ولایت عشرہ اور ولایت سہ گانہ کی تشریح

درس 34

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پچھلے درس میں ’’ولایتِ عشرہ‘‘ اور ’’ولایتِ سہ گانہ‘‘ کی تشریح ہو رہی تھی کہ وقت ختم ہو گیا تھا۔ چونکہ یہ موضوع کافی تفصیلی ہے، اس لئے ہم اس کو دوبارہ اس طرح شروع کریں گے کہ جو چیزیں رہ گئی ہیں، وہ پوری ہو جائیں۔

دفتر اول مکتوب نمبر 260 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اے فرزند! اللہ تعالیٰ سبحانہٗ تم کو سعادتمند کرے، جاننا چاہئے کہ عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں: قلب، روح، سر، خفی اور اخفٰی، جو انسانی عالمِ صغیر کے اجزاء ہیں، ان کے اصول عالمِ کبیر میں ہیں، جس طرح عناصرِ اربعہ جو کہ انسان کے اجزاء ہیں اور اپنے اصول عالمِ کبیر میں رکھتے ہیں۔ اور ان پنجگانہ لطائف کے اصول کا ظہور عرش کے اوپر ہے جو لامکانیت سے موصوف ہے یہی وجہ ہے کہ عالمِ امر کو لامکانی کہتے ہیں۔

تشریح:

حضرت اس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ پانچ لطائف قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ، یہ عالمِ امر سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی جسم میں ان کے سرے موجود ہیں، یعنی یہاں سے ان کو متحرک کیا جا سکتا ہے، فعّال کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی جڑیں عالمِ کبیر میں، یعنی عرش سے بھی اوپر ہیں۔ اس وجہ سے اس عالمِ کبیر کو لا مکان کہتے ہیں، کیونکہ مکان کی حد یہاں ختم ہو جاتی ہے، اس لئے عالمِ امر کو بھی لا مکانی کہتے ہیں۔

نقشبندی سلسلہ میں دس لطائف پر محنت ہوتی ہے۔ پانچ لطائف عالمِ امر کے ہیں اور پانچ عالمِ خلق کے ہیں۔ عالمِ امر کے لطائف کا تو یہاں ذکر ہو گیا۔ عالمِ خلق کے لطائف میں نفس اور قالب کے چار، یعنی آب، آتش، باد اور خاک شامل ہیں۔ یوں پانچ لطائف عالمِ خلق کے ہیں اور پانچ عالمِ امر کے ہیں۔ نقشبندی سلسلہ میں عالمِ امر کے لطائف سے کام شروع ہوتا ہے، لیکن تکمیل عالمِ خلق کے لطائف پر ہوتی ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مکتوبات شریفہ میں اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ یہ مختلف افراد کے نام لکھے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا حال جدا جدا تھا، اور ہر ایک کا علم اور مقام بھی جدا جدا تھا۔ لہٰذا جس کا جو مقام اور جو علم ہوتا تھا، اس کے مطابق حضرت ان کو تفصیلات بیان فرماتے تھے، اس لئے بعض جگہ پر تفصیل زیادہ ہے، بعض میں علمی اشکالات کے جوابات زیادہ ہیں، بعض جگہوں پر اختصار ہے۔ تعلیماتِ مجددیہ میں ان سب کو یکجا دیکھا جاتا ہے، کیونکہ اس سے ایک نتیجہ نکالنا مقصود ہوتا ہے، اور یہاں پر چونکہ تعلیمات کا ذکر ہو رہا ہے، لہٰذا ان تمام مکتوبات کو دیکھنا ہو گا، جن میں اس موضوع کا ذکر آیا ہے۔

مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں:

متن:

دائرۂ امکان (تمام ممکنات) خواہ وہ خلق ہو یا امر، خواہ وہ صغیر ہو یا کبیر، ان اصول کی نہایت تک تمام ہو جاتا ہے۔

تشریح:

ایک ہوتا ہے ’’واجب‘‘، اور ایک ہوتا ہے ’’ممکن‘‘۔ ممکنات دائرۂ امکان میں شامل ہیں۔ دونوں قسم کے لطائف یعنی عالمِ خلق کے لطائف اور عالمِ امر کے لطائف، دونوں دائرۂ امکان یعنی ممکنات میں آتے ہیں، اور عالمِ صغیر (یعنی ہمارا جسم) اور عالمِ کبیر (یعنی پوری کائنات) یہ بھی ممکنات میں آتے ہیں۔ اور دائرۂ امکان ان لطائف کے اصول کی نہایت تک تمام ہو جاتا ہے۔

متن:

اور عدم کا وجود سے ملنا جو امکان کا منشاء ہے اس مقام میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

تشریح:

تمام چیزیں عدم سے ہی وجود میں آئی ہیں۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اس پر بڑی تفصیل کے ساتھ مکتوب نمبر 234 میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ الله جل شانهٗ نے ہر چیز کو عدم سے پیدا کیا ہے اور عدم میں شر ہی شر ہے، الله جل شانهٗ کی تجلی وجودی سے ان کی ترقی ہوتی ہے اور عروج ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پھر وہ وجود میں آ جاتا ہے، لیکن وہ وجود الله جل شانهٗ کی تجلی وجودی کی وجہ سے ہوتا ہے، یعنی اس میں واجب الوجود والے وجود کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ممکن الوجود ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وجود میں آتا ہے، جتنا اللہ تعالیٰ اس کو عروج نصیب فرماتے ہیں، اسی کے مطابق ترقی پاتا ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں:

متن:

اور جب سالک رشید محمدی المشرب عالمِ امر کے پنجگانہ لطائف کو ترتیب وار طے کر کے ان کے اصول میں جو کہ عالمِ کبیر میں ہیں، سیر کرتا ہے اور بلند فطرتی بلکہ محض فضلِ خداوندی جل شانہ، سے ان سب کو ترتیب اور تفصیل کے ساتھ طے کر کے ان کے اخیر نقطے تک پہنچتا ہے توا س وقت وہ دائرہ امکان کو سیرالی اللہ کے ساتھ تمام کر لیتا ہے اور فنا کے اسم کا اطلاق اپنے اوپر حاصل کر کے ولایتِ صغریٰ میں جو کہ ولایتِ اولیاء ہے سیر شروع کرتا ہے۔

تشریح:

