تعلیمات مجددیہ

درس 29

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



عنوانات:

1- تربیت و اصلاح کی اجازت اور اس کے لوازمات۔

2- مریدوں کے احوال پیروں کے لئے باعثِ حیا ہیں۔

3- رات اور دن کا محاسبہ۔

4- حصول اور وصول میں فرق۔

5- دوسروں کی برائیاں عارف کے لئے نیکی کا حکم پیدا کرتی ہیں۔

6- خوف و غلبۂ دشمن کے لئے عمل۔

7- فضائل سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ۔




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مکتوبات شریفہ میں جو علوم پنہاں ہیں وہ اہلِ علم و معرفت سے مخفی نہیں ہیں۔ ہمیں ان کی بہت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ساتھ ہی ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تربیت و اصلاح کی اجازت اور اس کے لوازمات:

مشائخ کو جو اجازت دی جاتی ہے اس اجازت اور اس کے لوازمات کے بارے میں بات چل رہی ہے۔ اس سلسلہ میں دفتر اول مکتوب نمبر 227 میں حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اپنے ایک خلیفہ کو ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اے بھائی! حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے آپ کو یہ منصب عطا فرمایا ہے لہٰذا اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر پوری طرح بجا لائیں اور اس بات کی احتیاط رکھیں کہ کوئی ایسا امرصادر نہ ہو جو مخلوقات کی نفرت کا باعث بنے اور وبالِ عظیم ہو (کیونکہ) مخلوق کی نفرت ملامتیہ جماعت کے حال کے مناسب ہے کہ وہ شیخی اور دعوت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، بلکہ ملامت کا مقام، شیخی کے مقام کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان دونوں مقاموں کو (آپس میں) خلط ملط کر دیں۔ اور عین شیخی میں ملامت کی آرزو کرنا بہت بڑے ظلم کو بات ہے۔ اور مریدوں کی نظروں میں اپنے آپ کو ’’مُتَجَمِّلْ‘‘ (آراستہ و پیراستہ) رکھیں، اور مریدوں کے ساتھ بہت زیادہ شیر و شکر اور بے تکلف نہ ہوں کیونکہ یہ سُبکی اور حقارت کا باعث ہے جو کہ ’’افادہ و استفادہ‘‘ (فائدہ پہنچانا اور فائدہ حاصل کرنا) دونوں کے منافی ہے اور حدودِ شرعیہ کی محافظت میں بہت زیادہ احتیاط رکھیں۔

تشریح:

سبحان اللہ! بڑے عجیب معارف ہیں۔ ہر منصب اور ہر حال کے لئے کچھ لوازمات ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ملامتی گروہ سے مراد ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے بچانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جنہیں لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ وہ ایسا صرف اپنے آپ کو لوگوں سے بچانے کے لئے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظروں میں نہ آئیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک لوگ ان کے اور اللہ کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ تنگ ہوتے ہیں اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔

ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اپنے علاقہ بسطام میں جا رہے تھے۔ چونکہ اس وقت تک وہ بہت مشہور ہو چکے تھے اس لئے ان کے استقبال کے لئے بہت سارے لوگ آ گئے۔ پورا شہر امڈ پڑا۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔ جب انہوں نے بہت سارے لوگوں کو استقبال کرتے دیکھا تو اپنے نفس سے کہا: اچھا تو بہت خوش ہو گیا ہے کہ اتنے لوگ تیرا استقبال کر رہے ہیں دیکھ میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ اپنی گدڑی سے ایک خشک روٹی کا ٹکڑا نکالا اور لوگوں کے سامنے اس کو کھانے لگے۔ لوگوں نے کہا: اوہ یہ تو روزہ خور ہے۔ اور پھر لوگ منتشر ہو کر وہاں سے جانے لگے۔ اکثر لوگ چلے گئے۔ صرف چند لوگ رہ گئے۔ حضرت بایزید بسطامی نے ان سے کہا: تم بھی جاؤ، اپنا کام کرو، ایک فاسق و فاجر کے پیچھے خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ انہوں نے کہا: حضرت آپ چاہے کچھ بھی کریں، ہم آپ سے جدا نہیں ہوں گے۔ وہ لوگ حضرت کو پہچاننے والے تھے۔ حضرت نے کہا: اچھا ٹھیک ہے، نہیں جاتے تو نہ جائیں۔ پھر ان کے ساتھ چلنے لگے اور آہستگی سے کہا کہ دیکھو لوگ کتنی جلد بازی کرتے ہیں، اتنا بھی نہیں سوچتے کہ مسافر کے اوپر روزہ رکھنا لازم نہیں ہوتا۔

اب دیکھیں انہوں نے شریعت کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ صرف لوگوں کی نظروں سے چھپنے کے لئے یہ عمل کیا۔ کیونکہ اگر رمضان شریف میں آپ مسافر ہوں تو آپ کو اختیار ہے چاہے روزہ رکھیں چاہے نہ رکھیں بلکہ بعد میں قضا کر لیں۔ اگر ایک بہت بڑے مسئلہ سے بچنے کے لئے انہوں نے اس قسم کا حیلہ کر لیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ حفاظت ہے۔ ایسے لوگوں کو ملامتیہ کہتے ہیں۔ یہ پورا ایک گروہ گذرا ہے جو اس قسم کے کام کرتے تھے۔

اسی طرح بعض لوگ تکوینی نظام سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی لوگوں کی نظروں سے چھپتے ہیں اور اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کی نظروں میں نہ آئیں۔ حاجی عبد المنان صاحب نے مجھے مکہ مکرمہ میں بتایا کہ حرم شریف میں بہت زیادہ اولیاء کرام آتے ہیں۔ قدم قدم پہ اولیاء اللہ بیٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ ہر ایک سے نہیں پہچانے جاتے۔ چونکہ یہ وہیں پر تھے لہذا جانتے تھے کہ کون کیا ہے۔ کچھ اندازہ ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا تو ان کے قریب بیٹھ گیا۔ جب انہوں نے مجھے بہت دیر تک اپنے قریب بیٹھے دیکھا تو خطرے میں ہو گئے کہ شاید یہ مجھے پہچان رہے ہیں تو انہوں نے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی، اس کو دیکھا، الٹ پلٹ کیا، پھر جیب میں رکھ لی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے دکھانے کے لئے کر رہے ہیں، تاکہ دیکھے کہ یہ تو سگریٹ پیتا ہے۔ خیر میں پھر بھی نہیں اٹھا۔ انہوں نے تھوڑی دیر بعد نماز پڑھی اور غائب ہو گئے۔ میں نے پھر کبھی انہیں نہیں دیکھا۔ جب ایسے لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ لوگوں کو ہمارے بارے میں معلوم ہو گیا ہے تو یہ اپنی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ذمہ مشیخت نہیں ہوتی۔ تکوینی امور والے حضرات کا فرشتوں جیسا معاملہ ہوتا ہے۔ ان کا باقی مخلوق کے ساتھ کوئی کام نہیں ہوتا وہ بس اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اسی طرح ملامتی لوگوں نے بھی مشیخت نہیں کرنی ہوتی لہذا وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شیخ کے رتبے پر ہے تو ان کو اس قسم کے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ ان کو تہمت کی جگہ سے ڈرنا اور بچنا چاہئے تاکہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ اس کے عمل کی وجہ سے کوئی ان کے فیض سے محروم ہو جائے۔ اگر اللہ پاک نے ان کو ایک منصب دیا ہے تو ان کے ذمہ لازم ہے کہ اس منصب کا خیال رکھیں۔

ہمارے ساتھ حج پہ دو ججز تھے۔ ایک جسٹس عثمان علی شاہ جو بعد میں محتسبِ اعلٰی بن گئے تھے اور ایک دوسرے جج صاحب تھے۔ ججز عام لوگوں سے ذرا علیحدہ رہتے ہیں لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں۔ ان کا مزاج ہی اس طرح بنایا گیا ہوتا ہے کہ یہ لوگوں میں mix نہیں ہوتے۔ ہم دیکھتے تھے کہ حج میں سارے لوگ الگ ہوتے تھے اور وہ جج صاحبان الگ ہوتے تھے۔ ان کا کھانا پینا بھی الگ ہوتا، ان کی اپنی گپ شپ ہوتی تھی، اپنا ملنا جلنا ہوتا۔ وہ باقی لوگوں کے ساتھ mix نہیں ہوتے تھے۔ اپنے منصب کے خیال سے وہ باقی لوگوں کے ساتھ نہیں ملتے تھے۔ مشائخ کا بھی ایسا کام ہوتا ہے کہ ان کو بھی لوگوں کے ساتھ اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہئے۔

نقشبندی سلسلہ کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ اس سلسلہ کے مشائخ بڑے ہی با وقار طریقہ سے رہتے ہیں۔ ایسے انداز میں نہیں رہتے کہ لوگ ان کے ساتھ mix ہو جائیں۔ حضرت اسی سلسلہ میں فرما رہے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ایسے بیٹھے کہ با وقار نظر آئے اور مریدوں کے ساتھ زیادہ شیر و شکر اور بے تکلف نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ چیز حقارت اور سبکی کا باعث بن جاتی ہے اور پھر افادہ و استفادہ کا سلسلہ متاثر ہو جاتا ہے۔

متن:

اور حدود شرعیہ کی محافظت بہت زیادہ رکھے اور جہاں تک ممکن ہو سکے رخصت پر عمل نہ کرے کہ یہ بھی طریقۂ عالیہ کے منافی ہے۔

تشریح:

طریقۂ عالیہ سے مراد نقشبندیہ طریقہ ہے، حضرت جب صرف طریقۂ عالیہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب نقشبندیہ طریقہ ہوتا ہے۔

متن:

جہاں تک ممکن ہو سکے رخصت پر عمل نہ کریں کہ یہ بھی طریقۂ عالیہ کے منافی ہے اور روشن سنت کی متابعت کے دعوے کے مخالف ہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے: رِیَاءُ العَارِفِیْنَ خَیْرٌ مِنْ اِخْلَاصِ المُرِیْدِینَ (عارفوں کی ریا مریدوں کے اخلاص سے بہتر ہے)۔ کیونکہ عارفوں کی ریا (دکھاوا) طالبوں کے دلوں کو حق جل سلطانہٗ کی جناب میں کھینچنے کے لئے ہوتا ہے لہٰذا لازماً (عارفوں کی ریا) مریدوں کے اخلاص سے بہتر ہوئی۔ اور اسی طرح عارفوں کے اعمال خاص طالبوں کے لئے اعمال کی بجاآوری میں تقلید کا باعث ہیں۔ اگر عارف خود عمل نہیں کریں گے تو طالبین بھی محروم رہیں گے۔ لہٰذا عارف اس لئے (ریا) کرتے ہیں تاکہ طالبین ان کی اقتدا کریں۔ یہ ریا عین اخلاص ہے بلکہ اخلاص سے بھی بہتر ہے جو اپنے نفع کے لئے ہو۔ اس بات سے کوئی شخص یہ گمان نہ کرلے کہ عارفوں کا عمل صرف طالبوں کی تقلید کے لئے ہے اور عارفوں کو عمل کی ضرورت نہیں ہے، عَیَاذاً بِاللہ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہ کی پناہ) یہ بات خود عین الحاد و زندقہ ہے، بلکہ عارف اعمال کی بجاآوری میں تمام طالبوں کے ساتھ برابر ہیں،اور اعمال کی بجاآوری میں کوئی شخص بھی مستثنیٰ نہیں ہے خلاصۂ کلام یہ ہے بسا اوقات عارف کے اعمال میں طالبوں کا نفع بھی مدنظر ہوتا ہے جو ان کی تقلید پر مربوط ہے، اس اعتبار سے وہ اس کو ریا کا نام دیتے ہیں۔ غرض کہ اپنے قول و فعل میں بہت زیادہ محتاط رہیں کیونکہ اس زمانے میں اکثر لوگ فساد و ہنگامے کے درپے ہیں، کوئی کام بھی ایسا سرزد نہ ہو جو اس مقام کے منافی ہو، اور جاہل لوگوں کو بزرگوں پر طعن کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے استقامت طلب کرتے رہیں۔

تشریح:

حدیث شریف میں آتا ہے کہ تہمت والی جگہوں سے بچو۔ یہ حکم عام لوگوں کے لئے بھی ہے لیکن مشائخ کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ اگر عام لوگ کوئی ایسا کام کریں گے تو صرف ایک آدمی کے لئے مسئلہ ہو گا لیکن اگر مشائخ اس قسم کا کام کریں گے تو اس سے سلسلہ کو نقصان ہو گا۔ پورا سلسلہ بد نام ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سلسلہ کو بد نامی سے بچانے کے لئے انہیں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے لوگ متنفر نہ ہوں۔ پشتو میں کہتے ہیں ’’په اودس کښې اوسیږي‘‘ یعنی بہت reserved رہتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا، جس سے لوگ غلط مطلب نکال لیں۔

تہمت کے مقام سے بچنا کتنا ضروری ہے، اس کی ایک زبردست مثال حدیث شریف میں ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ ہماری ماؤں میں سے ایک ماں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ دو صحابی وہاں سے گذر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو آواز دی کہ او فلاں! یہ تمہاری فلاں ماں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: نعوذ باللہ، کیا ہم آپ کے اوپر بد گمانی کی جرات کر سکتے تھے؟ فرمایا: ”شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے“۔ یعنی شیطان کسی بھی وقت وسوسہ ڈال سکتا ہے اس وجہ سے میں نے کہہ دیا۔ حالانکہ حضور ﷺ کے لئے ایسا کہنا ضروری نہیں تھا کیونکہ ان صحابہ نے دیکھا بھی نہیں تھا، ان کو خیال بھی نہیں ہو گا لیکن آپ ﷺ نے اپنے منصب کے لحاظ سے خیال کیا۔

ایک دفعہ ایک صاحب مسجد میں سوئے ہوئے تھے اور آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ انہیں سوتا دیکھا تو حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه کو انہیں جگانے کا حکم فرمایا، خود نہیں جگایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوئے ہوئے انسان کو پتا نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے، اسے اچانک اٹھایا جائے تو اس کی زبان سے کسی بھی قسم کی بات نکل سکتی ہے۔ اب ان سوئے ہوئے صحابی کو اٹھانے پر ان کی زبان سے کوئی نا مناسب بات حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنه کے لئے نکلتی تو چونکہ وہ امتی تھے، اس لئے اتنا مسئلہ نہیں تھا، لیکن آپ ﷺ کے لئے ایسی بات نکلتی تو ان کے ایمان کا مسئلہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے ان کو بچانے کے لئے خود یہ کام نہیں کیا بلکہ حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه کے حوالے کیا۔ اسی کو حفظِ ما تقدّم کے طور پہ کچھ اقدامات کرنا کہتے ہیں، جن سے مقصود خود کو یا دوسروں کو بچانا ہوتا ہے۔

دفتر اول مکتوب نمبر 228 میں فرماتے ہیں:

متن:

اے بھائی! آپ سے کئی دفعہ کہا گیا ہے کہ اس طریق کا دارومدار دو اصولوں پر ہے۔ ایک یہ کہ شریعت پر اس حد تک استقامت اختیار کرنا کہ اس کے چھوٹے سے چھوٹے آداب کے ترک پر بھی راضی نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ شیخِ طریقت کی محبت و اخلاص اس طرح راسخ و ثابت ہو جائے کہ اس (کے حکم) پر کسی قسم کے اعتراض کی ہرگز گنجائش نہ رہے، بلکہ اس (شیخ) کے تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں پسندیدہ و محبوب دکھائی دیں۔ ان دو اصولوں کے متعلق جو اُمور ہیں ان میں سے کسی امر میں بھی خلل واقع ہونے سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ اور اگر اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے یہ دونوں اصول درست ہو گئیں تو دنیا و آخرت کی سعادت ’’نقدِ وقت‘‘ ہے۔ اور دوسری نصیحتیں اور وصیتیں بھی آپ کے گوش گزار کی جاچکی ہیں۔ ان کی بجاآوری میں احتیاط رکھیں اور بڑی عاجزی وزاری سے اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرتے رہیں۔ اور اس ذی الحجہ کے عشرہ میں’’ ماہِ رمضان کے قضا اعتکاف‘‘کی نیت سے اعتکاف میں بیٹھیں جو رمضان میں آپ سے قضا ہو گیا تھا تاکہ اس نیت سے سنّت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو۔ اور اس عشرۂ اعتکاف میں گریہ وزاری، التجا و نیاز سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کریں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ فقیر بھی اس عشرہ میں (توجہ سے) تمہاری مدد کرے گا۔ اجازت نامہ کی تحریر میں جو اس قدر مبالغہ اور اہتمام رکھتے ہیں اس سے آپ کا کیا مقصد ہے آپ کو طریقہ کے تعلیم دینے کی جو اجازت دی گئی ہے اگر وہ کافی نہیں ہے تو اجازت نامہ کیا کام دے گا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ دل میں خیال آجائے اس کے لئے ضرور کوشش کی جائے۔ بہت سی ایسی باتیں دل میں گزرتی ہیں جن کا ترک کرنا انسب و اولیٰ ہوتا ہے۔ نفس بڑا ضدی ہے جس کام کو بھی چاہتا ہے اس کو پورا کرنے کے درپے ہو جاتا ہے اور اس کے حق و باطل کا لحاظ نہیں کرتا۔ یہ چند کلمات آپ کی خاطر لکھ دیئے گئے ہیں حضرت حق سبحانہ، آپ کو نفع دے۔ اپنے کام کی فکر خود کرنی چاہئے تاکہ (دنیا سے) ایمان سلامت لے جائیں۔ اجازت نامہ اور مرید کام نہیں آئیں گے۔ ہاں اپنے کام کے ضمن میں اگر کوئی شخص سچی طلب کے ساتھ آئے تو اس کو طریقت کی تعلیم دیدی جائے، نہ یہ کہ تعلیمِ طریقت کو اپنا اصل کام (پیشہ) سمجھ لیں اور اپنا معاملہ اس کے تابع کر دیں کہ یہ سراسر ضرر اور خسارہ ہے۔

تشریح:

انسان پر سب سے پہلا حق اپنی ذات کا ہے، پھر اپنے قریب تر لوگوں کا ہے، پھر دوسرے درجہ پر قریب تر لوگوں کا، پھر تیسرے درجہ پر قریب تر لوگوں کا ہے، اسی طرح درجہ بدرجہ ہر ملنے والے کا حق ہے، لیکن سب سے پہلا حق اپنی ذات کا ہے۔

