فنا و بقا، توحید وجودی او توحید شہودی

درس 37

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




عنوانات:

1- فنا و بقا شہودی ہے یہ وجودی نہیں ہے۔

2- توحیدِ شہودی اور توحیدِ وجودی کے مراتب۔

3- فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی حقیقت۔




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تعلیماتِ مجددیہ کے ان دروس میں حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی تعلیمات سے بہت اہم علوم و معارف بیان ہوتے ہیں، جن میں تصوف کے میدان میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات اور اشکلات کے جوابات ہوتے ہیں۔ اس لئے اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ایک تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی عقدہ کسی وقت کھلتا ہے اور کوئی عقدہ کسی دوسرے وقت کھلتا ہے۔ یہ علوم و معارف خطوط کی صورت میں ہیں، اور خطوط اس شخص کے حال کے مطابق ہوتے ہیں جس کو خط لکھا جاتا ہے۔ چونکہ یہ کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ خطوط ہیں، اس وجہ سے ان میں حقائق و معارف بکھرے ہوئے ہیں، کسی خاص ترتیب میں نہیں ہیں، اس لئے جو اس درس کے ساتھ تسلسل سے وابستہ رہیں، ان کو اس چمن کے پھول، معارف و حقائق ملتے رہتے ہیں۔ آج ان شاء اللہ دفتر دوم کے مکتوب نمبر 99 کا کچھ حصہ بیان ہو گا۔

فنا و بقا شہودی ہے یہ وجودی نہیں ہے:

دفتر دوم مکتوب نمبر 99 میں حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں:

متن:

فنا و بقا شہودی ہے وجودی نہیں کیونکہ بندہ (کا وجود) نا چیز (فنا) نہیں ہوتا اور نہ ہی حق تعالیٰ کے ساتھ متحد ہوتا ہے۔ بندہ ہمیشہ بندہ ہی رہتا ہے اور رب ہمیشہ رب ہی ہے۔ وہ لوگ زندیق ہیں جو فنا و بقا کو وجودی تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بندہ اپنے وجودی تعینات کو دور کر کے اپنی اصل کے ساتھ جو کہ تعینات و قیود سے پاک ہے متحد ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے فانی ہو کر اپنے رب کے ساتھ بقا حاصل کر لیتا ہے، جس طرح کہ قطرہ اپنے آپ سے فانی ہو کر دریا میں مل گھل جاتا ہے اور اپنی قید کو دور کر کے مطلق کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اعاذنا اللہ سبحانہ عن معتقد اتھم السوء (اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے برے عقائد سے بچائے)۔ فنا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اس سبحانہ (و تعالیٰ) کے علاوہ سب کو بھول جائے۔

تشریح:

یعنی فنا کی حقیقت سب کچھ ’’بھول جانا‘‘ ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ انسان کسی موجودہ چیز کو بھی بھول جائے، چاہے وہ چیز آپ کے سامنے ہو، مگر آپ کو یاد نہ رہے۔ تاہم ختم ہونا، فنا ہونا ایک عجیب بات ہے۔

متن:

اور اس تعالیٰ کے سوا کسی اور کی گرفتاری اور تعلق باقی نہ رہے۔

تشریح:

یہ بھول جانا بھی بغیر مقصد کے نہیں ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ اللہ کے سوا باقی چیزوں کا یاد رہنا ہمیں اللہ سے غافل کرتا ہے۔ انسان معاشرے کے اندر بعض حسین صورتوں میں مبتلا ہو کر کتنے ہی گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔ گناہ اللہ تعالیٰ سے دوری اور اللہ تعالیٰ سے غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ غفلت ان صورتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس وجہ سے عارفانہ شاعری میں حسین صورتوں کو بت اور صنم کہا گیا ہے کہ وہ اللہ سے غافل کرنے کا سبب بنتی ہیں، لیکن ہمارے بے راہ رو شاعروں نے صنم کو ایک اچھی چیز بنا دیا، حالانکہ یہ تو ایک برا صیغہ ہے، اللہ کے مقابلے کی چیز ہے، صنم کہاں سے اچھی چیز ہو گئی! ہمارے ہاں شاعری میں اس کا برملا استعمال ہو رہا ہے۔ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ وغیرہ جیسی شاعری اس کی مثال ہے۔

تو فنا کا حصول یہ ہے کہ ہم نے ان صنموں کو دور کرنا ہے، ان بتوں کو دور کرنا ہے۔ یہ جو ہم ”حَقْ“ کا ذکر کرتے ہیں، اگر کوئی اس کی وجہ سمجھنا چاہے تو وہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا:

﴿وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الاسراء: 81)

ترجمہ: ’’اور کہو کہ: حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔‘‘

اور حدیث شریف میں ہے کہ جب آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا، تو خانہ کعبہ جو کہ بت خانہ بنا ہوا تھا، اس میں 360 بت پڑے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ اس آیت کو پڑھتے تھے: ﴿وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ اور بتوں کو گراتے جاتے تھے۔ اگر ہم ”حَقْ“ کا ذکر اس نیت کے ساتھ کریں کہ ہمارے دل کے بت خانے کے بت گر رہے ہیں، تو یہ بہت اعلیٰ درجے کا ذکر بن جاتا ہے۔ ہمارے دل کے بت خانے کے بت یہی چیزیں ہیں، جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں۔ حضرت نے یہی فرمایا کہ فنا کی حقیقت ان سب کو بھول جانا ہے۔

متن:

اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی گرفتاری اور تعلق باقی نہ رہے اور سینہ و دل کے میدان کو اپنی تمام مرادوں اور خواہشوں سے پاک و صاف کر دے۔

تشریح:

اس کو بزرگوں نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے مولانا یوسف لدھیانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا ایک اقتباس بیان کیا تھا، حضرت نے فرمایا کہ ”سارے مسائل کی جڑ ’’تجویز‘‘ ہے اور ان سب کا حل ’’تفویض‘‘ ہے۔“ تجویز میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہئے، ایسا ہونا چاہئے۔ جب کہ تفویض میں ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں کہ اللہ جیسا کر رہا ہے، وہی ٹھیک ہے۔

ع سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

جو اللہ پاک چاہے انسان بس اسی کے لئے قلباً، حالاً، قولاً، فعلاً تیار ہو۔

متن:

سینہ و دل کے میدان کو اپنی تمام مرادوں اور خواہشوں سے پاک و صاف کر دے جیسا کہ مقام بندگی کے مناسب ہے۔

تشریح:

مقامِ بندگی کیا ہے؟ مقامِ بندگی یہی ہے کہ انسان اپنا ارادہ، اپنی سوچ اور اپنی چاہت کو الله جل شانہ کی چاہت اور ارادے میں فنا کر دے کہ جو اللہ چاہتا وہی اچھا ہے، جو میں چاہتا ہوں اس پر سوال اٹھتے ہیں، لیکن جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھ سکتا، تو جن چیزوں پر سوال اٹھتا ہے، میں ان کو اس کے لئے چھوڑ دوں، جس پر کوئی سوال نہیں اٹھ سکتا۔

متن:

اور مقام بقا کے مناسب یہ ہے کہ آیات انفسی کے مشاہدہ کے بعد بندہ اپنے مولا جل سلطانہ کی مرادوں پر قائم ہو جائے اور اس سبحانہ کی مرادوں کو عین اپنی مرادیں معلوم کرے۔

تشریح:

یعنی میں بھی وہی چاہوں جو اللہ چاہے۔ ایک بار حضرت بہلول دانا (رحمۃ اللّٰہ علیہ) (جن کو بہلول دیوانہ بھی کہتے ہیں) یہ ہارون الرشید کے ہم عصر تھے اور ہارون الرشید کے ساتھ ان کی بے تکلفی ہوتی تھی۔ کہیں راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ہارون الرشید راستہ سے گذرے، دیکھا کہ بہلول بڑے مزے سے بیٹھا ہوا ہے، جیسے بڑے اچھے موڈ میں ہو۔ تو کہا: بہلول کس حال میں ہو؟ اس نے کہا: ’’اس شخص سے کیا پوچھتے ہو جس کی مرضی کے مطابق ساری کائنات چل رہی ہے‘‘۔

اس وقت کے بادشاہ بھی عالم ہوتے تھے، عام لوگ نہیں ہوتے تھے، جانتے تھے کہ یہ چیز تو ہو نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا: بہلول خدائی کا دعوی کب سے کیا ہے، کہاں تک پہنچے ہو؟ اس نے کہا: میں تو اللہ کا بندہ ہوں۔ انہوں نے کہا: تیرے اس قول میں تو خدائی کے دعوے والی بات نظر آ رہی ہے۔ اس نے کہا: میں نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا: تو نے یہ کہا ہے کہ اس شخص کی کیا بات ہو سکتی ہے، جس کی مرضی کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ اس نے کہا: ہاں میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں، میں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دیا ہے، اب جو اللہ کر رہا ہے وہ میری مرضی ہے، لہٰذا ساری کائنات میری مرضی کے مطابق چل رہی ہے۔

ہمارے ہند و پاک کے ایک بزرگ گذرے ہیں، حضرت شاہ دولہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، ان کے پاس ان کے گاؤں والے آئے کہ حضرت دریا رخ بدل رہا ہے اور ہمارے گاؤں کی طرف آ رہا ہے، اس کے لئے کچھ دعا فرمائیں۔ انہوں نے کہا: او فلانے! کدال لے آؤ۔ لوگ سمجھے شاید کوئی ٹوٹکا، کوئی ترکیب کرنا چاہتے ہوں گے۔ وہ کدال لے آئے۔ اب حضرت آگے آگے کدال کندھے پر رکھے ہوئے دریا کی طرف جا رہے ہیں اور لوگ پیچھے پیچھے جا رہے ہیں، دریا پر پہنچ کے گاؤں کی طرف کھدائی شروع کر دی کہ دریا گاؤں کی طرف آ جائے۔ لوگوں نے کہا: حضرت یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: جدھر مولا ادھر شاہ دولہ۔ اگر اللہ پاک میرے گاؤں کو غرق کرنا چاہتا ہے تو میں اس کو کیوں باقی رکھوں۔

خیر یہ تو غلبۂ حالی والی باتیں ہیں۔ لیکن اس میں کم از کم یہ حقیقت تو مضمر ہے کہ انسان اپنا ارادہ اللہ کے ارادے میں فنا کر دے۔ فنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے آپ کو جن چیزوں کی اجازت دی ہے وہ کریں اور جن چیزوں کی اجازت نہیں دی، ان سے رک جائیں، یہی اللہ تعالیٰ کی منشا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے اور تو کچھ نہیں چاہتا، بس یہ چاہتا ہے کہ جو شریعت ہمیں کہہ دے، اس کو ہم کریں اور جن چیزوں سے شریعت ہمیں روک دے، ان سے ہم رک جائیں اور اس پر ہمارا دل مطمئن ہو۔ نفسِ مطمئنہ کی بھی یہی تعریف ہے۔ اسی سے عبدیت بھی ملتی ہے، اسی سے جنت بھی ملتی ہے، بنص قرآنی:

﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ O ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ O وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠﴾ (الفجر: 27-30)

ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘۔

متن:

جیسا کہ مقام بندگی کے مناسب ہے۔ اور مقام بقا کے مناسب یہ ہے کہ آیات انفسی کے مشاہدہ کے بعد،

تشریح:

ایک ہیں آیاتِ آفاق۔ اس سے مراد کائنات ہے، اور ایک ہیں آیاتِ انفسی، اس سے مراد خود انسان ہے، جیسے فرمایا:

﴿وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن﴾ (الذاریات: 21)

ترجمہ: ’’اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی۔ کیا پھر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟‘‘

توحیدِ شہودی اور توحیدِ وجودی کے مراتب:

دفتر اول مکتوب نمبر 291 میں حضرت توحید شہودی اور توحید وجودی کے مراتب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

متن:

اللّٰہ تعالیٰ آپ کو رشد و ہدایت عطا فرمائے۔ اس بات کو جان لیں کہ ایک جماعت کے لئے توحید وجودی کا منشا مراقبات کی کثرت سے مشق کرنا اور کلمہ طیبہ لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی کو لا مَوْجُودَ اِلَّا اللّٰہ کے ساتھ سمجھنا ہے۔ اس قسم کی توحید حیلہ سازی اور تامل و تخیل کے بعد سلطان خیال کے غلبہ و ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ توحید کے معنی کی کثرتِ مزاولت کی وجہ سے اس کی معرفت کا نقش قوت متخیلہ میں بن جاتا ہے۔ چونکہ اس قسم کی توحید اس صاحب توحید کی اپنی بنائی ہوئی ہوتی ہے، اس لئے وہ علت سے خالی نہیں ہے۔

تشریح:

کیونکہ اس میں اپنی سوچ کا دخل ہے۔

متن:

یہ توحید والا شخص ارباب احوال میں سے نہیں کیونکہ ارباب احوال، ارباب قلوب ہوتے ہیں، اور اس توحید والے کو ابھی مقام قلب کی بھی کچھ خبر نہیں، اس لئے یہ توحید محض علمی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں یعنی حال والی نہیں ہے) لیکن علم کے بھی کئی درجے ہیں بعض کا درجہ بعض سے اوپر ہے۔

تشریح:

آج کل کے نقشبندی طریقہ میں کئی ایسی چیزیں ہیں، یہ سب تخیلاتی ہیں۔ یہ چیزیں آج کل بہت زیادہ چل رہی ہیں۔ ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب ما شاء اللہ بڑے محقق شیخ ہیں، محققین کا کام ہی تحقیق کرنا ہوتا ہے، وہ تو ان چیزوں کے پیچھے لگے ہوتے ہیں، انہوں نے بہت پہلے مجھے کہا تھا کہ میرے پاس کافی نقشبندی حضرات و مشائخ آتے ہیں اور جب میں ان سے ان کے مراقبات کے بارے میں پوچھتا ہوں تو مجھے محض تخیل نظر آتا ہے، اس کے پیچھے کوئی روحانیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنا تجربہ بتا رہے ہیں۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے جو یہاں فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ایک علمی چیز ہوتی ہے اور ایک حالی چیز ہوتی ہے، علمی اور حالی میں بہت فرق ہے، ہاں علم کے مراتب ہیں۔

متن:

اور دوسری جماعت کے لئے توحید وجودی کا منشا انجذاب اور محبت قلبی ہے کیونکہ وہ لوگ ابتدا میں ان اذکار و مراقبات میں مشغول ہوتے ہیں جو توحید کے معنی کے تخیل سے خالی ہوتے ہیں اور پھر اپنی محنت و کوشش سے یا صرف عنایت ازلی سے مقام قلب تک پہنچتے ہیں اور ایک طرح کا جذب پیدا کر لیتے ہیں، اگر اس مقام میں ان پر توحید وجودی کا جمال ظاہر ہو جائے تو اس کے سبب محبوب کی محبت کا غلبہ ہو گا کہ جس نے محبوب کے ماسویٰ کو ان کی نظر سے مخفی و پوشیدہ کر دیا ہے اور چونکہ وہ ماسوا سے محبوب کسی کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی پاتے ہیں اس لئے محبوب کے علاوہ کسی کو موجود نہیں جانتے۔

