ولایت عشرہ اور ولایت سہ گانہ کی تشریح

درس 35: مکتوب 287

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

گذشتہ درس میں ”ولایتِ صغریٰ، ولایتِ کبریٰ، اس ضمن میں جو علمی سیر حاصل ہوتی ہے، اس علمی سیر سے مقصود کیا ہے اور اس سے حاصل کیا ہوتا ہے“ اس بارے میں بات ہوئی تھی۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ الّٰلہ علیہ) آگے فرماتے ہیں:

متن:

جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ’’ یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے، اور اسمِ باطن کی سیر ابھی باقی ہے جو کہ عالمِ قدس کی طرف پرواز کرنے کے لئے دوسرا بازو ہے، اور جب تو اس کو بھی مفصل طور پر انجام دیدے گا تو اس وقت تجھے پرواز کے لئے دوبازو عطا ہوں گے‘‘۔ اور جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے اسمِ باطن کی سیر بھی انجام پاچکی تو دو بازو میسر ہو گئے۔ "اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌" (الاعراف: 43) (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت بخشی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ بخشتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے ہیں)۔

اے فرزند! اسمِ باطن کی سیر کی نسبت کیا لکھا جائے۔ اس سیر کا حال استتار وتبطن (درپردہ رہنے) ہی کے مناسب ہے۔ البتہ اس مقام کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ اسمِ ظاہر کی سیر صفات میں ہے بغیر اس بات کے کہ اس کے ضمن میں ذات تعالیٰ و تقدس ملحوظ ہو، اور اسمِ باطن کی سیر بھی اگرچہ اسماء میں سے ہے لیکن اس ضمن میں ذات تعالیٰ ملحوظ ہے اور یہ اسماء ڈھالوں (سپر) کے مانند ہیں، جو حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حجابات ہیں۔۔۔ مثلاً صفتِ علم میں ذات تعالیٰ ہرگز ملحوظ نہیں ہے لیکن اُس کے ’’ اسمِ علیم‘‘میں ذات تعالیٰ صفت کے پردہ میں ملحوظ ہے، کیونکہ علیم ایک ذات ہے جس کی صفت ’’علم‘‘ ہے پس’’علم ‘‘ کی سیر’’اسمِ ظاہر‘‘ کی سیر ہے اور ’’علیم‘‘ کی سیر ’’اسِم باطن‘‘ کی سیر ہے۔ باقی تمام صفات و اسماء کا حال بھی اسی پر قیاس کریں۔۔۔

تشریح:

اصل میں مختلف تجلیات کے ذریعہ سے انسان کی تربیت ہوتی ہے۔ تجلیات دو قسم کی ہیں: (1) تجلیاتِ صفاتیہ۔ (2) تجلیاتِ ذاتیہ۔

ذات صفات سے پہچانی جاتی ہے۔ ہر باطن کا ایک ظاہر ہوتا ہے۔ ذات باطن ہے اور صفات ظاہر، لہٰذا تجلیاتِ صفاتیہ کی سیر اسم ظاہر کے ذریعہ طے کی جاتی ہے۔ صفات کی سیر پہلے کرا دی جاتی ہے، اس کے بعد ان صفات سے ذات کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ پھر اسمِ باطن کے ذریعے ذات کی سیر کرائی جاتی ہے۔ گویا پہلے صفات کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے، پھر تجلیٔ ذات کی طرف جایا جاتا ہے۔ اس میں گویا کہ اسماء حجابات بن جاتے ہیں اور حجابات جتنے جتنے دور ہوتے جاتے ہیں اور جتنا انسان صفات سے ذات کی طرف منتقل ہوتا جاتا ہے، اتنے مشاہدات ہوتے ہیں۔

حضرت نے اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دی ہے۔ ”علم“ ایک صفت ہے اور ”علیم“ وہ ذات ہے جس کے پاس علم کی صفت ہے۔ یعنی ”علم“ صفت ہے اور ”علیم“ ذات ہے۔ اسی طرح ہر صفت کا ذات کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ ہر صفت سے اسی ذات کی طرف جایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسمِ ”رحیم“ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ”رحم“ صفت ہے اور ”رحیم“ وہ ذات ہے جس کی یہ صفت ہے۔ اسی طرح ”کرم“ صفت ہے اور ”کریم“ ذات ہے، ”رزاقیت“ صفت ہے اور ”رازق“ ذات ہے۔ ان تمام صفات سے اس ذات کی طرف دھیان جاتا ہے۔ اسی کو فرمایا کہ یہ سیر باطن میں کرائی جاتی ہے۔

متن:

یہ اسماء جو اسمِ باطن سے تعلق رکھتے ہیں ملائکہ ملاء اعلیٰ علیٰ نبینا و علیہم الصلواة والتحیات کے تعینات کے مبادی ہیں.

تشریح:

یعنی اِن اسماء کے ظلال باقی مخلوقات کے مبادیِ تعینات تھے اور یہ اسماء جو باطن سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ملائکہ، ملاء اعلیٰ اور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کے مبادی تعینات ہیں۔

متن:

اور ان اسماء میں سیر کا آغاز کرنا ولایتِ علیا میں قدم رکھنا ہے جو کہ ملاء اعلیٰ کی ولایت ہے.

تشریح:

یعنی پہلی ولایت، ولایتِ صغریٰ ہے، جس کا تعلق قلب یعنی عالمِ امر کے ساتھ ہے۔ دوسری ولایت، ولایتِ کبریٰ ہے، جس کا تعلق تزکیۂ نفس کے ساتھ ہے، اور تیسری ولایت، ولایتِ علیا ہے جس کا تعلق ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ ہے۔

متن:

اور اسمِ ظاہر و اسمِ باطن کے بیان میں جو علم اور علیم کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے، تم اس فرق کو تھوڑا نہ سمجھو اور نہ یہ کہ کہو کہ ’’علم‘‘ سے ’’علیم‘‘ تک بہت کم راستہ ہے، بلکہ وہ فرق ایسا ہے جیسا کہ مرکزِ زمین سے محدّب (سطحِ) عرش کے درمیان ہے، نیز اس فرق کی نسبت ایسی ہے جیسے قطرہ کو دریائے محیط کی نسبت کا فرق ہے، کہنے کو تو یہ نزدیک ہے لیکن حاصل ہونے پر بہت دُور ہے اور ان مقامات کا ذکر جو مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے۔۔۔مثلاً کہا گیا ہے کہ پنجگانہ (لطائف و مراتب) عالمِ امر کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے تاکہ دائرہ امکان تمام ہو جائے، اس مختصر سی عبارت میں ’’سیرالی اللہ‘‘ کا پوری طرح ذکر آگیا ہے، لیکن اس سیر کے حاصل ہونے میں پچاس ہزار سالہ راہ کی مدت کا اندازہ کیا گیا ہے۔ (تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ وَالرُّوۡحُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗ خَمۡسِيۡنَ اَلۡفَ سَنَةٍ‌ۚ) (معارج: 4) (فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے)۔اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کی عنایت کے جذب و کشش سے کوئی بعید نہیں کہ اس مدت دراز کے کام کو طرفتہ العین (آنکھ جھپکنے) میں میسر کر دے۔

باکریماں کارہا دشوار نیست

(کریموں پر نہیں ہیں کام دشوار)

اور اسی طرح سے یہ جو کہا گیا ہے کہ دائرۂ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے، تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کا طے کرنا، کہنے میں تو آسان ہے لیکن طے کرنے میں بہت مشکل ہے۔ اور مشائخ نے اس سیر کو طے کرنے کی دشواری کے متعلق فرمایا ہے کہ منازل الوصول لا تنقطع ابدالابدین (وصول کی منزلیں ابدالآباد تک کبھی ختم نہیں ہوتیں)۔۔۔ اور مشائخ نے ان مراتب کی سیر کے پورا ہونے کو ناممکن سمجھا ہے ؂