ایک مرتبہ تبلیغی جماعت کے کچھ حضرات کے ساتھ ویسے ہی بطور تبادلۂ خیال میری بات ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے ایک بات پوچھی کہ: میرے خیال میں بیرون جماعتوں کا کام ملک میں کام کرنے والوں سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: آپ صحیح کہتے ہیں، باہر جو جماعتیں چلتی ہیں ان کا کام نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے۔ میں نے کہا: اپنے ملک میں کام کرنے کے مقابلہ میں اپنے علاقہ میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں آپ بالکل صحیح کہتے ہیں، ایسے ہی ہے۔ میں نے کہا: اپنے علاقہ کے مقابلہ میں اپنے گاؤں یا شہر میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں یہ بھی آپ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ میں نے کہا: اپنے شہر کے مقابلہ میں اپنے محلہ میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں یہ بھی آپ صحیح کہتے ہیں۔ میں نے کہا: اپنے محلہ کے مقابلہ میں اپنے گھر میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں یہ تو بالکل صحیح بات ہے۔ میں نے کہا: اپنے گھر کے مقابلہ میں اپنے آپ پہ محنت کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا: اسی کو تصوف کہتے ہیں۔ تصوف اپنے آپ کو تبلیغ کرنا ہی ہے اور اپنے اپ کو تبلیغ کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ جیسے اپنے قریب ترین کو تبلیغ کرنا بعید کے مقابلہ میں مشکل ہے، اسی طرح انسان کا اپنے آپ کو، اپنے نفس کو سمجھانا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل چیز اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ دوسروں کی خدمت تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ لگائی ہے، آپ وہ ضرور کریں، لیکن اس کی وجہ سے اپنے آپ کی خدمت نہ بھولیں۔ دوسروں کی خدمت کرنے کا مطلب یہ ہے، کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ تبعاً یہ بھی ہوتا رہے، یہ نہیں کہ اپنے آپ کو بھول کر کریں، بلکہ اپنا حق سب سے پہلے ہے۔ حضرت اپنے خلیفہ کو یہ بات سمجھاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ہمارا مقصود مرید کرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارا اصل کام ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہے، لیکن اپنا کام اور اپنی اصلاح بہت زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہ باتیں ہمیں یاد رہیں، تو ان شاء اللہ بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ اپنے آپ کی حفاظت، اپنے آپ کی خدمت اول درجہ پر ہے تاکہ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں، جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں گر جائیں اور ہمارے ایمان یا اعمال کے اوپر برا اثر ہو۔

مریدوں کے احوال پیروں کے لئے باعث حیا ہیں:

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر اول کے مکتوب نمبر 238 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

لیکن چاہئے کہ اپنے احوال و اعمال پر نظر رہے اور اپنی حرکت و سکون ملاحظہ رہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مریدوں کی ترقیاں پیروں کے توقف کا باعث بن جائیں اور مسترشدان (ہدایت پانے والوں) کی گرمجوشی مرشدوں کے کارخانے میں سردی و سستی پیدا کردے، اس معنی سے بہت زیادہ ڈرتے رہنا چاہئے۔

اپنے مریدوں کے احوال ومقامات کو شیرِببر کی طرح سمجھنا چاہئے نہ یہ کہ ان پر فخر و مباہات کرنے لگیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس راہ سے عُجب و غرور کا دروازہ کھُل جائے، بلکہ چاہئے کہ بحکم اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃُٗ مِنَ الْاِیمَانِ "حیا (شرم) ایمان کا ایک جزو (حصہ) ہے"۔مریدوں کی ترقیاں شرمندگی اور خجالت کا باعث ہوں، اور طالبوں کی طلب کی گرمجوشی غیرت و عبرت کا موجب ہو۔

تشریح:

یعنی جو دوسرے لوگ کام کر رہے ہیں، ان سے آپ عبرت پکڑیں کہ یہ لوگ یہ کام کر رہے ہیں اور میں نہیں کر رہا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه ارشاد فرماتے ہیں کہ برکت اس شخص کی تلقین میں ہوتی ہے جو خود بھی عمل کرتا ہو۔ جو خود عمل نہیں کرتا اس کی تلقین میں برکت نہیں ہوتی۔

بزرگوں نے اس کی ایک مثال لکھی ہے۔ شیخ سعدی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پاس ایک بڑھیا آئی۔ شیخ سعدی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے خلیفہ ہیں اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پیر بھائی ہیں۔ اس وجہ سے وہ یہاں ملتان کے علاقہ میں بھی تشریف لائے تھے اور شہر ملتان کے بارے میں ان کے کچھ ملفوظات بھی ہیں۔ ان کے پاس ایک بڑھیا آئی کہ بابا جی میرے اس بچے کو آپ کچھ نصیحت کریں یہ گڑ بہت کھاتا ہے ذرا اسے روک دیں۔ انہوں نے کہا: اچھا ماں جی! آپ کل اس کو لے آنا۔ بڑھیا نے سوچا ٹھیک ہے، اس وقت مصروف ہوں گے یا کوئی اور بات ہو گی، یہ سوچ کر چلی گئی۔ اگلے دن جب بچے کو لائی تو بابا جی نے بچے سے مخاطِب ہو کر کہا: بیٹا اتنا زیادہ گڑ نہیں کھانا چاہئے نقصان ہو جائے گا، بس جاؤ۔ بڑھیا نے کہا: حضرت یہ بات تو آپ کل بھی کر سکتے تھے، اتنی سی بات کہنے میں کیا مشکل تھی کہ آپ نے اس کے لئے ایک دن بعد بلایا۔ انہوں نے کہا: اصل میں کل میں خود گڑ کھا چکا تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ خود پرہیز نہیں کرتے وہ مریدوں کو پرہیز گار نہیں بنا سکتے۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرمایا کرتے تھے کہ اپنے معمولات قائم رکھیں کیونکہ جن کے معمولات ختم ہو جاتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ کورے کے کورے رہ جاتے ہیں۔ باقی لوگوں کو بھلے فائدہ ہو، لیکن خود کورے کے کورے رہ جائیں گے۔

حضرت تھانوی رحمة الله عليه کا ملفوظ ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو ایک بدوی نے بڑی شاندار نصیحت کی۔ اس نے کہا: اے عمر یاد رکھ! وہ کیسا منظر ہو گا کہ تیری وجہ سے لاکھوں لوگ جنت میں چلے جائیں اور تو خود جہنم میں چلا جائے۔ اندازہ کریں یہ بات معمولی ہستی سے نہیں کہی جا رہی مجددِ اول سے کہی جا رہی ہے۔ چنانچہ اگر انسان بے عمل ہو جائے تو بے شک اس کے علم سے دوسروں کو فائدہ ہو لیکن خود اس کے لئے نقصان ہو گا۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی ایک مکتوب شریف میں فرمایا ہے کہ بعض علماء کی مثال چقماق کے پتھر کی طرح ہوتی ہے یا سنگ پارس کی طرح ہوتی ہے کہ جو خود تو پتھر کا پتھر رہتا ہے اور دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

متن:

چاہئے کہ اپنے اعمال کو قاصر و کوتاہ اور اپنی نیتوں کو تہمت زدہ سمجھیں (تاکہ عُجب دُورہو) اور حال و قال کی زبان کو کلمہ ھَلْ مِنْ مَزِیْد (ق: 30) (کیا اور بھی ہے) سے تروتازہ رکھیں۔ اگرچہ آپ کے پسندیدہ احوال و اطوار سے یہی امید ہے کہ آپ اسی طرح معاملہ کرتے ہوں گے، لیکن دشمنانِ دین نفسِ امارہ و شیطانِ لعین کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تاکید میں مبالغہ کیا گیا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے طالبوں کی توجہ کی سرگرمی میں سردی و سستی واقع ہو جائے کیونکہ مقصود ان دونوں حالتوں کا جمع کرنا ہے، صرف ایک ہی کی فکر میں لگے رہنا قصور و کوتاہی میں داخل ہے۔

تشریح:

یعنی آپ مریدوں پر بھی محنت کریں، افادہ کے کام کو بھی جاری رکھیں، لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ خود خالی ہاتھ رہ جائیں۔ اس لئے اپنے اوپر بھی محنت جاری رکھیں اور اپنی حفاظت بھی رکھیں۔

رات اور دن کا محاسبہ:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 309 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

مشائخ کرام قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کی ایک جماعت نے محاسبہ کا طریقہ (اس طرح) اختیار کیا ہے کہ وہ رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اقوال و افعال اور حرکات و سکنات کے دفتر کو ملاحظہ کرتے ہیں اور ہر ایک عمل کی حقیقت کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اپنے قصوروں اور گناہوں کا توبہ و استغفار اور التجا و تضرع کے ذریعہ تدارک کرتے ہیں، اپنے نیک اعمال و افعال کو حق تعالیٰ کی توفیق کی طرف منسوب کر کے حق جل و علا کی حمد اور اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ صاحبِ فتوحات مکیہ (شیخ ابنِ عربی) قدس سرہ جو کہ محاسبہ کرنے والوں میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ "میں اپنے محاسبہ میں دوسرے مشائخ سے بڑھ گیا ہوں اور میں اپنے (قلبی) خطروں اور نیتوں کا بھی محاسبہ کرتا ہوں۔ اور اس فقیر کے نزدیک سونے سے پہلے سو مرتبہ تسبیح، تحمید اور تکبیر (سبحان اللّٰہ، الحمداللّٰہ اور اللّٰہ اکبر) کا پڑھنا جس طرح کہ مخبر صادق علیہ و علی الہ الصلوات و التسلیمات سے ثابت ہے محاسبہ کا حکم رکھتا ہے۔ اور محاسبہ کا کام دیتا ہے۔ گویا ان کلمات کا پڑھنے والا کلمہ تسبیح کے تکرار سے جو کہ توبہ کی کنجی ہے اپنی تقصیرات اور برائیوں سے عذر خواہی کرتا ہے۔ اور حق تعالیٰ کی مقدس بارگاہ کو ان امور سے جن کے باعث وہ ان برائیوں کا مرتکب ہوا ہے منزہ اور مبرا ظاہر کرتا ہے کیونکہ برائیوں کے مرتکب کو اگر امر و نہی کے احکام صادر کرنے والی ذات تعالیٰ و تقدس کی عظمت و کبریائی ملحوظ و منظور ہوتی تو وہ حق تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے میں ہرگز سبقت و دلیری نہ کرتا، اور جب اس نے حکم نہ ماننے پر دلیری کی تو معلوم ہوا کہ اس مرتکب کے نزدیک حق تعالیٰ کے امر و نہی کا کچھ اعتبار و شمار نہیں تھا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ مِنْ ذٰلِکَ (اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے) پس وہ اس کلمہ تنزیہ کے تکرار سے اس کوتاہی کی تلافی کرتا ہے۔ نیز جاننا چاہئے کہ استغفار کرنے میں گناہوں کے ڈھانپنے کی طلب ہے اور کلمہ تنزیہ کے تکرار میں گناہ کے بیخ کنی کی طلب ہے۔ یہ (دونوں کلمے "سبحان اللّٰہ" اور استغفار) کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ "سبحان اللّٰہ" ایک ایسا عجیب کلمہ ہے کہ اس کے الفاظ بہت کم ہیں لیکن اس کے معانی و منافع بہت زیادہ ہیں اور کلمہ تحمید (الحمدللّٰہ) کی تکرار سے حق تعالیٰ کی توفیق اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے، اور کلمہ تکبیر (اللّٰہ اکبر) کی تکرار میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی پاک بارگاہ اس سے بہت ہی بلند ہے کہ یہ عذر خواہی اور شکر گزاری اس ذات جل شانہ کے لائق ہو، کیونکہ اس کی عذر خواہی اور استغفار بہت سی عذر خواہیوں اور استغفارات کی محتاج ہے اور اس (بندہ) کا حمد کرنا اس کے اپنے نفس کی طرف راجع ہے (نہ کہ حق تعالیٰ کی طرف)۔ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْ وَالْحَـمْدُ لِلّٰـهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (الصٰفٰت: 180-182) (پاک ہے تمہارا رب عزت والا ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں اور سلام ہو تو تمام رسولوں پر اور تمام تعریف اللّٰہ رب العالمین کے لئے ہے)۔