تشریح:

یہاں ایک بڑے خطرہ کی بات ہے، اگر وہ علمی ہے اور حالی نہیں ہے، اس چیز کو اگر ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہہ دیں تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا، کیونکہ اس طرح تو زندیقی کی طرف چلا جائے گا، کیونکہ پھر یہ علمی بات رہ جائے گی۔ جب کہ اس کو علمی بنانا ہی نہیں ہے، یہ تو حالی چیز ہے۔ اور اصحابِ حال کی تقلید جائز نہیں ہے، کیونکہ تقلید باقاعدہ ارادے سے ہوتی ہے، وجد اور چیز ہے تَوَاجُد اور چیز ہے۔ جو حال آپ کو حاصل نہیں اور آپ اپنے علم سے، دوسروں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنے اوپر اس کیفیت کو علماً طاری کر لیں، وہ تو صرف اور صرف نقالی ہو گی، ہاں اگر کسی پر اصلی حال طاری ہو تو وہ معاف ہے، کیونکہ وہ معذور ہے، اس کو پتا ہی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اور جس کو پتا ہے وہ تو ایسی بات ہی نہیں کر سکتا۔

حضرت مولانا یعقوب نانوتوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ایک دفعہ تشریف فرما تھے کہ ان پر حال آ گیا۔ وہ بہت بڑے عالم تھے لیکن صاحبِ حال بھی تھے، جب ان پر غلبۂ حال ہو جاتا تو پھر بات بڑی مختلف ہوتی۔ ایک دفعہ کوئی بزرگ تشریف لائے تھے تو ان کے علوم کو دیکھ کر کہا کہ آپ مثنوی شریف کا درس کیوں نہیں دیتے؟ اس وقت جو اکابر موجود تھے، انہوں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو اس کا دیوبند میں رہنا پسند نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں، کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس نے مثنوی شریف کا پہلا صفحہ بھی پڑھا تو خطرہ ہے کہ یہ ادھر نہیں رہے گا، کہیں جنگلوں میں چلا جائے گا، یہ تو پہلے ہی بڑی مشکل سے یہاں پر ہے۔ تو یہی حضرت مولانا یعقوب نانوتوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ایک دفعہ حال کی حالت میں کہنے لگے: ”میں نے یہ کہا، پھر اس نے یہ کہا، پھر میں نے یہ کہا، پھر اس نے یہ کہا، پھر میں نے یہ کہا پھر اس نے یہ کہا۔ پھر کہا، بکو مت۔“ یہ بات کسی نے سنی تو وہ فوراً مولانا قاسم نانوتوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پاس پہنچا کہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) صاحب یہ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اچھا! واقعی اس طرح کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اسی طرح کہہ رہے ہیں۔“ انہوں نے کہا: ”مجذوب ہیں تبھی تو کہہ رہے ہیں۔ ہم کہیں تو ہماری گردن ناپی جائے۔“ یعنی ہم معذور نہیں ہیں، ہم ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں معذور کی اور بات ہے، بیماری میں بھی بعض دفعہ لوگ معذور ہو جاتے ہیں، دماغ صحیح کام نہیں کرتا، جس کو ہذیان کہتے ہیں، اس ہذیان کی حالت میں جو کہے وہ معاف ہے، اس کو آپ کسی حکم میں نہیں لا سکتے۔ جو ہوش میں نہیں، جو نیند میں ہے اور جو بالغ نہیں ہے، ان سے قلم اٹھا دیا گیا ہے۔ باقی سب کچھ لکھا جا رہا ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی شخص مستثنیٰ نہیں ہے۔

متن:

اور دوسری جماعت کے لئے توحید وجودی کا منشا انجذاب اور محبت قلبی ہے کیونکہ وہ لوگ ابتدا میں ان اذکار و مراقبات میں مشغول ہوتے ہیں جو توحید کے معنی کے تخیل سے خالی ہوتے ہیں۔

تشریح:

یعنی ان کا ارادہ نہیں ہوتا، وہ اللہ کی محبت میں اذکار کر رہے ہوتے ہیں، ان کی توحید تخیل نہیں ہوتی۔

متن:

اور پھر اپنی محنت و کوشش سے یا صرف عنایت ازلی سے مقام قلب تک پہنچتے ہیں اور ایک طرح کا جذب پیدا کر لیتے ہیں.

تشریح:

اب ذرا غور فرمائیں۔ یہاں ما شاء اللہ ایک ایک نکتے میں کئی کئی نکتے آ رہے ہیں۔ ”پھر اپنی محنت و کوشش سے“ مراد جذب کسبی ہے۔ ”یا صرف عنایتِ ازلی سے“ مراد جذب وہبی ہے، جس کو مرادی کہتے ہیں۔ مریدی جذبِ کسبی ہے۔ بعض لوگ جذبِ کسبی سے انکار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نقشبندی سلسلہ میں جذبِ کسبی نہیں ہے۔ خدا کے بندے! حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فرما رہے ہیں: ”پھر اپنی محنت و کوشش سے“۔ اس سے اور کیا مراد ہے؟ یہ فقرہ پورا سن لیں۔ ”پھر اپنی محنت و کوشش سے یا صرف عنایت ازلی سے“ دو حصے ہو گئے، اس پہلے حصے کو ملا دیں تو جملہ یوں بنے گا ”پھر اپنی محنت و کوشش سے ایک طرح کا جذب پیدا کر لیتے ہیں۔“ یہ بھی پورا فقرہ ہے، اور اس کو دوسرے کے ساتھ ملا دیں تو جملہ یوں بنے گا ”یا صرف عنایت ازلی سے ایک طرح کا جذب پیدا کر لیتے ہیں۔“ دو فقرے ہو گئے، پہلے فقرے سے مراد جذبِ کسبی ہے۔ دوسرے فقرے سے مراد جذبِ وہبی یا جذبِ مرادی ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ جذبِ کسبی بھی ہوتا ہے، جذبِ مرادی بھی ہوتا ہے۔

متن:

اگر اس مقام میں ان پر توحید وجودی کا جمال ظاہر ہو جائے تو اس کے سبب محبوب کی محبت کا غلبہ ہو گا کہ جس نے محبوب کے ماسویٰ کو ان کی نظر سے مخفی و پوشیدہ کر دیا ہے اور چونکہ وہ ماسوا سے محبوب کسی کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی پاتے ہیں اس لئے محبوب کے علاوہ کسی کو موجود نہیں جانتے۔

تشریح:

یہ حال کے درجے میں بات ہو رہی ہے۔

متن:

توحید کی یہ قسم احوال سے ہے اور تخیل کی علت اور توہم کی آمیزش سے پاک و مبرا ہے۔

تشریح:

توہم، تصور، تخیل۔ یہ سب باب تفعُّل سے ہیں جس میں تکلف پایا جاتا ہے۔ تو فرما رہے ہیں کہ توحید کی یہ قسم تکلف والی چیز نہیں ہے۔ ہاں شریعت میں تکلف ہے۔ مجھے حضرت صوفی اقبال صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ایک بڑی عجیب بات فرمائی۔ یہ بڑے عارفین حضرات میں سے تھے۔ میری کتاب ”میراث کا حساب“ دیکھ کے بڑے خوش ہوئے، فرمایا: یہ آپ نے بڑ اچھا کام کیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ اس لئے کیا کہ بہت سارے حضرات کہتے تھے کہ میراث بہت مشکل ہے، میں نے اس کو دیکھا تو پتا چلا کہ یہ مشکل نہیں ہے، بلکہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جب تحقیق کی کہ کیسے مشکل بنایا گیا ہے تو پتا چلا کہ اس میں پرانی ریاضی استعمال ہو رہی ہے، جو آج کل کے ماحول میں نہیں ہے۔ تو جو چیز ماحول میں نہیں ہے، وہ مشکل ہو جاتی ہے، اس وجہ سے یہ علم بھی مشکل ہو گیا، اگر آج کل کی جدید ریاضی سے پڑھا جائے تو کوئی مشکل نہیں۔ پھر میری زبان سے ایک فقرہ نکلا کہ: ”جس چیز میں زوائد کا التزام ضروی قرار دیا جائے، وہ چیز مشکل ہو جاتی ہے۔“ حضرت نے فوراً سن لیا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ فرمایا: ”آپ بالکل صحیح کہتے ہیں، میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ”تصوف“ میں ”تصوف“ نہیں ہے، اس کا کیا مطلب ہے“۔ میں سمجھ گیا کہ حضرت کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، یہ بات ان کے معارف میں سے ہے۔ میں نے کہا: حضرت آپ ہی فرما دیں۔ فرمایا: ”تصوف بابِ تفعّل سے ہے، اور بابِ تفعّل میں تکلف پایا جاتا ہے، لیکن تصوف میں تکلف نہیں ہے۔“ یہ وہی بات ہے جو مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی باتوں کا نچوڑ ہے، حضرت صوفی اقبال صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے کیسے خوبصورت انداز میں بتا دیا، کہ تصوف میں تصوف نہیں ہے، یعنی اس میں تکلف نہیں۔ حضرت مجدد صاحب بھی فرماتے ہیں کہ تخیل، تصور یہ سب چیزیں حال نہیں ہیں، یہ تو آپ کا تخیل ہے جو سامنے آ گیا ہے، اس کو حال کے درجہ میں حاصل کر لو پھر اس پر پابندی نہیں ہے، جب تک تخیل و تصور کے درجے میں ہے تب شریعت کی پابندیاں لازم ہیں، اور تکلفاً لازم ہیں۔ شریعت میں تکلفاً لزوم ہوتا ہے، یعنی آپ نے طوعاً و کرہاً ماننا ہی ہے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے:

﴿ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ﴾ (فصلت: 11)

ترجمہ: ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جب کہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا۔ اور اس سے اور زمین سے کہا: چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا: ہم خوشی خوشی آتے ہیں‘‘۔

اسی طرح شریعت کا معاملہ ہے کہ چاہے آپ اپنی مرضی سے آ جائیں، چاہے تکلف سے آ جائیں، کرنا تو پڑے گا، دل نہیں چاہتا نماز پڑھنے کو، پھر بھی پڑھنی پڑے گی۔ کئی لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ حضرت جی میرا دل نہیں کرتا، جب میرا دل چاہے گا تو پھر نماز پڑھوں گا۔ نہیں بھائی! یہاں پر یہ بات نہیں چلے گی۔ دل چاہے نہ چاہے پڑھنا پڑے گی، دل چاہے نہ چاہے فرائض واجبات ادا کرنے پڑیں گے، ہاں نوافل میں آپ کی اپنی مرضی ہے، لیکن اس میں بھی یہ بات ہے کہ کرو گے تو اجر ملے گا، نہیں کرو گے تو اجر نہیں ملے گا۔ وہاں آپ کو اختیار ضرور دیا گیا ہے، لیکن اختیار کے ساتھ آپ کو قانون بھی بتایا گیا ہے کہ کرنے پر اجر ہے نہ کرنے پر اجر نہیں۔ لہٰذا یہاں شریعت میں تو تکلف ہے، مگر طریقت میں تکلف نہیں ہے، طریقت میں آپ کو تخیل اور تکلف سے نکلنا پڑے گا، ورنہ پھر آپ کے اوپر شریعت کے احکامات لاگو ہوں گے اور اس کے مطابق آپ کو کرنا پڑے گا۔

متن:

توحید کی یہ قسم احوال سے ہے اور تخیل کی علت اور توہم کی آمیزش سے پاک و مبرا ہے۔ اور اگر ارباب قلوب کی اس جماعت کو اس مقام سے عالم کی طرف واپس لے آئیں تو وہ لوگ اپنے محبوب کو ذرات عالم میں سے ہر ذرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں اور موجودات کو اپنے محبوب کے حسن و جمال کے آئینے اور مظاہر سمجھتے ہیں اور اگر محض فضل خداوندی جل شانہ سے یہ ارباب قلوب مقام قلب سے نکل کر مقلب قلب (حق جل و علا) کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہو جائیں تو یہ توحیدی معرفت جو ان کو مقام قلب میں پیدا ہوئی تھی زائل ہونے لگتی ہے اور جس قدر وہ عروج کی بلندیوں میں ترقی کرتے جاتے ہیں اپنے آپ کو اس معرفت کے ساتھ اسی قدر زیادہ نا مناسب پاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض اس معرفت والوں کے طعن و انکار کی حد تک پہنچ جاتے ہیں مثل رکن الدین ابو المکارم شیخ علاء الدولہ سمنانیؒ کے اور بعض دوسرے حضرات کے لئے اس معرفت کے زائل ہونے کے بعد اس کی نفی کرنے یا ثابت کرنے سے کچھ کام نہیں رہتا۔ ان سطور کا کاتب اس معرفت والوں کے انکار سے اجتناب کرتا ہے اور ان کو طعن کرنے سے آپ کو دور رکھتا ہے۔

تشریح:

کیسی عجیب بات آئی ہے، حضرت نے جلدی جلدی بہت ساری باتیں سمیٹ لی ہیں، اصل میں حضرت نے سب سے پہلے تو یہ بات بتائی کہ حال کے درجے میں معافی ہے اور تخیل کے مرتبہ میں معافی نہیں ہے، اس میں بات شریعت کے مطابق کرنی پڑے گی ٹھیک ہے، جیسے ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا بھی تخیل ہے۔

