تعلیمات مجددیہ

درس 33

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




عنوانات:

1- حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن مجید، حقیقتِ سر، حقیقتِ صلوۃ اور معبودیت صرف۔

2- ولایتِ عشرہ اور ولایتِ سہ گانہ کی تشریح۔



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کے درس کی ابتدا دفتر سوم کے مکتوب نمبر 77 سے ہو رہی ہے۔

حقیقتِ کعبۂ ربّانی، حقیقتِ قرآنِ مجید، حقیقتِ سر، حقیقتِ صلوٰۃ اور معبودیتِ صِرف:

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) اس بارے میں دفتر سوم کے مکتوب نمبر 77 میں فرماتے ہیں:

متن:

اور صرف (خالص نور) کے بعد کہ جس کو اس فقیر نے "حقیقت کعبہ ربانی" پایا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی عالی مرتبہ جو کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کے قرآن مجید کی حقیقت ہے اور اسی کے حکم سے قرآن مجید کے مطابق کعبہ معظمہ آفاق کا قبلہ بنا اور تمام (مخلوق) کے مسجود ہونے کی دولت سے مشرف ہوا، لہذا امام قرآن مجید ہے اور موموم یعنی مقتدی پیش قدم کعبہ معظمہ ہے اور یہ مرتبہ مقدسہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے بیچون وسعت کا مبدا ہے اور اس بارگاہ کی بیچونی و بیچگونی کے امتیاز کا مبدا بھی یہی وجہ عالیہ ہے۔ اس درجہ مقدسہ کی وسعت و عظمت اس کے طول و عرض کی درازی کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ وہ نقص و امکان کی علامات ہیں بلکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب تک اس کے ساتھ متحقق نہ ہو (یعنی جب تک اس مقام تک نہ پہنچے) معلوم نہیں ہو سکتا اور اسی طرح اس مرتبہ مقدسہ کا امتیاز بھی مزایلت (ایک دوسرے کو زائل کرنے) اور مباینت (باہم فرق کرنے) کی رو سے نہیں ہے کیونکہ اس سے تبعض (ٹکڑے ٹکڑے ہونا) اور تجزی (جزو جزو ہونا) لازم آتا ہے جو کہ جسم اور جسمانی (جسم والا) ہونے کے لوازمات میں سے ہے اور اللہ سبحانہ اس سے بلند و برتر ہے۔

اس مرتبہ مقدسہ میں جس کو ہم نے "حقیقت قرآن مجید" کہا ہے نور کے اطلاق کی بھی گنجائش نہیں ہے اور دوسرے تمام کمالات ذاتیہ کی طرح نور بھی راہ میں ہی رہ جاتا ہے وہاں وسعت بیچون اور امتیاز بے چگون کے علاوہ کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ "قَدْ جَاءَ کمُ مِنَ اللہِ نُورٌ" (المائدہ: 15) (یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت آیا جیسا کہ کلمہ قد جاء کم میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس مرتبہ مقدسہ کے اوپر ایک اور بہت بلند مرتبہ ہے جس کو حقیقت صلوٰۃ کہتے ہیں اور عالم شہادت میں اس کی صورت مصلیان ارباب نہایت (منتہی نمازیوں) کے ساتھ قائم ہے اور یہ جو معراج شریف کے واقعہ میں آیا ہے کہ قِفْ یَا مُحَمَّد فَانَّ اللہَ یُصَلِّی (اے محمد ﷺ! ٹھہر جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ میں ہے) ممکن ہے کہ اس میں اسی حقیقت صلوٰۃ کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ ہاں وہ عبادت جو مرتبہ تجرد و تنزہ کے لائق ہے، شاید مراتب وجوب سے صادر ہوتی ہو اور قدم کے اطوار سے ہی ظہور میں آتی ہو۔ فَالعِبَادَۃُ اللَّائِقۃُ بِجَنَاب قُدْسِہٖ تَعٰالیٰ ھِیَ الصَّادِرَۃُ مِنْ مَرَاتِبِ الوُجُوبِ لَا غَیرِ فَھُوَ الْعَاَبِدُ وَالمَعْبُودُ (پس وہ عبادت جو اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ کے لائق ہے وہ مراتب وجوب ہی سے صادر ہوتی ہے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں پس وہی عابد ہے اور وہی معبود ہے) اس مرتبہ مقدسہ میں کمال درجہ وسعت اور امتیاز بے چون ہے کیونکہ اگر "حقیقت کعبہ" ہے تو وہ بھی اسی کا جزو ہے اور اگر "حقیقت قرآن" ہے تو وہ بھی اسی کا حصہ ہے کیونکہ نماز مراتب عبادات کے ان تمام کمالات کی جامع ہے جو اصل الاصل کی نسبت سے ثابت ہیں کیونکہ معبودیت صرف اسی کے لئے ثابت ہے۔ اور "حقیقت صلوٰۃ" جو کہ تمام عبادات کی جامع ہے اس مرتبہ میں وہ اس مرتبہ مقدسہ کی بھی عبادت ہے جو اس سے اوپر ہے کیونکہ معبودیت صرف کا استحقاق بھی اسی مرتبہ فوق کے لئے ثابت ہے جو کہ "اصل کل" ہے اور سب کے جائے پناہ ہے اس مقام میں وسعت بھی کوتاہی کرتی ہے اور امتیاز بھی راستہ میں رہ جاتا ہے اگرچہ وہ بیچون و بیچگون ہو۔ کامل انیباء و اکابر اولیا علیہم الصلوات و التسلیمات اولا و آخرا کے اقدام کا منتہا "حقیقت صلوٰۃ" کے مقام کی انتہا ہے جو کہ عابدوں کے مرتبہ عبادت کی نہایت ہے اور اس مقام سے اوپر معبودیت صرف کا کام ہے جہاں کسی کو کسی طرح بھی اس دولت میں شرکت نہیں ہے کہ اس سے اوپر قدم رکھ سکے۔ کیونکہ ہر وہ مقام جہاں عبادت اور عابدیت کی آمیزش ہے وہاں تک تو نظر کی طرح قدم کے لئے بھی گنجائش ہے لیکن جب معاملہ "معبودیت صرف" تک پہنچ جاتا ہے تو قدم بھی کوتاہی کرتا ہے اور سیر بھی انجام کو پہنچ جاتی ہے لیکن اللہ سبحانہ کا شکر ہے کہ نظر کو اس جگہ سے منع نہیں فرمایا اور اس کی استعداد کے مطابق گنجائش بخشی ہے۔

بلا بودے اگر ایں ہم نے بودے

(ترجمہ) مصیبت تھی اگر یہ بھی نہ ہوتا

ہو سکتا ہے کہ قف یا محمد (اے محمد! ٹھہر جاؤ) کے امر میں اسی کوتاہی قدم کی طرف اشارہ ہو۔ یعنی اے محمدؐ! ٹھہر جائیں اور قدم آگے نہ رکھیں کیونکہ یہاں مرتبہ صلوٰۃ سے بلند مرتبہ جو کہ مرتبہ وجوب سے صادر ہے وہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کا مرتبہ تجرد و تنزہ ہے جہاں نہ قدم کی جو لانگاہ ہے اور نہ گنجائش ہے البتہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حقیقت اس مقام میں متحقق ہو جاتی ہے اور غیر مستحق معبودوں کی عبادت کی نفی میں صورت اختیار کرتی ہے اور معبود حقیقت کا اثبات یعنی اس (حق تعالی) کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، اس مقام میں حاصل ہو جاتا ہے اور عابدیت اور معبودیت کے درمیان کمال درجہ کا امتیاز ظاہر ہوتا ہے اور عابد معبود سے کماحقہ جدا ہو جاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کے معنی منتہیوں کے حال کی نسبت سے لا معبود الا اللہ (نہیں معبود مگر اللہ) ہیں جیسا کہ شرع شریف میں اس کلمہ کے معنی مقرر ہو چکے ہیں اور لا موجود و لا وجود و لا مقصود کہنا ابتدائی اور درمیانی نسبت سے ہے اور لا مقصود کا مرتبہ لا موجود اور لا وجود کے مرتبہ سے بلند ہے کیونکہ وہ لا معبود الا اللہ کا دریچہ (کھڑکی) ہے جاننا چاہئے کہ اس مقام میں نظر کی ترقی اور نگاہ میں تیزی صلوۃ (نماز) کی عبادت پر وابستہ ہے جو منتہیوں کا کام ہے. دوسری عبادات بھی اس صلوۃ کی تکمیل میں شاید مدد فرمائیں اور اس کے نقصان کی تلافی کریں۔ اسی لئے نماز کو بھی ایمان کی طرح حسن لذاتہ (یعنی اصل اور ذات میں خوب اور بہتر) کہتے ہیں اور دوسری عبادتیں حسن لذواتہا (اپنی ذات میں حسن) نہیں ہیں۔

تشریح:

یہ بہت گہرے مضامین ہیں، ان کے بارے میں احتیاط سے بات کرنی ہے۔ اصل میں ہمارے نقشبندی طریقہ کے مراقبات میں تین ادوار ہیں، ان تین ادوار کو آگے کے مراقبات تک پہنچنے کے لئے بنیاد بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ذکر کے خصوصی مقامات جسم کے اندر مختلف جگہوں پر ہیں، جن کو لطائف کہتے ہیں اور یہ عالمِ امر سے ہیں۔ جسم کے اندر ذکر کے پانچ مقامات ہیں، قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ۔ یہاں ذکر محسوس کرایا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ یہ لطائف جاری ہوتے ہیں، حرکت میں آتے ہیں۔ اس کے بعد فیض کا اجرا ہوتا ہے، فیض کے اجرا کا مطلب یہ ہے کہ ان مقامات پر فیض آتا ہے۔ جیسے میں بات کر رہا ہوں اور آپ اس کو کان کے ذریعہ سے سن رہے ہیں، زبان کے ذریعہ سے نہیں سن رہے، کیونکہ زبان بول سکتی ہے، سن نہیں سکتی۔ اسی طریقہ سے ابتدا میں یہ پانچ مقامات محسوس کرنے کی جگہیں ہیں، جس کے ذریعہ ابتداءً انسان فیض محسوس کرتا ہے۔ جب فیض محسوس ہونا شروع ہو جائے تو پھر ان پانچوں مقامات پر فیض کا اجرا کرایا جاتا ہے۔ یہ عمومی فیض ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان مقامات پہ خصوصی فیض اتارا جاتا ہے، جن میں ایک فیض ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ کا ہے، یعنی تجلی افعالیہ کا، جو لطیفۂ قلب پہ آتا ہے اور دوسرا فیض تجلی صفاتیہ کا ہے جو لطیفۂ روح پہ آتا ہے، پھر تجلی ذاتیہ کا فیض لطیفۂ سِر پہ آتا ہے، اور پھر تنزیہ کا فیض لطیفۂ خفی پہ آتا ہے اور اس کے بعد شانِ جامع کا فیض لطیفۂ اخفیٰ پہ آتا ہے۔ جب ان پانچ مقامات پر فیوض کے مراقبات حاصل ہو جاتے ہیں تو پھر مزید مراقبات کے لئے رستہ بن جاتا ہے۔

