اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
السلام علیکم
Sir i will not be using the present whatsapp number i am sending, ok.
جواب:
Ok no problem.
سوال 2:
السلام علیکم
sir I will be able to say اللہ اللہ in my all لطائف about 10 minutes each as you told that I can do فیض in the قلب for 15 minutes afterwards
جواب:
آپ 10 منٹ کے لئے ہر لطیفہ پہ تصور کریں کہ وہاں پر اللہ اللہ ہو رہا ہے۔ اور مراقبہ احدیت کے بارے میں آپ نے بتایا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے جیسا کہ اس کی شان ہے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے دل پہ آ رہا ہے۔ یہ 15 منٹ کے لئے کرنا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے یہ کب سے شروع کیا ہے اور کیفیت کے بارے میں بھی بتا دیں۔
سوال 3:
السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں کی زوجہ فلاں بہاولپور سے بات کر رہی ہوں۔ آپ نے جو اذکا ر بتائے ہیں وہ الحمد للہ با قاعدگی سے پڑھ رہی ہوں اور مراقبہ بھی کر رہی ہوں۔
جواب:
لیکن آپ نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
سوال 4:
السلام علیکم
my condition from the past days is not well I have previously told you about it and you said to seek treatment if it is a depression my symptoms are that I continuously feels stress which is effect on my stomach appetite and all body energy I am losing interest in everything and I will think seems hard for me even it is small activity there is no particular reason for stress in my life accept the current situation of corona etc and that time my situation worsen and this all has the effect on my religious and worldly activities and I only feel سکون whiles reading قرآن and اذکار and meeting relatives makes me feel better someone suggested that it may be evil eye or magic I wanted to ask that is it depression or نظرِ بد kindly guide me regarding this issue
جواب:
در اصل یہ یقیناً دورِ فتن ہے اور اس میں ہر چیز ممکن ہے۔ لیکن یہ بات سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کس طرح چلنا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹرز کے پاس بھی جاتا ہے تو وہ بھی by process of elimination step by step اصل بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی کوئی ایک بیماری assume کر کے اس کا علاج کرتا ہے۔ جب ایک بیماری ٹھیک ہو جائے تو پھر دوسری، پھر تیسری، اس طریقے سے علاج ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی اسی قسم کی صورتحال ہے۔ آپ نے جو وجہیں بتائی ہیں ان میں سے کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے آپ ڈاکٹرز کو consult کریں گی کیونکہ وہ ظاہری علاج ہے۔ اور اگر وہ نہ ہو تو پھر آپ دوسری چیزوں کی طرف جائیں گی۔ depression بھی آج کل ایک fact ہے۔ آج کل unseen stresses بہت زیادہ ہیں۔ جس کا کوئی reason معلوم نہیں ہوتا۔ اصل میں psychoanalysis سے معلوم ہو سکتا ہے، کوئی ایسی چیز انسان کے لا شعور میں گھسی ہوتی ہے جس کا اس کو معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ اس کو تنگ کر رہی ہوتی ہے۔ psychoanalysis سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کون سی چیز ہے؟ کام psychiatrist کا ہے۔ بہر حال اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: ”یاد رکھو صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمنان نصیب ہوتا ہے۔“
یہ چیز چونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے لہذا ذکر سے یقیناً فائدہ ہو گا، جیسا کہ آپ نے ابھی بتایا ہے۔ آپ اپنے آپ کو قرآن پاک میں مشغول رکھیں بالخصوص اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور کر لیں اور اللہ جل شانہ پہ تفویض کر لیں۔ تفویض سب باتوں کا علاج ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِؕ اِنَّ اللهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المومن: 44) علاج میں کمی نہ کریں چونکہ وہ رسول ﷺ کی سنت ہے اور ایک سبب ہے۔ ہمارا کام علاج شروع کرنا ہے لیکن نتیجہ اللہ کے حوالے ہے۔
جب میں FSc میں تھا تو میرا معاملہ بھی اس قسم کی چیزوں سے panic ہوتا تھا۔ ایک بار رات کو تقریباً دو بجے panic ہوا۔ میرا roommate اس وقت کمرے میں نہیں تھا۔ میں ایک اور side roommate کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ آپ ہمارے کمرے میں آ جائیں۔ سردی کی راتیں تھیں، وہ اپنے ساتھ لحاف لے آیا اور آتے ہی سو گیا۔ اس کا ہونا نہ ہونا میرے لئے برابر ہو گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ مرنا نصیب میں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ پہ مر جاؤ۔ یعنی اللہ کے حوالے۔ میں نے کلمہ پڑھا اور سنت طریقے سے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں مجھے نیند آ گئی۔ صبح اٹھا تو ٹھیک ہو گیا تھا۔ معلوم ہوا ان مسائل کا حل تفویض ہے کہ جو اللہ کی مرضی وہی ٹھیک ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ آپ علاج نہ کریں۔ لیکن ساتھ میں supporting کے لئے جیسے supplements ہوتے ہیں تو یہ بہترین supplements ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر، دعا، تلاوت یہ سب آپ کر لیں۔ باقی magic وغیرہ کے توڑ کے ہم experts نہیں ہیں۔ کیونکہ میں نہ عامل ہوں نہ عملیات کو جانتا ہوں اور نہ عملیات میں پڑنا چاہتا ہوں۔ البتہ جو میں جانتا تھا وہ میں نے عرض کر دیا۔