(ہدایت: (شریکِ مجلس ایک ساتھی کو سوتے دیکھ کر حضرت نے فرمایا): میں حضرت مولانا زکریا صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا واقعہ سناتا ہوں۔ ان سے شفیق بزرگ تو آپ نے سنا نہیں ہو گا، بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ٹھیک ٹھیک کر کے حساب لیتے تھے اور حضرت مولانا زکریا صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کافی شفقت فرماتے تھے، بھائی بزرگوں کے اپنے اپنے مزاج ہوتے ہیں۔ صوفی اقبال صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) خود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، تو میں ذرا سست طریقے سے کھانا کھا رہا تھا، حضرت نے مجھ سے فرمایا: بھائی ٹھیک طریقے سے کھاؤ یہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا: حضرت طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ فرمایا: اگلی ٹرین کا ٹائم معلوم کر کے اس میں چلے جاؤ، اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آپ گھر چلے جاؤ۔ میں خود اس مجلس میں موجود تھا، جس میں صوفی صاحب نے یہ بات فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعتاً ماحول اور مجلس کے آداب لازمی ہوتے ہیں اور فائدہ تب ہوتا ہے جب اس کے لئے انسان اپنے دل و دماغ کو بالکل فارغ کر کے رکھ دے، ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ دیکھو! حال بڑا نازک مہمان ہے، اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ورنہ یہ روٹھ جاتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ پھر حضرت نے ارشاد فرمایا: دیکھو! اہل قلوب کو حال والوں کے ساتھ رہنا چاہئے، کیونکہ اگر ان کو یہ حال آ جائے اور ان کے پاس کوئی اہل قلوب نہ ہوں تو یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ان کا کیا حال ہے، کیونکہ حال کے اوپر بندے کا اپنا اختیار نہیں ہوتا، اگر ان کے پاس کوئی اہل قلب نہ ہو تو ان کا حال انقباض میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس سے بعض دفعہ موت تک آ سکتی ہے، ان کی بشاشت و انبساط انقباض میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ بعض دفعہ خواتین کے بیان میں جب علوم و معارف زبان پر آتے رہتے ہیں، تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ کچھ خواتین ایسی ہیں جو کھینچ رہی ہیں، ان میں طلب ہے، اور جب طبیعت میں بالکل انقباض آ جائے تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ ان میں طلب نہیں ہے، بات مختصر کر کے پوری کر لیتا ہوں۔ کیونکہ مقصد صرف سنانا نہیں ہے، سمجھانا ہے، کوئی سمجھے گا تب ہی، جب وہ سمجھنے کے لئے تیار ہو، اگر سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے، تو آپ اس کو کیسے سمجھائیں گے؟ خواہ مخواہ آپ کو مزاحمت ہو گی، آپ کی طبیعت پر بوجھ آئے گا، نیتجتاً کام خراب ہو گا۔ اس وجہ سے ایک ہی غلطی کی وجہ سے کئی لوگوں کو خواہ مخواہ نقصان ہوتا ہے، آئی ہوئی چیز واپس چلی جاتی ہے۔ میرے خیال میں حدیث شریف میں اس کی سند موجود ہے۔ آپ ﷺ جب لیلۃ القدر کے بارے میں بتانا چاہتے تھے تو صحابہ کرام کسی ایسی بحث میں مشغول تھے، جو اس وقت کے لحاظ سے مناسب نہیں تھی تو آپ ﷺ سے وہ علم واپس لے لیا گیا، اور آپ ﷺ نے فرما دیا کہ آپ لوگوں کی ان باتوں کی وجہ سے علم واپس لے لیا گیا ہے۔ تو بعض دفعہ اس قسم کی آئی ہوئی چیز بھی واپس ہو سکتی ہے۔ میرے سامنے تو بہت تھوڑے سے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن پیچھے جو لوگ سن رہے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں، ہم ان کا خیال رکھتے ہیں، کیونکہ وہ بھی متاثر ہوتے ہیں، بلکہ مجھے بعض دفعہ کہہ بھی دیتے ہیں، اس وجہ سے ہمیں بہت خیال رکھنا پڑے گا۔)

خیر بات بڑی دور چلی گئی، میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ حضرت فرما رہے تھے کہ تخیل کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے، بلکہ حال کی وجہ سے ہونا چاہئے۔

متن:

اگر ارباب قلوب کی اس جماعت کو اس مقام سے عالم کی طرف واپس لے آئیں عالم کی طرف واپس لے آئیں تو وہ لوگ اپنے محبوب کو ذرات عالم میں سے ہر ذرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں۔

تشریح:

یعنی:

جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

ہر چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے

یہ بھی ایک حال ہے، لیکن اس حال میں وہ چیزیں ان کو غافل نہیں کرتیں، بلکہ وہ چیزیں ان کو اللہ یاد کراتی ہیں۔ اس موضوع پر ہماری ایک غزل ہے وہ سنئے، جو ہم نے مری میں کہی تھی۔

فطرت کے نظاروں میں محبوب تجھ کو لائے

کیا کیا تجھے دکھلایا کیا کیا تجھے سنوائے

فطرت کے نگینوں کو ماحول سے چننا ہے

کہ ان ہی نگینوں میں محبوب نظر آئے

آواز پرندوں کی ماحول کی خوش رنگی

ان سب پہ نظر پھسلے اور میری وہاں جائے

تشریح:

یعنی ان میں پھنسنا نہیں ہے۔ یہ نظارے اس لئے نہیں کہ ان میں نظر پھنس جائے، بلکہ یہ اس لئے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تک جائے۔

وہ ہر جگہ موجود ہے ڈھونڈو اسے ہر شے میں

ظاہر بھی اس کا ہے نام باطن بھی وہ کہلائے

ہو آنکھ میں بینائی اور دل میں شناسائی

تشریح:

یہاں بصارت اور بصیرت دونوں موجود ہوں۔

ہر آن اسے دیکھے ہر آن اسے پائے

تشریح:

یعنی بصارت اور بصیرت دونوں کا آپس میں تعلق ہو، بصارت کے ذریعے سے بصیرت تک بات پہنچ جائے۔

شبیرؔ کا دل اس کا شبیرؔ ہی اس کا ہے

پھر کیوں نہ اپنے دل کے محبوب کے گن گائے

تشریح:

مری میں جو ہمارا جوڑ ہوتا ہے، اس میں بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مری میں لوگ غفلت کے لئے جاتے ہیں، وہاں سیر سپاٹا اور فسق و فجور اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اللہ سے غافل ہوتے ہیں تو وہاں جوڑ کا ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں انہی چیزوں سے بجائے غفلت کے اللہ کی یاد آ جائے۔ کیونکہ ایک خاص محنت ایک خاص درجے تک کرنی ہوتی ہے، وہ محنت اگر ہو جائے تو پھر یہی چیزیں ہمیں ذکر کروانے والی ہو جاتی ہیں۔ اب میں آپ کو ایک بہت اچھی مثال دیتا ہوں، ہندو یا بت پرست لوگ چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں، کسی بھی باکمال چیز سے متاثر ہوتے ہیں، کوئی خوبصورت چیز، کوئی اونچی چیز، کوئی بڑی چیز وغیرہ۔ اگر ان کا ذہن اس طرف چلا جائے کہ یہ چیزیں بنائی کس نے ہیں؟ تو یہ بڑے پکے موحد بن جائیں۔ صرف درمیان میں یہی ربط نہیں ہو پاتا اس لئے وہ بت پرست ہوتے ہیں، اگر ان پر یہ محنت کی جائے اور وہ یہ چیز پا لیں تو یہ ہر چیز سے اللہ کی طرف پھر جائیں گے۔ مسلمانوں میں مشرک تو نہیں ہوتے لیکن مسلمانوں میں غافل ہوتے ہیں، فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان چیزوں کے ساتھ مشغول ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ان کو غفلت سے نکالنا ہوتا ہے اور ان کو ذاکر بنانا ہوتا ہے، کہ یہ انہی چیزوں کے ذریعے اللہ کو یاد رکھ سکیں۔

متن:

تو وہ لوگ اپنے محبوب کو ذرات عالم میں سے ہر ذرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں اور موجودات کو اپنے محبوب کے حسن و جمال کے آئینے اور مظاہر سمجھتے ہیں اور اگر محض فضل خداوندی جل شانہ سے یہ ارباب قلوب مقام قلب سے نکل کر مقلب قلب (حق جل و علا) کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہو جائیں تو یہ توحیدی معرفت جو ان کو مقام قلب میں پیدا ہوئی تھی زائل ہونے لگتی ہے۔

