20200928_QA485
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
سوال نمبر 1:
حضرت جی السلام علیکم آپ کی ہدایت سے پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ قضا نہ کرنا ہی بہتر طریقہ ہے، کچھ عرصہ پہلے تک اس کا اہتمام کرتا رہا ہوں۔ میرے boss جو ویسے دیندار اور سلجھے ہوئے ہیں اور تصوف سے بھی تعلق رکھتے ہیں انہوں نے مجھے کہا تھا کہ مریض آپ کی ذمہ داری ہے اس کو فوقیت ہونی چاہیے خصوصاً جب بعد میں قضا نماز پڑھی جا سکتی ہو لیکن آپ کی بات مقدم ہے حقیقت تو یہی ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی نماز موخر نہیں کی جاسکتی ان شاء اللہ آج سے مصمم ارادہ ہےکہ case کے بیچ میں بھی break لے کر نماز وقت پر ادا کروں گا اللہ تعالیٰ آسانی فرمائے آمین۔ حضرت آج تقریباً دس گھنٹے کی surgery کی لیکن الحمد للہ اس دوران ظہر, عصر اور مغرب کی نمازیں وقت پر دس، دس منٹ کی بریک لے کر ادا کیں اور تسبیحات بھی کیں اس کا خاص خیال رکھا کہ مریض کا کوئی حرج نہ ہو حالانکہ آج آپ نے فون کیا تھا لیکن بوجہ operation آپ سے بات نہ ہو سکی کل بھی surgery کا دن ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو جمعرات کو فون کر لوں؟
جواب:
ماشاء اللہ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) "جو لوگ مجھ تک پہنچنے کی کوشش اور محنت کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بالضرور ہدایت کے راستے سجھائیں گے" یہ جو اللہ جل شانہ کا وعدہ ہے اللہ پاک مدد ضرور فرماتے ہیں لیکن کوشش ہماری طرف سے ضرور ہونی چاہیے جیسےکہ کوئی کسی کو کچھ دینا چاہتا ہو اس کے لیے برتن لے جانا ضروری ہوتا ہے تو برتن ہماری طرف سے ہونا چاہیے چونکہ اللہ پاک کی طرف سے ہمیں خیرات ملتی ہے تو کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے جیسے انسان کی ضروریات ہیں یعنی حسی اور جسمانی، جیسے کھانا، پینا، toilet اگر ان چیزوں کی ضرورت پڑ جائے تو پھر ان کو adjust کیا جا سکتا ہے اس طرح جو شرعی ضروریات ہیں یہ بھی adjustable ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت جماعت انسان کے اوپر لازم نہیں کیونکہ دوسرے کا حرج ہوتا ہے لیکن کم از کم نماز ادا کرنی چاہیے کیونکہ نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾(النساء: 103) "بیشک نماز کو اللہ تعالیٰ نے مومنین پر اپنے اوقات کے اندر اندر فرض کر رکھا ہے" لہذا اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، اللہ جل شانہ مزید توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آج مثنوی شریف کا درس سنا الحمد للہ فکر آخرت میں اضافہ ہوا۔ درس کے بعد دین میں عقل کے کردار پر ایک انگریز نو مسلم کا مضمون پڑھا جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہر دور کے مجددین کا ایک کام ہے اور اس دور کے مسلمانوں میں عقل اور دل کے درمیان جو دوری پیدا ہو چکی ہے اس کو ختم کرنا ہے جیسے متکلمین اور صوفیاء کے درمیان حضرت امام غزالیؒ نے کردار ادا کیا۔ اس کے بعد نماز میں بڑی شدت سے دل میں خیال آیا کہ اس کو کچھ بے ربط انداز میں آپ کے سامنے تصحیح کی نیت سے پیش کروں۔ آپ کو اللہ پاک کی طرف سے الہام کردہ طریقے کے مطابق آج کل تربیت کے نظام کو سمجھانے کے لیے عقل، قلب اور نفس کی الگ الگ حیثیت بار بار واضح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آج کل کے غیر فطری دور میں سالک کی شخصیت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے یا وہ صرف ذہن میں رہتا ہے یا صرف دل میں یا پھر نفس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے قدرتی انداز میں اپنی شخصیت کو لیا تھا وہ جب قرآن مجید یا آفاق میں غور کرتے تھے تو فوراً ان کو اپنی عاقبت کی بھی فکر ہو جاتی تھی اپنے نفس کو دوزخ سے بچانے کی فکر بھی لگ جاتی تھی اس کے برعکس ہم اپنی شخصیت کے بعض اجزا سے غافل ہو جاتے ہیں کبھی کسی جذبے یا کیفیت سے متاثر ہو جاتے ہیں لیکن عقل اور نفس کو فراموش کر دیتے ہیں اور کبھی کسی اعلی نکتہ پر عقل مشغول ہو جاتی ہے لیکن اس کا قلب پر اثر نہیں ہوتا جو نفس کو عمل پر مجبور نہیں کرتا ہے اس لیے آج کل کے سالکین کے سامنے عقلی انداز میں اس کی پوری شخصیت عقل، قلب اور نفس کو بار بار سامنے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے ایسی بڑی بڑی باتیں کرنے سے بچائے جو آپ کو ناگوار گزریں اور آپ کے قلب سے اصل حکمت نصیب فرمائیں آمین۔
جواب:
ماشاءاللہ اللہ جل شانہ نے اس ساتھی کو فہم عطا فرمایا، آج کل کے دور کے تقاضوں کے مطابق جس چیز کی ضرورت ہے اس کو pick کر لیا۔ جس طرح ہمارا پورا جسم interactive systems پہ چل رہا ہے، interactive system سے مراد جیسے آنکھ کا نظام، اس کا اپنا کام ہے لیکن independent نہیں ہے اس کا دماغ، دل، پھیپھڑوں اور پورے نظام کے ساتھ ایک تعلق ہے یہ علیحدہ اپنے طور پہ نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کانوں، پھیپھڑوں، دل اور دماغ کا نظام ہے ہر نظام کی اپنی اپنی انفرادیت بھی ہے اور اجتماعی کردار بھی ہے۔اس طرح انسان کا جو روحانی نظام ہے اس میں بھی عقل، نفس اور قلب ان تینوں کا independent اپنا اپنا کردار بھی ہے عقل کا فیصلہ، تجزیہ، علم اور سوچنے میں کردار ہے، قلب کا جذبات، احساسات، ایمان، کفر، محبت، نفرت میں کردار ہے جیسے اگر کسی کو کسی کے ساتھ محبت یا نفرت ہو تو محبت یا نفرت یہ دل میں محسوس ہوتی ہیں باقاعدہ یعنی دل میں محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی ہے کہ "میرا دل اس سے نہیں ملنا چاہتا" یہ باقاعدہ ایک نظام ہے لیکن نفس کے اپنے تقاضے، اپنی خواہشات اور ضروریات ہیں یہ ان کا ادراک کرتا ہے اور اسی میں لگا رہتا ہے اسی کا اس کو چسکا ہوتا ہے لیکن ان تینوں نظاموں کی اپنی اپنی انفرادی لحاظ سے افادیت ہے ان کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ ان کا آپس میں جو اجتماعی نظام ہے اس میں شمولیت کا اپنا اپنا کردار ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ جو ان چیزوں کے بہت بڑے شارح ہیں، انہوں نے فرمایا: ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ جانور اپنے سینگوں کو آپس میں اڑا دیتے ہیں ایک، ایک کو دباتا ہے دوسرا، دوسرے کو دباتا ہے اس طرح نفس، دل کو، دل، نفس کو، نفس، عقل کو، عقل، نفس کو، عقل، دل کو اور دل، عقل کو متاثر کرتا ہے یہ آپس میں اسی طریقے سے چلتے رہتے ہیں ایک، دوسرے کو متاثر کر رہا ہے ایک نظام کے تحت یہ اپنے اپنے لحاظ سے اہم بھی ہیں لیکن ان کا دوسروں کے ساتھ نظام بھی ہے مثال کے طور پر عقل صحیح فیصلہ کرے گا اگر نفس اس کے اوپر نہ چھا جائے جب نفسانی خواہشات اس کے اوپر چھا جاتی ہیں تو عقل صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی۔ میں اکثر دیکھتا ہوں شوگر کے جو مریض ہوتے ہیں بڑے ہوشیار لوگ ہوتے ہیں مطلب عقلمند ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بیماری ایسی ہوتی ہے جس میں میٹھا منع ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ نفس کی خواہش ہے میٹھا کھانا تو خواہش ان کی عقل پہ چھا جاتی ہے وہ اس پہ عمل نہیں کر سکتے اور میٹھا کھا لیتے ہیں، اسی طرح کافر کی سوچ الگ اور مسلمان کی سوچ الگ ہے حالانکہ ایک ہی عقل ہے لیکن کافر اپنے انداز سے سوچتا ہے اور مسلمان اپنے انداز سے سوچتا ہے کیونکہ ایمان اور کفر کا فرق ہے ایمان اور کفر تو دل میں ہوتا ہے۔
