سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 484

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

20200921_QA484

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

سوال نمبر 1:

السلام علیکم حضرت جی اکثر مسجد میں جماعت کے فوراً بعد بھیک مانگنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اس وقت ان کی شکل، بے سروسامانی کا اظہار اور ضرورت کے بیان کرنے کا طریقہ انتہائی متوجہ کرنے والا ہوتا ہے ان کو دیکھ کر میرے دل میں اللہ پاک سے ایسے ہی مانگنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں لیکن اللہ پاک سے ایسی کیفیت مانگ نہیں سکتا، یکسوئی حاصل ہو بھی جائے تو وہ کسی ایک ہی حاجت کے لئے ہوتی ہے حضرت جی دعا میں اضطراری کیفیت کیسے پیدا کی جائے، جس کے طریقے پر اللہ پاک خوش بھی ہو جائیں اور عطا بھی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کی برکت سے میرے نفس کی بہترین تربیت فرمائیں اور اللہ پاک مجھے اپنے سے مانگنے کا مقبول طریقہ عطا فرمائیں۔

جواب:

دو باتیں ہیں، ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے دل میں اس خواہش کو پیدا فرمایا اس پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس بات کا خیال آپ کو آ گیا کہ اللہ پاک سے اس طریقے سے مانگنا چاہیے تو اللہ پاک نے آپ کے دل میں ایسے مانگنے کا شوق پیدا فرما دیا یہ بڑی بات ہے البتہ اختیاری طور پر جتنا آپ سے ہو سکتا ہے وہ کوشش کریں اور جو غیر اختیاری ہے اس کے لئے دعا کریں اور یہ اللہ تعالی سے اس کی طرف متوجہ ہونے کی دعا کر لیا کریں باقی اضطراری کیفیت جس وقت خود بخود پیدا ہوتی ہے تو وہ کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے البتہ اس میں صرف ایک چھوٹی سی بات ہے وہ یہ کہ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ جب کبھی کوئی اضطراری کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ جو ظاہری اسباب ہیں اس کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے اور جو باطنی اسباب ہیں اس کی طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بیمار ہو تو اس کی ڈاکٹر کی طرف توجہ تو زیادہ ہوتی ہے یعنی انسان بے انتہا عاجزی کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر کا دل اور دماغ جس کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف اتنی توجہ نہیں ہوتی تو اس وقت آپ اختیاری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی متوجہ ہو جایا کریں اور جو حاجت پورا کرنے کا ذریعہ ہے اس کی طرف بھی متوجہ ہوں تاکہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو یہ اختیاری چیزوں پر ہی سب کچھ ملتا ہے جو غیر اختیاری چیزیں ہیں اس کے بارے میں تو اللہ پاک نے ہم سے کچھ نہیں مانگا (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) (البقرۃ: 28) اگر کسی کو کسی چیز کی وسعت نا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار بھی نہیں بناتے۔


سوال نمبر 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً 30 دن ہو گئے ہیں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا للہ 400 مرتبہ، اللہ ھو اللہ مرتبہ، اور اللہ 3000 مرتبہ ذکر کے بعد دل کی طرف پانچ منٹ توجہ کرنا کہ آیا وہ اللہ اللہ کر رہا ہے یا نہیں۔!حضرت جی ابھی مجھے اپنے دل میں ایسی کوئی کیفیت محسوس نہیں ہو رہی، اب آگے کے ذکر کی ترتیب کی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

کوئی بات نہیں اللہ تعالی تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنے کہ انسان ہیں ہر ایک کے لئے اللہ پاک نے اپنا راستہ بنایا ہوا ہے تو آپ فکر نہ کریں اللہ جل شانہ آپ کے لیے بھی راستہ پیدا فرمائے گا اس کے لئے آپ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، إلا للہ 400 مرتبہ، اللہ ھو اللہ 600 مرتبہ اور اللہ 3500 مرتبہ شروع کریں اور اسی طریقے سے پانچ منٹ تک آپ اللہ جل شانہ کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہو جایا کریں اور ساتھ میں یہ کہ آپ کا دل بھی اللہ تعالیٰ کو اللہ اللہ کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ اپنا ذکر کریں ان شاء اللہ العزیز آپ کو بھی راستہ مل جائے گا۔


سوال نمبر 3:

حضرت جی بعض دفعہ کسی لمبے آپریشن کے دوران نماز ادا کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے اگر ایسے میں نماز کا وقت نکل جائے تو آپریشن کے فوراً بعد ادا کر لیتا ہوں، اکثر اسی دوران وقت کی نماز بھی ادا کر لیتا ہوں ایسے میں کیا دونوں نمازوں کی تسبیح الگ الگ کرنی چاہیے؟

جواب:

ڈاکٹر صاحب اس میں ایک بات ذہن میں رکھیں کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان مجبور ہوتا ہے یعنی condition ایسی ہوتی ہے کہ اس میں انسان کچھ نہیں کر سکتا، emergency ہو تو ایک علیحدہ بات ہے۔ یہ آپ مفتیوں سے پوچھ لیجئےگا لیکن اگر آپ ایسا کر سکتے ہوں کہ آپریشن اس وقت start کریں کہ اس میں نماز کا وقت ہی نہ ہو تو یہ بہت بہتر ہوگا، کیونکہ نماز فرض ہے اور اس کو کسی حالت میں بھی چھوڑنا نہیں چاہیے۔ البتہ اگر مریض کی حالت emergency والی ہو تو پھر اس کے بارے میں آپ مفتیانِ کرام سے مشورہ کر کرلیں لیکن جتنے بھی اختیاری حالات ہوں اس میں آپ نماز کو نہ چھوڑا کریں، آپ دیکھیں جنگ کی حالت میں بھی نماز کا حکم ہے۔ نماز کسی حال میں معاف نہیں اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ آپ مفتیانِ کرام سے رابطہ کریں وہ آپ کو کوئی نہ کوئی راستہ بتا دیں گے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم شاہ صاحب آپ کے کہنے کے مطابق میں نے کچھ دن کوشش کی کہ لوگوں کی باتوں کو محسوس کرنا ہی چھوڑ دیا اس سے مجھے بہت سکون ملا اور ہر عبادت کے بعد یہ دعا پڑھتی ہوں (اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی عِنْدَکَ وَلِیْجَۃً وَّاجْعَلْنِیْ عِنْدَکَ زُلْفیٰ وَ حُسْنَ مآب) اور جو آپ نے دنیاوی مقاصد کے لئے وظیفہ دیا تھا عشاء کے بعد ستر دفعہ درود تنجینہ اس کے پڑھنے کے بعد بھی یہی دعا پڑھتی ہوں۔ کل رات کو سونے سے پہلے خوب دعائیں کیں کہ اللہ تو میرا ہو جا، مجھے اپنا بنا لے اور میرے دل میں گھر کر لے اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی، میرے دل کی طرف دل سے تھوڑی اوپر والی جگہ پر دو دفعہ عجیب سی ڈھڑکن محسوس ہوئی جس میں تھوڑا درد بھی تھا میں نے پہلے کبھی اس جگہ ڈھڑکن محسوس نہیں کی۔