محاسبہ کرنے والے شکر اور استغفار پر اکتفا کرتے ہیں لیکن ان کلمات قدسیہ کے ساتھ استغفار کا کام بھی ہوجاتا ہے۔ اور شکر بھی ادا ہوجاتا ہے، اور نیز استغفار اور شکر کے نقص کا اظہار کرنے کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرہ:127) (اے رب ہماری یہ دعا قبول فرما) وَصَلّی اللّٰہ تَعَالیٰ علیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وصَحْبِہِ الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ وَبَارَکَ وعَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ اَجْمَعِینَ۔

تشریح:

عارفین کی باتوں کو سننے کا یہی فائدہ ہوتا ہے، آپ اندازہ کریں کہ کتنے ہی لوگ یہ کلمات پڑھتے ہوں گے: "سُبْحَانَ ﷲِ وَ الْحَمْدُِ ﷲِ وَ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ وَ اﷲُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ"، لیکن کیا کبھی کسی نے ان باتوں پہ غور کیا ہے جو مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرما رہے ہیں؟ یعنی سُبْحَانَ ﷲِ کا مطلب کیا ہوتا ہے، الْحَمْدُِ للہ کا کیا مطلب ہوتا ہے، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا کیا مطلب ہے؟ اس طرف شاید ہی کسی کی نظر گئی ہو گی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ سُبْحَانَ ﷲِ کلمۂ تنزیہ ہے۔ کلمۂ تنزیہ سے مراد یہ ہے کہ الله جل شانهٗ ہر اس چیز سے پاک ہے جسے عیب کہتے ہیں، جس قسم کی بھی کمزوری ہے، جس طرح کا بھی نقصان ہے، جس نوع کی بھی کمی ہے، جو انسان کے ذہن میں آ سکتا ہے یا نہیں آ سکتا، اللہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔

الحمد للہ ہم لوگوں کی عادتیں بڑی اچھی ہیں لیکن ہم ان عادتوں کو جانتے نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک دفعہ ایک بچہ گر پڑا تو جو عورتیں اس کے ساتھ تھیں، ان میں سے کسی نے کہہ دیا بِسْمِ اللہ۔ میں حیران ہو گیا کہ گرتے وقت بِسْمِ اللہ کہنا بڑی عجیب سی بات ہے۔ ایک دفعہ میں مسنون دعاؤں کی کتاب پڑھ رہا تھا، اس میں لکھا تھا: 'حادثہ کے وقت کی دعا: ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔ میں نے کہا سبحان اللہ! یعنی یہ دعا ہماری سرشت میں ہے۔ جب کوئی گرتا ہے، یا ٹھوکر کھاتا ہے تو اکثر اوقات ہم بِسْمِ اللہ کہتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے نہیں سوچا کہ یہ دعا ہے۔ اس کی طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا۔ ذرا ان چیزوں کی یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ ہمارے لوگوں کی اچھی اچھی عادتیں ہیں۔ مثلاً سُبْحَانَ اللہِ کہنا، کوئی چیز پسند آ جائے تو کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ، کوئی اچھا شعر پڑھ لے تو کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ، کوئی اچھی بات کر لے تو کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ۔ کبھی سوچا ہے کہ ہم سُبْحَانَ اللہِ کیوں کہہ رہے ہیں؟ بظاہر یوں لگتا ہے کہ سُبْحَانَ اللہِ کہہ کر ہم اس شاعر کی تعریف کر رہے ہیں جو شعر پڑھ رہا ہے، جو اچھی بات کر رہا ہے، حالانکہ سُبْحَانَ اللہِ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ یہ آدمی کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بڑی ہے، بہت پاک ہے، ان تمام چیزوں سے منزہ ہے، ہم لوگ کبھی بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ما شاء اللہ کہنا ہے۔ ما شاء اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ اگر کسی کی نظر لگتی ہو تو ما شاء اللہ کہہ دے تو اس کی نظر نہیں لگے گی۔ مجھ سے کسی نے کہا کہ لوگ ما شاء اللہ کہتے ہیں، پھر بھی ان کی نظر لگتی ہے۔ میں نے کہا: ما شاء اللہ صرف زبان سے کہتے ہیں، ان کا دل ان کے ساتھ نہیں ہوتا، بس عادتاً کہہ دیتے ہیں۔ ان کو ما شاء اللہ کا مطلب ہی پتا نہیں ہے۔ جب ان کو اس کا مطلب ہی نہیں پتا تو اس کے بارے میں ان کا ذہن کیا بنے گا۔ ما شاء اللہ کا مطلب ہے: ’’اللہ نے کیسی خوبصورت چیز بنائی ہے، یہ اس کا کمال ہے‘‘۔ اب اگر آپ کا ذہن اللہ کی طرف نہیں جاتا تو اس انسان کی طرف ذہن جائے گا، جس سے اس کو نقصان ہو جائے گا، نظر لگ جائے گی۔ لیکن اگر آپ کا ذہن اللہ کی طرف چلا گیا تو وہ آدمی بچ جائے گا، اس کو نظر نہیں لگے گی۔ ہمیں اسی بات کا استحضار رکھنا ہے کہ کیا ما شاء اللہ کہتے ہوئے اللہ کی طرف نظر جاتی ہے؟ اگر نہیں جاتی تو گویا ویسے ہی زبان سے کہہ دیا ہے لیکن دل سے ما شاء اللہ نہیں کہا۔ اسی لئے اس کا فائدہ بھی نہیں ہوا۔ بس اس link کی ضرورت ہے۔ جیسے نماز بہت لوگ پڑھتے ہیں، لیکن وہ نماز جس میں انسان کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو وہ کتنے لوگ پڑھتے ہیں؟ جس نماز میں انسان کا رخ اللہ کی طرف ہو ایسی نماز کسی کسی کی ہوتی ہے۔ وہ نماز جو تبدیلی لانے والی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔

ایسی نماز کسی کسی کی ہوتی ہے۔ اس پر بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح روزے کے ذریعے تقوٰی حاصل ہوتا ہے۔ ہم روزے رکھتے ہیں، لیکن پھر تقوٰی کیوں نہیں حاصل ہوتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح روزہ رکھنا چاہئے اس طرح ہم نہیں رکھتے۔

اب ذرا غور فرمائیں۔ شریعت کے اعمال مستقل ہیں تبدیل نہیں ہوتے لیکن شریعت کے اعمال کا اثر ہر ایک پر الگ الگ ہوتا ہے، کسی پہ بہت زیادہ کامل، کسی پہ کم، کسی پہ اس سے کم، کسی پہ اس سے کم اور کسی پہ نہ ہونے کے برابر۔ جس کو ہم تصوف یا طریقت کہتے ہیں، وہ اصل میں انہی اعمال کے سنوارنے کا نام ہے۔ یعنی اعمالِ شریعت کو جو توجہ دینی چاہئے اور ہم نفس کی وجہ سے نہیں دے پاتے، ان کو اس طرح نہیں کرتے جس طرح کرنا چاہئے، نفس کی اصلاح کر کے ہم ان اعمال کو اس طرح کرنے کے قابل ہو جائیں، اسی کو طریقت و تصوف کہتے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہی شریعت کے اعمال کو درست کرنے کا نام ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ طریقت سے مراد بس نفس کو قابو کر لینا نہیں ہے، بلکہ نفس کو قابو کر کے شریعت کے اعمال پر لانا ہے۔ کیا طریقت صرف نفس کے اوپر محنت ہے، شریعت کے اعمال کے ساتھ اس کا کوئی کام نہیں؟ ایسی بات نہیں ہے۔ شریعت کے اعمال ہر ایک نے ہر صورت میں کرنے ہیں، وہ تو بغیر تصوف کے بھی کرنے ہوں گے، تصوف کے ساتھ بھی کرنے ہوں گے۔ کیا اگر کوئی صوفی نہیں ہو گا تو نماز نہیں پڑھے گا؟ نماز وہ بھی پڑھے گا، روزے وہ بھی رکھے گا، زکوۃ وہ بھی دے گا، حج وہ بھی کرے گا، معاملات وہ بھی سیدھے کرے گا، سارے اعمال وہی کرے گا، جو شریعت کا حکم ہیں۔ صوفی بھی وہی کرتا ہے، جو شریعت کے اعمال ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ صوفی کے اعمال نفس کے اثر سے آزاد ہو کر اللہ کے لئے خالص ہو جاتے ہیں۔