اب دل بے شک کتنا ہی پاک ہو لیکن نفس کا دیکھنا، سننا اور نفس کا سوچنا اس میں عقل ملوث ہو کر دل کو خراب کر دیتی ہے۔ مولانا الیاسؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ساتھ صالحین کی جماعت لے کر جاتا ہوں اس کے باوجود میرے دل پہ اثر ہو جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اثر تو ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو ان تمام کی اپنی اپنی انفرادی جو افادیت ہے اس کو بھی دیکھنا ہو گا اور ساتھ ساتھ ان کے اجتماعی interactions ہیں ان کو بھی دیکھنا ہو گا ورنہ اصلاح ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ جب تک آپ نے نظام کو سمجھا نہیں ہو گا تو اصلاح کیسے کریں گے اصلاح کرنے کے لیے تو آپ کو پورے نظام کو سمجھنا پڑے گا۔
ایک بار ایک ڈاکٹر صاحب مجھ سے کسی مسئلے میں بڑے متاثر ہو گیے تو مجھے کہتے ہیں آپ ہمارے کالج میں آ کر lecture دیں تو میں نے کہا کہ بھائی میں نہیں دوں گا کیونکہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں وہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے کہ تم engineer ہو تم ڈاکٹروں کو کیوں lecture دینے آئے ہو تو میں اپنا مذاق کیوں اڑواؤں میں آپ کو سکھا سکتا ہوں آپ ان کو lecture دے دیں۔ خیر میں نے اس سے پوچھا آپ چونکہ نفسیاتی ماہر ہیں تو ہمارے پاس بھی اس قسم کے بیمار اگر آتے ہیں تو ان کو ہم suggestion تو دے سکتے ہیں لیکن اگر کبھی medicine ان کو suggest کرنا پڑ جائے تو آپ کچھ اس کی guideline دے سکتے ہیں؟ اس نے کچھ وقت سوچا پھرکہا ٹھیک ہے لیکن پھر بعد میں کہا نہیں نہیں مشکل ہے میں نے کہا کیوں مشکل ہے کہتا ہے یہ صرف نفسیاتی علاج کی گولیاں نہیں ہیں بلکہ اس کا دل و دماغ اور پھیپھڑوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ جب تک آپ کو وہ تمام چیزیں معلوم نا ہوں تو کیسے آپ suggest کریں گے؟ ہر بیمار تو ایک جیسا نہیں ہوتا بات تو اس کی بالکل صحیح تھی کیونکہ ظاہر ہے آپ جب بھی selection کرتے ہیں تو صرف بیماری کو نہیں دیکھتے اس بیمار کی دوسری صحت کو بھی دیکھتے ہیں اسی طرح روحانی نظام بھی ہے اس میں پورے نظام کو سمجھنا ہوتا ہے الحمد للہ آپ کو اللہ پاک نے یہ بات سمجھا دی اللہ جل شانہ سب کو سمجھا دے اور اس کی برکات سب کو نصیب فرمائے آمین۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! تصاویر کے بارے میں آپ کی بات سن کر اپنے پاس موجود mobile, laptop وغیرہ میں موجود تصاویر فوراً تلف کر دی تھیں کیمرے کی تصاویر بہت زیادہ ہیں آہستہ آہستہ جلا اور کاٹ رہی ہوں مگر وہ بھی ابھی کافی ہیں مجھے ڈر ہے کہ اس میں کافی وقت لگ جائے گا کیونکہ یہ بہت وقت لیتی ہیں جلانے یا کاٹ کے ضائع کرنے میں۔ اللہ کی منع کی ہوئی چیز ابھی تک ضائع نہ کر پائی، سر پر اس کا بہت بوجھ ہے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ مجھے جلد ہی یہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
جواب:
ماشاءاللہ یہ بہت ہی اچھی مبارک سوچ ہے،کسی چیز کے بارے میں پتا چل جائے کہ یہ حرام ہے اور اس وقت تک انسان کو آرام نہ آئے جب تک اس حرام کو ختم نہ کرے البتہ چونکہ ہر چیز کی اپنی ایک practicality ہے یعنی اس پہ عملی طور پر کرنا اس میں جو ٹائم لگتا ہے تو اللہ جل شانہ کو ساری چیزوں کا پتا ہے جب آپ نے ارادہ کر لیا اور آپ نے شروع کر لیا تو اسی وقت سے الحمد للہ آپ کے ارداے کو اللہ پاک نے دیکھ لیا اور آپ کو ان لوگوں میں شامل کر لیا جو اس سے بچے ہوئے ہیں البتہ ابھی آپ کو تھوڑا سا خیال کرنا پڑے گا کہیں شیطان آپ کو راستے میں بہکا نہ دے اور آپ اس کام سے رہ نہ جائیں کیونکہ ایسی حالت میں ممکن ہے شیطان آپ کو پھر بہکا دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی بات پر ڈٹی رہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے ﴿اَلْحَلَالُ بيِّنٌ، وَ الْحَرَامُ بيِّنٌ﴾ "حلال بھی بالکل واضح ہے حرام بھی بالکل واضح ہے" درمیان میں کچھ مشتبہ امور ہیں تو جس نے اپنے آپ کو مشتبہ امور سے بچا دیا اس نے اپنے دین کو بچا لیا اس کا مطلب ہے کہ مشتبہ بات، مشتبہ چیزوں سے بچنا یہی اصل بچنا ہے کیونکہ حرام سے تو میرے خیال میں ہر مسلمان کو فوراً بچنا چاہیے وہ تو ایک علیحدہ چیز ہے لیکن مشتبہ امور میں پڑنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اب اس میں اکثر لوگ کہتے ہیں او جی فلاں عالم اس کو جائز کہتا ہے فلاں عالم دیکھتا ہے فلاں عالم یہ کرتا ہے آپ کہتے ہیں بھائی وہ عالم ہے وہ اپنے قول کا ذمہ دار ہے میں تو ان کے علم سے فائدہ اٹھاؤں گا میں اس کے عمل کا ذمہ دار نہیں ہوں صاف سی بات ہے اور جو دوسرے علماء کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے تو اب اہل حق علماء میں اختلاف تو ہو گیا تو اختلاف سے بچنا یہ شبہ سے نکلنے والی بات ہے تو اگر انسان اختلاف سے اس نیت سے بچے کہیں میں شبہے یا حرام میں نہ پڑ جاؤں تو یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور کم از کم اعلی درجے کا مستحب ہے لہذا آپ نے جو کام کیا یہ بہت اچھی بات ہے ہمارے نزدیک تو اس میں کسی اور دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس قسم کی بات ہے تو اس دلیل سے آپ اپنے آپ کو مطمئن کر سکتی ہیں کہ اس چیز میں چونکہ اہل حق علماء کا اختلاف ہے لہذا کم از کم جو ضروری چیزیں ہیں وہ تو شریعت نے ویسے بھی جائز کی ہیں جیسے passport یا نوٹ کے اوپر تصویر ہے اس کو جیب میں رکھنا یہ تو شریعت نے جائز کیا ہے کیونکہ اس سے بچنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے وہ ایک نظام کے ساتھ وابستہ چیزیں ہیں پورے نظام کو بدلنا آسان نہیں ہوتا لہذا اس میں شریعت نے آسانی دی ہوتی ہے لیکن جہاں تک جو اپنی ذاتی چیزیں ہیں اس میں تو انسان بہت جلدی صحیح فیصلہ کر سکتا ہے تو آپ نے بڑا اچھا کیا اللہ جل شانہ آپ کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور استقامت دے ۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
My dear and respected مرشد, I hope you are well ان شاء اللہ. Three days fast completed.