یہاں حضرت نے بالکل صاف فرمایا کہ یہ ترتیب محمدی المشرب لوگوں سے متعلق ہے۔ اصل میں کچھ حضرات محمدی المشرب ہوتے ہیں اور کچھ اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ مکتوب نمبر 287 میں محمدی المشرب کی بڑی تفصیل بتائی گئی ہے۔ محمدی المشرب حضرات کا سلوک علیحدہ طریقہ سے طے ہوتا ہے اور غیر محمدی المشرب حضرات کا سلوک علیحدہ طریقہ سے طے ہوتا ہے۔ محمدی المشرب حضرات دونوں فیض آپ ﷺ کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں، اور غیر محمدی المشرب حضرات کا تکوینی فیض کسی اور نبی کے قدم میں ہوتا ہے۔ غیر محمدی المشرب حضرات صفات کے ذریعہ سے، جبکہ محمدی المشرب حضرات ذات کے ذریعہ سے ترقی کرتے ہیں۔ یہ تمام تفصیلات مکتوب نمبر 287 میں موجود ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی محمدی المشرب نہیں ہے تو یہ چیز اپنے لئے نہ سمجھے، اس کے لئے بات اور ہے۔

بہت سارے لوگوں کو یہی غلط فہمی ہے، وہ سمجھتے ہیں، حضرت نے چونکہ فرمایا ہے کہ سلوک اسی عالمِ امر کے سیر میں ہی طے ہو جاتا ہے، اس لئے ہر شخص جو عالمِ امر کے لطائف طے کر لے، اس کا سلوک طے ہو گیا۔ حالانکہ حضرت نے یہ بات محمدی المشرب لوگوں کے لئے فرمائی ہے، سب لوگوں کے لئے یہ ترتیب نہیں ہے۔ محمدی المشرب حضرات کے علاوہ باقی لوگوں کو باقاعدہ سلوک طے کرنا پڑتا ہے۔ اُن کے لئے علیحدہ اسباب ہیں اور اِن کے لئے علیحدہ اسباب ہیں۔ غیر محمدی المشرب لوگوں کے بارے حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ جب تک یہ باقاعدہ سلوک طے نہ کریں، تب تک یہ کامل نہیں ہوتے، بلکہ مجذوب متمکن رہ جاتے ہیں۔ ان کی سیر الی اللہ کی تکمیل بغیر سلوک طے کئے نہیں ہو سکتی۔

متن:

اور فنا کے اسم کا اطلاق اپنے اوپر حاصل کر کے ولایتِ صغریٰ میں جو کہ ولایتِ اولیا ہے سیر شروع کرتا ہے۔

تشریح:

فنا کے بارے میں بھی حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ مکتوب نمبر 287 میں بیان فرمایا ہے کہ فنا کیسے حاصل ہوتی ہے۔ اس میں حضرت نے فرمایا کہ اگر فنا کسی صفت کی وجہ سے ہے تو اس پر فنا فی اللہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر کسی کو صفتِ رزاقیت کے ذریعہ سے فنا حاصل ہو گیا، تو ابھی اس کو فنا فی اللہ نہیں کہہ سکتے، صرف فنا فی الرزاقیت کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اللہ پاک اس کو اچھا رزق دے رہے ہوں، اس وقت تک تو وہ فنا رہے اور جس وقت اس کے اوپر کوئی تنگی آ جائے، وہ سب چیزیں چھوڑ دے اور دوبارہ واپس ہو جائے۔ اس کو عود کہتے ہیں۔ اگر ذات میں فنا ہو جائے تو پھر دوبارہ واپس نہیں آتا، لیکن اگر کسی صفت میں فانی ہے تو اس کے اوپر فنا فی اللہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہاں پر چونکہ محمدی المشرب لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے، ان کا فنا تو اس ذریعہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا کہ تمام ممکنات چاہے وہ عالمِ خلق سے متعلق ہیں یا عالمِ امر کے ساتھ، خواہ عالمِ صغیر میں ہیں یا عالمِ کبیر میں، اس اصول کی انتہا پر ختم ہو جاتے ہیں، اس کے آگے پھر عدم، جس سے امکان وجود میں آیا ہے، وہ بھی اس مقام میں متحقق ہو جاتا ہے اور جب محمدی المشرب سالک ان پانچ عالمِ امر کے لطائف کو ترتیب وار طے کرتا ہے، تو عالم کبیر میں سیر سے مشرف ہو جاتا ہے اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترتیب و تفصیل کے ساتھ طے کر کے آخری نقطے پر پہنچ جاتا ہے، تو اِس سیر کے ساتھ وہ دائرۂ امکان کی سیر کو سیر الی اللہ کے ساتھ مکمل کرتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے، جس کے بعد ولایتِ صغریٰ جو اولیاء کی ولایت ہے، اس میں سیر شروع کرتا ہے۔ اس میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تفصیل محمدی المشرب سالکین کے لئے ہے، جیسا کہ خط کشیدہ حصے سے واضح ہے۔ حضرت نے خود اس کو ارشاد فرمایا۔

متن:

اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ و تقدس کے اسمائے و جوبی کے ظلال میں جو حقیقت میں عالم کبیر کے ان پنجگانہ لطائف کے اصول ہیں اور جن میں عدم کی کچھ آمیزش نہیں ہے سیر واقع ہو جائے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ جل سلطانہ کے فضل سے سیر فی اللہ کے طریق سے طے کر کے ان کی نہایت تک پہنچ جائے تو وہ اسمائے وجوبی کے ظلال کے دائرے کو بھی پورا کرلیتا ہے اور اللہ جل سلطانہ کے اسماء و صفات واجبی کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔ ولایتِ صغریٰ کے عروج کی نہایت یہیں تک ہے۔ اس مقام میں حقیقت فنا کا آغازِ متحقق ہوتا ہے اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا میں جو کہ ولایتِ انبیا علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات ہے قدم رکھا جاتا ہے۔

تشریح:

عالمِ کبیر کے ان پانچ لطائف کے اصول اسمائے وجوبی کے ظلال میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچوں لطائف کی جڑیں (یعنی جہاں سے شروع ہوتے ہیں) الله جل شانهٗ کے اسمائے وجوبی کے ظلال میں ہیں۔ (یعنی خود اسمائے وجوبی میں نہیں ہیں، بلکہ ان کے ظلال میں ہیں) در اصل ایک اصل چیز ہوتی ہے اور ایک اس کا ظل ہوتا ہے۔ ان پانچوں لطائف کے اصول اسمائے وجوبی کے ظلال میں ہیں، ان میں عدم کی کوئی آمیزش نہیں ہے، کیونکہ اسمائے وجوبی میں اس کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ پس اگر وہ سالک اسمائے وجوبی کے ظلال کی سیر کو سیر فی اللہ کے طریقہ پر طے کرے تو یہ اسمائے وجوبی کے ظلال کے دائرے میں پہنچ جائے گا، جو کہ ولایتِ صغری کی انتہا ہے۔ اس کے بعد محمدی المشرب سالک ولایتِ کبریٰ میں قدم رکھ لیتا ہے۔