آج صبح میں اپنے ایک ساتھی سے یہ بات کر رہا تھا کہ نقشبندی سلسلہ میں لطائف کا نظام ایک بہت زبردست نظام ہے۔ اس میں لطائف کے ذریعہ انسان کا تعلق ملاءِ اعلی کے ساتھ بنتا ہے۔ اس تعلق کے بننے کو لطائف کا اجرا کہتے ہیں۔ ان لطائف میں لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفی شامل ہیں۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ ان لطائف کی جڑیں عرش کے اوپر ہیں اور ان کا سِر ہمارے اندر ہے۔ ان لطائف کو اپنے اندر جاری کرنے کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے انسان کا connection کسی چیز کے ساتھ صحیح ہو جاتا ہے۔ مثلاً پنکھا لگانے کے بعد اگر بجلی کے ساتھ اس کا connection نہیں جوڑا تو پنکھا نہیں چلے گا۔ سسٹم سارا موجود ہے، لیکن جب تک میں اس کا connection بجلی کی power کے ساتھ نہیں کروں گا، اس وقت تک پنکھا نہیں چلے گا۔ اسی طریقہ سے شریعت پر چلنے کا نظام ہمارے اندر موجود ہے، لیکن جب تک اوپر سے connection نہیں ہو گا، تب تک کام نہیں ہو گا۔ لطائف کا جاری ہونا اصل میں اسے کہتے ہیں کہ یہ connection بن جائے۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ جو جسم پھڑکنا شروع ہو جاتا ہے، یہ connection ہے۔ یہ تو پٹھے ہیں، یہ پھڑکنا کسی اور وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، تصور سے بھی ہو سکتا ہے، اس کا connection کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ یہ connection نفس کی اصلاح کے ساتھ بنتا ہے، جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوتی، اس وقت تک یہ connection قائم نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بالکل صاف صاف ارشاد فرمایا کہ جب جذب حاصل ہو جاتا ہے تو پھر سلوک طے کرنا ہوتا ہے۔ جذب حاصل ہونے کے بعد انسان مقامِ قلب میں پہنچتا ہے جہاں نفس اور روح آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ ان کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ نفس نے روح کو گھیرا ہوتا ہے۔ ویسے بھی روح ہمارے جسم میں آ کر نفس کی قیدی ہو گئی ہے، وہ نفس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی لیکن جب ہم نفس کے اوپر محنت کرتے ہیں، اس کے ہاتھ پاؤں باندھ لیتے ہیں اور روح اس کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے، تب روح کا connection ملاءِ اعلی کے ساتھ بن جاتا ہے، اور ہمارا قلب ملاءِ اعلی کا eye peace بن جاتا ہے، جیسے دور بین کے eye peace میں آپ کو بہت دور کی چیز بھی یوں نظر آ جاتی ہے، جیسے بالکل آپ کے سامنے ہے، اسی طریقہ سے ملاءِ اعلی ہم سے بہت دور ہے، لیکن جب ہمارے دل کا تعلق اس کے ساتھ بن قائم ہو گیا تو اس دل میں وہ ساری باتیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ لطیفۂ قلب کے اجرا کے بعد یہ معاملہ ہوتا ہے کہ ملاءِ اعلی سے تعلق ہو جاتا ہے۔ لطیفۂ روح کا اپنا ایک اثر ہے، لطیفۂ سر کا اپنا اثر ہے، لطیفۂ خفی کا اپنا اثر ہے، لطیفۂ اخفٰی کا اپنا اثر ہے۔ یہ لطائف حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے دوسرے مقامات پر بیان کئے ہیں۔

معلوم ہوا کہ لطائف کا اجرا اصل میں connection ہے اور یہ اجرا اس وقت ہوتا ہے، جب نفس کی اصلاح ہو جائے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوتی، اجرا نہیں ہوتا۔ ویسے پھڑکنا وغیرہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کا اصل مظاہرہ اور اثرات تب ہوتے ہیں، جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس لئے حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو جذب حاصل ہو گیا، لیکن اس نے سلوک طے نہیں کیا اور اپنے آپ کو کامل سمجھا تو یہ مجذوب متمکن ہے، نہ خود پہنچا ہے، نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ کسی شیخ کامل سے اپنی تکمیل کرائے اور راستے کا ڈاکو نہ بنے۔

ہمیں ان چیزوں کو سمجھنا چاہئے۔

حصول اور وصول میں فرق:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 231 میں فرماتے ہیں:

متن:

اے بھائی! ’’حصول‘‘ باوجود دوری کے متصور ہے اور’’وصول‘‘ مشکل و دشوار ہے، جیسا کہ عنقا کو ایک مخصوص صورت کے ساتھ تصور کیا جاسکتا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ عنقا ہماری قوتِ مدرکہ میں حاصل ہے لیکن عنقا تک پہنچنا ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ ظلّیت جو کہ کسی چیز کے مرتبۂ ثانی میں ظہور سے مراد ہے

تشریح:

ایک اصل چیز ہوتی ہے اور ایک اس کی نقل ہوتی ہے۔ اس نقل کو عکس، ظل اور سایہ کہتے ہیں۔ اسے دوسرے مرتبے میں ظہور بھی کہہ سکتے ہیں یعنی تنزل کر کے اس کا ظہور ہو جاتا ہے۔

متن:

مرتبۂ ثانی میں ظہور سے مراد ہے اس چیز کے حصول کے منافی نہیں ہے لیکن اس چیز کا وصول ظلیت کی تاب نہیں لاسکتا، لہٰذا ان دونوں کے درمیان فرق معلوم ہو گیا۔

تشریح:

یعنی ظلیت کے ساتھ حصول تو ممکن ہے مگر وصول نہیں ہو سکتا۔ ابھی جو ہم نے بحث کی ہے اسی کے ذریعہ ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ دیکھیں اگر وہ تصور کر لے کہ میرے دل میں اللہ اللہ ہو رہا ہے تو یہ ہو سکتا ہے۔ یہ حصول ہے۔ لیکن واقعی میرا نفس پہ قابو پانا، اللہ اللہ کرنا، اور پھر ملاءِ اعلی کے ساتھ تعلق ہو جانا، یہ وصول ہے۔ یہ تب ہی ہو گا جب نفس کی اصلاح ہو جائے گی۔ اس سے حصول اور وصول کے درمیان فرق معلوم ہو گیا۔

دوسروں کی برائیاں عارف کے لئے نیکی کا حکم پیدا کرتی ہیں:

دفتر دوئم کے مکتوب نمبر 56 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

قال اللہ تبارک و تعالیٰ (فَاُولٰٓئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّئَاتِـهِـمْ حَسَنَاتٍ) (الفرقان: 70) (یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے) اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کے حبیب علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام کے طفیل درویش کا معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں اس کی نیکیاں ہوجاتی ہیں اور دوسروں کی بری خصلتیں اس کے لئے اچھی صفتیں بن جاتی ہیں۔ مثلاً ریا و سُمعہ (دکھاوا اور شہرت) جو برائیوں اور بری خصلتوں میں سے ہیں اس کے حق میں حسن و خوبی پیدا کر لیتے ہیں اور حمد و شکر کا حکم اختیار کر لیتے ہیں اس لئے کہ اس درویش نے ہر قسم کی عظمت و کبریائی کو اپنے آپ سے مسلوب کرکے جناب قدس خداوندی جل سلطانہ کی طرف منسوب کردیا ہے، اور تمام اقسام کے حسن و جمال اور خیر و کمال کو اپنے آپ سے دور کرکے حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص کردیا ہے۔ وہ آپ کو شر و نقص کے سوا کچھ نہیں پاتا اور اپنے آپ میں ذلت و محتاجی اور عجز و انکساری کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، اور اگر بالفرض صاحبان عظمت و کبریائی میں سے کوئی صاحب بظاہر اس کی طرف متوجہ ہو تو وہ اس کو زینہ سمجھے گا کہ جس کے ذریعے وہ فوق کی طرف جائے گا اور اس ذات پاک تک پہنچ جائے گا جو عظمت و کبریائی کے لائق ہے۔ حسن و جمال اور خیر و کمال کا بھی یہی حال ہے کہ ان میں زینہ سے زیادہ ہونا اس کے نصیب میں نہیں، باقی امانتیں امانت والوں کی طرف راجع ہوتی ہیں، لہذا ریا و سُمعہ کی صورت میں اس (درویش) کا مقصود اپنا اشتہار و افتخار اور رفعت و عظمت نہیں ہوتا بلکہ حق سبحانہ کی اس نعمت و احسان کا اظہار ہے جو اس پر واقع ہوا ہے۔

تشریح:

یہ ﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحیٰ: 11) کا مطلب ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو کوئی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس نعمت کا اظہار بھی شکر کے زمرے میں آتا ہے۔ اور لوگ جو کام ریا کے لئے کر رہے ہیں، وہ شکر کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ ذرا مشکل مضمون ہے۔ اس کو ذرا واضح کرنا چاہئے۔

یہ حقیقت ہے کہ مبتدی اور منتہی کا فرق عوام پہ نہیں کھلتا۔ عوام مبتدی اور منتہی کو ایک سمجھتے ہیں کیونکہ عوام صرف احوال دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ احوال کے پیچھے جو نیت ہے عوام وہ نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ نیتوں کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے انسان نہیں جانتا۔ وہ باطن کا معاملہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

اگر ایک شخص کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہا ہے، اس رونے کے پیچھے نیت کیا ہے، یہ تو اللہ کو پتا ہے۔ مبتدی نفس کی وجہ سے رو رہا ہے کیونکہ اس کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اور منتہی اس لئے رو رہا ہے کہ وہ اس حال کی قدر کرنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تکلیف اس لئے ڈالی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اس حالت میں اللہ کے سامنے عاجزی اور آہ و زاری کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے کے لئے رو رہا ہے۔