تشریح:

یعنی جو چیزیں نظر آرہی ہیں ان کے ذریعے اللہ نظر آئے، پھر چیزیں بھی درمیان سے ہٹ جاتی ہیں اور خالصتاً اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

متن:

اور جس قدر وہ عروج کی بلندیوں میں ترقی کرتے جاتے ہیں اپنے آپ کو اس معرفت کے ساتھ اسی قدر زیادہ نا مناسب پاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض اس معرفت والوں کے طعن و انکار کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔

تشریح:

یعنی وہ ان کی مشغولیت سے اتنا نکل جاتے ہیں کہ پھر مشغول لوگوں کے اوپر طعن کرنے لگتے ہیں، جب خود اس سے نکل جاتے ہیں تو اب سمجھتے ہیں کہ یہ تو غلط کام تھا، لہٰذا ان پر طعن کرنے لگتے ہیں۔

متن:

مثلاً رکن الدین ابو المکارم شیخ علاء الدولہ سمنانیؒ کے اور بعض دوسرے حضرات کے لئے اس معرفت کے زائل ہونے کے بعد اس کی نفی کرنے یا ثابت کرنے سے کچھ کام نہیں رہتا۔ ان سطور کا کاتب اس معرفت والوں کے انکار سے اجتناب کرتا ہے اور ان کو طعن کرنے سے آپ کو دور رکھتا ہے۔

انکار و طعن کی مجال اس وقت ہوتی ہے جبکہ اس حال کے ظہور میں اس حال والوں کا اپنا قصد و اختیار ہو، ان کے ارادہ کے بغیر یہ معنی ان سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ اس حال میں مغلوب ہیں اس لئے معذور ہیں، اور معذور و مضطر پر کوئی رد و طعن کی گنجائش نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ فقیر اس قدر جانتا ہے کہ اس معرفت کے اوپر بھی ایک اور معرفت ہے، اور اس حال سے آگے بھی ایک دوسری حالت ثابت ہے۔ اس مقام پر رکے ہوئے حضرات بہت کمالات سے رکے ہوئے ہیں اور بے شمار مقامات سے محروم رہتے ہیں۔

تشریح:

یہ حالتِ صحو ہے، جو حضرت کی ہے۔ جو دوسروں کی معذوری کو جانتا ہے، لیکن اس کو رکنے والی چیز نہیں سمجھتا کہ وہاں پر آدمی رک جائے، بلکہ اس سے نکلنا چاہئے۔

متن:

ارباب توحید میں سے ایک گروہ کے لوگ وہ ہیں جو اپنے مشہود میں استہلاک (نیستی) و اضمحلال (فنائیت) کامل طور پر پیدا کر لیتے ہیں، اور ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مشہود میں ہمیشہ مضمحل و معدوم رہیں، اور ان کے وجود سے کوئی اثر ظاہر نہ ہو، یہ لوگ کلمہ "انا " کے رجوع کو اپنے لئے کفر جانتے ہیں۔

تشریح:

اس سے مراد کفرِ طریقت ہے، کفرِ شریعت نہیں ہے۔

متن:

ان میں سے بعض فرماتے ہیں "اِشْتَھِی عَدَما لَا اَعُودَ اَبَدا" میں ایسا عدم چاہتا ہوں کہ جس کا وجود ہرگز کھبی نہ ہو)۔ یہی لوگ محبت کے مقتول ہیں۔ اور حدیث قدسی"مَنْ قَتَلَہُ فَاَنَا دِیَتُہٗ" (جس کو میں قتل کرتا ہوں اس کا خون بہا بھی میں خود ہوتا ہوں) انہی کی شان میں ثابت ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ وجود کے زیر بار رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی آرام نہیں پاتے کیونکہ آرام غفلت میں ہوتا ہے، دائمی فنائیت کے ہوتے ہوئے غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ہرویؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص مجھ کو ایک ساعت کے لئے حق تعالیٰ سے غافل کر دے امید ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے جائیں۔

تشریح:

یہ ایک عجیب بات ہے۔ میرے خیال میں اگر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا ایک مقولہ یہاں نہ بتاؤں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ارشاد فرماتے ہیں کہ استتار (حضوری کی ضد) بھی ہمارے لئے ضروری ہے، کیونکہ اگر یہ استتار نہ ہو تو ہم ختم ہو جائیں، ہلاک ہو جائیں، برداشت ہی نہ کر سکیں، اس لئے حال اتنا آنا چاہئے جتنا کہ ہم برداشت کر سکیں، کیونکہ زندگی کو اعمال کے لئے باقی رکھنا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ جیسے دن اور رات کو باری باری بدلتا ہے تاکہ انسان تازہ دم ہو کر پھر کام کرنے کے لئے تیار ہو۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاساً وَجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشاً﴾ (النبأ: 10)

ترجمہ: ’’اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا۔ اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا‘‘۔

اسی طرح یہاں بھی اس سے مراد استتار ہے، غفلت مراد نہیں ہے، یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے تھوڑی دیر کے لئے استتار میں لے آئے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں۔

متن:

اور وجود بشریت کے لئے غفلت در کار ہے حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے کمال کرم ان میں سے ہر ایک کے ظاہر کو ان کی استعداد کے موافق ان امور میں جو غفلت کو مستلزم ہیں مشغول کر دیا ہے تاکہ وہ بارِ وجود کسی قدر ان سے ہلکا ہو جائے۔ چنانچہ ایک جماعت کو سماع و رقص کی الفت دیدی ہے اور ایک گروہ کو کتابوں کی تصنیف اور علوم و معارف تحریر کرنا شعار بنا دیا گیا اور ایک گروہ کو بعض مباح امور میں مشغول کر دیا ہے۔ (جیسا کہ) عبد اللہ اصطخری سگ بانوں (کتوں والوں) کے ہمراہ جنگل میں چلے جایا کرتے تھے کسی شخص نے ایک بزرگ سے اس کا راز دریافت کیا تو ان بزرگ نے فرمایا یہ اس لئے تاکہ ان کا نفس کچھ وقت کے لئے بارِ وجود سے خلاصی حاصل کر لے ـــــ اور بعض کو توحید وجودی کے علوم اور وحدت میں کثرت کے مشاہدہ سے آرام دیا تاکہ اس بار سے ایک ساعت کے لئے آرام پا لیں۔

تشریح:

میرے خیال میں یہ مکتوب شریف حضرت کے نوادرات میں سے ہے۔ دیکھیں! کیسے چیزوں کو آپس میں ملا رہے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ایسی چیزوں سے کام لیا ہے۔ ہم نے عبقات کا درس شروع کیا تو مجھ پر ایک بڑے صاحب نے اعتراض کیا کہ آپ نے شاہ اسمعیل شہید (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو کھول دیا، وہ تو وجودی ہیں۔ (اِنَّا للّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) خدا کے بندو! نہ خود سمجھے ہو، نہ دوسروں کو سمجھنے دیتے ہو، یہ کیا کر رہے ہو۔ کیا میں نقشبندیت شاہ اسمعیل (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے زیادہ سمجھوں گا؟ کیسے عجیب لوگ ہیں!

