتداء عالم امر سے اختیار کی ہے اور عالم خلق کو بھی اسی سیر کے ضمن میں طے کر لیتے ہیں اسی لئے طریقہ نقشبندیہ سب طریقوں سے اقرب ہوا یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان کی ابتدا میں درج ہو گئی ہے۔ مصرعہ
قیاس کن زِ گلستانِ من بہار مرا
(ترجمہ: قیاس کر میرے گلشن سے تو بہار مری)
ان بزرگوں کا طریقہ بعینہ اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے کیونکہ ان حضرات (اصحاب کرامؓ) کو حضرت خیر البشر علیہ وعلی آلہ الصلوات و التسلیمات کی پہلی ہی صحبت میں انتہا کے ابتدا میں درج ہونے کے طریق پر وہ کمال حاصل ہو جاتا تھا جو امّت کے کامل اولیاء اللہ کو انتہا میں بھی شاذ و نادر ہی حاصل ہوتا ہے، اسی لئے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) کا قاتل وحشی جو ایک ہی مرتبہ حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا خواجہ اویس قرنی رحمہ اللہ سے جو کہ تابعین میں سب سے بہتر ہیں (کئی درجہ) افضل ہے۔۔۔۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ (یعنی ان دونوں میں کون افضل ہے) تو آپ نے فرمایا "وہ گرد و غبار جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے سفر میں) امیر معاویہؓ کے گھوڑے کی ناک میں پڑی ہے وہ عمر بن عبد العزیزؓ سے کئی درجہ بہتر ہے"پس سوچنا چاہئے کہ جس گروہ کی ابتدا میں دوسروں کی انتہا درج ہو تو ان کی انتہا کہاں تک ہو گی اور دوسروں کی علم وفہم میں کس طرح سمائے گی۔ ﴿وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ﴾ (المدثر:31) (تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا)۔؎
قاصرے گرکند ایں طائفہ راطعن و قصور
حاش للہ کہ برآ رم بزباں این گلہ را
ہمہ شیرانِ جہاں بستہ ایں سلسلہ اند
رو بہ از حیلہ چساں بگلسد ایں سلسلہ را
(ترجمہ) اگر کوئی ناداں کرے طعن اس گروہ ِ پاک پر
حاش للہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گِلہ
کل جہاں کے شیر وابستہ ہیں اس زنجیر سے
لومڑی توڑے گی کیونکر مکر سے یہ سلسلہ
تشریح:
پچھلے درس میں اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی، لہٰذا آج اسی کے تسلسل میں مزید کچھ بات عرض کروں گا۔ ہندوستان میں نقشبندی سلسلہ نیا تھا جبکہ باقی سلاسل پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ جیسے میں پچھلی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ سہروردیہ سلسلہ تو عین خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیه کے وقت سے ہی چلا آ رہا تھا کیونکہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیه (ملتان میں جن کا مزار ہے) حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ وہ بالکل ابتدا میں خلافت حاصل کر کے ملتان پہنچے تھے، لہٰذا وہ سلسلہ ابتدا سے اِدھر آیا ہوا ہے اور قادری سلسلہ کے شیخ عبد القادر جیلانی ثانی رحمة اللہ علیه، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ثالث رحمة اللہ علیه اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رابع رحمة اللہ علیه، تینوں اُوچ شریف میں تھے۔ ان حضرات کے مزار اوچ شریف میں ہیں۔ چنانچہ قادری سلسلہ بھی ابتدا سے ہی یہاں پر (ہند و پاک میں) موجود ہے اور چشتی سلسلہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس سلسلہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیه بذات خود ہندوستان میں تشریف لائے ہیں، بلکہ ہندوستان میں اسلام داخل ہی انہی کے ذریعہ سے ہوا ہے، کیونکہ ان کے ذریعہ سے نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ نوے لاکھ لوگ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے مسلمان کئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باقی سلاسل پہلے سے چلے آ رہے تھے جبکہ نقشبندی سلسلہ یہاں نیا تھا۔
نقشبندی سلسلہ کی کچھ خصوصی برکات ہیں۔ یہاں پر ان سے کام لیا جانا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ عین اس کی ضرورت سے بس کچھ ہی پہلے یہاں پہنچا دیا۔ خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیه ما وراء النہر وسطی ایشیا کے تھے۔ حضرت غیبی اشارے پر یہاں ہندوستان میں تشریف لائے اور 49 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ بہت جلدی فوت ہوئے لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه کو چشتیہ کی نسبت اپنے والد سے ملی تھی جو چشتی سلسلہ کے بہت بڑے بزرگ تھے، حضرت مجدد صاحب کو قادری سلسلہ کی نسبت سکندر کیتلی رحمة اللہ علیه سے ملی تھی اور سلسلہ کبرویہ کی نسبت اپنے استاذ سے ملی تھی۔ چنانچہ حضرت کو پہلے سے تین سلسلوں کی نسبتیں عطا ہو چکی تھیں۔ پھر جب خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیه کی طرف آئے۔ خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیه یہاں اس سلسلہ کے تار و پود (تانے بانے) اکٹھے کر رہے تھے، انہوں نے کام حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کے حوالے کر دیا۔
جب کسی چیز کی ابتدا ہو رہی ہوتی ہے تو اس کا شوق بھی زیادہ ہوتا ہے اور اس کو جاری کرنے کے لئے کافی مہم بھی چلانی پڑتی ہے۔ اس لئے حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه، خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیه اور سلسلہ کے قریبی حضرات نے سلسلۂ نقشبندیہ کے فیوض و برکات بیان فرما دئیے۔ اس کے اصل فیوض و برکات تو اس وقت لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو سکے تھے، مگر بعد میں لوگوں کو پتا چل گیا کہ اس کی کیا برکات ہیں۔ حضرت نے جو برکات بیان کی ہیں، ان کی تشریح کی ضرورت ہے، بغیر تشریح کے انہیں سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔
حضرت مجدد الفِ ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کی ابتدا دوسروں کی انتہا کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب حضرت نے خود بیان فرمایا ہے۔ مکتوب نمبر 287 میں حضرت نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے اور اسی تناظر میں بیان فرمائی، جس طرح میں نے گذشتہ درس میں عرض کیا تھا۔ فرمایا: اصل میں ہوا یہ کہ گذشتہ سلسلے سلوک سے شروع ہوتے تھے، جس کو حضرت نے عالمِ خلق کے نام سے ذکر کیا ہے۔
عالمِ خلق کیا ہے؟ در اصل نفس عالمِ خلق میں ہوتا ہے۔ لطائفِ عشرہ میں سے پانچ عالمِ امر کے ہیں: قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ۔ اور پانچ لطائف عالمِ خلق کے ہیں۔ عالمِ خلق میں دو چیزیں ہوتی ہیں، نفس اور قالب، قالب سے مراد ہمارا جسم ہے، چار لطائف اس کے ہیں، آب، باد، آتش اور خاک، (ان کو پہلے چار عناصر کہتے تھے، اب طبیعتیں کہتے ہیں) اور ایک لطیفہ نفس کا ہے۔ یہ پانچ عالمِ خلق کے ہیں اور پہلے پانچ عالمِ امر کے ہیں۔ عالمِ امر کے لطائف کی جڑیں عرش سے متصل ہوتی ہیں اور سِرے اِدھر ہوتے ہیں۔ جب کہ عالمِ خلق یہیں پر ہی ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی حضرت کا صرف یہ مکتوب شریف پڑھ لے تو اِس کا نتیجہ کچھ اور نکالے گا۔ لیکن جو حضرت کے تمام مکتوبات شریفہ پڑھے گا، اس کو پتہ چلے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ حضرت کے سارے کے سارے مکتوبات شریفہ کا درس یہاں پر ہوا ہے۔ الحمد للہ! ایک مکتوب بھی نہیں رہا اور انہی مکتوبات کی روشنی میں اب یہ تعلیمات بیان کی جا رہی ہیں۔ چونکہ سارے مکتوبات شریفہ ہماری نظروں سے گذرے ہیں تو حضرت نے مختلف مکتوبات شریفہ میں جو comments اور تشریحات کی ہیں، وہ سب ہمارے سامنے ہیں، کوئی بھی دیکھنا چاہے تو وہ ہمارے پاس موجود ہیں۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عالمِ خلق کی جو بات فرمائی۔ لوگوں کے خیال میں عالمِ امر کی چیزیں بہت اونچی ہیں، لیکن حضرت نے مکتوبات شریفہ میں وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ اصل میں انسان کا سب کمال اس عنصرِ خاک سے ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ انسان عروج کے ذریعہ نزول کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اصل ترقی نزول میں ہے اور نزول عالمِ خلق میں ہے۔