ایک بار حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنه بیمار ہو گئے تو فریاد کر رہے تھے۔ کسی نے کہا: حضرت آپ بھی یہ کر رہے ہیں؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ تو بہت زیادہ کامل لوگوں میں سے ہیں۔ فرمایا: کیا میں اللہ کو اپنی پہلوانی دکھاؤں؟ ان کی اس فریاد میں نیت اللہ کے سامنے عاجزی کرنا تھی۔

اسی طرح سمجھیں کہ ایک شخص تحدیثِ نعمت کے طور پر اللہ کی نعمت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور دوسرا اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ مثلاً میں سید ہوں، اب اس میں میرا کیا کمال ہے؟ میں نے کون سے پہاڑ کو سر کیا تھا کہ میں سید بن گیا ہوں! اگر میں اس پر فخر کروں گا تو یہ فخر فضول ہو گا۔ لیکن بعض اوقات اس کا اظہار ضروری ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک دفعہ فرمایا تھا:

’’اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَم وَلَا فَخْرَ‘‘۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: 6242)

ترجمہ: ’’میں اولاد آدم کا سردار ہوں، لیکن اس پہ فخر نہیں کرتا‘‘۔

لہٰذا بعض دفعہ اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اگر استفادہ کے لئے میں کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہوں کہ مجھے کچھ علم حاصل ہو جائے تو اس کے لئے میں اگر اس کا اظہار کر لوں تو جائز ہے۔ اگر میں اس لئے اظہار کروں کہ میرے پاس ایک نعمت ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہے اور میں لوگوں دینا چاہوں، اور سمجھوں کہ اگر یہ بتا کر دوں گا کہ میں سید ہوں تو لوگ اچھی طرح لینا شروع کر لیں گے، یہ لوگوں کے لئے ایک فائدہ کی چیز ہو گی، کبھی میرے فائدہ کی چیز اور کبھی لوگوں کے فائدہ کی چیز ہو گی۔ اس نیت سے اس کا اظہار کرنا جب کہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو تو جائز ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو طاقت دی ہے تو اللہ کی رضا کی خاطر اس کا اظہار کرنا بھی جائز ہو گا۔

طالوت بادشاہ بنا دئیے گئے۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کو کیوں بادشاہ بنایا گیا؟ کیا یہ ہم سے زیادہ بہتر ہے؟ اس کے پاس مال ہے نہ کچھ اور ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ اس کو میں نے دو چیزیں دی ہیں۔ (1) مضبوط جسم۔( 2) وسیع علم۔

یوسف علیه السلام نے بھی اپنے کمال کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے آپ وزیر خزانہ بنا دیں میں محافظ و امین ہوں۔ وہ ان نعمتوں کا اظہار لوگوں کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ گویا کامل بھی ظاہر کرتا ہے، ناقص بھی ظاہر کرتا ہے۔ ناقص اپنے نفس کے لئے ظاہر کرتا ہے، کامل اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لئے ظاہر کرتا ہے، دونوں میں فرق ہے۔ حضرت نے فرمایا: جو دوسرے لوگوں کے لئے نقصان کی چیزیں ہیں، وہ ان (کاملین) کے لئے مفید ہوتی ہیں۔

خوف و غلبۂ دشمن کے لئے عمل:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 66 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

واضح ہو کہ خوف اور دشمنوں کے غلبے کو وقت امن وامان کے لئے سورۃ لا ایلاف ﴿لِاِیْلَافِ قُرَیْشٍ کا پڑھنا مجرب ہے ہر دن اور رات کو کم از کم گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھا کریں۔ حدیث نبوی-صلی اللہ علیہ وسلم- میں آیا ہے جو شخص کسی جگہ اترے اور یہ کلمات پڑھے) أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ کُلِّھَا مِنْ شَرِّ مَا خَلَق( تو وہاں سے کوچ کرنے تک کوئی چیز ضرر نہ دے گی.

تشریح:

ما شاء اللہ اپنے ساتھیوں کے لئے حضرت نے یہ عمل بیان فرمایا ہے۔

فضائل سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ:

طریقۂ نقشبندیہ کی فضیلت بہت سے مکتوبات گرامی میں مذکور ہے، ان میں سے چند مکتوبات یہ ہیں، دفتر اول مکتوب نمبر 243,221,90,66,58,37,27,21 وغیرہ۔ ان میں سے بعض مکتوبات شریف کے اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ لیکن پہلے میں آپ کو اس کی وجہ بتاتا ہوں تاکہ آپ الجھن کا شکار ہو نہ ہوں۔

بعض لوگوں کے لئے بعض چیزیں عیب ہوتی ہیں، جیسے پدرم سلطان بود والی سوچ عیب ہے، لیکن حضرت یہ کیوں فرما رہے ہیں؟ اس پہ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

در اصل نقشبندی سلسلہ ہندوستان میں نیا تھا۔ خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے پہلے ہندوستان میں یہ سلسلہ نہیں تھا۔ خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ہندوستان کی طرف جو ہجرت کی تھی، اس میں بہت بڑی حکمت تھی۔ پہلے وہ تشریف لائے، پھر مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو ان کی طرف جانے کا حکم ہوا۔ سلسلہ چشتیہ موجود تھا، قادریہ موجود تھا، سہروردیہ موجود تھا۔ سہروردی تو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے وقت سے، بالکل قرون اولیٰ سے موجود تھا۔ کیونکہ بہاء الدین زکریا ملتانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) براہِ راست حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے خلیفہ ہیں۔ گویا دوسرے مرحلے کے حضرات سے آغاز ہوا اور ابھی تک مسلسل چلا آ رہا ہے، بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سہروردی سلسلہ ہمارے پاکستان کا بنیادی سلسلہ ہے۔ اس خصوصیت کا بہت کم لوگوں کو پتا ہو گا کہ سہروردی سلسلہ پاکستان کا بنیادی سلسلہ ہے کیونکہ پاکستان میں سہروردی سلسلہ کے اکابر مسلسل چلے آ رہے ہیں، یہ اس کا تسلسل ہے۔ چشتیہ سلسلہ کے صرف ایک بزرگ کا مزار ہمارے پاکستان میں ہے، یعنی بابا فرید الدین گنج شکر (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، جن کا مزار پاکپتن شریف میں ہے۔ چشتیہ سلسلہ کا اور کوئی بڑا یہاں موجود نہیں، ہندوستان میں زیادہ ہیں۔ اسی طرح قادری سلسلہ کا بھی یہ حال ہے کہ اوچ شریف میں قادری سلسلہ کے حضرات بھی قرون اولیٰ والے موجود ہیں، کیونکہ شیخ عبد القادر جیلانی ثانی، شیخ عبد القادر جیلانی ثالث اور شیخ عبد القادر جیلانی رابع، یہ تینوں اوچ شریف میں ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ بھی شروع سے موجود ہے، صرف نقشبندی سلسلہ ہندوستان میں نیا تھا۔

اس سلسلہ کی کچھ خصوصی برکات ہیں۔ چنانچہ نقشبندی سلسلے کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ مصائب و مشکلات کے وقت بہت ہی زیادہ مستحکم سلسلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کسی چیز کا پتا چلنا ضروری نہیں ہے کیونکہ ساری چیزیں اندر ہی اندر ہوتی ہیں۔ اب کوئی جہری ذکر کرے گا تو لوگوں کو پتا چلے گا۔ لیکن نقشبندی ذکر کرے گا تو اس کا پتا کسی کو نہیں چلے گا۔ ہاں اگر کسی کو بتا دے کہ میں نقشبندی ہوں تو علیحدہ بات ہے۔ لیکن اگر کسی کو نہ بتائے تو کسی کو کیا پتا! اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ جو ہو گا سو ہو گا، لیکن کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ اس وجہ سے ما وراء النہر وسطی ایشیا میں سب سے زیادہ کامیاب سلسلہ نقشبندی سلسلہ ہے۔ ترکی میں ابھی تک یہ سلسلہ موجود ہے۔ اتا ترک نے بہت بیخ کنی کی، لیکن نقشبندی سلسلہ کی وجہ سے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔ ترکیہ کا موجودہ صدر اردوغان بھی نقشبندی سلسلہ کا ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو پتا چلے گا کہ دعوت کا عنصر چشتی سلسلہ میں زیادہ ہے۔ تبھی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ذریعہ سے نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کا مکمل داخلہ چشتی سلسلہ کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن جب مشکل وقت آیا اور اکبر کا دور آیا، جس میں تمام چیزوں کو ختم کیا جا رہا تھا، علماء کو شہید کیا جا رہا تھا یا ملک بدر کیا جا رہا تھا اور دینِ الٰہی (دینِ اکبری) کو فروغ دیا جانے لگا، اس وقت نقشبندی سلسلہ نے اتنے کمال اور استقلال کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس لئے کہ یہ مخفی سلسلہ ہے، اس کا دوسروں کو جلدی پتا نہیں چلتا۔ اکبر کے نصف سے زیادہ درباری حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ساتھ متعلق ہو چکے تھے اور اکبر کو پتا بھی نہیں تھا۔ اس کا بہت بڑا درباری عبد الرحیم خانخاناں حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا مرید تھا۔ مکتوبات شریفہ میں اس کے نام بھی مکتوبات ہیں۔ جب جہانگیر نے قلعہ گوالیار میں حضرت کو قید کر دیا تو محبت خان جو حضرت کا مرید تھا، اس نے پشاور میں بغاوت کر دی اور یہاں ہندوستان سے بھی کچھ جرنیل جو حضرت کے متعلقین میں سے تھے وہاں پر چلے گئے۔ ان کی اچھی خاصی طاقت جمع ہو گئی۔ ان کی سرکوبی کے لئے جہانگیر نے جس کو بھی بھیجا، وہ گرفتار ہو گیا، حتیٰ کہ جہانگیر کو معلوم ہوا کہ بس اب اگر حضرت ہی کچھ کریں تو کریں ورنہ حکومت گئی۔ وہ باقاعدہ گوالیار قلعہ میں حضرت سے ملنے آیا۔ حضرت سے گفتگو ہوئی۔ پھر حضرت نے محبت خان کو خط لکھا کہ ہمارا کام حکومت کرنا نہیں ہے، حکومت یہ کریں گے، البتہ شریعت کے مطابق کریں گے۔ ان سب کو خوب ادب و احترام کے ساتھ رہا کر دو۔ سب کو رہا کروا دیا۔ اس کے بعد جہانگیر، حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتا تھا۔ جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں باقاعدہ حضرت سے بیعت ہوا، اس کے بعد اورنگ زیب عالم گیر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) خواجہ معصوم (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مرید تھے۔ اکبر نے جو بگاڑ پیدا کیا تھا، آخر کار چوتھی پشت میں آ کر وہ سارے کا سارا ختم ہو گیا اور جس تخت پر بیٹھ کر اکبر فقہاء کو سفہاء کہتا تھا، اسی تخت پر اورنگ زیب عالم گیر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اپنے ساتھ فقہاء کو بٹھایا اور ان سے ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ لکھوائی۔