سوال 5:
السلام علیکم محترم شیخ صاحب! مجھے 10 منٹ کا دل کا، 15 منٹ روح کا مراقبہ اور "اَللہُ اَللہ" کا ذکر 4000 بار دیا گیا تھا، تقریباً دو مہینے ہو گئے ہیں۔ ان جگہوں پہ ذکر محسوس ہوتا رہتا ہے الحمد للہ۔ جب بھی دھیان جائے تو محسوس ہوتا ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ آ گے کیا کرنا چاہیے۔
جواب:
ابھ آپ 10 منٹ دل کا اور 10 منٹ لطیفۂ روح کا کر لیں اور 15 منٹ لطیفۂ سر کا کریں۔ زبانی ذکر کو جاری رکھیں۔ بہر حال اگر آپ کو بوجھ محسوس ہو رہا ہے تو اس کو آپ اپنے لئے غنیمت سمجھیں کیونکہ اس سے نفس کا علاج ہو جائے گا۔ آپ اپنا مراقبہ جاری رکھیں اور اس بوجھ کی پرواہ نہ کریں۔
سوال 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت تعلیمات مجددیہ کے گزشتہ درس سے بہت فائدہ محسوس ہوا۔ جس میں دس لطائف کے ذریعے پورے نقشبندی سلوک کا خاکہ سامنے آ گیا۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے مجھے بھی اس کا فائدہ محسوس ہوا ہے۔ در اصل واقعی حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات بہت قیمتی ہیں اور حضرت نے ساری چیزوں کو کھول کھول کے بیان فرمایا ہے۔ البتہ ہم لوگ پھر بھی نفس کا شکار ہو جاتے ہیں اور نفس کوئی نیا بہانہ تراش لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بجائے فائدے کے محرومی کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی حضرت نے ما شاء اللہ بہت آسانی کے ساتھ یہ چیز سمجھائی ہے کہ نقشبندی سلسلے میں عالم امر سے یعنی قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ سے کام شروع ہوتا ہے لیکن اس کی تکمیل سلوک سے اور سیر اللہ سے ہوتی ہے۔ پہلے لطائف سبعہ سے اس کو بیان فرمایا جس میں قالب اور نفس کا ذکر فرمایا۔ قالب جبلت ہے اور نفس انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ یہ نفس امارہ ہوتا ہے جو باغی ہوتا ہے اور اس کی بغاوت کو فرو کرنا ہوتا ہے، اس کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ اور قالب کو شریعت کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے۔ پھر قالب کے اندر تفصیل ہے۔ چونکہ قالب چار لطائف پر مشتمل ہوتا ہے تو وہ چار لطائف عالم خلق کے ہیں۔ یعنی خاک، باد، آب اور آتش۔ یہ چار طبیعتیں ہیں۔ چنانچہ عالمِ خلق کے یہ چار لطائف اور ایک عالم خلق کا لطیفہ نفس، اس کی سیرِ سلوک کے ذریعے سے تکمیل ہوتی ہے۔ معلوم ہوا عالم امر کے لطائف پہ کام کرنے سے جذب حاصل ہوتا ہے اور عالم خلق کے لطائف پر کام کرنے سے سلوک طے ہوتا ہے۔ حضرت نے بالکل وہی بات بہت خوبصورت انداز میں مکمل فرما لی۔ ہمیں یقیناً اس سے بہت فائدہ ہوا۔ حضرت نے جو فرمایا کہ ”مختصر ہے اور صحابہ کے طریقے پر ہے“ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ اصل میں اختیاری مجاہدے کے ذریعے انسان اپنے آپ کو شرعی مجاہدے کے لئے تیار کر لے۔ جیسے غض بصر یعنی آنکھ کی حفاظت اگر کسی سے نہیں ہو رہی تو پھر اس کو ہم مجاہدہ کا طریقہ بتاتے ہیں کہ کمرے کے اندر بیٹھ کے پانچ منٹ نیچے دیکھیں اوپر نہ دیکھیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ چھ منٹ، پھر سات منٹ، پھر آٹھ منٹ اور پچیس منٹ تک بیس دن میں پہنچائیں۔ پھر باہر لوگوں میں آ کر پانچ منٹ سے شروع کر لیں۔ پانچ منٹ نیچے دیکھنا ہو گا اور پھر اگلے دن چھ منٹ، اگلے دن سات منٹ، بیس دن میں پچیس منٹ پورے ہو جائیں گے۔ اس طرح ایک اختیاری مجاہدے کے ذریعے غص بصر کی توفیق ہو جاتی ہے جو ایک شرعی مجاہدہ ہے۔ اسی طریقے سے جتنے بھی شرعی امور ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج یہ سب شرعی مجاہدات ہیں۔ ان کو ہم اختیاری مجاہدات کے ذریعے سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طریقے میں تدریج ہے اور تدریج بھی صحابہ کرام کا طریقہ ہے کیونکہ آپ ﷺ نے صحابہ پر تدریج کے ساتھ تمام احکامات نافذ کئے بلکہ اللہ پاک نے کئے تھے۔ دین تدریج کے ساتھ آیا ہے۔ معلوم ہوا تربیت بھی تدریج کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ تدریج بھی صحابہ کا طریقہ ہے۔ دوسری طرف حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شرعی مجاہدات direct استعمال کئے جائیں تو اس کے لئے نظام کو ذرا نرم کرنا پڑتا ہے۔ گرم اور نرم کرنے کا ذریعہ جذب ہے۔ پہلے جذب حاصل کیا جاتا ہے اس کے ذریعے سے پھر بندے کو شرعی مجاہدات پہ direct عزیمت کے ساتھ ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر رخصت نہیں رکھتے۔ یہ عزیمت ہی مجاہدہ ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تدریج کے ساتھ اختیاری مجاہدات کے ذریعے شرعی مجاہدات تک پہنچنا۔ بہر حال دونوں طریقے ٹھیک ہیں اور دونوں طریقوں کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ اس میں تنقیص کی طرف نہیں جاتے کہ فلاں سلسلہ اچھا ہے اور فلاں سلسلہ اچھا نہیں۔ البتہ مزاجوں کی طرف جاتے ہیں کہ بعض مزاج کے لئے ایک طریقہ زیادہ بہتر ہوتا ہے دوسرے مزاج کے لئے دوسرا طریقہ بہتر ہوتا ہے۔ جیسے مزاج اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں ان کے مطابق چلنا چاہیے۔ الحمد للہ یہ چیزیں ہمیں اس سے معلوم ہو گئیں۔
سوال 7:
حضرت السلام علیکم
I have been reciting 2000 times followed by اللہ اللہ.