یوں سمجھئے کہ ایک ہوتا ہے سیر الی اللہ، جس وقت انسان اپنے نفس کے رذائل کو دباتا رہتا ہے، اور ابھی تک اس کی تکمیل نہیں ہوئی ہوتی، اس وقت تک وہ سیر الی اللہ میں چل رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی تکمیل ہو جاتی ہے اور نفس کے رذائل دب جاتے ہیں، تب سیر الی اللہ ختم ہو جاتا ہے اور سیر فی اللہ شروع ہو جاتا ہے۔

میں اس کو ذرا اور آسانی کے ساتھ سمجھانے کے لئے عرض کروں گا تاکہ آج کل کی زبان میں سمجھ میں آ جائے۔ حضرت نے تو اپنے وقت کی زبان کے حساب سے بات کی ہے، جو سمجھنا ذرا مشکل ہے، لیکن آج کل کی زبان میں اگر سمجھنا چاہیں تو اس طرح ہے کہ الله جل شانهٗ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا O فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا O قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها O وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها﴾ (الشمس: 7-10)

ترجمہ: ’’اور (قسم ہے) انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔ ‘‘

یعنی ہر انسان کے نفس کے اندر اللہ پاک نے دو چیزیں رکھی ہیں، ایک اس کے فجور ہیں، اس کے تقاضے ہیں، جن کو ہم رذائل کہتے ہیں، اور دوسری چیز تقویٰ ہے، جو ان رذائل کی ضد ہے، اور ان سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ دو چیزیں ہر نفس کے اندر موجود ہیں، بالکل ایسے جیسے اندھیرا اور روشنی دونوں کسی بھی ایک جگہ میں ہو سکتے ہیں، یعنی ہر جگہ ان دونوں کی صلاحیت ہوتی ہے کہ اس میں اندھیرا بھی ہو سکتا ہے اور روشنی بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً اِس کمرے میں روشنی ختم کر لو تو اندھیرا ہو جائے گا اور اگر روشنی آ جائے تو اندھیرا ختم ہو جائے گا۔ دونوں چیزیں بیک وقت نہیں ہوتیں، لیکن دونوں کی صلاحیت ہر وقت موجود ہے۔ اسی طرح نفس کے اندر بھی دونوں کی صلاحیت موجود ہے، یا تو یہ فجور کے پیچھے جائے گا یا تقویٰ کے پیچھے جائے گا۔ اگر تقویٰ پہ ہے تو فجور پہ نہیں ہے، اگر فجور پر ہے تو تقویٰ پہ نہیں ہے۔ جب تک رذائل ہیں تو مکمل تقویٰ حاصل نہیں ہوا، جب رذائل ختم ہو جائیں گے تو متقی ہو جائے گا۔ چنانچہ جس وقت تک سیر الی اللہ ہو رہا ہوتا ہے، اس وقت تک یہ رذائل کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ کم ہو رہے ہوتے ہیں، لیکن کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے نفس سے مکمل خلاصی نہیں ہوئی ہوتی۔ اس حال کو کہتے ہیں: فنا کی غیر موجودگی۔ یعنی ابھی فنا نہیں ہے۔ فنا اصل میں نفس کے رذائل کا ختم ہونا ہے۔ جب تک نفس کے رذائل موجود ہیں، فنا نہیں ہے۔ لہٰذا ان رذائل کو دور کرنے اور ان کو دبانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ جب رذائل دب گئے تو اس شخص کو فنا حاصل ہو گیا۔ رذائل دب گئے اور اس کو تقویٰ حاصل ہو گیا، یہ اندھیرے سے روشنی میں آ گیا۔ اس کو کہتے ہیں کہ سیر الی اللہ کی تکمیل ہو گئی۔ ہم لوگ یہ محنت کر کے حاصل کرتے ہیں، جبکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کو یہ چیز آپ ﷺ کی صحبت سے حاصل ہوئی تھی۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) جب ایمان لے آتے تھے تو ایمان کے ساتھ ہی آپ ﷺ کے قلب کی روشنی کی برکت سے ان کا سیر الی اللہ مکمل ہو جاتا تھا، لہٰذا اس کے بعد ان کا سیر فی اللہ ہوتا تھا۔ سیر فی اللہ شریعت پر چلنا ہے، شریعت پر چلنے کا مطلب ہے، نماز کا وقت آئے تو نماز پڑھنا، روزے کا وقت آئے تو روزہ رکھنا، زکوۃ کا وقت آ جائے تو زکوۃ دینا، حج کا وقت آئے تو حج کرنا۔ اسی طرح معاملات، معاشرت اور اخلاق میں شریعت پر چلنا۔ اس میں انسان جتنا شریعت پر چل رہا ہوتا ہے، اتنا سیر فی اللہ میں اس کی ترقی ہو رہی ہوتی ہے۔

ایک صحابیٔ رسول ﷺ شہید ہو گئے اور دوسرے صحابی ان سے ایک سال بعد فوت ہوئے۔ یہ دونوں ایک وقت میں مسلمان ہوئے تھے۔ کسی نے خواب میں دیکھا کہ جو بعد میں فوت ہوئے وہ پہلے فوت ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل ہو گئے۔ آپ ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ پہلا تو شہید ہوا تھا اور بعد والا ویسے فوت ہوا ہے، یہ جنت میں ان سے جلدی کیسے داخل ہو گیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے ان کے ایک سال کے روزے، ایک سال کی نمازیں اور ایک سال کے اعمال کی طرف نگاہ نہیں کی ہے کہ اس نے یہ اعمال کئے ہیں؟