یہ اتنی بڑی تبدیلی آخر کیسے آئی؟ یہ نقشبندی سلسلہ ایک خصوصی algorithm ہے، یہ اس کی برکت سے ہوا۔ اس سلسلہ میں ایک مخفی نظام ہے۔ اس کی بڑی برکات ہیں۔ اس وجہ سے اس کا تعارف کرانا ضروری تھا۔ اس تعارف کے لئے حضرت نے جو کلمات کہے ہیں ان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت دوسرے سلسلوں کی تنقیص کر رہے ہیں یا اپنے سلسلہ کو خواہ مخواہ بڑھانا چاہ رہے ہیں، بلکہ وہ یہ سب ایک نئی چیز کو متعارف کرنے کے لئے بتا رہے ہیں۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ جب تک حضرت کی تاریخ لوگوں کے سامنے نہ ہو، وہ مکتوبات شریفہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ جس وقت میں نے مکتوبات شریف پر کام شروع کیا تو حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی طرف سے مبشرات میں ایک اطلاع آئی جس میں فرمایا کہ اس کو کہہ دو کہ پہلے مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی تاریخ پڑھو، جب تک ان کی تاریخ نہیں پڑھو گے، اس وقت تک سمجھ نہیں آئے گی کہ مکتوبات میں کیا ہے۔ اس کے بعد میں نے مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی ’’کاروان دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد چہارم جو صرف مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پر لکھی گئی ہے، نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھی۔ اس کے پڑھنے کے بعد یہ تمام چیزیں کھل گئیں کہ اس وقت حالات کیسے تھے، اور مکتوبات سمجھ میں آنے لگ گئے۔ آج کل ہماری تاریخ کامل نہیں ہے، اس میں بہت ساری چیزیں ہم نہیں جانتے، پہلے یہ چیزیں پڑھائی جاتی تھیں، لیکن آج کل نہیں پڑھائی جاتیں، جب تک یہ چیزیں انسان نے پڑھی نہیں ہوتیں، اس وقت تک مکتوبات شریفہ کا content سمجھ نہیں آتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔ اس وجہ سے میں نے اس کے لئے لمبی تمہید باندھی تاکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے کہ آخر حضرت نے ایسی باتیں کیوں فرمائی ہیں۔

دفتر اول کے مکتوب نمبر 21 فضائل سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اکابِر نقشبندیہ قدس اللہ تعالٰی اسرارہم کے نزدیک یہ حضورِ ذاتی دائمی ہے اور ان بزرگوں کے نزدیک زائل ہو جانے اور غَیبت سے بدل جانے والے حضور کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ لہذا ان اکابر کا کمال تمام کمالات سے بالاتر ہے اور ان کی نسبت تمام نسبتوں سے اعلٰی ہے، جیسا کہ ان بزرگوں کی عبارتوں میں یہ جملہ آیا ہے اِنَّ نِسْبَتَنَا فَوْقَ جَمِیْعِ النَّسَبِ (یعنی ہمارے نسبت تمام نسبتوں سے بالاتر ہے) اور نسبت سے ان کی مراد حضور دائمی ہے۔ اور ان سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ان کاملین کے طریقے میں انتہا ابتدا میں مندرج ہے اور اس امر میں وہ بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام و التحیتہ کی پہلی ہی صحبت میں وہ چیز حاصل کر لی تھی جو صحابہ کرامؓ کے علاوہ دوسرے اولیائے کرام کو انتہائے طریقت میں میسر ہوتی ہے، اور یہ بات ابتدا میں انتہا درج ہونے کے سبب سے ہے۔

تشریح:

اب میں اس کی تشریح عرض کرتا ہوں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، لیکن اس سے غلط مطلب نہ لیا جائے، یعنی دوسرے سلسلوں کی تنقیص کی طرف ذہن نہیں جانا چاہئے۔

اس میں حضرت نے انتہا اور ابتدا کی جو بات فرمائی ہے، حضرت نے خود اسے بہت اچھے طور پہ واضح کیا ہے۔ اگر کسی نے اس کو تفصیل سے پڑھنا ہے تو مکتوب نمبر 287 میں پڑھے، جہاں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ وہاں حضرت نے ’’انتہا کے ابتدا میں مندرج ہونے‘‘ کی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ پہلے سلاسل سلوک سے شروع کرتے تھے اور بعد میں ان کو جذب وہبی عطا ہوتا تھا۔ ہمارے حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اللہ تعالیٰ سے مانگا کہ یا اللہ! مجھے کوئی ایسا طریقہ عطا فرما دے جس سے سلوک آسان ہو جائے۔ تو حضرت پر کچھ ایسے طریقے کھل گئے جن کے ذریعہ سلوک کے بعد جو جذب حاصل ہوتا تھا، وہ جذب پہلے بھی حاصل ہو جائے اور اس کی وجہ سے سلوک طے ہونا آسان ہو جائے۔ جیسے cold forging اور hot forging ہے، ہر چیز cold forging میں نہیں ہو سکتی، بعض جگہ پر hot forging ضروری ہوتی ہے کہ پہلے لوہے کو گرم کیا جائے، پھر اس کی forging کی جائے۔ جب اس قسم کے لوگ ہوں جو hot forging کے بغیر سلوک طے نہ کر سکتے ہوں، cold forging کے قابل نہ ہوں، ان کو پہلے جذب کے ذریعہ گرم کرنا پڑتا ہے، تاکہ اس کے بعد ان کی forging کریں، یعنی سلوک طے کروا دیں۔ اس طرح اس سلسلہ میں جذب کسبی ابتدا میں، سلوک درمیان میں اور پھر جذب وہبی اخیر میں ہے۔ گویا کہ نقشبندی طریق یوں بن گیا ”جذب، سلوک، جذب‘‘ اور باقی سلسلے تھے: ’’سلوک جذب‘‘۔

اب میں اس کی مزید تشریح عرض کرتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ: ”ان کاملین کے طریقہ میں انتہا ابتدا میں مندرج ہے اور اس امر میں وہ بزرگوار رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی پیروی کرتے ہیں“۔ اگر میں کہوں کہ یہ طریقہ باقی طریقوں پہ زیادہ حاوی ہے، تو یہ بات بالکل صحیح ہو گی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ مثلاً نقشبندی سلسلہ میں بھی سلوک طے کرایا جاتا ہے، لیکن اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے جذب ہو گا، یہ جذب پیدا کرنا پڑے گا، اس کے بعد سالک سلوک کا کام کر سکے گا، جبکہ باقی سلاسل بھی سلوک طے کراتے ہیں لیکن ان کے لئے پہلے جذب ضروری نہیں۔ ان میں صحبتِ شیخ اور محبتِ شیخ اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ وہ سلوک کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ اب بتائیں صحابہ کے ساتھ کون مشابہ ہوا! نقشبندیہ کے علاوہ دوسرے سلاسل ہوئے۔ اس لئے کہ صحابہ میں آپ ﷺ کی محبت اتنی زیادہ غالب تھی کہ سارے کام ان کے لئے آسان ہو گئے۔ ان کو کسی جذب کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کو براہ راست آپ ﷺ کی صحبت کی برکت سے ہی وہ چیزیں مل جاتی تھیں جن کے ذریعہ مشکل سے مشکل کام کرنا ان کے لئے آسان ہو جاتا تھا۔ دوسرے سلاسل کی بھی یہی ترتیب ہے، ان میں صحبتِ شیخ اور محبتِ شیخ اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اسی کے ذریعہ سلوک طے کر لیا جاتا تھا، جذب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نقشبندی سلسلہ ناقص ہے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ نقشبندی سلسلہ بھی کامل ہے، لیکن صرف نقشبندی سلسلہ کامل نہیں ہے، بلکہ باقی سارے سلسلے بھی کامل ہیں۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں نقشبندی سلسلہ بھی کامل ہے، اس کے کمال کی اپنی وجوہات ہیں اور باقی سلاسل بھی کامل ہیں، ان کے کمال کی اپنی وجوہات ہیں۔ اپنے اپنے طور پہ سب کامل ہیں۔