نیز حضرت نے بدایت اور نہایت والی بات میں یہ بھی فرمایا کہ پہلے وقتوں میں باقی سلسلے براہِ راست عالمِ خلق سے ابتدا کرتے تھے (یعنی سلوک سے)، بعد کے لوگوں میں یہ استطاعت نہیں رہی کہ ِبراہ راست سلوک طے کر سکیں، وہ شوق نہیں رہا اور وہ محبت نہیں رہی، تو خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمة اللہ علیه نے اللہ تعالیٰ سے مانگا کہ اے اللہ! مجھے ایک ایسا طریقہ عطا فرما جو ڈائریکٹ قسم کا ہو اور بہ نسبت باقی طریقوں کے ذرا قریبی ہو، جس سے لوگوں کو فائدہ ہو۔ تو اللہ پاک نے ان کو یہ نقشبندی سلسلہ القاء فرما دیا۔ اس میں حضرت نقشبند کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں ”نہایت در بدایت درج مے کنم“ کہ میں نہایت کو بدایت میں درج کرتا ہوں۔
اب نہایت کو بدایت میں کیسے درج کرتے ہیں؟ اس کے بارے میں حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ چونکہ پہلے وقتوں میں سلوک سے ابتدا ہوتی تھی اور جذب پہ انتہا ہوتی تھی، سلوک کے طے ہونے کے بعد جذب ملتا تھا، ہم نے ایسا طریقہ دریافت کر لیا، جس کے ذریعہ سے جذب پہلے طاری کیا جا سکتا ہے۔ اس جذب سے مراد جذبِ کسبی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوب نمبر 287 میں بالکل وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ یہ ابتدا والا جذب صرف ظاہری طور پر ہے ورنہ حقیقی جذب وہی ہے جو بعد میں عطا ہوتا ہے، پہلا جذب جو طاری کیا جاتا ہے، اور بعد والا جذب جو عطا ہوتا ہے، ان دونوں میں نسبت نہیں ہے۔ اصل وہی ہے جو بعد میں ہوتا ہے، یہ ابتدا میں صرف ضرورتاً طاری کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کے لئے سلوک آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ لوہے سے کوئی چیز بنانا چاہیں، تو لوہے کو موڑے بغیر نہیں بنا سکتے، اس لئے پہلے لوہے کو گرم کیا جاتا ہے، نرم کیا جاتا ہے، جب وہ گرم ہو جاتا ہے، پھر آپ اس کو جس طرح بھی موڑنا چاہیں موڑ سکتے ہیں اور جب آپ اس کو موڑ لیتے ہیں، اس کے بعد وہ ٹھنڈا ہو جائے تو اسی حالت پہ رہ جاتا ہے اور اسی کو ہم کہتے ہیں کہ وہ چیز بن گئی۔
فرمایا کہ یہ جذبِ کسبی انسان کو سلوک کے لئے تیار کر لیتا ہے، وہ شوق و محبت اسے سلوک کے لئے تیار کر لیتا ہے۔ جس نے ہماری کتاب ’’حقیقتِ جذب و سلوک‘‘ پڑھی ہے اسے یہ چیزیں یاد آ رہی ہوں گی، جو میں کہہ رہا ہوں۔ جذبِ کسبی سے آدمی سلوک کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اور اس کا سلوک طے ہو جاتا ہے۔ فرمایا اصل چیز وہی سلوک طے کرنا ہی ہے، جو سلوک طے نہیں کرتا، صرف جذب ہی میں رہ جاتا ہے، اور اپنے آپ کو کامل سمجھ لیتا ہے تو وہ مجذوب متمکن ہے۔ ’’مجذوب متمکن‘‘ کی حضرت نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ وہ خود پہنچا ہے نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔ اور فرمایا کہ وہ راستے کا ڈاکو نہ بنے، بلکہ لوگوں کو ایسے کاملین کے پاس بھیجے جو منتہی مرجوع ہوں۔ یعنی منتہی بھی ہوں اور باقاعدہ ان کو مخلوق کی طرف موڑا گیا ہو، جن کا نزول کروایا گیا ہو۔ عروج والے لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے، نزول والے کر سکتے ہیں، کیونکہ نزول میں لوگوں سے باہم مناسبت ہوتی ہے، ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، ان کے احساسات وغیرہ سارا کچھ ان کو پتہ ہوتا ہے، جب کہ عروج والے کو نہیں پتہ ہوتا۔ عروج والا تو اپنی مستی کے عالم میں ہوتا ہے، وہ تو ان چیزوں کو کچھ سمجھتا ہی نہیں، وہ کیسے اصلاح کرے گا، وہ اصلاح نہیں کر سکتا، وہ اپنے عروج میں ہوتا ہے۔ جیسے اگر میں سعودیہ عرب جا رہا ہوں تو یہاں سے جہاز پہلے اڑے گا، پھر جب جدہ پہنچے گا تو وہاں اترے گا۔ اگر کوئی اتر نہیں سکا تو اس کو اڑنے کا کیا فائدہ ہوا، وہ تو بس اڑ ہی گیا لیکن اس کو اڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، نیچے اترنا لازمی ہے۔ اسی طرح اوپر چڑھنا عروج ہے، پھر رستہ طے ہوتا ہے، اس کے بعد نزول ہے اور نزول کے بعد اصل مقصود حاصل ہوتا ہے اور مقصود نفس کی اصلاح ہے۔
یہی حضرت نے فرمایا کہ ہم نے جو کہا کہ ’’نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں‘‘ یہ جذبِ کسبی اور جذبِ وہبی کے ظاہری طور پر ایک جیسے ہونے کی وجہ سے کہا ہے۔ باقی اصل مقصود اصلاحِ نفس ہے۔ اللہ پاک نے فیصلہ نفس پہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قَدْ أَفلَحَ مَنْ زَكّىٰها O وَقَدْ خابَ مَنْ دَسّىٰها﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘
اسی کے لئے اللہ پاک نے دل کے اندر جذب والی حالت رکھی ہے کہ وہ نفس کی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہے۔
اب میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں جو میرے خیال میں اس پورے مضمون کو سمیٹ لے گی۔ حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کو پہلے چشتی نسبت حاصل تھی، بعد میں نقشبندیت میں آئے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو شاید خیال ہو کہ نقشبندی سلسلہ افضل ہے، کیونکہ اس کو بعد میں لایا گیا ہے، لیکن حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پہلے نقشبندی سلسلہ میں باقاعدہ سلوک طے کر چکے ہیں، ان کے پیر حضرت نصیر الدین ولایتی رحمة اللہ علیه نے ان کو اجازت بھی دے دی تھی اور پیر صاحب کے اتنے منظورِ نظر تھے کہ جب ان کو رخصت کر رہے تھے تو معیت کے طور پہ ساتھ ساتھ آ رہے تھے، جب ان کو سڑک پہ پہنچا دیا تو حضرت حاجی صاحب نے کہا: اب تو آپ کو مجھے واپس اپنے گھر تک پہنچانا ہو گا، ان کو اپنے گھر تک لے گئے، گویا ان کی آپس میں اتنی محبت تھی۔ خیر حضرت حاجی صاحب نے نقشبندی سلسلہ میں باقاعدہ سلوک طے کیا تھا اور ان کے پیر نصیر الدین ولایتی رحمۃ اللہ علیہ بھی مجددی نقشبندی ہیں، اور شجرہ میں باقاعدہ ان کا نام درج ہے۔ پھر بعد میں خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاجی صاحب کا ہاتھ حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیه کے ہاتھ میں دے دیا۔ حضرت کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کون بزرگ ہیں، بس خواب میں ایک واقعہ ہوا اور ان کے دل پہ ایسا نقش بیٹھ گیا کہ ان سے ملنے کے لئے بے تاب ہو گئے۔ ان کو ڈھونڈ رہے تھے اور وہ کہیں مل نہیں رہے تھے۔ نشانیاں لوگوں کو بتا دیں کہ اس طرح کوئی بزرگ ہوں تو مجھے بتا دینا۔ کسی نے کہا کہ جھنجھانہ میں بھی ایک بزرگ ہیں، آپ ذرا ان سے ملاقات کر کے دیکھیں، ممکن ہے کہیں وہی نہ ہوں۔ وہاں گئے تو وہی تھے۔ بہت خوش ہوئے۔ ان کے قدموں میں گر پڑے اور عرض کیا کہ حضرت مجھے اپنی فرزندی میں قبول فرما لیں۔ حضرت نے ان کو مونڈھوں سے اٹھا کے کھڑا کیا اور فرمایا کہ آپ کو اپنے خواب پر بڑا وثوق ہے! گویا حضرت کو بھی اطلاع ہو چکی تھی۔ اب بتائیے حاجی صاحب کو نقشبندی سلسلہ سے اس طرف کیوں لایا گیا؟ اگر صرف نقشبندی سلسلہ ہی سب سے افضل ہے تو پھر انہیں دوسرے سلسلے میں کیوں لایا گیا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نہریں ہیں۔ اللہ پاک کبھی ایک نہر سے کام لیتا ہے، کبھی دوسری نہر سے کام لیتا ہے، کبھی تیسری نہر سے لیتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تشکیل ہے۔ جس طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہے لے لیتا ہے۔ ہمارے لئے سارے سلسلے برابر ہیں۔ جیسے چشتی سلسلہ سے یہ کام لیا کہ پورے ہندوستان میں اسلام کو داخل کیا۔ کیونکہ اس وقت کام کرنے کے لئے جذبات کو بر انگیختہ کرنے والی چیزوں کی ضرورت تھی، لہٰذا اللہ پاک نے چشتیہ کو بھیج دیا۔ اور جس وقت خفیہ طور پہ کام کرنے کی ضرورت تھی تب اللہ پاک نے نقشبندیہ کو بھیج دیا کیونکہ پوری مملکت اکبر کے دینِ الٰہی کا شکار ہو چکی تھی۔ اس وقت اگر ظاہری سطح پر کوئی کام کرتا تو اس کو شہید کر دیا جاتا یا ملک بدر کر دیا جاتا۔ لہٰذا نقشبندی سلسلہ سے کام لیا گیا کہ اس کے ذریعہ اکبر کے دینِ الٰہی کا مقابلہ کرایا گیا۔