جواب:

اصل میں جسم میں مختلف جگہیں ہیں جہاں پر ذکر محسوس ہو سکتا ہے ان کو لطائف کہتے ہیں۔ دل کے اوپر جو جگہ ہے وہ لطیفہ سر ہے۔ اگر درد مستقل نہیں اور ختم ہو گیا تھا تو پھر کوئی بات نہیں، ہاں اگر اس کے بعد بھی ہوتا ہے تو پھر checkup کرائیں اگر کوئی بیماری ہوئی تو پتا چل جائے گا ویسے اگر اس کے بعد درد نہیں ہوا تو یہ صرف وقتی طور پہ تھا۔ اللہ جل شانہ دونوں جہاں کی کامیابی نصیب فرمائے آمین۔


سوال نمبر 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

There are two locations in the website where method of meditation is mentioned but both are different. Will you please tell me which is the correct one ۔جزاك الله

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ واقعی دو طریقے بتائے گے ہیں ایک بنوریہ، دوسرا معصومیہ۔ ہم ابتداء میں معصومیہ طریقہ بتاتے ہیں۔ آپ طریقہ معصومیہ کی locations استعمال کریں اس میں لطیفہ قلب، لطیفہ روح یہ تو دونوں میں ایک جیسے ہیں البتہ لطیفہ سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ یہ تین لطائف ان دونوں میں مختلف ہیں۔ آپ لطائف معصومیہ کی locations کو استعمال کریں۔

سوال نمبر 6:

آپ نے جو ذکر بتایا تھا اسے 40 دن ہوگئے، آگے مزید رہنمائی کریں۔

جواب:

آپ ابھی اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار عمر بھر کے لئے 100، 100 دفعہ پڑھا کریں گے ان شاء اللہ اور جو ذکرِ جہری، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، ہے اس میں اِلَّا اللہ پہ دل پہ جھٹکا لگانا ہے اور تصور کرنا ہے لَآ اِلٰہَ کے ساتھ کہ دنیا کی محبت نکل رہی ہے اور اِلَّا اللہ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے 100دفعہ اور اس کے بعد لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو یہ آپ نے 100 دفعہ کرنا ہے۔ اس کے بعد حق حق یہ بھی 100 دفعہ کرنا ہے اور اللہ اللہ یہ بھی 100 دفعہ کرنا ہے اس کو ایک مہینہ کر کے پھر مجھے بتانا ہے ان شاء اللہ۔



سوال نمبر 8:

السلام علیکم حضرت جی میرے مراقبے کی مقدار پندرہ منٹ تھی اور دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

یہ پندرہ منٹ والی بات نامکمل ہے اس کے لیے آپ کو بتانا پڑے گا کہ اس کی کیفیت کیا ہے مطلب آپ پندرہ منٹ جو کرتی رہیں، تو اس میں کیفیت آپ کی کیا ہے؟ یعنی محسوس ہو رہا ہے یا نہیں؟ اس میں کوئی مسئلہ وغیرہ ہے تو آپ کو بتانا پڑے گا اس کے بعد میں اگلا سبق دوں گا ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 9:

حضرت جی السلام علیکم آپ سے بیعت ہوئے بہت عرصہ گزر چکا ہے پہلے تسبیح چالیس دن کی، اس کے بعد کوئی ذکر نہیں کیا، نا ہی آپ سے رابطہ کیا اب مجھے یاد بھی نہیں کہ تسبیح میں کیا پڑھا تھا میں دوبارہ آپ کی رہنمائی کا طلبگار ہوں فلاں صاحب کے گھر پر جمعے کی جو تسبیح ہوتی ہے اس میں باقاعدہ جاتا ہوں وہ ہے 100 دفعہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، 100 دفعہ اللہ، 100 دفعہ اِلَّا اللہ، 100 دفعہ اللہ ھو اللہ اس کے علاوہ میں کوئی ذکر نہیں کرتا، اب رہنمائی فرمائیں میں کیا کروں؟

جواب:

سب سے پہلے عرض کروں جو اصلاح والا کام ہے آپ تھوڑا سا اس کے بارے میں معلوم کریں کہ اس کی کیا اہمیت ہے؟ آپ ذرا غور فرمائیں اگر آپ کو کوئی بیماری لگی ہو اس کے بارے میں آپ کتنے فکرمند ہوتے ہیں اور آپ اس کے علاج کے لیےکتنی کوشش کرتے ہیں؟ حالانکہ یہ بیماری انسان کو صرف زیادہ سے زیادہ مار سکتی ہے لیکن جو بیماریاں روحانی ہوتی ہیں وہ انسان کو جہنم تک پہنچا سکتی ہیں، اس لیے اس کو easy نہ لیں بلکہ اس کو اہمیت دیں کیونکہ یہ ہماری اصلاح کے لیے ہے۔ آپ نے جو بیعت کی اس کا مقصد تھا کہ آپ اپنی روحانی صحت کا علاج کروائیں اس کے لیے آپ کو یکسوئی سے متوجہ ہونا پڑے گا اور باقاعدہ رابطہ رکھنا پڑے گا۔

اب چار چیزیں ہوتی ہیں یعنی مرشد کے چار حق ہیں اطلاع، اتباع اعتقاد اور انقیاد یعنی اطلاع کرنا اپنے احوال کی، پھر آپ کو بتایا جائے گا اتباع کا پھر اس پہ عمل کرنا اور شیخ کے ساتھ آپ کا رابطہ ہو، اس کو اہم سمجھنا، پھر اس کے ساتھ ہی اپنا رابطہ رکھنا۔ یہ چار چیزیں آپ نے یاد رکھنی ہیں۔ آئندہ دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ یا اللہ مجھے اس پر استقامت نصیب فرما۔ دو رکعت اس سے پہلے صلوۃ التوبہ پڑھ لیں کہ جو غفلت ہوئی اس پہ اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور ابھی آپ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ یہ روزانہ ایک مہینہ کریں اور پھر مستقل عمر بھر کریں گے اس کے علاوہ آپ ابھی آپ نے جو تسبیح بتائی ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ 100 دفعہ روزانہ، اِلَّا اللہ 100 دفعہ اور اللہ ھو اللہ، 100 دفعہ اور اللہ یہ 100 دفعہ آپ روزانہ شروع کریں اور ایک مہینہ کر کے پھر مجھے اطلاع کریں۔ اور ہر نماز کے بعد جو تسبیح میں نے بتائی تھی وہ تسبیح بھی آپ روزانہ عمر بھر کے لیے کریں آپ اس کے برکات بھی دیکھ لیں گے اور اس کا فائدہ بھی ہوگا ان شاء اللہ ھو العزیز اور آئندہ اس میں سستی نہ کریں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

Respected حضرت, I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر. So far every night beyond 30 days,

200 times لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو 300

300 times حق

and 100 times اللہ

If you get time please also read my ذکر and my whole message about it. It’s of a private nature please don’t read it in Monday's question answer session. I also have these questions for Monday in the question answer session. Can you tell me about شازلی طریقہ if it is valid tariqa or not? I am asking this question on behalf of a brother who I have often seen amongst Sufies' certain symbol that represents نعلین مبارک . Is there any significance of this symbol? جزاك اللہ خیر may اللہ bless you and your family.