اس کا مطلب ہے کہ انسان اعمال کر رہا ہوتا ہے تو سیر فی اللہ میں ترقی ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ نمازیں پڑھ رہا ہے، روزے رکھ رہا ہے، حج کر رہا ہے اور جو بھی اعمال کر رہا ہے، ان سے اس کی ترقی ہو رہی ہے۔ یہ ترقی ساری کی ساری سیر فی اللہ ہے۔ اس سیر فی اللہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو ایک ہزار سال کی عمر دی گئی تو ایک ہزار سال تک کماتے رہیں گے اور کم عمر دی گئی تو اس کے مطابق اعمال کرتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ اعمال کے معیار کے مطابق بھی بات ہو گی۔ کسی کے اعمال کا معیار بہت زیادہ ہو گا، ان میں اخلاص بہت زیادہ ہو گا۔ کسی کا معیار کم ہو گا، ان میں اخلاص کم ہو گا۔ ہم جتنی بھی محنت کر لیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے برابر اخلاص نہیں لا سکتے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ایک مد خرچ کریں گے تو وہ دوسروں کے احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے زیادہ ہو گا۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ سیر الی اللہ کی تکمیل کے بعد شریعت پر چلنے کا نام سیر فی اللہ ہے۔ اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیر فی اللہ سے مراد ہے: طریقِ صحابہ پر چلنا۔ میں نے یہ اس لئے کہا کہ عموماً لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ سیر فی اللہ کیا چیز ہے۔ سیر فی اللہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے پانے کے اعمال ہیں، وہ سارے اعمال کرنا اور ان کے ذریعے ترقی حاصل کرنا، یہ سیر فی اللہ ہے۔ ”فی“ کا لفظ بعض لوگوں کو ذرا پریشان کرتا ہے۔ اللہ پاک فرماتےہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

لہٰذا جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ترقی نصیب فرماتے ہیں، قرب نصیب فرماتے ہیں۔ تو سیر فی اللہ کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں باقاعدہ یہ کہا گیا ہے کہ سیر فی اللہ میں مرید بھی شیخ سے آگے نکل سکتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ سیر فی اللہ میں ہے تو سیر فی اللہ میں شیخ بھی چل رہا ہے، سیر فی اللہ میں مرید بھی چل رہا ہے، عین ممکن ہے کہ مرید کے اعمال پیر کے اعمال سے آگے بڑھ جائیں، کیونکہ ہر شخص کا اپنا اپنا میدان ہے۔

چنانچہ عالمِ امر کے لطائف کے ذریعے قلب کی صفائی یعنی عالمِ امر کے لطائف کی ترقی کو ولایتِ صغریٰ کہتے ہیں۔ اور نفس کی صفائی کو ولایتِ کبریٰ کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها O وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها﴾ (الشمس: 9-10)

یہان جس چیز کے لئے ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها﴾ کہا گیا ہے، یہ ولایت کبریٰ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نفس کی اصلاح ولایتِ کبریٰ ہے اور دل کی اصلاح ولایتِ صغریٰ ہے۔

حضرات نقشبند کے ہاں ترتیب یہی ہے کہ پہلے ولایتِ صغریٰ حاصل کی جاتی ہے، یعنی عالمِ امر کے لطائف کے ذریعے قلب کی صفائی کی جاتی ہے۔ آگے اس کی تفصیل آئے گی ان شاء اللہ۔ لیکن یہ موٹی موٹی باتیں میں پہلے اس لئے عرض کرتا ہوں، تاکہ کم از کم مضمون سمجھ میں آ جائے۔

متن:

جاننا چاہئے کہ وہ دائرہِ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ تمام مخلوفات کے مبادی تعینات کو شامل ہے اور ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے یہاں تک کہ حضرت صدیقؓ جو انبیاء علیہم الصلٰو ۃ و التسلیمات کے بعد افضل البشر ہیں ان کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔

تشریح:

یعنی جس ظلال کے دائرہ میں سالک ابھی قدم رکھ رہا ہے، یعنی جب ولایتِ صغریٰ کی انتہا ہو گئی اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا ہو گئی تو وہ دائرۂ ظل میں داخل ہو گیا۔ فرمایا کہ یہ دائرۂ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام کے علاوہ تمام مخلوقات کے تعینات کے مبادی پر مشتمل ہے اور ہر اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے اور ابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔

اصل میں الله جل شانهٗ کے اسمائے مبارکہ پر پوری کائنات چل رہی ہے۔ انبیائے کرام اور ملائکۂ عظام کے علاوہ تمام مخلوق کے تعینات کے مبادی ان اسمائے مبارکہ کے ظلال ہیں۔ انبیائے کرام کا اور ملائکہ عظام کا اپنا نظام ہے، اس کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، الله جل شانهٗ کے ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے۔ مبداء تعین اس کو کہتے ہیں، جہاں سے وہ چیز وجود میں آئی ہے۔ جیسے میں نے کہا کہ تجلیٔ وجودی سے چیز عدم سے وجود میں آتی ہے۔ اسی طرح جس اسم کے ظل سے وہ وجود میں آیا ہے، اس کو مبداء تعین کہتے ہیں۔ یہ ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کا مبداء تعین ایک اسم کا ظل ہو گا، کسی اور کا مبداء تعین دوسرے اسم کا ظل ہو گا، کسی اور کا مبداء تعین تیسرے اسم کا ظل ہو گا، تو ہر ایک کا اپنا اپنا مبداء تعین ہو گا۔ اس میں اشتراک بھی ہوتا ہے، کیونکہ اپنے اعتبارات کے لحاظ سے ایک ہی نام میں کئی لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے، چونکہ وہ افضل البشر (بعد الانبیاء) ہیں، لہٰذا ان سب کے اوپر حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا نقطہ ہے، ان سے اوپر پھر ملائکہ عظام اور انبیائے کرام آتے ہیں۔

متن:

اور یہ جو (بعض مشائخ نے) کہا ہے کہ جب سالک اس اسم تک جو اس کا مبداء تعین ہے پہنچ جاتا ہے تو اس وقت سیر الی اللہ کو تمام کر لیتا ہے اس اسم سے مراد اسمِ الٰہی جل شانہ، کا ظل جاننا چاہئے اور وہ اس اسم کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے نہ کہ اس اسم کی اصل۔

تشریح:

یعنی تمام مخلوقات کا مبداء تعین اللہ پاک کے اسمائے مبارکہ میں سے کسی بھی اسم مبارک کا ظل ہے۔ لہٰذا وہ آدمی ترقی کر کے اس ظل تک پہنچے گا، اصل اسم تک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ اس کا مبداء تعین اس اسم کا ظل ہے، خود وہ اسم نہیں ہے۔ لہٰذا انبیائے کرام اور ملائکہ عظام کے علاوہ باقی جتنی مخلوقات ہیں، وہ صرف اور صرف اسم کے ظل تک پہنچ سکتی ہیں، مثال کے طور پر ’’رَحِیم‘‘ ایک اسمِ باری ہے۔ تو وہ اسمِ رحیم تک نہیں پہنچ سکیں گے، بلکہ اسم رحیم کے ظل تک پہنچ سکتے ہیں۔

متن:

اور وہ دائرہ ظل حقیقت میں اسماء و صفات کے مرتبہ کی تفصیل ہے.

