تعلیمات مجددیہ

درس 28

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


عنوانات:

1- خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے۔

2- مقام تکمیل و ارشاد کی ضروری شرطیں۔

3- استخارہ کی تشریح۔

4- شیخ مقتدا کے لئے نصائح۔



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے:

یہ بہت اہم موضوع ہے، بہت سارے لوگ اس میں پریشان ہیں اور خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط سمجھتے ہیں، جس وجہ سے صحیح اولیاء تک نہیں پہنچ پاتے اور شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں۔ کیونکہ خوارق شعبدہ بازی کے ذریعہ سے بھی دکھائے جا سکتے ہیں، لہذا ایسے لوگ شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں۔ اس لئے اصل چیز خوارق و کرامات نہیں بلکہ اصل چیز تو قرآن و سنت پہ چلنا ہی ہے۔ اسی بارے میں حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر دوم کے مکتوب 92 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اور جس طرح علماء خوارق و کمالات کے حصول کے لئے مکلف نہیں ہیں اسی طرح اولیاء بھی خوارق کے ظہور کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ ولایت سے مراد قرب الہی جل سلطانہ ہے جو نیسان ماسویٰ کے بعد حق جل و علا اپنے اولیا کو عنایت فرماتا ہے۔ بعض کو یہ قرب عطا فرماتے ہیں لیکن اس کو غائبات حالات کی کوئی اطلاع نہیں دیتے۔ اور بعض کو یہ قرب بھی عطا کر دیتے ہیں اور ان مغیبات پر بھی اطلاع بخش دیتے ہیں۔ اور تیسرے شخص کو قرب کی دولت سے کچھ بھی عنایت نہیں کرتے لیکن مغیبات کی اطلاع بخش دیتے ہیں۔ یہ تیسرا شخص اہل استدراج سے ہے کہ جس کو نفس کی صفائی نے اس کو مغیبات کے کشف میں مبتلا کر کے گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ آیۃ کریمہ (وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ عَلٰى شَىْءٍ ۚ اَلَآ اِنَّـهُـمْ هُـمُ الْكَاذِبُوْنَ، اِسْتَحْوَذَ عَلَيْـهِـمُ الشَّيْطَانُ فَاَنْسَاهُـمْ ذِكْـرَ اللّٰـهِ ۚ اُولۤئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ) (المجادلہ: 18-19) (یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں آگاہ رہو کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان پر شیطان غالب ہو گیا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کردیا یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں خبردار کہ شیطان کا گروہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے) اس (آیۂ کریمہ) میں ان لوگوں کے حال کی نشان دہی ہے۔

پہلی اور دوسری قسم کے لوگ جو کہ قرب کی دولت سے مشرف ہیں اولیاء اللہ میں سے ہیں مغیبات کا کشف نہ ان کی ولایت کو زیادہ کرتا ہے اور نہ عدم کشف ان کی شان ولایت میں نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ البتہ درجات قرب کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس کو غیبی صورتوں کا کشف نہیں ہوتا وہ ان کشفی صورتوں والے سے افضل اور پیش قدم ہوتا ہے۔

تشریح:

جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ بہت ہی اہم موضوع ہے۔ اس میں کچھ چیزیں بہت واضح طور پر سمجھنی چاہئیں۔ مثلاً ”سنا مکی“ مٹی میں موجود Silicon کے ذرات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ radio waves کو پکڑ لیتا ہے۔ پہلے وقتوں میں جب ریڈیو سیٹ عام نہیں تھے، لوگ اس کے ذریعے waves کو catch کر کے speaker پہ ڈالا کرتے تھے اور وہی جب ریڈیو سیٹ بن جاتا تھا۔ ریڈیو میں بھی تقریباً یہی چیزیں ہوتی ہیں، جن کے ذریعہ frequency matching کرتے ہیں۔ یہ frequency matching بھی ایک سائنس ہے۔ جس طریقہ سے frequency matching میں matching ہوتی ہے، اسی طریقہ سے کائنات کے اندر چھپی ہوئی چیزوں کے ساتھ اگر کسی کی frequency match ہو جائے تو ان کو کشف بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لئے مخصوص مشقیں اور طریقے ہوتے ہیں، جیسے سائنس کے طریقے ہوتے ہیں، جن کے ذریعہ سے تلاش کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں، پھر analyze کرتے ہیں، اس سے نتائج نکالتے ہیں، پھر اس سے چیزیں بناتے ہیں۔ اسی طریقہ سے کشفیات کی بھی ایک دنیا ہے، جو مشقوں کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے صرف ایک جملہ کے ذریعہ سے اس کو بتایا ہے، ”نفس کی صفائی“۔ نفس کی صفائی سے مراد یہ ہے کہ اگر مشقوں اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے اس کی alignment کر لی جائے تو اس طرح بہت سارے خوارق کے کام ہو سکتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض بزرگوں کے ساتھ ایسے لوگوں کے مقابلے بھی ہوئے ہیں، یعنی ان لوگوں نے اپنی کشفیات دکھائی ہیں۔ ان لوگوں کو وہ کشفیات وغیرہ مشقوں اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ نفس کی صفائی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جب کہ بزرگوں کو جو کشف ہوتا ہے، وہ وہبی ہوتا ہے، کسبی نہیں ہوتا، انہوں نے محنتوں اور مجاہدوں کو کشف حاصل کرنے کی نیت سے کیا ہی نہیں ہوتا۔ اللہ پاک ان کو کسی بھی چیز کا علم عطا فرما دیتے ہیں۔ ان کا علم اور کشف وغیرہ من جانب اللہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان کو اس کے اوپر محنت کی ضرورت نہیں ہوتی، محنت تو وہ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کرتے ہیں۔ نفس کی اصلاح کی محنت کی وجہ سے کچھ چیزیں ان کو از خود مل سکتی ہیں۔ ایسی چیزوں (خوارق و کرامات) کے ساتھ بعض کو مناسبت ہوتی ہے، بعض کو مناسبت نہیں ہوتی۔ جن کو مناسبت ہوتی ہے، وہ تھوڑی سی مشقیں کر لیتے ہیں، مثلاً ان کے مراقبات وغیرہ ہو جائیں تو ان کو کشف ہونے لگتے ہیں۔ یہ ان کی مناسبت کی بات ہے۔ بعض بزرگوں کو خوارق و کشفیات سے مناسبت نہیں ہوتی، وہ چاہے کتنے اونچے مقام تک پہنچ جائیں، ان کو ایسی کسی چیز کا پتہ نہیں چلتا۔

ایک دفعہ میں حضرت تسنیم الحق صاحب رحمة اللہ علیه کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا: حضرت میں نے مفتی محمود صاحب رحمۃ اللّٰہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ فرمایا: میں نے جاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں دیکھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ ٹھیک ہے آپ نے دیکھا ہو گا تو دیکھنے میں کیا ہو گیا، یہ کوئی کمال کی بات تو نہیں ہے۔ بعض لوگ اسے واقعتاً کمال سمجھتے ہیں۔ مثلاً میں اِدھر بیٹھے بیٹھے امریکہ میں کسی شخص کو دیکھ لوں، اگر اُدھر ہوتا تو ویسے بھی دیکھ سکتا تھا، لیکن اگر میں اِدھر سے دیکھ لوں تو اس میں کیا کمال ہے؟ اس کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے میں ٹیلی فون پہ کسی کی آواز سن لوں تو اس میں کیا کمال ہے؟ اسی طرح ایک اندرونی نظام کے ذریعہ اگر میں کوئی چیز دیکھ لوں تو اس میں کیا کمال ہے؟ اس کا افضلیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس ایک ایسی بات ہے جس سے لوگ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ جو پنڈت اور جوگی اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں، بس اس میں صرف شہرت ہی ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں یہ شاعری بھی ایسی ہی چیز ہے، اس میں شاعر صرف واہ واہ سننے کے لئے ساری محنت کرتے ہیں، واہ واہ سننے کے لئے مشاعرے میں جاتے ہیں اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس سے انہیں اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ اب اگر اس کے لئے وہ کوئی ایسا کام کر لے، جس سے وہ گناہ گار ہو جائے تو کیا فائدہ۔ بعض لوگ کچھ ایسے اشعار کہہ دیتے ہیں کہ ان کے ایمان بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ اب اس نے اس پہ کیا کمایا ہے؟ دنیا میں بھی کچھ نہیں کمایا اور آخرت میں بھی خالی دامن رہا۔ اسی طرح جوتشی لوگوں کا حال ہے، ان کی شہرت ہو جاتی ہے، چلو کچھ پیسے کما بھی لیں تو آخر ملا کیا؟ مقصد یہ ہے کہ کشفیات و خوارق بھی اسی طرح کے کمالات ہیں، جن کو مخصوص محنت و مشقت اور مشقوں کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے، یہ کوئی بزرگی کا دار و مدار نہیں ہیں۔

بہر حال اس بارے میں حضرت مجدد صاحب نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو کشفیات و مغیبات اور خوارق وغیرہ سے روشناس کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنا قرب بھی عطا فرماتے ہیں۔

دوسری قسم یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ پاک کا قرب عطا ہوتا ہے لیکن ان چیزوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، وہ ان سے غافل ہوتے ہیں۔

تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو صرف ان خوارق وغیرہ کا حصہ دیا جاتا ہے، ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں نصیب ہوتا۔