جواب:

آپ اردو جانتے ہیں اس لیے اردو میں جواب دیتا ہوں۔ آپ تیس دن کے لئے 200 دفعہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، 400 دفعہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو، 400 دفعہ حق اور 100 دفعہ اللہ کا ذکر شروع کریں ان شاء اللہ العزیز۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ عمر بھر رہے گا اور نماز کے بعد والا بھی، جہاں تک آپ کے سوال کا جواب ہے تو شازلی طریقہ ایک صحیح طریقہ چلا آ رہا ہے یہ کوئی غلط نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی اپنے آپ کو شازلی کہے وہ صحیح ہوگا، مثال کے طور پر ضروری نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو قادری کہے تو وہ صحیح ہوگا، لوگ ناموں کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ فی الحال میں اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتا جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ کس کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں اگر مجھے ان کے بارے میں معلومات ہوں گی تو بتاؤں گا کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ فی الحال شازلی طریقہ چلا آ رہا ہے اور یہ ابو الحسن شازلی رحمۃ اللہ علیہ سے چلا اور صحیح سلسلہ ہے۔ البتہ جو claim کر رہا ہے آیا وہ صحیح شازلی ہے یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا اس کے بارے میں معلومات ہوں گی تو میں کچھ کہ سکوں گا ان شاء اللہ۔

باقی جو بات نعلین مبارک کی ہے اصل میں آپ ﷺ کی اتباع بنیادی چیز ہے۔ آپ ﷺ کی اتباع کرنا یہ بہت بڑی بات ہے البتہ symbolically بعض چیزیں ہوتی ہیں تو ان میں اگر غلو ہوتا ہے تو پھر مفتیانِ کرام اس کو منع کرتے ہیں اور اگر غلو نہیں ہوتا تو پھر اس کی اجازت دیتے ہیں، لہذا یہ بھی اس پہ منحصر ہےکہ آپ کس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتے ہیں، لیکن اتباع ہر صورت میں واجب ہے۔ آپ ﷺ کا اتباع کرنا چاہیے ارشاد فرمایا: (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ الله) (آل عمران: 200) تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہے۔ لہذا جو سنت موکدہ ہے، وہ سنتِ موکدہ کی صورت میں ہوگا جو فرض، واجب ہے وہ فرض واجب کی صورت میں ہوگا۔ لیکن یہ بات ضروری ہے جو آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آپ ﷺ کی محبت کا آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔ البتہ محبت کے اظہار کے کئی مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، ان میں کچھ جائز ہوتے ہیں کچھ ناجائز، تفصیلات پھر مفتیانِ کرام بتاتے ہیں۔

سوال نمبر 11:

کچھ طالبات کی طرف سے احوال آئے ہیں نام نہیں لوں گا۔ پہلے نمبر پر لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ، لطیفہ خفی دس منٹ، لطیفہ اخفیٰ پندرہ منٹ، الحمد للہ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب آپ ان لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر محسوس کریں، اس کے بعد مراقبہ احدیت شروع کریں۔ اور مراقبہ احدیت یہ ہوتا ہے کہ پندرہ منٹ کے لیے تصور کریں کہ اللہ جل شانہ جیسے کہ اس کی شان ہے وہاں سے فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے سالکہ کے قلب پہ آ رہا ہے۔ یہ پندرہ منٹ کے لئے کریں گویا کہ پانچ پانچ منٹ لطائف پر ذکر محسوس کرنے کے بعد پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ احدیت قلب کے اوپر محسوس کریں۔

سوال نمبر 12:

دوسرے نمبر پر لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر پندرہ منٹ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب آپ لطیفہ خفی پہ پندرہ منٹ اور اس سے پہلے والے تین پر، دس دس منٹ یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر پر دس دس منٹ اور لطیفہ خفی پر پندرہ منٹ کا ذکر کریں۔

سوال نمبر 13:

تیسرے نمبر پہ لطیفہ قلب دس منٹ۔

جواب:

اس لطیفہ کے بارے میں بتایا نہیں کہ محسوس ہوتا ہے یا نہیں اور کیسے محسوس ہوتا؟ تفصیل بتانی پڑے گی۔



سوال نمبر 14:

چوتھے نمبر پر لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ، لطیفہ خفی دس منٹ اور لطیفہ اخفیٰ پندرہ منٹ۔

جواب:

اس کے لئے بھی مراقبہ احدیت والی بات ہے۔ لطائف پر چونکہ ذکر محسوس ہوتا ہے تو اس پر بھی وہی کریں جو پہلے بتا چکا ہوں، یعنی دوسرے اور پہلے نمبر کے لئے جو بتا چکا ہوں۔

"اچھا یہاں پر جواب آ گیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے لطیفہ قلب پر، تو ٹھیک ہے لطیفہ قلب پہ دس منٹ رکھیں اور لطیفہ روح پر اب پندرہ منٹ کا کر دیں"۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالی کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے مندرجہ ذیل ذکر اور مراقبات کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے الحمد للہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ، اللہ 100 مرتبہ، حق اللہ 500 مرتبہ، ھو 500 مرتبہ اور اللہ ھو 200 مرتبہ، حق اللہ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالی کا بندہ ہوں اللہ تعالی کی بندگی کا حق اللہ تعالی سے راضی رہ کر ادا کر رہا ہوں اور جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے میں اس پر راضی ہوں۔ مراقبات میں تصور کیا کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ دامت برکاتہم کے دل مبارک پر اور شیخ کے دل مبارک سے میرے لطیفہ سر پہ اور جتنا فیض آتا ہوا محسوس کیا شکر ادا کیا الحمد للہ۔

جواب:

اب آپ نے لطیفہ خفی پر یہی چیز کرنی ہے، باقی اسی طرح جاری رکھیں جو میں نے بتائی ہیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے آپ سلامت رہیں اور اللہ پاک ہمیں آپ کا ذوق نصیب فرمائے آمین۔ ہمارے آفس میں جمعہ والے روز ایک HR manager نے کہا کہ جمعہ کے خطبے میں امام صاحب نے حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ کا ذکر کیا ہے اس لئے میں وہاں جمعہ نہیں پڑھوں گا۔ تھوڑی تحقیق کرنے پہ پتا چلا کہ یہ (نعوذ باللہ) حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سے بغض رکھتے ہیں اور ان کو صحابی بھی نہیں مانتے۔ ان کے علم کا یہ عالم ہے کہ فتح مکہ والے سال ہی کو آپ ﷺ کے وصال کا سال سمجھ رہا تھا۔ ان سے میں نے اللہ اور رسول ﷺ کے لئے بعض رکھ لیا ہے کیونکہ اس نے ایک صحابی رسول ﷺ سے بغض رکھا ہوا ہے، اور اس کو سلام بھی نہیں کرتا، کیا میں نے یہ صحیح فیصلہ کیا ہے؟

