عنوانات:
1- سُیورِ اربعہ کی تفصیل۔
2- حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآنِ مجید، حقیقتِ صلوۃِ معبودیت صرف۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج ان شاء اللہ سُیُورِ اربعہ کے حوالے سے تفصیل سے بات شروع ہو گی، جو حضرت نے دفتر اول مکتوب نمبر 144 میں بیان فرمائی ہے۔ سُیُور سیر کی جمع ہے اور اربعہ کا معنی ہے چار۔ سُیُورِ اربعہ سے مراد وہ چار سیر ہیں جو راہِ سلوک میں واقع ہوتے ہیں۔
سیورِ اربعہ کی تفصیل:
دفتر اول مکتوب 144 میں فرماتے ہیں:
متن:
سیرو سلوک حرکت در علم (یعنی انتقالِ علمی) سے مراد ہے جو کہ مقولہ کیف سے ہے حرکتِ اَیْنِی (یعنی انتقالِ مکانی) کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
تشریح:
’’اَیْنِی‘‘ سے ہے مراد ’’اَیْنَ‘‘ والی۔ ’’اَیْنَ‘‘ کا مطلب ہے ’’کہاں‘‘، کہاں سے مراد مکان ہے۔
آج حضرت نے ایسی بات کی وضاحت فرمائی ہے، جس میں کافی لوگ کنفیوژ ہو سکتے تھے۔ بعض لوگوں کو لفظ سیر سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ سیر سے مراد کوئی ایسا عمل ہے، جس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے یا جیسے سلوک کے اندر مجاہدات و ریاضتیں ہوتی ہیں، اس طرح کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔ حضرت نے سیر کا مطلب بیان کرتے ہوئے اس غلط فہمی کو دور کیا کہ سیر سے مراد حرکتِ علمی ہے، اس میں انتقال مکانی نہیں ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ جسمانی طور پر سیر کر رہے ہیں، جیسے ابھی آپ راولپنڈی میں ہیں اور پھر لاہور پہنچ جائیں گے، لاہور سے کراچی پہنچ جائیں گے، یہ مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے کیفیت مراد ہے، یہ جو آپ کے احوال تبدیل ہو رہے ہیں، یہ کیفیات ہیں۔
الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کی مدد ہے اور اللہ جل شانہ کی طرف سے حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کی تعلیمات کے اوپر رحمت کی نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ساری چیزیں سکھا دیتے ہیں اور انسان مفاہیم تک پہنچ جاتا ہے۔ الله جل شانهٗ ہمیں حضرت کے فیوض و برکات بیش در بیش نصیب فرمائے۔ یہ بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ شیطان کی پوری کوشش ہے کہ اس کو لوگوں تک پہنچنے نہ دے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگائے رکھے، تاکہ اصل چیز لوگوں کے سامنے نہ آ سکے۔
الفاظ پہ غور کریں۔ یہ میرے الفاط نہیں ہیں، کتاب سے لئے ہوئے ہیں۔ ’’سیر و سلوک حرکت در علم (یعنی انتقالِ علمی) سے مراد ہے جو کہ مقولہ کیف سے ہے حرکتِ اَیْنِی (یعنی انتقالِ مکانی) حرکتِ اَیْنِی نہیں ہے یعنی انتقال مکانی نہیں ہے‘‘۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں سیر سے مراد یہ ہے کہ آپ کی کیفیت کیا ہے، آپ کا حال کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص پہ کوئی مصیبت آ گئی، تکلیف آ گئی، جیسا کہ سب پہ آ سکتی ہے، لیکن اس مصیبت و تکلیف پہ اس کو صبر کی توفیق ہو رہی ہے، یہ اس کی صبر کی کیفیت ہے۔ اب ظاہر ہے یہ آدمی اس کیفیت کی تبدیلی کے ساتھ اپنی جگہ پہ ہی موجود رہے گا، کہیں اور نہیں چلا جائے گا، کیونکہ اس سیر کا تعلق مکان کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ کیفیت کے ساتھ ہے، تو یہ تکلیف پر صبر کر رہا ہے، لیکن صبر میں اگر نفس کا مجاہدہ نہیں ہے، نفس کی اصلاح نہیں ہوئی، تو یہ صبر نہیں ہو سکتا۔
اس روحانی سیر کی کل چار اقسام ہیں۔ پہلے سیر کی دو قسمیں ہیں، سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔ پھر سیر فی اللہ کی تین قسمیں ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک سیر کی صرف دو قسمیں ہیں: سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔
بعض حضرات کے نزدیک سیر کی چار اقسام ہیں۔ حضرت ان چار کا ذکر فرما رہے ہیں۔ جن حضرات کے نزدیک چار قسمیں ہیں، ان کے نزدیک اصل میں سیر فی اللہ کی آگے تین قسمیں ہیں، انہوں نے ذرا زیادہ تفصیل سے اس کو دیکھا ہوا ہے، بہرحال ابھی حضرت بیان فرمائیں گے، ان شاء اللہ۔
متن:
پس سیر الی اللہ حرکتِ علمیہ سے مراد ہے جو کہ علمِ اسفل سے علمِ اعلیٰ تک ہوتی ہے اور اس اعلیٰ سے دوسرے اعلیٰ تک حتی کہ ممکنات کے علوم پورے طور پر طے کرنے اور کلی طور پر ان کے زائل ہو جانے کے بعد واجب تعالیٰ کے علم تک منتہی ہوجاتی ہے اور یہ وہ حالت ہے جو فنا سے تعبیر کی جاتی ہے۔ اور سیر فی اللہ سے وہ حرکتِ علمیہ مراد ہے جو مراتبِ وجوب یعنی اسماء و صفات، شیون و اعتبارات اور تقدیسات و تنزیہات میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اس مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے جس کو کسی عبارت سے تعبیر نہیں کر سکتے اور نہ اس کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے، اورنہ کسی نام سے اس کو موسوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کنایہ سے اس کا اظہار ہوسکتا ہے، اور نہ کوئی عالم اس کو جان سکتا ہے اور نہ کوئی مدرک اس کا ادراک کر سکتا ہے، اس سیر کا نام بقا رکھا گیا ہے۔
تشریح:
سبحان اللہ! کیسے عمدہ انداز میں ساری چیزیں بیان فرمائی ہیں۔
سیر الی اللہ سے مراد علمِ اسفل سے علمِ اعلیٰ تک پہنچنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نفسِ امارہ کے حالات سے نفسِ مطمئنہ تک، قلبِ سقیم سے قلبِ سلیم تک، عقلِ نفسانی سے عقلِ ایمانی تک پہنچنا، یہ سیر الی اللہ ہے، اور یہاں تک فنا کا مقام آ جاتا ہے۔ سیر الی اللہ سے فنا حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طرح کہ نفسِ امّارہ ختم ہو کر نفسِ مطمئنہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جس وقت نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے تو انسان اللہ کے سامنے اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتا، لہٰذا وہ فنائیت کے مقام میں پہنچ جاتا ہے۔ انسان کو الله جل شانهٗ کے احکامات سے حجاب اور رکاوٹ نفس امارہ کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ نفس اپنا حصہ چاہتا ہے، نفس کمیشن چاہتا ہے، یہ کمیشن ہی تو ہے۔ جبکہ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں کہ میں کسی شریک کو برداشت نہیں کرتا، جب اس میں شریک آ جاتا ہے تو معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ اس بلا سے نکلنا جس بلا کو نفس کہتے ہیں، یہی علمِ اسفل سے نکلنا ہے، کیونکہ نفس کے ذریعے سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ علمِ اسفل ہے۔ علمِ اعلیٰ کا مطلب ہے وہ علم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دو قسم کے علوم ہیں، نفسانی علوم اور ایمانی علوم۔ جو انسان کو نفس کی وجہ سے پتا چلتا ہے، وہ نفسانی علوم ہیں، اور جو انسان کو ایمان کی وجہ سے پتا چل سکتا ہے، وہ ایمانی علوم ہیں، نفسانی علوم سے ایمانی علوم تک کا فاصلہ طے ہو جائے (اگر اس کو فاصلہ کہا جا سکتا ہے) تو سیر الی اللہ طے ہو گیا۔ اس کو سیر الی اللہ (اللہ کی طرف چلنا) اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں انسان نفس سے اللہ کی طرف جاتا ہے، یعنی ”هِجْرَتُهٗ مِنْ نَفْسِهٖ اِلیٰ اِلٰهٍ“ ’’انسان کا نفس سے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنا‘‘۔ اس کی سوچ اپنے نفس کی نہ ہو، اس کی سوچ الله جل شانهٗ کی ہو، یہ سیر الی اللہ ہے۔ اب حضرت کے الفاظ میں دوبارہ ذرا اس تشریح کے عنوان سے سمجھنے کی کوشش کر لیں۔