"یا اللہ یا سبحان یا عظیم یا رحمٰن یا وہاب"
100 times for the past one month kindly advise next.
جواب:
So you should add یا ودود with this for one month.
سوال 8:
حضرت کیسے ہیں آپ؟ اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رکھے۔ میرا ذکر جاری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور بہت تکلیف پہنچا رہے ہیں، کوئی سامنے آ جاتا ہے اور کوئی چھپ کے وار کرتا ہے۔ عبادت اور ذکر میں بھی tension سے توجہ نہیں ہو رہی۔ میں بہت پریشان ہوں میرے لئے خصوصی طور پہ دعا کیجئے۔
جواب:
یقیناً میں الحمد للہ سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ سارے سلسلے کے لئے کرتا ہوں۔ لیکن بہر حال دعا کی قبولیت کے لئے آپ کا اپنا عمل بہت ضروری ہے۔ بہت ساری خواتین مجھ سے فون کے ذریعے رابطہ کرتی ہیں کہ ہمارے شوہر کا کاروبار ٹھیک نہیں ہے یا بیماری ہے یا کوئی اور چکر ہے تو اس کے لئے کیا پڑھوں؟ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ کے پڑھنے سے اس کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کو خود پڑھنے سے فائدہ ہو گا۔ اگر وہ خود اس طرف نہیں آ رہا تو آپ کے کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ آپ دعا کر سکتی ہیں۔ لیکن جو تبدیل نہیں ہونا چاہتا اس کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے؟ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات تبدیل ہو جائیں لیکن ہم تبدیل نہیں ہوں گے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تبدیل ہو جائیں تو ہمارے حالات بھی تبدیل ہو جائیں گے۔ کیونکہ نص قرآن ہے: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)
ترجمہ: ”لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔“
اگر ہم اللہ پاک سے اپنا رابطہ درست کر لیں۔ گناہوں سے توبہ کر لیں اور اللہ جل شانہ کے حضور جھک جائیں تو سب چیزوں سے اللہ تعالیٰ بچانے والے ہیں۔ اپنے حالات کو صحیح کرنا ہو گا۔ گناہوں کی زندگی سے نکلنا ہو گا۔ اس طرح ہمارے حالات تبدیل ہو جائیں گے تو اللہ پاک کی مدد ہمارے ساتھ خود بخود شامل ہو جائے گی۔ باقی صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ پاک سے مانگنے کا حکم ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ﴾ (البقرۃ: 153) تو نماز میں دعا بھی آ گئی اور نماز بھی ادا ہو گئی۔ اور صبر میں اسباب کو اختیار کرنا بھی آ گیا۔ جب تک نتیجہ نہیں آتا اس پر صبر بھی کرنا آ گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ایک ترتیب ہے۔ آپ paracetamol کی گولی کھاتے ہیں تو بخار اترنے میں بھی کچھ time لگتا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں نے گولی کھا لی اب بخار فوراً ختم ہو جائے تو ایسا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ انسان کام شروع کر لیتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ انسان اس میں صبر نہیں کرتا حالانکہ اس کو صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق درست کر لیں۔ میں یقیناً دعا کروں گا اور اب بھی کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے معاملات درست کرے۔ لیکن دعا میں طاقت تب آئے گی جب آپ خود اپنے حالات درست کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور ہم سب کی مدد فرمائے۔
سوال 9:
میں راولپنڈی سے فلاں بات کر رہا ہوں ۔حضرتِ والا میں امید کرتا ہوں آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔ گھر والی کا ذکر ایک ماہ کے لئے مکمل ہو گیا ہے۔ مزید چار دن اوپر ہو گئے ہیں۔ مراقبہ قلب 15 منٹ کے لئے، جو صحیح محسوس ہو رہا ہے۔ مراقبہ روح بھی 15 منٹ کے لئے۔ مراقبہ روح کے دوران آدھا جسم حرکت کرنے لگتا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب ان کو 10 منٹ کے لئے قلب اور 10 منٹ کے لئے روح اور 15 منٹ کے لئے لطیفہ سر کا ذکر بتا دیں۔
سوال 10:
السلام علیکم شاہ صاحب! جب انسان کسی چیز پر غرور کرتا ہے تو کیا اللہ ان سے وہ چیز چھین لیتا ہے؟ میں کافی دنوں سے یہ سوچ رہی ہوں شاید میں نے بھی کبھی غرور کیا ہو گا کہ میرا اپنا گھر ہے۔ اب تقریباً تین ماہ سے میں مسافروں والی زندگی گزار رہی ہوں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ یہاں آتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کچھ ہفتوں کے بعد جاؤں گی۔ پھر وہاں جاتی ہوں تو بھی یہی بات ہوتی ہے کہ تین ہفتے بعد جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا کوئی بھی گھر نہیں ہے۔ شاید یہ سزا ہو یا شاید اس دنیا میں کسی کا بھی اپنا گھر نہیں ہوتا۔ ہم سب مسافر ہیں۔ شاید اللہ پاک یہ سکھانا چاہتے ہوں کہ اس دنیا میں مسافر بن کے کیسے رہنا ہے۔ ایک تبدیلی مجھ میں آئی ہے کہ اب کوئی کچھ بھی کہہ دے مجھے برا نہیں لگتا اور یہ کہ اس دنیا میں کسی کا بھی کوئی نہیں ہے۔ نزدیک کا اور نہ دور کا۔ نزدیک سے نزدیک رشتہ بھی کبھی بہت مجبور ہو جاتا ہے اور ساتھ نہیں رہ پاتا۔ بس صرف ایک اللہ ہی ہے جو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔
جواب:
آپ کی سوچ کے دو حصے ہیں۔ ایک 100 فیصد صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا ساتھ دے سکتا ہے کوئی اور نہیں دے سکتا بلکہ انسان خود کا بھی ساتھ نہیں دے سکتا، اللہ ہی دیتا ہے۔ مثلاً ہم گناہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم بد پرہیزی کرتے ہیں تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بد پرہیزی سے بھی روکتا ہے اور گناہ سے بھی روکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہم سے ہم پر زیادہ مہربان ہے۔ یہ بات تو طے شدہ بات ہے اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں۔ جہاں تک آپ کی دوسری بات ہے تو اس میں مجھے تھوڑی بہت مایوسی اور شکوہ کی بات نظر آ رہی ہے۔ اگر آپ کی آخری چند باتیں ٹھیک ہیں تو پھر آپ کی پہلی ساری باتیں ختم ہونی چاہئیں کہ کسی سے شکوہ نہیں، کسی کا گلہ نہیں، کسی کی بات محسوس کرنا نہیں۔ یہ جو آپ محسوس کر رہی ہیں تو اس کا مطب ہے کہ ابھی معاملہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا۔ جب تک پوری آگ نہ جلاؤ تو دھواں چلتا رہتا ہے اور جب complete burning ہو جائے تو پھر آگ بھی نظر نہیں آتی۔ معلوم ہوا ابھی پورا مسئلہ ٹھیک نہیں ہوا لیکن بہر حال بہتر ہو گیا ہے۔ آپ اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ سب لوگوں کے دل اللہ کے قبضے میں ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق درست کر لیں تو ساری مخلوق نہ آپ کو کچھ دے سکتی ہے نہ آپ کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ جیسے اللہ چاہے گا اسی طرح کرے گا۔ بس یہ ذہن میں رکھیں۔ ان شاء اللہ کوئی بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
سوال 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
I hope you are well dear حضرت I am فلاں 21 years old from UK۔ I have this question number one regarding the thoughts we should have in mind when executing our اصلاحی ذکر should the thought be believed in or is it a Meier hope for example when making the verbal ذکر of اللہ اللہ with the thought of that اللہ is watching my heart with love should we believe in this thought with certainty or with hope for example I hope اللہ is watching my heart with love while making the ذکر or اللہ is certainly watching my heart with love while making this ذکر I do understand Urdu
جواب:
میں اس وقت آپ کو صرف ایک حدیث شریف سناؤں گا۔ اس کی تشریح پھر آپ خود کر لیں یا کسی اور سے کروا لیں بجائے اس کے کہ میں کروں۔ آپ ﷺ نے اللہ جل شانہ سے روایت کی ہے جس کو حدیثِ قدسی کہتے ہیں۔ یعنی جو بات اللہ تعالیٰ کی ہو اور بتانے والے آپ ﷺ ہوں اور قرآن نہ ہو تو اس کو ”حدیثِ قدسی“ کہتے ہیں۔ فرمایا: "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" ”بندہ میرے ساتھ جو گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں“ اس کا سمجھنا آپ پہ چھوڑتا ہوں۔ ان شاء اللہ خود آپ کو سمجھ آ جائے گی۔
سوال 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا علاجی ذکر مکمل ہو گیا ہے جو بالترتیب 200، 400، 600 اور 1000 مرتبہ ہے۔ مزید کی رہنمائی اگر فرمائیں۔
جواب:
اب آپ ایک مہینے کے لئے 200، 400، 600 اور 1500 مرتبہ کر لیں۔
سوال 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ میرا مہینے کا ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" 400 مرتبہ "حَق" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 500 مرتبہ۔
جواب:
200، 400، 600، 500 کرنے کے بعد 5 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ جو اللہ اللہ 500 مرتبہ زبان سے آپ کر رہے تھے، دل بھی اسی طرح کر رہا ہے۔
سوال 14:
"لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" 400 مرتبہ "حَق" 600 مرتبہ "اَللہ" 1000 مرتبہ۔ 10 منٹ کا دل میں ذکر کر رہا ہوں۔ ان اعمال کو الحمد للہ ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔
جواب:
آپ نے ایک information مجھے نہیں دی ہے کہ 10 منٹ کا دل میں ذکر کیسے ہو رہا ہے؟ اس کے بعد میں آپ کو جواب دوں گا۔
سوال 15:
السلام علیکم محترم حضرت جی ذکر اللہ 3000 مرتبہ کرتی ہوں۔ مراقبہ دل 15 منٹ، مراقبہ روح 15 منٹ۔ دل کا مراقبہ جب شروع کرتی ہوں تو دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے۔ روح کا مراقبہ کو تین مہینے ہو گئے۔ پہلے اچھا ہو رہا تھا مگر کچھ دنوں سے خاموشی ہو گئی تھی۔ بس دل کی خالی دھڑکن محسوس ہوتی تھی۔ آج دھڑکن محسوس ہو رہی تھی مگر ذکر اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسے کمرے میں ہو رہا ہو، میرے اندر نہیں ہو رہا۔
جواب:
یہ reflection ہے۔ آپ اس کو اسی طرح ہی جاری رکھیں۔ اب آپ دل کا 15 منٹ، روح کا 15 منٹ اور سر کا بھی 15 منٹ شروع فرما لیں۔
سوال 16:
السلام علیکم حضرت جی بندہ مدرسہ میں پڑھاتا ہے اور وقت کی کمی ہوتی ہے۔ وقت پر بھی تنہائی میسر نہیں ہوتی۔ ہر وقت طلبہ کے ساتھ ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے ذکر کی پابندی نہیں رہتی۔ بندہ کافی عرصہ ذکر بھی استقامت سے نہیں کر رہا بلکہ کسی بھی عمل میں استقامت نہیں ملتی۔ بندہ کیا کرے؟ استقامت نہ ملنے پر بہت پریشان ہوں۔
جواب:
اگر میں آپ کو قسم کا دے کر پوچھوں کہ آپ کے پاس گپ شپ لگانے کے لئے کوئی فارغ وقت ہوتا ہے یا نہیں؟ یا اپنے کام کے علاوہ کوئی اور کام جیسے گھر کے کام کا وقت ہوتا ہے یا نہیں؟ اس وجہ سے میں یہی کہوں گا کہ آپ کی مرضی ہے۔ میں آپ سے زبردستی نہیں کرا سکتا۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو ہسپتال نہیں جانا چاہتا لیکن جانا پڑتا ہے ورنہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔ پھر کام سے چھٹی بھی مل جاتی ہے اور گھر سے بھی نکلنا پڑتا ہے۔ در اصل آپ نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر ضرورت محسوس کریں گے تو ٹائم نکال لیں گے۔ البتہ اس پر مشورہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو ٹائم کیسے ملے۔ آپ چوبیس گھنٹے میں کیا کچھ کرتے ہیں مجھے بتا دیں، اس حساب سے میں کوئی وقت آپ کو بتا دوں گا۔ اگر آپ نے غلط بتایا تو ذمہ داری آپ کی ہو گی اور صحیح بتایا تو آپ کو اس کا فائدہ ہو گا۔ یہ معاملہ اللہ کے ساتھ ہے میرے ساتھ نہیں ہے، میں علم غیب نہیں رکھتا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کو ساری چیزوں کا پتا ہے۔
