عنوانات
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کے درس میں ہم حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ’’نظریۂ وحدت الشہود‘‘ اور ”حضرت مجدد (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مدارج ارتقائے سلوک“ کے موضوع پر بات کریں گے۔ یہ موضوع دفتر اول مکتوب نمبر 31 سے لیا گیا ہے۔ حضرت لکھتے ہیں:
حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مدارج ارتقائے سلوک:
متن:
میرے مخدوم و مکرم! فقیر کا اعتقاد بچپن سے اہل توحید کے مشرب کا پھل تھا اور اس فقیر کے والد ماجد قدس سرہ بھی بظاہر اسی مشرب پر ہوئے اور باطن میں پوری پوری نگرانی حاصل ہونے کے باوجود جو کہ وہ مرتبہ بے کیفی کی جانب رکھتے تھے اور دائمی طور پر اس طریقہ کے ساتھ مشغول رہے ہیں، اور اس مضمون کے مصداق کہ اِبْنُ الْفَقِیْہٖ نِصْفُ الْفَقِیْہٖ (فقیہ کا بیٹا بھی آدھا فقیہ ہوتا ہے) فقیر کو اس مشرب سے بلحاظ علم بہت فائدہ اور بڑی لذت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ حق سبحانہ وتعالٰی نے محض اپنے فضل وکرم سے ارشاد و ہدایت پناہ، حقائق و معارف آگاہ، پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے، ہمارے شیخ و مولا و قبلہ حضرت خواجہ محمد باقی قدسنا اللہ تعالیٰ بسرہ کی خدمت میں پہنچایا اور انھوں نے اس فقیر کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا طریقہ تعلیم فرمایا اور کامل توجہ اس مسکین کے حال پر ملحوظ رکھی۔ اس طریقہ عالیہ میں محنت کے بعد تھوڑی مدت میں توحید وجودی منکشف ہو گئی اور اس کشف میں بہت مبالغہ پیدا ہو گیا، اس مقام کے علوم و معارف بکثرت ظاہر ہوئے اور اس مرتبہ کی باریکیوں میں سے شاید ہی کوئی باریکی رہ گئی ہو کہ جس کو اس فقیر پر ظاہر نہ کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ کے معارف کے دقائق کو جیسا کہ چاہئے ظاہر و واضح فرمایا اور جس تجلی ذاتی کے متعلق صاحب فصوص (شیخ محی الدین ابن عربی موصوف) نے بیان فرمایا ہے کہ عروج کی انتہا اس کے سوا نہیں جانتا، اور اس تجلی کی شان میں فرمایا ہے وَمَا بَعْدَ ھَذَا اِلَّا الْعَدَمُ الْمَحْضُ (اور اس کے بعد عدم محض کے سوا اور کچھ نہیں ہے) یہ فقیر اس تجلی ذاتی سے مشرف ہوا اور اس تجلی کے علوم ومعارف بھی کہ جن کو شیخ موصوف خاتم الولایت کے ساتھ مخصوص جانتا ہے، تفصیل کے ساتھ معلوم ہوئے اور سکر وقت وغلبہ حال اس توحید (وجودی) میں اس حد تک حاصل ہوا کہ بعض عریضوں میں جو کہ فقیر نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہ کی خدمت میں لکھے تھے ان دو شعروں کو جو کہ سرا سر سکر سے متعلق ہیں لکھا تھا۔ رباعی:۔
اے دریغا کین شریعت، ملت اعمائی است
ملت ما کافری و ملت ترسائی است
کفر وایماں زلف وروئے آں پری زبیائی است
کفر ایماں ہر دو اندرراہ ما یکتائی است
(شریعت آہ اندھوں کی ہے ملت
وہ کافر کی ہے یا ترسا کی حالت
رخ و زلف پری ہیں کفر وایماں
وہی میرے لیے راہ ہدایت
اور یہ حالت بہت مدت تک رہی بلکہ مہینوں نہیں کئی سالوں تک رہی، اچانک حق تعالیٰ جل شانہ کی بے انتہا عنایت غیب کے جھروکوں سے میدان ظہور میں جلوہ گر ہوئی، اور اس پردے کو جو بیچونی و بے چگونی (بے مثل وبے مثال) کے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا اتار پھینکا اور سابقہ علوم جو اتحاد اور وحدتِ وجود کی خبر دیتے رہے تھے زائل ہونے لگے اور احاطہ و سریان و قرب و معیت ذاتیہ جو اس مقام میں ظاہر ہوئے تھے، پوشیدہ ہو گئے اور پورے یقین کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ صانع (حق تعالیٰ) جل شانہ کو عالم کے ساتھ ان مذکورہ نسبتوں میں سے کوئی نسبت بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ حق تعالیٰ کا احاطہ و قرب علمی ہے جیسا کہ اہل حق کے نزدیک ثابت و فیصلہ شدہ بات ہے۔ حق تعالیٰ ان کی کوششوں پر جزائے خیر عطا فرمائے اور وہ جل شانہ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہے، وہ تعالیٰ بہت بلند و پاک ہے اور عالم عالَم ہے، وہ سبحانہ وتعالیٰ بے مثل و بے مثال ہے، اور عالم تمام کا تمام چونی و چگونی (مثل و مثال ہونے) کے داغ سے داغدار ہے، بیچون کو چون کا عین نہیں کہہ سکتے اور واجب تعالیٰ شانہ کو ممکن کا عین نہیں کہہ سکتے، قدیم ہرگز بھی حادث کا عین نہیں ہوتا، مُمْتَنِعُ الْعَدَمِ جَائِزُ الْعَدَمِ کا عین نہیں بن سکتا، حقائق کا بدلنا عقلاً و شرعاً محال ہے اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کا ثبوت و صحت کلی طور پر ہی ممتنع ہے۔ تعجب ہے کہ شیخ محی الدین قدس سرہ اور ان کی پیروی کرنے والے حضرات واجب تعالٰی (اللہ تعالیٰ) کی ذات کو مجہولِ مطلق کہتے ہیں یعنی اس کو کسی حکم کے ساتھ محکوم علیہ نہیں جانتے، اور اس کے باوجود اس کے لئے احاطہ ذاتی اور قرب و معیت ذاتیہ ثابت کرتے ہیں، حالانکہ یہ حق تعالیٰ کی ذات پر حکم لگانا ہی تو ہے۔ پس درست وہی ہے جو علمائے اہل سنت و الجماعت نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ کا قرب و احاطہ علمی ہے (ذائی نہیں ہے)۔ اور توحید وجودی کے مشرب کے خلاف علوم و معارف حاصل ہونے کے زمانے میں اس فقیر کو بہت اضطراب تھا کیونکہ اس توحید کے علاوہ کوئی اور امر اس سے بلند تر نہیں جانتا تھا اور عاجزی و زاری کے ساتھ دعا کرتا تھا کہ یہ معرفت (یعنی توحید وجودی) زائل نہ ہو جائے یہاں تک کہ کام (مقصود) کے چہرے سے تمام پردے ہٹ گئے اور حقیقت پوری طرح ظاہر ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ تمام عالم باوجودیکہ صفائی کمالات کے آئینے اور اسمائی ظہورات کی جلوہ گاہیں ہیں لیکن مظہر ظاہر کا عین اور ظل اصل کا عین نہیں ہے، جیسا کہ توحید وجودی والوں کا مذہب ہے۔
دفتر اول مکتوب نمبر 43 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