جواب:
سبحان اللہ! ہمارے سلسلے کے ساتھی ہیں اور ان سے ایک نماز قضا ہوئی تھی تو اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ بطورِ نفس کی تنبیہ تین روزے رکھ لو تاکہ آئندہ کے لیے نفس alert رہے کہ نماز کو چھوڑنے کی جرات نہ کر سکے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تین روزے رکھ لیے اور یہی اصل بات ہے نفس کو تنبیہ بہت ضروری ہے ﴿وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الحشر: 18) "اے مومنو اللہ تعالیٰ سے ڈرو چاہیے کہ ہر نفس دیکھ بھال لے کہ وہ کل کے لیے کیا بھیج رہا ہے پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اور بیشک اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح آگاہ ہے" ہم لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے اور نفس کو قابو کرنے کے جو بھی وسائل اور ذرائع ہیں ان کو استعمال کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم آپ نے روزوں کا مجاہدہ بتایا تھا آج روزہ رکھا ہے، ایک کچھ دن پہلے رکھا تھا لیکن آپ کو بتا نہ سکا اور ناغہ آ گیا آج دوبارہ رکھا ہے اور آگے بھی رکھنے کا اردادہ ہے ان شاء اللہ۔
جواب:
سبحان اللہ اللہ پاک نے ان کو بھی توفیق عطا فرمائی، اللہ پاک استقامت نصیب فرمائے اور تین روزے مسلسل رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میں نے تیس دن کا ذکر کر لیا ہے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ اور اَللہ 100 مرتبہ۔
جواب:
اب آپ وہی لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ اور اَللہ 300 مرتبہ ایک مہینہ کے لیے اور شروع فرمائیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم حضرت جی اللہ جل شانہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے محترم آپ نے جو وظیفہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ، اَللہ 500 اور مراقبہ 5 منٹ کے لیے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر اور دس منٹ کے لیے لطیفۂ خفی کے لیے دیا تھا تیس دن کے لیے، ٹوٹل 60 دن ہو گئے وہ الحمد للہ مکمل ہو گیا اور اللہ اللہ محسوس ہو رہا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اللہ جل شانہ مزید توفیقات نصیب فرمائے اب آپ اس طرح کریں کہ اگلا لطیفہ اس کو ساتھ شامل کریں پانچ پانچ منٹ کے لیے تو یہی لطائف ہوں جو ابھی ہیں اور اگلا لطیفہ، لطیفۂ خفی بھی 10 منٹ کے لیے، اس کو ایک مہینے کے لیے شامل فرمائیں ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم حضرت جی تین ماہ سے بے روزگار ہوں۔ خود سے دنیا کا شوق نہیں ہے کوئی فون کر کے مال مانگتا ہے تو انکار نہیں کرتا اور اسباب اختیار کرتا ہوں گھر والے اور دوست احباب کاروبار کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن کاروبار کرنے کو دل نہیں مانتا اور کاروبار کا سوچ کر دل میں تکلیف ہوتی ہے۔ جب لوگوں کو دنیا بنانے میں مشغول دیکھتا ہوں تو اداسی سی محسوس ہوتی ہے لیکن دل میں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰٰ نے آپ سے تعلق نصیب فرمایا اور اللہ تعالیٰٰ نے ایک کنکر لے کر مجھے پہاڑ جیسا آپ کا تعلق عطا فرمایا ہے یہ سب اللہ تعالیٰٰ کا فضل ہے مجھ میں کوئی خوبی نہیں ہے اپنے نفس کے بارے میں بہت پریشانی ہے کہ کہیں پھر گمراہ نہ کر دے۔
جواب:
بہت اچھی سوچ ہے لیکن ذرا اس میں تھوڑی سی correction کرنی پڑے گی اور وہ یہ کہ ایک ہوتا ہے ہمارا اپنا اللہ تعالیٰٰ کے ساتھ انفرادی تعلق، یہ بھی درست کرنا ضروری ہے لیکن ایک ہمارا معاشرے کے اندر جو role، معاشرے کے اندر ہماری حیثیت ہے اس میں ہمارے اوپر جو حقوق و فرائض ہیں یہ بھی خیال میں رکھنے ہوتے ہیں کیونکہ ہماری شریعت ان تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے اس میں ساری چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے اس وجہ سے کہ انسان کو دوسروں کے حقوق پورا کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، کام اس نیت سے کیا جائے کہ میں حرام میں مبتلا نہ ہو جاؤں، اب حرام دو قسم کا ہوتا ہے، ایک یہ کہ آپ کسی سےکوئی چیز چھین لیں، یہ بھی حرام ہے لیکن اگر آپ سوال کرتے ہیں جبکہ آپ کما سکتے ہیں تو یہ بھی حرام ہے۔ اگر ظاہری سوال نہ ہو دل سے سوال ہو اشراف نفس ہے، یہ بھی حرام ہے۔ اگر کسی کو اتنا ہو کہ سوال نہ کرتا ہو، اشراف نفس بھی اس کو نہ ہوتا ہو تو پھر تو اس کے لیے ایک الگ حکم ہو گا لیکن اگر کسی کو یہ چیز حاصل نہ ہو کہ وہ اشراف نفس سے بچ سکتا ہو یا سوال سے بچ سکتا ہو تو پھر اس کے لیے کام کرنا واجب ہو جائے گا کیونکہ وہ کم از کم اپنے آپ کو اس سے بچائے گا۔ حرام سے بچنا کیا ہے؟ حرام سے بچنا فرض ہے ظاہر ہے حرام سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی اور کام کرنا پڑے گا۔
دوسری بات جو ہمارے اوپر حقوق واجبہ ہیں ان کا اللہ تعالیٰٰ ہم سے پوچھیں گے۔ جیسے بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، ماں باپ کے حقوق ان کے بارے میں بھی انسان کو کچھ کرنا ہوتا ہے تو اب آپ اپنے لیے نہ کریں آپ ان کے لیے کریں تو ثواب بھی ملے گا اور ان شاء اللہ وہ کام بھی کریں گے۔ میں گھر نہیں بنانا چاہتا تھا اپنے حضرت سے پوچھا حضرت نے فرمایا گھر ضرور بناؤ کیونکہ آج کل بغیر اس کے گزارہ نہیں ہوتا پھر بڑے مسائل ہوتے ہیں اب اگر میں حضرت سے نہ پوچھتا تو یقیناً میرے سر پہ ہتھوڑے برس رہے ہوتے اگر میں گھر بنا رہا ہوتا کہ وہ حدیث شریف مجھے پکے مکان والی یاد آ رہی ہوتی تو پھر ظاہر ہے میں نہ کر سکتا لیکن حضرت نے چونکہ حکم دیا تھا اس وجہ سے میرے لیے ایک سہولت پیدا ہو گئی۔
ایک دفعہ حضرت ایک مجمع میں کوئی بات فرما رہے تھے کسی ایک وجہ سے کسی بزرگ کا واقعہ درمیان میں آ گیا کہ وہ باسی روٹی کھاتے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ باسی روٹی کیوں کھاتے ہو؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ حضور ﷺ کی زندگی کے قریب ہوتی ہے۔ یہ تو ان کا حال تھا حضرت نے جب نظر اٹھائی تو میں نظر آیا تو حضرت کو میری کیفیت کا پتا تھا کہ یہ کیسا ہے۔ حضرت نے فوراً فرمایا تو نے گرم روٹی کھانی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تو پھر فوراً فرمایا: اگر میں اس کو منع نہ کرتا تو اس نے کل سے باسی روٹی شروع کرنی تھی اور اس کا پیٹ خراب ہوتا اور اس کو نقصان ہوتا لہذا میں نے اس وجہ سے اس کو کہہ دیا۔ دیکھیں شیخ ایسا ہوتا ہے یعنی اتنی شفقت اور خیال کرنے والا۔ ہم لوگوں کو اپنے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰٰ کا حکم پورا کرنے کی نیت سے یہ کرنا چاہیے مثال کے طور پر میں کھانا کھاتا ہوں اگر میں صرف کھانا اس لیے کھاتا ہوں کہ میرا پیٹ بھر جائے اور مجھے اس میں مزہ آئے تو بس میرا تقاضا پورا ہو گیا اور بات ختم، لیکن اگر میں اس لیے کھانا کھاؤں کہ اس کے ذریعے سے مجھے قوت ملے اور میں زندہ رہوں یعنی اسباب کے درجے میں رہ کر میں زندگی اور صحت کو دین کے کاموں میں خرچ کروں یعنی میں کھانا اس لیے کھاؤں تاکہ مجھے عبادات کرنے اور باقی کام کرنے کی توفیق ہو، اب یہ دین کی نیت ہو گئی، چیز دنیا کی لیکن نیت دین کی ہو گئی ﴿إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ﴾ "تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" لہذا اب اس نیت کی برکت سے یہ دین بن گیا دنیا کا کام ہے لیکن دین بن گیا دوسری طرف آپ نماز پڑھ رہے ہیں لیکن نیت یہ ہےکہ لوگ مجھے دیکھیں تو کہیں کہ یہ تو بڑا اچھا نمازی ہے اب یہ دنیا ہے اگرچہ کام دین کا ہے لیکن نیت دنیا کی ہے لہذا یہ دنیا بن گئی ادھر دنیا، دین بن گئی تو مطلب یہ کہ اپنی نیت کو درست کرنے سے چیزوں کی حیثیت بدل جاتی ہے اعمال کی حیثیت بدل جاتی ہے لہذا ماشاءاللہ آپ کو اللہ پاک نے اگر یہ توفیق عطا فرمائی ہے تو کم از کم منفی دھل گیا الحمد للہ، اب مثبت پہ عمل شروع کر دیں یعنی آپ مثبت طریقے سے اس کو استعمال کریں تو ان شاء اللہ آپ کو دونوں جہانوں میں اس کا فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I hope حضرت is well and the family. حضرت I have these following questions. What’s the difference between پاسِ انفاس which is the چشتی practice and this principle “Hosh Dar Dam” ہوش در دم which is a نقشبندی practice?