سوال 17:
السلام علیکم۔ حضرت! پچھلے دو مہینے کے اعمال کا چارٹ آپ کو نہیں بھیجا اس کی وجہ یہ بنی کہ میں سوچتا رہتا تھا کہ آج بھیجوں گا، کل بھیجوں گا۔ اس طرح آدھا مہینہ گزر جاتا اور میں اعمال بھول جاتا کہ کون سے اعمال ہوئے تھے اور کون سے نہیں۔ صرف یہ یاد ہے کہ نماز کوئی نہیں چھوٹی الحمد للہ، نہ ذکر چھوٹا اور نہ 313 والا عمل اور درود شریف بھی نہیں چھوٹا۔ ستمبر کے مہینے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ پچھلے 6 دن صحیح چارٹ بھرا۔ اب سامنے چارٹ پڑا ہوتا ہے لیکن نہیں بھر رہا۔ معمولات کے چارٹ کو بھرنے کی جو اہمیت ہے وہ کم ہو گئی ہے۔ پچھلے دو مہینے سے میری غفلت اور سستی ہے لیکن میں پریشان اس پر ہوں کہ اپنے تکیہ کے ساتھ چارٹ رکھا ہوا ہے پھر بھی نہیں بھر پاتا۔ آپ دعا کریں کہ سستی پر کنٹرول کر لوں۔
جواب:
میرے خیال میں اس کے بعد اگلا پیغام آپ کا میری طرف یہ آنا چاہیے کہ آپ دعا کریں کہ میں کھانا کھانا شروع کر دوں۔ میرے سامنے کھانا پڑا ہوتا ہے لیکن میں نہیں کھا سکتا۔ تو میں دونوں دعائیں اکٹھی کر لوں گا۔ آپ کے کھانا کھانے کی بھی اور چارٹ بھرنے کی بھی۔
سوال 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
I hope حضرت is well and the family I wanted to ask these two questions number one what's the difference between فنا and تمکین and بقا why is سلسلہ there is many branches example
چشتی صابری and چشتی نظامیہ
what's the difference between the two and also the same with the نقشبندی طریقہ
جواب:
So about the first question I would answer فنا is فنا and بقا these are two states in فنا the person gets rid of نفس effect of نفس against sharia and the person does not feel himself even the effect of himself and the effect of all other things in this manner and بقا is this that اللہ سبحانہ و تعالیٰ he feels himself with اللہ سبحانہ و تعالیٰ, and he is working as if اللہ is making him working all the things so this is بقا and this is رجوع الی اللہ this is عروج so these are the different meanings as for as تمکین is concerned it is against تلوین by تلوین I mean that the effect of نفس changes the state of mind all the time and it is never constant it's varying all the time so this is called تلوین because تلوین is from لون، لون means colour it being as the colours are changing so similarly the state of mind is changing all the time and تمکین is against this that the person because of his characteristic state of mind he stays on that and that does not change so in تمکین a person is out of the effect of these variations so his answers are more valid and more understandable, and he understands all the actions normally in good manner and can perform work with the more confidence so that is called تمکین as for the second question is concerned actually our elders are saying that there are as many ways to reach اللہ سبحانہ و تعالیٰ as number of people it means for every person there is a different path but as it cannot be managed so therefor with you can say course type of grouping or sampling different, different groups are mate of the similar nature or similar taste you can say ذوق so if a person is having such a ذوق for which نقشبندی is better so will be going to نقشبندی بزرگ and for the person who is having the taste that for him چشتی نسبت is more interesting so he will go to that so this actually but as the number of people are more and these groups are less so therefor with the passage of time different people can explore more groups so there for more groups come into existence so حضرت شیخ صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ and حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ they both were چشتی but they formed different form of چشتیت because this actually the procedure of treatment so procedure of treatment for different people will be different so these have made these different procedures similarly in قادری سلسلہ there are groups and in نقشبندی سلسلہ there are groups معصومیہ and بنوریہ and many others so these groups are subject to condition so therefor we should not bother about it we should only chase which is suitable for us
سوال 19:
السلام علیکم حضرت! ذکر مہینے سے اوپر ہو گیا ہے۔ میرا ذکر یہ ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200، اللہ 200، اللہ ھو اللہ 200، حق 500۔ ہر لطیفہ پر پانچ منٹ کے لئے اللہ محسوس کرنا ہے اور ہر نماز سے پہلے دو، تین منٹ یہ مراقبہ کرنا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے سامنے جیسے کھڑا ہونا چاہیے ویسا کھڑا ہونا ہے اور نماز مومن کی معراج ہے۔ اس کو ضائع نہیں کرنا۔ نماز کے لئے ذہن بنانا۔ یہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا۔ کبھی خشوع آ جاتا ہے مگر اکثر ٹھیک نہیں ہوتا۔ دوم: نظر کی حفاظت میں بھی کمزوری آ گئی۔ کیا دوبارہ سے نظر کا مجاہدہ کروں؟ خاموشی کے مجاہدے میں بھی کمزوری آ چکی ہے۔ معمولات میں نوافل اور ذکر، مراقبے کے علاوہ سستی ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ آپ نے بڑی اچھی analysis کی ہے۔ میرے خیال میں اس analysis سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ذکر میں change کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ نماز سے پہلے والا مراقبہ دو، تین منٹ کے بجائے پانچ منٹ کر لیا کریں اور نماز کے دوران بھی الفاظِ نماز کے مفہوم کو جان کر ادا کیا کریں۔ باقی دوبارہ نظر کی حفاظت اور خاموشی کا مجاہدہ کر لیں۔ ان شاء اللہ العزیز بہتری آ جائے گی۔