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں

بمیرد تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی

اور جب اللہ سبحانہ،کی عنایت اور اس کے حبیب علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و التسلیمات کے طفیل سے اس سیر کو بھی انجام تک پہنچایا تو مشہور ہوا کہ اگر بالفرض اس سیر میں دوسرا قدم بڑھائے تو وہ عدمِ محض میں پڑے گا کیونکہ اس سے آگے عدمِ محض کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اے فرزند! اس ماجرا سے تم اس وہم میں نہ پڑ جانا کہ عنقا شکار ہو گیا اور سیمرغ دام میں پھنس گیا ؂

عنقا شکارِکس نشودامِ بازچیں

کاینجا ہمیشہ بادبدست است دام را

(اُٹھالے جال، شکارِ عنقا محال بس یہاں جال کا ہی ہے مآل)

کیونکہ وہ سبحانہ تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے ؂

ہنوز ایوان استغنابلند است

مرا فکرے رسیدن ناپسند است

(قصرِ استغنا تو اونچا ہے ہنوز سخت مشکل واں پہنچنا ہے ہنوز)

وہ ورائیت (بلند سے بلند تر درجہ) حجابات کے وجود کے اعتبار سے نہیں ہے کیونکہ تمام حجابات اُٹھ چکے ہیں بلکہ وہ ورائیت عظمت و کبریائی کے ثبوت کے اعتبار سے ہے جو ادراک و فہم کے مانع اور وجدان کے منافی ہے، کیونکہ وہ سبحانہ وجود میں اقرب ہے اور وجدان سے دور ہے۔

تشریح:

یعنی وجود کے قریب ہے، لیکن وجدان سے دور ہے، اس کو پا نہیں سکتے۔ کسی اہل اللہ نے اس کو اچھی طرح بیان کیا ہے۔ فرمایا:

سالک وہ ہے جو اللہ کو پاوے

اور اللہ وہ ہے جو کسی کی سمجھ میں نہ آوے

یعنی انسان اس کو پانے کا ارادہ تو کرے اور اس کے لئے تمام کوششیں کرے، جس کا نصیب ہے اس کو مل جائے گا، لیکن اس کا پانا ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وراء الوراء ہے۔ کوئی بھی اس کو اس طرح نہیں پا سکتا، جیسے ہم دوسری چیزوں کو پاتے ہیں۔

متن:

ہاں بعض کامل مراد والوں کو انبیاء علیہم الصلٰو ۃ و التسلیمات کے طفیل عظمت و کبریائی کے پردوں میں جگہ دی جاتی ہے اور ان کو بارگاہ کا محرم بنا دیا جاتا ہے۔ فَعُومِلَ مَعَھُم مَا عُوملَ مَعَھُم (پس ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا سو ہوا)۔

اے فرزند! یہ معاملہ انسان کے اس ہیئتِ وحدانی سے مخصوص ہے جو کہ عالمِ خلق و عالمِ امر کے مجموعہ سے پیدا ہوئی ہے، اس طرح ہے کہ اس مقام میں بھی سب کارئیس (سردار) ’’عنصرِ خاک‘‘ ہے۔

تشریح:

یعنی عنصرِ خاک اس میں سب سے زیادہ آگے ہے۔

متن:

اور یہ جو کہا گیا ہے:ل"یس وراءٗ الا العدم المحضر" (اس کے اوپر سوائے عدم محض کے کچھ نہیں ہے) وہ اس لئے کہا ہے کہ وجودِ خارجی اور وجودِ علمی کے مراتب تمام ہونے کے بعد عدم کا حاصل ہونا ہے، جو اس (وجود) کی نقیض ہے۔

تشریح:

وجودِ علمی کا تعلق علم اور ذہن کے ساتھ ہوتا ہے اور وجود خارجی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اس طرح وجود میں ہو کہ نظر آ سکے، محسوس ہو سکے اس کو وجود خارجی کہتے ہیں۔ مثلاً: میرے سامنے ایک چیز پڑی ہے، میرے ذہن میں اس کا جو خاکہ ہے، یہ وجود علمی ہے۔ چاہے خاکہ اس چیز کے حقیقت میں بننے کے بعد ہو چاہے بننے سے پہلے ہو۔ وہ خاکہ وجود علمی ہے اور یہ جو میرے سامنے پڑی ہے یہ وجود خارجی ہے۔ اس لئے فرمایا (وجودِ خارجی اور وجودِ علمی کے مراتب تمام ہونے کے بعد عدم کا حاصل ہونا ہے جو اس (وجود) کی نقیض ہے) چونکہ وجود اور عدم آپس میں ایک دوسرے کے متناقض یعنی ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں۔ اگر عدم ہے تو وجود نہیں ہے اور اگر وجود ہے تو عدم نہیں ہے۔ جب وجود کا سلسلہ ختم ہو جائے اور دائرہ امکان کی تمام چیزیں پوری ہو جائیں تو اس کے بعد عدم محض ہے۔ پھر اس کے بعد اور کچھ نہیں ہے۔

متن:

اور اللہ سبحانہٗ کی ذات اس وجود و عدم سے وراء ہے جس طرح عدم کو وہاں راہ نہیں ہے، اسی طرح وجود کی بھی گنجائش نہیں ہے.

تشریح:

اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس کو ہم وجود سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لئے وہ وجود نہیں ہے۔ کیونکہ الله جل شانهٗ جس وجود سے موجود ہے یہ وہ وجود نہیں ہے جس کو ہم وجود سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ ہمارا وجود اللہ کے حکم سے عدم سے وجود میں آیا ہے، یہ وجود تو مخلوق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ذریعہ سے تو موجود نہیں ہے۔

یہ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کا تاریخی فقرہ ہے کہ: ’’الله جل شانهٗ موجود ہے لیکن اس وجود کے ساتھ نہیں جس کو ہم وجود کہتے ہیں‘‘۔

متن:

کیونکہ وہ وجود جس کی نقیض عدم پر مبنی ہو وہ اس بارگاہ جل سلطانہ، کی شایانِ شان نہیں ہے۔ اور اگر اس مرتبہ میں وجود کا اطلاق عبارت کی تنگی کی وجہ سے کریں (تو اس سے مراد وہ وجود ہو گا) جس کی نقیض بننے کی عدم کو مجال نہیں ہے۔۔۔

تشریح:

سبحان اللہ! یعنی الفاظ کی تنگی کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو بھی وجود کہتے ہیں، اِس کو بھی وجود کہتے ہیں، لہٰذا الفاظ کی تنگی تو آ گئی، مسئلہ تو پیدا ہو گیا۔ اس مسئلہ کو حضرت نے اس طرح حل کیا ہے کہ فرمایا: یہاں کا وجود اور وہاں کا وجود بالکل مختلف ہے۔ لیکن اگر ہم لفظِ ”وجود“ کے ذریعہ ہی دونوں قسم کے ”وجود“ میں فرق کرنا چاہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ، وہ وجود ہے جس کا عدم ہے، اور وہ، وہ وجود ہے جس کا عدم نہیں ہے۔ یعنی یہ وجود عدم سے وجود میں آیا ہے اور وہ وجود عدم سے وجود میں نہیں آیا۔

متن:

جاننا چاہئے کہ جس طرح مراتبِ عروج میں عنصرِ خاک سب سے بالا جاتا ہے اسی طرح منازلِ ہبوط میں بھی وہ عنصر (خاک) سب سے زیادہ نیچے آجاتا ہے، اور کیوں نیچے نہ آئے جبکہ اس کا مکان طبعی سب سے نیچے ہے.