تشریح:

اصل میں ہر اسم سے صفت نکلتی ہے۔ جیسے ایک اسم ’’رحیم‘‘ ہے، رحیمی کی صفت اس اسم سے آئی ہے۔ تو فرمایا کہ ان اسماء اور ان سے نکلنے والی صفات کے مرتبہ کی تفصیل سے وہ دائرہ ظل بنا ہوتا ہے۔

متن:

مثلاً علم ایک حقیقی صفت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں اور ان جزئیات کی تفصیل اس صفت کے ظلال ہیں جو اجمال کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور اس صفت کی ہر ایک جزئی انبیائے کرامؑ اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ باقی اشخاص میں سے کسی نہ کسی شخص کی حقیقت ہے.

تشریح:

یعنی کسی صفت کی مختلف جزئیات، مختلف اشخاص کے مبداء تعینات ہوتے ہیں۔ جیسے صفتِ علم ہے، اس کی تفصیل میں بہت ساری جزئیات آ سکتی ہیں، ان جزئیات میں سے کوئی نہ کوئی جز کسی نہ کسی کا مبداء تعین ہو گا۔

متن:

اور انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ان ظلال کے اصول یعنی مفصلہ جزئیات کی کلیات ہیں، مثلاً: صفت العلم اور صفت القدرۃ اور صفت الارادہ وغیرہ اور بہت سے اشخاص ایک صفت میں جو کہ ان کا مبداء تعین ہے۔ مختلف اعتبارات کے لحاظ سے باہم شرکت رکھتے ہیں۔ مثلاً حضرت خاتم الرسلؐ کا مبداء تعین شان العلم ہے۔

تشریح:

شان العلم اس لئے فرمایا، کیونکہ علم ایک صفت ہے، لیکن شان اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔

متن:

نیز یہی صفت العلم ایک (خاص) اعتبار سے حضرت ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کا مبداء تعین ہے، اور نیز یہی صفت ایک (اور خاص) اعتبار سے حضرت نوح علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کا مبداء تعین ہے۔ اور ان اعتبارات کے تعین کا ذکر خواجہ محمد اشرف کے مکتوب (251) میں ہو چکا ہے۔اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔

تشریح:

یعنی بعض مشائخ کے نزدیک حقیقتِ محمدی الله جل شانهٗ کے بعد تعیّنِ اول ہے۔ یعنی پہلے اس میں تنزل ہوا ہے۔

متن:

ان کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرہ ظل کا مرکز یہی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم (اور اللہ سبحانہ ہی جانتا ہے)۔۔۔ اس دائرہ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے۔ اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جوا س دائر ہ کا محیط ہے واحدیت گمان کیا ہے، اور دائراۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرۂ ہے ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

تشریح:

کیونکہ صفت، صفت ہے اور ذات، ذات ہے۔ ذات کی صفت ہوتی ہے۔ صفت کی ذات نہیں ہوتی۔

متن:

بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرہ ظل کا مرکز دائرہ فوق کے مرکز کا ظل ہے جو کہ دائرہ ظل کی اصل ہے اور اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائرہ سے موسوم ہے۔ حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے اور اس دائرہ میں ان اسماء و صفا ت کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے اور ظلالِ اسماء کے مرتبہ میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے، اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔

کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیرالی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔۔۔ اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرہ میں جو کہ اس دائرہ ظل کا اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہو جائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلاواسطہ، اصلی طورپر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے او ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرہ کے نیچے کا نصف حصہ اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔

تشریح:

یہاں ہمیں ذرا محتاط رہنا پڑے گا۔ حقیقت محمدی پر بہت تفصیل کے ساتھ حضرت کا ایک مکتوب شریف ہے، مکتوب نمبر 209۔ اس میں فرمایا ہے کہ مخلوق، مخلوق ہے اور خالق، خالق ہے۔ مخلوق چاہے کتنی ہی اونچی ہو جائے، پھر بھی خالق کے ساتھ اس کی کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ وہ مخلوق ہی رہے گی۔ لہٰذا یہ جو ہم کہتے ہیں ’’ذات تک پہنچنا‘‘ اس سے مراد اس طرح ذات کے پاس پہنچ جانا نہیں ہوتا، جس طرح ایک انسان کسی چیز کے پاس پہنچتا ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کے درجہ کے مطابق اس ذات کی تجلی کا تنزل ظل کے طور پر ہوتا ہے۔ تو یہاں ان ظلال کے بارے میں تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ اس کے جو مختلف نام دئیے ہوئے ہیں، وہ صرف ایک چیز کو سمجھنے کے درجے ہیں۔ جیسے فرمایا: ’’اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔ اس کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرۂ ظل کا مرکز یہی ہے (و اللہ سبحانہ تعالیٰ) اس دائرہ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے‘‘۔ حالانکہ وہ تعین اول نہیں ہے، لیکن اسے تعیّنِ اوّل خیال کیا ہے۔ اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے۔ یعنی دائرہ کا ایک مرکز بھی ہوتا ہے، تو گویا اس مرکز کا نام وحدت لیا ہے اور باقی اس دائرہ کی تفصیل ہے، اس تفصیل کو جو اس دائرہ کا محیط ہے، واحدیت گمان کیا ہے۔ اور ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرہ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے، تصور کیا ہے۔

بڑے غور سے سمجھیں کہ غلطی کہاں پر ہے اور حضرت کس چیز کو سمجھانا چاہتے ہیں؟ حضرت یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اسماء و صفات خود اللہ نہیں ہیں۔ یعنی اللہ کا اسم، اللہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی صفت ہے۔ کیونکہ حضرت فرماتے ہیں کہ صفات کا علیحدہ وجود ہے، صفات عین ذات نہیں ہیں۔ حضرت نے اس پر بڑی تفصیل سے بات کی ہے۔ یہاں پر بھی یہی فرما رہے ہیں کہ چونکہ اسماء و صفات بالکل علیحدہ ہیں ان کا وجود علیحدہ ہے، لہٰذا ان کو ہم اللہ نہیں کہہ سکتے، بلکہ اللہ پاک کی صفات اور اسماء کہہ سکتے ہیں۔ تو فرمایا کہ بعض مشائخ نے اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جو اس دائرہ کا محیط ہے واحدیت گمان کیا ہے، اور دائرۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرۂ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے۔