سوال 20:
مراقبہ کے دوران اذان شروع ہو جائے تو دوران مراقبہ جواب دیں گے یا مراقبہ جاری رکھیں گے؟
جواب:
بہتر یہ ہے کہ مراقبہ ہی ایسے وقت میں شروع کیا جائے جس میں اذان کا امکان نہ ہو اور اگر غلطی سے ایسا ہو جائے تو اس وقت مراقبہ روک کر اذان کا جواب دے دیں، اس کے بعد مراقبہ شروع کر لیں۔
سوال 21:
چارپائی پر بیٹھ کر مراقبہ کرنا کیسا ہے؟
جواب:
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جائے نماز نیچے ڈال کر قبلہ رخ بیٹھ جائیں۔
سوال 22:
ایک دن مدرسے میں مراقبہ کر رہی تھی، لطیفۂ سر پر پہنچی تو مسلم شریف کی کلاس شروع ہو گئی۔ میں نے کلاس میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں سر پر ذکر کر لیا۔ تو مراقبہ صحیح ہو گیا یا نہیں؟
جواب:
مراقبہ تو صحیح ہو گیا لیکن یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ آپ مراقبے کا وقت ایسا مقرر کر لیں جس میں کوئی رکاوٹ آنے کا امکان نہ ہو۔
سوال 23:
السلام علیکم حضرت جی پانچ سے مراقبہ شروع کیا تھا۔ اب الحمد للہ آٹھ منٹ تک کر لیتی ہوں اور محسوس ہوتا ہے کہ دل "اَللہُ اَللہ" کر رہا ہے۔
جواب:
پانچ کا مطلب نہیں بتایا کہ پانچ منٹ یا پانچ تاریخ۔ یہ information دیں تو پھر میں جواب دوں گا۔
سوال 24:
ایک خاتون نے اچھا خواب لکھا ہے۔ لیکن معمولات نہیں لکھ رہیں اور کہا ہے کہ مراقبہ میں شیطان بہت پیچھے لگا ہوا ہے۔ دعا کی درخواست کی ہے اور اشراق و چاشت مسلسل قضا ہو رہی ہیں۔ بھتیجا ہوا ہے تو مہمانوں کے آنے سے بد نظری بھی ہو جاتی ہے۔
جواب:
جاگتے کے اعمال پہ زیادہ توجہ دینی چاہیے، خوابوں کے پیچھے نہیں جانا چاہیے۔ خوابوں میں اگر کوئی اپنے آپ کو جنت میں دیکھے تو کیا وہ جنتی ہو گیا؟ البتہ اپنے اعمال درست کرنے چاہئیں۔ شیطان ہماری ہر چیز کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ لیکن ہم نے شیطان کی بات ماننی نہیں ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بات مانیں گے۔ مراقبہ اللہ کے لئے کر لیا کریں اور شیطان کی پرواہ نہ کریں۔ اشراق، چاشت کے پڑھنے میں ذرا ہمت کریں اور بد ںظری وغیرہ سے بچنے کی کوشش کر لیں۔ جتنی زیادہ مشکل ہو گی اتنا ہی زیادہ ثواب ہو گا اور گناہوں سے بچت ہو گی، ان شاء اللہ ہمت بڑھے گی۔
سوال 25:
حضرت جی میرا ذکر 200 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو"، 600 مرتبہ "حَق"، 500 مرتبہ "اَللہ"۔ 10 منٹ کا مراقبہ، ایک ماہ مکمل ہو گیا۔ مراقبہ کی کیفیت یہ ہے کہ کسی وقت دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ زیادہ تر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ذکر یہی کر لیں اور مراقبہ اب 15 منٹ کر لیں۔
سوال 26:
ایک صاحب نے جو لکھا ہے وہ میں نہیں سنا سکتا۔ البتہ وہ کچھ گناہوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کو مشکل پیش آ رہی ہے۔ اس سے بچنے کا کوئی حل پوچھ رہا ہے۔
جواب:
اس گناہ سے بچنا اختیاری ہے۔ آپ کے سامنے کوئی میٹھی چیز پڑی ہو اور آپ کو پتا ہو کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ آپ کا اس کو کھانے کا بہت دل چاہ رہا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ بھوکے بھی ہوں گے تب بھی نہیں کھائیں گے۔ بس اسی طرح ہر گناہ ہے۔ گناہ چاہے کتنے ہی خوبصورت ہوں لیکن اس میں نقصان ہے کہ جہنم میں جلیں گے۔ آپ اپنی آخرت پر مضبوط یقین کر لیں۔ سارے جوان ہوتے ہیں۔ یہ جوانی صرف آپ پہ نہیں گزر رہی۔ اسی جوانی میں تو ولایت ملا کرتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
در جوانی توبہ کردن شیوهِ پیغمبریست
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار
بڑھاپے میں کوئی انسان یہ گناہ کر ہی نہیں سکتا تو اس کو ثواب کیسے ملے گا؟ اگر کوئی اندھا ہو اور کہے کہ میں بد نظری نہیں کرتا تو اس کو کوئی ثواب نہیں ہو گا۔ آپ شکر کریں کہ آپ یہ ساری چیزیں کر سکتے ہیں۔ اس سے رکنے کے لئے آپ کو اپنی will power ہی exercise کرنی ہو گی۔ اور اس will power کے exercise کرنے کے لئے کچھ آسانیاں اور supporting چیزیں ہیں۔ جیسے روزہ وغیرہ جو اس کے لئے supporting چیزیں ہیں۔ باقی اصل آپ کی will power ہی ہے۔
سوال 27:
حضرت I have problem I have بیماری of حبِ جاہ and also I can not control my gaze sometimes I look at نامحرم please guide me
جواب:
سبحان اللہ you know what حبِ جاہ is this is the حبِ جاہ by which شیطان was made مردود because he consider himself more respectable than حضرت آدم علیہ السلام and this thing has ruined him so we should know what حبِ جاہ is therefore we should consider that اللہ سبحانہ و تعالیٰ is اکبر and nothing before him has any value so this you should keep in mind and as for as ذکر اذکار is concern it is only to support as for the gaze control is concerned so we should see that if I don’t follow the instructions of اللہ سبحانہ و تعالیٰ so maybe he can snatch our eyesight or our eyesight may be finished or it may harm my heart spiritual heart because of which I may be missing you can say capability of good اعمال so therefore one should control it and you should do مجاہدہ of غض بصر for 40 days if you do not know ask me I shall tell you about it.