تشریح:

حدیث شریف میں میں آتا ہے: ’’مَنْ تَوَاضَعَ للّٰہِ رَفَعہُ اللّٰہُ‘‘ (شعب الایمان للبیقہی، حدیث نمبر: 8140)

ترجمہ: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو گرایا، اللہ پاک نے اس کو بلند کر دیا‘‘۔

چنانچہ جس نے اپنے آپ کو جتنا گرایا اللہ نے اسے اتنا بلند کر دیا۔ لہٰذا عروج بھی عنصرِ خاک کے لئے ہے۔ کیونکہ خاک سب سے زیادہ پست ہے۔ خاک سے بنی ہوئی مخلوق جتنی پستی کو اختیار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اتنی ہی بلندی نصیب فرماتا ہے، اور جتنا کوئی بلندی پہ جاتا ہے، اتنا ہی وہ پستی پہ آتا ہے اور اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جتنا اونچے مقام پہ جاتا ہے اس کی معرفت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جس کی معرفت زیادہ ہو، وہ مقامِ عروج پہ ہے۔ پھر اس عروج کی وجہ سے وہ پستی (نزول) میں آتا ہے، اور اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے۔ جتنا کم سمجھتا ہے، اتنا ہی لوگوں کے کام کا بن جاتا ہے، لوگوں کے ساتھ میل جول میں تکبر نہیں کرتا، عجب نہیں کرتا۔ اس لحاظ سے وہ لوگوں کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے۔ باقی لوگ اپنا ایک الگ خیال رکھتے ہیں، اپنی ایک شان رکھتے ہیں، اس شان کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں ہیں، لیکن جن کو اللہ پاک نزول عطا فرما دیتے ہیں، وہ اپنی شان کی پروا نہیں کرتے، بلکہ اپنے کام کی پروا کرتے ہیں، جس ذریعہ سے زیادہ کام ہوتا ہے، اس کو زیادہ اختیار کرتے ہیں۔

متن:

جاننا چاہئے کہ جس طرح مراتبِ عروج میں عنصرِ خاک سب سے بالا جاتا ہے اسی طرح منازلِ ہبوط میں بھی وہ عنصر (خاک) سب سے زیادہ نیچے آجاتا ہے، اس لئے اس کے صاحب (بشر) کی دعوت اتم ہوتی ہے اور اس کا فائدہ بھی اکمل ہوتا ہے۔

اے فرزند! جان لے کہ چونکہ طریقۂ نقشبندیہ میں سیر کی ابتدا قلب سے ہوتی ہے جس کا تعلق عالمِ امر سے ہے اسی لئے بات کی ابتدا بھی عالمِ امر سے کی گئی، بخلاف دوسرے مشائخِ کرامؒ کے طریقوں کے جو شروع میں تزکیۂ نفس کرتے ہیں اور قالب (وجود) کی تطہیر (پاک) فرماتے ہیں، اس کے بعد عالمِ امر میں آتے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اس میں عروج کرتے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی انتہا ان بزرگواروں کی ابتدا میں مندرج ہے اور یہ طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہے.

تشریح:

اس بحث کی تحقیق مکتوب نمبر 287 میں بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ حضرت کی اس بات “دوسروں کی انتہا ان بزرگواروں کی ابتدا میں مندرج ہے“ کا مطلب کیا ہے۔ بعض لوگ اس کا بہت غلط مفہوم لیتے ہیں۔ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ دوسرے سلسلوں میں سلوک و اصلاح کی ابتدا تزکیۂ نفس سے ہوتی ہے، جبکہ نقشبندی سلسلہ میں سلوک و اصلاح کی ابتدا عالمِ امر (یعنی جذب) سے ہوتی ہے۔ اس لئے کہ نفس عمل کی جگہ ہے اور قلب محبت و نفرت اور جذبات کی جگہ ہے، لہٰذا قلب پر محنت سے محبت اور جذب حاصل ہوتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے ذکر کیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے، جذب حاصل ہوتا ہے، جذب کے حاصل ہونے سے شوق حاصل ہوتا ہے، اور شوق سے نفس کے اوپر محنت کرنے کا سلیقہ آ جاتا ہے، انسان نفس کی اصلاح کے لئے قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ در اصل نقشبندی سلسلہ میں تزکیۂ نفس کی ترتیب ذرا سی بدلی گئی ہے، اس طرح کہ گذشتہ حضرات ابتدا میں تزکیۂ نفس کراتے تھے، اس کے بعد ان کو وہبی طور پر جذب عطا ہو جاتا تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے اپنے مواعظ میں جذبِ وہبی کے حصول کا بہت عجیب انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ الفاظ جذبِ وہبی کے نہیں ہیں، البتہ مفہوم جذبِ وہبی کا ہی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جب ہم بچوں کو چلنا سکھاتے ہیں تو ان کو کہتے ہیں: آ جاؤ آ جاؤ آ جاؤ! (جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں: پاپلی پاپلی۔) بچے کو اس طرح کہتے ہیں تو وہ چلنے لگتا ہے، پھر گر جاتا ہے، پھر ہم کہتے ہیں اٹھو اٹھو شاباش اٹھو۔ وہ پھر اٹھتا ہے، چلنے لگتا ہے اور دوبارہ چلتے چلتے پھر گر جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر چلنا شروع کرتا ہے پھر گر جاتا ہے، اور رونا شروع کر دیتا ہے، والدین کو جوش آتا ہے اور وہ بچے کو اٹھا لیتے ہیں۔ فرمایا: سلوک میں تزکیۂ نفس کے لئے محنت کرنے والے کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ جو سلوک میں محنت کرتا ہے اور بار بار گرتا ہے، محنت کرتا ہے پھر نا کام ہو کے گر پڑتا ہے، پھر محنت کرتا ہے پھر نا کام ہوتا ہے، پھر محنت کرتا ہے اور نا کام ہوتا ہے، کئی بار محنت کرتا ہے، کئی بار نا کام ہوتا ہے لیکن جی نہیں چھوڑتا، آخر کار رونا شروع کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھ سے نہیں ہوتا تو ہی رحم فرما۔ اپنی کمزوری کو دیکھ کر اضطراری طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ اب یہ سلوک کے ذریعہ ہمہ تن متوجہ ہونا بھی ایک جذب ہے۔ جب اضطراری طور پر انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا ماویٰ و ملجا سمجھ لیتا ہے۔ تو آخر کار اللہ پاک اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، یہ کھینچنا چونکہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس لئے یہ وہبی جذب ہے۔ اس وہبی جذب تک پہنچنے میں بڑے عرصے اور زمانے در کار ہوتے ہیں، لیکن اللہ لاکھوں، کروڑوں سالوں کے زمانے کتنی جلدی طے کرا دے، اس کا کوئی حساب نہیں ہوتا، لہٰذا اللہ تعالیٰ اس طرح اس کو اٹھا لیتے ہیں۔ اس طریقہ سے بذریعہ سلوک جذبِ وہبی حاصل ہوتا ہے۔ جب کہ نقشبندی سلسلہ میں سلوک بذریعۂ جذب طے ہوتا ہے، اور یہ جذب اختیاری طور پہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسرے سلاسل میں سلوک پہلے طے کراتے ہیں، اس کے بعد جذب اضطراری طور پہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ فرق اچھی طرح سمجھ لیں۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے مکتوب نمبر 287 میں یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ یہ دونوں جذب (جذبِ اختیاری اور جذبِ وہبی) اگرچہ بظاہر ایک جیسے ہیں، لیکن در حقیقت ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے، کیونکہ ایک من جانب اللہ عطا کیا گیا ہے اور دوسرا اختیار سے حاصل کیا گیا ہے۔