متن:

اور وہ توحید جو مشائخ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے بعض اکابر بزرگوں سے ظاہر ہوئی ہے اسی قسم سے ہے۔ ان بزرگوں کی نسبت‘ تنزیہ صرف کی طرف لے جاتی ہے، وہ عالم، اور شہود در عالم سے کچھ واسطہ نہیں رکھتے ـــــ اور وہ معارف جو ارشاد پناہی حقائق و معارف دستگاہی ناصر الدین خواجہ عبید اللہ قدس سرہ نے توحید وجودی اور کثرت میں وحدت کے شہود کے مناسب تحریر فرمائے ہیں توحید کی اسی اخیر قسم سے ہیں۔ ان کی کتاب ”فقرات“ جو بعض علومِ توحید وغیرہ پر مشتمل ہے اس کتاب کا منشا اور ان معارف کا مقصود ان کا عالَم کے ساتھ انس و الفت پیدا کرنا ہے ـــــ اور ہمارے خواجہ (باقی باللہؒ) کے وہ معارف جو آپ نے بعض رسالوں میں کتاب ”فقرات“ کے کلام کے مطابق تحریر فرمائے ہیں اسی قسم سے ہیں۔ ان علوم توحید کا منشا نہ جذبہ ہے اور نہ غلبۂ محبت، اور ان کے مشہود کو عالم کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہیں ہے‘ ان کو جو کچھ عالَم میں دکھاتے ہیں ان کے مشہود حقیقی کا شبہ و مثال ہے۔

توحید کی یہ آخری قسم اقسامِ توحید میں سب سے اعلیٰ قسم ہے۔ بلکہ حقیقت میں اس معرفت والے حضرات اس وارد (حال) کے مغلوب نہیں ہیں اور ان کا سکر اس معرفت کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس حال کو ان پر کسی مصلحت کی بنا پر طاری کر دیا گیا ہے اور یہ بات ملحوظ ہےکہ اس معرفت کے وسیلے سے ان کو سکر سے صحو میں لائیں اور تسلی دیں جیسا کہ بعض کو سماع و رقص سے اور بعض کو بعض امور مباحہ کے ساتھ مشغول کر کے تسلی دی گئی ہے ــــــ

تشریح:

سبحان اللہ! سب کی صفائی کر دی۔ در اصل حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ جب میں نے مکتوبات شریفہ پر کام شروع کیا، تو میں مکتوبات سے انتہائی نا واقف تھا۔ نا واقفوں کے ساتھ معاملہ بہت عجیب ہوتا ہے۔ ایک صاحب کو حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی زیارت ہوئی، انہوں نے میرے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کو کہو کہ مکتوبات شریفہ سے پہلے حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے حالات پڑھے، تبھی ان کو مکتوبات سمجھ میں آئیں گے۔ پھر میں نے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی کتاب ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی چوتھی جلد جو حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پر لکھی گئی ہے، ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھی، اس سے حضرت کے حالات کا پتا چلا کہ کن حالات میں حضرت نے یہ مکتوبات شریفہ لکھے ہیں۔ اس سے الحمد للہ یہ چیز معلوم ہو گئی کہ حضرت نے بعض چیزوں میں جو تشدد کیا ہے وہ مجبوراً کیا ہے، کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں بنتا تھا، لوگ صحیح چیز کی طرف آتے نہیں تھے، لیکن جب وہ تشدد کام کر چکا، پھر اس کے بعد نرمی بھی دکھائی ہے، پھر اس قسم کے مکتوبات شریفہ آئے۔ یعنی جب صفائی ہو گئی تو پھر اب اپنی اپنی جگہ پر چیزوں کو رکھ رہے ہیں۔ تو یہ اس قسم کا مکتوب شریف ہے۔ اس میں حضرت نے جن چیزوں کا سختی کے ساتھ رد کیا تھا، جیسے سماع کا سختی کے ساتھ رد کیا تھا، لیکن وہ رد مجبوراً تھا کیونکہ لوگ ان میں مشغول ہو کر وہ چیز نہیں حاصل کر رہے تھے جس چیز کو حاصل کرنا تھا۔

مجھے دار العلوم کراچی میں اس کا پتا چلا تھا، میں ایک مفتی صاحب سے بات کر رہا تھا تو حضرت نے فرمایا کہ اصل میں سدِ باب بھی ایک چیز ہوتی ہے، یعنی ہم فتوے میں اس چیز کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ بعض چیزوں کا سدِ باب کرنا ہوتا ہے، تاکہ اس چیز پر عمل نہ چل پڑے، اس کے لئے ہمیں سختی کرنی پڑتی ہے، بعض دفعہ مباح چیز کو بھی ہم روک دیتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ چیز واقعی اس طرح ہے، لیکن بعض دفعہ مجبوری ہوتی ہے۔ بہت سارے مسائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے، آج کل ہر طرف فتنے کا دور ہے، بعض دفعہ لوگ مصاہرت کے مسائل میں گر کے پتا نہیں کہاں پہنچ جاتے ہیں، اس وقت اگر ان کے اوپر سختی کی جائے کہ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے، یہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ تو اس کا مقصد ان کو اس سے بچانا ہوتا ہے، یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے۔

فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی حقیقت:

دفتر اول مکتوب نمبر 97 میں حضرت فرماتے ہیں:

متن:

اور فنا و بقا کہ جس کے حاصل ہونے کو ولایت سے تعبیر کرتے ہیں اس سے مقصود صرف یہی یقین ہے اور بس اور اگر فنا فی اللہ اور بقا باللہ سے کچھ اور معنی مراد لے جائیں تو حالیت (حلول کرنے) اور محلیت (محل خدا ہونے) کے وہم میں ڈالنے والے ہوں تو یہ عین الحاد اور زندقہ ہے غلبہ حال اور سکر وقت میں ایسی بہت سی چیزیں ظاہر ہو جاتی ہیں کہ جن سے آخر کار گذر جانا چاہئے اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔

تشریح:

یعنی اگر کوئی اتحاد کی طرف چلا گیا تو بات حلول کی طرف چلی جائے گی۔

متن:

ابراہیم بن شیبان جو کہ مشائخ طبقات قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ "فنا و بقا کا علم وحدانیت کے اخلاص اور عبودیت کی صحت کے گرد گھومتا ہے اور اس کے ماسوا غلطی اور زندقہ ہے"

تشریح:

سبحان اللہ! ایک فقرے میں سارا کچھ کہہ دیا۔ یعنی فنا و بقا کے علم سے مطلوب اخلاص اور عبدیت ہے۔ اخلاص معرفت سے آتا ہے، اور معرفت فنا و بقا سے آتی ہے۔ جب آپ سب کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ مجھے کچھ بھی نہیں دے سکتے تو پھر کس کے لئے کام کرو گے، اللہ ہی کے لئے کرو گے۔ اللہ تعالیٰ بار بار قرآن پاک میں یہی تو فرماتے ہیں کہ یہ باطل معبود نہ ان سے کوئی چیز ہٹا سکتے ہیں، نہ ان کو کوئی چیز دے سکتے ہیں۔ جب آپ پر یہ چیز کھل جائے کہ کوئی بھی مجھے کچھ نہیں دے سکتا اور کوئی بھی مجھ سے کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا تو یہی معرفت ہے، اس معرفت کا نتیجہ اخلاص ہو گا۔ حضرت معاذ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! یاد رکھو اگر یہ سارے لوگ جمع ہو جائیں اور تمہیں کوئی چیز دینا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نہ دینا چاہے تو نہیں دے سکتے۔ اور اگر یہ سارے لوگ جمع ہو جائیں اور تجھ سے کوئی چیز ہٹانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نہ ہٹانا چاہے تو نہیں ہٹا سکتے۔ یہ بہت بڑی معرفت ہے۔ اس میں ان لوگوں کی نفی نہیں ہے بلکہ لوگوں سے ہونے کی نفی ہے، یعنی ان کی موثریت کی نفی ہے، کہ ان کے افعال موثر حقیقی نہیں ہیں، بلکہ وہ بالسبب ہیں اور سبب مسبِّب کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، سبب مشیتِ الٰہی کے مطابق ہوتا ہے، مشیتِ الٰہی سے سبب کا ٹکراؤ نہیں ہو سکتا۔