معرفت کی پناہ والے ہمارے قبلہ گاہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس اللہ تعالیٰ سرہ کچھ عرصہ تک توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتے تھے اور اپنے رسالوں اور مکتوبات میں بھی اس کا اظہار فرمایا کرتے تھے، لیکن آخر کار حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی نہایت مہربانی کے ساتھ اس مقام سے ترقی عطا فرما کر شاہراہ پر ڈال دیا اور اس معرفت کی تنگی سے رہائی عنایت فرمائی۔ میاں عبد الحق نے جو کہ حضرت قدس سرہ کے مخلص دوستوں میں سے ہیں بیان کیا ہے کہ حضرت (خواجہ باقی باللہ) قدس سرہ نے اپنی مرض موت سے ایک ہفتہ پہلے فرمایا کہ "مجھ کو عین الیقین سے معلوم ہو گیا کہ توحید وجودی ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ اور ہی ہے۔" اس سے پہلے بھی میں جانتا تو تھا لیکن اب ایک قسم کا دوسرا یقین حاصل ہو گیا ہے۔ اور یہ فقیر (حضرت مجدد قدس سرہ) بھی کچھ مدت تک حضرت خواجہ قدس سرہ کی خدمت میں اسی توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتا تھا اور اس طریقہ کی تائید میں بہت سے کشفی حالات و واردات ظاہر ہوئے تھے لیکن حق تعالیٰ جل شانہ کی عنایت نے اس مقام سے ترقی دے کر اس مقام کے ساتھ جس کو کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا مشرف فرمایا ہے۔
تشریح:
الله جل شانهٗ حضرت کو بلند درجات عطا فرمائے۔ ہمیں یہ چیز نسبتاً آسان لگتی ہے، کیونکہ ہمیں پکا پکایا پھل ملا ہے، لیکن حضرت کو محنت کے بعد ملا ہے۔ حضرت کو پہلے ایک چیز کا تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا پھر اس کے بعد اس میں جو تنگی تھی وہ حضرت پر منکشف فرما دی گئی اور پھر حضرت کو اصل بات تک پہنچا دیا گیا۔
اب میں عرض کرتا ہوں کہ وہ بات کیا تھی۔
حضرت کا تعلق چونکہ اپنے والد کے ساتھ تھا، جو اتحاد (وحدۃ الوجود) کا نظریہ رکھتے تھے۔ اتحاد کا نظریہ یہ ہے کہ جب انسان کو پتا چلتا ہے کہ سارا کچھ اللہ کر رہے ہیں، تو آہستہ آہستہ یہ کیفیت انسان کے اوپر غالب ہوتی جاتی ہے، اور مسلسل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار یہ کیفیت مکمل طور پر انسان کے حواس اور عقل و ہوش پر چھا جاتی ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو باقی چیزیں غائب ہوتی جاتی ہیں، اور بتدریج غائب ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ سب چیزیں بالکل غائب ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ خود بھی غائب ہو جاتا ہے، اپنے اوپر بھی نظر نہیں رہتی اور اس کی نظر میں صرف ایک الله جل شانهٗ باقی رہ جاتا ہے۔ اس کیفیت کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں کہ اللہ ہی موجود ہے، اللہ ہی موجود ہے اور کوئی موجود ہی نہیں ہے۔ گویا کہ دوسری چیزوں کی طرف انسان کا خیال ہی نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور الله جل شانهٗ کی ہر چیز میں فعالیت، اس کے اوپر اتنی غالب و مستولی ہو جاتی ہے کہ وہ باقی تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ اس کو سمجھانے کے لئے مختلف مثالوں سے ظاہر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک حال ہے اور حال الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
میں اکثر ایک بات عرض کرتا ہوں کہ گڑ بھی میٹھا ہے اور شہد بھی میٹھا ہے، جس نے گڑ بھی چکھا ہو اور شہد بھی چکھا ہو اور اسے گڑ کا گڑ ہونا اور شہد کا شہد ہونا پتا ہو، اس کو اگر آنکھیں بند کر کے بھی گڑ کھلا کر پوچھا جائے کہ کیا کھایا ہے؟ تو وہ کہے گا گڑ کھایا ہے، اور اگر اس کو شہد چٹا کر پوچھا جائے کہ کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے شہد ہے۔ لیکن جس نے گڑ بھی نہ چکھا ہو، شہد بھی نہ چکھا ہو، اگر اس سے آپ پوچھیں کہ گڑ اور شہد کی مٹھاس میں کیا فرق ہے تو وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ حالانکہ کتنا زیادہ فرق ہے۔ جس نے چکھا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی پوچھے تو اس کے لئے یہ پوچھنا ہی بڑی عجیب بات ہوتی ہے کہ گڑ اور شہد کی مٹھاس میں کیا فرق ہے، وہ کہتا ہے تجھے یہ بھی پتا نہیں ہے۔ لیکن جس نے چکھا نہ ہو تو وہ یہ بات الفاظ میں دوسروں کو نہیں سمجھا سکتا۔ تو یہ حال کی بات ہے، اسی طرح حال کی بات انسان الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، لیکن بیان کرنے کی کوشش ضرور ہوتی ہے، کیونکہ الفاظ کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔
وحدۃ الوجود کو سمجھانے کے لئے ایک مثال یہ بھی دی جاتی ہے کہ آپ لوہے کو آگ میں ڈالیں اور وہ مسلسل گرم ہوتا جائے، اتنا گرم ہو جائے کہ آگ کی طرح سرخ ہو جائے تو وہ بھی آگ بن جاتا ہے۔ لیکن کیا وہ آگ ہے؟ نہیں، وہ لوہا ہی ہے، لیکن اس کی صفات آگ کی طرح ہو جاتی ہیں۔ اگر اس وقت اس کو کوئی چھوئے گا تو اسے لوہا آگ کی طرح ہی جلائے گا۔ وہ اگر کہہ دے کہ ’’اِنِّیْ اَنَا النَّارُ‘‘ ”میں آگ ہوں“ تو ایک لحاظ سے اس کا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ آگ کی طرح بن جاتا ہے، گویا کہ وہ اپنی صفت کو گم کر کے آگ کی صفت کو اپنا لیتا ہے۔
اسی طرح لوگوں نے اس بات کو سمجھانے کے لئے اور بھی کئی مثالیں دی ہیں، ایک مثال قطرہ اور سمندر کی بھی ہے کہ قطرہ سمندر میں گر گیا تو پھر وہ سمندر ہو گیا۔ ہر قطرہ اپنے آپ کو سمندر کہہ سکتا ہے، کیونکہ وہ سمندر میں ہے اور سمندر بھی قطروں سے مل کر ہی بنا ہے تو ایک لحاظ سے ہر قطرہ قطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ سمندر بھی ہے۔
یہ سب مثالیں صرف حال بیان کرنے کے طریقے ہیں۔ وحدۃ الوجود ایک حال ہے اور اس کو بطور حال ہی بتایا جا سکتا ہے۔ جو بھی اس کو الفاظ میں لانے کی کوشش کرے گا، وہ پریشان ہو گا اور جو اس کو سنے گا، وہ مزید پریشان ہو گا۔ یعنی بیان کرنے والا تو پریشان ہو گا ہی، سننے والا اس سے بھی زیادہ پریشان ہو گا، کیونکہ اس کو تو وہ حال نصیب ہی نہیں ہے، جب نصیب نہیں ہے تو اس حال کو الفاط میں سن کر پتا نہیں کیا سمجھے گا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ وحدۃ الوجود اگر حال کے طور پر ہو تو اس میں انسان معذور ہے، کیونکہ اللہ کو پتا ہے کہ اس کا حال کیا ہے۔ لیکن اس کو اگر کوئی فلسفہ بنا دے اور باقاعدہ اس کا تجزیہ شروع کر دے اور اس کو ایک نظریہ بنا دے، تو پھر معاملہ الحاد اور زندیقی کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جن لوگوں کو یہ حال نصیب نہیں ہے اور وہ اس کو بیان کرتے ہیں تو ہمیشہ پٹخنی کھا جاتے ہیں، نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے بہت سارے شاعروں کو نقصان ہوا ہے، جن کو یہ حال نصیب نہیں تھا اور انہوں نے صاحبِ حال لوگوں کے کلام کو پڑھ کر ان کی طرح کہنا چاہا، تو انہوں نے پٹخنی کھائی اور نقصان اٹھایا ہے اور غلط باتوں کی طرف چلے گئے ہیں۔ لہٰذا جس کا ایسا حال ہے، وہ معذور ہے اور جس کے اوپر یہ حال طاری نہیں ہے، اس کو اس کے قریب بھی نہیں آنا چاہئے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے۔