آج کل بعض نقشبندی ذرا جذباتی ہو کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں، جہاں دوسروں کا کام ختم ہو جاتا ہے، یعنی جہاں دوسروں کی انتہا ہے، وہاں ہماری ابتدا ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کی ابتدا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی انتہا کے بعد ہے؟ کیا اس کا دعوی کر سکتے ہو کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی جہاں انتہا ہے، وہاں سے ہمارے نقشبندی ساتھیوں کی ابتدا ہے؟ جہاں خواجہ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی انتہا ہے، وہاں سے ہمارے نقشبندی ساتھیوں کی ابتدا ہے؟ جہاں شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی انتہا ہے، وہاں سے ہمارے نقشبندی ساتھیوں کی ابتدا ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ دعویٰ ٹھیک ہو گا؟ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے یہ دعویٰ نہیں کیا، لیکن ہمارے بعض ساتھی کرتے ہیں۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے پوچھا گیا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا تھا: ’’قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَةِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہِ‘‘ ’’میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔ حضرت! کیا یہ بعد والوں کے لئے بھی ہے؟ حضرت نے فرمایا: اپنے اوپر تو مانتا ہوں، البتہ بعد والوں کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ بعد والوں میں امام مہدی علیه السلام آ رہے ہیں، اور پہلے والوں میں صحابہ ہیں، ان پہ بھی نہیں ہو سکتا، شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی یہ بات اسی وقت کے اولیاء کے لئے تھی اور وہ حق ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا پورا ایک مکتوب شریف ہے جس میں فرمایا: حضرت علی کرم اللہ وجہہ تمام سلاسل کے سردار ہیں، تمام سلسلے انہی سے چلے ہیں۔ (جن کو لوگ پنج تن پاک کہتے ہیں، تقریباً انہی کا نام لیا ہے) حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه، حضرت فاطمہ رضي الله تعالیٰ عنها اور حضرت حسن و حسین رضي الله تعالیٰ عنهما، اور جب وہ دنیا سے تشریف لے گئے، پھر ان کی اولاد، پھر ان کی اولاد، اس طرح گیارہ پشتیں بتائی ہیں، جو نام شیعہ لوگ لیتے ہیں، وہ سب حضرت نے بتائے ہیں کہ پھر اس کے بعد امام زین العابدین (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، اس کے بعد امام باقر (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، پھر امام جعفر صادق (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، پھر امام موسی کاظم (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، یوں سب کے نام بتا دئیے اور ان سب کے بعد پھر شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا ذکر کیا ہے۔ یعنی حضرت نے تو ایسی باتیں نہیں کی ہیں کہ ان کا سلسلہ اچھا ہے اور باقی سب سلسلے ناقص ہیں، اور جو باتیں اس سلسلہ کے فضائل میں کی بھی ہیں، ان کا مقصد صرف اس وقت نقشبندی سلسلہ کا تعارف ہے اور وہ بالکل صحیح ہے۔

متن:

پس جس طرح حضرت محمد مصطفٰے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ولایت تمام نبیوں اور رسولوں علیہم الصلوات و التسلیمات کی ولایتوں سے افضل ہے اسی طرح ان بزرگواروں کی ولایت بھی دوسرے تمام اولیائے کرام قدس اللہ تعالٰی اسرارہم کی ولایتوں سے بالاتر ہے، اور بالاتر کیوں نہ ہو جب کہ ان کی ولایت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب ہے۔

تشریح:

حضرت فرما رہے ہیں کہ نقشبندی سلسلہ کی ولایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ کس طرح منسوب ہے، یہ بھی حضرت کی برکت سے مجھے پتا چلا، اپنے طور پہ کچھ معلوم نہ تھا۔ حضرت نے ایک مکتوب شریف میں فرمایا ہے کہ ہماری نسبت حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالیٰ عنه کی طرف اس طرح منسوب ہے کہ ویسے تو یہ سلسلہ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنه سے ہی چلا ہے، لیکن حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنه سے جو سلسلہ چلا تو امام جعفر صادق (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پہ آ کر اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نسبت بھی شامل ہو گئی۔ کیونکہ امام جعفر صادق (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا ننھیال حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالیٰ عنه کا خاندان تھا۔ ان کے ننھیال کے لوگ صدیقی تھے اور صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنه کی نسبت ان میں چلی آ رہی تھی، لہذا حضرت امام جعفر صادق (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پر دونوں نسبتیں اکٹھی ہو گئیں۔ اس طرح نقشبندی سلسلہ میں صدیقی کی شاخ بھی لگ گئی، اس وجہ سے یہ سلسلہ حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنه کی طرف منسوب ہے۔

یہ ہمارا شجرہ ہے۔ اس میں نیچے کی طرف جتنے بھی نام ہیں، ان کے رنگ زیادہ نظر آتے ہیں، اوپر ایک رنگ ہے، جبکہ بعد میں کئی رنگ ہیں۔ نیچے آکر یہ رنگ اس لئے زیادہ ہیں کہ یہاں پر سلسلے ایک ہو گئے ہیں۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نقشبندی تھے، ان کو نقشبندی سلسلہ میں خلافت مل گئی، پھر خواب میں ان کو آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے ان کا ہاتھ میاں جی نور محمد جھنجھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ہاتھ میں دے دیا جو چشتی بزرگ تھے۔ اس وقت تک وہ میاں جی نور محمد جھنجھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو نہیں جانتے تھے۔ ان کا نقشہ تو ان کے ذہن میں بیٹھ گیا، لیکن پتا نہیں تھا کہ کون ہیں، کدھر ہیں۔ تلاش میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ اس قسم کے حلیے کا کوئی بزرگ ہو تو مجھے بتانا، جہاں جہاں گئے مایوسی ہوئی۔ اخیر میں کسی نے کہا جھنجھانہ میں بھی کوئی بزرگ ہیں، آپ ذرا ان کو بھی دیکھ لیں۔ اس وقت سکائپ وغیرہ نہیں تھا، خود جانا پڑتا تھا۔ بہرحال وہ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہی ہیں۔ فوراً ان کے قدموں پہ گر پڑے۔ عرض کیا کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول فرمائیں۔ حضرت نے ان کو دونوں مونڈھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور فرمایا: تمہیں اپنے خواب پر بڑا وثوق ہے۔ پھر حضرت حاجی صاحب کو بیعت فرما لیا۔ اب یہ بیعت کس نے کروائی؟ آپ ﷺ نے کروائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب من جانب اللہ مقرر ہوا تھا۔ جب آپ ﷺ نے حضرت حاجی صاحب کو بیعت کروایا تو وہ نقشبندی سلسلہ سے چشتی سلسلہ میں چلے گئے اور ان کو چشتی سلسلہ میں بھی خلافت مل گئی، دونوں سلسلے جمع ہو گئے، بعد ازاں سلسلہ قادریہ اور سہروردیہ میں بھی خلافت مل گئی۔ یہ چاروں سلسلے حاجی صاحب پہ جمع ہو گئے۔ جیسے امام جعفر صادق (رحمۃ اللّٰہ علیہ) پر دو نسبتیں جمع ہو گئیں تھیں، ان پر بھی چاروں سلسلے جمع ہو گئے۔ اگر وہاں پر اجتماع کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالیٰ عنه کا فیض نقشبندی سلسلہ میں آ سکتا ہے، اسی طرح چاروں سلسلے ملنے سے چاروں کا فیض بھی آ سکتا ہے۔

اب جو لوگ کہتے ہیں ہماری نسبت صدیقی ہے اور باقیوں کی نہیں ہے، ان کی بات فارمولے کے مطابق تو جائز نہیں ہے۔ فارمولے کے مطابق تو سب ایک جیسے ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ان باتوں کو اب چھوڑنا چاہئے۔ اس وقت سب چاروں سلسلوں میں چل رہے ہیں، کوئی بھی شخص صرف ایک سلسلہ میں نہیں ہے۔ خود مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) چاروں سلسلوں میں تھے۔ سلسلہ قادریہ میں حضرت سکندر کیتلی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے، نقشبندیہ میں خواجہ باقی باللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے، چشتیہ میں اپنے والد صاحب سے اور اپنے استاذ سے کبروی سلسلہ میں مجاز تھے۔ کبروی سلسلہ بعد میں سہروردیہ سے ملتا ہے۔ اس وجہ اب سے یہ باتیں چھوڑ دینی چاہئیں، اب سب ایک ہو گئے ہیں۔ پہلے اگر الگ الگ تھے بھی تو اب ایک ہو گئے ہیں۔ خواہ مخواہ اس بات پہ کیوں الجھتے ہو کہ میں سب سے اونچا، میرا سلسلہ سب سے اونچا۔ کیا تصوف تمہیں یہ سکھاتا ہے کہ میں سب سے اونچا؟ تصوف تو یہ سکھاتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں۔ لہذا یہ باتیں چھوڑنی چاہئیں۔ اب یہ باتیں ختم ہو گئی ہیں، اب سب ایک ہو گئے ہیں، لہٰذا اب ان باتوں کو چھوڑ کر اپنا تعلق اللہ کے ساتھ ملانے کے لئے جو طریقہ میسر آ جائے، اسی کو غنیمت سمجھنا چاہئے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بنانا چاہئے۔ یہی مقصود ہے۔

عموماً ہم جو ذکر کرتے ہیں، وہ بھی چاروں سلسلوں کا ذکر ہے۔ لیکن خاص بدھ کے دن ہم نقشبندی سلسلہ کا احترام کرتے ہوئے وہ ذکر کرتے ہیں جو الحمد للہ ہمیں مبشرات کے ذریعہ سے حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی طرف سے تعلیم ہوا کہ اس بدھ کے دن اللہ اللہ کے ذکر کی جگہ مراقبہ کر لیا کریں۔ انہوں نے جہری ذکر سے نہیں روکا، صرف اللہ اَللہ کا ذکر جو خاص نقشبندی سلسلہ کا ہے، اس کی جگہ فرمایا کہ مراقبہ کیا کریں۔ اس وجہ سے اس میں ہم مراقبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