اور یہ بھی فرمایا کہ اگر حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے فرمایا ہے تو انہوں نے شوق دلانے کے لئے فرمایا ہے ورنہ حقیقت میں یہ جذب اس جذب کے برابر نہیں ہے۔ اس کی حیثیت محض اتنی ہے کہ انسان کو چلانے کے لئے ابتدا میں جتنا جذب چاہئے وہ حاصل کیا جاتا ہے، تاکہ سلوک پر آ سکے۔ اس عارضی جذب سے کام لے کر جب سلوک طے کر لیتے ہیں تو بعد میں ان کو بھی جذبِ وہبی عطا ہوتا ہے۔ گویا کہ نقشبندی طریق ”جذب، سلوک، جذب“ والا ہے اور باقی طُرُق ”سلوک، جذب“ والے ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ راستہ اگرچہ مختلف ہے، لیکن مقصد ایک ہی ہے، پہنچنا ایک ہی جگہ پہ ہے۔ لہٰذا ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ایک خطرہ دونوں میں ہو سکتا ہے، پہلے طریقے میں یہ خطرہ ہے کہ جیسے حضرت مجدد صاحب (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے فرمایا کہ کہیں وہ اسی جذب میں ٹھہر کر مجذوب متمکن ہی نہ بن جائے، اور آگے سلوک طے ہی نہ کرے۔ اور دوسرے طریقے میں یہ خطرہ اس طرح ہے کہ سلوک طے کرتے ہوئے راستہ میں کوئی آسانی ملے، کوئی احوال نظر آئیں تو انہی کو منزل سمجھ کر کہیں اسی جگہ نہ ٹھہر جائے، اور مزید ترقی سے رک جائے۔

متن:

کیونکہ (دوسرے) طریقوں کے سالک جب ریاضاتِ شاقّہ اور مجاہداتِ شدیدہ اور تزکیہ کے قدم کے ساتھ عالمِ خلق کی صورت کے دشت و صحرا طے کرنے کے بعد عالمِ امر میں سیر شروع کرتے ہیں اور قلبی جذبہ اور روح کے لذتوں میں پڑتے ہیں تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسی انجذاب میں قناعت کرتے اورا سی لذت پر کفایت کرلیتے ہیں اور اس عالَم پر لامکانیت کا گمان ان کو دامن گیر ہو جاتا ہے۔

تشریح:

یعنی مزید ترقی نہیں کرتے، رک جاتے ہیں۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ کسی کو رکنے نہیں دیتے۔ بس یہی فرماتے ہیں کہ آگے بڑھو۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں۔ لہٰذا رکنا نہیں ہو گا۔

اب اگر ان دونوں کا تقابل کر لیں تو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ مجذوب متمکن کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ کیونکہ اس نے تو سلوک طے ہی نہیں کیا۔ جب کہ دوسرے طریقوں میں سلوک پہلے ہوتا ہے، وہاں اگر کوئی رکے گا بھی تو کچھ نہ کچھ سلوک تو طے کر چکا ہو گا، ہاں یہ ہو گا کہ سلوک کے کسی مقام پر رک گیا اور مزید درجات حاصل نہیں کئے۔ جب کہ دوسرے نے تو سلوک طے ہی نہیں کیا، لہٰذا اس میں خطرات زیادہ ہیں۔

اسی لئے فرمایا: ’’جب ریاضاتِ شاقّہ اور مجاہداتِ شدیدہ اور تزکیہ کے قدم کے ساتھ عالمِ خلق کی صورت کے دشت و صحرا طے کرنے کے بعد عالمِ امر میں سیر شروع کرتے ہیں اور قلبی جذبہ اور روح کی لذتوں میں پڑتے ہیں تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسی انجذاب میں قناعت کرتے اور اسی لذت پر کفایت کر لیتے ہیں اور اس عا لَم پر لامکانیت کا گمان ان کو دامن گیر ہو جاتا ہے‘‘۔

اس سے ایک بڑی اہم بات سمجھ میں آتی ہے کہ نقشبندی طریقہ میں جب پہلے عارضی طور پر جذب حاصل ہوتا ہے، اس وقت شیخ کامل کی بڑی ضرورت ہے، تاکہ اس کو رکنے نہ دے اور اس کو وہ گھاٹی پار کرا دے۔

ہماری ایک غزل کا شعر ہے؎

ہو جذب حاصل، ہو شیخ کامل، تو دریا کا ملے ساحل

شبیرؔ اس در پہ سر رکھنے کا کچھ سامان ہو جائے

یعنی اصل مقصد عبدیت کو حاصل کرنا ہے۔ در پہ سر رکھنے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کر لے۔

خلاصہ یہ کہ جذب والے معاملہ میں دونوں طریقوں میں خطرہ ہے، مجذوب متمکن کے لئے بھی خطرہ ہے کہ اس میں جذب کی وجہ سے رکا رہتا ہے کیونکہ جذب کے احوال تبدیل ہوتے رہنے سے وہ سمجھتا ہے کہ جذب بھی مل گیا اور سلوک کے احوال بھی طے ہو گئے، اور اس وجہ سے اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگتا ہے۔ اور دوسری صورت میں بھی خطرہ ہے کیونکہ ان کو دشت و صحرا وغیرہ کے بعد کچھ تھوڑی سی ٹھنڈی ہوا لگی ہے، تو وہ سمجھے ہیں کہ بس کام ہو گیا۔ دونوں جگہوں پہ اسی سے مسئلہ ہوتا ہے۔ لہذا اس جذب کو کنٹرول کرنا بڑا ہی ضروری ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کی رائے اس بارے میں یہ ہے: ”جذب میں چاہے کچھ بھی ہو لیکن انتظام نہیں ہوتا“۔ کیونکہ انتظام تب ہوتا ہے جب کوئی چیز باقاعدہ ہو اور جذب باقاعدہ نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا جو باقاعدہ طور پہ چلا سکتا ہو اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینا چاہئے۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ طریقہ چاہے نقشبندی ہو، چاہے کسی دوسرے سلسلے کا ہو، اگر شیخ کامل نہ ہو تو آدمی کو جذب کی صورت میں بہت سخت نقصان ہو سکتا ہے۔

ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی نے مجھے واٹس ایپ کیا۔ بڑا ذہین ساتھی ہے، ما شاء اللہ کافی ترقی کی ہے۔ مجھے واٹس ایپ کیا کہ آپ کا فلاں بیان تو ایسا ہے کہ اب کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، اس میں ساری چیزیں آ گئی ہیں۔ بظاہر تو اس نے تعریف کی۔ میں نے اس کو جواب دیا: خدا کے بندے! آپ کیسے اپنے آپ کو مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کا مرید سمجھتے ہیں؟ حضرت مجدد صاحب تو کسی چیز پہ رکنے نہیں دیتے۔ آپ کیسے رک گئے کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ بس ٹھیک ہے سارا کچھ اسی میں ہو گیا، اب کسی اور چیز کے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بظاہر الفاظ چاہے کتنے ہی موثر کیوں نہ ہوں لیکن منزل کی طرف بڑھنے سے رکنا کسی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ بنیاد یہی ہے کہ سفر نہ رکے۔

متن:

اور اس عالم کی بیچونی کی آمیزش ان کو حقیقی بے چونی سے باز رکھتی ہے۔۔۔ شاید اسی مقام پر کسی سالک نے کہا ہے کہ میں تیس سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا۔اور دوسرے نے کہا کہ استویٰ کا سِرّ اور عرش کے اوپر تنزیہ کا ظہور دقیق و مخفی معارف میں سے ہے۔ اور جو کچھ میں نے کہا ہے کہ ’’یہ بیان محمدی المشرب کے ساتھ مخصوص ہے‘‘ اس لئے کہا ہے کہ غیرمحمدی المشرب میں کسی ایک کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ اُولی تک ہی محدود ہوتا ہے اور درجہ اولیٰ سے مراد مرتبہ قلب ہے، اور کسی دوسرے کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ ثانی (یعنی مقامِ روح) تک محدود ہے، اور تیسرے شخص کے کمال کا عروج تیسرے درجے تک ہوتا ہے جو مقامِ سِرّ ہے، اور چوتھے شخص کے کمال کا عروج چوتھے درجے تک ہے جس کا مقام خفی ہے۔ درجہ اولیٰ کی مناسبت صفاتِ افعال کی تجلی کے ساتھ ہے اور درجہ ثانیہ کو صفاتِ ثبوتیہ ذاتیہ کی تجلی سے اور درجہ ثالث کو شیون و اعتبارات ذاتیہ سے مناسبت ہے، اور درجہ چہارم کو صفات سلبیہ کے ساتھ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے مناسبت ہے اور درجاتِ ولایت میں سے ہر درجہ اولو العزم انبیاء میں سے کسی ایک نبی کے زیر قدم ہے۔

تشریح:

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) نے تین ادوار بیان فرمائے ہیں۔ پہلا دور لطائف کو متحرک، منور اور فعال کرنا ہے۔ اس میں لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ کو فعال کرنا ہوتا ہے۔ پھر ان لطائف کے اوپر فیض کا اجرا ہے جس کو مراقبۂ احدیت کہتے ہیں۔ جس میں آپ تصور کرتے ہیں کہ الله جل شانهٗ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر، آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے قلب پر فیض آ رہا ہے۔ جب یہ پورا ہو جاتا ہے تو پھر تیسرا دور مشارب کا ہے۔ یعنی مراقبۂ احدیت محض فیض کا دور تھا، اب خصوصی فیض کا دور ہے۔ پہلا فیض ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ کا ہے یعنی تجلیاتِ افعالیہ کا، اور دوسرا فیض صفاتِ ثبوتیہ کا ہے یعنی تجلیاتِ صفاتیہ کا اور تیسرا فیض شیوناتِ ذاتیہ کا ہے یعنی تجلی ذاتی کا، اس کے بعد صفاتِ سلبیہ کا فیض ہے، اس کے بعد شانِ جامع کا فیض ہے۔ پھر جیسے کہ حضرت نے فرمایا ہے، ہر فیض کسی نہ کسی نبی کے زیرِ قدم ہوتا ہے۔ پہلا لطیفہ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ، دوسرا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ، تیسرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ، چوتھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اور پانچواں آپ ﷺ کے ساتھ ہے۔ ان کو مشارب کہتے ہیں۔

متن:

ولایت کا درجہ اولیٰ حضرات آدم علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیر قدم ہے اور ان کا رب ’’ صفت تکوین‘‘ ہے جو کہ افعال کے صادر ہونے کا منشا ہے۔۔۔ اور دوسرا درجہ حضرت ابراہیم ؑ کے زیر قدم ہے اور حضرت نوح علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ والتسلیمات بھی اس مقام میں شریک ہیں اور اس کا رب صفت العلم ہے جو صفات ذاتیہ میں اجمع (سب سے زیادہ جامع) ہے۔۔۔اور تیسرا درجہ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیرِ قدم ہے اور اُن کا رب مقاماتِ شیونات سے شان الکلام ہے اور چوتھا درجہ حضرت عیسی ٰ علیٰ نبینا علیہ الصلٰوۃ السلام کے زیر قدم ہے اور ان کا رب صفاتِ سلبیہ سے ہے نہ کہ صفات ثبوتیہ سے کہ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے اور اکثر ملائکہ کرام علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ و السلام بھی اس مقام میں حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ مشارکت رکھتے ہیں اور ان (ملائکہ) کو اس مقام میں شانِ عظیم حاصل ہے۔۔۔ اور پانچواں درجہ حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے زیر قدم ہے اور ان علیہم الصلٰوۃ و السلام کا رب، ربّ الارباب ہے جو تمام صفات و شیونات اور تقدیسات و تنزیہات کا جامع ہے اور ان کمالات کے دائرے کا مرکز ہے، اور صفات و شیونات کے مرتبہ میں اس ربِ جامع کی تعبیر ’’شان العلم‘‘ کے ساتھ مناسب ہے کہ یہ شان عظیم الشان تمام کمالات کی جامع ہے. اسی مناسبت سے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی ملّت حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ملّت ہوئی اور اُن کا قبلہ آپ کا قبلہ بنا۔ علیہما الصلٰوۃ و التسلیمات۔

تشریح:

اس سے معلوم ہوا کہ ہر ولی کسی نبی کے زیرِ قدم ہوتا ہے۔

متن:

جاننا چاہئے کہ اقدامِ ولایت کی ایک دوسرے پر فضلیت درجات کے مقدم و مؤخر ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے.

تشریح:

یعنی یہ مقامات کی تقسیم نہیں ہے بلکہ مزاجوں کی تقسیم ہے۔

متن:

تاکہ صاحبِ اخفیٰ دوسروں سے افضل ہو جائے۔ علیٰ ہذا القیاس بلکہ اصل سے قریب و بعید ہونے اور ظلال کے درجات کی منزلوں کو زیادہ یا کم طے کرنے کے اعتبار سے ہے۔

تشریح:

جس نے جتنا زیادہ سفر کیا ہے اتنا زیادہ آگے چلا گیا۔

متن:

لہٰذا ہو سکتا ہے کہ صاحبِ قلب قرب کے اعتبار سے اصل کے ساتھ صاحبِ اخفیٰ سے کہ اس نے یہ قرب حاصل نہیں کیا افضل ہو، اور کیونکر نہ ہو جبکہ نبی کی وہ ولایت جو ولایت کے درجہ اولیٰ میں ہے اس ولی کی ولایت سے قطعی طور پر افضل ہے جو ولایت کے آخری درجہ میں ہے۔

اے فرزند! کمالاتِ نبوت کے بیان میں گفتگو اور ولایت پر اس کی فضلیت اور ولایتِ سہ گانہ (تینوں ولایتوں یعنی) ولایتِ صغریٰ، ولایتِ کبریٰ اور ولایتِ علیا کے درمیان فرق اور ان میں سے ہر ایک کے مناسب معارف اور ہر ایک کے متعلقہ مقامات کو اس لئے طول طویل کیا ہے اور بار بار لمبے چوڑے فقرے اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ نہایت عجیب و غریب ہونے کے با وجود لوگوں کی سمجھ میں آسکیں اور کسی کو ان کے انکار کی مجال نہ رہے۔۔۔ یہ علوم کشفی اور بدیہی ہیں، استدلالی اور نظری نہیں ہیں۔

تشریح:

یہاں پر میں ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا۔ یہ سب طریقے ہیں، ذریعے ہیں۔ ذریعے کشفی بھی ہو سکتے ہیں، تجرباتی بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن مقصد کشفی نہیں ہوتا، مقصد ثابت ہوتا ہے قرآن و سنت سے۔ اس وجہ سے ہم مقصد کو کشف سے متعین نہیں کر سکتے۔ مقصد قرآن و سنت سے ثابت ہو گا۔ ہاں اس کو حاصل کرنے کے ذرائع کشفی بھی ہو سکتے ہیں، نظری بھی ہو سکتے ہیں، استدلالی بھی ہو سکتے ہیں اور تجرباتی بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ یہ چیزیں کشفی اور بدیہی ہیں، نظری اور استدلالی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظری اور استدلالی کا ذریعہ ہر ایک کے پاس ہوتا ہے۔ کشفی کا ذریعہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ کشفی ذریعہ اختیاری نہیں ہے، لہٰذا ہر ایک کے پاس نہیں ہو سکتا۔ جب کہ استدلالی طریقہ کسی کے پاس بھی آ سکتا ہے۔ جو بھی محنت کرے گا اس کے پاس آ سکتا ہے۔ فرمایا کہ یہ محنت کے راستے نہیں ہیں، یہ وہبی چیز ہے، جس کو اللہ پاک چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو تجربے کے ذریعہ سے ایک چیز سمجھ میں آ جائے اور دوسرے کو کشف کے ذریعہ سے سمجھ آ جائے، چیز ایک ہی ہو تو فرق کیا ہوا۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کراچی چلا گیا اور اس کو چیزیں نظر آ گئیں، دوسرے آدمی کو ادھر بیٹھے بیٹھے کشف کے ذریعہ پتہ چل گیا، چیز میں تو فرق نہیں پڑا، ذریعہ میں فرق ہوا۔ ایک کا ذریعہ کشفی ہے، دوسرے کا استدلالی ہے۔