جواب:
okay he asked me so first of all you should sit in a lonely place just like a room in which you should be sitting in a lonely place like a room and within that room you should see down side not upside for 5 minutes and at that time you will not perform ذکر because your نفس should feel loneliness till you should not see off side after one day you should do it for six minutes and after another day you should do it for 7 minutes and add one minute daily and by this you will be able to see downside for 25 minutes in 20 days then come out of that room and do it daily first day 5 minutes between the people among the people and not seems towards the people seeing downside in working with among them for 5 minutes and then after one day 6 minutes and then 7 minutes then 8 minutes and in 20 days you will reach 25 minutes so by these 25 minutes you will be having a position if you feel some problem that they are غیر محرم so in 25 minutes you can change the position anyway and you will be able for you will be able to do it so do it for 40 days ان شاء اللہ
سوال 28:
حضرت! اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنے انسان ہیں۔ یہ صرف تصوف کے ساتھ خاص ہے؟
جواب:
جتنی بیماریاں ہیں اتنے ہی علاج ہیں لیکن ہر بیماری کا ذکر کتاب میں نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ڈاکٹر کی اپنی صوابدید کے مطابق بھی علاج ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بیمار دوسری بیمار سے کچھ نا کچھ مختلف ہے۔ جیسے ٹائیفائیڈ کے جتنے بھی بیمار ہیں ان کے اپنے جسم کے structure کے مطابق تھوڑا تھوڑا فرق ہو گا۔ وہ ڈاکٹر کو consider کرنا ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے روحانی بیماریاں بھی ہر ایک کی کچھ نا کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے حب جاہ کی بیماری ہے۔ ایک چپڑاسی کی حب جاہ اور ایک ڈپٹی کمشنر کی حب جاہ، ایک چودھری کی حب جاہ اور ایک بادشاہ کی حب جاہ۔ سب میں فرق ہو گا۔ ہر ایک کے لئے الگ technique ہے۔ لیکن سب کو describe نہیں کیا جاسکتا ہے۔ groups بنائے جاتے ہیں کہ اِس قسم کے لوگوں کے لئے یہ علاج ہے۔ اُس قسم کے لوگوں کے لئے وہ علاج ہے۔ جتنے groups بن گئے اتنے طریقے بن گئے۔ largely یہ بات ہوتی ہے۔ بہر حال پھر شیخ ان کے اندر فرق کر لیتا ہے۔
سوال 29:
حضرت! اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِ﴾ (المومن: 44) اس کا یہ مطلب ہے کہ اپنے آپ کو حوالے کر دے؟
جواب:
تفویض سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کسی چیز پر جو بھی نتیجہ مرتب کرنا چاہے میں اس پر دل سے راضی ہوں۔ ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِ﴾ (المومن: 44)
ترجمہ: ”اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔“
سوال 30:
جو مشائخ کے دیئے ہوئے ذکر اذکار ہیں، چاہے وہ اصلاحی ذکر ہے یا ثوابی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ بھی اپنے طور پہ انسان آگے بڑھنے کے لئے کچھ کر سکتا ہے؟
جواب:
ایک ہوتا ہے علاجی ذکر اور ایک ہوتا ہے ثوابی ذکر۔ ثوابی ذکر میں there is no limit۔ صرف ایک بڑی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آپ سے کوئی واجب امر نہیں چھوٹنا چاہیے۔ آپ ثوابی ذکر کر رہے ہیں اور ادھر جماعت کھڑی ہو گئی۔ اسی طرح کوئی آدمی آپ کے سامنے کنویں میں گر رہا ہو تو اس وقت آپ ذکر کریں گے یا اس کو بچائیں گے؟ معلوم ہوا اس کے لئے صرف ایک instruction ہے کہ اس سے بڑا کوئی عمل اس وقت پیش نہ آئے جو اس کو limit کرے۔ آپ جتنا بھی کر سکتے ہیں تو کریں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کے لئے جتنے بھی ثوابی اعمال کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن علاجی میں کوئی فرق نہیں کر سکتے۔ کیونکہ علاجی آپ کی طرف سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ ڈاکٹر یعنی شیخ کی طرف سے ہے۔ he can change it, you not. البتہ اس میں بھی مشورہ بہتر ہوتا ہے۔ ممکن ہے آپ اپنے لئے کوئی ایسا time table بنا لیں جو آپ کے لئے feasible نہ ہو اور بعد میں آپ اکتا جائیں یا کوئی اور مسئلہ پڑ جائے، جس کی وجہ سے آپ کی ہمت ٹوٹ جائے۔ nervous break down ہو جائے۔ بہت ساری باتیں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ آپ کو پھر شیخ guide کر سکتا ہے۔
سوال 31:
حضرت آج کل کے دور میں سائیکولوجسٹ کہتے ہیں کہ بچوں کے لئے موبائل ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ کارٹون دیکھ رہے ہیں اور خود بھی کارٹون بن رہے ہیں۔ اس کا حل کیا ہے پھر؟
جواب:
اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ:20-21)
ترجمہ: ”خبر دار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو۔“