نقشبندی سلسلہ میں یہ کمال ہے کہ سارا کچھ اندر ہی اندر ہوتا ہے، باہر کچھ نہیں ہوتا، لہٰذا یہ اندر ہی اندر کام کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے سنٹرل ایشیا میں یہ سلسلہ بہت زیادہ چلا ہوا ہے۔ ترکی میں بہت چلا ہوا ہے۔ اتا ترک کے وقت میں جب اس نے ہر چیز پر پابندی لگائی تو یہی سلسلہ کام آیا۔ محمود آفندی دامت برکاتہم اور دوسرے حضرات، یہ سب اسی طرح پوشیدہ طور پر کام کر رہے تھے، ظاہری طور پہ کچھ نہیں کر رہے تھے لیکن اندر ہی اندر سارا کام کر رہے تھے۔ لہٰذا ہندوستان میں اُس وقت نقشبندی سلسلہ کی ضرورت تھی تو اللہ پاک نے وہاں پر نقشبندی سلسلہ کو چلایا، جب وہ مقصد پورا ہو گیا (یعنی اکبر کے دینِ الٰہی کا قلع قمع ہو گیا) تو پھر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیه کے ذریعہ سے دونوں کو جمع کر دیا گیا، اس سے دیوبند وجود میں آ گئے، یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ اب دیوبند کی ایک شان ہے کہ اس میں چشتیہ کا ولولہ بھی ہے، اور عالمانہ وقار بھی ہے۔ چشتیہ میں ولولہ انگیزی ہے، فدائیت ہے اور نقشبندی سلسلہ میں وقار ہے، دیوبند میں دونوں کو جمع کر دیا گیا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه فارسی کا ایک شعر نقل فرماتے ہیں:
در کف جامِ شریعت در کف سندانِ عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سندان باختن
ایک ہاتھ میں شریعت ہے، دوسرے ہاتھ میں عشق کا سندان ہے۔ ہر دعویٰ کرنے والے کو دونوں چیزیں نہیں ملا کرتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جمع کر دیا اور سبحان اللہ اس میں صرف دو نہیں چار سلسلے ملے ہیں۔ قادری سلسلہ، چشتی سلسلہ، سہروردی سلسلہ اور نقشبندی سلسلہ۔ آخر میں جتنے بھی آ رہے ہیں، چاروں کے چاروں سلسلوں میں آ رہے ہیں۔ اللہ پاک نے سب کو جمع کر دیا ہے۔
اب ہمارے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم تو سب کو مانتے ہیں۔ ہمارے لئے سب بڑے ہیں لہٰذا ہمارے لئے کوئی ایسی بات ہی نہیں جس میں ہمیں پریشانی ہو۔ کوئی نقشبندی کی تعریف کرے تو سبحان اللہ۔ کوئی چشتی کی تعریف کرے تو سبحان اللہ۔ کوئی سہروردی کی تعریف کرے تو سبحان اللہ۔ کوئی قادری کی تعریف کرے تو سبحان اللہ۔ ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ جس طرح اہلِ سنت و الجماعت کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کوئی صحابہ کی تعریف کرے پھر بھی خوشی، کوئی اہلِ بیت کی تعریف کرے پھر بھی خوشی، کوئی امہات المومنین کی تعریف کرے پھر بھی خوشی۔ ہمیں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ ہم تو سب کو مانتے ہیں، لہٰذا ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن بات ذرا سنبھال کے کرنی ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات ”بدایت میں نہایت درج ہے“ کا ظاہری مطلب لوں، جس طرح بعض لوگوں نے لیا ہے، تو کیا آج کل کا نقشبندی سلسلہ میں بالکل ابتدا میں شامل ہونے والا مبتدی شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه سے افضل ہے؟ کیا خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیه سے افضل ہے؟ کیا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیه صاحب سے افضل ہے؟ کیا میں ایسا سوچ سکتا ہوں کہ اُن کی جو انتہا ہے، وہ اِس کی ابتدا ہے؟ اگر میں اس کا یہ مطلب لے لوں تو کیا ہو گا؟ اصل میں ان چیزوں کو سمجھنا پڑتا ہے، کیونکہ معاملہ بہت دور تک جاتا ہے۔ خود حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه کے بارے میں حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: ’’قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَةِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہِ‘‘۔ ’’میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔‘‘
کیا یہ بات ان سے بعد والوں اور پہلے والوں کے لئے بھی ہے یا صرف اسی وقت کے اولیاء کے لئے تھی؟ حضرت کا جواب سنیں، فرمایا: حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات اپنے اوپر تو مانتا ہوں، لیکن چونکہ بعد میں امام مہدی علیه السلام آنے والے ہیں ان پہ تو یہ بات صحیح نہیں ہو سکتی اور پہلوں میں صحابہ ہیں ان پہ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا یہ اسی وقت کے لئے ہے۔ ما شاء اللہ دلیل بھی بڑی مضبوط دی اور اپنے آپ کو بھی بچا لیا۔ یہ ہوتی ہے حکمت۔ جب حضرت اتنے محتاط انداز میں بات کرتے ہیں تو کیا آج کل کے نقشبندیوں کو محتاط انداز میں بات نہیں کرنی چاہئے؟ محتاط انداز میں ہی بات کرنی چاہئے، ورنہ معاملہ بہت دور تک چلا جاتا ہے۔ اگر میں دعوے شروع کر دوں تو یہ عروج کی علامت ہے، نزول کی علامت نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب خود فرماتے ہیں کہ عروج میں مزہ زیادہ ہے، لیکن فضیلت نزول میں ہے۔ جو شخص زیادہ نزول والا ہے، وہ زیادہ افضل ہے۔ دعویٰ عروج کی طرف جاتا ہے، اِلَّا یہ کہ کوئی مامور من اللہ ہو۔ اور مامور من اللہ کوئی کوئی ہوتا ہے، سارے نہیں ہوتے۔ اس لئے ہمیں دعویٰ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ دعویٰ نہیں کرنا چاہئے، ہاں برکات سب کی لینی چاہئیں۔
نقشبندی حضرات کی برکات یہ ہیں کہ اندر ہی اندر سارا کچھ ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ! چشتیہ کی برکات یہ ہیں کہ ان کا ایک ایک بال اللہ پہ فدا ہونے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ میں بتاتا ہوں کہ چشتی نسبت کس شعر سے ثابت ہے؟ فرمایا:
سوختن افروختن و جامہ دریدن
پروانہ ز من، شمع ز من، گل ز من آموخت
ترجمہ: جلنا، پگھلنا، کپڑے پھاڑنا، پروانے نے ہم سے، شمع نے ہم سے اور پھول نے ہم سے سیکھا ہے۔
فرمایا چشتی نسبت ایسی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بڑی حیرت کی بات ہے، کیا آپ کو پتہ ہے یہ شعر کس کا ہے؟ یہ شعر حضرت جامی رحمة اللہ علیه کا ہے، اور جامی رحمة اللہ علیه نقشبندی بزرگ ہیں۔ نقشبندی شعر چشتیوں پہ منطبق ہو رہا ہے۔ ان کو کہاں کہاں جدا کرو گے؟ ان کو اکٹھا ہی رہنے دو، ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے دو۔ ایک دوسرے کے لئے حمایت حاصل کرنے والے بنو، ایک دوسرے کے مقابل نہ لاؤ۔ اور اب مقابل لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ دیوبند کی نسبت چار سلاسل کی ہے۔ مولانا الیاس رحمة اللہ علیه صاحب چاروں سلسلوں کے، مولانا زکریا صاحب رحمة اللہ علیه چاروں سلسلوں کے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه صاحب چاروں سلسلوں کے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیه چاروں سلسلوں کے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی اکابر ہیں، وہ سب چاروں سلسلوں کے ہیں، لہٰذا ہم کیوں مقابلہ کریں، ہمیں کسی قسم کے مقابلے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہاں اُس وقت الگ الگ رہنے میں حکمت تھی، اور اب اکٹھا رہنے میں حکمت ہے۔