مزید مراقبات میں دو طریقے ہیں۔

1- حقیقتِ ابراهیمی۔ حقیقتِ موسوی۔ حقیقتِ عیسوی۔ حقیقتِ محمدی۔ حقیقتِ احمدی۔ یہ ایک راستہ ہے۔ جس میں اولو العزم پیغمبروں کے حقائق (یعنی ان کے مبدا کے ذریعہ سے فیوض و برکات) حاصل کئے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ طریقہ ہے۔

2- دوسرا راستہ یہی آج کے سبق کے آغاز میں بتایا گیا ہے۔ حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوٰۃ، یہ تین قسم کے ہیں۔

پہلے پانچ حقائق والے طریقہ میں کشف زیادہ ہوتا ہے اور اس دوسرے طریقہ حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن مجید اور حقیقتِ صلوۃ میں عبدیت زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے پہلا راستہ آج کل کے دور کے لئے پُر خطر ہے، کیونکہ کشف میں بعض لوگوں کے لئے خطرہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے راستہ میں خطرہ نہیں ہے، اس لئے ہمارے اکابر اسی طرف زیادہ جاتے ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) آج حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوۃ اور معبودیتِ صرف کے بارے میں ہی بات فرما رہے ہیں، یہ بہت اہم بات ہے۔

فرمایا: نور صِرف۔ یعنی اور کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہیں، صرف نور کے بعد کہ جس کو اس فقیر نے ’’حقیقتِ کعبۂ ربانی‘‘ پایا ہے۔ یعنی حقیقتِ کعبۂ ربانی صرف نور ہے، اس میں اور کوئی آمیزش نہیں ہے۔ اور لکھا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی عالی مرتبہ جو کہ حق جل شانہ کے قرآن مجید کی حقیقت ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ حقیقتِ کعبۂ ربانی کا نور قرآن مجید کی حقیقت ہے اور اسی کے حکم سے قرآن مجید کے مطابق کعبہ معظمہ آفاق کا قبلہ بنا اور تمام (مخلوق) کے مسجود ہونے کی دولت سے مشرف ہوا۔ یعنی اسی قرآن مجید کی حقیقت ہونے کے لحاظ سے یہ کعبہ تمام مخلوق کے لئے مسجود بن گیا۔ لہذا امام قرآن مجید ہے اور موموم یعنی مقتدی، پیش قدم کعبہ معظمہ ہے۔ اور یہ مرتبہ مقدسہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے بیچون وسعت کا مبدا ہے۔ بیچون کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، وہ کیسا ہے، اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کا مبدا وسعت ہے اور اس بارگاہ کی بیچونی و بیچگونی کے امتیاز کا مبدا بھی یہی وجہ عالیہ ہے۔ اس درجۂ مقدسہ کی وسعت و عظمت اس کے طول و عرض کی درازی کی وجہ سے نہیں ہے۔ یعنی اس میں وسعت سے مراد یہ نہیں ہے کہ بہت زیادہ وسیع و عریض ہو، ہم تو وسعت اسے کہتے ہیں جو زیادہ وسیع و عریض ہو۔ فرمایا کہ یہاں اس کی وسعت اس کے طول و عرض کی وجہ سے نہیں ہے، کیونکہ وہ نقص و امکان کی علامات ہیں۔ وہ تو بذات خود حدود ہیں۔ بلکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب تک اس کے ساتھ متحقق نہ ہو، یعنی کوئی جب تک اس مقام تک نہ پہنچے تو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا ہے۔ اس میں references نہیں پائے جاتے۔ اور اسی طرح اس مرتبہ مقدسہ کا امتیاز بھی مزایلت یعنی ایک دوسرے کو زائل کرنے اور مباینت یعنی ایک دوسرے کو فرق کرنے کی رو سے نہیں ہے کیونکہ اس سے تبعض (ٹکڑے ٹکڑے) ہونا اور تجزی: جزو جزو ہونا لازم آتا ہے۔ یعنی یہ ایسا نہیں ہے، جیسے ہم کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو ختم کر لو، پھر یہ کرو۔ پھر اس کو ختم کر لو، اب یہ کرو۔ یہ والی بات نہیں ہے۔ اسی طرح ’’یہ نہیں، یہ۔ یہ نہیں، یہ‘‘ والی بات بھی نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم ”یہ“ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک چیز کو خاص کر رہے ہیں، اسے دوسری سے الگ کر رہے ہیں اور اس میں اجزا بنا رہے ہیں، کہ یہ اِدھر ہے اور یہ اُدھر ہے۔ لیکن حضرت نے فرمایا کہ یہاں تجزی والی بات بھی نہیں ہے، یہاں پر مزایلت والی بات بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں جسم اور جسمانی ہونے کی علامت ہیں۔ جیسے میں اس کمرے کو compartment میں بدل سکتا ہوں، یہ اسی لئے کر سکتا ہوں، کیونکہ یہ جسم ہے۔ لیکن جو جسم نہیں ہے، جیسے کہ روح وغیرہ، اس میں یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔

اس مرتبہ مقدسہ میں جس کو ہم نے "حقیقتِ قرآن مجید" کہا ہے نور کے اطلاق کی بھی گنجائش نہیں ہے۔

یعنی اس کو نور کہنا بھی ممکن نہیں ہے ’’اور دوسرے تمام کمالات ذاتیہ کی طرح نور بھی راہ میں ہی رہ جاتا ہے‘‘۔ اس راستے میں سب کمالات و صفات رہ جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ’’وہاں وسعت بیچون اور امتیاز بے چگون کے علاوہ کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ ﴿قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ اللّٰہِِ نُورٌ﴾ (المائدہ:15) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا ہے اس میں اگر نور سے مراد قرآن ہے تو ممکن ہے انزال و تنزل کے اعتبار سے ہو‘‘۔ انزال و تنزل سے مراد یہ ہے کہ ہم ایک چیز کو سمجھنے کے لحاظ سے کم درجے کا کر کے بیان کرتے ہیں اور ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ اس کی اصل کا تو ہم اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ مثال کے طور پر میں کہتا ہوں کہ اللہ میرے دل میں آ گیا، یہ ہم بطور تنزل کہتے ہیں، کیونکہ در حقیقت تو الله جل شانهٗ کی ذات دل میں نہیں سما سکتی، ایسا کہنے سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الله جل شانهٗ کا دھیان میرے دل میں آ گیا ہے۔ لیکن تنزل کے طور پر الفاظ وہ والے استعمال کرتے ہیں۔ حضرت فرما رہے ہیں کہ قرآن کو بھی نور بطور تنزل کے کہا گیا ہے، ورنہ قرآن کی حقیقت ایسی ہے کہ اس کو نور کہنا بھی ممکن نہیں۔ ’’جیسا کہ کلمہ ﴿قَدْ جَآءَ کُمْ﴾ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے‘‘۔ یعنی ﴿قَدْ جَآءَ کُمْ﴾ کا معنی ہے کہ کوئی چیز آ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تنزل کے طور پہ آ گیا ہے، اصل کے طور پر نہیں، کیونکہ اصل کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں ہے، وہ تو ہر جگہ ہے۔

فرمایا: ’’اور اس مرتبہ مقدسہ کے اوپر ایک اور بہت بلند مرتبہ ہے جس کو حقیقتِ صلوٰۃ کہتے ہیں اور عالم شہادت میں اس کی صورت مصلیان ارباب نہایت یعنی منتہی نمازیوں کے ساتھ قائم ہے اور یہ جو معراج شریف کے واقعہ میں آیا ہے کہ ’’قِفْ یَا مُحَمَّدُ فَاِنَّ اللہَ یُصَلِّیْ‘‘ اے محمدؐ! ٹھہر جا کیونکہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ میں ہے، ممکن ہے کہ اس میں اسی حقیقتِ صلوٰۃ کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ ہاں وہ عبادت جو مرتبہ تجرد و تنزہ کے لائق ہے شاید مراتبِ وجوب سے صادر ہوتی ہو اور قِدْم کے اطوار سے ہی ظہور میں آتی ہو‘‘۔ یہ لفظ قِدم ہے، جو لفظِ حدث کی ضد ہے۔ قِدم سے مراد جو پہلے سے چلا آ رہا ہو۔ قِدم اور حدوث یہ دو الگ چیزیں ہیں، قدیم اس چیز کو کہتے ہیں، جس کی ابتدا آپ کو معلوم نہ ہو، وہ ہمیشہ سے چلی آ رہی ہو، اور حدوث سے مراد وہ چیز جو بعد میں آئی ہو، ہمیشہ سے نہ ہو، جیسے کائنات پہلے نہیں تھی، بعد میں وجود میں آئی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ الله جل شانهٗ کی ذات قدیم ہے اور کائنات حادث ہے۔ تو کائنات جو بعد میں آئی ہے، یہ قِدم کے طور سے ہی ظہور میں آئی ہے۔

فرمایا: ’’فَالْعِبَادَۃُ اللَّائِقَۃُ بِجَنَابِ قُدْسِہٖ تَعَالیٰ ھِیَ الصَّادِرَۃُ مِنْ مَرَاتِبِ الْوُجُوْبِ لَا غَیْرَ فَھُوَ الْعَابِدُ وَالْمَعْبُوْدُ‘‘۔

مثلاً اگر الله جل شانهٗ عابد کو توفیق نہ دے تو کیا وہ عبادت کر سکتا ہے؟ اس کا عبادت کرنا، اصل میں یہ عبات اللہ ہی کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ عبادت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ کیونکہ اصل عبادت، جیسی اللہ چاہتا ہے، وہ صرف اللہ ہی کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا، اُس مقام پر عابد و معبود والی بات ختم ہو جاتی ہے، اپنی شان کے مطابق وہی عابد ہے، وہی معبود ہے۔ مثال کے طور پر اللہ خود ہی اپنی کامل تعریف کر سکتا ہے، کوئی اور اس کی تعریف نہیں کر سکتا۔ جو بھی کرے گا، اسی کی توفیق سے کرے گا، لیکن پوری نہیں کر سکے گا۔ اللہ پاک نے خود فرمایا ہے کہ بے شک سارے سمندر سیاہی بن جائیں، سارے درخت قلم ہو جائیں پھر اس کے ساتھ اتنے ہی اور بھی ہو جائیں، پھر بھی اللہ تعالیٰ کی صفتوں کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا الله جل شانهٗ خود ہی اپنی تعریف کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی اپنی شان کے مطابق عبادت وجود میں لا سکتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔

پس وہ عبادت جو اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ کے لائق ہے وہ مراتب وجوب ہی سے صادر ہو سکتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں، پس وہی عابد ہے اور وہی معبود ہے اس مرتبۂ مقدسہ میں کمال درجہ وسعت اور امتیاز بے چون ہے کیونکہ اگر حقیقتِ کعبہ ہے تو وہ بھی اسی کا جزو ہے اور اگر حقیقتِ قرآن ہے تو وہ بھی اسی کا حصہ ہے کیونکہ نماز مراتب عبادات کے ان تمام کمالات کی جامع ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن بھی ہے اور حقیقتِ کعبہ کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے، دونوں صورتوں میں یہ اس سے آگے ہے۔ جو اصل الاصل کی نسبت سے ثابت ہیں۔ کیونکہ نماز مراتب عبادات کے ان تمام کمالات کی جامع ہے، جو اصل الاصل کی نسبت سے ثابت ہیں۔ کیونکہ معبودیت صرف اسی کے لئے ثابت ہے۔ اور حقیقتِ صلوٰۃ جو کہ تمام عبادات کی جامع ہے اس مرتبہ میں وہ اس مرتبہ مقدسہ کی بھی عبادت ہے جو اس سے اوپر ہے۔ یعنی جو اس سے اوپر والا مقام ہے، یہ حصہ اس کی عبادت کر رہا ہے۔ کیونکہ معبودیت صرف کا استحقاق بھی اسی مرتبہ فوق کے لئے ثابت ہے جو کہ ’’اصل کل‘‘ ہے اور سب کی جائے پناہ ہے اس مقام میں وسعت بھی کوتاہی کرتی ہے اور امتیاز بھی راستہ میں رہ جاتا ہے اگرچہ وہ بیچون و بیچگون ہی ہو۔ کامل انبیاء و اکابر اولیا علیہم الصلوات و السلام اولاً و آخراً کے اقدام کا منتہا حقیقتِ صلوٰۃ" کے مقام کی انتہا ہے جو کہ عابدوں کے مرتبہ عبادت کی نہایت ہے اور اس مقام سے اوپر معبودیت صرف کا کام ہے، جہاں کسی کو کسی طرح بھی اس دولت میں شرکت نہیں ہے کہ اس سے اوپر قدم رکھ سکے۔ کیونکہ ہر وہ مقام جہاں عبادت اور عابدیت کی آمیزش ہے وہاں تک تو نظر کی طرح قدم کے لئے بھی گنجائش ہے لیکن جب معاملہ معبودیت صرف تک پہنچ جاتا ہے تو قدم بھی کوتاہی کرتا ہے اور سیر بھی انجام کو پہنچ جاتی ہے لیکن اللہ سبحانہ کا شکر ہے کہ نظر کو اس جگہ سے منع نہیں فرمایا اور اس کی استعداد کے مطابق گنجائش بخشی ہے۔

اب ذرا مزید وضاحت سے سمجھ لیں۔ قرآن الله جل شانهٗ کا کلام ہے، اللہ پاک کی صفت ہے، جو مخلوق میں موجود ہے۔ اسی طرح نماز عبادت ہے، جس کا تعلق معبود کے ساتھ ہے، یہ بھی مخلوق کے درمیان موجود ہے۔ خانہ کعبہ معبود کی تجلی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسجودِ کائنات و آفاق ہو گیا۔ اب مخلوق تمام مراتب کو ان کے ذریعہ سے طے کرتے ہیں، اور ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق ان سے حصہ ملتا ہے، خانہ کعبہ سے بھی ملتا ہے، قرآن سے بھی ملتا ہے اور صلوٰۃ سے بھی ملتا ہے۔

قرآن کلام اللہ ہے، اللہ کی صفت ہے، لہٰذا قرآن کی، اور اس کے قاری کی بہت اونچی شان ہے۔ حقیقتِ کعبہ اسی کی وجہ سے سب کا مسجود بن گیا، اور خالص نور کا مسجود بن گیا، اور قرآن کعبہ سے بھی آگے ہے، لیکن اسے بطور تنزل کے نور کہا گیا ہے۔

اس کے بعد نماز ہے، حقیقتِ صلوٰۃ منتہی مصلیین یعنی اونچے مقامات کے حضرات جیسے انبیاء کرام ہیں، خاص اولیاء کرام، ان کے لحاظ سے قائم ہے۔

معراج شریف کے موقع پر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ: ’’رکو محمد! اللہ تعالیٰ صلوۃ میں ہے‘‘۔ حضرت نے اس صلوٰۃ کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ جیسے انسان اللہ کی تعریف نہیں کر سکتا، اصل تعریف اللہ خود ہی کر سکتا ہے، اسی طرح عبادت بھی مراتب وجود میں اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے، وہ اس وقت عابد بھی ہے اور معبود بھی ہے، جیسے کہ وہ تعریف کرنے والا بھی ہے اور جس کی تعریف ہو رہی ہے، وہ بھی ہے۔

اس کے بعد اس سے آگے کا مقامِ معبودیت صِرف ہے، وہاں پر کوئی نہیں پہنچ سکتا، وہاں پر معبود ہی معبود ہے، اس کے علاوہ اس مقام پہ اور کوئی نہیں جا سکتا۔ وہاں پر صرف اور صرف معبود کی شان ہے، اور کچھ بھی نہیں ہے۔ جتنے امتیازات ہیں، جتنی وسعتیں ہیں، وہ ساری کی ساری اس مقام پر ختم ہو جاتی ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی، کیونکہ وہ بیچون و بیچگون ہے، ہم اس کا کسی طرح بھی احاطہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا معبودیتِ صرف کے مقام پر کوئی نہیں جا سکتا، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہاں پر صرف معبود ہی معبود ہے۔ لیکن جب معاملہ معبودیتِ صرف تک پہنچ جاتا ہے تو قدم بھی کوتاہی کرتا ہے اور سیر بھی انجام کو پہنچ جاتی ہے لیکن اللہ سبحانہ کا شکر ہے کہ نظر کو اس جگہ سے منع نہیں فرمایا۔ یعنی نظر ادھر جا سکتی ہے، اور اس کی استعداد کے مطابق گنجائش بخشی ہے۔

بلا بودے اگر ایں ہم نے بودے

(ترجمہ) مصیبت تھی اگر یہ بھی نہ ہوتا

یہ تین مقامات کے بارے میں بات ہوئی ہے۔ حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوۃ۔

ولایتِ عشرہ اور ولایتِ سہ گانہ کی تشریح:

سبحان اللہ! آج کل بڑے مشکل مضامین آ رہے ہیں۔ لیکن انہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

دفتر اول مکتوب نمبر 260 میں فرماتے ہیں۔

متن:

اے فرزند اللہ تعالیٰ سبحانہٗ تم کو سعادتمند کرے، جاننا چاہئے کہ عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں: قلب، روح، سر،خفی اور اخفٰی، جو انسانی عالمِ صغیر کے اجزاء ہیں، ان کے اصول عالمِ کبیر میں ہیں،

تشریح:

عالم صغیر ہمارا جسم ہے اور عالم کبیر پوری کائنات ہے، ان لطائف کے اصول اور جڑیں عالم کبیر میں ہیں۔

متن:

جس طرح عناصرِ اربعہ جو کہ انسان کے اجزا ء ہیں اور اپنے اصول عالمِ کبیر میں رکھتے ہیں۔

تشریح:

یعنی عناصرِ اربعہ بھی انسان کے اجزا ہیں، لیکن اس کی اصل پوری کائنات ہے۔

متن:

اور ان پنجگانہ لطائف کے اصول کا ظہور عرش کے اوپر ہے جو لامکانیت سے موصوف ہے یہی وجہ ہے کہ عالمِ امر کو لامکانی کہتے ہیں۔۔۔ دائرہ امکان (تمام ممکنات) خواہ وہ خلق ہو یا امر، خواہ وہ صغیر ہو یا کبیر، ان اصول کی نہایت تک تمام ہو جاتا ہے۔

تشریح:

یعنی اس کے بعد ان سے اوپر نئے اصول شروع ہو جاتے ہیں۔

متن:

اور عدم کا وجود سے ملنا جو امکان کا منشا ءہے اس مقام میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ اور جب سالک رشید محمدی المشرب عالمِ امر کے پنجگانہ لطائف کو ترتیب وار طے کر کے ان کے اصول میں جو کہ عالمِ کبیر میں ہیں سیر کرتا ہے اور بلند فطرتی بلکہ محض فضلِ خداوندی جل شانہ، سے ان سب کو ترتیب اور تفصیل کے ساتھ طے کر کے ان کے اخیر نقطے تک پہنچتا ہے توا س وقت وہ دائرہ امکان کو سیرالی اللہ کے ساتھ تمام کر لیتا ہے اور فنا کے اسم کا اطلاق اپنے اوپر حاصل کر کے ولایتِ صغریٰ میں جو کہ ولایتِ اولیا ہے سیر شروع کرتا ہے۔۔۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ و تقدس کے اسمائے وجوبی کے ظلال میں جو حقیقت میں عالم کبیر کے ان پنجگانہ لطائف کے اصول ہیں اور جن میں عدم کی کچھ آمیزش نہیں ہے سیر واقع ہو جائے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ جل سلطانہ کے فضل سے سیر فی اللہ کے طریق سے طے کر کے ان کی نہایت تک پہنچ جائے تو وہ اسمائے وجوبی کے ظلال کے دائرے کو بھی پورا کرلیتا ہے اور اللہ جل سلطانہ کے اسماء و صفات واجبی کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔ ولایتِ صغریٰ کے عروج کی نہایت یہیں تک ہے۔ اس مقام میں حقیقت فنا کا آغازِ متحقق ہوتا ہے اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا میں جو کہ ولایتِ انبیا علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات ہے قدم رکھا جاتا ہے۔

جاننا چاہئے کہ وہ دائرہ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ تمام مخلوفات کے مبادی تعینات کو شامل ہے اور ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے، یہاں تک کہ حضرت صدیقؓ جو انبیاء علیہم الصلٰو ۃ و التسلیمات کے بعد افضل البشر ہیں ان کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔

اور یہ جو (بعض مشائخ نے) کہا ہے کہ جب سالک اس اسم تک جواس مبداءتعین ہے پہنچ جاتا ہے تو اس وقت سیرالی اللہ کو تمام کر لیتا ہے اس اسم سے مراد اسمِ الٰہی جل شانہ کا ظل جاننا چاہئے اور وہ اس اسم کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے نہ کہ اس اسم کی اصل۔ اور وہ دائرہ ظل حقیقت میں اسماء و صفات کے مرتبہ کی تفصیل ہے۔۔۔ مثلاً علم ایک حقیقی صفت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں اور ان جزئیات کی تفصیل اس صفت کے ظلال ہیں جو اجمال کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور اس صفت کی ہر ایک جزئی انبیائے کرامؑ اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ باقی اشخاص میں سے کسی نہ کسی شخص کی حقیقت ہے، اور انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ان ظلال کے اصول یعنی مفصلہ جزئیات کی کلیات ہیں۔۔۔ مثلاً صفت العلم اور صفت القدرۃ اور صفت الارادہ وغیرہ اور بہت سے اشخاص ایک صفت میں جو کہ ان کا مبداء تعین ہے۔مختلف اعتبارات کے لحاظ سے باہم شرکت رکھتے ہیں۔ مثلاً حضرت خاتم الرسلؐ کا مبداء تعین شان العلم ہے نیز یہی صفت العلم ایک (خاص) اعتبار سے حضرت ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کا مبداء تعین ہے، اور نیز یہی صفت ایک (اور خاص) اعتبار سے حضرت نوح علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کا مبداء تعین ہے۔ اور ان اعتبارات کے تعین کا ذکر خواجہ محمد اشرف کے مکتوب (251) میں ہو چکا ہے۔اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔۔۔ ان کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرہ ظل کا مرکز یہی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم (اور اللہ سبحانہ ہی جانتا ہے)۔۔۔ اس دائرہ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جو اس دائرہ کا محیط ہے واحدیت گمان کیا ہے، اور دائراۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرہ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے، تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔۔۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرہ ظل کا مرکز دائرہ فوق کے مرکز کا ظل ہے جو کہ دائرہ ظل کی اصل ہے اور اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائراہ سے موسوم ہے۔ حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے اور اس دائرہ میں ان اسماء و صفا ت کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے اور ظلالِ اسماء کے مرتبہ میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے، اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔

کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیرالی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔۔۔ اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرہ میں جو کہ اس دائرہ ظل کا اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہو جائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلاواسطہ اصلی طورپر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرہ کے نیچے کا نصف حصہ اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔

عالمِ امر کے پنجگانہ (لطائف و مراتب) کے عروج کی انتہا اسماء و شیونات کے دائرہ کی نہایت تک ہے۔ اس کے بعد اگر محض فضل ایزدی جل شانہ سے مقام صفات و شیونات پر ترقی واقع ہو جائے توان کے اصول کے دائرہ میں سیر واقع ہوگی، اور دائرہ اصول سے گذرنے کے بعد ان اصول کے اصول کا دائرہ ہے اس دائرہ کے طے کرنے کے بعد دائرہ فوق سے ایک قوس (نصف دائرہ کے مانند) ظاہر ہوگی اس کو بھی قطع کرنا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اس دائرہ فوق سے قوس کے علاوہ اور کچھ ظاہر نہیں ہوا اس لئے اسی قوس پر بس کیا گیا۔۔۔ شاید اس جگہ کوئی راز ہوگا جس پر (عالم غیب سے) اطلاع نہیں بخشی گئی۔۔۔ اور اسماء و صفات کے یہ اصول سہ گانہ جو مذکور ہوئے حضرت تعالیٰ و تقدس میں محض اعتبارات ہیں جو کہ صفات وشیونات کے مبادی ہو گئے ہیں۔ ان اصول سہ گانہ کے کمالات کا حاصل ہونا نفسِ مطمئنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اسی مقام میں شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور سالک اسلامِ حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ صدارت کے تخت پر جلوس فرماتا ہے اور مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ یہ مقام ولایتِ کبریٰ کی انتہا کا مقام ہے جو ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰواة و التسلیمات کا مقام ہے۔

جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ’’ یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے، اور اسمِ باطن کی سیر ابھی باقی ہے جو کہ عالمِ قدس کی طرف پرواز کرنے کے لئے دوسرا بازو ہے، اور جب تو اس کو بھی مفصل طور پر انجام دیدے گا تو اس وقت تجھے پرواز کے لئے دوبازو عطا ہوں گے‘‘۔ اور جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے اسمِ باطن کی سیر بھی انجام پاچکی تو دو بازو میسر ہو گئے۔ (اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌) (الاعراف: 43) (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت بخشی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ بخشتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے ہیں)۔

اے فرزند! اسمِ باطن کی سیر کی نسبت کیا لکھا جائے۔ اس سیر کا حال استتار وتبطن (درپردہ رہنے) ہی کے مناسب ہے۔ البتہ اس مقام کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ اسمِ ظاہر کی سیر صفات میں ہے بغیر اس بات کے کہ اس کے ضمن میں ذات تعالیٰ و تقدس ملحوظ ہو، اور اسمِ باطن کی سیر بھی اگرچہ اسماء میں سے ہے لیکن اس ضمن میں ذات تعالیٰ ملحوظ ہے اور یہ اسماء ڈھالوں (سپر) کے مانند ہیں جو حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حجابات ہیں۔۔۔ مثلاً صفتِ علم میں ذات تعالیٰ ہرگز ملحوظ نہیں ہے لیکن اُس کے ’’ اسمِ علیم‘‘میں ذات تعالیٰ صفت کے پردہ میں ملحوظ ہے، کیونکہ علیم ایک ذات ہے جس کی صفت ’’علم‘‘ ہے پس’’علم ‘‘ کی سیر’’اسمِ ظاہر‘‘ کی سیر ہے اور ’’علیم کی سیر ’’اسِم باطن‘‘ کی سیر ہے۔ باقی تمام صفات و اسماء کا حال بھی اسی پر قیاس کریں۔۔۔

یہ اسماء جو اسمِ باطن سے تعلق رکھتے ہیں ملائکہ ملاء اعلیٰ علیٰ نبینا و علیہم الصلواة و التحیات کے تعینات کے مبادی ہیں، اور ان اسماء میں سیر کا آغاز کرنا ولایتِ علیا میں قدم رکھنا ہے جو کہ ملاء اعلیٰ کی ولایت ہے۔۔۔اور اسمِ ظاہر و اسمِ باطن کے بیان میں جو علم اور علیم کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے، تم اس فرق کو تھوڑا نہ سمجھو او ر نہ یہ کہو کہ ’’علم‘‘ سے ’’علیم‘‘ تک بہت کم راستہ ہے، بلکہ وہ فرق ایسا ہے جیسا کہ مرکزِ زمین سے محدّب (سطحِ) عرش کے درمیان ہے، نیز اس فرق کی نسبت ایسی ہے جیسے قطرہ کو دریائے محیط کی نسبت کا فرق ہے، کہنے کو تو یہ نزدیک ہے لیکن حاصل ہونے پر بہت دُور ہے اور ان مقامات کا ذکر جو مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے۔۔۔مثلاً کہا گیا ہے کہ پنجگانہ (لطائف و مراتب) عالمِ امر کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے تاکہ دائرہ امکان تمام ہو جائے، اس مختصر سی عبارت میں ’’سیرالی اللہ‘‘ کا پوری طرح ذکر آگیا ہے، لیکن اس سیر کے حاصل ہونے میں پچاس ہزار سالہ راہ کی مدت کا اندازہ کیا گیا ہے۔ ((تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ وَالرُّوۡحُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗ خَمۡسِيۡنَ اَلۡفَ سَنَةٍ‌ۚ)) (المعارج: 4) (فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے)۔اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کی عنایت کے جذب و کشش سے کوئی بعید نہیں کی اس مدت دراز کے کام کو طرفۃ العین (آنکھ جھپکنے) میں میسر کر دے۔

باکریماں کارہا دشوار نیست

(کریموں پر نہیں ہیں کام دشوار)

اورا سی طرح سے یہ جو کہا گیا ہے کہ دائرۂ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے، تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کا طے کرنا کہنے میں تو آسان ہے لیکن طے کرنے میں بہت مشکل ہے۔ اور مشائخ نے اس سیر کو طے کرنے کی دشواری کے متعلق فرمایا ہے کہ مَنَازِلُ الوُصُولِ لَا تَنقطع اَبَدُالَابَدَیْنِ (وصول کی منزلیں ابدالآباد تک کبھی ختم نہیں ہوتیں)۔۔۔ اور مشائخ نے ان مراتب کی سیر کے پورا ہونے کو ناممکن سمجھا ہے

اور جب اللہ سبحانہ، کی عنایت اور اس کے حبیب علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و التسلیمات کے طفیل سے اس سیر کو بھی انجام تک پہنچایا تو مشہود ہوا کہ اگر بالفرض اس سیر میں دوسرا قدم بڑھائے تو وہ عدمِ محض میں پڑے گا کیونکہ اس سے آگے عدمِ محض کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اے فرزند! اگر بالفرض اس سیر میں دوسرا قدم بڑھائے تو وہ عدمِ محض میں پڑے گا کیونکہ اس سے آگے عدمِ محض کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اے فرزند! اس ماجرا سے تم اس وہم میں نہ پڑ جانا کہ عنقا شکار ہوگیا اور سیمرغ دام میں پھنس گیا ؂

عنقا شکارِکس نشودامِ بازچیں

کا ینجا ہمیشہ بادبدست است دام را

(اُٹھالے جال، شکارِ عنقا محال بس یہاں جال کا ہی ہے مآل)

کیونکہ وہ سبحانہ تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے ؂

ہنوز ایوان استغنابلند است

مرا فکرے رسیدن ناپسند است

(قصرِ استغنا تو اونچا ہے ہنوز سخت مشکل واں پہنچنا ہے ہنوز)

وہ ورائیت (بلند سے بلند تردرجہ) حجابات کے وجود کے اعتبار سے نہیں ہے کیونکہ تمام حجابات اُٹھ چکے ہیں بلکہ وہ ورائیت عظمت و کبریائی کے ثبوت کے اعتبار سے ہے جو ادراک و فہم کے مانع اوروجدان کے منافی ہے، کیونکہ وہ سبحانہ وجود میں اقرب ہے اور وجدان سے دور ہے۔۔۔ ہاں بعض کامل مراد والوں کو انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے طفیل عظمت و کبریائی کے پردوں میں جگہ دی جاتی ہے اور ان کو بارگاہ کا محرم بنا دیا جاتا ہے۔ فَعُومِلَ مَعَھُم مَا عُومِلَ مَعَھُم (پس ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا سو ہوا)۔

اے فرزند! یہ معاملہ انسان کے اس ہیئتِ وحدانی سے مخصوص ہے جو کہ عالمِ خلق و عالمِ امر کے مجموعہ سے پیدا ہوئی ہے، اس طرح ہے کہ اس مقام میں بھی سب کارئیس (سردار) ’’عنصرِ خاک‘‘ ہے۔

اور یہ جو کہا گیا ہے:لَیْسَ وَرَاءَہ اِلَّا العَدَمُ المَحْضِ (اس کے اوپر سوائے عدم محض کے کچھ نہیں ہے) وہ اس لئے کہا ہے کہ وجودِ خارجی اور وجودِ علمی کے مراتب تمام ہونے کے بعد عدم کا حاصل ہونا ہے جو اس (وجود) کی نقیض ہے اور اللہ سبحانہٗ کی ذات اس وجود و عدم سے وراء ہے جس طرح عدم کو وہاں راہ نہیں ہے اسی طرح وجود کی بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ وجود جس کی نقیض عدم پر مبنی ہو وہ اس بارگاہ جل سلطانہ، کی شایانِ شان نہیں ہے۔ اور اگر اس مرتبہ میں وجود کا اطلاق عبارت کی تنگی کی وجہ سے کریں (تو اس سے مراد وہ وجود ہوگا) جس کی نقیض بننے کی عدم کو مجال نہیں ہے۔۔۔

جاننا چاہئے کہ جس طرح مراتبِ عروج میں عنصرِ خاک سب سے بالا جاتا ہے اسی طرح منازلِ ہبوط میں بھی وہ عنصر (خاک) سب سے زیادہ نیچے آجاتا ہے، اور کیوں نیچے نہ آئے جبکہ اس کا مکان طبعی سب سے نیچے ہے اور چونکہ وہ (عنصر خاک) سب سے زیادہ نیچے آجاتا ہے اس لئے اس کے صاحب (بشر) کی دعوت اتم ہوتی ہے اور اس کا فائدہ ابھی اکمل ہوتا ہے۔