جواب:

آپ نے جوکہا کہ اس کے علم کا یہ عالم ہے کہ یہ اتنا بھی نہیں جانتا، تو آپ اس کو یوں سمجھ لیں کہ اس کو پوری بات کا علم نہیں ہے۔ آپ کوشش کریں کہ ان کو یہ باتیں سمجھا دیں یا کسی طریقے سے کوئی اور ان کو سمجھا دے، کیونکہ ہمیں تو کافروں پر بھی محنت کرنی ہے تو ظاہر ہےکہ اگر کسی انسان کو غلط فہمی ہے تو اس غلط فہمی کو دور کرنا لازمی ہے۔ جب تک اس نے علم صحیح نہیں کیا تو اس وقت تک آپ اس بات کو غلط سمجھیں گے اور واقعتاً غلط ہے لیکن یہ محنت کا میدان ہے۔ آپ ان کو صحیح طریقے سے دعوت دیں اور ان کو یہ باتیں سمجھا دیں کہ امیر معاویہ رضی تعالی عنہ کے فضائل کیا ہیں اور ان کے بارے میں آپ ﷺ نے کیا فرمایا ہےکیونکہ ممکن ہے کہ ان کو لوگوں نے غلط باتیں پہنچائی ہوں۔ آج کل media سے بہت سارے لوگ متاثر ہیں، اللہ جل شانہ ان سب کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی امید ہے کہ آپ اللہ کے فضل و کرم سے خیریت سے ہوں گے۔ میرا ذکر 200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو، 600 مرتبہ حق، 500 مرتبہ اللہ اور دس منٹ کا مراقبہ تھا۔ ایک ماہ مکمل ہے اور مراقبے کی کیفیت یہ ہے کہ کسی وقت دھڑکن محسوس ہوتی تھی، مگر زیادہ تر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آپ ان شاء اللہ یہ دس منٹ کی جگہ جو ذکر محسوس کرنا ہے اس کو پندرہ منٹ کریں، باقی چیزیں وہی ہوں گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی اللہ پاک آپ کو خوش و تندرست رکھے، اللہ پاک آپ کو ہماری صحیح معنوں میں بندگی اور قرب کا ذریعہ بنا دے۔ حضرت جی دئیے گئے ذکر کا مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ میرا ذکر 200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو، 600 مرتبہ حق اور 3500 مرتبہ اسم ذات اور دس منٹ کا قلب کا مراقبہ ہے۔ حضرت ذکر کے دوران کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ سب پنکھے کی ہوا سے کپڑے پھڑپھڑانے کی وجہ سے ہے، آگے کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

آگے کے لئے ان شاء اللہ آپ جو اسم ذات ہے وہ 4000 مرتبہ کریں اور باقی چیزیں وہی ہوں گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی مزاج بخیر ہوں گے۔ عرض یہ ہے کہ رسالت زہد و تصوف کے آخر میں جو ہدایات کا عنوان: "فقیر سے متعلق حضرات کے لئے ابتدائی ہدایات" کیا بندے کے لئے اس پر عمل لازمی ہے؟ دوسری بات یہ کہ ذکر کے وقت ذکر کے الفاظ کی طرف توجہ کرے یا کسی اور طرف، براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

میں نے لکھا ہے بیعت کے وقت تعلیم میں جو کچھ بتایا گیا اس کو فقیر کی طرف سے بھی سمجھا جائے اس کے علاوہ مندرجہ ذیل باتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ فقیر کے دئیے گے ذکر کے ساتھ کلمہ سوم 100 بار، درود شریف 100 بار، استغفار 100 بار صبح و شام ذکر کیا جائے۔ ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر، تین بار درود شریف پڑھیں۔ تین بار کلمہ طیبہ، تین بار استغفار اور تین بار آیہ الکرسی۔ یہ تو ہم باقاعدہ ابتداء سے بتاتے ہیں یعنی جو ابتدائی ذکر بتاتے ہیں 300، 300 اور 200 والا تو اس میں وہ جو نماز کے بعد والا ذکر بتاتے ہیں مسلسل چلتا ہے اور پھر جس وقت وہ چالیس دن والا پورا ہو جائے تو اس کے بعد وہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100، 100 مرتبہ بتاتے ہیں، یہ عمر بھر جاری رہے گا ان شاء اللہ۔ نوافل کا جو معمول ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں اگر نہ ہو سکے تو فقیر کے ساتھ اس کے بارے میں مشورہ کریں۔ خود سے اپنے نوافل یا نفلی عبادت کا معمول مقرر نہ کریں۔ یہ واقعتاً صرف مشورے کی بات ہے اگر پہلے سے کسی کے نوافل معمول میں ہوں تو اس کو ہم نہیں چھوڑاتے لیکن اگر کوئی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں ہم مشورہ کرنے کے بعد بتا دیتے ہیں کیونکہ بعض دفعہ نوافل سے بعض ضروری چیزوں کا حرج ہوتا ہے تو ایسی صورت میں پھر ان کو بتایا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی نے پہلے سے نوافل شروع کیے ہوئے ہوں تو ان کو چھوڑایا نہیں جاتا، البتہ اگر شروع کرنے کے لیے مشورہ کر لیں تو بہتر ہے۔

جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات درود شریف کی کثرت۔۔ یہ تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے یہ ہم سب کے لئے بہت بڑی نعمت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں اور جمعہ کے روز سورۃ کہف کی تلاوت کا خاص خیال رکھیں۔ یہ بھی اپنے آپ کو فتنوں سے بچانے کے لئے بہت بڑی چیز ہے۔ لہذا اس پر بھی ہم سب کو عمل کرنا چاہیے اور پوری امت کے لئے دعائیں کرنی چاہیے میرے لئے بھی دعا کرنا۔ جمعہ کا جو آخری وقت ہے۔