اس ساری بات کا حاصل یہ ہے کہ ہم لوگ اس پر آپس میں لڑیں نہیں کہ مجھے کشف کیوں نہیں ہوتا، فلاں کو کیوں ہوتا ہے؟ ہمیں تو ذریعہ چاہئے، ذریعہ ہمیں مل گیا۔ اس کے بعد ہمیں مقصد حاصل کرنا ہے۔ مقصد سے بحث ہے ذریعہ سے بحث نہیں ہے۔ اب آگے سنیں، ان شاء اللہ باتیں سمجھ میں آ جائیں گی۔

متن:

یہ علوم کشفی اور بدیہی ہیں، استدلالی اور نظری نہیں ہیں۔ اور ان میں بعض مقدمات کا ذکر تنبیہہ اور عوام کی سمجھ سے قریب لانے کے لئے ہے بلکہ خواص کے سمجھنے کے لئے وضاحت اور تشریح ہے۔ یہ سب شروع سے اخیر تک اس طریقہ پر بیان کیا گیا جس پر حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس حقیر کو ممتاز کیا ہے.

تشریح:

یعنی اللہ پاک نے مجھے کشف سے نوازا ہے۔

متن:

اس کی بنیاد نسبتِ نقشبندیہ ہے جس کی ابتدا میں انتہا مندرج ہے، اسی بنیاد پر بہت سی عمارتیں اور قسم قسم کے محل بنائے گئے ہیں.

تشریح:

یعنی اس سے اور مزید طریقے بنائے گئے ہیں۔

متن:

اگر یہ بنیاد نہ ہوتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا یعنی بخارا اور سمرقند سے اس بیج کو لاکر زمینِ ہند (سرہند)میں بویا گیا جس کا خمیر’’مدینہ طبیہ‘‘ اور ’’مکہ معظمہ‘‘ کی خاک سے تیار کیا گیا اور ’’فضل‘‘ کے پانی سے سالہا سال اس کو سیراب کیا گیا اور ’’ احسان‘‘ کی تربیت سے اس کی پرورش کی گئی، جب وہ کھیتی کمال کو پہنچ گئی تو ان علوم و معارف کا ثمرہ اس سے حاصل ہوا۔ "اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا، وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌" (الاعراف: 43) (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔

جاننا چاہئے کہ اس طریقۂ عالیہ کا سلوک ایسے شخص مقتدا کی محبت کے رابطہ پر وابستہ ہے جس نے سیرِ مرادی سے اس راہ کو طے کیا ہو.

تشریح:

اس بات کو اچھی طرح سمجھیں۔ فرمایا جس نے سیرِ مرادی سے اس راہ کو طے کیا ہو۔ سیرِ مرادی فرمایا سیرِ مریدی نہیں فرمایا۔ مراد یہ ہے کہ جس کو اللہ نے دکھایا ہو۔

متن:

اور قوتِ انجذاب سے ان کمالات کے ساتھ رنگا ہوا ہو اس کی نظر قلبی امراض کو شفا بخشی ہے اور اس کی توجہ باطنی امراض دُور کرتی ہے، ایسا صاحبِ کمال اپنے وقت کا امام اور اپنے زمانے کاخلیفہ ہے، اقطاب و ابدال اس کے مقامات کے ظلال میں خوش ہیں، اور اوتاد و نجبا اس کے کمالات کے سمندر سے ایک قطرہ پر قناعت کئے بیٹھے ہیں، اس کی ہدایت و ارشاد کا نور اس کے ارادہ اور خواہش کے بغیر آفتاب کے نور کی طرح ہر شخص پر چمکتا ہے، پس کس طرح نہ چمکے جبکہ وہ خود چاہے، اگرچہ یہ خواہش اس کے اپنے اختیار میں نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی امر کی خواہش طلب کرتا ہے لیکن وہ خواہش اس میں پیدا نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگ جو اس کے نور سے ہدایت پائیں اور اس کے وسیلے سے راہِ راست پر آجائیں، اس معنی کو خوب جان لیں۔۔۔بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رشدو ہدایت کی اصل کو بھی کما حقہ نہیں جانتے حالانکہ وہ شیخ مقتدا کے کمالات سے متحقق ہوتے ہیں جن کے سبب ایک جہان کو ہدایت کرتے ہیں، کیونکہ علم سب کو نہیں دیا جاتا اور سیرٍ مقامات کی تفصیل کی معرفت ہر ایک کو نہیں بخشتے۔ ہاں وہ شیخ جس کے وجود شریف پر وصول کے طریقوں میں سے کسی خاص طریقے کی بنا کا مدار ہے بیشک وہ صاحبِ علم اور سیر کی تفصیل سے آگاہ ہوتا ہے اور دوسروں کو اسی کے علم پر کفایت کر کے اس کے ذریعے سے مرتبۂ کمال و تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور فنا و بقا سے مشرف کرتے ہیں۔

تشریح:

امید ہے بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ فرمایا کہ سب لوگوں کو اس چیز کا حاصل ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں سب لوگوں کو اس کا فائدہ ضرور ہو گا۔ مثال کے طور پر الله جل شانهٗ ایک خاص چیز لانا چاہتے ہیں اور سب لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ تو اللہ تعالی وہ چیز براہِ راست سب کو نہیں دکھائیں گے، بلکہ کسی ایک کو منتخب کر کے اس کو ساری چیزیں سمجھا دیں گے اور اس کے ذمے لگائیں گے کہ باقیوں کو آپ بتا دیں۔ اب جن جن کو ان کے اوپر اعتماد ہو گا وہ ان سے فیض حاصل کر لیں گے۔

الحمد للہ! ہمارے ہاں ایک بات ہے، میری اپنی نسبت بقول میرے شیخ کے نقشبندی ہے۔ لیکن ﴿ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن: 60) ’’احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہے‘‘۔ کی رو سے جن ذرائع سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ احسان نصیب فرمایا ہے، کیا ہم ان کی نا شکری کریں! مثلاً میرے شیخ چشتی تھے، تو کیا میں چشتیت کی مخالفت کر سکتا ہوں؟ یہ تو بڑی کم ظرفی کی بات ہو گی۔ میری خاندانی نسبت سہروردی ہے، کیا میں اس کی مخالفت کر سکتا ہوں؟ کیا یہ اپنے اوپر ظلم نہیں ہو گا۔ سب کو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) صاحب سے فیض مل رہا ہے۔ کیا میں قادری سلسلہ کی مخالفت کر سکتا ہوں؟ ہم سب کے خادم ہیں، ہم سب کو اپنے سر کے تاج سمجھتے ہیں۔ لہٰذا الحمد للہ، اللہ تعالیٰ ہمیں سب کے فیوض سے نصیب فرماتا ہے۔