حضرت نے فرمایا: چونکہ میرے والد صاحب اس پر تھے، تو میں نے انہی سے یہ چیز لی تھی اور جس وقت میں حضرت خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پاس آیا تو ان کا بھی پہلے یہی اتحاد والا نظریہ تھا، میں بھی سالوں اس میں رہا اور اس کے بڑے معارف ظاہر ہوئے، لیکن پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور اصل بات ظاہر ہو گئی۔ وہ اصل بات یہ تھی: ’’کہ تمام عالم باوجودیکہ صفائی کمالات کے آئینے اور اسمائی ظہورات کی جلوہ گاہیں ہیں۔‘‘
اس پر ذرا غور فرمائیں۔ یعنی الله جل شانهٗ کے اسماء مبارکہ کی اپنی اپنی تجلیات ہیں، اپنے اپنے ظہورات ہیں اور واقعتاً وحدۃ الوجود والے حضرات کو ان چیزوں کے انکشافات بہت زیادہ ہوتے ہیں، وہ ان انکشافات کے اندر ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ ہر صفت کا اپنا ایک جلوہ، اپنا ایک رنگ ہے۔ پورے عالم کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، یہ اسماء ہی کے ظہورات ہیں۔ مثلاً اسمِ قادر اور قدیر کا ظہور قدرت ہے، اسی طرح اسمِ حافظ ہے، حفیظ ہے، سبحٰن ہے، عالِم ہے۔ یہ حقائق کا ایک سمندر ہے۔ تو یہ تمام عالم ان اسمائے مبارکہ کی تجلیات کا مظہر اور ظہورات ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مظہر ظاہر کا عین نہیں ہے۔ مظہر اس کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز ظاہر ہوتی ہے، وہ چیز اس کا مظہر ہوتی ہے۔ یعنی ہر چیز جو ظاہر ہوتی ہے اس کا ایک مظہر ہوتا ہے، تو یہ ظاہر و مظہر جدا جدا ہیں، ظاہر مظہر کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے، لیکن مظہر عینِ ظاہر نہیں ہے۔ اور ظل اصل کا عین نہیں ہے۔ یعنی جو عکس ہے، وہ عکس ہے، اصل نہیں ہے۔ مثلاً آسان زبان میں اگر ہم کہیں تو یوں کہیں گے کہ سورج اگر آئینہ میں نظر آتا ہے تو وہ سورج نہیں ہے، سورج کا عکس ہے، اگرچہ اس میں نور بھی ہے، حرارت بھی ہے، اس کی طرف بھی آپ نہیں دیکھ سکتے، لیکن اس کو کوئی سورج نہیں کہے گا، بلکہ کہے گا کہ یہ سورج کا عکس ہے۔ حضرت بھی یہی فرماتے ہیں کہ مظہر ظاہر کا عین نہیں اور ظل اصل کا عین نہیں ہے۔ جب کہ توحیدِ وجودی والے درجۂ حال میں یا غلبۂ حال میں ظل کو بھی اصل کا عین سمجھ لیتے ہیں اور مظہر کو بھی ظاہر کا عین کہہ لیتے ہیں۔ یہ بات ایک حال کے درجہ میں تو ہے لیکن حقیقت نہیں ہے۔ قرآن پاک میں اس کو ایک عجیب لطیف انداز سے سمجھایا گیا ہے، فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (اٰل عمران: 190)
ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔
یہ کائنات کے اندر ہونے والے تغیرات اور تخلیق کے مراتب کے بارے میں بات ہو گئی کہ اولی الالباب (عقل مندوں) کے لئے اس میں نشانیاں ہیں، اولی الالباب اس کے ذریعہ حقیقت تک پہنچتے ہیں۔ آگے بتایا کہ وہ اولی الالباب کون ہیں، فرمایا:
﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (اٰل عمران: 191)
ترجمہ: ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے‘‘۔
یعنی جو ذکر فکر کرنے والے لوگ ہیں وہ عقل مند ہیں۔ ذکر کے بغیر صرف فکر ذہنی عیاشی ہے۔ اور فکر کے بغیر صرف ذکر کریں تو آپ اس کے اثرات محسوس نہیں کر سکتے، اثرات فکر میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ دونوں جب ملتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا﴾ ’’اے پروردگار! تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا‘‘۔ یعنی ہر چیز کا اپنا اپنا مقام ہے۔ لہٰذا اللہ کی اس تخلیق کرنے سے ان چیزوں کا وجود ثابت ہو گیا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ چیزیں باطل نہیں ہیں، باطل کے مقابلے میں حق آتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا: ﴿سُبْحٰنَكَ﴾ ’’یا اللہ! تو ان تمام چیزوں سے پاک ہے‘‘۔ یعنی یہ سب کائنات باطل نہیں، حق ہے، لیکن حق اس طرح ہے کہ یہ ساری کائنات تو نہیں ہے، بلکہ یہ تیری مخلوق ہے۔ پھر فرمایا: ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ یعنی پس میرا مقصد بھی یہی ہے کہ مجھے عذابِ جہنم سے نجات عطا فرما۔ کیونکہ تو ہی سب کچھ دیتا ہے تو مجھے بھی آگ سے نجات عطا فرما۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو مَلْجا و ماویٰ مان لیا۔ جیسے کہا جا تا ہے: ’’لَا مَلْجَا وَلَا مَنْجَا مِنَ اللہِ اِلَّا اِلَیْہِ‘‘۔
خلاصہ یہ کہ مظاہر کو مانا گیا کہ یہ مخلوقات، کائنات، مظاہر بھی ایک حقیقت ہیں، لیکن ان مظاہر کو ظاہر کی طرح نہیں مانا گیا، بلکہ ظاہر کو اس سے جدا مانا گیا۔ یہ وحدۃ الشہود کی زبردست تشریح ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ الحمد للہ! یہ چیز مجھ پر کھل گئی۔ پھر فرماتے ہیں کہ
’’حضرت خواجہ باقی باللہ قدس اللہ تعالیٰ سرہ کچھ عرصہ تک توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتے تھے اور اپنے رسالوں اور مکتوبات میں بھی اس کا اظہار فرمایا کرتے تھے، لیکن آخر کار حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی نہایت مہربانی کے ساتھ اس مقام سے ترقی عطا فرما کر شاہراہ پر ڈال دیا‘‘۔
شاہراہ سے مراد یہ ہے کہ جس پر سب لوگ چل سکتے ہیں، تنگ راستہ نہیں ہے، جس میں غلط ہونے کا امکان نہیں ہے۔
’’اور اس معرفت کی تنگی سے رہائی عنایت فرمائی‘‘۔
یعنی چند چیزوں پر اکتفا نہیں ہے۔ ما شاء اللہ! اب پوری چیزیں سامنے آ گئیں۔