روزانہ کم از کم آدھا پارہ تلاوت کیا کریں اس میں حفاظ کرام کے لئے الگ معمول ہے اور جو حافظ نہیں ہیں ان کے لئے الگ معمول ہے۔ جو حافظ نہیں ہے اس کے لیے آدھا پارہ اور اگر قرات نہ کر سکے تو جلد اس کو سیکھنے اور مخارج کی درستگی کا بندوبست کریں، ہمارے لئے لازمی ہے۔ اپنے ہاتھ، زبان اور قلم کے شر سے ہر کسی کو بچائیں۔ جس چیز میں دین، دنیا کا فائدہ نہ ہو اس میں مشغول نہ ہوں۔ اس کو لایعنی والی بات کہتے ہیں۔ لایعنی سے بچنے کے لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اس سے بچنا چاہیے۔ کوشش کی جائے بشرط تحمل ہر کسی کو فائدہ پہنچایا جائے۔ بشرط تحمل عرض کیا ہے کیونکہ انسان فائدہ تو بہت زیادہ پہنچا سکتا ہے بہت ساری چیزوں میں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے آپ کو کوئی اور نقصان ہو جائے اس لیے بشرط تحمل عرض کیا گیا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی اورکوشش بھی کریں۔ خط کشیدہ بات کے لئے فقیر سے مشورہ بہتر ہو گا (بشرط تحمل اگر کسی کو فائدہ پہنچایا جائے)یہ وہ خط کشیدہ بات ہے اور واقعتاً اس کی تفصیل ہر ایک کے لئے مختلف ہوتی ہے۔ لہذا اس میں مشورہ زیادہ افضل ہے۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

I hope حضرت is well and the family also! I have a question that when a person attains نسبت , is it possible for that نسبت to go away if that person gets involved in sins? Can a person after attaining فنا go back to a state which was lower than فنا?

حضرت explained yesterday in the مجددی lessons that سیر الی اللہ ends when the رذائل are gone and a person has completed عالم الخلق . Could حضرت please explain this concept and also how is this attained in the چشتی سلسلہ? jazak allah khair. حضرت why is there a difference between حضرت خواجہ معصوم and خواجہ بنوری in lataif while they learnt from the same استاد?

Answer:

سبحان اللہ There are many many questions and these questions need too many explanations and I think it’s a broad chapter so in this short time probably it cannot be explained but I will just give you some hints. So if it is possible to understand okay. Otherwise we shall talk about this some other time ان شاء اللہ .

1. when a person attains نسبت is it possible for the نسبت to go away? Yes if he does not leave his رذائل or not finished and his فنا is not complete because فنا is of two types; فنا فی الصفات and فنا فی الذات. If it is فنا فی الصفات so it can again come to the lower state because فنا فی الصفات can change but فنا فی الذات cannot change. So therefore, one should go to فنا فی الذات and his شیخ tries to bring him to فنا فی الذات.

Can a person after attaining فنا go back?

Yes this question has been answered the same way.

حضرت explained yesterday in the مجددی lesson that سیر الی اللہ ends when the رذائل are gone.

Yes of course because if the رذائل are there so then it’s سیر الی اللہ is not complete because سیر فی اللہ is like طریقہ of صحابہ so therefore سیر الی اللہ should be complete first and that means that رذائل should be pressed and one should not be affected by the رذائل then. So therefore, these رذائل should go and it means تزکیہ نفس should be complete because on تزکیہ نفس complete تزکیہ, complete فلاح has been told in قرآن,

(قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ) (وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا) (الشمس: 9؛10)

So in چشتی طریقہ yes of course, because every طریقہ has his own method. So in چشتی طریقہ first, سلوک is completed. But it was in old چشتی سلسلہ and nowadays a چشتی سلسلہ also starts from ذکر but in this way just like چشتی طریقہ of حاجی امداد اللہ مہاجر مکی. But I should explain that in this, ذکر is given and because of that ذکر some جذب is attained and because of that جذب some part of سلوک is completed. It means some رذائل are removed and after that, more ذکر is given and because of that, more جذب is attained and because of that more جذب, more salook is achieved. Yes of course completed. And step by step this سلوک is completed with relevant جذب completion so this thing goes on.

And حضرت why these differences between حضرت خواجہ معصوم and خواجہ بنوری in the لطائف.?

of course these are اجتہادی because لطائف are there but their positions are اجتہادی because even the لطائف of latifa rooh lataif sirr latifa khafi latifa akhfa these لطائف are not present in چشتی مسلک although it's also correct مسلک but this is not present in that. They consider all لطائف in لطیفہ قلب because in قرآن only لطیفہ قلب has been explained and in احادیث شریفہ. Therefore, they think that everything is in لطیفہ قلب. But حضرات نقشبند they explain more in this way but in نقشبندی طریقہ also there are two opinions and one opinion is of حضرت بنوری who tells about لطائف in different manner than the معصومی طریقہ . But these both are اجتہادی and it is not you can say منصوص . So in منصوص thing also اجتہاد can be done so if this is not منصوص so that اجتہاد is definitely possible so this is the difference in اجتہاد.

سوال نمبر 21:

حضرت کل آپ نے تعلیمات مجددی کے درس میں عالم امر اور عالم خلق کے لطائف کا ذکر کیا تھا جس میں ولایت صغری یعنی دل کی اصلاح اور ولایت کبریٰ، نفس کی اصلاح ہے۔ حضرت اگر کسی کی نسبت چشتی، سہروردی یا قادری ہو تو کیا اس کو بھی عالم امر کے لطائف سے گزرنا پڑے گا یا صرف نقشبندی سلسلے سے وابستہ ہے اگر کسی کی نسبت قادری ہو تو اس کو بھی کیا اس طریقے سے چلایا جائے گا؟

جواب:

جیسے میں نے عرض کیا کہ حکمت یونانی طریقہ ہے، ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی اور آ کو پنکچر ہے۔ ان کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں تو ہر ایک اپنے اصول کے مطابق علاج کرتا ہے وہ دوسرے کے اصولوں کے مطابق علاج نہیں کرتا اور دونوں طریقوں سے لوگوں کو صحت ہوتی ہے۔ تو اسی طرح ہمارے بھی تصوف کے مختلف طریقے ہیں ان میں چشتی، نقشبندی، قادری اور سہروردی طریقہ ہے اور بھی سلسلے ہیں ان کے اپنے اپنے اصول ہیں اور اپنے اپنے فروع ہیں۔ اس وجہ سے ہم ان میں سے کسی ایک طریقے کو دوسرے طریقے کی بنیاد پر study نہیں کر سکتے، ہاں ممکن ہے ان میں کچھ چیزیں مشترک ہوں لیکن ضروری نہیں ساری چیزیں ایک جیسی ہوں، یہ شیخ کے اجتہاد پر ہوتا ہے کہ وہ کونسے طریقے کو لیتا ہے اور کس طریقے سے لیتا ہے، لہذا اس کی تفصیل میں تو جانا مشائخ کا کام ہے دوسرے لوگوں کا کام نہیں ہے البتہ میں اتنی بات عرض کروں گا تعلیم کے لیے عالم امر اور عالم خلق۔