بہرحال بات اس بارے میں ہو رہی تھی کہ حضرت نے فرمایا کہ نقشبندی سلسلہ میں بدایت میں نہایت کو درج کر دیا گیا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کسی مکتوب میں ایک بات بتاتے ہیں لیکن بعد میں دوسرے مکتوبات میں حضرت تمام چیزوں کی تشریح بتلاتے ہیں۔ وقتی ضرورت کے طور پر کوئی بات آ جاتی ہے، لیکن پھر پتہ چلتا ہے کہ اس کے مجمل رہنے سے نقصان ہو سکتا ہے تو پھر تشریح کرنی پڑتی ہے۔ مکتوب نمبر 287 حضرت کا ایسا ہی مکتوب ہے، جس میں حضرت نے دوسرے مکتوبات میں بیان کی ہوئی تمام اجمالی باتوں کی خوب تشریح کی ہے۔ یہ مکتوب اپنے بھائی کو لکھا ہے اور پورا مکتوب خاصا طویل ہے، تقریبا 28، 29 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں حضرت نے صاف فرمایا ہے کہ میرے خیال میں لوگ آج کل جذب اور سلوک میں فرق سمجھنے میں گڑبڑ کر رہے ہیں۔ میرے دل میں خیال میں آتا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بات کروں، اس لئے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ پھر اس میں ساری تشریحات فرمائی ہیں، یہ ایک انقلابی مکتوب ہے۔ جن باتوں سے لوگ غلط فہمی میں پڑ سکتے تھے، اس میں ان سب کی تشریحات کی ہیں۔ تو حضرت نے اپنی طرف سے ساری بات واضح کی ہے، پھر بھی اگر کوئی آنکھیں بند کر کے کسی ایک مبہم بات پر یقین کر لے اور کہے کہ مجھے نہیں پتہ تو اس کا کوئی علاج نہیں۔
اسی بات کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول مکتوب نمبر 221 میں فرماتے ہیں:
متن:
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں”طریقِ ما اقربِ طرق است “ ( ہمارا طریقہ (وصول الی اللہ میں ) تمام طریقوں سے قریب ترین ہے )۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ”میں نے حق سبحان و تعالیٰ سے ایسے طریقے کے لئے دعا کی جو یقیناً موصل ہو“ اور آپ کی یہ دعا قبول ہو گئی۔ چنانچہ رشحات میں حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے منقول ہے کہ یہ طریقہ مقبول اور موصل کیوں نہ ہو جبکہ انتہا اس کی ابتدا میں مندرج ہے۔ بہت ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو اس طریقہ میں داخل ہو اور استقامت اختیار نہ کرے اور بے نصیب رہے۔ مصرع
خورشید نہ مجرم ار کے بینا نیست
اندھا نہ دیکھ پائے سورج کا کیا قصور
ہاں اگر کوئی طالب کسی ناقص ( شیخ ) کے ہاتھ پڑ جائے تو اس میں طریقہ کا کیا قصور ہے اور طالب کا بھی کہاں قصور۔ کیونکہ فی الحقیقت اس طریق کا رہبر موصل ہے نہ کہ نفسِ طریق۔
تشریح:
سبحان اللہ! اس میں ایک پوائنٹ تو واضح ہو گیا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”اس طریق کا رہبر مُوصِل ہے“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ در اصل ملانے والا شیخ ہے، طریق نہیں ہے۔ اس بات کو حضرت نے مکتوب نمبر 287 میں واضح کر دیا کہ اگر کوئی مجذوب متمکن ہے تو وہ نہ خود پہنچا ہے نہ دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ صاف فرما دیا کہ وہ راستے کا ڈاکو نہ بنے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو صرف جذب ہی میں رہ گیا اور سلوک طے نہیں کیا، وہ شیخ نہیں ہے۔ اور اگر شیخ مُوصِل ہے، کامل ہے، اس نے خود مکمل سلوک طے کیا ہوا ہے تو مرید کو بھی صحیح سلوک طے کرا دے گا، کہیں پر روکے گا نہیں، بلکہ منزل پہ پہنچا کے رہے گا۔ لہٰذا شیخ کا کامل ہونا ضروری ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول مکتوب 243 میں فرماتے ہیں:
متن:
ہر شخص کے لئے جو چیز ضروری ہے اور وہ اس کامکلف ہے وہ اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے پرہیز کرنا ہے۔ آیۃ کریمہ "مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا…" (الحشر:07) (رسول جو کچھ تم کو دے وہ لے لو اور جس سے وہ منع کرے اس سے باز رہو) اس معنی کی شاہد ہے۔ اور چونکہ (طالب کو) اخلاص کا حکم ہے: "أَلَا لِلّٰهِ الدِّينُ الْخَالِصُ…" (الزمر:03) (آگاہ رہو کہ خالص دین (عبادت) اللہ ہی کیلئے ہے) اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبت ذاتیہ کے بغیر متصور نہیں ہوتا۔ لہٰذا طریقِ صوفیہ کا سلوک جس میں فنا اور محبت ذاتیہ کا حصول ہے، ضروری ہوا۔
تاکہ اخلاص کی حقیقت شکل پذیر ہو۔ اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال اور تکمیل کے مراتب متفاوت ہیں؛ اس لئے ایسے طریقے کو، جو روشن سنت کی پیروی کو لازم جانے اور احکامِ شرعیہ کی بجاآوری کے (بالکل) مطابق ہو اختیار کرنا اولیٰ اور بہت بہتر ہے،اور وہ طریقہ اکابر نقشبند قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم العلیا کا طریق ہے کیونکہ اس طریق کے بزرگوں نے سنت کو لازم قرار دیا ہے اور بدعت سے پرہیز فرمایا ہے جہاں تک ہو سکے رخصت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں نافع پائیں اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جانیں۔ انہوں نے احوال و مواجید کو احکامِ شریعہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف (کیفیات و کشفیات) کو علوم دینیہ کا خادم جانتے ہیں، اور احکامِ شرعیہ کے نفیس جواہرات کو بچوں کی طرح (اخروٹ و منقی) اور وجد وحال کے بدلے نہیں دیتے، اور صوفیہ کی (حالتِ سکروالی) بیکار باتوں پر مغرور و مفتوں نہیں ہوتے، اور نص (قرآن) کو چھوڑ کر فص (فصوص الحکم) کی طرف سے مائل نہیں ہوتے، اور فتوحاتِ مدنیہ (احادیث ونصوصِ شرعیہ) کو چھوڑ کر فتوحاتِ مکیہ (شیخ اکبر کی تصنیف) کی طرف سے التفات نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری (مستقل) ہے۔ اور ان کے باطن سے ماسویٰ کے نقوش اس طرح محو و زائل ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ (ماسوی اللہ کو دل میں) حاضر کرنے کے لئے ہزار سال تک کوشش کریں تب بھی میسر نہ ہو۔ اور وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی مانند ہے ان بزرگوں کے لئے دائمی ہے۔ اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک دائرۂ اعتبار سے ساقط ہے (آیت کریمہ)۔۔۔"رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ…" (النور:37) (وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی) ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اور اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقیناً موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے، اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کر دیں۔
تشریح:
یہ ما شاء اللہ حضرت نے اس طریق کی بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا اور واقعی یہ چیزیں نقشبندی سلسلہ میں موجود ہیں۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ میں اگر صرف فقہ حنفی کے دلائل پڑھوں تو شاید فقہ شافعی کے اوپر طنز کرنے اور اس کی مخالفت کرنے کی جرأت ہو تو کیا یہ جائز ہو گا؟
ایک دفعہ حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیه نے حنفی فقہ کے موافق ایک فقہی مسئلہ پہ بہترین تقریر فرمائی۔ ایک شاگرد نے کہا: حضرت آج تو آپ نے ایسی تقریر فرمائی کہ اگر امام شافعی رحمة اللہ علیه سنتے تو وہ بھی رجوع کر لیتے۔ کیونکہ وہ فقہ شافعی کے جزئیہ کے مطابق اس پر بات کر رہے تھے اور اپنے دلائل دے رہے تھے۔ حضرت نے فرمایا: تم نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی، کاش تم ایسی بات نہ کرتے، یہ تم نے کیسی بات کر دی۔ امام شافعی، امام شافعی ہیں، اگر حضرت موجود ہوتے تو میری یہ تقریر محض ایک طالب علمانہ اشکال ہوتا اور حضرت اس کا جواب دے دیتے۔