جواب:
پاسِ انفاس is a type of ذکر which is done by attaching zikar with breathing. When we breath or when we take breath, so if we attach with the coming breath and with the breath going down some ,ذکر for example, if I attach لَا اِلٰہ with outcoming and اِلَّا اللہ with incoming or ingoing, so this will be initially done with تکلف. And after having this practice, it will be done automatically and we shall be having breathing and that ذکر will be done automatically. It’s very good ذکر Alhamdulillah. It’s not only done in چشتی but it's also in قادری and in other سلاسل. So it's very good practice. There are many types of ذکر but this قلبی ذکر and this پاسِ انفاس , this is actually keeping oneself busy in دائمی ذکر which can be done all the time without any intention. Even مشائخ, they give this type of ذکر for this purpose. As far as ہوش در دم is concerned, this is also like پاس انفال but when we attach that, we shall not be in غفلت any time. All the time, we should be aware of what we are doing? So this is actually further progress in this that we keep ourselves alert in this. What are we doing with every breathing? We can think. We can be alert that our connection with اللہ سبحانہ و تعالیٰ remains قائم all the time because in حدیث that person is wise who makes his نفس alert to not do bad things. And حضرت خواجہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ said that we should not lose any type of breathing. We should keep that in ذکر and that نظر بر قدم. Actually it has different meanings. One is for مبتدی and the other is for منتہی. For مبتدی we think that we should put all the type of our eyesight lower that we don’t see which should not be seen and it is سنۃ also. But for منتہی, it is this that because every person, every ولی is under قدم of some نبی any نبی, so he should keep that in his mind all the time to whom he is attached and he should follow all his qualities. So this is called نظر بر .قدم So one can do this if he is capable of doing this. However, the eleven principals of the نقشبندی سلسلہ implemented and they are still being taught in our times by the نقشبندی مشائخ. One thing you should keep in mind that ذرائع are ذرائع and مقاصد are مقاصد.
ذرائع should not be made مقاصد. This is the basic principle of تصوف.
تصوف by itself is ذریعہ. It should not be made مقصد . So therefore, those things which have been practiced earlier and if they are fruitful in these days also will continue but because of changes in the lifestyle, changes in the environment, changes in the habits, changes in the requirements, if those principal do not work so there should be brought some changes in them. In نقشبندی سلسلہ many times these changes occurred just like حضرت خواجہ عبد الخالق عجدوانی رحمۃ اللہ علیہ have done this. Then after that خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ, then after that, حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ then after that, حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ then after that شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ after that, سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ and after that, حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ they all have changed these step by step and these have reached to us. Even these, what we have learned from our elders, it is not necessary to apply on others. Today, I was hearing about آپ بیتی of حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ in which he told about the punishments of his father and all education type or something like this تو خلیفہ of حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ was sitting beside and he explained one thing. It was خصوصیت of حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ. You should not implement this on yourself. Now things have changed of course. Things have changed. So it means all the time, we should keep in mind where we are and how we are and what to be done. As far as مقصد is concerned, for that we should choose the best ذریعہ. So these ذرائع are not مقاصد. Once, we were having ذکر جہری in a new place and this was my custom not to do ذکر جہری if I do not know whether it is acceptable to the people there or not. First of all, I would have to know it. But by chance, by mistake, I started it and I didn’t keep in mind. That was for the first time in a place. So just after I started, I remember ooh it's a new place! But then I couldn't stop because if I would stop then that would become فتنہ. People would ask me we have started, why have you stopped? So then there are some questions and answers. So there will be some problems. So then I kept it continued. So that عالم who was خطیب there, he became very angry and left the مجلس . After مجلس he came back and asked me, شاہ صاحب what have you done? I said, I have done ذکر جہری. Was it done by صحابۂ کرام? I said no it was not needed by them, we need it. It is just a ذریعہ it is not مقصد. If you don’t need it we shall not do also. And we understand it as ذریعہ and ذریعہ is not constant. It's all the time changing. If you fix it to some type it becomes مقصد and changes which means increasing the number of مقاصد. It's changing in دین. So therefore, if I insist in one method only that it is the only method, then it will show me that I think it's مقصد. So I understand that it is not a مقصد, it’s ذریعہ. So I do it with this intention. For me it is not بدعت. But if you consider it fixed, it will be بدعت for you. So he came to know الحمد للہ and after that, he did not say anything and the next time, الحمد للہ he joined himself with his own wish and after that الحمد للہ he came in سلسلہ and الحمد للہ he have done big job for the سلسلہ. So it means these are some things to be understood. So therefore, you should not think in this way we can say what حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ has told us and we should understand these ذکر اذکار. These are all the things which change the heart and it brings جذب, and with them جذب comes. It should be used in completion of سلوک. So at any stage if it comes, we should discontinue and we should come to سلوک because that is the main requirement. Why are we insisting upon completion of this جذب what is جذب?
جذب is only the mean. So this is very important. It should not be used subjectively, it should be used objectively, it is very important. So الحمد للہ as far as we are concerned, we are thinking in this way الحمد للہ. Somebody saw my شیخ did زیارت of my شیخ and by him my شیخ sent message to me. Don’t follow me in doing things. Whatever you will be doing, it will be my job. We have done what was needed that time. You should do what is need at this time. So this is the message, الحمد للہ. It is finished.