فرمایا: ’’سیرو سلوک حرکت در علم (یعنی انتقالِ علمی) سے مراد ہے جو کہ مقولہ کیف سے ہے حرکتِ اَیْنِی (یعنی انتقالِ مکانی) کی یہاں گنجائش نہیں ہے، پس سیر الی اللہ حرکتِ علمیہ سے مراد ہے جو کہ علمِ اسفل سے علمِ اعلیٰ تک ہوتی ہے اور اس اعلیٰ سے دوسرے اعلیٰ تک حتی کہ ممکنات کے علوم پورے طور پر طے کرنے اور کلی طور پر ان کے زائل ہو جانے کے بعد واجب تعالیٰ کے علم تک منتہی ہوجاتی ہے اور یہ وہ حالت ہے جو فنا سے تعبیر کی جاتی ہے‘‘۔
قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
مطلب یہ ہے کہ انسان کا جو کون و مکان والا علم ہے، اس کے احساسات و متعلقات سارے کے سارے زائل ہو جائیں تو یہ فنائیت ہے، یہی فنا ہے۔ جیسے کہتے ہیں: ’’اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘‘۔ ہمارا دل مختلف چیزوں کے ساتھ لگا ہوتا ہے، میں یہ بھی چاہتا ہوں، یہ بھی چاہتا ہوں۔ جب سیر الی اللہ کی تو یہ دل اِدھر سے بھی چھوٹا، اِدھر سے بھی چھوٹا، سب جگہوں سے چھوٹ کر صرف اللہ کا ہو گیا، اس کو فنا کہتے ہیں۔ اللہ تک پہنچنے سے پہلے ساری چیزوں کا علم، علمِ اسفل ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے، تو وہ علمِ اعلیٰ ہوتا ہے، وہ علم ملاءِ اعلی سے آتا ہے۔ جو اسفل سے آتا ہے، وہ علمِ اسفل ہو گا، اور جو ملاءِ اعلی سے آئے گا، وہ علمِ اعلیٰ ہو گا۔
فرمایا: ’’اور سیر فی اللہ سے وہ حرکتِ علمیہ مراد ہے جو مراتبِ وجوب یعنی اسماء و صفات شیون و اعتبارات اور تقدیسات و تنزیہات میں ہوتی ہے‘‘۔
یعنی یہاں پہلے ممکنات کی بات تھی، سارے ممکنات کو طے کیا، وجوب کی دہلیز پہ قدم رکھا، یہ فنائیت ہے۔ اس لئے یہاں آ کر ممکنات کے تلوّث، تعلق اور تلبّث سے نکل گیا، اب وجوبات میں آ گیا۔ سبحان اللہ! حضرت کیسے لطیف انداز میں ذکر فرما رہے ہیں کہ پہلے اسماء و صفات کا ذکر فرمایا، کیونکہ صفات سے اسماء وجود میں آتے ہیں۔ پھر شیونات کا ذکر فرمایا، کیونکہ شیونات سے صفات وجود میں آتی ہیں۔ پھر تقدیسات کا ذکر فرمایا، اور پھر تنزیہات کا ذکر فرمایا۔
فرمایا: ’’یہاں تک کہ اس مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے جس کو کسی عبارت سے تعبیر نہیں کر سکتے اور نہ اس کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے، اور نہ کسی نام سے اس کو موسوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کنایہ سے اس کا اظہار ہو سکتا ہے، اور نہ کوئی عالم اس کو جان سکتا ہے اور نہ کوئی مدرک اس کا ادراک کر سکتا ہے، اس سیر کا نام بقا رکھا گیا ہے‘‘۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں نہ شمال ہے نہ جنوب ہے، نہ مغرب ہے نہ مشرق ہے، نہ ماضی ہے نہ حال ہے اور نہ ہی مستقبل ہے۔ کوئی reference نہیں ہے، اس لئے اس کو بقا کہا گیا ہے۔ جیسے میرا حال فانی ہے، کیونکہ بہت جلدی ماضی بن جائے گا، میرا مستقبل بھی فانی ہے، یہ ابھی حال بن جائے گا، اور بقا تب حاصل ہوتی ہے، جب آدمی ان چیزوں سے نکل جائے۔ جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
نہ تُو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے، تُو نہیں جہاں کے لئے
اصل میں علامہ اقبال ان چیزوں سے متاثر تو ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں ان کو بیان کیا ہے۔
متن:
اور سیر عن اللہ باللہ جو تیسری سیر ہے۔
تشریح:
جیسے میں نے بتایا تھا کہ ہمارے ہاں ابتداءً سیر کی دو قسمیں ہیں۔ حضرت چار بیان فرما رہے ہیں۔ یہاں بتا رہے ہیں کہ وہ چار کیسے ہیں۔ پہلے نمبر پر سیر الی اللہ ہے اس کو فنا کہا گیا، دوسری کو بقا کہا گیا، وہ سیر فی اللہ ہے۔ اب تیسری قسم سیر عن اللہ باللہ ہے، اس سے بھی وہ حرکتِ علمیہ مراد ہے، جو کہ علمِ اعلیٰ سے علمِ اسفل کی طرف نیچے آتی ہے، پھر دوبارہ واپس لایا جاتا ہے، لیکن اپنا بنا کر بھیج دیا جاتا ہے۔ اب وہ اپنی ذات کا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کا ہوتا ہے۔ جب اس کا بن کے آتا ہے، تو یہ سیر عن اللہ باللہ بن جاتی ہے۔ پس لوگوں میں یہی صبر نہیں ہوتا، انسان اپنا رہنا چاہتا ہے، ’’میری چیز‘‘، ’’میں‘‘، ’’مجھے‘‘، انہی الفاظ کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ جب کوئی اس سے نکل جاتا ہے تو پھر دوبارہ واپس لایا جاتا ہے، لیکن اس وقت وہ اپنا نہیں ہوتا، تب اس کا نہ ’’میرا‘‘ باقی ہوتا ہے نہ ’’مجھے‘‘ باقی ہوتا ہے نہ ’’میں‘‘ باقی ہوتا ہے، جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اس کی حالت تبدیل ہو گئی، اور جس وقت ماہیت تبدیل ہو جاتی ہے، اس وقت حکم بھی بدل جاتا ہے۔
حضرت حکیم اختر صاحب رحمة اللہ علیه راولپنڈی تشریف لائے تھے۔ نواب قیصر صاحب بھی ان کے ساتھ تھے وہ بڑے مال دار آدمی تھے اور مرسیڈیز کار میں پھرتے تھے، خاندان بھی نواب تھا۔ حضرت بیان فرما رہے تھے کہ نواب صاحب کا ذکر آ گیا۔ فرمایا: ”نواب صاحب کی مرسیڈیز کو نہ دیکھو، برف جب پانی بن جائے تو پھر برف کے حکم میں نہیں رہتی۔ پھر وہ پانی ہوتا ہے۔“
متن:
اور سیر عن اللہ باللہ جو تیسری سیر ہے اس سے بھی وہ حرکت علمیہ مراد ہے جو کہ علم اعلی سے علم اسفل کی طرف نیچے آتی ہے اور اسفل سے اسفل کی طرف یہاں تک کہ ممنکنات کی طرف پس پا (پیچھے کی طرف) رجوع کرتی ہے اور تمام مراتب وجوب کے علوم سے نزول کرتی ہے اور یہ وہ عارف ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو جانے کی وجہ سے سب کچھ بھلانے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے وہ واجد فاقد (پانے والا گم کرنے والا) ہے اور واصل مہجور (ملنے والا فراق زدہ) بھی ہے اور قریب و بعید (نزدیک و دور) ہوتا ہے۔
تشریح:
یعنی اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک نسبت سے فاقد ہوتا ہے، یعنی اپنا سب کچھ چھوڑ دیتا ہے، اور ایک طرف سے پانے والا ہوتا ہے، یعنی واجد ہوتا ہے، کیونکہ اس کو اللہ مل جاتا ہے تو سب کچھ مل جاتا ہے، جس کو اللہ ملا پھر اس کو کیا کمی رہ گئی، پھر تو اس کو کوئی کمی نہیں ہے۔ اس موضوع پر میری ایک غزل بھی ہے کہ سب کچھ کھو کر خدا کو پائیں تو سمجھو سب کچھ پا لیا۔ اس کا عنوان ہے ’’اس کا بنے اگر نہیں تو پھر کیا کرے کوئی‘‘۔ یہ ہم نے اس وقت کہی تھی جب مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کی تعلیمات شروع نہیں ہوئی تھیں، لیکن الحمد للہ! اللہ پاک اس کو ملا رہا ہے، یہ غزل غالباً پیغامِ محبت میں ہے، جو 2012 میں چھپ گئی تھی، جبکہ مکتوبات شریفہ 2015 میں شروع کئے گئے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں عرض کرتا ہوں۔
متن:
اور چوتھی سیر جو کہ اشیاء میں سیر (سیر فی الاشیاء باللہ) ہے، اس سے مراد یکے بعد دیگرے اشیاء کے علوم کا حاصل ہونا ہے جبکہ تمام اشیاء کے علوم سیر اول میں ضائع ہو چکے تھے۔
تشریح:
سبحان اللہ! حضرت کی طرف سے آج سُیُورِ اربعہ والی بات مکمل طور پہ ہو گئی۔ پہلی بات یہ کہ سیر اول سیر الی اللہ ہے، یعنی اپنے آپ کو چھوڑو، اللہ کی طرف بڑھو۔ یہ اپنے سے اللہ کی طرف ہجرت ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کے لئے چھوڑنا سیر الی اللہ ہے، جب اس میں کامیابی ہو جائے، تو اس کے بعد سیر فی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ باقی ہو جانا، اللہ کا بن جانا۔ اس میں عروج ہے۔ اس کے بعد سیر عن اللہ باللہ ہے۔ اس میں نزول ہے۔ سیر عن اللہ باللہ کو یوں سمجھ لیں کہ اب اسے مخلوق کی طرف واپس کر دیا گیا، یعنی اللہ کا بنا کے واپس کر دیا گیا۔ اب یہ اللہ کی طرف سے اللہ کا نمائندہ بن کے مخلوق میں آیا ہے اور مخلوق کی خدمت اس معنی میں کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کام لے رہا ہے۔ لہٰذا اس کے بعد اس کو مخلوقات کا علم دوبارہ دیا جاتا ہے، جو یہ بھول چکا تھا۔ یہ چوتھی سیر ہے کہ اس کو مخلوقات کا علم دوبارہ دیا جاتا ہے اور اپنی طرف سے دیا جاتا ہے، وہ بڑا کامل علم ہوتا ہے۔ پہلے اپنے وسائل کے لحاظ سے علم حاصل کر رہا تھا، اب اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے علوم حاصل کر رہا ہے۔ ان علوم کی بات اور ہوتی ہے۔ چوتھی سیر یہ علوم والی ہے۔
وہ غزل جس کا ذکر کیا درج ذیل ہے:
اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی
پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی
تشریح:
(یعنی سیر الی اللہ نہ ہو تو پھر کیا ہو)
مطلوب وصل یار ہے اس زندگی میں جب
اس وصل سے پھر خود کو کیوں جدا کرے کوئی
اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے
ہر آن میں بس سِر کو ہی دیکھا کرے کوئی
سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے
میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی
مقصود کائنات کا دنیا نہیں مقصود
دھکے کیوں اس کے واسطے کھایا کرے کوئی
تشریح:
(یہ کائنات انسان کے لئے بنائی گئی ہے تو انسان اس کے لئے دھکے کیوں کھائے۔)
یہ دل جو اُس کے واسطے پیدا کیا گیا
جو غیر ہے اس میں نہ اب آیا کرے کوئی
جو درد دل نصیب تھا رومی کو عشق میں
پڑھ مثنوی کو کیوں نہ پھر جلا کرے کوئی
شبیرؔ اتر اب ذرا میخانۂ دل میں
اب تو شرابِ عشق ہی پیا کرے کوئی
تشریح:
جیسا کہ پہلے میں عرض کر چکا ہوں کہ پہلے ہم دو سیروں کے قائل تھے اور اس دوسری سیر میں تین سیر جمع ہو جاتی ہیں، اس وجہ سے یہ غزل اسی کے مطابق ہے، لیکن حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه نے اس کی مزید تشریح فرمائی ہے اور تین سیریں بیان فرمائی ہیں، اس لئے اس میں ذرا تشریحاً کچھ تبدیلی کرنی پڑے گی۔ لیکن بہرحال یہ بات ہمارے اوپر کھل گئی کہ تیسری سیر، سیر عن اللہ باللہ ہے اور وہ سب کے لئے نہیں ہے، مخصوص لوگوں کے لئے ہے۔ یعنی صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کو واپس لوٹایا جاتا ہے۔ کیونکہ کچھ کو وہاں ہی روک لیا جاتا ہے کہ بس تم ہمارے ساتھ رہو، ہم اسی پہ خوش ہیں۔ تو بس ٹھیک ہے، انسان کی کامیابی تو وہی ہے جس پر اللہ راضی ہو۔ تو ایسے لوگ جن کو وہاں روک لیا جائے، ان کے لئے دو سیریں ہی ہیں، سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔ لیکن جن کو واپس کر دیا جاتا ہے، جن سے مخلوق میں کام لینا ہوتا ہے، ان کو مخلوق کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور پھر مخلوق کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے، مخلوق کے جذبات اور تمام چیزیں ان کو دوبارہ واپس کر دی جاتی ہیں، پہلے ان کو مخلوق کے جذبات اور تمام چیزیں واپس کی جاتی ہیں، یہ سیر عن اللہ باللہ ہے۔ اس کے بعد ان کو تمام چیزوں کے علوم دئیے جاتے ہیں، جو وہ بھول گئے تھے، یہ چوتھی سیر ہے اس میں انسان کو وہ علوم جو اس نے چھوڑ دئیے تھے وہ عطا کئے جاتے ہیں، اشیاء کی سیر کرا دی جاتی ہے، یہ سیر فی الاشیاء باللہ ہے۔
متن:
پس سیرِ اول سیرِ چہارم کے بالمقابل ہے۔
تشریح:
یعنی بھول جانا اور دوبارہ پانا، اس کے مقابل میں mirror image ہے۔
متن:
اور سیرِ سوم سیرِ دوم کے بالمقابل ہے جیسا کہ بیان ہوا، اور سیر الی اللہ اور سیرِ فی اللہ نفسِ ولایت کے حاصل کرنے کے لئے جس کو فنا و بقا سے تعبیر کیا جاتا ہے اور تیسری اور چوتھی سیر مقامِ دعوت کے حصول کے لئے ہے جو کہ انبیائے کرام ورسل عظام صلوات اللہ تعالیٰ وتسلیماتہ علیٰ جمیعہم عموماً وعلیٰ افضلہم خصوصاً کے ساتھ مخصوص ہے۔
تشریح:
جن کو اللہ پاک اب دعوت کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے، ان کو اس پر لگا دیا جاتا ہے۔
اب ایک بہت ٹیکنیکل قسم کا سوال ہے اور اس لحاظ سے بڑا سخت سوال بھی ہے کہ بعض لوگ ہل جائیں گے۔ سیرِ بقا جسے سیر فی اللہ کہتے ہیں، اس میں یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ کا بن جاتا ہے اور اللہ کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے، اب اگر اللہ پاک اس کو ادھر ہی رکھنا پسند کر دے تو ادھر ہی رکھ لیتا ہے، آگے اس کو کچھ اور کام نہیں دیتا، اپنی طرف لگائے رکھتا ہے۔ اس کو شیخ نہیں بناتا، اپنے ساتھ ہی مشغول رکھتا ہے۔ اب اگر ایک آدمی خود شیخ بننا چاہے اور بن جائے تو کیا یہ اللہ کا بنایا ہوا ہے؟ جی نہیں! یہ خود ہی شیخ بن گیا ہے، تو یہ در اصل کچھ بھی نہیں بنا۔ اگر وہ اللہ کی رضا پہ مطمئن ہو جاتا تو بہت بہتر تھا، کیونکہ اس صورت میں تو اس کو سب کچھ مل گیا، صرف ایک ذمہ داری نہیں ملی، باقی تو سب کچھ مل گیا۔ اس کو اللہ مل گیا تو اور کیا چاہئے، جس کو خدا ملا اس کو کیا نہیں ملا!
سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے
تشریح:
اس کو سب کچھ مل گیا، لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ میں شیخ کیوں نہیں بنا، تو پھر اس کا کوئی مقام نہیں بنا، وہ اپنے آپ پر صرف دھوکہ کھا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے اللہ کے ساتھ قرار نہیں پایا، اس کا قرار ابھی تک نفس کے ساتھ ہے، وہ اپنے نفس کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ نفس کے پیچھے لگ کر اس کو کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہی وہ ٹیکنیکل پوائنٹ ہے، جیسے میں نے کہا کہ سخت بات ہے۔ لیکن بات ایسے ہی ہے۔
حضرت (رحمۃ اللہ علیہ) فرما رہے ہیں کہ اول سیر الی اللہ اور چہارم سیر فی الاشیاء، یہ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔ یہاں بھول جانا ہے، وہاں یاد آنا ہے۔ اور سیر بقا اور سیر عن اللہ باللہ یہ ایک دوسرے کی mirror image ہیں۔ یہ اللہ کی طرف ہے، وہ مخلوق کی طرف ہے۔ اگر اللہ کی طرف نہیں ہوا تو مخلوق کی طرف کیوں ہے، اگر مخلوق کی طرف ہے تو اللہ کی طرف نہیں ہے، پہلے مخلوق سے کٹے گا، تبھی دوبارہ مخلوق کی طرف آئے گا، جیسے کلچ پہ آئے بغیر گیئر نہیں بدل سکتے بلکہ پہلے کلچ کے ذریعہ گئیر سے کٹے گا، پھر دوسرے گئیر میں داخل ہو گا۔ ایک دن ہم گاڑی میں جا رہے تھے تو گاڑی نے دھچکا کھایا، میں نے کہا کیا ہوا؟ کہتے ہیں گئیر میں مسئلہ ہو گیا۔ پہلے گئیر سے نکالے بغیر ڈائریکٹ دوسرے گیئر پہ چڑھایا۔ اس میں گیئر ٹوٹ بھی جاتے ہیں، تو یہاں بھی یہ مسئلہ ہوتا ہے۔
فرمایا: ’’تیسری اور چوتھی سیر مقامِ دعوت کے حصول کے لئے ہے جو کہ انبیائے کرام و رُسل عظام صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیٰ جمیعہم عموماً وعلیٰ افضلہم خصوصاً کے ساتھ مخصوص ہے‘‘۔
متن:
اور ان کے کامل متبعین کو بھی ان بزرگواروں علیہم الصلوات والتسلیمات کے مقام سے حصہ حاصل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ ھذِہٖ سَبِیْلِی اَدْعُو اِلَی اللّٰہٖ عَلَی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِی﴾ (يوسف: 108) (آپ کہہ دیجئے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہوں، میں اور میرے متبعین بصیرت (دلیل محکم) پر ہیں)۔
تشریح:
چونکہ یہ بہت اہم باب ہے، اس لئے میں بار بار اس کا نچوڑ بیان کرتا ہوں۔ پہلی سیر، سیر الی اللہ ہے جس میں انسان تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے، اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے، یہ اپنے سے اللہ کی طرف سیر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جتنا حصہ نفس کا ساتھ موجود ہے، اتنے حصے میں ابھی یہ چیز اس کو حاصل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ٪90 تھا، پھر ٪80 رہ گیا، پھر ٪70 رہ گیا، پھر ٪60 رہ گیا، پھر ٪50 رہ گیا، یعنی درجہ بدرجہ اللہ کی طرف بڑھ رہا ہے، اگر کچھ حصہ بھی اپنا باقی ہے، تو اس کا مطلب ہے ابھی سیر الی اللہ میں ہے اور جب ختم ہو گیا تو فنائیت ہو گئی، اپنا حصہ ختم ہو گیا، اب پھر اللہ کا بن گیا۔ اب اس میں سفر کر رہا ہے، یہ سیر فی اللہ ہے، جس کو بقا کہتے ہیں، اس میں نفس کا حصہ نہیں ہے۔
اِس وقت اللہ نے بہت زبردست علمی باتیں نصیب فرمائی ہیں۔ پہلے انسان عالمِ ناسوت میں ہے، یعنی نفس کے ساتھ ہے، جب یہ عالمِ ناسوت سے نکل رہا ہے تو ناسوتیت کم ہو رہی ہے، ملکوتیت زیادہ ہو رہی ہے، جب ناسوتیت بالکل ختم ہو گئی تو یہ فنا ہو گیا، اس میں فنائیت آ گئی اور ملکوتیت شروع ہو گئی، جیسے ملائکہ کے ساتھ نفس نہیں ہے، اس کے ساتھ بھی اب نفس نہ رہا، یہ ملکوتیت میں آ گیا، اسی کو بقا کہتے ہیں، اب اس میں فرشتوں والی صفات ہیں، اب یہ اپنا نہیں ہے۔ ’’یَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ‘‘ والی بات ہے۔ وہ ان کو بس اپنی طرف متوجہ رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنے اپنے کام پہ لگایا ہوتا ہے، بس وہ وہی کام کرتے ہیں، کسی اور طرف نہیں جاتے، ایسا شخص بھی بس اللہ کی طرف لگا ہوتا ہے، اپنی طرف نہیں ہوتا، یہ سیر فی اللہ میں ہے۔ جب یہاں پر آ گیا تو پھر اللہ فیصلہ فرماتے ہیں کہ اس سے وہ کام لیا جائے جو پیغمبروں سے لیا گیا تھا، یا نہ لیا جائے۔ اگر اللہ پاک اس کے لئے یہ فیصلہ فرما دے تو چونکہ پیغمبر کو مخلوق میں بھیجا جاتا تھا، اس لئے اس کو دوبارہ واپس لوٹاتے ہیں، اب جس کو لوٹایا جاتا ہے اس کے لئے کافی مشکل کام ہوتا ہے، آسان کام نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے:
’’قُمْ يَا بِلَالُ! فَأَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: 23153)
ترجمہ: ”اے بلال اٹھو اور ہمیں نماز سے آرام پہنچاؤ‘‘۔
میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی محبوب کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور محبوب اسے کہتا ہے کہ میرے لئے بازار سے فلاں چیز لے آؤ۔ اب وہ اپنے محبوب کی مجلس کو چھوڑ کر بازار جائے گا، کیا یہ اس کے لئے آسان بات ہو گی؟ یہ مشکل بات ہو گی، لیکن چونکہ اس کا دل اس کے ساتھ لگا ہوا ہے، اس لئے وہ مجبوراً جائے گا۔ یہ جب مجبوراً جائے گا تو دو حالتوں میں جا سکتا ہے۔ اگر حکم سمجھ کر بازار میں جائے گا تو یہ تیسری قسم (سیر عن اللہ باللہ) ہے۔ یا پھر بازار کی تمام چیزوں کو سیکھ کر اس محبوب کے مطابق کام کرے گا، یہ چوتھی قسم (سیر فی الاشیاء باللہ) ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے تو محبوب کو چھوڑا ہے جو بڑا مشکل کام ہے، پھر دوبارہ دنیا کی چیزوں کو علمی اعتبار سے لیا ہے۔ یہ دونوں مشکل کام ہیں، جو اسے کرنے پڑ رہے ہیں۔ ایک شخص کا دل اللہ کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں ذکر کروں، میں تلاوت کروں، میں مراقبہ کروں۔ ادھر کوئی اللہ کا بندہ آ جائے، اب اس کے ساتھ مشغول ہونا پڑ رہا ہے۔ کیا یہ آسان کام ہے؟ آسان کام تو نہیں ہے، اپنا سب کچھ چھوڑ کے اس کی طرف متوجہ ہو جانا۔ وہ صرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اچھا خاصا مسئلہ ہوتا ہے، قلوب کا تبادلہ ہوتا ہے، اُدھر سے اِدھر، اور اِدھر سے اُدھر اثرات منتقل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں یہی بات عرض کر رہا ہوں کہ دوسری قسم ملکوتیت تک ہے اور تیسری اور چوتھی قسم دعوت (نبوت) کا میدان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ ھذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾۔ (یوسف: 108)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی‘‘۔
حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآن مجید، حقیقتِ صلوۃ معبودیت صرف:
دفتر سوم مکتوب نمبر 77 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
نور صرف (خالص نور) کے بعد کہ جس کو اس فقیر نے "حقیقت کعبہ ربانی" پایا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی عالی مرتبہ جو کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کے قرآن مجید کی حقیقت ہے اور اسی کے حکم سے قرآن مجید کے مطابق کعبہ معظمہ آفاق کا قبلہ بنا اور تمام (مخلوق) کے مسجود ہونے کی دولت سے مشرف ہوا، لہذا امام قرآن مجید ہے اور موموم یعنی مقتدی پیش قدم کعبہ معظمہ ہے اور یہ مرتبہ مقدسہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے بیچون وسعت کا مبدا ہےاور اس بارگاہ کی بیچونی و بیچگونی کے امتیاز کا مبدا بھی یہی وجہ عالیہ ہے۔ اس درجہ مقدسہ کی وسعت و عظمت اس کے طول و عرض کی درازی کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ وہ نقص و امکان کی علامات ہیں بلکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب تک اس کے ساتھ متحقق نہ ہو (یعنی جب تک اس مقام تک نہ پہنچے) معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اسی طرح اس مرتبہ مقدسہ کا امتیاز بھی مزایلت (ایک دوسرے کو زائل کرنے) اور مباینت (باہم فرق کرنے) کی رو سے نہیں ہے کیونکہ اس سے تبعض (ٹکڑے ٹکڑے ہونا) اور تجزی (جزو جزو ہونا) لازم آتا ہے جو کہ جسم اور جسمانی (جسم والا) ہونے کے لوازمات میں سے ہے اور اللہ سبحانہ اس سے بلند و برتر ہے۔
اس مرتبہ مقدسہ میں جس کو ہم نے "حقیقت قرآن مجید" کہا ہے نور کے اطلاق کی بھی گنجائش نہیں ہے اور دوسرے تمام کمالات ذاتیہ کی طرح نور بھی راہ میں ہی رہ جاتا ہے وہاں وسعت بیچون اور امتیاز بے چگون کے علاوہ کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ (قد جاء کم من اللہ نور) (المائدہ: 15) (یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا ہے میں اگر نور سے مراد قرآن ہو تو ممکن ہے کہ انزال و تنزل کے اعتبار سے ہو جیسا کہ کلمہ "قد جاء کم" میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس مرتبہ مقدسہ کے اوپر ایک اور بہت بلند مرتبہ ہے جس کو حقیقت صلوٰۃ کہتے ہیں اور عالم شہادت میں اس کی صورت مصلیان ارباب نہایت (منتہی نمازیوں) کے ساتھ قائم ہے اور یہ جو معراج شریف کے واقعہ میں آیا ہے کہ "قف یا محمد فان اللہ یصلی" (اے محمدؐ! ٹھہر جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ میں ہے) ممکن ہے کہ اس میں اسی حقیقت صلوٰۃ کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ ہاں وہ عبادت جو مرتبہ تجرد و تنزہ کے لائق ہے شاید مراتب وجوب سے صادر ہوتی ہو اور قدم کے اطوار سے ہی ظہور میں آتی ہو۔" فالعبادۃ اللائقۃ بجاب قدسہ تعالیٰ ھی الصادرۃ من مراتب الوجوب لا غیر فھو العابد و المعبود" (پس وہ عبادت جو اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ کے لائق ہے وہ مراتب وجوب ہی سے صادر ہوتی ہے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