جب یہ معلوم ہو گیا تو اب اگر ہم سمجھیں کہ فنا (ختم ہونا( بقا (واپس آنا) ان کے درمیان کا کلچ یہی ہو گا کہ آپ نے ان چیزوں سے اثر لینا ختم کر لیا، وہ چیزیں اپنی جگہ موجود ہیں، ختم نہیں ہوئیں، وہ گئیر اپنی جگہ موجود ہے، لیکن اب آپ نے اس گیئر سے اثر لینا ختم کر لیا، اب آپ نے اللہ تعالیٰ سے اثر لینا شروع کر لیا۔ فنا و بقا بالکل یہی چیز ہے، فنا میں آپ انفس اور آفاق دونوں سے بھی نکل جاتے ہیں، اور ان کا اثر لینے سے نکل جاتے ہیں، اور بقا یہ ہے کہ دوبارہ ان میں واپس آ جاتے ہیں، لیکن اثر نہیں لیتے اثر اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں۔ گویا کہ آپ کو تھوڑی دیر کے لئے جو ان سے باہر نکالا گیا تھا یہ ان کی موثریت کو ختم کرنے کے لئے تھا۔ یہاں پر بھی ایک چھوٹا سا قطعہ سناتا ہوں۔

کہ بس صرف وہ ہی رہ جائے نہ کوئی اور ہو دل میں

کہ اس وحدت کے دریا میں بھی اک ڈبکی لگانا ہے

(مراد فنا ہے۔)

جو گند دنیا کی دل میں ہے وہ اس سے پاک ہو جائے

شراب عشقِ وحدت دل کو خم پہ خم پلانا ہے

نکالیں وہ تجھے واں سے تو پھر تو جان لے سب کو

(اس سے مراد بقا ہے۔)

مگر پہچان لے اُس کو حقیقت اِس کی پانا ہے۔

(یعنی سب کو جان لیا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس کو پہچان کے جانا۔ یعنی اب تمہارا واسطہ کسی اور سے نہیں، سب واسطہ اسی سے ہے، البتہ آپ باقی لوگوں میں کام کر رہے ہیں جیسے وہ چاہتا ہے اس طرح کام کر رہے ہیں)

ان دو تین شعروں میں جو کہا گیا ہے، یہی اصل میں فنا و بقا ہے۔ جیسے حضرت نے ایک فقرے میں سارا بتا دیا کہ ”فنا و بقا کا علم وحدانیت کے اخلاص اور عبودیت کی صحت کے گرد گھومتا ہے اور اس کے ما سوا غلطی اور زندقہ ہے‘‘۔

متن:

اور حق یہ ہے کہ وہ (ابراہیم) سچ فرماتے ہیں اور یہ کلام ان کی استقامت کی خبر دیتا ہے فنا فی اللہ سے مراد حق سبحانہ و تعالیٰ کی مرضیات میں فنا ہونا ہے اور سیر الی اللہ و سیر فی اللہ وغیرہ اسی قیاس پر ہیں۔

تشریح:

سیر الی اللہ بھی اس کو سمجھو اور سیر فی اللہ بھی۔ سیر الی اللہ کا مطلب اس کی رکاوٹیں دور کرنا اور سیر فی اللہ کا مطلب پھر اس کے مطابق کام کرنا۔ حضرت نے ساری چیزیں بالکل واضح کی ہیں۔

یہ بڑی سادہ اور واضح بات ہے، بڑی باعمل بنانے کی بات ہے، لیکن ہماری پتا نہیں کیا خواہش ہے کہ ہم چیزوں کو چیستان بنانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، کہ کوئی چیز ہماری سادہ نہ ہو۔ گنجلک عبارتیں اور اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، اور پھر اسی پر واہ واہ کرنا، یہی ہمیں اچھا لگتا ہے، حالانکہ مشائخ کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ ان چیزوں کو گنجلک بنایا جائے، وہ تو بعض دفعہ صرف اور صرف اس لئے کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کو بعض باتیں اس کے بغیر سمجھ نہیں آتیں، جن کو سمجھ آتی ہیں ان کے ساتھ تو وہ باتیں کرتے بھی نہیں ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت نقشبندی سلسلہ کو چیستان بنا دیا گیا ہے۔ ایک میجر صاحب نے مجھے کہا: مجھے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی تو آپ ﷺ سے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ نقشبندی سلسلہ مجھے سمجھ نہیں آتا، یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اس کو بہت اچھی طرح جان لے گا‘‘۔ کہتے ہیں، جب میں یہاں آیا اور آپ کی مجالس میں بیٹھا اور یہ باتیں سنیں تو اس وقت مجھے شرح صدر ہو گیا کہ اس کا مطلب کیا تھا کہ اچھی طرح کیسے جان لے گا۔ اب مجھے پتا چل رہا ہے کہ نقشبندی سلسلہ کیا ہے۔ اصل میں یہی بات ہے کہ چیزیں بڑی سادہ تھیں۔ لیکن ان کو مشکل بنایا گیا ہے، چیستان بنایا گیا ہے۔ ابھی میں آپ کو ایک کلام سناتا ہوں، جو اسی چیز سے نکالنے کے لئے میں نے کہا تھا، اور تقریباً روتے روتے کہا تھا، یہ ویسے مذاق کی بات نہیں کر رہا ہوں، بلکہ عملاً روتے روتے کہا تھا، صرف اسی فکر کی وجہ سے کہا تھا۔

کاش دل مل جائے میرا سوز اٹھانے کے لئے

اور جو ہے پیغام اس کو پہنچانے کے لئے

(بات کتنی سادہ ہے۔)

یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی مقصود نہ ہو

اس میں مٹ جائیں یہی ایک بات بتانے کے لئے

(یہ فنا ہے۔)

جو کہ اللہ کے فضل سے ہے بزرگوں سے ملا

دل میں پوشیدہ پڑا جو ہے خزانے کے لئے

(ان بزرگوں کے یہ نوادرات ہیں۔)

اپنی جو آواز ہے کمزور ہے پہنچے کہاں

(جو حقیقت ہے۔)

یہ کلام الہامی آمد کے سنانے کے لئے

جذب کے ڈھنگ سے سلوک طے ہو دما دم سب کا اب

جذب سے سوختہ سلوک کے واسطے اٹھانے کے لئے

وقت کم ہے، ظاہر ہے پورا نہیں کیا جا سکتا، لیکن بہرحال ہمارے ہاں تو یہی آسانی اور مقصودیت کی باتیں ہوتی ہیں، مشکلات کی طرف جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ آج کل کے دور میں سلوک کو سمجھنے کے لحاظ سے جتنا آسان کیا جائے، کم از کم اتنا ضروری ہے۔ اور عملاً بھی آسان کیا جائے۔ ایسے طریقے آنے چاہئیں جو آج کل کے لوگ کر سکتے ہوں، صرف کتابوں والی باتیں نہ ہوں، لوگوں کی استعداد کے مطابق باتیں ہوں اور ضرورت کے مطابق ہوں۔ یہی اگر ہم کر سکیں تو ہم کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