اب ذرا ایک اور بات سنیں۔ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیه نے جو آراء پیش کی ہیں، باطنی طور پر للہ فی اللہ جو ان کی سمجھ میں آیا، بیان کر دیا، لیکن اگر دوسری طرف سے کوئی راجح دلیل آ جائے تو فوراً ماننے کے لئے تیار ہوتے تھے، یہ نہیں کہ اس پہ ضد کر لیں کہ میری ہی بات صحیح ہے۔ البتہ دلیل بہت مضبوط دیتے تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ دلیل کمزور ہوتی تھی۔ ایک صاحب نے کہا کہ امام مالک رحمة اللہ علیه کا مسئلہ یہ ہے اور آپ کا یہ ہے، حالانکہ ان کی دلیل کی روایت فلاں سے، فلاں سے اور فلاں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ہے، تو آپ کیسے اپنے موقف کو درست کہہ کر رہے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: میں نے فلاں سے سنا ہے، انہوں نے فلاں سے سنا، انہوں نے فلاں سے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچتی ہے۔ جب کہ آپ کی روایت میں انہوں نے سالم سے، سالم نے عبد اللہ بن عمر رضي الله تعالیٰ عنه سے، عبد اللہ بن عمر رضي الله تعالیٰ عنه نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا۔ جب کہ میں نے حماد سے سنا ہے، انہوں نے علقمہ سے سنا ہے، انہوں نے غالباً عبد اللہ بن مسعود رضي الله تعالیٰ عنه سے سنا ہے۔ فرمایا: اب مقابلہ کرو، میرا آخری راوی ان کے آخری راوی سے زیادہ فقیہ ہے، پھر میرا دوسرا راوی ان کے دوسرے راوی سے زیادہ فقیہ ہے، تیسرا راوی ان کے تیسرے راوی سے زیادہ فقیہ ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضي الله تعالیٰ عنه سے عبد اللہ بن مسعود رضي الله تعالیٰ عنه زیادہ فقیہ ہیں، اب بتاؤ میں کیا کروں؟ چھوڑ دوں! دلیل اس کو کہتے ہیں۔ اپنی دلیل بہت مضبوط رکھتے تھے، لیکن اگر ذرہ بھر بھی کوئی بات سمجھ میں آ جاتی کہ یہ اس طرح نہیں ہے تو پھر اپنے شاگردوں کی بات پر بھی رجوع کر لیا ہے۔ جیسے ظہر کی پہلی چار سنتوں پر بات چل رہی تھی کہ اگر یہ رہ جائیں تو فرضوں کے بعد پہلے دو رکعت سنتیں پڑھنی چاہئیں، بعد میں چار پڑھنی چاہئیں، یا پہلے چار رکعت سنتیں پڑھنی چاہئیں، پھر دو پڑھنی چاہئیں۔ امام صاحب کی رائے یہ تھی کہ پہلے چار سنتیں پڑھنی چاہئیں، پھر بعد میں دو سنتیں پڑھنی چاہئیں، چونکہ یہ پہلے سے ہیں، لہٰذا ان کو پہلے پڑھنا چاہئے۔ صاحبین نے اشکال کیا، انہوں نے کہا: حضرت جو اپنی جگہ سے ہل گیا، وہ تو ہل گیا ہے، لیکن جو اپنی جگہ سے نہیں ہلا اس کو کیوں ہلائیں۔ یہ سن کر امام صاحب نے اپنے قول سے رجوع کر لیا، یہ ہے اخلاص کہ اپنے ہی شاگردوں کے بتانے پہ رجوع کر لیا۔ اس وجہ سے کبھی بھی ہمیں ان بڑوں کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہئے، کہ جیسے ہم لوگ ہیں شاید وہ بھی اس طرح ہوں گے، نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ وہ بڑے ہی حقیقت پسند تھے، جب کبھی ان کو حقیقت کی بات ملتی بس فوراً رجوع کر لیتے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کا بہشتی زیور رجوع سے بھرا ہوا ہے، کتنی باتوں سے رجوع کیا ہوا ہے۔ رسالہ نور میں باقاعدہ اپنا رجوع شائع کرواتے تھے کہ جو میری وجہ سے اس بات کے قائل ہیں میں نے اس میں رجوع کر لیا، وہ بھی اپنی رائے کو بدل لیں۔
اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ یہ جو باتیں ما شاء اللہ حضرت مجدد صاحب نے اپنے سلسلہ کی بتائی ہیں، ذرا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه کی اپنے سلسلہ کے بارے میں سنو، پھر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیه کی اپنے سلسلہ کے بارے میں سنو، اور پھر خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیه کی اپنے سلسلہ کے بارے میں سنو۔ آپ کس کس کے بارے میں کہیں گے۔ آپ جس کے پیچھے بھی ہیں، اس پہ کوئی انکار نہیں، کوئی رد نہیں لیکن دوسروں کا خیال رکھیں، تقابل کی طرف نہ آئیں، بڑوں کی باتیں بڑوں میں رہیں تو اچھا ہے۔ چھوٹی سطح تک آ جائیں تو پھر مسئلہ بنتا ہے۔ صحابہ کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ہیں، ہمیں ان پر بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے، وہ دلائل کے ساتھ بات کرتے تھے۔ حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه نے فرمایا کہ جو میرے مخالفین ہیں ان کے اوپر فتویٰ نہیں، کیونکہ ان کے پاس دلیل ہے، وہ دلیل سے اختلاف کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ! یہ حضرات مخلصین تھے۔
اس وجہ سے ہر ایک نے اپنے اپنے سلسلہ کی جو اچھی اچھی باتیں بتائی ہیں، ان کو بتانی چاہئے تھیں۔ حضرت نے بھی اپنے سلسلہ کی خوبیاں بیان فرما کر بالکل ٹھیک کیا ہے۔ کم از کم مجھے تو اس میں شاید اس سے بھی کچھ زیادہ خوبیاں نظر آ رہی ہیں۔ مثلاً اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ مختصر راستہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ خطرناک بھی ہے۔ اگر نہ پہنچا تو پھر خطرہ بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے مین روڈ اور ایک ہوتا ہے درمیان کا مختصر راستہ۔ اگر آپ اسی راستہ سے نکل گئے اور منزل پہ پہنچ گئے تو جلدی پہنچ گئے، لیکن اگر پھنس گئے تو پھر کیا کرو گے۔ نقشبندی سلسلہ چونکہ اندر ہی اندر کام کرتا ہے، لہٰذا اگر اندر اخلاص ہے تو بہت جلدی پہنچو گے، لیکن اگر اندر کھوٹ آ گیا تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا اور آپ گمراہ ہوتے جائیں گے۔ کون آپ کو چیک کرے گا؟ کچھ پتا ہی نہیں چلے گا۔ مختصر راستہ ضرور ہے، لیکن پُر خطر بھی ہے۔ جذب والے جو بھی سلسلے ہوتے ہیں، ان میں خطرہ ہوتا ہے۔ پہلے بزرگوں کا مشہور فقرہ ہے کہ: ’’جذب مختصر ہے، لیکن پُر خطر ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر چھلانگ لگا دیں، تو پانی میں چھلانگ لگائی تو سبحان اللہ، لیکن پتھر پہ لگائی اور پتھر سے سر ٹکرا گیا تو پھر بچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ چنانچہ یہ مختصر ضرور ہے، لیکن پر خطر ہے۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب شریف میں باقاعدہ ایک خواب کی تعبیر دی ہے۔ قصاب نامی ایک شخص نے خواب دیکھا۔ مکتوب میں تو پوری تفصیل موجود ہے لیکن اس وقت مجھے خواب تھوڑا سا یاد ہے۔ دو ترک کہیں جا رہے تھے مین روڈ سے ہٹ کر پگڈنڈی پہ چل پڑے۔ قصاب کہتا ہے میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا، لیکن جیسے ہی آگے گیا تو دیکھا وہاں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے۔ ترک تو بڑے جذبے کے ساتھ جلدی جلدی پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے اور میں ذرا ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا، جتنی کوشش کر سکتا تھا وہ کی، ہمت کر کے میں بھی پہاڑ پر پہنچ گیا۔ وہاں جس خیمہ میں ہم بادشاہ کے ساتھ ملاقات کے لئے جا رہے تھے، جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ بادشاہ تو شکار کے لئے گئے ہیں، وہ خیمہ میں نہیں ہیں۔ یہ کسی نے خواب بھیجا تھا، حضرت نے اس کی تعبیر دی ہے، ہمیں خواب سے غرض نہیں ہے، تعبیر سے غرض ہے۔ فرمایا: اس خواب میں ہمارے طریق کی طرف اشارہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ مین روڈ والا طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ طریقِ نا مسلوک ہے، یہ شاہراہ عام نہیں ہے۔ مین روڈ پر تو جاتے جاتے خود ہی وہ چڑھائی آپ چڑھ جاتے، لیکن اب چونکہ درمیان میں چلے ہیں تو پہاڑ آپ کے سامنے آ گیا، اس پہاڑ کے اوپر چڑھنا پڑے گا۔
میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، ہمارے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں بہادر بابا رحمة اللہ علیه جو حضرت کاکا صاحب کے والد صاحب ہیں، ان کے مزار اور کاکا صاحب کے مزار کے درمیان پہاڑ ہے، پرانے دور میں جب لوگ پیدل چلتے تھے تو پہاڑی راستے پہ جاتے تھے، صبح روانہ ہو جاتے اور دو تین گھنٹے میں پہنچ جاتے۔ پہاڑ کے اوپر چڑھتے، پھر دوسری طرف نیچے اترتے، راستہ مل جاتا، وہ بہادر بابا گاؤں پہنچ جاتے اور عصر کو واپس بھی آ جاتے۔ اب باقاعدہ راستہ بن گیا ہے، پہلے نو شہرہ روڈ جاتے ہیں، نوشہرہ سے مانکی شریف جاتے ہیں اور مانکی شریف سے پھر راستہ بہادر بابا کی طرف جاتا ہے، آگے جا کر پھر وہ بن جاتا ہے، جو دریا کا راستہ گذر رہا ہوتا ہے، اس قسم کی جگہ ہے، وہاں سے آگے تھوڑا سا پیدل جانا پڑتا ہے۔ وقت تقریباً اتنا ہی لگتا ہے۔ نقشبندی طریقہ کی مثال اس پہاڑ والے رستے کی سی ہے اور عام سلوک کی مثال مین روڈ والے راستے کی سی ہے۔ پہاڑ والے راستے میں خطرہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس راستہ میں پھنس گیا، یا ہمت ہار دی تو پھر مسئلہ ہو جاتا ہے۔ یا پہاڑ سامنے آ گیا۔ حضرت نے فرمایا: یہ پہاڑ سلوک ہے۔ اسے طے کرنا ہوتا ہے، نفس کے پہاڑ کو طے کرنے سے مراد نفس کے رذائل کو دبانا ہوتا ہے، نفس کے رذائل آسانی سے نہیں دبتے، انہیں دبانا ایسے ہی ہے، جیسے پہاڑ کے اوپر چڑھنا ہے۔ خیر راستہ کوئی بھی ہو، چاہے مین روڈ ہو، چاہے مختصر، یاپُر خطر پہاڑ کا راستہ ہو، کام تو وہی کرنا پڑتا ہے، چاہے روڈ پر چلتے چلتے آہستہ آہستہ چڑھائی چڑھتے جائیں، یا یک دم بہت ساری چڑھائی چڑھ جائیں، نتیجہ میں کوئی فرق نہیں۔ دوسرے سلسلوں میں ابتدا ہی سے سلوک پر چلاتے تھے، جبکہ یہاں پہلے جذب پہ چلاتے ہیں اور پھر جذب کے ذریعہ سلوک پہ چلاتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ وہ خیمے میں پہنچ گئے، معلوم ہوا کہ بادشاہ خیمے میں نہیں ہے، وہ شکار کے لئے گیا ہوا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں: اس مراد وصول الی اللہ ہے، جو اس معنی میں ہو ہی نہیں سکتا جس کو لوگ وصول کہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی اس طرح نہیں مل سکتا، جس طرح ہم لوگ ملتے ہیں، اس معنی میں وصول ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں البتہ اگر آپ اللہ پاک کے فرماں بردار بندے ہو جائیں اور وہ آپ کو اپنا کہہ دے تو یہ وصول ہو سکتا ہے۔ ”وہ شکار کے لئے گیا ہے“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی رحمت کی طرف بلا رہے ہیں۔ یہ حضرت نے گویا ایک تمثیل کی صورت میں اپنے طریق کی بات بتا دی۔ اگر اس تمثیل کو ہم سمجھ لیں تو ما شاء اللہ یہ باتیں سمجھ میں آ سکتی ہیں۔
اس طریقہ میں براہِ راست مجاہدہ نہیں ہے، اس میں مجاہدہ اس طرح ہے کہ سنت کو نہیں چھوڑنا۔ یہ مجاہدہ بہت بڑا مجاہدہ ہے، معمولی مجاہدہ نہیں ہے کہ سنت کو کسی حال میں نہیں چھوڑنا۔ پھر دوسرا مجاہدہ یہ ہے کہ عزیمت کو نہیں چھوڑنا۔ عزیمت اور سنت دونوں کو لازم پکڑے رہنا ہے۔ اگر کوئی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو واقعی بہت اونچی بات ہے۔ لیکن اگر اس مجاہدہ میں کامیاب نہ ہو، مثلاً سنت پہ نہ چلے اور اپنے لئے کچھ اور راستہ بنائے، اور پھر بھی کہے کہ میں نقشبندی ہوں تو اس کو یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ جیسے ڈیجیٹل تصویر میں رخصت ہے، تو کیا یہ نقشبندیوں کے لئے جائز ہے؟ غیر محرم خواتین کے ساتھ ملاقات کرنا شریعت کے خلاف ہے، ہر کسی کے لئے حرام ہے۔ اگر جواز کی کوئی صورت نکالے گا تو رخصت ہو گی، ایسی صورت میں عزیمت یہ ہو گی کہ کسی بھی حالت میں غیر محرم سے نہ ملنا اختیار کیا جائے۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، آپ حضرات خود اندازہ لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک خاتون نے مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جواب دینے لگے، ایک نوجوان صحابی ساتھ تھے، انہوں نے بھی اس طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگلی سے ان کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔ اب بتاؤ۔ کیا کوئی بڑے سے بڑا ولی صحابی سے بڑا ہو سکتا ہے؟ نہیں ہو سکتا۔ تو جب صحابی کے لئے غیر محرم کو دیکھنے کی اجازت نہیں تو کسی اور آدمی کو غیر محرم کی طرف دیکھنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر بھی اگر کوئی ایسا کرتا ہے اور اپنے آپ کو عزیمت والا سمجھتا ہے تو وہ اپنے سلسلہ کے خلاف کر رہا ہے یا نہیں؟ یہ باتیں سمجھنی چاہئیں اور ان پر عمل کرنا چاہئے، صرف دعوے سے کام نہیں ہوتا، ثابت کرنا پڑتا ہے، ہر چیز میں میرٹ پہ فیصلہ ہوتا ہے، یہ کوئی گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں۔
اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت نے جو فرمایا کہ اس سلسلہ میں کوئی کمی نہیں، بالکل صحیح فرمایا، لیکن اس پہ قائم رہنا ہے، عزیمت اختیار کرنا ہے، سنت پہ چلنا ہے، تب ہی اس میں سو فیصد کامیابی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ (مثال کے طور پر) قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘
نماز کے اندر یہ صفت built in ہے۔ اللہ پاک نے نماز میں یہ صفت رکھی ہوئی ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن موجودہ حالت میں ہماری نمازیں تبدیلی کیوں نہیں لا پاتیں؟ کیا آیت غلط ہے؟ آیت غلط نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ ہماری نماز میں ہے، اگر ہماری نماز حقیقی معنوں میں نماز بن جائے تو پھر اس نماز کا ایسا ہی اثر ہو گا، جیسا آیت میں فرمایا گیا۔ اس نماز کو بنانے کے لئے اگر آپ کوئی اضافی مجاہدہ کرتے ہیں، جو محسوس تو نہیں ہوتا، لیکن اس کو معاونت کرتا ہے اور بعد میں اس کی وجہ سے آپ کی وہ نماز بن جائے، اسی طرح آپ کو نماز کی وہ برکات بھی ملنے لگیں تو اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ بالکل جائز ہو گا۔ ہاں طریقۂ کار کا فرق ہے۔ یا تو پہلے سے ہی نماز ایسے سو فیصد ٹھیک بناؤ اور اگر نہیں بنی تو پھر کسی اور طریقہ سے بناؤ۔ اگر آپ کوئی مجاہدہ کر کے وہ نماز حاصل کر لیں تو ما شاء اللہ آپ کو نماز کی برکات حاصل ہو جائیں گی۔ جیسے میں کبھی ایک عینک پہنتا ہوں، کبھی دوسری پہنتا ہوں، کیونکہ میری آنکھیں اس قابل نہیں ہیں کہ نزدیک کی چیز کو بھی آسانی سے دیکھیں اور دور کی چیزوں کو بھی آسانی سے دیکھیں، دور کا بھی مسئلہ ہے قریب کا بھی مسئلہ ہے، تو مجھے عینک بدلنی پڑتی ہے۔ اب اگر میں کہتا ہوں کہ نہیں! اصل چیز تو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے، میں عینک کے ساتھ کیوں دیکھوں۔ لوگ اسے کیا کہیں گے؟ کہیں گے، خدا کے بندے! اب وہ چیز نہیں رہی تو کم از کم جس چیز سے وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، اس چیز کے ذریعہ سے تو ٹھیک کرو۔ اضافی اور اختیاری مجاہدات اصل میں یہی چیز ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ باقی سلسلوں میں دوسرے مجاہدات زیادہ ہیں، جبکہ نقشبندی سلسلہ میں سنت اور عزیمت کو اختیار کرنا ہی مجاہدہ ہے۔ اگر باقی سلسلوں نے کچھ مجاہدات رکھے ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ شریعت پر لاتے ہیں تو ان کو ہم غلط نہیں کہیں گے لیکن حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کو پورا اختیار ہے کہ اپنے طریقہ کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیں، حضرت نے تو اپنے طریقہ کو سمجھانا ہے۔ ہاں دوسرے حضرات اگر indirect طریقوں سے آ کر اسی چیز کو حاصل کرتے ہیں تو مقصود پھر بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لئے دونوں ٹھیک ہیں۔