اے فرزند! جان لے کہ چونکہ طریقۂ نقشبندیہ میں سیر کی ابتدا قلب سے ہوتی ہے۔ جس کا تعلق عالمِ امر سے ہے اسی لئے بات کی ابتدا بھی عالمِ امر سے کی گئی، بخلاف دوسرے مشائخِ کرامؒ کے طریقوں کے جو شروع میں تزکیۂ نفس کرتے ہیں اور قالب (وجود) کی تطہیر (پاک) فرماتے ہیں، اس کے بعد عالمِ امر میں آتے ہیں اور جہان تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اس میں عروج کرتے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی انتہا ان بزرگواروں کی ابتدا میں مندرج ہے اور یہ طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہیں، کیونکہ ان کو اس سیر کے ضمن میں تزکیہ و تطہیر بوجہ احسن (بہت اچھی طرح) میسر ہو جاتا ہے اور مسافت (راستہ) کوتاہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا لازمی طور پر ان بزرگواروں نے عالمِ خلق کی سیر کی قصداً)ضائع و بیکار ہی نہیں جانا بلکہ مطلب کے حاصل ہونے میں مضر اور مانع یقین کیا ہے۔ کیونکہ (دوسرے) طریقوں کے سالک جب ریاضاتِ شاقّہ اور مجاہداتِ شدیدہ اور تزکیہ کے قدم کے ساتھ عالمِ خلق کی صورت کے دشت و صحرا طے کرنے کے بعد عالمِ امر میں سیر شروع کرتے ہیں اور قلبی جذبہ اور روح کے لذتوں میں پڑتے ہیں تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسی انجذاب میں قناعت کرتے ہیں اور اسی لذت پر کفایت کرلیتے ہیں اور اس عالم پر لامکانیت کا گمان ان کو دامن گیرہو جاتا ہے۔ اور اس عالم کی بیچونی کی آمیزش ان کو حقیقی بے چونی سے باز رکھتی ہے۔۔۔ شاید اسی مقام پر کسی سالک نے کہا ہے کہ میں تیس سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا۔اور دوسرے نے کہا کہ استویٰ کا سِرّ اور عرش کے اوپر تنزیہ کا ظہور دقیق و مخفی معارف میں سے ہے۔

اور جو کچھ میں نے کہا ہے کہ ’’یہ بیان محمدی المشرب کے ساتھ مخصوص ہے‘‘ اس لئے کہا ہے کہ غیرمحمدی المشرب میں کسی ایک کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ اُولی تک ہی محدود ہوتا ہے اور درجہ اولیٰ سے مراد مرتبہ قلب ہے، اور کسی دوسرے کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ ثانی (یعنی مقامِ روح) تک محدود ہے، اور تیسرے شخص کے کمال کا عروج تیسرے درجے تک ہوتا ہے جو مقامِ سِرّ ہے، اور چوتھے شخص کے کمال کا عروج چوتھے درجے تک ہے جس کا مقام خفی ہے۔ درجہ اولیٰ کی مناسبت صفاتِ افعال کی تجلی کے ساتھ ہے اور درجہ ثانیہ کو صفاتِ ثبوتیہ ذاتیہ کی تجلی سے اور درجہ ثالث کو شیون و اعتبارات ذاتیہ سے مناسبت ہے، اور درجہ چہارم کو صفات سلبیہ کے ساتھ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے مناسبت ہے اور درجاتِ ولایت میں سے ہر درجہ اولو العزم انبیاء میں سے کسی ایک نبی کے زیر قدم ہے۔

ولایت کا درجہ اولیٰ حضرات آدم علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیر قدم ہے اور ان کا رب ’’ صفت تکوین‘‘ ہے جو کہ افعال کے صادر ہونے کا منشا ہے۔۔۔ اور دوسرا درجہ حضرت ابراہیم ؑ کے زیر قدم ہے اور حضرت نوح علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ والتسلیمات بھی اس مقام میں شریک ہیں اور اس کا رب صفت العلم ہے جو صفات ذاتیہ میں اجمع (سب سے زیادہ جامع) ہے۔۔۔اور تیسرا درجہ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیرِ قدم ہے اور اُن کا رب مقاماتِ شیونات سے شان الکلام ہے او ر چوتھا درجہ حضرت عیسی ٰ علیٰ نبینا علیہ الصلٰوۃ السلام کے زیر قدم ہے اور ان کا رب صفاتِ سلبیہ سے ہے نہ کہ صفات ثبوتیہ سے کہ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے اور اکثر ملائکہ کرام علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ و السلام بھی اس مقام میں حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ مشارکت رکھتے ہیں اور ان (ملائکہ) کو اس مقام میں شانِ عظیم حاصل ہے۔۔۔ اور پانچواں درجہ حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے زیر قدم ہے اور ان علیہم الصلٰوۃ و السلام کا رب، ربّ الارباب ہے جو تمام صفات و شیونات اور تقدیسات و تنزیہات کا جامع ہے اور ان کمالات کے دائرے کا مرکز ہے، اور صفات و شیونات کے مرتبہ میں اس ربِ جامع کی تعبیر ’’شان العلم‘‘ کے ساتھ مناسب ہے کہ یہ شان عظیم الشان تمام کمالات کی جامع ہے اسی مناسبت سے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی ملّت حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ملّت ہوئی اور اُن کا قبلہ آپ کا قبلہ بنا، علیہما الصلٰوۃ و التسلیمات۔

جاننا چاہئے کہ اقدامِ ولایت کی ایک دوسرے پر فضلیت درجات کے مقدم و مؤخر ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے تاکہ صاحبِ اخفیٰ دوسروں سے افضل ہو جائے۔ علیٰ ہذا القیاس بلکہ اصل سے قریب و بعید ہونے اور ظلال کے درجات کی منزلوں کو زیادہ یا کم طے کرنے کے اعتبار سے ہے۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ صاحبِ قلب قرب کے اعتبار سے اصل کے ساتھ صاحبِ اخفیٰ سے، کہ اس نے یہ قرب حاصل نہیں کیا، افضل ہو، اور کیونکر نہ ہو جبکہ نبی کی وہ ولایت جو ولایت کے درجہ اولیٰ میں ہے اس ولی کی ولایت سے قطعی طور پر افضل ہے جو ولایت کے آخری درجہ میں ہے۔

اے فرزند! کمالاتِ نبوت کے بیان میں گفتگو اور ولایت پر اس کی فضلیت اور ولایتِ سہ گانہ (تینوں ولایتوں یعنی) ولایتِ صغریٰ، ولایتِ کبریٰ اور ولایتِ علیا کے درمیان فرق اور ان میں سے ہر ایک کے مناسب معارف اور ہر ایک کے متعلقہ مقامات کو اس لئے طول طویل کیا ہے اور بار بار لمبے چوڑے فقرے اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ نہایت عجیب و غریب ہونے کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں آسکیں اور کسی کو ان کے انکار کی مجال نہ رہے۔۔۔ یہ علوم کشفی اور بدیہی ہیں، استدلالی اور نظری نہیں ہیں۔ اور ان میں بعض مقدمات کا ذکر تنبیہہ اور عوام کی سمجھ سے قریب لانے کے لئے ہے بلکہ خواص کے سمجھنے کے لئے وضاحت اور تشریح ہے۔ یہ سب شروع سے اخیر تک اس طریقہ پر بیان کیا گیا جس پر حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس حقیر کو ممتاز کیا ہے، اس کی بنیاد نسبتِ نقشبندیہ ہے جس کی ابتدا میں انتہا مندرج ہے، اسی بنیاد پر بہت سی عمارتیں اور قسم قسم کے محل بنائے گئے ہیں، اگر یہ بنیاد نہ ہوتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا یعنی بخارا اور سمرقند سے اس بیج کو لاکر زمینِ ہند (سرہند)میں بویا گیا جس کا خمیر’’مدینہ طبیہ‘‘ اور ’’مکہ معظمہ‘‘ کی خاک سے تیار کیا گیا اور ’’فضل‘‘ کے پانی سے سالہا سال اس کو سیراب کیا گیا اور ’’ احسان‘‘ کی تربیت سے اس کی پرورش کی گئی، جب وہ کھیتی کمال کو پہنچ گئی تو ان علوم و معارف کا ثمرہ اس سے حاصل ہوا۔۔۔(الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا، وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌.) (الاعراف: 43) (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔

جاننا چاہئے کہ اس طریقۂ عالیہ کا سلوک ایسے شخص مقتدا کی محبت کے رابطہ پر وابستہ ہے جس نے سیرِ مرادی سے اس راہ کو طے کیا ہو، اور قوتِ انجذاب سے ان کمالات کے ساتھ رنگا ہوا ہو، اس کی نظر قلبی امراض کو شفا بخشی ہے اور اس کی توجہ باطنی امراض دُور کرتی ہے، ایسا صاحبِ کمال اپنے وقت کا امام اور اپنے زمانے کا خلیفہ ہے، اقطاب و ابدال اس کے مقامات کے ظلال میں خوش ہیں، اور اوتاد و نجبا اس کے کمالات کے سمندر سے ایک قطرہ پر قناعت کئے بیٹھے ہیں، اس کی ہدایت و ارشاد کا نور اس کے ارادہ اور خواہش کے بغیر آفتاب کے نور کی طرح ہر شخص پر چمکتا ہے، پس کس طرح نہ چمکے جبکہ وہ خود چاہے، اگرچہ یہ خواہش اس کے اپنے اختیار میں نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی امر کی خواہش طلب کرتا ہے لیکن وہ خواہش اس میں پیدا نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگ جو اس کے نور سے ہدایت پائیں اور اس کے وسیلے سے راہِ راست پر آجائیں، اس معنی کو خوب جان لیں۔۔۔بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رشدو ہدایت کی اصل کو بھی کما حقہ نہیں جانتے حالانکہ وہ شیخ مقتدا کے کمالات سے متحقق ہوتے ہیں جن کے سبب ایک جہان کو ہدایت کرتے ہیں، کیونکہ علم سب کو نہیں دیا جاتا اور سیرٍ مقامات کی تفصیل کی معرفت ہر ایک کو نہیں بخشتے۔ ہاں وہ شیخ جس کے وجود شریف پر وصول کے طریقوں میں سے کسی خاص طریقے کی بنا کا مدار ہے، بیشک وہ صاحبِ علم اور سیر کی تفصیل سے آگاہ ہوتا ہے اور دوسروں کو اسی کے علم پر کفایت کر کے اس کے ذریعے سے مرتبۂ کمال و تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور فنا و بقا سے مشرف کرتے ہیں۔

(ہمارے اس طریقے میں) افادہ اور استفادہ انعکاسی اور انضباغی ہے، مرید محبت کے رابطہ سے جو وہ اپنے شیخ مقتدا کے ساتھ رکھتا ہے، لحظہ بلحظہ اس کا رنگ پکڑتا جاتا ہے اور انعکاس کے طریق پر اس کے انوار سے منور ہوتا جاتا ہے۔ اس صورت میں افادہ اور استفادہ کے لئے علم کی کیا ضرورت ہے۔

تشریح:

ولایتِ عشرہ اور ولایتِ سہ گانہ کی تشریح:

ولایتِ عشرہ سے مراد لطائفِ عشرہ ہیں۔ لطائفِ عشرہ میں سے پانچ عالمِ امر کے ہیں۔ (1) قلب، (2) روح، (3) سر، (4) خفی (5) اخفیٰ۔ اور پانچ عالم خلق سے ہیں۔ (1) نفس، (باقی چار قالب یعنی جسم سے ہیں) (2) آب، (3) آتش (4) باد ـ(5) خاک۔