’’میاں عبد الحق نے جو کہ حضرت قدس سرہ کے مخلص دوستوں میں سے ہیں بیان کیا ہے کہ حضرت (خواجہ باقی باللہ) قدس سرہ نے اپنی مرض الموت سے ایک ہفتہ پہلے فرمایا کہ "مجھ کو عین الیقین سے معلوم ہو گیا کہ توحیدِ وجودی ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ اور ہی ہے‘‘۔
اب ذرا غور فرمائیں کہ حضرت خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پر بھی بالکل آخری وقتوں میں یہ چیز ظاہر ہوئی، یعنی وحدۃ الشہود کا انکشاف حضرت باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) صاحب کو بھی بالکل اخیر میں ہوا ہے۔ پھر اس کو ثابت کرنا اور اس کی تفصیلات بتانا حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ذریعہ کروایا گیا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ الله جل شانهٗ نے حضرت خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو وسطی ایشیا سے اس مقصد کے لئے انڈیا بھیجا اور حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو ان تک پہنچا دیا، پہلے مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی تربیت چشتیت میں اور وحدۃ الوجودی سے کروائی، پھر ان تمام چیزوں کی معرفت پر مزید معرفت عطا فرما کر اس سے آگے ترقی نصیب فرمائی۔
در اصل لوگ چند چیزوں پر اکتفا کرتے ہیں اور یہاں بھی گڑ بڑ کرتے ہیں۔ اگر میں آپ کو اتنی سی تفصیل بتا کر رک جاؤں اور پوری تفصیل نہ بتاؤں تو اس سے یہ مسائل پیدا ہوں گے کہ اتنی بات جاننے والا ان لوگوں کو غلط سمجھے گا جو وحدۃ الوجود کی باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ ایک غلطی ہو گی۔ اس لئے اس کی پوری تفصیل سمجھانا ضروری ہے۔ میں اس کو آج کل کی زبان کے لحاظ سے بہت آسانی کے ساتھ سمجھا سکتا ہوں۔ آج کل کی زبان کے لحاظ سے سمجھانا آسان ہے۔ اُس وقت کے لحاظ سے یہ بہت مشکل تھا، حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو اس کے لئے بڑی محنت کرنی پڑی تھی، ہمیں اتنی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا تجربہ ہمارے سامنے ہے، الحمد للہ، ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ پاک نے ایک چیز جو ہم پر کھولی ہے وہ تصوف اور سائنس کی آپس میں مماثلت ہے۔ اس کو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سائنس اور تصوف آپس میں مماثل اور ایک جیسے ہیں۔ اس طرح کہ سائنس بھی تدریجاً ترقی کرتا ہے اور تصوف میں بھی انسان تدریجاً ترقی کرتا ہے۔ ان دونوں میں چیزیں درجہ بدرجہ ملتی ہیں اور انسان پھر اس سے آگے بڑھتا ہے۔ جیسے سائنس کے معاملے میں جو لوگ کہتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔ وہ بھی سائنس دان تھے، ان کے سائنس دان ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اور وہ بڑے سائنس دان تھے، چھوٹے سائنس دان بھی نہیں تھے۔ آج کل کی سائنس کہتی ہے کہ زمین گول ہے، اس پر ایک بچہ بھی دلائل دے رہا ہے تو کیا یہ بچہ جو آج اس پر دلیل دے رہا ہے، کیا وہ ان پہلے سائنس دانوں سے بڑا سائنس دان ہے جو کہتے تھے کہ زمین چپٹی ہے؟ ایسی بات نہیں، وہ بڑے سائنس دان تھے اور ان کی محنت کی وجہ سے آج کا سائنس دان اس چیز کو جان رہا ہے۔ فیصل مسجد کے نیچے جو بنیاد ہے، اگر وہ نہ بنی ہوتی تو کیا اس کے اوپر یہ چھت بن سکتی تھی؟ یہ اوپر کی چھت اصل میں نیچے کی بنیاد کی وجہ سے ہے۔ جو قطرہ پیالے میں پہلی دفعہ گر رہا ہے اور پھر آخری قطرہ جو چھلکتا ہے۔ اس چھلکنے میں جتنا حصہ آخری قطرے کا ہے اتنا ہی پہلے قطرے کا بھی ہے، کیونکہ اگر وہ پہلا قطرہ نہ ہوتا تو آخری قطرہ نہ چھلکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک تدریجی انداز میں بنایا ہے۔ جو چیزیں وحی سے آئی ہیں ان میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ساری چیزوں کا پتہ ہے، لہٰذا پوری کی پوری چیز بھجوا دی، وہ الگ بات ہے۔ لیکن سائنس اور تصوف میں جو انکشاف ہیں، ان کو ایک تدریجی انداز میں اور اجتہادی انداز میں بنایا گیا ہے، جس طرح فقہ میں اجتہاد پہ گرفت نہیں (حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں کہ) اسی طرح تصوف میں بھی اجتہاد پر گرفت نہیں ہے۔ اس میں صواب (درستگی) بھی ہو سکتا ہے، خطا بھی ہو سکتی ہے، خطا پر بھی اجر ہے، لیکن ایک ہے، اور صواب پر دو اجر ہیں۔ یہ گویا مسلسل ایک عمل چل رہا ہے۔ اگر یہ بات ذہن میں ہو تو ہم اپنے اکابر کی توہین نہیں کریں گے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نقشبندی حضرات میں ایک بہت بڑا گروپ ہے۔ مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے، کیونکہ میرے ساتھ لوگوں نے ان چیزوں پہ بحثیں کی ہیں۔ وحدۃ الوجودی اور وحدۃ الشہودی کی باقاعدہ ٹیمیں بنائی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں ایسی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! خدا کے بندو! کیا کہہ رہے ہو؟ وہ بھی ہمارے بڑے ہیں، بڑے بڑے اولیاء اللہ ہیں اور دوسری طرف بھی ہمارے بڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ اکبر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) جو وحدۃ الوجود کے چیمپین ہیں، اس میدان کے بہت بڑے محقق ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ ان کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں۔ ابتدا میں تو حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کمال ہے حضرت شیخ اکبر کی باتیں تو ایسی ہیں، لیکن میں جب کشف کے طور پہ دیکھتا ہوں تو ان کو جنت کے اعلیٰ درجوں میں دیکھتا ہوں۔ ابتدا میں یہ چیزیں حضرت کے سامنے آئیں تو اس اختلاف کی وجہ سے حضرت مجدد صاحب نے ابن عربی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے خلاف بڑی سخت باتیں بھی کی ہیں۔ مثلاً فرمایا: ہمیں مدنی فتوحات نے فتوحاتِ مکیہ سے بے نیاز کر دیا ہے۔ ہمیں نص چاہئے، ہمیں فص نہیں چاہئے۔ یہ ساری باتیں موجود ہیں۔ لیکن بعد میں جب چیزیں کھلتی گئیں تو پھر حضرت نے ابن عربی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے بارے میں زبان بہت محتاط کر دی۔ کیونکہ مقصد حاصل ہو گیا۔ لوگوں کو وہاں سے اس طرف لانا تھا، اس میں کچھ زور تو لگانا پڑتا ہے اور سختی کرنی پڑتی ہے۔