اس آیت پہ غور کر لو answer مل جائے گا۔ مائیں صرف بچوں کے رونے سے بچنے یا ان کی شرارتوں سے بچنے کے لئے ان کے ہاتھ میں موبائل دے دیتی ہیں۔ اب وہ موبائل کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد اپنی والدہ کو ماں کا درجہ نہیں دیتے۔ کیونکہ وہ چیز ان تک منتقل ہو گئی۔ ہم نے خود ایسا کیا ہوتا ہے اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کے effects نطر آتے ہیں۔ ان کو مفید کھیلوں میں لگائیں۔ ہم گاؤں میں ما شاء اللہ اپنے کھیلوں میں بڑے active ہوتے تھے اور اسی میں لگے رہتے تھے۔ وہ سب دوڑنے بھاگنے والے کھیل ہوتے تھے اور بیٹھ کر کھیلنے والے بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ بیٹھنے والے لڈو وغیرہ اس قسم کے کھیل ہوتے تھے۔ اس کو بھی ہمارے بڑے discourage کرتے تھے۔ کبڈی، پکڑن پکڑائی، چھپن چھپائی اس طرح کے کھیل ہوتے تھے۔ بچے انہیں میں لگے رہتے تھے۔ اب تو بے چاروں کو اس کا time ہی نہیں ہوتا۔ study ہوتی ہے یا پھر موبائل ہوتا ہے۔ ان کی energy waste کرنے والا کھیل ہے ہی نہیں۔ اس لئے ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ دس بارہ سال کے بچے 80 کلو کے ان کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
سوال 32:
اللہ پاک فرمان ہے: ﴿قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا﴾ (التحريم: 6) اس کا پریکٹکلی کیا طریقہ ہے؟ خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی کس طریقے سے اس پے لایا جائے؟
جواب:
﴿قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا﴾ (التحريم: 6)
ترجمہ: ”اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ۔“
اصل میں تو سزا سے ڈراؤ۔ یعنی خود اس کے بارے میں آپ سوچ ہی سکتے ہیں۔ آپ اس منظر سے ڈریں کہ اس طرح ہو گا۔ صحابہ کرام کے اندر با قاعدہ یہ بات ہوتی تھی۔ عشاء کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی داڑھی پکڑ کر اس طرح روتے جس طرح کسی جانور نے ڈسا ہو۔ صحابہ کرام directly اس پر عمل کرتے تھے۔ باقی اپنے گھر والوں کے لئے حکمت کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ یعنی سب کے لئے ایک طریقہ نہیں ہے کیونکہ depend کرتا ہے کہ ان میں acceptance کتنی ہے اور ان کے لئے کیا procedure اختیار کیا جائے۔ ہر ایک کے لئے ایک طریقہ نہیں ہوتا۔ جیسے والد کے لئے الگ طریقہ ہو گا والدہ کے لئے الگ ہو گا۔ بیوی کے لئے الگ ہو گا بچوں کے لئے الگ ہو گا۔ ہر ایک میں پھر different ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو آپ کے زیر اثر ہیں ان کا تعلق ایسے لوگوں کے ساتھ arrange ہو جائے جس سے ان کی اصلاح کی صورت بن جائے۔ مثال کے طور پر اگر میں b.com کرنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے experience نہیں ہے تو b.com نہیں ہو گا، ٹائم نہیں ہے تو b.com نہیں ہو گا۔ دیگر مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض لوگ میری باتوں سے اثر نہیں لیں گے۔ اور بعض لوگوں کے اپنے گھر والے بھی اتنا اثر نہیں لیتے۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ ”د خپل کور چرګه کړميځنه وی“ یعنی گھر کی مرغی دال برابر۔ چنانچہ کسی کے ساتھ رابطہ کرایا جائے جو ان کی اصلاح کے لئے موثر ہو۔ ترتیب اس طرح بنائی جائے کہ گھر کے اندر کچھ ایسا ذکر اذکار ہونا چاہیے جو اس طرف توجہ دلائے۔ ایسا لٹریچر آنا چاہیے یا ایسی بات چیت ہونی چاہیے، تذکرے ہونے چاہئیں جس کے ذریعے سے اس طرف رخ ہو جائے۔ there are many many methods but subject to conditions.
سوال 33:
بچوں کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب:
بچوں کے لئے بھی ماحول provide کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ان کی ایسی چیزوں میں interest develop کرائیں جس سے ان کو فائدہ ہو۔ یعنی ان کے لئے وہ چیز interesting بنا دیں۔ مثال کے طور پر آپ گھر میں ایک چھوٹی سی خوب صورت سی جگہ بنا دیں جس کو آپ کہہ دیں کہ ہماری مسجد ہے۔ بچوں کو آپ اس میں ساتھ بٹھا دیں۔ اور کہیں کہ مسجد میں آ کے ہم تلاوت کرتے ہیں، ذکر کرتے ہیں۔ اس طرح گویا کہ ایک قسم کی easy accessible position بن جائے گی۔ اور واقعتاً گھروں کے اندر ایسی چیز ہونی چاہیے تھیں۔ لیکن یہ ہم سے گم ہو چکی ہیں۔ میں جب گھر بنا رہا تھا تو ایک مفتی صاحب تشریف لائے وہ بزرگ ہیں۔ مجھ سے پوچھا کہ اس میں ذکر کا کمرہ کدھر ہے؟ میں حیران ہو گیا۔ میں نے کہا: یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ خیر بہر حال میں نے کہا: ان شاء اللہ اگر پھر chance ملا تو اس کے لئے کچھ کروں گا۔ پھر میں نے اس کے ساتھ دو مرلے کی زمین اور لے لی۔ جس میں سب سے پہلے میں نے ذکر کی نیت سے کمرہ بنایا۔ وہ کمرہ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کے لئے اتنا استعمال کروایا۔ میں حیران ہو گیا کہ صرف نیت کی برکت ہے کہ بڑے بڑے بزرگ وہاں تشریف لاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں یہاں سکون ملتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ کی طرف سے پھر انتظام ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ہم گم کر چکے ہیں۔
وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