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! میرے ذکر کا وقت پورا ہے لیکن کچھ دن shifting کی وجہ سے قضا ہو گیا ہے لیکن جب کر رہی تھی تو تھوڑا محسوس ہو رہا تھا پندرہ ستمبر کو مکمل ہونا تھا دس ستمبر سے نہیں کیا۔ ذکر 2000 مرتبہ اللہ اللہ، پانچ منٹ مراقبہ تھا اب میں کیا کروں؟ خواب بھی دیکھا ہے کیا میں بتا سکتی ہوں؟
جواب:
آپ کے چونکہ پانچ دن رہتے تھے اور آپ نے ذکر چھوڑ دیا اب دس دن مزید کریں پھر مجھے اپنی کیفیت بتا دیں اور جو خواب ہے وہ مجھے WhatsApp کر دیں۔
سوال نمبر 11:
محترم شاہ صاحب السلام علیکم، اللہ کے فضل و کرم سے ہم سب خیریت سے ہیں، دیر سے رابطہ کرنے کی معافی چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب میرا ذکر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللہ 400 مرتبہ، اَللہ ھُو اَللہُ 600 مرتبہ اور اَللہ اَللہ 2000 مرتبہ ہے الحمد للہ ذکر اچھے طریقے سے ہو جاتا ہے نماز کی پابندی حاصل ہو رہی ہے الحمد للہ فجر کی نماز با جماعت مسجد میں شروع کر دی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتا ہوں براہ کرم مزید رہنمائی فرمائیں اور شاہ صاحب اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں زندگی میں دنیا کے کاموں کے لیے کتنی planning کرنی چاہیے۔ کیا اللہ پاک اس سے خوش ہیں یا ناراض؟ دنیا کے کام مثال کے طور پر بچوں کی تعلیم ان کی job یا گھر بنانا وغیرہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت تندرستی اور آپ کے علم میں اضافہ نصیب فرمائے۔
جواب:
سبحان اللہ ابھی آپ اس طرح کریں کہ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، اِلَّا اللہ 400 مرتبہ، یہ اللہ ھو اللہ نہیں ہے اللہُ اللہ ہے ھَا کے اوپر پیش ہے یہ 600 مرتبہ اور اور اَللہ اَللہ ڈھائی ہزار مرتبہ کریں اور جو آپ نے سوال کیا ہے دنیا کے بارے میں چونکہ اس پر میں تفصیلی بات کر چکا ہوں الحمد للہ تھوڑی دیر پہلے کسی کے سوال کے جواب میں تو آپ یہ session سن لیں تو امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کو شافی جواب مل جائے گا اگر پھر بھی کوئی سوال ہو تو پھر آپ پوچھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس مزاج بخیر و عافیت ہوں گے جب بھی بندہ کسی کار خیر میں مبتلا ہوتا ہے یا ارداہ کرتا ہے مثال کے طور پر وعظ و نصیحت، نماز پڑھانا یا تہجد پڑھنا یا دیگر نوافل یا سبق پڑھانا تو شیطان دل میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیتا ہے کہ واہ واہ لوگ کیا کہیں گے کہ کیسے وعظ کرتا ہے یا سبق پڑھاتا ہے یا کیا خوب پڑھتا ہے اور کیا ہی اچھا واعظ ہے لیکن بندوں میں مسلسل اعمال سے بھی رجوع الی اللہ کرتے رہتے ہیں اگر اعمال کے درمیان اور بعد میں بھی کوئی خیال کرےکہ یا اللہ یہ ساری توفیق تیری جانب سے ہے اور تو ہی اس بلا سے نجات نصیب فرما۔ کیا عقلی طور پرریاکاری سے بچنے کے لیے اتنی کوشش کافی ہے یا عقلی طور پر مطمئن ہونا ضروری ہے بلکہ تمام عیوب میں یہ قاعدہ ہے یا نہیں مثلاً عقلی طور پر اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھنا؟
جواب:
اصل بات اختیاری اور غیر اختیاری کا ہونا ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اختیاری اور غیر اختیاری کو سمجھنا یہ نصف سلوک ہے بلکہ فرمایا: میں بڑھ کے کہتا ہوں کہ شاید پورا سلوک ہے کیونکہ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها﴾ (البقرۃ: 286) قرآن پاک کی نص ہے تو ظاہر ہے غیر اختیاری چیز ہمارے اوپر نہیں ہے نہ غیر اختیاری میں گرفت ہے نہ غیر اختیاری پہ reward ہے بس سمجھنا چاہیے جس میں اختیار آ گیا اس میں دونوں چیزیں آ گئیں، اگر غلط چیز ہے تو گرفت ہے اگر صحیح چیز ہے تو اس پہ reward ہے۔ آپ نے جو سوال کیا ہے یہ وسوسہ ہے اور وسوسے آتے رہتے ہیں اس کو عجب کے وسوسے کہتے ہیں اور یہ عجب کے وسوسے شیطان کا بہت بڑا ہتھیار ہے اس کا جواب بہت آسان ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فرماتے ہیں خیال کا جواب خیال ہے اگر آپ کو خیال آیا ہے کہ میں کچھ اچھا ہو گیا ہوں تو عجب کا خیال ہے تو آپ خیال ہی میں اپنے آپ کو سمجھا دیں کہ اگر میں اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوں تو یہ عجب ہے اور عجب بری چیز ہے تو اب میں اچھا نہیں رہا تو پھر میں کیا کروں کہ عجب کا خود بخود علاج ہو جائے یعنی میں اگر اچھا تھا بھی تو اب تو نہیں اچھا، عجب سے تو کوئی انسان اچھا نہیں وہ تو ٹھیک چیز نہیں ہے تو جب چیز ٹھیک نہیں ہے تو وہ اس کو عجب سمجھے گا یا عجب نہیں سمجھے گا؟ تو پھر پرواہ نہ کرے یعنی اگر وہ وسوسے کی پرواہ نہیں کرتا تو پھر تو بات ہی الگ ہو گئی لیکن اگر یہ still ذہن میں ہے کہ عجب ہے تو عجب بری چیز ہے تو بری چیز کے ساتھ کوئی اچھا ہو نہیں سکتا جب کوئی اچھا ہو نہیں سکتا تو پھر عجب بھی نہیں ہو سکتا تو اس طرح اس کا علاج موجود ہے آپ بالکل پرواہ نہ کریں، آپ اپنا کام اللہ کی رضا کے لیے کریں اس کے لیے ہمارے تبلیغی بھائی ہمیں بتایا کرتے تھے اور تبلیغی بھائیوں کو بھی ظاہر ہے اپنے مشائخ نے بتایا ہے اپنی طرف سے تو انھوں نے نہیں بتایا تو وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب آپ گشت کریں تو اس سے پہلے بھی استغفار کریں تاکہ اس کی وجہ سے ہماری گشت خراب نہ ہو اور گشت کے درمیان بھی اگر کوئی خیال ادھر ادھر کا آ جائے تو اس پر استغفار کر لیں اور گشت کے بعد بھی سوچیں کہ میں نے گشت صحیح کیا یا غلط کیا؟ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس پہ استغفار کریں اور اگر الحمد للہ اگر صحیح ہو گیا تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ایک اچھا کام کرنے کی توفیق عطا فرما دی تو بس اسی طریقے سے جب بھی اللہ تعالیٰ آپ کو کسی اچھے کام کی توفیق دے اس پر شکر کریں۔ شکر ایمان کی علامت ہے اور شیطان کا سب سے بڑا توڑ ہے کیونکہ شیطان کا سب سے زیادہ زور ناشکری پر ہے خود بھی تو ناشکرا ہے کیونکہ قرآن پاک میں اللہ پاک سے مخاطب ہے تو اس میں یہ کہتا ہے کہ میں ان کے دائیں طرف سے، بائیں طرف سے، آگے سے، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں آنے دوں گا تو ان میں سے بہت کم کو شکر گزار پائے گا مطلب شکر گزاری پر اس کا بہت زیادہ insist ہے کہ وہ نہ ہو۔ یہ نا شکری مناسب نہیں ہے تو جب بھی کبھی کوئی اچھے کام کی اللہ تعالیٰ توفیق نصیب فرمائے تو اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے اور پھر ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾ (ابراہیم:7 ) "اگر تم نعمتوں کا شکر کرو گے تو میں تم کو مزید دوں گا" اس پر اللہ تعالیٰ مزید بھی بڑھا دیتے ہیں تو شکر کرنا چاہیے اور اگر اس میں کوئی غلطی واقعی نظر آ جائے یا یوں سمجھ لیجیئے کہ کوئی خلاف شریعت بات ہو یا کوئی سستی ہو یا کوئی دنیاوی نیت ہو تو اس پر استغفار کرنا چاہیے اور اس سے توبہ کرنی چاہیے۔