جب کہ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ صفت ذات پر زائد ہے، وہ ذات نہیں ہے۔ یعنی لفظِ رحیم، اللہ کی صفت بھی ہو سکتی ہے اور کسی انسان کی صفت بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ وجوبی لحاظ سے یہ صرف اللہ پاک کی صفت ہے اور انسان کی صفت امکانی لحاظ سے ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر صفات کو ہی ذات مانا جائے تو پھر مسئلہ پیش آئے گا۔ حضرت اس عقیدے کے قائل نہیں ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات بالکل علیحدہ ہیں، عینِ ذات نہیں ہیں۔

فرمایا: بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرہ ظل کا مرکز دائرہ فوق کے مرکز کا ظل ہے جو کہ دائرہ ظل کی اصل ہے۔

یعنی ظل اصل سے آیا تھا، تو دائرۂ ظل کا مرکز دائرۂ فوق کے مرکز کا ظل ہے، جو اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائرہ سے موسوم ہے۔ کیونکہ دائرہ ظلال اسماء و صفات کا ظل ہے، تو اس کا اصل اسماء و صفات کا دائرہ ہو گا۔ فرمایا: حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے۔ یعنی باقی مخلوقات کے مبداء تعینات تو ظل کے دائرہ سے بنے ہوئے ہیں، جبکہ آپ ﷺ کا مبداء تعین صرف اسماء و صفات نہیں، بلکہ شیون و اعتبارات سے ہے، یعنی ان سب کا اصل آپ ﷺ کا دائرہ ہے۔ یہ فرمایا کہ حقیقت میں حقیقت محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے، جو اسماء اور شیونات کا اجمال ہے اور اس دائرہ میں ان اسماء و صفات کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے۔ یعنی حقیقتِ محمدی تو اس دائرہ کا مرکز ہے اور اس دائرہ کا محیط واحدیت ہے۔

اگر بات سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے تو پہلے مجھے بتائیں کہ آپ لوگ عینِ ذات کو جانتے ہیں کہ عین ذات کیا ہوتا ہے اور ذات پہ زائد کیا چیز ہوتی ہے؟ ذات کی کوئی تعریف نہیں کی جا سکتی وہ تعین سے مبرا ہے، جیسے حضرت نے فرمایا۔ اور ذات پر زائد چیز کی اپنی حیثیت ہے، اس کی علیحدہ حیثیت ہے۔ حضرت یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ اس کی علیحدہ حیثیت ہے، اور اس کو علیحدہ سمجھنا ہے، ذات میں شامل نہیں سمجھنا۔

تو فرمایا کہ عین ذات پر زائد اسماء و صفات اور شیونات کے دائرہ کا مرکز حقیقت محمدی ہے اور اس کی تفصیل واحدیت ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ بات اب بھی سمجھ میں آئی ہے، لیکن بہرحال something is better than nothing

فرمایا: اور ظلالِ اسماء کے مرتبہ میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے۔ یعنی یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ظلالِ اسماء کو اصل سمجھ لیا ہے۔

فرمایا: اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔ کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیر الی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔ اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرہ میں جو کہ اس دائرہ ظل کا اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہو جائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلا واسطہ اصلی طور پر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرہ کے نیچے کا نصف حصہ اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔

متن:

عالمِ امر کے پنجگانہ (لطائف و مراتب) کے عروج کی انتہا اسماء و شیونات کے دائرہ کی نہا یت تک ہے۔

تشریح:

یعنی پنجگانہ لطائف کا عروج جہاں تک ہو سکتا ہے، اس کا انتہائی مقام اسماء و شیونات کے دائرہ کی نہایت تک ہے۔

متن:

اس کے بعد اگر محض فضل ایزدی جل شانہ سے مقام صفات و شیونات پر ترقی واقع ہو جائے تو ان کے اصول کے دائرہ میں سیرواقع ہو گی۔

تشریح:

گویا کہ اسماء و شیونات کا دائرہ نہایت تک، یعنی عالمِ امر کی انتہا ہے اس کے بعد اگر اللہ پاک مزید فضل فرما دے تو مقام< صفات اور شیونات پر بھی ترقی ہو سکتی ہے۔

متن:

اور دائرہ اصول سے گذرنے کے بعد ان اصول کے اصول کا دائرہ ہے۔

تشریح:

یعنی پہلے ظلال کا اصل ہوتا ہے، پھر اصل کا اصل ہوتا ہے۔

متن:

اس دائرہ کے طے کرنے کے بعد دائرہ فوق سے ایک قوس (نصف دائرہ کے مانند) ظاہر ہو گی اس کو بھی قطع کرنا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اس دائرہ فوق سے قوس کے علاوہ اور کچھ ظاہر نہیں ہوا اس لئے اسی قوس پر بس کیا گیا۔۔۔ شاید اس جگہ کوئی راز ہو گا جس پر (عالم غیب سے) اطلاع نہیں بخشی گئی۔۔۔ اور اسماء و صفات کے یہ اصول سہ گانہ جو مذکور ہوئے حضرت تعالیٰ و تقدس میں محض اعتبارات ہیں جو کہ صفات وشیونات کے مبادی ہوگئے ہیں۔ ان اصول سہ گانہ کے کمالات کا حاصل ہونا نفسِ مطمئنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اسی مقام میں شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور سالک اسلامِ حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ صدارت کے تخت پر جلوس فرماتا ہے اور مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ یہ مقام ولایتِ کبریٰ کی انتہا کا مقام ہے جو ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰواة و التسلیمات کا مقام ہے۔

تشریح:

الحمد للہ! حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ ایک بات بیان فرما دی، لیکن چونکہ ہمارے سروں کے اوپر سے گذر رہا ہے، بات سمجھ نہیں آ رہی، اس لئے اس کی اگر میں کسی اور طریقہ سے تشریح کر دوں تو شاید سمجھ میں آ جائے۔