حضرت نے ارشاد فرمایا کہ پانچ عالمِ امر کے لطائف کے اصول کائنات و آفاق سے باہر ہیں، لیکن اس کے سرے اِس وجودِ عنصری کے ساتھ ہیں، اس وجودِ عنصری میں مقامات کے ذریعہ سے ان کے اصول کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے اور اس تعلق کا ذریعہ یہ ذکر فکر ہے۔

اس آیت کریمہ پر تھوڑا سا غور کر لیں۔

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ 0 الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔﴾ (آل عمران: 190-191)

ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے‘‘۔

میں اس آیت کو آیتِ معرفت کہتا ہوں۔ اس میں الله جل شانهٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک اس کائنات کی تخلیق میں اور دنوں کے الٹ پھیر میں ’’اُوْلُوْا الْاَلْبَابِ‘‘ (عقلمندوں) کے لئے نشانیاں ہیں۔ پھر اللہ پاک نے خود ’’اُوْلُوْا الْاَلْبَابِ‘‘ کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے، یعنی ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔

اس سے مطلب یہ ہوا کہ صرف ذکر اور چیز ہے، صرف فکر اور چیز ہے، لیکن ان دونوں کا مجموعہ بہت جامع چیز ہے، یہ معرفت کا ذریعہ ہے۔ صرف ذکر سے استعداد پیدا ہوتی ہے، غفلت دور ہوتی ہے، ہمارے اوپر جو شیطان کا اثر ہوتا ہے وہ دور ہوتا ہے، جب ایسا ہو جاتا ہے تو پھر ہم لوگ زیادہ بہتر فکر کر سکتے ہیں۔ گویا ذکر راستہ بناتا ہے اور فکر کے ذریعہ اللہ پاک چیزیں کھولتے ہیں، فکر کے ذریعہ معرفت نصیب ہوتی ہے۔ اب ذرا غور سے دیکھیں کہ ہم ذکر کن چیزوں پر کر رہے ہیں۔ ہم ان لطائف کے ذریعہ ذکر کرتے ہیں، اور ان لطائف کے ذریعہ ذکر کر کے، پھر کائنات و آفاق کے اندر فکر کر کے اور اللہ تعالیٰ کے نظاموں کے اندر غور و فکر کر کے اجمالی طور پر دو چیزوں کو جان جاتے ہیں، ایک یہ کہ اس آفاق کو جان لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک نظام کی حکمت کے ذریعہ سے یہ وجود میں آیا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں: ﴿وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً﴾ کہ ’’اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا‘‘، بلکہ ضرور اس کی کوئی حکمت ہے، کوئی مقصد ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ بھی ارشاد مبارک ہے کہ یہ کائنات کوئی ایسی بات نہیں کہ اللہ پاک نے اس کو اپنے لئے مشغلہ بنایا ہوا ہے، ہر چیز کی اپنی ایک حکمت ہوتی ہے، اس کی بھی اپنی ایک حکمت ہے۔ کائنات کا باطل نہ ہونا اسی حکمت کی طرف اشارہ ہے، جس کی وجہ سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ یہ بات جاننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت بھی آپ کے اوپر کھلتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کو اس سے پاک سمجھیں کہ یہ کائنات الله جل شانهٗ کے اوپر ذرہ بھر اثر نہیں کر سکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی شان ہر وقت اس کو الٹ پلٹ کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی: ’’سُبْحٰنَكَ‘‘ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے پاک ہے، کائنات کی ہر ہر چیز سے پاک ہے، اللہ پاک صمد ہے، اللہ پاک سبحان ہے۔ لہٰذا کوئی بھی چیز اللہ پاک کو متاثر نہیں کر سکتی، کسی کا کوئی عمل اللہ پاک کو متاثر نہیں کر سکتا، کسی کی کوئی شان اللہ کو متاثر نہیں کر سکتی، کسی کا کوئی نقصان اللہ پاک کو متاثر نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے منزہ ہے۔ یہ جاننے کے بعد فوراً ہم کہتے ہیں: ’’سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘۔ ’’اے اللہ! تو پاک ہے، پس ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ جیسے ہم کہتے ہیں ’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ ’’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں‘‘۔ اس کے فوراً بعد اپنا مقصد سامنے رکھتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ جو آگ سے بچ گیا اسے فوزِ عظیم حاصل ہو گئی، لہٰذا ہم اس فوزِ عظیم کو طلب کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: ’’فَقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘۔ گویا کہ معرفت میں سب سے پہلا قدم اپنے آپ کو نقصان سے بچانا ہے، الله جل شانهٗ کی تو شان ہی وراء الوراء ہے، وہ سب سے اونچا ہے، لہٰذا ہماری معرفت کا سب سے پہلا اثر یہ ہو گا کہ ہم اپنے آپ کو اس نقصانِ عظیم سے بچائیں تو اس کے لئے ہم نے اللہ پاک سے مانگ لیا: ’’فَقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘۔

میں عرض کر رہا تھا کہ ذکر اور فکر کے ذریعہ سے یہ لطائف متحرک ہوتے ہیں۔ ان کی تین قسم کی تحریک کا بھی میں نے بتایا، کہ پہلے ان لطائف کو ذکر کے ذریعہ متحرک کرنا ہے، جاندار بنانا ہے اور حساس بنانا ہے۔ جب یہ کام ہو جائے، تو اس کے بعد سب سے بڑا کام یہ کرنا ہے کہ ان پہ فیض کا اجرا کرنا ہے، ان کے ذریعہ فیض وصول کرنا شروع کرنا ہے۔ در اصل یہ بھی اللہ تعالیٰ اپنے ارادے سے کرتا ہے، لیکن ہمیں اللہ پاک نے ایک بڑی طاقت دی ہے، یعنی تصور کی طاقت۔ اس قوتِ تصور کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل یہ حدیث شریف ہے:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970)

ترجمہ ’’میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

اب اگر میں تصور کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھے رحمت کے ساتھ دیکھ رہا ہے، تو اس سے میں اللہ کو متاثر نہیں کر سکتا، نہ ہی میرا کوئی عمل اللہ کو متاثر کر سکتا ہے، لیکن اللہ پاک نے جو فرما دیا کہ میں بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں اپنے ارادہ سے، تو اگر میں کسی خاص چیز میں اپنا گمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہتر کر لوں، تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ وہی معاملہ کریں گے۔ جب یہ بات حقیقت ہے تو پھر میں سب سے پہلے تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آتا ہے، جیسے کہ اس کی شان ہے۔

’’اس کی شان کے مطابق‘‘ ہونے کی شرط لگانے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فیض کی وضاحت نہیں کر سکتے، جیسے ہم اللہ پاک کو وراء الوراء سمجھتے ہیں، اس طرح اللہ پاک کے فیض کا بھی ہم لوگ ادراک نہیں کر سکتے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ اللہ پاک خود ہی اپنی تعریف کر سکتا ہے، کوئی اور اللہ تعالیٰ کی تعریف نہیں کر سکتا، اِلَّا یہ کہ جتنی اللہ پاک توفیق دے دے۔ آخر آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ پھر میں مقام محمود میں الله جل شانهٗ کے سامنے سجدہ میں پڑ جاؤں گا، اس وقت وہ کلمات مجھے الہام کئے جائیں گے جو اس حالت کے مناسب ہوں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی اپنی تعریف کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا۔

لہٰذا جب ہم یہ تصور کریں گے کہ جیسی اللہ کی شان ہے، اس کے مطابق فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے، اور یہ ویسے بھی ایک حقیقت ہے کہ سب کچھ پہلے آپ ﷺ پر آتا ہے، جس کو بھی کچھ ملتا ہے، آپ ﷺ کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 71)

ترجمہ: ’’میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والے اللہ ہیں‘‘۔

گویا اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرنے کا ذریعۂ اول آپ ﷺ ہیں، اس کے بعد موجودہ وقت میں اس قسم کے فیوض حاصل کرنے کا ذریعہ شیخ ہوتا ہے۔ جیسے علم کا ذریعہ تو استاذ ہوتا ہے، لیکن اس قسم کا فیض حاصل کرنے کا ذریعہ شیخ ہوتا ہے، حضور ﷺ کا فیض تمام سلسلے سے ہوتے ہوئے شیخ کے قلب پر آتا ہے۔ تو ہم تصور کرتے ہیں کہ وہی فیض شیخ کے قلب سے میرے قلب پہ آ رہا ہے۔ گویا کہ ہم فیض کو حاصل کرنے کے کنکشن کو قائم کرنے کا تصور کرتے ہیں، ہم اس کو سوچ لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے مطابق کر لیتے ہیں۔ ہمارا کام سوچنے کا ہوتا ہے، کرنے کا کام اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ ہم اللہ سے اپنی سوچ کے ذریعہ کچھ کروا نہیں سکتے، لیکن اللہ پاک اس سوچ سے کر دیتا ہے۔ ہم کروا نہیں سکتے، وہ اپنے فضل سے کر دیتا ہے۔ اس میں فضل کا عنصر ہے، فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہاں آپ کی کوشش تو آپ کی کوشش ہے، وہ آپ کو کرنی پڑے گی، لیکن قدم قدم پر اس کے فضل سے ہی سب کچھ ہو گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آتا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آتا ہے اور شیخ کے قلب سے پھر میرے قلب پہ آتا ہے، تو اس فیض کا مَورِد قلب ہو گیا۔

عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں۔ پہلے لطیفہ، یعنی لطیفۂ قلب کا ذکر ہوگیا۔ دوسرا لطیفۂ روح ہے، لطیفۂ روح پر ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا فیض جیسا کہ اس کی شان ہے، آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ پھر اس کے بعد لطیفۂ سر پر، پھر لطیفۂ خفی پر اور پھر لطیفۂ اخفیٰ پر۔ اس طرح ہم یہ پانچوں لطائف‘ فیض کے لحاظ سے متحرک کر لیتے ہیں۔ یہ عمومی فیض ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر خصوصی فیض کا اجرا کرواتے ہیں۔ یعنی عمومی فیض میں ہم فیض کی قسم اپنے ذہن میں نہیں رکھتے۔ مثلاً جیسے علم کا فیض ہوتا ہے، کسی اور قسم کا بھی فیض ہو سکتا ہے، ہدایت کا فیض بھی ہوتا ہے، بہت ساری چیزیں فیوض ہو سکتی ہیں۔ تو ابھی تک ہم عمومی فیض کا اجرا کروا رہے تھے۔ اس کے بعد خصوصی فیض کا اجرا کرواتے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خاص قسم کا فیض کون سا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خصوصی فیض سے مراد تین قسم کی تجلیات ہیں۔ تجلیاتِ افعالیہ، تجلیاتِ صفاتیہ اور تجلیاتِ ذاتیہ۔ ان کے مَوْرِد (وارد ہونے کی جگہ) پہلے تین لطائف قلب، روح اور سر ہیں۔ تو خصوصی فیوض میں پہلا فیض ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد‘‘ کا ہے، تجلیاتِ افعالیہ میں ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ اللہ پاک سب کچھ کرتے ہیں، اس کا جو فیض اس کی شان کے مطابق آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آتا ہے، وہ آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آتا ہے، شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ قلب پہ آتا ہے۔ اس کے بعد صفات ثبوتیہ کا فیض جاری کراتے ہیں۔ اللہ پاک کی آٹھ خاص صفات، جن کو ہم صفاتؐ ثمانیہ کہتے ہیں۔ یعنی الله جل شانهٗ کی تکوین کی صفت ہے، علم کی صفت ہے، ارادہ کی صفت ہے، کلام کی صفت ہے، صفتِ سمع ہے، صفتِ بصر ہے، صفتِ قدرت ہے، صفتِ حیات ہے۔ اس میں یہ تصور کرایا جاتا ہے کہ ان آٹھ کی آٹھ صفات کا فیض اسی راستے سے ہو کر میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔

پھر لطیفۂ سر پر آتے ہیں، اس میں تجلیاتِ ذاتیہ یعنی شیوناتِ ذاتیہ کے فیض کا اجرا کرواتے ہیں۔ اس کے بعد صفاتِ سلبیہ کا فیض ہوتا ہے۔ صفاتِ سلبیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو صفات انسان کی صفات کے مشابہ ہیں وہ تو صفاتِ ثبوتیہ ہیں، لیکن جو صفاتِ انسان میں بالکل ہی نہیں ہیں، جیسے اللہ پاک وراء الوراء ذات ہے، انسان اس کی طرح نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سوتا نہیں، اللہ تعالیٰ اونگھتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ۔﴾ اسی طرح: ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ O اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ O لَمْ یَلِدْۙ۬ وَلَمْ یُوْلَدْۙ O وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠﴾۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن میں انسان بالکل شریک نہیں ہے، انسان ان کی طرح بالکل ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جو صفات خاص اللہ کی ہیں، ان کو ہم صفاتِ سلبیہ کہتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ انسان کی ان صفات سے پاک ہے، اونگھ سے پاک ہے، سونے سے پاک ہے، اولاد سے پاک ہے، پیدا ہونے سے پاک ہے۔ اسی طرح وہ صفات جو انسان کی ہیں مگر اللہ کی نہیں ہیں ان کو صفاتِ سلبیہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد شانِ جامع ہے۔ یعنی تجلیاتِ افعالیہ، تجلیاتِ صفاتیہ اور تجلیاتِ ذاتیہ، تینوں مل کر، ان سب کی جو شان جامع ہے، اس کا فیض لطیفۂ اخفیٰ پر آ رہا ہے۔ گویا یہ پانچ لطائف، پانچ فیوضات کے مورد بن جاتے ہیں، اور ان کو پانچ مشارب بھی کہتے ہیں۔

جب ہم یہاں تک پہنچ جائیں، تو مزید آگے بڑھنے کے لئے دو رستے ہیں، جن کے بارے میں میں نے بتا دیا ہے۔ ایک حقیقتِ آدمیہ، حقیقتِ ابراہیمی، حقیقتِ موسوی، حقیقتِ عیسوی، حقیقتِ محمدی اور حقیقتِ احمدی والا رستہ ہے، جس کے بارے میں حضرت نے بتا دیا کہ قلب کا تعلق آدم -علیہ السلام- کے ساتھ ہے، موسی -علیہ السلام- کا تعلق صفات کے ساتھ ہے، عیسی -علیہ السلام- کا تعلق صفاتِ سلبیہ کے ساتھ ہے۔ اسی طرح مختلف انبیا کا بعض مشارب کے ساتھ تعلق ہے۔ اور آپ ﷺ کے قدم کے نیچے لطیفۂ اخفیٰ کے مقامات ہیں۔ دوسرا راستہ حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن، حقیقتِ صلوٰۃ اور حقیقتِ عبودیت صرف والا رستہ ہے۔ یہ سب چیزیں عالم امر کی ہیں۔ پھر حضرت نے عالمِ خلق کی چیزیں بتائی ہیں کہ عالمِ خلق کی چیزیں دائرہ امکان میں ہیں، ان کا تعلق کائنات کے ساتھ ہے، جب کہ عالمِ امر کا کائنات کے ساتھ تعلق نہیں ہے، وہ کائنات سے باہر کی چیزیں ہیں۔ اور نقشبندی سلسلہ کے بارے میں بتا دیا کہ اس میں ابتدا عالمِ امر سے کی جاتی ہے اور باقی سلسلوں میں عالمِ خلق سے ابتدا کی جاتی تھی۔

اس پہ اچھی خاصی بحث ہے۔ عالمِ امر سے ابتدا کا مطلب ہے کیفیتِ جذب کو پیدا کرنا۔ کچھ لوگ بغیر جذب کے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے تیار نہیں ہوتے، ان کے لئے جذب سے ابتدا کرائی جاتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ باقی سلاسل میں عالمِ خلق سے ابتدا ہوتی تھی یعنی تزکیۂ نفس پہلے ہوتا تھا۔ اور نقشبندی سلسلے میں عالمِ امر سے ابتدا ہوتی ہے، یعنی پہلے جذب حاصل کیا جاتا ہے، پھر تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ اب یہ دو طریقے ہیں۔ ان دو طریقوں میں کیا فرق ہے؟ اس پر میں نے کچھ لکھا ہے، مناسب ہے کہ میں اسی کو پڑھ کے سنا دوں، یہ زیادہ بہتر اور محتاط طریقہ ہے۔

یہ میرا ایک آرٹیکل ہے۔

"مختلف سلاسل کے طرقِ تربیت"

ویسے تو جتنے لوگ ہیں، خدا تک پہنچنے کے اتنے طرق ہیں، لیکن ظاہر ہے اگر ان سارے طریقوں کو کسی اصول کے نیچے لانے کی کوشش کی جائے تو پھر دو بڑے طریقے اب تک وجود میں آئے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ذکر کے ذریعہ سے دل کو نرم کیا جائے اور گرم کیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ علاجی مجاہدات کے ذریعے سے شرعی مجاہدات کے لئے جگہ پیدا کی جائے۔ مثال کے طور پر شرعی مجاہدہ یہ ہے کہ غیر محرم کو نہیں دیکھنا، اب آپ اس کو ایک اضافی مجاہدہ کے ذریعہ سے آگے اس طرح بڑھائیں کہ پہلے دن پانچ منٹ کمرے کے اندر نیچے دیکھیں اوپر نہ دیکھیں۔ اگلے دن چھ منٹ، اگلے دن سات منٹ، اس کو پچیس منٹ تک پہنچائیں۔ پھر باہر آ کر لوگوں کے درمیان رہ کر اس طرح پانچ منٹ سے شروع کر کے روزانہ ایک منٹ بڑھاتے جائیں اور اس کو بھی پچیس منٹ تک پہنچائیں۔ اس سے آپ کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی کہ آپ نا محرم کو نہیں دیکھیں گے۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ پہلے بزرگوں کا سلوک پر چلانے کے لئے یہی طریقہ تھا، یعنی تدریج کے ساتھ اختیاری مجاہدہ کے ذریعے شرعی مجاہدہ پر لانا، یعنی تزکیۂ نفس پہلے کروانا۔ اور تزکیۂ نفس اس طرح کرواتے تھے کہ مجاہدات کرواتے تھے۔ جس نا جائز چیز کا تقاضا نفس کے اندر ہوتا تھا، اس کو مجاہدہ کے ذریعہ زیر کرتے، اس کی مخالفت کرتے۔ اس کی جتنی مخالفت کی جاتی، اتنی اس کے اندر اسے روکنے کی استعداد پیدا ہو جاتی۔ جیسے میں نے ابھی بتایا کہ پہلے انسان غیر محرم کی طرف دیکھنے سے نہیں بچ سکتا۔ لیکن جب اس نے یہ پچیس منٹ کے لئے مشق کر لی تو اب ما شاء اللہ اس کو عادت ہو گئی کہ اب وہ غیر محرم کی طرف نہیں دیکھتا۔ پچیس منٹ میں پھر آگے پیچھے بڑھ سکتا ہے، جگہ تبدیل کر سکتا ہے، اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ یہ پہلے والے بزرگوں کا طریقہ تھا۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اتنا جذب پیدا کرو کہ شرعی مجاہدے پر direct ڈال دئیے جاؤ، یعنی نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور غیر محرم سے اختلاط سے احتیاط وغیرہ، ان تمام شرعی مجاہدات پر direct ڈال دو، لیکن پہلے اس کے اوپر یہ محنت کرو کہ اس میں جذب پیدا کر لو۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس طریقہ کو بہتر فرمایا ہے۔ یہی نقشبندی طریقہ ہے۔

اب ان میں کون سا غلط ہے؟ ظاہر ہے دونوں ٹھیک ہیں۔ اگر حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) اپنے طریقہ کی تعریف فرما رہے ہیں تو کون سا غلط کر رہے ہیں،؟ درست فرما رہے ہیں، ان کو یہی طریقہ زیادہ آسان اور زیادہ بہتر لگ رہا ہے، direct لگ رہا ہے۔ دوسرا طریقہ بھی دین کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہی ہے، لہذا وہ بھی ٹھیک ہے۔ اگر ہم نقشبندی طریق کے لئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام -رضوان اللہ علیہم اجمعین- کی آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- کی صحبت سے آناً فاناً اصلاح ہو گئی، اور اس کو جذب سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، گو کہ جذب کی اصطلاح ہم جیسے بیماروں کے لئے ہے، ہم یہ اصطلاح صحابہ کرام کے لئے نہیں استعمال کر سکتے، ان کے لئے تو یہی ہے کہ آپ ﷺ کی صحبت نے ہی ان کو آناً فاناً تبدیل کر لیا۔ اس کو ہمارے جذب کی طرح کہنا ممکن نہیں، لیکن اس کے ساتھ مشابہت ضرور ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جس ترتیب سے احکامات اتارے تھے، اس میں جو تدریج کا پہلو تھا، اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ پاک نے سارے احکامات براہِ راست فوراً نہیں اتارے۔ شراب کا حکم تین مراحل میں آیا ہے۔ اس لئے ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سلوک اگرچہ بیماروں کے لئے ہے، لیکن اس کو تدریج کے ساتھ مشابہت ضرور ہے۔ جیسے شریعت آہستہ آہستہ تدریج کے ساتھ نازل ہوئی، جیسے شراب کا حکم آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے، تو دوسرے بزرگوں کے طریقہ سے شرعی مجاہدہ تک پہنچنا بھی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کے طریقہ سے مشابہت رکھتا ہے۔

جس کو جو طریقہ بہتر نظر آیا، انہوں نے اس کی بات کی۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کسی پر کھولے تو خوشی تو ہوتی ہے اور وہ خوشی سے اس کو بیان بھی کرے گا۔ ہم بھی اس کو خوشی سے بیان کریں گے۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی خوشی سے بیان کیا۔ اسی طرح شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کو جو اللہ تعالیٰ نے دیا، انہوں نے اس کو خوشی سے بیان کیا۔ اس طرح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رحمۃ اللہ علیہ) کو اللہ نے جو دیا، انہوں نے اس کو خوشی سے بیان کیا۔ خواجہ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) کو اللہ پاک نے جو نوازا، انہوں نے اس کو خوشی سے بیان کیا۔ تو اس طرح اللہ پاک کھولتے ہیں۔ اس میں بات یہ ہے کہ جس پر جو چیز کھولی جاتی ہے، جن لوگوں کی طبیعت اس کے موافق ہوتی ہے، ان کو اس کے ساتھ فائدہ پہنچایا جاتا ہے، اسی کو مناسبت کہتے ہیں۔ اب یہ اتنی سی بات ہے مگر لوگوں نے اس پر اتنی بلڈنگیں قائم کر لیں کہ آپس میں لڑائی شروع کر لی۔ بھائی! یہ لڑنے کی باتیں نہیں ہیں، یہ تو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت نظام بنایا ہے، اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے، ہم کون ہیں کہ ان کے درمیان فیصلہ کریں، انہوں نے جو سوچا وہی کیا۔ دونوں طریقوں سے حصول و وصول ہو سکتا ہے۔

اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارے طریقے ٹھیک ہیں، بس صرف مناسبت کی بات ہے، کسی کو کسی طریقے کے ساتھ مناسبت ہے اور کسی کو کسی طریقے کے ساتھ مناسبت ہے۔ البتہ بعض حضرات اگر یہ کہتے ہیں کہ صرف ہم ٹھیک ہیں تو یہ ایسا دعویٰ ہے، جس سے بے ادبی کی شاخیں نکلتی ہیں، اس لئے اس سے بچنا ہم سب کے لئے لازم ہے۔

الحمد للہ! ہمیں اللہ تعالیٰ نے سب سلسلوں کی برکات نصیب فرمائی ہیں، لہٰذا ہمیں تو کوئی اشکال ہی نہیں۔ جیسے ابھی میں نے عرض کیا کہ دو ترتیبیں ہیں، یہ بھی شرعی اور مسنون ترتیب ہے اور وہ بھی شرعی ترتیب ہے۔ البتہ میں ایک بات مزید کروں گا۔ یہ میں تقابل کے لئے نہیں کہہ رہا، بلکہ سمجھ کے لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ تقابل کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔

سلوک بتدریج ہے اور جذب ایک دم ہے۔ ایک دم والی ترتیب میں نتیجہ جلدی حاصل ہوتا ہے، یہ اس کی خوبی ہے۔ لیکن بعض دفعہ اس میں خطرہ بھی ہوتا ہے، یہ اس کی مشکل ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جذب مختصر ہے، لیکن پُر خطر ہے، دوسری طرف سلوک محفوظ ہے، یہ اس کی خوبی ہے، لیکن طویل ہے، یہ اس کی مشکل ہے۔ اب اصولی طور پر اگر ان دو طریقوں کو اس طرح جوڑا جائے کہ ان دونوں کے فوائد حاصل ہوں اور دونوں کی مشکلات سے بچا جائے، تو یہ کیسا اچھا تجربہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسا ہی طریقہ نصیب فرمایا۔ اس طرح کہ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) پہلے چشتی تھے، بعد میں نقشبندی ہو گئے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رحمۃ اللہ علیہ) پہلے نقشبندی مجددی سلوک طے کر چکے تھے، اس میں مجاز ہونے کے بعد منامی طور پر آپ ﷺ نے حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کا ہاتھ میاں جی نور محمد جھنجھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) جو چشتی تھے، ان کے ہاتھ میں دے دیا اور ان سے تکمیل بھی ہوئی۔ گویا کہ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی چشتی نسبت کے ساتھ نقشبندی نسبت کو بھرپور انداز میں ملا کر اس کو حاجی صاحب تک پہنچا کر دوبارہ چشتیہ طریق کی طرف لوٹا دیا۔

اس پہ بہت اچھی طرح غور کریں۔ میں دوبارہ سنا دیتا ہوں یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی چشتی نسبت کے ساتھ نقشبندی نسبت کو بھر پور انداز میں ملا کر، (بھرپور انداز میں۔ آپ نے سن لیا ناں! حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا کیا باتیں فرمائیں، اس سے بھر پور انداز اور کیا ہو گا؟) اس کو حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) تک پہنچا کر دوبارہ چشتی طریق کی طرف لوٹا دیا۔ چونکہ آپ ﷺ نے چشتی کے ہاتھ میں ہاتھ دلوا دیا تو اس طرف لوٹا دیا۔ اس میں نقشبندیت کی وہ ساری خوبیاں تو قائم رہیں، لیکن وہ مشکلات جن کا ذکر مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) نے مکتوب نمبر 287 میں کیا ہے، ان سے بالکل بچت ہو گئی۔ نیز اس میں حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللہ علیہ) اور سید صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے تجدیدی طریقوں سے بھی استفادہ ہے۔ اس میں جذب کے فوائد بھی حاصل ہیں، گو کہ اس کے حصول کا رنگ مختلف ہے، لیکن ان میں سلوک کا باقاعدہ نظام بھی ہے، جس میں نفس کے رذائل سے بتدریج چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس طریقہ میں دونوں (چشتیوں اور نقشبندیوں) کو جوڑا گیا۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے محفوظ سلسلہ میں رکھا ہے۔

نقشبندی ترتیب میں علماء کافی چلے آ رہے تھے، اور چشتی ترتیب میں فدائین زیادہ پیدا ہو رہے تھے، جبکہ حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی ترتیب میں دونوں ہیں۔ (یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کا بیان ہے، اس وجہ سے میں نے شامل کیا ہے۔) اب دیکھیں دیوبند کی ابتدا کہاں سے ہوئی، حضرت حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے ذریعہ سے ہوئی۔ شاملی کے جہاد میں حضرت حاجی صاحب خود شامل تھے، حضرت گنگوہی _رحمۃ اللہ علیہ- بھی شامل تھے، مولانا قاسم نانوتوی (رحمۃ اللہ علیہ) بھی شامل تھے۔ حضرت حافظ ضامن شہید (رحمۃ اللہ علیہ) اس میں شہید ہوئے تھے۔ تو دیکھیں فدائیت بھی ہے اور علماء بھی ہیں، دونوں کو جمع کیا گیا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس وجہ سے حضرت حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی جو ترتیب ہے، اس میں دونوں چیزیں ساتھ ساتھ شامل ہیں۔ افغانستان کے جہاد کی سرپرستی بھی دیوبند ہی کی ہے، ملا عمر کون تھے، دیوبندی تھے۔ اس طرح دوسرے حضرات میں حقانی صاحب وغیرہ یہ سب دیوبندی تھے۔ وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ سے کام لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس سے علمی کام بھی لیا۔ اس وقت پوری دنیا میں جو محفوظ علم کا ذریعہ پھیل رہا ہے، دیوبند ہی کے ذریعے سے پھیل رہا ہے۔ لہٰذا یہ جو نقشبندی اور چشتی، دونوں کو جوڑا گیا ہے، اس میں بڑی حکمت ہے، اس سے یہ نتائج بر آمد ہوئے کہ اس سلسلے میں جتنا جذب ہے اتنا سلوک ہے، دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ جذب حاصل کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ اس کو استعمال کرتے رہیں۔ ہم لوگ یہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ پہلے دیکھتے ہیں کہ اس وقت سالک کی کتنی طاقت ہے، اگر برداشت پیدا ہو گئی ہے تو پھر اس کو بتاتے ہیں کہ یہ کرو۔ جتنی جتنی اس کے اندر استعداد پیدا ہوتی ہے، اتنا اتنا سلوک اس سے کرواتے ہیں، زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ یہ نہیں کرتے کہ پہلے سارا جذب حاصل ہو جائے، پھر اس کے بعد سلوک ہو۔ بلکہ ساتھ ساتھ ہی کر رہے ہیں، جتنا جذب پیدا ہو گیا، اس سے اتنا سلوک کا کام لیا، پھر جتنا جذب پیدا ہو گیا، پھر اتنا سلوک کا کام لیا۔ یہ ہماری ترتیب ہے۔

حضرت حاجی صاحب کے پاس ایک صاحب آئے تو حضرت نے اس سے پوچھا: بتاؤ ایک میدان ہے، اس میں آپ نے کاشت کرنی ہے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا: میں پہلے تھوڑی جگہ صاف کروں گا، پھر اس میں کاشت کروں گا، اس سے جو آمدن آئے گی اس سے مزید جگہ صاف کروں گا، پھر اس میں کاشت کروں گا، اس طرح آہستہ آہستہ ساری زمین کاشت کے قابل ہو جائے گی اور اس میں کاشت کرتا جاؤں گا اور اس کو صحیح بھی کرتا جاؤں گا۔ بس یہی ترتیب اس سلسلہ کی ہے کہ غیر محسوس انداز میں ترقی بھی ہوتی ہے اور محنت بھی جاری رہتی ہے۔ اس سے بزرگی کی سخت گھاٹی سے بچت کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ مکمل جذب میں بعض لوگ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ ہماری ترتیب میں ساتھ ساتھ سلوک ہے، اس کی وجہ سے بزرگی کے سر کے اوپر چوٹیں لگ رہی ہوتی ہیں، وہ ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر صرف جذب پر ہی چلا جائے تو بعض دفعہ سالک اپنے مراقبات و کیفیات سے اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے، جبکہ اس ترتیب میں جو کیفیت ملتی ہے اس کو سلوک میں خرچ کرنا پڑتا ہے، اس کے ساتھ اس کو اپنی کمی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ سلوک میں نفس کی مزاحمت سامنے ہوتی ہے، جس سے سالک اپنی اوقات میں رہتا ہے۔ کیونکہ سلوک رذائل کو دفع کرنے کا ہی نام ہے۔ سلوک کی defination ہی ”رذائل کو دفع کرنا“ ہے۔ اب جب آپ نے رذیلہ کے لحاظ سے سوچنا شروع کر لیا تو کبھی بھی اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ آپ کی نظر اپنے آپ پر پڑی کہ اتنا رذیلہ ابھی باقی ہے، تو رذیلہ کے ہوتے ہوئے آپ اپنے آپ کو بزرگ نہیں کہہ سکیں گے۔

مجھ سے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ مجھ میں عجب کا مرض ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کا علاج آسان ہے، آپ سوچیں کہ اگر میں پہلے بزرگ تھا بھی، تو اب میں خود کہہ رہا ہوں کہ مجھ میں عجب ہے، اور عجب بیماری ہے، بیماری کے ہوتے ہوئے کوئی بزرگ نہیں ہو سکتا۔ جب آپ خود مان رہے ہیں کہ آپ میں بیماری ہے، تو پھر بزرگ کیسے ہوئے۔ یہ بات سوچنے کے ساتھ ہی عجب خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کا طریقہ نقشبندی اور چشتی طریقہ کا جامع ہے، جس میں سلوک اور جذب ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ الحمد للہ! اللہ پاک نے اپنے فضل سے ہمیں بھی یہ طریقہ دیا ہے، تو ہم بھی خوشی خوشی بیان کر رہے ہیں، جیسے مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے خوشی خوشی بیان کیا، ہم نے بھی خوشی خوشی بیان کیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ان کی بات بھی صحیح ہے، باقیوں کی بات بھی صحیح ہے، اور ہماری بات بھی صحیح ہے۔ اس طریقہ سے ما شاء اللہ! ساری باتیں ہم آپس میں طے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام سلسلوں کی برکات نصیب فرما دے اور ہمیں کسی بھی سلسلہ کی برکات سے محروم نہ فرمائے۔ آمین!

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