سوال نمبر 14:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ، لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔
جواب:
ماشاءاللہ اب لطائف پورے ہو گئے ہیں اب ان تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ کا ذکر محسوس کرنے کے بعد مراقبہ احدیت کریں قلب کا۔ یہ جو دل ہے یہ اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست جگہ بنائی ہے مورد فیض ہے یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب کچھ آتا ہے الہام اور معرفت بھی اسی میں آتی ہے دل کو اس کی جگہ بنانا ہے اس کو مراقبہ احدیت کہتے ہیں، اس پہ محسوس کرنا ہےکہ آپ تصور کریں کہ اللہ جل شانہ جیسا کہ اس کی شان ہے اس کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب اطہر پہ آتا ہے اور آپ ﷺ کے قلب اطہر سے میرے شیخ کے دل پر آتا ہے اور وہاں سے میرے دل پہ آتا ہے اصل میں یہ پورے سلسلے کے through آتا ہے لیکن پورے سلسلے کا سوچنے میں پھر انتشار بنتا ہے اس وجہ سے صرف یہ تین مطلب لیے جاتے ہیں یہ پندرہ منٹ کریں۔
سوال نمبر 15:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ، تمام لطائف پہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب آپ چاروں پر دس دس منٹ اور پانچویں پر یعنی اخفیٰ پر وہ پندرہ منٹ کریں۔
سوال نمبر 16:
لطیفۂ قلب دس منٹ، ذکر محسوس نہیں ہوتا ہے۔
جواب:
اس کو پندرہ منٹ کروا دیں۔
سوال نمبر 17:
لطیفۂ قلب پندرہ منٹ ذکر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو دل پہ انگلی رکھ کر محسوس کرے کہ اس انگلی کے نیچے ذکر محسوس ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 18:
ان کو نزول رحمت کا تصور ہے پندرہ منٹ کے لیے محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاءاللہ اب یہ جو بڑی بچی ہے آپ ان کو بتا دیں کہ پندرہ منٹ اللہ اللہ کا ذکر اپنے دل پر محسوس کرے۔
سوال نمبر 19:
ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
ان کو پندرہ منٹ کے لیے قلب کا جو خفی ذکر ہے وہ بتا دیں۔
سوال نمبر 20:
ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر پندرہ منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
تو اب تینوں لطائف پہ دس دس منٹ اور چوتھے لطیفے پر پندرہ منٹ۔
سوال نمبر 21:
انھوں نے لطیفۂ قلب پندرہ منٹ دو مہینے دس منٹ اور تین مہینے پندرہ منٹ تک کر لیا لیکن اب بھی کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
کوئی بات نہیں یہ مختلف طریقے ہیں، اللہ جل شانہ تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ نہیں ہے اب ان سے کہیں کہ ہزار مرتبہ اللہ اللہ زبانی کریں لیکن تیز رفتاری سے جلدی جلدی اس کو کہیں اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اس طریقے سے کریں اس کے بعد پھر پانچ منٹ یعنی یہ محسوس کریں کہ اللہ اللہ دل میں ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 22:
ایک کو ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
جب ذکر محسوس ہوتا ہے تو پھر لطیفۂ قلب کا دس منٹ کریں اور لطیفۂ روح کا پندرہ منٹ بتا دیں۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم حضرت جی اس ہفتہ میری فرض نمازوں میں کوئی قضا نہیں باقاعدہ کوئی نوافل بھی ادا نہیں کئے حضرت جی آپ نے ہفتے میں دو روز بیانات میں حاضر رہنے کا فرمایا تھا مزید یہ فرمایا تھا کہ گناہوں سے متعلق خود کو alert رکھنا ہے، بد نظری سے نہ بچوں تو فوراً توبہ کرتا ہوں لیکن اکثر بازاروں میں بہت پریشانی ہوتی ہے کیونکہ عورتوں کی افراط بہت زیادہ ہے اور بد نظری نہ بھی ہو تو عورتوں کا آس پاس ہونا بھی بہت پریشان کرتا ہے حضرت جی جب سے آپ نے مجاہدے کا حکم فرمایا ہے تب سے ذکر، مراقبہ بھی نہیں کر پا رہا ہوں۔
جواب:
اصل میں تھوڑا سا سمجھ کا قصور ہے وہ یہ کہ آپ فرض نمازوں میں الحمد للہ کوتاہی نہیں کرتے آپ شکرانے کے طور پر کم از کم دو رکعت نفل شروع کریں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے فرض نمازوں کی توفیق عطا فرما دی اور دوسری بات کہ گناہوں سے alert رہنا اس میں یہ ہوتا ہے کہ محسوس ہونا اور چیز ہے اور ارادے سے دیکھنا اور چیز ہے، محسوس تو ہو گا جیسے magnet ہے magnet کے پاس اگر لوہا ہو گا تو اس کی طرف کشش تو ہو گی لہذا آپ اس کو ختم نہیں کر سکتے اسی پہ تو اجر ہے کہ کشش ہو گی لیکن اگر ارادی حرکت نہیں ہو گی تو اس پہ بھی آپ کو اجر ملے گا۔ لہذا آپ اس مسئلے میں guilty feel نہ کریں بلکہ مجاہد بنیں یعنی باوجود کشش کے آپ اپنے آپ کو کنٹرول رکھیں جتنی کشش زیادہ ہو گی اور آپ نے اگر اپنے آپ کو کنٹرول کیا تو آپ زیادہ اجر کے مستحق ہوں گے۔ پکی بات ہے منفی طاقت جتنی زیادہ ہو گی اس کو روکنے کی طاقت مثبت طاقت کہلائے گی اور وہ اگر زیادہ ہو گی تو اجر بھی اس کا اس کے لحاظ سے زیادہ ہو گا لہذا میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ نوجوان جو لوگ ہیں جس کے بارے میں کہتے ہیں۔
"در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار"
جیسے نابینا شخص ہے وہ کہتا ہے میں بد نظری نہیں کرتا تو اس کو کتنا ثواب ملے گا ظاہر ہے وہ تو کر ہی نہیں سکتا جو کر سکتا ہے نہ کرے تو پھر اس کو اس کا اجر ملتا ہے۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے فرمایا: ہماری رہبانیت یہ ہے کہ تنہائی ہو، شباب ہو، دعوت ہو، موقعہ ہو اور پھر ہم اپنے آپ کو بچائیں یہ ہماری رہبانیت ہے۔ جائز چیز سے بچنا نہیں ہے جائز چیز جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس پر شکر ادا کرو اور اس کو اللہ کے حکم کے مطابق پورا کرو باقی جو ناجائز ہے اس سے بچنا یہ اصل بات ہے تو جتنے مجاہدے ہمارے ہیں وہ اسی کے لیے ہیں اور یہ مراقبہ اور ذکر والی بات یہ کمال کی بات ہے۔ میں نے منع نہیں کیا ہے ذکر اور مراقبہ اس کی تفصیل مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ حضرت اکثر بیانات میں فرماتے ہیں کہ لطائف کا جاری ہونا کیفیات پر منحصر ہے۔ یہ جو دھڑکن محسوس ہوتی ہے کیا muscular بھی ہو سکتی ہے؟ اسی طرح میرا لطیفۂ قلب مکمل صحیح جاری نہیں ہوا تھا مگر فلاں باجی نے کیفیات پر یہ فرمایا کہ مبارک ہو لطیفۂ قلب جاری ہو گیا اور پھر الحمد للہ کچھ ہی دنوں کے بعد ذکر بھی جاری ہو گیا میرا سوال ہے میری دو بچیاں جو آپ سے بیعت ہیں ان کی عمریں تیرہ اور گیارہ سال کی ہیں ان کا لطیفۂ قلب جاری ہوا ہے تو کیا ان کی کیفیات بھی پوچھنی چاہئیں؟
جواب:
جی بالکل ان سے کیفیات پوچھی جا سکتی ہیں اور ان کے بتانے پر اس کے بارے میں بات ان شاء اللہ ہو گی۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت میں اپنی امی کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں حضرت آپ نے 1500 مرتبہ زبانی اللہ اللہ کا ذکر تلقین فرمایا تھا جس کی مہینے بعد اطلاع دینی تھی بلاناغہ ذکر کرنے کا ایک مہینہ 18 ستمبر کو پورا ہو چکا ہے ابھی تک اس کا ذکر جاری ہے۔
جواب:
ماشاءاللہ اب ان کو 2000 مرتبہ زبانی اللہ اللہ کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 26:
علیہ السلام انبیاء کے لیے کرتے ہیں تو کیا امام مہدی علیہ السلام کہہ سکتے ہیں؟
جواب:
جی کہہ سکتے ہیں مطلب اس کے لغوی معنی کے طور پہ۔
سوال نمبر 27:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت میرا ذکر 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حَقْ اور 300 مرتبہ اَللہ مکمل ہو گیا ہے۔
جواب:
اب آپ اس کو 500 مرتبہ اللہ کریں اور باقی وہی ہو گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 28:
علیہ السلام کا استعمال ہم انبیا کے لیے کرتے ہیں کیا امام مہدی کے لیے بھی اس کا استعمال صحیح ہے ؟
جواب:
لغوی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے سلام تو ہم سب کو کرتے ہیں ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام نہیں کرتے؟ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
ہمارے حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے وہ مزاج میں jolly طبیعت کے تھے تو میں نے ایک دفعہ کہا کہ رحمۃ اللہ علیہ تو جو فوت شدہ ہوتے ہیں ان کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کیوں آپ کو رحمت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ واقعی اصطلاحی بات ہے لیکن عرف میں چونکہ ان حضرات کے لیے علیہ السلام مروج ہے تو ہم خواہ مخواہ اس کو کیوں تبدیل کریں۔ اگر ہم لغوی معنوں میں اس کا استعمال سمجھ لیں تو یہ ٹھیک ہے۔ جیسے بعض حضرات اولیاء اللہ کے لیے بھی رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔
کشف المحجوب میں جو حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ بولتے ہیں اس طرح دوسرے سب حضرات کے لیے رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ کا صیغہ استعمال ہے، حالانکہ وہ صحابہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایک صاحب جو اہلِ سنت میں سے نہیں تھے وہ الحمد للہ بہت تبدیل ہو گئے تھے لیکن مجھ سے پوچھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے پیچھے ہاتھ باندھ کے نماز پڑھوں تو میں نے کہا اگر میں نے اس کو ہاتھ باندھ کر پڑھنے کا بتا دیا تو لوگوں کو اطلاع ہو جائے گی عین ممکن ہے اس کے اوپر بہت pressure ہو جائے اور کہیں پیچھے نہ ہو جائے تو میں نے کہا ہمارے چار امام ہیں اور ان میں سے ایک امام ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ خواہ مخواہ پریشان ہوں لہذا آپ بیشک ہاتھ کھول کے نماز پڑھ لیا کریں کیونکہ اصل میں تو عقائد اور بنیادی concepts ہیں وہ اگر ٹھیک ہو جائیں تو یہ چیزیں ان کے سامنے پھر اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
سوال نمبر 29:
السلام علیکم حضرت جی اسم اللہ کے پانچ منٹ تصور کے لیے قبلہ رخ بیٹھنا ضروری ہے یا کسی بھی طرف چہرہ ہو تو تصور کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
اگر ﴿ﻓَﻮَﻝِّ ﻭَﺟْﮩَﮏَ ﺷَﻄْﺮَﺍﻟﻤَﺴَﺠِﺪِ ﺍﻟْﺤَﺮَﺍﻡِ﴾ (البقرۃ: 149) ہے تو ﴿أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾(البقرۃ: 115) یہ بھی ہے۔ لہذا ہم ایسا تو نہیں کہیں کہ ذکر کر ہی نہیں سکتے البتہ یہ آداب میں سے ہے اس سے عمل کا حسن بڑھ جاتا ہے اور ماشاءاللہ اس سے انسان کے دل پہ اچھی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب رخ خانہ کعبہ کی طرف ہو تو وہاں سے جو فیوض و برکات ہیں براہ راست سینے کے اوپر پڑتی ہیں، اس کا اپنا اثر ہوتا ہے تو اس اثر کو کیوں نہ لیا جائے لیکن بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے جیسے گاڑی میں جا رہے ہیں تو وہاں تو نفل پڑھنا بھی سواری پر ہو تو آپ کا جس طرف بھی رخ ہو تو آپ نفل تو پڑھ سکتے ہیں لیکن فرض نہیں، نفل آپ جس طرف بھی پڑھیں تو اس طرح ہو جاتے ہیں تو ذکر بھی اسی کے حکم میں ہے تو لہذا اگر آپ اس طرح کریں تو ٹھیک ہے البتہ جب تک آپ کر سکیں اور آسانی کے ساتھ اس میں کوئی مشکل نہ ہو تو آپ کریں اس میں اضافی فائدہ ہے ان شاء اللہ لیکن اگر کسی نے کر لیا تو اس سے کوئی حرج نہیں ہو گا کیونکہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے سینے پہ اس کے انوارات آتے ہیں۔
سوال نمبر 30:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا ذکر مکمل ہو گیا ہے الحمد للہ 200، 400، 600 اور دس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر ہے احوال میں کوئی خاص بہتری نہیں ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میری نیت میں فتور کی وجہ سے ہے۔ حضرت جی میں اپنی نیت کو کیسے ٹھیک کروں؟
جواب:
یہ آج ہی میں نے پڑھا ہے حضرت مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے فرمایا: اللہ جس حال میں رکھیں اسی پہ راضی ہو نا اس کو تفویض کہتے ہیں اور جب آپ اپنے لیے کوئی حالت سوچتے ہیں کہ ایسا ہو تو اس کو تجویز کہتے ہیں اور فرمایا: مسئلہ صرف اسی میں ہے کہ ہم ہر وقت تجویز میں لگے رہتے ہیں تفویض نہیں کرتے تو پھر اس میں پریشانی ہوتی ہے۔ آپ اپنا ذکر کیے جائیں۔ آپ کو ذکر کے اثرات ایسے محسوس ہونے چاہئیں کہ آپ اپنے آپ کو بزرگ سمجھیں، اگر یہ آپ کا مطلب ہے تو میں تو آپ کو ایسا ذکر نہیں دوں گا جس سے آپ اپنے آپ کو بزرگ سمجھیں بلکہ جتنا آپ اپنے آپ کو کم سمجھیں گے تو میں سمجھوں گا کہ ذکر اثر کر رہا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس وقت تک آدمی عارف نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ کافر فرنگ سے بھی اپنے آپ کو بدتر نہ سمجھے۔ تو اب بتائیں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے احوال دیکھیں اور ان کی آپ بیتی دیکھیں وہ کس طرح اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے؟ اصل میں ہم لوگوں نے اپنے لیے کچھ milestones رکھے ہوئے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے ایسا ہونا چاہیے اللہ تعالیٰٰ جس حالت میں رکھے اس میں ٹھیک ہے اب آپ اس طرح کریں کہ 10500 (دس ہزار پانچ سو) دفعہ ذکر کریں ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 31:
چھوٹی بچیاں کیا کریں اس میں نزول رحمت کا تصور پندرہ منٹ کا بتایا تھا اور آپ نے کہا کہ ہو سکے تو بتانا، تو ہو رہا ہے؟
جواب:
اس کو بیس منٹ کا کروائیں دس دس منٹ وقفے وقفے کے ساتھ۔
سوال نمبر 32:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ! حضرت جی میرا بارہ تسبیح کا ذکر ہو رہا ہے اور اسم اللہ کا ذکر بھی 100 دفعہ ہو رہا ہے آخری مراقبہ دیا گیا جو لطیفۂ نفس پر فیض کا محسوس کرنا ہے۔
جواب:
لطیفۂ نفس پر تو میں نے کبھی نہیں بتایا۔ اللہ کی ہر لمحہ ایک نئی شان ہے میرے ساتھ پرسوں ہی ملیں پھر اس کے بعد بات کروں گا ان شاء اللہ آپ کو علیحدہ جواب دے دوں گا۔
Question:33
Hadhrat one day I started my zikr while I was very tired and feeling drowsy. I dozed off during zikr, but I completed it when I woke up. Can my mamool be regarded as satisfactorily performed?