اب ایک اور بات بھی عرض کرتا ہوں جو حضرت نے بیان فرمائی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ میں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف بات نہیں کر رہا، میں صرف دوسرے لوگوں کا نقطۂ نظر بیان کر رہا ہوں، تاکہ وہ بھی ہمارے سامنے ہوں۔ کہیں وہ بے ادبی کے مرتکب نہ ہوں۔ حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه فرماتے ہیں کہ ہمارا طریقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے۔ اب دیکھیں کہ اس سلسلہ میں پہلے جذب حاصل کرنا پڑتا ہے، آپ بتائیں کہ جذب وغیرہ پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرام نے کوئی محنت کی تھی؟ بالکل نہیں۔ بس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھنے سے سارا حاصل ہو جاتا تھا۔ اسی طرح چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ میں بھی جذب وغیرہ حاصل نہیں کرواتے، بلکہ صحبتِ شیخ اور محبتِ شیخ کے زور پر سلوک طے کراتے ہیں، تو آپ بتائیں کہ چشتی سلسلہ میں یا قادری یا سہروردی سلسلہ میں اگر اپنے شیخ کو دیکھ کر ہی سارا کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو کون سے سلسلہ کی مماثلت صحابہ سے ہوئی؟ مرید اپنے شیخ کی محبت میں آ کر شیخ کی بات ماننے لگے اور ان کو وہی چیزیں ملنے لگیں، وہ ابتدا ہی سے سلوک پہ چلنے لگے جب کہ نقشبندی سلسلہ کو تو محنت کرنی پڑ رہی ہے، پہلے جذب پیدا کرنا پڑ رہا ہے، جذب کے بعد پھر سلوک پہ جاتے ہیں، تو کون صحابہ کے ساتھ زیادہ مماثل ہوا؟ اگر وہ حضرات وہی جواب دے دیں تو پھر ہمارے پاس کیا جواب ہو گا؟ اس لئے ہم کہتے ہیں، وہ اپنے طور پہ ٹھیک ہیں، یہ اپنے طور پہ ٹھیک ہیں، جذب کا طریقہ بھی بہت اہم ہے اور indirect مجاہدہ جو ابتدائی مجاہدہ ہے، جس کے ذریعہ میں اصل شرعی مجاہدہ کے لئے تیار ہو جاؤں یہ بھی بہت اہم ہے۔ غور کریں تو دونوں ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ وہاں پر میں شرعی مجاہدہ کرتا ہوں اور جذب کے ذریعہ سے شرعی مجاہدہ کے لئے تیاری کرتا ہوں لیکن یہاں اضافی مجاہدہ کے ذریعہ سے شرعی مجاہدہ کے لئے تیاری کرتا ہوں، تو دونوں برابر ہو گئے، چیز تو ایک ہی ہو گئی۔ لہٰذا اس میں بھی ہم باقی لوگوں کی تنقیص نہیں کر سکتے اور ان کو بھی غلط نہیں کہہ سکتے۔ یہ بھی ایک نقطۂ نظر ہے۔ دونوں بالکل صحیح نقطہ ہائے نظر ہیں۔ اگر کسی کو ایلو پیتھی کے ذریعے صحت ہو جاتی ہے، اس کے دل کو چھوٹا نہ کرو، اس کو کہو ایلو پیتھی طریقہ بہت اچھا ہے، کسی کو ہومیو پیتھی کے طریقہ سے اگر صحت ہو رہی ہے تو اس کا دل بھی چھوٹا نہ کرو، اس کو کہہ دو ہومیو پیتھی طریقہ بہت اچھا ہے، اگر کسی کو حکمت کے ذریعہ سے صحت حاصل ہو رہی ہے تو اس کا دل چھوٹا نہ کرو، کہو حکمت بہت زبردست طریقہ ہے، کسی کو آکو پنکچر کے ذریعہ سے اگر صحت حاصل ہو رہی ہے تو اس کو کہہ دو کہ آکو پنکچر بھی بہت اچھا طریقہ ہے۔ حالانکہ ان سب کے اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن صحت سب سے حاصل ہو سکتی ہے، ایلو پیتھی سے بھی حاصل ہو سکتی ہے، ہومیو پیتھی سے بھی حاصل ہو سکتی ہے، حکمت سے بھی حاصل ہو سکتی ہے، آکو پنکچر سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اب ہر شخص کو جس طریقہ سے بھی صحت حاصل ہو جاتی ہے، وہ کہتا ہے یہی سب سے اچھا طریقہ ہے، تو ٹھیک ہے، وہ جوش میں آ کر کہہ دے، لیکن میں اس کی بات کو اس کی طرح نہیں لوں گا بلکہ میں کہوں گا کہ دوسروں کو دوسرے طریقوں سے صحت حاصل ہوئی ہے، لہٰذا میں ان کی بات ماننے کے لئے بھی تیار ہوں، ہاں! خود مجھے جس سے بھی مناسبت ہو گی، اس پہ چلوں گا۔
میرے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه مزاجاً چشتی تھے، لیکن مجھے فرمایا کہ آپ کا مزاج نقشبندی ہے۔ یہ اس وقت فرمایا تھا جب کہ مجھ میں نقشبندیوں کے بظاہر کوئی آثار نہیں تھے۔ میں حضرت کی برکت سے تقریباً سارا چشتیوں کے طریقہ پہ چل رہا تھا، ذکر بھی ان کے طریقہ پہ کرتا تھا، سب کچھ اس کے مطابق چل رہا تھا، لیکن حضرت نے اس وقت بتا دیا تھا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے۔ میں حیران ہو گیا، میں نے سوچا، پتہ نہیں کیا معاملہ ہے! لیکن بعد میں جب اللہ پاک نے مکتوبات شریفہ کی طرف متوجہ کیا اور الحمد للہ بہت ساری باتیں اللہ پاک نے اس کی طرف سے دکھلائیں اور اللہ پاک نے مجھ پر نقشبندی سلسلہ کی برکات کھولیں تو اس وقت مجھے حضرت کی بصیرت یاد آ گئی کہ حضرت نے اس وقت فرمایا تھا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے۔ لہٰذا میری ذاتی نسبت نقشبندیہ ہے، لیکن میں چشتیوں کی بھی ایسے ہی قدر کرتا ہوں، قادریوں کی بھی ایسے ہی قدر کرتا ہوں اور سہرودریوں کی بھی ایسے ہی قدر کرتا ہوں جیسے میں نقشبندیوں کی قدر کرتا ہوں۔ آج کل افراط تفریط بہت زیادہ ہے۔ اگر افراط تفریط نہ ہو اور پھر ہر ایک اپنے سلسلہ کی تعریف کرے تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ تنقیص کی حدود میں داخل نہیں ہوتی۔ اس صورت میں بالکل صحیح ہے۔ ہر پروفیسر اپنے طریقہ کار کی خوبی بیان کر سکتا ہے، جو بھی اس کا طریقہ کار ہو اس کو بیان کر سکتا ہے، لیکن شاگرد مختلف پروفیسروں سے پڑھ رہے ہوتے ہیں، وہ ہر پروفیسر کو اپنی اپنی جگہ پہ رکھتے ہیں، اُن کی بات بھی سنتے ہیں، اِن کی بھی سنتے ہیں اور جیسا اپنا مزاج ہوتا ہے، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یہی طریقہ ہم اس میں بھی کر سکتے ہیں۔
حضرت نے سلسلہ نقشبندیہ کی جتنی برکات بیان فرمائی ہیں، اگر کوئی نقشبندی سلسلہ پہ صحیح معنوں میں چلا تو امید کرتے ہیں کہ آج بھی ان کو یہ برکات حاصل ہوں گی۔ ان شاء اللہ
طریقۂ نقشبندیہ مجددیہ کی بعض تفصیلات:
طریقہ ذکر کی تعلیم اور دیگر نصائح:
دفتر اول مکتوب 190 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
ابتدا میں ذکر کے بغیر چارہ نہیں۔
آپ کو چاہئے کہ قلب صنوبری کی طرف متوجہ ہوں کہ وہ گوشت کا ٹکڑا قلب حقیقت کے لئے ایک حجرے یا گھر کی مانند ہے اور اسم مبارک "اللہ" کو اس قلب پر گذاریں اور اس وقت قصداً کسی عضو کو حرکت نہ دیں اور پوری طرح قلب کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں اور اپنی قوت خیالیہ میں قلب کی صورت کو جگہ نہ دیں اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ مقصود قلب کی طرف توجہ کرنا نہ کہ اس کی صورت کی تصور۔ اور لفظ مبارک "اللہ" کے معنی کو بے چونی و بے چگونی (بے مثل و بے کیف) کے ساتھ ملاحظہ کریں اور کسی صفت (و کیفیت) کو اس کے ساتھ شامل نہ کریں اور اس کا حاضر و ناظر ہونا بھی ملحوظ نہ ہوتا کہ آپ ذات تعالیٰ و تقدس کی بلندی سے صفات کی پستی میں نہ آجائیں اور اس طرح اس کی وجہ سے کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کرنے میں نہ پڑ جائیں اور بے چون کی گرفتاری سے چون کے شہود کے ساتھ آرام نہ پکڑیں کیونکہ جو چون کے آئینے میں ظاہر ہو گا وہ بے چون نہیں ہے اور جو کچھ کثرت میں نمودار ہو وہ واحد حقیقی نہیں ہے بے چون کو چون کے دائرے سے باہر ڈھونڈنا چاہئے اور بسیط حقیقی کو کثرت کے احاطہ کے باہر تلاش کرنا چاہئے۔ اگر ذکر (الہیٰ) کرتے وقت پیر کی صورت بے تکلف ظاہر ہو تو اس کو بھی قلب کی طرف لے جانا چاہئے اور قلب میں نگاہ رکھ کر ذکر کرنا چاہئے۔
آپ کو معلوم ہے کہ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جس سے آپ خدائے تعالیٰ جل شانہ کی جناب قدس تک پہنچنے کا راستہ حاصل کریں اور اس راستے میں آپ اس سے امداد و اعانت حاصل کریں۔ صرف کلاہ و دامنی (چادر) اور شجرہ جو معروف ہو گیا ہے پیری مریدی کی حقیقت سے خارج ہے اور رسم و عادت میں داخل ہے لیکن اگر شیخ کامل و مکمل سے کوئی کپڑا آپ کو تبرک کے طور پر حاصل ہو جائے اور آپ اعتقاد و اخلاص کے ساتھ اس کو پہنچ کر زندگی گذاریں تو اس صورت میں بہت سے فائدوں اور ثمرات کے حاصل ہونے کا بھی قوی احتمال ہے۔
اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خواب اور واقعات اعتماد اور اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔ اگر کسی نے اپنے آپ کو خواب یا واقعہ میں بادشاہ دیکھا یا خود کو قطبِ وقت معلوم کیا تو وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ہاں اگر خواب اور واقعہ (کشف) کے بغیر بادشاہ ہو جائے یا قطب بن جائے تو البتہ مسلم ہے۔ پس جو بھی احوال و مواجید بیداری اور ہوش کی حالت میں ظاہر ہوں ان میں اعتماد کی گنجائش ہے ورنہ نہیں۔
نیز آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر کا نفع اور اس پر اثرات کا مترتب ہونا شریعت کے احکام بجالانے سے وابستہ ہے لہٰذا فرائض و سنن کے ادا کرنے اور حرام و مشتبہ چیزوں سے بچنے میں پوری پوری احتیاط کرنی چاہئے اور چھوٹے بڑے (احکام) میں علماء کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ان کے فتووں کے موافق زندگی بسر کرنی چاہئے۔
تشریح:
حضرت نے پہلی بات ہی یہ فرمائی کہ ’’ابتدا میں ذکر کے بغیر چارہ نہیں‘‘۔ اس وقت کوئی ایسا سلسلہ نہیں جس میں ذکر سے ابتدا نہ ہوتی ہو، سب ذکر ہی دیتے ہیں۔ نقشبندیہ کی یہ بات سب نے تسلیم کر لی۔ اس میں اختلاف ہے ہی نہیں، چشتیہ بھی اب ذکر ہی دے رہے ہیں، قادری بھی اب ذکر ہی دے رہے ہیں، سہروردی بھی اب ذکر ہی دے رہے ہیں اور نقشبندیہ کا تو پہلے ہی سے یہ طریقہ تھا، لہٰذا اس بارے میں اتفاق ہو گیا، اختلاف ختم ہو گیا۔
فرمایا:
’’آپ کو چاہئے کہ قلب صنوبری کی طرف متوجہ ہوں کہ وہ گوشت کا ٹکڑا قلب حقیقت کے لئے ایک حجرے یا گھر کی مانند ہے‘‘۔
اس موضوع پر میں تب سے بات کر رہا ہوں، جب حضرت کا مکتوب شریف میں نے پڑھا بھی نہیں تھا، اور کئی پلیٹ فارموں پر یہ بات کر چکا ہوں۔ کئی لوگ بالخصوص ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ دل تو ایک پمپنگ آلہ ہے، جس سے خون پمپ ہوتا ہے، اس میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ اس سے آپ کو علوم بھی حاصل ہوں، یہ کہاں کی بات ہے۔ کوئی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ میں اس وقت مثال دیتا تھا کہ جس طرح پورے جسم میں نفس بکھرا ہوا ہے، اسی طریقہ سے روح بھی پورے جسم میں ہے اور قلب والی جگہ کے اندر روحانی قلب ہے۔ وہ روحانی قلب اور ہے، وہ یہ گوشت کا ٹکڑا نہیں ہے، وہ روح سے ہے جسم سے نہیں ہے۔ دو چیزیں جو الہام ہوتی ہیں، الہامِ شیطانی اور الہامِ رحمانی، یہ دونوں اسی روحانی قلب کو ہو رہی ہوتی ہیں، یہ اس گوشت کے قلب کو نہیں ہو رہی ہوتیں، لیکن چونکہ وہ روحانی قلب اسی میں ہی contained ہے، لہٰذا اشارہ اسی کی طرف کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی کمرہ میں کھڑا ہو اور آپ کہیں کہ وہ شخص ادھر ہے، تو آپ کمرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یا اس شخص کی طرف کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے کمرے کی طرف ہی کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ شخص کمرہ تو نہیں ہے، لیکن کمرہ کے اندر موجود ہے۔ یہ بھی اسی قسم کی بات ہے کہ وہ روحانی دل اصل میں اس دل کے اندر ہے۔ اُسی کو الہام ہوتا ہے، الہام رحمانی اور الہام شیطانی، یہ دونوں اس میں ہوتے ہیں۔ اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جائے۔ وہ اصل میں اس صنوبری قلب کو اس روحانی قلب کا ظہور سمجھ کر فرمایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اور احادیث شریفہ میں جو باتیں کی گئی ہیں، وہ ظاہر کی بنیاد پر کی گئی ہیں، تاکہ عوام بھی ان کو سمجھ لیں۔ یہاں پر بھی اصل میں روحانی قلب کی بات ہو رہی ہے۔ اور جسمانی قلب کا واقعی یہی کام ہے کہ وہ پورے جسم کو خون دیتا ہے، باقی روحانی کام روحانی قلب کرتا ہے۔
فرمایا:
’’اسم مبارک ’’اللہ‘‘ کو اس قلب پر گذاریں اور اس وقت قصداً کسی عضو کو حرکت نہ دیں‘‘۔
ہم لوگ جب ذکرِ جہری کرتے ہیں، اس میں حرکت ہوتی ہے، لیکن ہمارے شیخ نے حرکت کو بہت کم کر دیا ہے۔ لیکن چشتی حضرات اور قادری حضرات اس میں حرکت کرتے ہیں۔ حضرت مجدد صاحب کا طریقہ چونکہ نقشبندی ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ حرکت نہیں کرنی چاہئے، اس میں فائدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ حرکت کرتے ہیں تو آپ کی توجہ حرکت کی طرف جائے گی، قلب کی طرف نہیں جائے گی۔ جبکہ آپ کی توجہ خیال میں قلب کے اوپر ہونی چاہئے کہ وہاں پر اسم اللہ کا تصور کریں اور یہ تصور بے چونی اور بے چگونی یعنی بے مثل و بے کیف کریں، یعنی اللہ کے لئے ذہن میں کوئی خاص تصور نہ بنائیں، لیکن اللہ کی موجودگی کو ذہن میں لایا کریں۔
فرمایا:
’’اور کسی صفت (و کیفیت) کو اس کے ساتھ شامل نہ کریں‘‘۔
کیونکہ صفت سیڑھی ہے، وہ اصل میں اللہ نہیں ہے، اللہ تو ذات ہے۔ مثلاً کوئی شخص بہادر ہے تو بہادر اس کی صفت ہے، بہادر اس شخص کی ذات نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ پر کئی لوگ بہادر ہوں تو آپ کس کس کو بہادر کہہ کر بلائیں گے، وہ ایک ذات کے ساتھ متعین تو نہیں ہے، وہ تو ایک صفت ہے، جو کسی میں بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ذات تب متعین ہو گی، جب اس شخص کی طرف آپ کا اشارہ ہو اور وہ بہادر بھی ہو۔ لہٰذا صفت کی طرف توجہ نہ کریں، بلکہ ذات کی طرف توجہ کریں، کیونکہ صفت کی طرف توجہ کرنے میں انتشار ہے، آپ نے اپنے آپ کو انتشار سے بچانا ہے۔
فرمایا:
’’اور اس کا حاضر و ناظر ہونا بھی ملحوظ نہ ہو۔ کیونکہ یہ بھی صفت ہے۔ تاکہ آپ ذات تعالیٰ و تقدس کی بلندی سے صفات کی پستی میں نہ آ جائیں اور اس طرح اس کی وجہ سے کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کرنے میں نہ پڑ جائیں‘‘۔
کیونکہ اس میں پھر پہلے آپ کے ذہن میں کثرت آئے گی، اس کے بعد اس سے وحدت آئے گی، تو یہ دو step تھیوری ہو جائے گی، لہٰذا صرف ایک step کرو، تاکہ آپ کو مقصود جلدی حاصل ہو۔
فرمایا:
’’اور بے چون کی گرفتاری سے چون کے شہود کے ساتھ آرام نہ پکڑیں، کیونکہ جو چون کے آئینے میں ظاہر ہو گا وہ بے چون نہیں ہے‘‘۔
یعنی اگر آپ مختلف چیزوں کی مثال لے کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے تو وہ اللہ نہیں ہو گا، وہ آپ کا خیال ہو گا۔ اس وجہ سے اس کی طرف توجہ نہ کریں، بس صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہی آپ کا خیال ہو۔
فرمایا:
’’اور جو کچھ کثرت میں نمودار ہو وہ واحد حقیقی نہیں ہے بے چون کو چون کے دائرے سے باہر ڈھونڈنا چاہئے اور بسیط حقیقی کو کثرت کے احاطہ کے باہر تلاش کرنا چاہئے۔ اگر ذکر (الہیٰ) کرتے وقت پیر کی صورت بے تکلف ظاہر ہو تو اس کو بھی قلب کی طرف لے جانا چاہئے اور قلب میں نگاہ رکھ کر ذکر کرنا چاہئے‘‘۔
بے تکلف کا فرمایا ہے۔ یعنی خود بخود آ جائے تو وہ ٹھیک ہے۔ لوگ اس کا باقاعدہ تصور بھی لوگ کرتے ہیں، لیکن ہمارے مشائخ نہیں کرتے۔
فرمایا:
’’آپ کو معلوم ہے کہ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جس سے آپ خدائے تعالیٰ جل شانہ کی جنابِ قدس تک پہنچنے کا راستہ حاصل کریں اور اس راستے میں آپ اس سے امداد و اعانت حاصل کریں‘‘۔
صرف یہ شجرہ اور کلاہ وغیرہ حاصل کرنا مقصود نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں خلافت حاصل کرنا مقصود نہیں ہے۔ اصل مقصود اللہ کا تعلق ہے، اللہ کا تعلق حاصل کرنا چاہئے۔ باقی باتیں میرے خیال میں واضح ہیں، ان کے لئے تشریح کی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں سمجھانا ذرا ضروری تھا، اس لئے سمجھا دیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