اب میں عرض کرتا ہوں کہ جس جس شیخ پر جو جو چیز کھلی ہے، وہ اس کے مقام کے حساب سے ہے۔ اس بات کو حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے اپنی کتاب ”الطاف القدس“ میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ جس سے اللہ پاک کام لینا چاہتے ہیں ان کے لئے ایسا کر لیتے ہیں کہ اس کی پوری کائنات کو اس چیز سے رنگین کر لیتے ہیں، اس کو پوری کائنات میں ہر طرف وہی چیز نظر آتی ہے۔ پھر اللہ پاک ایک جماعت بھی ان کے لئے مبعوث فرما دیتے ہیں جو ان کی باتوں کو سمجھنا شروع کر لیتی ہے اور ان کا ساتھ دیتی ہے، اس طریقہ سے وہ چیز پوری ایک جماعت کے ساتھ وجود میں آ جاتی ہے۔ اب اگر میں کہوں کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کو ہر طرف چشتی ہی چشتی نظر آتا تھا، اللہ نے ان کے ساتھ ایک چشتی جماعت کو بھی تیار کیا، ان کو بھی ہر طرف چشتی ہی چشتی نظر آتا تھا۔ شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) صاحب کو ہر طرف اپنی نسبت نظر آ رہی تھی، لہٰذا ایک جماعت کو ان کے ساتھ تیار کیا۔ خواجہ نقشبند (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کے ساتھ ان کی جماعت کو تیار کر لیا اور سہروردی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کے ساتھ ان کی جماعت کو تیار کیا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی چیزیں مل رہی ہیں، ہر ایک کو اپنی اپنی طرف سے ما شاء اللہ نعمتیں مل رہی ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ جیسے حضرت نے فرمایا بالکل وہی بات ہے کہ اللہ پاک کسی ایک کو تو علم دے دیتے ہیں، باقیوں کو ان کے ساتھ لگا لیتے ہیں۔ لہٰذا جس کو جس چیز کا علم دیا گیا ہے، ہم اس سے وہ علم حاصل کرتے ہیں۔ اب میں امام ابو حنیفہ (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کا مقلد ہوں تو ان کے دلائل میں پڑھ پڑھ کے سمجھوں گا کہ حضرت امام ابو حنیفہ (رحمۃ الّٰلہ علیہ) تو بہت عظیم امام ہیں۔ جو حضرت امام شافعی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کا مقلد ہو گا، وہ امام شافعی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کی عظمتوں کا قائل ہو گا، ان کے دلائل کو دیکھ رہا ہو گا۔ کوئی امام مالک (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کا مقلد ہو گا تو وہ ان کے دلائل تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہو گا اور بہت زیادہ ان کا قائل ہو گا، کوئی امام احمد بن حنبل (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کے اندر یہ ساری چیزیں جمع دیکھے گا، تو وہ ان کا بہت زیادہ قائل ہو گا۔ یہ ائمہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) دونوں حنبلی ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ الّٰلہ علیہ) شافعی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) حنفی ہیں۔

یہ ساری تفصیل عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان لڑائیوں میں نہ پھنسیں کہ فلاں کا درجہ زیادہ ہے اور فلاں کا کم۔ وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو جو چاہیں کہہ سکتے ہیں، وہ ان کی آپس کی بات ہے، بھائی! وہ تو اپنے دلائل کے حساب سے بات کر رہے ہیں۔ دلائل کو ثابت کرنے کے لئے تو دلیل دینی پڑتی ہے۔ اس لئے وہ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم نہیں کہہ سکتے۔ ہم سب کے چھوٹے ہیں۔ بے شک میں نقشبندی ہوں اور نقشبندی فیض کو الحمد للہ حضرت سے حاصل کروں گا، لیکن میں قائل سب کا ہوں گا کہ واقعی اپنے اپنے طور پر وہ بڑے ہیں۔ ما شاء اللہ میں سب کی قدر دانی کروں گا۔ کیونکہ میری یہ قدر دانی حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کو بھی پسند ہے۔

ایک صاحب جو بڑے آدمی ہیں، بڑے عالم ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی زبان سے ایسی غلط بات نکلی۔ مجھے کہا کہ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) بعض دوسرے سلسلوں کی تنقیص کرتے ہیں اور انہوں نے فلاں فلاں بات لکھی ہے۔ مجھے سخت غصہ آیا لیکن میں نے اپنا غصہ برداشت کر لیا اور صرف اتنا کہا ”ایسا نہیں ہے“۔ اور بحث میں پڑنا مناسب نہیں سمجھا، خواہ مخواہ ان کی زبان سے کچھ اور باتیں نکلتیں۔ اس پر الحمد للہ، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بشارت آ گئی کہ میں کیسے کسی سلسلے کی تنقیص کر سکتا ہوں، میری پہلی نسبت تو چشتی ہے۔ کیونکہ حضرت کے والد صاحب چشتی تھے، حضرت کو پہلی خلافت انہی سے چشتیہ سلسلے میں ملی تھی۔ اصل میں لوگوں نے معاملہ بگاڑا ہے، ورنہ ان حضرات میں ایسی بات کوئی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے، طریقہ کار ہر ایک کا اپنا اپنا ہو گا اور ہر طریقہ کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ ہم کسی بھی طریقہ کو کم نہیں سمجھتے، نہ کسی طریقہ کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کسی طریقہ سے کام ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا دوسرا طریقہ ہے، ان کو اللہ تعالیٰ دوسرے طریقہ سے مل جاتے ہیں۔

متن:

خاص کند بندۂ مصلحتِ عام را (عام کے فائدے کو خاص آیا)

(ہمارے اس طریقے میں) افادہ اور استفادہ انعکاسی اور انضباغی ہے. مرید محبت کے رابطہ سے جووہ اپنے شیخ مقتدا کے ساتھ رکھتا ہے لحظہ بلحظہ اس کا رنگ پکڑتا جاتا ہے اور انعکاس کے طریق پر اس کے انوار سے منور ہوتا جاتا ہے۔ اس صورت میں افادہ اور استفادہ کے لئے علم کی کیا ضرورت ہے۔

تشریح:

یعنی صحبت کے ذریعہ سے بہت نفع ہوتا ہے۔

یہاں سے دوسری بحث شروع ہو رہی ہے اور یہ بھی بہت اہم ہے۔ ”حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) کا نظریہ وحدۃ الشہود اور اس کے مدارج ارتقائے سلوک“ جو کہ دفتر اول مکتوب نمبر 43 میں مذکور ہے۔ یہ بذات خود بہت عظیم بحث ہے۔ اس کو ان شاء اللہ بعد میں شروع کریں گے۔ ابھی اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

اگر کسی کا کوئی سوال ہو تو بے شک کر سکتے ہیں۔

سوال:

مراقبۂ احدیت کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام لطائف پہ کیا جاتا ہے۔ یہ بات میں نے پہلی مرتبہ سنی ہے۔

جواب:

مراقبۂ احدیت در اصل فیض کا اجرا ہے۔ یعنی ہر لطیفہ پر آپ فیض کو محسوس کرنے لگیں۔ ایک یہ ہوتا ہے کہ ہر لطیفہ کی حرکت محسوس کرنے لگیں۔ یہ الگ ہے، کہ آپ نے ہر لطیفہ کو زندہ کر لیا۔ لیکن مراقبۂ احدیت یہ ہوتا ہے کہ ہر لطیفہ پر فیض آپ محسوس بھی کرنے لگیں۔ اس کے بعد مشارب آئیں گے کہ آپ ان پر ایک مخصوص قسم کا فیض لائیں گے۔

سوال:

تو کیا ہر لطیفہ کی کوئی انتہا بھی ہے؟

جواب:

فیض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ لطیفہ کی بھی انتہا نہیں ہے۔ کیونکہ لطائف کے سِرّ آپ کے جسم میں ہیں اور ان کی جڑیں عرش سے اوپر ہیں۔ گویا آپ کا تعلق لطائف کے ذریعہ سے عرش سے اوپر کرایا جاتا ہے اور فیض بھی ادھر ہی سے آتا ہے، وہ فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب مبارک اور پھر وہاں سے اس لطیفہ پر آتا ہے۔

سوال:

کیا سُیُورِ اربعہ (سیر الی اللہ، سیر فی اللہ، سیر عن اللہ باللہ، سیر فی الاشیاء باللہ) بھی انسان کو محسوس ہوتی ہیں کہ میں یہ سیر کر رہا ہوں، یہ کر رہا ہوں۔ محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟

جواب:

سیر الی اللہ تو یقیناً محسوس ہوتی ہے۔ سیر فی اللہ میں گہرائی بہت ہے، اس کی تو انتہا نہیں ہے۔ اور سیر فی اللہ کو تین حصوں میں تقسیم کرنا بھی اجتہادی ہے کیونکہ بعض حضرات دو سمجھتے ہیں، بعض حضرات چار سمجھتے ہیں۔ اس کا بھی حضرت نے ذکر کیا ہے کہ بعض حضرات صرف دو سمجھتے ہیں: سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔ کیونکہ سیر فی اللہ میں پھر تجرید و تفرید ہوتی ہے، تجرید و تفرید کے تین مختلف درجے بتائے گئے ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیر الی اللہ میں علم سے دوری ہوتی ہے یعنی علم انسان سے ہٹایا جاتا ہے، فنا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ پھر چوتھی سیر، سیر فی الاشیاء میں واپس لوٹایا جاتا ہے، جب کہ دوسری سیر، سیر فی اللہ میں تفصیلات ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ سیر الی اللہ اصل میں رذائل کا اٹھ جانا ہے۔ تو رذائل محسوس ہو سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ آپ کی نظر رذائل پر ہونی چاہئے، مقام پر نہیں ہونی چاہئے۔ مقام پر شیخ کی نظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگر آپ کی نظر مقام پر ہو گی تو عجب آئے گا، رذائل پر ہو گی تو عجب نہیں ہو گا۔ جیسے اگر پچاس فیصد رذیلہ کم ہو گیا تو پچاس فیصد تو پھر بھی نظر آئے گا۔ پھر پچھتر فیصد کم ہو گیا تو پچیس فیصد نظر آئے گا، پھر بیس فیصد نظر آئے گا، پھر دس فیصد نظر آئے گا۔ جب وہ ختم ہو جائے گا تو اور رذائل نظر آئیں گے، پھر ان کو نکالنا ہو گا۔ لہٰذا ہر وقت آپ کو فکر ہو گی کہ ان رذائل کو دور کیا جائے، تو یہ محسوسات میں سے ہے۔ انسان شیخ کو جو حال بتاتا ہے تو وہ انہی محسوسات کے بارے میں ہی بتاتا ہے، اس کے بعد شیخ اس پر فیصلہ کرتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے، اس سے وہ تحقیق کر لیتا ہے۔ چنانچہ سیر الی اللہ تو محسوس ہوتی ہے۔

جہاں تک سیر فی اللہ ہے، یہ اصل میں اعمال ہیں، جس کو ہم طریقِ صحابہ کہتے ہیں۔ آپ ﷺ کی صحبت کے اثر سے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا سیر الی اللہ پہلے سے مکمل ہو چکا ہوتا تھا، اس کے بعد انہوں نے شریعت کے اعمال کرنے ہوتے تھے۔ اور شریعت کے اعمال میں جو خلوص، تقویٰ وغیرہ چیزیں چاہئے ہوتی تھیں، وہ ان کے پاس ہوتی تھیں، لہٰذا جس کے اعمال جتنے اعلیٰ ہوتے تھے اس کا درجہ اسی قسم کا ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا اپنا تھا، حضرت عمر (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا اپنا تھا، حضرت عثمان (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا اپنا تھا، حضرت علی (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا اپنا تھا اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی اپنا اپنا تھا۔ لیکن رستہ سب کا ایک تھا۔ ہم ان کے برابر تو نہیں ہو سکتے، لیکن رستہ ہمارا بھی وہی ہے، رستہ میں فرق نہیں ہے۔ لہٰذا سیر فی اللہ میں سب مشترک ہیں۔ یہاں تک کہ فرماتے ہیں: سیر فی اللہ میں عین ممکن ہے کہ مرید شیخ سے آگے بڑھ جائے۔ کیونکہ رستہ تو ایک ہی ہے، رستہ میں فرق نہیں ہے۔ ہر ایک کی اپنی ہمت ہے جتنی ہمت سے کوئی آگے چل سکتا ہے وہ اتنا آگے جائے گا۔ اس طرح سیر فی اللہ دو بھی بتائے جاتے ہیں اور چار بھی بتائے جاتے ہیں۔

سوال:

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کی سیور شیخ کے ساتھ طے ہوتی ہیں۔ ہر سیر میں شیخ مرید کو لے کے چل رہا ہوتا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:

جی ہاں! اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ مرید کے مقام پر نظر رکھتا ہے۔ مرید شیخ کو اپنے احوال بتاتا ہے اور احوال کی وجہ سے شیخ کو اس کے مقام کا پتا چلتا ہے۔ شیخ ان احوال کے لحاظ سے اس کی تربیت فرماتا ہے۔ لیکن یہ سیر الی اللہ تک ہی ہے، سیر فی اللہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ اکثر اوقات اجازت سیر الی اللہ کے بعد ہی مل جاتی ہے، کیونکہ جب فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو پھر ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ فنا فی اللہ کے بعد بقا باللہ حاصل ہو گا یا نہیں ہو گا۔ اگر بقا باللہ حاصل ہو گیا تو اجازت دی جاتی ہے۔ نہیں حاصل ہوا تو مستہلک ہے، اس کو اللہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

سوال:

فنا فی اللہ کی کوئی علامات بھی ہیں؟

جواب:

جی بالکل ہیں۔ مشائخ کو ان کا پتا ہوتا ہے۔

سوال:

حضرت رذائل کی بھی اقسام ہیں۔ فرض کریں ایک رذیلہ اگر ختم ہوا تو جس طرح آپ نے فرمایا کہ اور رذائل رہتے ہیں۔ تو کیا رذائل کی بھی اقسام ہوتی ہیں کہ جس پہ ہم یہ تخصیص کر سکیں۔

جواب:

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ الّٰلہ علیہ) نے صرف سمجھانے کے لئے مقاماتِ سلوک کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ویسے تو مقاماتِ سلوک بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن صرف سمجھانے کے لئے دس مقاماتِ سلوک میں تقسیم کیا ہے، وہ دس مقامات یہ ہیں: مقامِ توبہ ہے، مقامِ انابت ہے، مقامِ ریاضت ہے، مقامِ قناعت ہے، مقامِ تقویٰ ہے، مقامِ صبر ہے، مقامِ زہد ہے، مقامِ توکل ہے، مقامِ تسلیم اور مقامِ رضا ہے۔ ہر مقام کی ضد ایک رذیلہ ہوتا ہے، یعنی یہ مقام اس رذیلہ کی فنا پہ حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً جب تک حرص ختم نہیں ہو گی تب تک آپ کو مقامِ قناعت حاصل نہیں ہو گا۔ جب تک آپ کی سستی ختم نہ ہو گی، تب تک مقامِ ریاضت حاصل نہ ہو گا۔ لہٰذا ہر رذیلہ کی فنا ایک مقام کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

ولایت عشرہ اور ولایت سہ گانہ کی تشریح - تعلیمات مجددیہ