سب سے بڑی بات الله جل شانهٗ نے جو احکام بھیجے ہیں، ان احکام پر عمل کرنے کے لئے رکاوٹ نفس ہے۔ اگر اس نفس کے رذائل کو دبایا نہیں گیا تو ہر حکم کے مقابلہ میں نفس آتا ہے اور وہ باغی ہے۔ لہٰذا ان رذائل کو دبانا پڑتا ہے۔ اب میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ہماری انجینئرنگ میں ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے electronic circuit کے اندر تبدیلیاں آتی ہیں اور electronic circuit میں تبدیلی کو indicator show کرتے ہیں۔ اب اگر ہم اس طرح کر لیں کہ اصل چیز کی جگہ پر اس کا ایک analog circuit بنا دیں تو اس سے بھی وہی کام لیا جا سکتا ہے، جو اصل سے لیا جاتا ہے، مثال کے طور پر جس وقت reactor کو ہم show کرنا چاہیں تو یہ ہو سکتا ہے کہ اس valve وغیرہ کو electronic circuit میں transform کر لیں، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر ہم اس کے اندر کوئی valve بند کر لیں، جو circuit کے اندر actually اس کی جگہ ہے، اس کے بجائے اگر ہم اس کو بند کریں تو نتیجہ وہی نکلے گا۔ اس کو simulation کہتے ہیں، اس کے ذریعہ ہم پورے نظام کو سمجھ سکتے ہیں، اصل نظام کو ہم اس نقل سے سمجھ سکتے ہیں، اس کے اندر تبدیلی کر کے ہم اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جو اوپر حضرت نے فرمایا ہے یہ معارف ہیں، جن پہ کھلتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ دکھاتے ہیں اور جن کے اوپر یہ معارف نہیں کھلتے، ان کو نظر نہیں آئیں گے، ان کے لئے تو یہ نقل کی بات ہو گی، وہ دوسرے کی بات کو نقل کر رہا ہو گا۔ لیکن اگر اس کو سمجھنے کے لئے ہم اصل مطلوب چیز کی طرف چلے جائیں اور اس کے نتائج کو دیکھیں تو ہمارا اور ان کا ایک ہی نتیجہ سامنے آ جائے گا۔ مثلاً یہاں پر حضرت نے تفصیل کے ساتھ مختلف مقامات اور دائروں کی سیر وغیرہ کا بتا دیا۔ اور آخر میں ان کا نتیجہ نفس مطمئنہ کا حصول بتایا، آخر میں فرمایا کہ جب آخری مقام حاصل ہو جاتا ہے تو نفس مطمئنہ والا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ الله جل شانهٗ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها O وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا تو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

آخری نتیجہ اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتے ہیں کہ یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص کہ جس نے اپنے نفس کے رذائل کو دبا دیا، یعنی تزکیہ کر لیا اور یقیناً تباہ و برباد ہو گیا وہ شخص جو اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کر سکا۔ اب اگر کوئی شخص کسی بھی طریقہ سے اپنے نفس کے رذائل کو دبا دے تو اس کو یہ نتیجہ حاصل ہو جائے گا۔ حضرت نے اخیر میں یہی بتایا کہ آخری مقام کے حصول سے سالک مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ اور مقامِ رضا کیا ہے؟ قرآن پاک میں ہے: (یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ O اِرْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ O وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠) (الفجر: 27-30)

ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘۔

اب اگر میرے نفس کے رذائل دور ہو جائیں اور وہ شریعت پر مطمئن ہو جائے تو یہ اس کو نفسِ مطمئنہ کی حالت حاصل ہو گئی، حضرت بھی تمام چیزوں کے آخری نتیجہ کے طور پر یہ فرما رہے ہیں کہ مطمئن نفس کے نتائج اس کو حاصل ہو گئے اور مقامِ رضا اس کو حاصل ہو گیا۔ اسی کو ولایتِ کبریٰ کا مقام کہتے ہیں۔

آپ اِس کو حضرت کے طریقہ سے سمجھیں اور آپ کو اللہ تعالیٰ دکھا دے تو بہت اچھی بات ہے، اگر آپ حضرت کے طریقہ سے نہ سمجھ پائیں تو قرآن کے ذریعہ سے سمجھ لیں، جیسے قرآن نے بتایا ہے۔ جس طریقہ سے بھی سمجھیں نتیجہ ایک ہی آ رہا ہے کہ اگر آپ نفس کے رذائل کو قابو کر لیں اور نفسِ مطمئنہ حاصل کر لیں تو مقامِ رضا پہ پہنچ گئے۔

اور فرماتے ہیں ’’حقیقی اسلام میں داخل ہونا‘‘، حقیقی اسلام میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو واقعی مان لے، یعنی اسلام کہتے ہیں:

unconditional surrender before Allah

’’یعنی بغیر شرط کے اللہ تعالیٰ کے سامنے مکمل اسلامی ہو جانا۔‘‘ یہی اسلام ہے۔ ہم کوئی شرط نہیں لگا سکتے کہ یہ ہو گا تو پھر یہ مسلمان ہو گا۔ بلکہ غیر مشروط مسلمان ہو۔ یہ عقیدے والا غیر مشروط اسلام میرے عمل میں آ جائے تو یہ حقیقی مسلمان ہو جائے گا۔ اگر میرے عمل میں ذرہ بھر بھی اشکال نہیں آتا اور جو اللہ کا حکم ہے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں، میرا نفس اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہے تو میں کہوں گا کہ حقیقی اسلام میں داخل ہو گیا، اللہ پاک کے کاموں پر راضی ہو گیا اور نفسِ مطمئنہ حاصل ہو گیا۔ یہ قرآن کی روشنی میں ہے۔ اسی کو حضرت مقامِ ولایتِ کبریٰ کہتے ہیں۔ بس یہی سمجھنے کی بات ہے اور ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ یہ ساری تفصیل جو حضرت نے بتائی ہے، وہ حضرت کا مشاہدہ ہے، لیکن جس کا مشاہدہ نہیں وہ اس کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہم کہیں گے تو یہی بات کہ جیسے حضرت نے فرمایا ایسے ہی ہو رہا ہے، لیکن ہم بجائے تفصیل کو دیکھنے کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ایسا کہیں گے۔ اب اگر آپ کو نفس پہ قابو حاصل ہو گیا، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ عقل مند وہ ہے، جس نے اپنے نفس کو قابو کر لیا اور آخرت کے لئے عمل کیا۔ گویا کہ نفس کو مطئنہ بنانے سے مراد نفس کو قابو کرنا ہے۔ نفسِ مطمئنہ قرآن نے بتایا ہے اور نفس کو قابو کرنا حدیث نے بتایا ہے، دونوں کی بات ایک ہی ہے۔ لہٰذا ولایتِ کبریٰ سے مراد نفس کو قابو کرنا ہے اور ولایتِ صغریٰ دل کی کیفیات کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ولایتِ صغریٰ جذب کے بعد حاصل ہوتی ہے اور ولایتِ کبریٰ نفس کو قابو کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اب کوئی اشکال نہیں ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے الحمد للہ روحانی طور پر یہ بات ہم تک پہنچائی ہے کہ اب ولایتِ صغریٰ ولایتِ کبریٰ کی باتیں نہ کیا کریں، اس سے نقصان ہو رہا ہے۔ نقصان یہ کہ جس کو ولایتِ صغریٰ حاصل ہو گئی، یعنی قلب کی اصلاح ہو گئی، لیکن ابھی نفس کی اصلاح نہیں ہوئی تو وہ اپنے آپ کو ولی مان لے گا۔ جب یہیں پر ولی مان لے گا تو پھر مزید کیا ترقی کرے گا۔ جب ایک دفعہ ولایتِ صغریٰ پر مان لیا کہ میں ولی بن گیا ہوں تو اس کے بعد پھر وہ کیا ترقی کرے گا، اس نے تو اپنے آپ کو کامل مان لیا۔ اس لئے اب ان اصطلاحات کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان اصطلاحات کے بولنے سے نقصان ہو رہا ہے۔