جیسے جب آپ کوئی چیز مرمت کے لئے کھولتے ہیں، اور جب مکینک اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ہتھوڑا مارتا ہے تو آپ کے دل کو دھچکا لگتا ہے کہ یہ چیز ٹوٹ نہ جائے، حالانکہ وہ جو اس پہ کام کر رہا ہے وہ تجربہ کار ہوتا ہے، اس کے باوجود آپ کا دل دہل رہا ہوتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
ہمارا ایک پروجیکٹ تھا، اس میں ہم نے ایک سوئچ بنایا تھا۔ وہ سوئچ صحیح دب نہیں رہا تھا، لکڑی کا بنا ہوا تھا، اس کو کھولنا تھا پھر دوبارہ اس کو فٹ کرنا تھا، ٹائم بھی ہمارے پاس بہت تھوڑا تھا۔ اگر وہ ٹوٹ جاتا تو پھر اس کا دوبارہ بننا کافی مشکل ہوتا۔ خطرہ تھا کہ اگر اس کے اوپر چوٹ صحیح نہیں لگی اور ٹوٹ گیا تو یہ بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔ ہم تین ساتھی تھے، دو ساتھی تو اس کو کھولنے پہ لگ گئے اور ایک ساتھی بے چینی سے بر آمدے میں پھر رہا تھا۔ ہم اسے مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ ایسے پھر رہا ہے، جیسے کسی کے گھر والوں کی ڈلیوری ہو تو وہ باہر پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی حالت تھی، اور ہمارا خود بھی یہ حال تھا، لیکن ہم نے سوچا کرنا تو ہے، اب بس اللہ کا نام لے کر وار کیا اور الحمد للہ ٹھیک ہو گیا۔ چنانچہ کسی چیز کو ٹھیک کرنے کے لئے چوٹ تو لگانی پڑتی ہے، لیکن کیا وہ چوٹ لگانا ہی اصل مقصد ہوتا ہے؟ وہ ایک ذریعہ ہوتا ہے اور اس ذریعہ پہ ہم صرف اتنا ہی اکتفا کرتے ہیں، جتنا اس سے مقصد حاصل ہو جائے۔ آگے وہ عبارات بھی ذکر کریں گے، جن میں حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے حضرت ابن عربی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے بارے میں فرمایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ الفاظ بھی دیکھیں جو حضرت نے آخر میں فرمائے ہیں۔ فرمایا کہ:
’’اس سے پہلے بھی میں جانتا تو تھا لیکن اب ایک قسم کا دوسرا یقین حاصل ہو گیا ہے۔ اور یہ فقیر (حضرت مجدد قدس سرہ) بھی کچھ مدت تک حضرت خواجہ قدس سرہ کی خدمت میں اسی توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتا تھا اور اس طریقہ کی تائید میں بہت سے کشفی حالات و واردات ظاہر ہوئے تھے، لیکن حق تعالیٰ جل شانہ کی عنایت نے اس مقام سے ترقی دے کر اس مقام کے ساتھ جس کو کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا مشرف فرمایا ہے‘‘۔
ابن عربی مقبولین میں سے ہیں، لیکن ان کے جو علوم اہلِ حق کے خلاف ہیں، وہ غلط اور مضر ہیں:
دفتر اول کے مکتوب نمبر 266 میں فرماتے ہیں:
متن:
عجب معاملہ ہے کہ شیخ محی الدین (اللہ تعالیٰ کے) مقبولین میں سے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اکثر علوم جو اہل حق کی آراء کے مخالف ہیں خطا اور نادرست ظاہر ہوتے ہیں. شاید ان کو خطائے کشفی کے باعث معذور رکھا گیا ہے اور خطائے اجتہادی کی طرح ان سے ملامت دور کر دی گئی ہے ـــ شیخ محی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد یہی ہے کہ ان کو مقبولین میں سے جانتا ہے اور ان کے ان علوم کو (جو اہل حق کے) مخالف ہیں خطا اور ضرر رساں دیکھتا ہے۔
تشریح:
میں آج اگر کہہ دوں کہ جو زمین کو چپٹی کہتا تھا اور سورج کو زمین کے گرد حرکت کرتا ہوا سمجھتا تھا، میں ان کو خطا پر سمجھتا ہوں، لیکن میں ان کو بڑا سائنس دان مانتا ہوں تو بات ٹھیک ہو گی۔ کیونکہ وہ اس وقت کے بڑے سائنس دان تھے، لیکن بہرحال ان کی خطا تو ہے، آج میں ان کی بات کو نہیں مانتا، اگر مانوں گا تو تمام باتیں غلط ہو جائیں گی۔ اسی طرح یہاں بھی یہی بات ہے۔
متن:
اس گروہ (صوفیہ) کے بعض لوگ ایسے ہیں کہ شیخ (موصوف) کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور ان کے علومِ مخالفہ کو بھی غلط اور نادرست سمجھتے ہیں۔ اور اس گروہ کے بعض لوگ شیخ (موصوف) کی تقلید اختیار کر کے ان کے تمام علوم کو درست جانتے ہیں اور دلائل و شواہد سے ان علوم کی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ہر دو فریق نے افراط و تفریط کا راستہ اختیار کیا ہے اور میانہ روی سے دور ہو گئے ہیں، شیخ (موصوف) کو جو کہ اولیائے مقبولین میں سے ہیں. خطائے کشفی کے باعث کس طرح رد کر دیا جائے اور ان کے علوم کو جو کہ صحبت و صواب سے دور ہیں اور اہل حق کی رائے کے مخالف ہیں تقلید کی وجہ سے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے: فَالحَقُّ ھُوَ التَّوَسُّطُ الَّذِی وَفَّقَنِی اللّٰہُ سُبحَانَہ بِمَنِّہ وَکَرَمِہِ (پس حق اسی میانہ روی میں ہے جس کی توفیق اللہ سبحانہ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بخشی ہے)۔
ہاں مسئلہ "وحدت الوجود" میں اس گروہ (صوفیہ) کی ایک بڑی جماعت شیخ کے ساتھ شریک ہے اگرچہ شیخ (موصوف) اس مسئلہ میں بھی ایک خاص طرز رکھتے ہیں لیکن اصل بات میں وہ سب لوگ (شیخ کے ساتھ) شریک ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اگرچہ ظاہر میں اہل حق کے عقائد کے مخالف ہے، لیکن توجہ کے قابل اور تطبیق دینے کے لائق ہے ـــ اس فقیر نے اللہ سبحانہ کی عنایت سے ہمارے حضرت (خواجہ باقی باللہؒ) کی "شرح رباعیات" کی شرح میں اس مسئلہ کو اہل حق کے عقائد کے ساتھ تطبیق دی ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف پھیرا ہے (یعنی نزاع لفظی ثابت کیا ہے) اور طرفین کے شکوک و شبہات کو اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی: کَمَا لَا یَخْفیٰ عَلی النَّاظِرِ فِیہِ (جیسا کہ اس کے دیکھنے والے پر پوشیدہ نہیں ہے)۔
مسئلۂ توحید کی اکثر تحقیقات میں شیخ محی الدین ابن عربی حق پر ہیں:
دفتر سوم کے مکتوب نمبر 89 (جو آخری مکتوبات میں سے ہے) میں فرماتے ہیں:
متن:
ہم مانتے ہیں کہ یہ مسئلہ توحید متقدمین صوفیہ میں اچھی طرح صاف اور واضح نہیں ہوا تھا ان میں سے جو کوئی مغلوب الحال ہو جاتا تھا اس سے اس قسم کے ’’اتحاد نما‘‘ توحیدی کلمات سرزد ہو جاتے تھے اور غلبہ سکر کے باعث وہ اس سر کو نہ پا سکتا تھا اور ان عبارتوں کے ظاہر کو حلول و اتحاد کی آمیزش سے پھیر نہ سکتا تھا اور جب شیخ بزرگوار محی الدین بن العربی قدس سرہٗ تک نوبت پہنچی تو انہوں نے کمال معرفت سے اس دقیق مسئلہ کی تشریح فرمائی اور اس کو ابواب و فصول کے ساتھ ترتیب دے کر صرف و نحو کی طرف مدون فرمایا، اس کے باوجود اس طائفہ کے بعض لوگوں نے شیخ موصوف کی مراد کو نہ سمجھنے کے باعث ان کو غلطی پر کہا اور ان پر طعن وملامت کی۔ اس مسئلہ کی اکثر تحقیقات میں شیخ حق پر ہیں۔
تشریح:
آسان راستہ ان کو مجتہد ماننے میں ہی ہے۔ اس لائن کے جتنے بھی بزرگ ہیں سب کو مجتہد مان لیا جائے تو سلامتی کا راستہ یہی ہے۔ حضرت نے بھی یہی اختیار کیا ہے۔ اصل بات یہی ہے۔ شاہ اسمعیل شہید (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی کتاب ’’عبقات‘‘ بہت اونچی کتاب ہے۔ یہاں اس کا درس ہوتا تھا۔ وہ درس ہمارے بعض نقشبندی حضرات نے سنا تو مجھے پیغام بھیجا کہ آپ یہ کتاب پڑھا رہے ہیں، لیکن اس میں تو یہ غلطیاں ہیں اور یہ تو وحدۃ الوجودی نظریہ رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا: میں اور آپ تو چھوٹے لوگ ہیں، ہماری حیثیت کیا ہے کہ ہم درمیان میں بات کریں۔ اگر شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے تطبیق کے راستہ کو اختیار کیا ہے، تو ہم نے کون سا غلط کام کیا ہے، تطبیق کا راستہ ہی اختیار کیا ہے اور اس کی اس طرح شرح کی ہے کہ لوگ غلطی سے بچ جائیں اور بزرگوں کو غلط نہ کہیں۔ تو شاہ اسمعیل شہید (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے شارح ہیں، وہ خود تو اپنی رائے نہیں رکھتے وہ تو شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے علوم کے شارح ہیں، انہوں نے اس چیز کو منطقی لحاظ سے زیادہ بہتر طور پہ سمجھا ہے۔ پھر ان حضرات نے کچھ مزید بات کی تو میں نے ان کو حضرت ہی کے مکتوبات شریفہ کے ذریعے بات سمجھائی اور عرض کیا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم لوگ اپنے اکابر کے بارے میں محتاط رہیں۔ اور ایک بات کو پکڑ کر سب کو غلط نہ کہہ دیں۔ یہ تقریباً خوارج کا طرز بن جاتا ہے کہ صرف ایک چیز کو لے لیا اور پھر ہاتھ میں ہتھوڑا رکھ لیا اور ہر چیز کو توڑنے لگے۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے، صحیح طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ پوری چیز کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے اور افراط و تفریط سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔
متن:
اور ان پر طعن کرنے والے لوگ حق بات سے دور ہیں۔ شیخ کی بزرگی اور ان کے علم کی زیادتی اس مسئلہ کی تحقیق سے (جو شیخ نے کی ہے) معلوم کرنی چاہیے اور ان پر رد و طعن نہیں کرنا چاہئے۔ اس مسئلہ پر جس قدر غور و بحث کی جاتی ہے متاخرین کے مختلف فکروں کے ملنے سے اسی قدر زیادہ واضح اور صاف ہوتا جاتا ہے اور حلول و اتحاد کے شبہات سے دورتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
تشریح:
وقت کے ساتھ ساتھ صفائی تو آئے گی، لیکن ان کی باتوں کا اس طرح رد نہ کیا جائے کہ ان کی شان میں کوئی گستاخی ہو جائے۔ ہاں صفائی کرتے رہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں صفائی آتی رہے۔ محققین کا طرز یہی ہوتا ہے کہ چیز کو بہتر سے بہتر کرتے جاؤ، اور کسی کی گستاخی نہ کرو۔
ایک اور بات آسانی کے لئے عرض کروں کہ مثلاً جس نے کبھی کوئی کتاب نہیں چھاپی وہ آپ کی کتاب پر بہت اعتراض کرے گا کہ اس میں یہ یہ غلطی ہے۔ ان سے کہہ دو چلو ایک کتاب چھاپ لو پھر بتاؤ کہ غلطی کیا ہوتی ہے۔ یہ عملی چیز ہے، جب انسان کو خود پتا چل جاتا ہے کہ میری اتنی ساری محنت کے باوجود پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے، تب اسے سمجھ آتا ہے۔ ہماری کتاب ہے ”تصوف کا خلاصہ“۔ ایک دفعہ ہم نے پروف ریڈنگ پہ بہت محنت کی کہ کوئی غلطی نہ رہ جائے۔ ہم مطمئن ہو گئے کہ اب اس میں کوئی غلطی نہیں ہو گی۔ جب کتاب چھپ گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے سرِ ورق پر آیتِ کریمہ میں غلطی ہے، ”ذ“ کو ”ز“ لکھا گیا تھا۔ اب بتاؤ کیا کریں! ان کو پھر ہاتھ سے ٹھیک کرتے رہے۔ اس میں آدمی کیا کر سکتا ہے۔ انسان انسان ہی ہوتا ہے۔ اس میں مسائل ہو ہی جاتے ہیں۔ مولانا عبد القیوم حقانی صاحب چونکہ بہت کتابیں چھاپتے ہیں تو ان کو میں نے اپنی کتاب کا بتایا کہ اس میں غلطی رہ گئی۔ انہوں نے کہا: اس کام میں ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، کوئی بات نہیں، یہ بعد میں ٹھیک ہو جائیں گی ان شاء اللہ۔
تو یہ طریقہ کار ہے کہ جو لوگ کام کرتے ہیں، وہ کام کی قدر کرتے ہیں اور جو لوگ کام نہیں کرتے، وہ کام والوں پہ تنقید کرتے رہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے کام نہیں کیا ہوتا، ان کو کام کا پتا نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت رحمۃ اللہ علیہ آخری عمر میں یہ باتیں فرما رہے ہیں۔ آخر کچھ کام کیا ہے تو ساری چیزوں کا اندازہ بھی ہو گیا۔ پہلے حضرت نے لوگوں کو شطحیات اور اس قسم کی باتوں سے نکالنا تھا تو حضرت نے باقاعدہ انداز میں کام کر کے لوگوں کو ان چیزوں سے نکالا۔ اس وقت اس بات کی ضرورت تھی، جب انہوں نے وہ کام کیا تو مقبولین میں سے ہو گئے۔ البتہ آگے جا کر مزید ترقی کی ضرورت تھی تو اللہ پاک نے اور لوگوں کو پیدا کر دیا۔ جیسے خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی وحدۃ الشہود کو اپنی زندگی کے آخری وقت میں لیا ہے۔ اگر اس وقت سے پہلے فوت ہو جاتے تو پھر ہم انہیں کیا سمجھتے؟ پھر بھی مقبولین میں ہی سمجھتے۔ اور حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو اللہ پاک نے اس کے لئے چن لیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت سے اس سلسلہ میں بڑا کام لیا اور حضرت نے اپنی تحقیقات سے بہت ساری چیزوں کو صاف کر دیا۔ ہم لوگ جو اتنی آسانی کے ساتھ یہ باتیں کر رہے ہیں، یہ حضرت ہی کی برکت ہے۔ الحمد للہ!