یہ اصل میں دو باتیں ہیں یعنی ایک دل اور ایک نفس ہے۔ اب چشتی سلسلہ والے وہ لطیفہ قلب میں ہی سارے لطائف مانتے ہیں تو لہذا ان کا عالم امر ان کا دل ہو گیا اور عالم خلق ان کا نفس ہو گیا اور یہ دونوں چیزیں قرآن سے ثابت ہیں لہذا دونوں اس میں مشترک ہو گئے۔ البتہ تفصیل میں فرق ہے نقشبندی سلسلے کی تفصیل الگ اور چشتی سلسلے کی نفصیل الگ ہے۔ لہذا ہم تو ان کی تفصیل ان کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اپنے اپنے سلسلوں کے اپنے اپنے مجتہدین ہیں لہذا اس میں ہم بات نہیں کرتے لیکن چشتی، قادری یا سہروردی سلسلہ میں چونکہ سلوک سے ابتدا ہوتی تھی، سلوک سے ابتدا یہ عالم خلق سے ابتدا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ باقی سلسلوں میں تزکیہ نفس سے بات شروع ہوتی ہے، تزکیہ نفس کا مطلب عالم خلق سے، اس وجہ سے تزکیہ نفس پہلے ہونا چاھیے۔

آپ کو ایک بات بتاؤں انہی حضرات کے اپنے اپنے دو اصول ہیں، جو نقشبندی حضرات ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب روشنی آجاتی ہے تو اندھیرا بھاگ جاتا ہے یہ بات بالکل صحیح ہے اس سے کون اختلاف کر سکتا ہے اور جو باقی سلاسل ہیں وہ کہتے ہیں اگر برتن ناپاک ہو تو اس میں اگر پاک چیز ڈال دی جائے وہ بھی ناپاک ہو جائے گی، اب اس سے بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا یہ بات بھی صحیح ہے۔ تو دونوں کے اوپر اپنا اپنا فکر غالب ہے تو اس میں جو حضرات پہلے تزکیہ نفس کا کہتے ہیں وہ بھی درست ہے چونکہ شر تو نفس میں ہے اور اس نفس سے شر قلب میں آتا ہے کیونکہ ہر انسان نفسِ امارہ کے ساتھ اور ایک شیطان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئِنہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک دل کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہمارے نقشبندی حضرات کہتے ہیں چونکہ نفس کی اصلاح کے لیے تیار ہونا بھی ضروری ہے، اکثر لوگ تیار نہیں ہوتے اس کے لئے، تو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ پاک سے دعا کی کہ ہمیں کوئی آسان راستہ دیا جائے تو یہ طریقہ حضرت کو اللہ پاک نے القاء فرمایا، اس میں پہلے دل پر جذب کے لیے محنت ہوتی ہے کہ جذب حاصل ہو جائے اور اس جذب سے نفس کی اصلاح ہو جائے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ایک جذب کا اور ایک سلوک کا طریقہ ہے یہ بات بالکل غلط ہے کم از کم مجدد صاحبؒ اس کو نہیں مانتے۔ جتنے بھی سلاسل ہیں وہ جذب اور سلوک دونوں کو مانتے ہیں البتہ فرق صرف یہ ہے کہ باقی سلاسل سلوک پہلے طے کراتے تھے اور جذب بعد میں وہبی طور پہ مل جاتا تھا، جب کہ نقشبندی سلسلے میں بقول حضرت مجدد صاحبؒ کے جذب پہلے حاصل کیا جاتا ہے کسبی طور پر تاکہ سلوک پورا کرنے کے لیے انسان تیار ہو جائے۔ سلوک تو کرنا پڑتا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں اگر کسی نے سلوک طے نہیں کیا تو وہ مجذوب متمکن ہو جائے گا وہ نہ خود پہنچا ہوگا اور نہ ہی دوسرے کو پہنچا سکتا ہے، لہذا دونوں چیزیں کرنی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صرف نقشبندی میں جذب ہے اور باقی سلسلوں میں سلوک ہے۔ بلکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جذب کی مثال لفٹ سے اوپر چڑھنا ہے اور سلوک کی مثال سیڑھیوں سے اوپر چڑھنا ہے، یہ غلط بات ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں جذب یک دم حاصل ہوتا ہے لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں یعنی جس وقت جذب حاصل ہو جاتا ہے تو اس ذوق و شوق میں سلوک پر چلنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے لوہا ٹھنڈا ہو اس کو آپ موڑ نہیں سکتے جب موڑنا ہو تو اس کو گرم کریں جب گرم ہو جائے تو پھر اس کو موڑ بھی سکتے ہیں اس سے کوئی بھی چیز بنا سکتے ہیں لیکن اگر آپ نے صرف گرم کر کے چھوڑ دیا تو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ پھر تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا کل ہی حضرت نے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ سلوک بھی طے کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے جذب بھی حاصل کرنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 22:


Another question from مولانا

حضرت is it permissible for شیخ to mix the teachings of these different teachings of the سلاسل in order to teach a student of سلوک?

جواب:

Of course he can mix but it will be a newer technique. It will be another technique just like you can see many techniques have come into existence. Just as in چشتی نظامیہ some قادری techniques have been mixed with the چشتیہ . So it has become چشتیہ نظامیہ . So their different techniques can be mixed because of اجتہاد of a شیخ but that will become another technique.

سوال نمبر 23:

Could Hazrat please repeat the explanation of questions the brother ask about the مجدد with the lesson I didn’t understand please make me معاف

جواب:

I don’t understand if I answered him in Urdu so whether you understand Urdu or not?

سوال نمبر 24:

Another question has come is this معصومیہ there is a picture which has been shown to me.

جواب:

Of course it is معصومیہ yes. So I think yes of course your urdu is week so ان شاء اللہ I shall explain to you some other time because I should not confuse the other people.

سوال نمبر 25:

السلام علیکم حضرت جی امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ پاک آپ کی صحت اور عزت میں اضافہ فرمائے اور آپ کو سلامت رکھے آمین۔ حضرت جی میرا مراقبہ لطیفہ قلب کے دو ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ مجھے دل اللہ، اللہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے اب الحمد للہ،یہ محسوس ہونا کبھی تیز اورکبھی کم ہوتا ہے مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ ابھی آپ اس طرح کریں کہ لطیفہ قلب دس منٹ کا کریں اور اس کے ساتھ لطیفہ روح بھی پندرہ منٹ کے لیے شروع کریں یعنی لطیفہ روح اگر آپ جسم کو آدھا کریں تو درمیانی line سے دل جتنا بائیں طرف ہے تو اتنا اس سے دائیں طرف جو جگہ ہے اس کو لطیفہ روح کہتے ہیں۔ آپ اس پر بھی پندرہ منٹ کے لیے اللہ اللہ محسوس کریں۔ یہ ایک مہینے کے لیے ہے ان شاء اللہ العزیز۔

سوال نمبر 26:

اگر ایک بندہ مسلسل کئی سالوں سے ذکر کر رہا ہے اسے پھر بھی محسوس نہیں ہو رہا تو کیا اس کا سلوک طے ہو رہا ہے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے سبحان اللہ! بات یہ ہے کہ سلوک ذکر سے طے نہیں ہوتا، سلوک طے کرنے کے لیے اپنے طریقے ہیں۔ البتہ ذکر کے اپنے فوائد ہیں جس سے جذب حاصل ہوتا ہے یعنی یوں کہہ سکتے ہیں، چونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہر چیز کے لیے صفائی کا آلہ ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے لہذا دل کا تعلق ذکر کے ساتھ ہے اور نفس کے لیے مجاہدہ و ریاضت ہے۔ اگر کسی کو محسوس نہیں ہوتا تو ضروری نہیں ہے کہ وہ صرف ایک ہی طریقے پہ چلے کیونکہ جیسے ابھی میں بعض حضرات کو لطائف کا ذکر بتا رہا تھا اور بعض کو میں دوسرا ذکر بتا رہا تھا کیونکہ سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا بعض کی لطائف کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی یعنی بالخصوص مردوں میں یہ چیز بہت زیادہ ہے۔ ان کو پھر دوسرے ذکر کے طریقوں سے مناسبت ہو سکتی ہے، ان طریقوں پر چلا کر ان کے دل کو نرم کیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد سلوک کے طریقے پہ ان کو ڈالا جاتا ہے۔

سوال نمبر 27:

ایک آدمی کا اگر سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق ہے وہ اس پہ محنت کر رہا ہے اور اس کو اس لطیفہ پہ ذکر کرنے سے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تو کیا شیخ کی اجازت کے بغیر وہ کسی اور سلسلے کے شیخ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ کیا اس کے لیے پہلے شیخ کو اطلاع دینا ضروری ہے؟

جواب:

مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی اجازت دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تربیت مقصود ہے کوئی خاص شیخ مقصود نہیں، تربیت مکمل کرنا ضروری ہے اس کے لیے اگر کسی کو نقشبندی سلسلے کے ساتھ مناسبت نہیں کیونکہ سب کو سارے سلسلوں کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی تو اگر کسی کو by chance ایسا بزرگ مل جائے جو نقشبندی بزرگ سے بہتر ہو اور اس کو اس شیح سے مناسبت بھی ہو تو اس کے ساتھ اپنا رابطہ کرے تاکہ وہ اپنا کام شروع کرے۔ میں آپ کو وہ مکتوب بھی دے دوں گا جس میں حضرت نے اس بارے میں فرمایا ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح سے غرض ہے۔ باقی تصوف کے سلسلوں کے جتنے بھی طریقے ہیں ان میں سے کوئی طریقہ فرض واجب نہیں ہے یہ ذرائع ہیں اور اپنے مقصود تک پہنچنا ہے اور مقصود کیا ہے؟ یعنی وہ ہے (قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا) (وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا) (الشمس:10،9)۔ ہمارے نفس کی اصلاح ہو جائے اور ہمارے رذائل دب جائیں اور شریعت پر ہم آسانی کے ساتھ چلنے لگیں اور ہمارے عقائد بالکل صحیح ہوں، بس یہ ہمارا بنیادی مقصد ہے اس کے لیے ساری کوشش ہے۔ اگر ایک طریقہ سے وہ حاصل نہیں ہوتی تو کسی دوسرے طریقہ سے حاصل ہو سکتی ہے۔

جہاں تک شیخ کو اطلاع کرنے کی بات ہے یہ کوئی ضروری نہیں ہے بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہتر ہے کہ نہ دے کیونکہ انسان ہیں تو ان کے دل کے اوپر اثر ہو گا، چونکہ شیخ تو ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ بات بھی اس کو نہیں کرنی چاہیے تو ان کے دل کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ اگر وہ سمجھتا ہے تو بیشک استخارہ کر لے اچھی طرح convince ہو تو پھر کرے اور اس کو فائدہ نظر آئے تو کسی اور شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ کر لے۔

سوال نمبر 28:

بعض حضرات ایسا کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر اپنی اصلاح کراتے ہوئے بظاہر ان کو اگر کوئی فائدہ محسوس نہیں ہوتا تو اس کی وجہ سے شیخ تبدیل کرتے رہتے ہیں کہ مجھے فائدہ نہیں ہو رہا اس میں حالانکہ ان کو اس وقت نسبت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ میری نسبت نقشبندی سلسلے کے ساتھ ہے یا نہیں ہے بعض اوقات انسان کا اپنا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ جو اس شیخ نے چیزیں بتائی ہیں وہ بھی نہیں کر رہا ہوتا شیخ کے بار بار بدلنےکی وجہ سے۔

جواب:

ہاں بالکل صحیح ہے میں جو چیز سمجھا ہو وہ میں عرض کر سکتا ہوں آپ نے جو بات فرمائی یہ ایسی صورت میں ہے کہ ایک شخص جیسے ابھی ایک صاحب کو میں نے کافی ڈانٹا اس بات پہ کہ وہ کہتا ہے بس بیعت ہو گیا تو پھر اس کے بعد سارا کچھ بھول گیا تھا تو ظاہر ہے اس کی غلطی ہے کیونکہ اس کو کم از کم رابطہ رکھنا چاہیے تھا اور طریقہ کار سیکھنا چاہیے تھا اور اگر کام نہ ہوتا تو پھر کوئی بات تھی۔ لہذا اس نے تو خود ہی بتایا تھا کہ بھول چکا ہوں کہ مجھے کیا دیا گیا تو اس میں کمزوری والی بات ہے تو اگر کوئی کمزوری ہو تو اس میں پھر انسان کو اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا۔ لیکن ایک شخص کوشش کر رہا ہے بار بار کوشش کر رہا ہے اور مسلسل ذکر بھی کر رہا ہے لیکن اس کو ایک خاص طریقہ سے فائدہ نہیں ہو رہا تو ایسی صورت میں وہ بالخصوص عالم بھی ہو اگر ایک عام آدمی ہو تو اس کو ان چیزوں کی آ گاہی نہ ہو لیکن ایک شخص عالم ہے اس کو کم از کم اس چیز کی اہمیت کا احساس ہے وہ کر بھی رہا ہے لیکن پھر بھی نہیں ہو رہا تو کم از کم اگر اس کو اس پر شرح صدر نہیں ہو رہا اتنے عرصے سے۔ تو ہم ایک خاص طریقے کے پابند نہیں ہیں بلکہ ہم اصل میں تو تربیت چاہتے ہیں اور تربیت کیا ہے ہمارے نفس کی اصلاح ہو جائے ہمارا قلب، قلبِ سلیم ہو جائے نفس، نفسِ مطمئنہ ہو جائے عقل، عقلِ فہیم ہو جائے بس یہ تین چیزیں ہماری ٹھیک ہو جائیں ہماری بنیاد یہی ہے یہ جہاں سے بھی ہو جائے تو ٹھیک ہے اب اگر اس میں بار بار محنت کرنے کے باوجود بھی اگر تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی جیسے مثال کے طور پر ہمارے بعض ابھی ساتھی آپ نے دیکھا کہ وہ بتا رہے تھے کہ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا ہے تو میں ان کو دوسرے طریقے بتا رہا ہوں صرف ایک طریقہ نہیں ہے ہمارے پاس کیونکہ ہم تو الحمد للہ دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کو قادری نسبت کے ساتھ مناسبت ہے تو ان کو قادری طریقے پہ چلاتے ہیں، اگر کسی کو سہروردی نسبت کے ساتھ مناسبت ہے تو ان کو سہروردی طریقے پہ چلاتے ہیں، اگر کسی کو نقشبندی نسبت کےساتھ مناسبت ہے تو ان کو نقشبندی طریقے پہ چلاتے ہیں۔ ہماری اس پہ تحقیق ہے کہ خواتین کو نقشبندی سلسلے کے ساتھ تقریباً تقریباً مناسبت ہوتی ہے کیونکہ ان کے لئے اخفیٰ ہے اور جلدی ان کو یہ چیزیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مردوں میں انتشارِ ذہنی ہوتا ہے کاموں کی نوعیت کی وجہ سے، اس انتشارِ ذہنی سے ان کو نکالنے کے لئے یا تو شیخ کی صحبت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جس کی اپنے شیخ سے صحبت بہت زیادہ ہو تو وہ انتشارِ ذہنی سے نکل سکتا ہے شیخ کی توجہ سے۔ جیسے جس کو کہتے ہیں "انعکاسی" اس کے اوپر اتنی غالب ہو جائے کہ وہ جو کمی ہے پوری ہو جائے یا پھر کسی اور طریقے سے کروا دیا جائے تو یہ بات پھر ممکن ہے۔ اگر پہلے والی صورت ممکن ہے تو دوسری صورت پہ ہم نہیں جائیں گے لیکن اگر پہلی صورت ممکن نہیں تو پھر کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے۔