میں پہلے بھی یہ بات کر سکتا تھا، لیکن میں نے پہلے نہیں کی۔ جب آپ لوگوں نے کہہ دیا کہ ہاں اب سمجھ میں بات آ گئی ہے کہ ولایتِ صغریٰ کا بھی پتہ چل گیا ہے اور ولایتِ کبریٰ کا بھی پتہ چل گیا ہے۔ ولایتِ کبریٰ نفس کو قابو کرنا ہے اور ولایتِ صغریٰ دل کو پاک کرنا ہے۔ یہ دونوں چیزیں سمجھ میں آ گئیں۔ تب میں نے کہا کہ اس کے بولنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سارے محمدی المشرب تو نہیں ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنے آپ کو محمدی المشرب سمجھنے لگے، یا ہر آدمی اپنے آپ کو غیر محمدی المشرب سمجھنے لگے تو اِس سے بھی نقصان ہو گا اور اُس سے بھی نقصان ہو گا، کیونکہ محمدی المشرب کا طریقہ الگ ہے اور غیر محمدی المشرب کا طریقہ الگ ہے۔

اب اگر میں ایک ہی طرح کا مان لوں تو نقصان ہو گا۔ مثلاً جذب کسبی کو لے لیں۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بالکل واضح طور پر مکتوب نمبر 287 میں ارشاد فرمایا کہ خواجہ نقشبند (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اور ہمارے اکابر نے جذب کو حاصل کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا۔ جب ”طریقہ‘‘ کا لفظ آ گیا تو یہ کسبی ہو گیا۔ کیونکہ وہبی چیز ”طریقہ‘‘ نہیں ہوتی، وہبی تو عطا ہوتی ہے۔ جذبِ وہبی میں طریقہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص بہادر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو بہادر پیدا کیا ہے، یہ بہادری وہبی ہے۔ دوسری طرف ایک شخص بہادر نہیں ہے، لیکن وہ کچھ نفسیاتی طریقوں کے ذریعہ بہادر بن گیا، تو یہ بہادری کسبی ہے۔ اسی طرح جس کو جذب وہبی حاصل ہو جاتا ہے وہ وہبی چیز ہے، اور جس کو جذب کسبی حاصل ہو گیا تو وہ کسبی طور پر ہے۔ لہذا جذبِ کسبی کو کسبی کہنے میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ یہ بھی حضرات نے ہی دریافت کیا ہے، چنانچہ حضرت خواجہ نقشبند (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! اس دور میں آسان راستہ مجھے عطا کیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ طریقہ عطا فرمایا۔ یعنی انہوں نے دریافت کیا کہ وہ جذب جو بعد میں حاصل ہوتا ہے، اس کی طرح کا جذب پہلے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ وہ جذب بعد میں دیا جاتا ہے اور یہ پہلے والا حاصل کیا جاتا ہے۔ جو حاصل کیا جاتا ہے، وہ جذب کسبی ہے۔ وہ مراقبات اور ذکر اللہ وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن حضرت فرماتے ہیں اگرچہ یہ جذب کی طرح ہے، لیکن اِس جذب میں اور اُس جذب میں بہت زیادہ فرق ہے۔ کیونکہ وہ جذب وہبی ہے اور یہ جذب کسبی ہے۔ یہ صرف اور صرف سلوک پہ آنے کے لئے ہے کہ آپ سلوک شروع کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص آپریشن کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اس کا ابھی آپریشن ضروری ہے تو اس کے رشتہ دار اس کے اوپر محنت کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ کوئی نقصان نہیں ہو گا، بلکہ آپ کو یہ یہ فائدے حاصل ہوں گے۔ اس کو آپریشن کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اب گر اس کو تیار کر لیں اور اس کا آپریشن نہ کریں تو کتنا کمایا؟ ظاہر ہے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس طرح جذبِ کسبی سلوک کے لئے تیاری ہے، اس کے بعد سلوک پہ چلنا ہوتا ہے، اگر آپ سلوک پر نہ آئیں تو حضرت فرماتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو سلوک پر نہیں لایا، یہیں سے کام ختم کر دیا اور سمجھا کہ میں کامل ہو گیا ہوں تو ایسے لوگ مجذوب متمکن ہیں، نہ یہ خود پہنچے ہیں نہ دوسرے کو پہنچا سکتے ہیں، ان کو چاہئے کہ راستے کے ڈاکو نہ بنیں۔ لوگوں کی رہنمائی منتہی مرجوع کی طرف کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ خود نہیں پہنچے تو دوسروں کو بھی نہیں پہنچا سکتے، ابھی تک انہوں نے سلوک ہی نہیں طے کیا، ابھی تک نفس ہی قابو نہیں کیا، جب تک نفس قابو نہیں تو کیسے ہم اللہ کے حکم پر صحیح عمل کر سکتے ہیں۔ ابھی تک ان کا نفس فعال ہے، ایسی صورت میں وہ جو بھی کریں گے نفس کی اتباع کریں گے، نفس کے تابع ہوں گے اور بجائے فائدہ کے نقصان ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ ولایتِ کبریٰ نفس کو قابو کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔

متن:

جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ’’ یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے۔

ابھی چونکہ وقت تھوڑا ہے، اس لئے اس کو ان شاء اللّٰہ بعد میں سمجھیں گے، کیونکہ اس میں تفصیل زیادہ ہے۔ اس لئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