فنا و بقاء کمالات ولایت کے توحیدِ شہودی درکار ہے:
دفتر اول مکتوب نمبر 272 میں فرماتے ہیں:
متن:
سب سے پہلے جس شخص نے توحیدِ وجودی کی تصریح کی ہے وہ شیخ محی الدین ابن العربیؒ ہیں، اس سے پہلے کے مشائخ کی عبارتیں اگرچہ توحید و اتحاد کی خبر دیتی ہیں لیکن توحیدِ شہودی پر حمل کرنے کے قابل ہیں کیونکہ جب وہ حق جل شانہٗ کے غیر کو نہیں دیکھتے تو بعض کہتے ہیں لَیْسَ فِی حِبَّتِی سِوَی اللّٰہِ (میرے جبہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کچھ نہیں)۔ اور بعض سبحانی (میں پاک ہوں) پکار اٹھتے ہیں اور بعض لیس فی الدار غیرہ یار (گھر میں اس کے سوا کوئی رہنے والا نہیں ہے) کی آواز لگاتے ہیں۔
یہ سب پھول ایک ہی "یک بینی" کی شاخ سے کھلے ہیں، ان عبارتوں میں سے کوئی عبارت بھی وحدت وجود پر دلالت نہیں کرتی، اور جس شخص نے مسئلہ وحدت الوجود کو ابواب و فصول میں لکھا ہے اور صرف و نحو کی مانند اس کو تالیف کیا ہے وہ شیخ محی الدینؒ ہی ہیں، اور اس مسئلہ کے بعض دقیق معارف کو اپنی طرف منسوب کیا ہے حتیٰ کہ انہوں نے کہا کہ "خاتم النبوت" بعض علوم و معارف کو "خاتم الولایت" سے اخذ کرتا ہے۔ اور "خاتمِ ولایت محمدی" اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ ان کے شارحین نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ اگر بادشاہ اپنے خزانچی سے کوئی چیز لے لے تو کیا نقصان ہے۔
غرض فنا و بقا اور ولایت صغریٰ و کبریٰ کے کمالات حاصل کرنے کے لئے توحیدِ وجودی بالکل درکار نہیں ہے توحید شہودی حاصل ہونی چاہئے تاکہ فنا متحقق ہو جائے اور ماسوٰی اللہ کا نسیان بھی حاصل ہو جائے ہو سکتا ہے کہ کسی سالک کو ابتدا سے انتہا تک سیر میسر ہو جائے اور توحیدِ وجودی کے علوم و معارف میں سے کچھ بھی اس پر ظاہر نہ ہو۔ بلکہ قریب ہے کہ ان کا علوم کا انکار کردے۔ فقیر کے نزدیک وہ راستہ جو ان معارف کے ظہور کے بغیر سلوک کے ساتھ میسر ہو جائے وہ اس راستے سے زیادہ قریب ہے جو اس ظہور پر مشتمل ہے۔
تشریح:
الحمد للہ! یہ مکتوب شریف جب میں نے پڑھا تو یہ وہ بات تھی جس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل توحیدِ افعالی ہے، جس کو ہم توحیدِ افعالی کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے ہر چیز ہوتی ہوئی نظر آئے اور ہر چیز میں آپ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ توحیدِ وجودی اور توحیدِ شہودی کیا ہیں؟ توحیدِ وجودی حال کے درجے میں تو ٹھیک ہے، لیکن اگر اس کو آپ فلسفہ بنائیں تو یہ ٹھیک نہیں، کیونکہ فلسفہ الحاد کی طرف جائے گا کہ آپ کہیں کہ اللہ اور مخلوق ایک ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مخلوق کو مخلوق مان لو، لیکن اس طرح کہ وہ مخلوق آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل نہ ہو۔ سب سے بڑی مخلوق نفس ہے، جو حائل ہوتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا ’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَال‘‘ ’’اپنے نفس کو چھوڑ دے، میرے پاس آ جا‘‘۔ تو سب سے بڑی مخلوق تو یہی ہے، جو حائل ہونے والا ہے، جب تک یہ آپ کے راستے سے ہٹے گا نہیں، تب تک آپ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ہٹنا دو قسم کا ہے، ایک تو یہ کہ ختم ہو جائے اور بالکل رہے نہیں، یہ وحدۃ الوجود ہے، یہ تو ہو نہیں سکتا، دوسرا یہ کہ ہو گا تو سہی، لیکن آپ کے علم میں نہ رہے، آپ کے احساس میں نہ رہے، آپ کو نظر نہ آئے، محسوس نہ ہو، جیسے دن کے وقت ستارے موجود ہوتے ہیں، لیکن آپ کو نظر نہیں آتے، ایک آدمی جانتا نہیں، سائنس دان نہیں ہے اس کو تو پتا نہیں ہو گا کہ دن کو بھی تارے ہوتے ہیں، لیکن جو جانتا ہے کہ تارے غائب نہیں ہوتے، بلکہ روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ مثال کے طور پر جس وقت سورج گرہن لگ جاتا ہے، تب کچھ تارے تارے نظر آنے لگتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تارے موجود تو ہوتے ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔ اب یہ نظر نہ آنا آپ کے علم میں تو ہے، لیکن آپ اس کو محسوس نہیں کر رہے، جب آپ محسوس نہیں کرتے تو آپ کو وہ فائدہ تو حاصل ہو گیا۔ یعنی رکاوٹ نہ بننے والا فائدہ تو حاصل ہو گیا۔ اسی طرح آپ کو باقی چیزیں ہوتے ہوئے بھی محسوس نہ ہوں تو آپ کو وحدت تو حاصل ہو گئی، لیکن یہ وحدۃ الشہود ہے، وحدۃ الوجود نہیں ہے۔ شہود کا مطلب ہے نظر آنا، تو نظر نہیں آ رہا، لیکن ہے تو سہی، علم تو ہے، اس کا آپ کو پتا تو ہے۔ لہٰذا ﴿وَمَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا﴾ کی مخالفت بھی نہیں ہوئی، لیکن آپ اس سے اثر بھی نہیں لے رہے۔ بہرحال حضرت نے فرمایا کہ فنا اور بقا وحدۃ الشہود کے اعتبار سے ہو سکتا ہے وحدۃ الوجود کے اعتبار سے نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا انسان ان چیزوں کو موثر حقیقی نہ سمجھے، ان کو اسباب سمجھے، مسبب الاسباب کی منشا کے مطابق سمجھے کہ اسباب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کو چھپایا ہوا ہے اور آپ کو جب اسباب سے ہوتا ہوا نظر بھی آئے تو بھی اسباب پہ نظر نہ جائے اللہ پہ نظر جائے۔ یہ ہے وحدت الشہود۔ اس بات کی سمجھ، یہی چیز الحمد للہ! اپنے اکابر کے ذریعہ سے اللہ پاک نے ہمارے دل میں پیدا فرمائی تھی۔ لیکن ہم ان چیزوں سے گذرے نہیں تھے۔ حضرت نے یہ فرمایا تو اس سے بڑی تسلی ہوئی۔
متن:
فقیر کے نزدیک وہ راستہ جو ان معارف کے ظہور کے بغیر سلوک کے ساتھ میسر ہو جائے وہ اس راستے سے زیادہ قریب ہے جو اس ظہور پر مشتمل ہے۔
تشریح:
یعنی اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے، وحدۃ الوجود سے گذرے بغیر بھی آپ وحدۃ الشہود تک جا سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے، جس کو بھی اللہ تعالیٰ دے دے۔
وحدت الشہود پر ہمارا ایک کلام ہے۔ جس کا عنوان ہے ”ھُو“
دل میں میرے آئے ”ھُو“ نین میں میرے سمائے ”ھُو“
آنکھ جس جانب دیکھے میری ہر طرف وہ پائے ”ھُو“
دل میرا اب اس کے پاس دل میرا اب اس کے پاس
مجھ پہ رحمت اس کی کہ اب خود ہی اسے چلائے ”ھُو“
روح تو اب ”ھُو“ ہی ہے اب تو ”ھُو“ سے اس کو جھکاؤں
”ھُو اَللہ“ اور ”اَللہ ھُو“ کا ذکر مجھ سے کرائے ”ھُو“
اس کا دشمن میرا دشمن توڑنا اس سے چاہے جب
جال بچھائے میرے واسطے اس سے نکلوائے ”ھُو“
نفس اور شیطاں اپنے اپنے جالوں میں پھنسائے ہیں
گتھیاں سلجھانے میں مشکل ہو مجھے سمجھائے ”ھُو“
تشریح:
یہ حدیثِ نفس اور وسوسہ شیطانی کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں مجھے اللہ تعالیٰ سے ہٹانا چاہتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں اور مجھے اس سے نکال لیتے ہیں۔
کوئی چاہے جب میں بولوں بولنا مجھ کو آئے نہ