سوال نمبر 29:

کیا اس کے لیے اصلاح کا پتہ ہونا ضروری ہے کیونکہ بعض لوگ جس بیان میں زیادہ مزہ آئے یا لباس وغیرہ میں اس کو اس طرح سمجھتے ہیں؟

جواب:

مزے والی بات تو خیر اس میں ہے ہی نہیں بنیادی بات جو میں قرآن و سنت کے مطابق کرتا ہوں ہمارے ہاں اس میں تو لباس کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا) (وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا) (الشمس:10،9)، (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ) (إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ) (الشعراء:89،88) اصل میں تو یہی چیزیں بنیاد ہیں قلبِ سلیم، نفسِ مطمئنہ اور عقلِ فہیم حاصل کرنا۔ ابھی حدیث شریف گزری ہے جس میں فرمایا: انسان اعمال کرتا ہے سب کچھ کرتا ہے لیکن اس کو قیامت میں جو اجر ملے گا اس کی عقل کے مطابق ملے گا "الا بقدر عقلی" تو اس کا مطلب ہے کہ معرفت حاصل کرناعقل والی بات ہے وہ بھی مطلوب ہے، تو یہ تینوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پہ مطلوب ہیں۔

سوال نمبر 30:

کیا جب آدمی کو اصلاح کا صحیح مفہوم پتا ہو تو کیا وہ دوسرے شیخ کے پاس جا سکتا ہے؟

جواب:

یقیناً اصلاح کا مفہوم ہونا چاہیے تو اس کے لیے تو میں نے کہا کہ پورا شرح صدر ہونا چاہیے شرح صدر کا مطلب یہ ہے کہ وہ تحقیق کر لے کہ یہ کیا چیز ہے؟ مطلب اس کو سلسلوں کا جو مفہوم ہے وہ معلوم ہونا چاہیے اس کے لیے باقاعدہ سوچیں استخارہ کریں مطلب ساری چیزیں کر کے پھر اس کے بعد نتیجہ نکالیں تو مناسب ہوگا۔

سوال نمبر 31:

جیسےحضرت مجدد الف ثانیؒ وہ فرماتے ہیں کہ یہ جو مجذوب متمکن ہوتا ہے اس سے بظاہر نیے آدمی کو فائدہ زیادہ ہوتا ہے اس کی طرف لوگ متوجہ بھی ہو رہے ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟

جواب:

یہ بات بالکل صحیح ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ جو مجذوب متمکن ہوتا ہے یہ متوسط کی طرح ہوتا ہے اور جو متوسط ہوتا ہے اس کی طرف لوگ زیادہ متوجہ ہوتے ہیں چونکہ ان کی توجہ بھی زیادہ ہوتی ہے اس میں کشش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ایک شخص ہے اس کا بیٹا فوت ہو گیا تو جو منتہی مرجوع ہو گا وہ آپ ﷺ کے طریقے پہ ہو گا اس کو غم ہو گا لیکن غم پہ قابو ہو گا سنت کے مطابق وہ چل رہا ہو گا اور جو مجذوب متمکن ہو گا یا متوسط ہو گا وہ ہنس پڑے گا، تو لوگ ایسے لوگوں کو زیادہ prefer کرتے ہیں ان کی توجہ بھی زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں ایسے لوگ تقریباً لوگوں کے لیے رکاوٹ بن جاتے ہیں تو ان کے لیے حضرت نے فرمایا ہے کہ اس کی طرف نہیں جانا بلکہ ان کو چاہیے کہ منتہی مرجوع کی طرف ان کو مائل کرے اور راستے کا ڈاکو نہ بنے۔ تفصیلات حضرت مجدد صاحبؒ کے مکتوبات سے ہی معلوم ہو سکتی ہیں تو ان کو دیکھ لیں ساری چیزیں مطلب سمجھ میں آ جائیں گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 32:

ویسے میرے ذہن میں آ رہا ہے کہ کوئی طریقہ اختیار ایسا کرنا چاہیےکہ جو آدمی شیخ بدلنا چاہتا ہے تو اس سے پہلے interview کر لینا چاہیے کہ بھائی کس لیے آپ بدلنا چاہتے ہیں؟ کوئی اور کر لے بیشک اگر اس کو اصلاح کا صحیح مفہوم پتا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر عام معاشرے میں جس کو اصلاح سمجھا جاتا ہے کہ آدمی بظاہر نمازی بن جائے یا لباس تبدیل کر لے یا کوئی اور کسی طریقے سے جیسے بندہ نیک نظر آتا ہے تو اس طریقے سے اگر وہ اس کو اصلاح سمجھتا ہے تو پھر اس کو روک دیا جائے کہ بھائی آپ جس شیخ کے پاس ہیں وہ ٹھیک ہیں۔

جواب:

اصل میں بات بتانے کے مختلف انداز ہیں۔ میں نے جو بات عرض کی وہ یہی کی کہ پہلے سے تحقیق کر لے استخارہ، استشارہ، معلومات اور مطالعہ کر لے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے۔ جب یہ ساری چیزیں clear ہوں تو پھر اگر اس کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو پھر تو ٹھیک ہے، اصل میں یہ شخص عالم تھا تو اس وجہ سے میں نے یہ بات کی اللہ عمل کی توفیق دے آمین۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ۔