Answer:
Answer:
About your voice message if you completed after waking up it would be okay In Sha Allah. However, you should try to fix such time for zikr in which you are fresh and active. Because if you perform zikr when you are exhausted and feeling drowsy then your sleep will again interfere with zikr which may affect benefits of Islahi Zikr.
سوال نمبر 34:
آپ نے نیت کے بارے میں کہا تھا اگر انسان اپنی نیت کے بارے میں مکمل طور پہ واقف نہیں مطلب اگر میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور میں غریبوں کے لیے اپنا دل بھی کھلا کرتا ہوں اور میں کسی انسان کو تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتا مطلب یہ سب کچھ میں کرتا ہوں ٹھیک ہے وقت پہ کرتا ہوں لیکن پھر وہی بات کہ میرے دماغ میں شاید یہ بھی چلتا رہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں ایک اچھا انسان ہوں اور میں ایک اچھا مسلمان ہوں تو مجھے ان دونوں میں confusion ہوتی ہے کہ میں وہ بھی کرتا ہوں لیکن یہ بھی شاید ہوتا ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی؟
جواب:
بالکل آپ کی بات صحیح ہے ایسے خیالات آتے ہیں اگر یہ خیالات خود بخود آتے ہیں اور اس میں آپ کا ارادہ نہیں ہے تو پھر اس کو وسوسہ کہتے ہیں لیکن اگر آپ کی ذرہ بھر بھی اس میں intention شامل ہو تو پھر اس کی correction ضروری ہے تو اس کی correction کوئی مشکل بھی نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس پر آدمی توبہ و استغفار کرے کہ اگر اس میں کوئی ایسی چیز شامل ہو چکی ہو جو کہ مناسب نہیں ہے اس پر ساتھ ساتھ استغفار کرے بلکہ آپ کو ایک استغفار کی قسم بتاتا ہوں جس میں سارا کچھ آجاتا ہے وہ اس کے لیے بہت بہتر ہے پانچواں کلمہ غالباً اس کو کہتے ہیں ﴿اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ اَذْنَبْتُهٗ عَمَدًا اَوْ خَطَا ًٔ سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْۢبِ الَّذِیْٓ اَعْلَمُ وَ مِنَ الذَّنْۢبِ الَّذِىْ لَآ اَعْلَمُ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَ سَتَّارُ الْعُيُوْبِ و َغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِىِّ الْعَظِيْمِؕ﴾ اور آخر میں ﴿لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِىِّ الْعَظِيْمِؕ﴾ پر نیت کریں کہ خیر کے کام کروانے کی توفیق اور شر سے بچانے کی توفیق بھی اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوتی ہے تو اس میں آپ نیت کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰٰ شر سے بچائے اس میں جو خیر ہے نصیب فرمائے ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 35:
بعض لوگ اکٹھا کام کرتے ہیں مثلاً تہجد کی نماز تین چار آدمی اکٹھے پڑھتے ہیں اس میں اگر کسی دن کسی کو جاگ نہ آئے تو اس کو اس وجہ سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ میرے وہ ساتھی کہیں گے کہ اس کی تہجد کی نماز آج رہ گئی ہے تو بعض اوقات اس طرح کے کام جو اکٹھے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ایک رہ جائے تو لوگوں کی وجہ سے زیادہ شرمندگی بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی ہوتی ہے کہ وہ کہیں گے کہ آج اس کا یہ کام رہ گیا تو یہ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
جواب:
اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ جو نوافل ہیں وہ فرض، واجب یا لازم نہیں ہیں سنت موکدہ بھی نہیں ہیں تو اس پر ملامت بھی نہیں کیا جا سکتا جو آپس میں ساتھی ہیں ان کا ایک فائدہ ہے اور ایک نقصان، نقصان سے بچنا چاہیے اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے، فائدہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی لوگ اعمال کر لیتے ہیں ﴿وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ﴾ جیسے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان شریف میں ہمارے گھر کی خواتین ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ میں تلاوت زیادہ کرتی رہتی ہیں۔ یہ تب ہی صحیح ہو گا جب اس کے اندر بے تکلفی ہو گی اور اللہ پاک کے لیے ہو گا بے تکلفی سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی رہ جائے تو خود بتائے کہ مجھ سے رہ گیا تو پوچھے کہ میں کیا کروں مطلب مجھ سے اس وجہ سے رہ گیا ہے تو آپس میں مشورہ کر لیں تو ایک دوسرے کے ساتھ share کرنے سے پتا چلتا ہے ممکن ہے کہ کوئی دوسرا اس کو بتا دے کہ اس میں یہ حل ہو سکتا ہے یا کوئی اس طرح ایک دوسرے کو اٹھانے کا بھی انتظام ہو سکتا ہے اور کئی چیزیں بھی ہو سکتی ہیں تو اس میں خود بتائے چونکہ وہ اللہ کے لیے کر رہا ہے تو دوسروں کے ساتھ مسابقت میں تو اس کا فائدہ ہے لیکن ایک دوسرے سے چھپانے کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ شیخ کے لیے تو چھپانا جائز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے باقی لوگ خراب ہوتے ہیں لیکن یہ جو عام آدمی کے لیے نوافل ہیں اس میں اگر رہ جائے تو چھپانا نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اللہ کے لیے کر رہا ہے تو اس کو کیوں چھپایا اور جس وقت ہو جائے تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کرے البتہ نفل ادا کرتے وقت چھپائے تو اچھا ہے آپس میں مسابقت کے لیے الگ بات ہے لیکن عمومی لوگوں سے چھپ کے کر لے تو اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے تو عام لوگوں سے تو چھپ کے کر لے آپس میں مسابقت کے لیے کرے اور اگر غلطی ہو تو آپس میں ایک دوسرے کو بے شک وہ بتا دیں تاکہ یہ بات نہ رہے کہ گویا کہ بزرگی میری کم ہو گئی۔
سوال نمبر 36:
یہ جو لوگوں کی طرف سے ویسے ایک شرمندگی کا احساس سا ہوتا ہے اس کا کیا کریں؟
جواب:
پھر احساس بے شک ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کی وجہ یہ ہےکہ اگر اس کے تقاضے پہ عمل نہیں کرتا تو کوئی بات نہیں ہے تقاضے پہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 37:
ویسے بھی وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا ہے ویسے کسی اور طریقے سے؟ اس کا دل کرتا ہے کہ میں ظاہر کروں تاکہ یہ سمجھیں کہ یہ کر لیا ہے؟
جواب:
یہ ٹھیک نہیں ہے آپس میں جو مسابقت والے ساتھی ہیں ان کے ساتھ ایسا نہیں کرنا ہے بالکل، یہ ویسی ہی بات ہو گی جیسے درود شریف میں کوئی مسابقت کر رہا ہو جیسے ربیع الاول میں بعض خواتین آپس میں کرتی ہیں تو اب اس میں یہ ہےکہ ایک نے سوا لاکھ نہیں پڑھا اور دوسری نے پڑھ لیا ہے تو وہ اگر بتا دے کہ میں نے سوا لاکھ پڑھ لیا چاہے وہ اشارے سے ہو یا کسی اور طریقے سے کوئی بات نہیں۔
سوال نمبر 38:
اگر کسی نے ایک کام کیا اور اس میں اس کا دل کرتا ہے تاکہ ان کو پتا چل جائے کہ میں نے کیا ہے تو یہ کونسی کیفیت ہے؟
جواب:
اس میں اس طرح نہیں کرنا چاہیے اس میں normal کرنا چاہیے نہ plus نہ minus۔ اس کے اندر میں یہی سمجھا ہوں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ۔