میں چپکے کیا بولوں لیکن بات خود ہی بلوائے ”ھُو“
تشریح:
میں ایک ساتھی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ کچھ کلام کہیں۔ میں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ شعر وارد ہو گیا۔ اس وقت مجھے وہ شعر تو یاد نہیں ہے، لیکن اس کا مفہوم یہ تھا کہ یہاں فرمائش نہیں چلتی، جو اتارا جاتا ہے وہی ہوتا ہے۔ تو میں نے اس کو وہ شعر سنا دیا۔ میں نے کہا اس میں میں تو کچھ نہیں کر سکتا۔ کوئی اپنی بات ہو تو پھر انسان کہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
آگے پیچھے جانوں نہیں ماضی حال و مستقبل
میری نظر محدود میں اللہ سب کچھ خود دکھائے ”ھُو“
کان پڑی سنائی نہ دے اس شورِ دنیا میں جب
کان میرے سنتے ہیں کچھ تو اپنی بات سنوائے ”ھُو“
نامِ محمد جن کا ان کی امت میں پیدا کیا
ایسے من کے پیارے پہ شبیرؔ دل بولے ہائے ”ھُو“
تشریح:
الله جل شانهٗ سب کچھ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ سب کچھ کرنا سامنے ہو جائے، آپ کی کسی اور چیز پہ نظر ہی نہ پڑے کہ اور بھی کوئی کر سکتا ہے۔ ہاں البتہ آپ اسباب کو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق استعمال کرتے ہوں، لیکن آپ کی اسباب پر نظر نہ ہو، نظر اللہ پر ہو۔ یہی بنیادی بات ہے اور یہی شریعت کا عین مطلوب ہے۔ لیکن یہ درجۂ حال میں آپ کو کیسے حاصل ہو گا؟ کیونکہ یہ ایک عملی چیز ہے، نظری چیز نہیں ہے، اس لئے یہ درجۂ حال میں آپ کو کیسے حاصل ہو کہ آپ کو بالکل یہ محسوس ہونے لگے کہ واقعی ہر سبب کا مسبِّب اللہ تعالی ہے۔ یہ وحدت الشہود سے ہو گا۔ وحدت الشہود جب آپ کے سامنے ہو گا تو پھر آپ پہ یہ ساری چیزیں واضح ہوں گی، اس کے لئے آپ کو دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کبھی کبھی یہ بات فرماتے ہیں کہ استدلالی اور نظری کے تنگ کوچے سے نکل کے کشفی اور وجدانی کی شاہراہ پہ آ جائے۔ آپ کو علماً تو پتہ ہے لیکن جس وقت یہ آپ کا حال بن جائے اس وقت مطلوب حاصل ہو گا۔ تو اسی وجہ سے حضرت مولانا روم (رحمۃ اللّٰہ علیہ) صاحب نے فرمایا؎
قال را بگذار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملے پامال شو
تشریح:
یعنی استدلال والی باتیں اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، لیکن فی الحال ان کو ایک طرف کر دو، درجۂ حال میں اس کو لے آؤ اور اس کے لئے آپ کو کسی مردِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کرنا پڑے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ:
متن:
اور نیز اس راہ (توحیدِ شہودی) کے سالکوں میں سے اکثر مطلوب تک پہنچتے ہیں اور اُس راہ (توحیدِ وجودی) کے چلنے والے اکثر راستہ ہی میں رہ جاتے ہیں اور دریا کے ایک قطرہ کےساتھ سیراب ہو جاتے ہیں اور ظل واصل کے باہمی اتحاد کے وہم میں پڑ کر ظل میں گرفتار رہتے ہیں اور اصل سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس فقیر نے تجربات ہی سے معلوم کیا ہے۔ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (اور اللہ سبحانہ صحیح بات دل میں ڈالنے والا ہے)۔
اور نیز اس فقیر کو اگرچہ راہِ ثانی (یعنی توحیدِ وجودی کی راہ) سے سیر و سلوک میسر ہوا ہے اور توحیدِ وجودی کے علوم و معارف کے ظہورات سے کافی حصہ حاصل ہوا ہے، لیکن چونکہ خداوند جل سلطانہ کی عنایت اس فقیر کے شاملِ حال تھی اور فقیر کی سیر محبوبی تھی۔
تشریح:
یہ پھر وہی بات فرمائی کہ فقیر کی سیر< محبوبی تھی، یعنی مرادی تھی۔ اس کو ہم لوگ اپنے لئے نہ سمجھیں، یہ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت کے لئے نظام رکھا ہوا تھا۔
متن:
اس لئے راستے کے جنگلوں اور صحراؤں کو فضل و عنایت کی امداد سے طے کرا دیا اور کمال مہربانی کے ساتھ ظلال سے گزار کر اصل تک پہنچا دیا اور اور جب معاملہ مریدوں تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ دوسرا راستہ (یعنی توحیدِ شہودی کی راہ) وصول سے زیادہ قریب اور حصول کے لئے زیادہ آسان ہے۔
تشریح:
یوں سمجھ لیجئے کہ ایک بات انسان کو بتا دی جاتی ہے اور ایک یہ ہوتا ہے کہ انسان کو عملی طور پر اس سے گذارا جاتا ہے، جس سے اس چیز کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ تو حضرت کو اس کی معرفت حاصل ہو گئی۔ مثال کے طور پر دو راستوں میں سے دوسرا راستہ آسان ہو، اور ایک شخص جس کو کسی راستے سے گذارا نہیں گیا، وہ کہہ دے کہ آسان ہے، اس کا کہنا اور ہے اور دوسرا باقاعدہ دونوں راستوں سے گیا ہے، پہلے اس راستے سے گیا ہے، پھر دوسرے راستے سے گیا ہے، اس کو حقیقی طور پہ پتا ہو گا کہ یہ راستہ آسان ہے۔ اب جو آدمی پہلے راستے پہ نہیں گیا، اگر وہ دوسرے راستے پر جائے تو اس کے لئے بھی آسان یہی ہے، لیکن وہ اس معرفت کے ساتھ یہ بات نہیں کر سکتا، جس معرفت کے ساتھ پہلا کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا مشاہدہ ہے۔ اسی طرح حضرت کو الله جل شانهٗ نے اس طریق سے گذارا ہے اور پھر اس کے بعد اس کی سمجھ عطا فرمائی ہے اور حضرت کا سلوک سارے کا سارا مرادی تھا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ حضرت خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو حضرت کے لئے پہنچا دیا گیا تھا۔ حضرت کا تو سارے کا سارا سلوک مرادی طور پہ طے ہوا ہے۔ اس لئے اب حضرت جو باتیں اپنے بارے میں کر رہے ہیں کم از کم ان کے بارے میں یہ نہ سمجھیں کہ ہر ایک کے لئے ایسا ہی ہو گا۔ ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہے۔ البتہ یہ جو حضرت نے اپنے بارے میں فرمایا، اس پہ ہم کہتے ہیں کہ ہاں حضرت کے ساتھ ایسا ہوا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام بنایا تھا۔ اگر ہم یہ بات سمجھیں تو حضرت کی بہت ساری باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ اور ہوا یہ ہے کہ ہندوستان میں طریقۂ نقشبندیہ نیا تھا جب کہ دوسرے سلاسل پہلے سے موجود تھے ان کے اچھے خاصے بزرگ بھی موجود تھے اور اچھی خاصی تشریحات بھی موجود تھیں، لیکن یہ طریقہ چونکہ نیا تھا اور نئے انداز سے اس کو متعارف کرایا گیا تھا، لہٰذا اس پہ حضرت کو کام بھی بہت زیادہ کرنا پڑا اور اس کے لئے فضائل بھی بہت زیادہ بیان کرنے پڑے، لیکن ان فضائل کو بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے سلاسل کی تنقیص فرما رہے ہیں، دوسرے سلاسل کی تنقیص نہیں تھی، وہ صرف اس چیز کو متعارف کرانے کا ایک نظام تھا جو ان حضرات نے اختیار کیا۔ بعد میں حضرت نے اپنے آخری مکتوبات شریفہ میں ساری باتیں واضح کی ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو آخری بات کرنی چاہئے۔ الله جل شانهٗ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
و اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