آخری نمبر والے بالکل محروم ہیں اور پہلے نمبر والوں کو دونوں (اللہ تعالی کا قرب اور کشفیات) حاصل ہیں، لیکن پہلے اور دوسرے نمبر والوں میں افضل کون ہے، اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا قرب ہے، اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہے تو وہ افضل ہو گا۔ بے شک کشفیات اس کو حاصل ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ یہ دنیا کی چیز ہے، دنیا میں رہ جائے گی۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہے، بے شک اسے چیزیں حاصل ہیں یا نہیں ہیں، اِس سے کوئی بحث نہیں ہے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمة اللہ علیه) کے خوارق بہت زیادہ تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بہت زیادہ تھا، ان کو دونوں چیزیں حاصل تھیں۔ اور ہمارے کچھ قریبی حضرات ایسے تھے کہ جن کو ان چیزوں سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ جیسے حضرت تھانوی (رحمة الله عليه)، حضرت گنگوہی (رحمة اللہ علیه)، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو از خود ان چیزوں سے بہت نوازا تھا۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو شعبدہ باز بن جاتے ہیں اور خوارق کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ خسارے میں ہیں۔

اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ ہے کہ بلقیس نے بہت ساری چیزیں بھیجیں، چیزیں لے جانے والے جس راستے سے جا رہے تھے وہ سارا سونے کا تھا، وہ ششدر رہ گئے کہ ہم تو سونا لے جا رہے ہیں اور یہاں سارا راستہ ہی سونے کا ہے۔ انہوں نے کہا، اب کیا کریں، چلو آ ہی گئے ہیں تو ملاقات کر لیتے ہیں، پھر جو بھی صورتحال ہو بتا دیں گے۔ جو حضرات مستغنی ہوتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت کے نور سے اپنے کے خزانوں کا اتنا زیادہ مشاہدہ کرایا ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔

دفتر اول کے مکتوب نمبر 281 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں۔

متن:

اس طریقے میں مایوس اور خسارہ والا وہ شخص ہے جو اس طریق میں داخل ہو کر بھی اس طریقے کے آداب کو مدنظر نہ رکھے اور نئے نئے امور اس طریق میں پیدا کر لے اور اس طریقہ کے بر خلاف اپنے واقعات اور خوابوں پر اعتماد کرے، اس صورت میں طریقے کا گناہ کیا ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور واقعات کی راہ پر چلتا ہے اور اپنے اختیار سے کعبہ معظمہ کے راستے سے منہ پھیر کر ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔

ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی

ایں راہ کہ تومی روی بترکستان است

(کہاں کعبہ کو پہنچے گا تو انجان؟

کہ ترکی کی طرف تو جا رہا ہے)

تشریح:

حضرت (مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ)) نے اس میں ارشاد فرمایا ہے کہ بہت سارے لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ طریقے میں داخل تو ہو چکے ہوتے ہیں لیکن ان کو طریقے کی سمجھ نہیں ہوتی۔ وہ اپنی طرف سے کچھ واقعات اور خوابوں پر اعتماد کر کے طریقے سے ہٹ جاتے ہیں اور اصل چیز ان کے پاس نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کو راستہ ہی نہیں ملتا۔

مقامِ تکمیل و ارشاد کی ضروری شرطیں:

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر اول کے مکتوب نمبر 211 میں تکمیل و ارشاد کے مقام کی ضروری شرطوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

دوسرے یہ کہ چونکہ آپ کو طریقہ سکھانے کے لئے ایک قسم کی اجازت دی گئی ہے اس لئے اس بارے میں چند فوائد لکھے جاتے ہیں گوش ہوش سے سن کر ان پر عمل پیرا ہوں۔

جاننا چاہئے کہ جب کوئی طالب آپ کے پاس ارادت سے آئے تو اس کو طریقہ سکھانے میں بہت تأمل کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ اس امر میں آپ کو استدراج مطلوب ہو اور خرابی منظور ہو، خصوصاً جب کسی مرید کے آنے پر کچھ خوشی و سرور پیدا ہونا چاہئے کہ اس بارے میں التجا و تضرع کا طریق اختیار کر کے چند مرتبہ استخارہ کریں تا کہ یقین طور پر معلوم ہوجائے کہ اس کو طریقہ سکھانا چاہئے اور (اس میں) خرابی میں استدراج مراد نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ کے بندوں میں تصرف کرنا اور اپنے وقت کو ان کے پیچھے ضائع کرنا اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر جائز نہیں۔ آیۃ کریمہ ﴿لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ﴾ (الابراہیم: 01) (تا کہ آپ لوگوں کو اندھروں سے نور کی طرف اللہ تعالیٰ کے اذن سے نکالیں) اسی معنی پر دلالت کرتی ہے۔

تشریح:

کتنی مضبوط دلیل ہے کہ اگر یہ اللہ پاک کی طرف سے ہو تو پھر ٹھیک ہے۔

متن:

ایک بزرگ فوت ہو گئے تو ان کو خطاب ہوا کہ تو وہی ہے جس نے میرے دین میں میرے بندوں پر زرہ پہنی تھی (یعنی شیخ کامل کی اجازت کے بغیر ارشاد اختیار کی تھی) انہوں نے کہا ہاں۔ فرمایا کہ تو نے میرے بندوں کو میری طرف تفویض کیوں نہ کیا اور دل سے میری طرف متوجہ کیوں نہ ہوا۔ اور وہ اجازت جو آپ کو اور دوسروں کو دی گئی ہے چند شرائط پر مشروط ہے اور حق تعالیٰ کی رضا مندی کا علم حاصل کرنے پر موقوف ہے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مطلق اجازت دے دی جائے وقت آنے تک شرائط کو اچھی طرح مدنظر رکھیں اطلاع دینی شرط ہے۔ میر نعمان کو بھی یہی لکھا گیا ہے وہاں سے بھی معلوم کر لیں۔ غرض کوشش کریں تا کہ وہ وقت آ جائے اور شرائط کی پابندی سے چھوٹ جائیں۔ و السلام

تشریح:

حضرت نے ان کو مشروط اجازت دی تھی (میرے خیال میں لفظ مشروط اس کے لئے زیادہ مناسب ہے)۔ مشروط اجازت میں شرط کا خیال رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ پھر ہر چیز شرط کے تابع ہوتی ہے۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ تمہیں ان شرائط کا خیال رکھنا چاہئے۔ جیسے کہ فرمایا: اگر کوئی آپ کے پاس آ جائے تو استخارہ کر لیں۔ میرے خیال میں کچھ اور شرائط بھی حضرت نے ان کو بتائی ہوں گی۔ فرمایا کہ ان کو پڑھو اور سمجھو اور میں نے میر نعمان صاحب کو بھی بھیجا ہے، ان سے بھی معلوم کر لو، ان شرائط کی پابندی سے ہی فائدہ ہو گا۔

استخارہ کی تشریح:

چونکہ یہاں استخارہ کی بات آئی ہے تو دیکھتے ہیں حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے استخارہ کے بارے میں کیا تعلیمات دی ہیں:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 239 میں اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

متن:

میرے مخدوم! استخارہ ہرامر میں مسنون و مبارک ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ استخارہ کے بعد خواب یا واقعہ یا بیداری میں ایسی بات ظاہر ہو جو اس کام کے کرنے یا نہ کرنے پر دلالت کرتی ہو۔

تشریح:

میں بھی یہ بات کئی دفعہ کر چکا ہوں۔ تقریباً ہر دفعہ میں استخارہ والوں کو یہ بتاتا ہوں، لیکن پھر بھی لوگ خوابوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، میرے سامنے خواب لاتے ہیں کہ میں نے یہ خواب دیکھا۔ میں کہتا ہوں: خواب کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ آپ کے دل کا کیا حال ہے، دل میں کیا آ رہا ہے؟ لیکن جو نہ سمجھنے کی قسم کھا چکے ہوں، ان کو کیا سمجھایا جائے۔

متن:

بلکہ استخارہ کے بعد قلب کی طرف رجوع ہونا چاہئے۔ اگر دل میں اس کام کے کرنے کی رغبت یا میلان پہلے سے زیادہ ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کام کرنا چاہئے اور اگر قلبی رغبت اسی قدر ہے جیسی کہ استخارہ سے پہلے تھی اور اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی تب بھی منع نہیں ہے ایسی صورت میں استخاروں کا تکرار کرنا چاہئے تاکہ رغبت و میلان کی زیادتی معلوم ہو جائے استخاروں کے تکرار کی انتہا سات مرتبہ ہے، اگر پہل مرتبہ میں استخارہ ادا کرنے کے بعد توجہ میں کمی معلوم ہو تو یہ بات منع پر دلالت کرتی ہے۔ ایسی صورت میں بھی استخاروں کو چند بار کریں تو گنجائش ہے بلکہ ہر صورت میں استخارہ مکرر کرنا اولیٰ و انسب ہے۔ اور اس کام کے کرنے یا نہ کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

تشریح:

میں یہ بات سائنسی طور پر اس طرح کہہ سکتا ہوں کہ جب استخارے کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، تو درست نتیجے تک رسائی میں غلطی کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اگر ایک استخارہ کیا تو اس میں سمجھنے میں بہت زیادہ غلطی کا امکان ہے۔ دو دفعہ کیا تو غلطی کا امکان کم ہو جائے گا، تین دفعہ کیا جائے تو اور کم ہو جائے گا، چار دفعہ کیا جائے تو اور کم ہو جائے گا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ سات دفعہ کرنے پر فرمایا کہ پھر آپ کے دل پہ بات واضح طور پر کھل جائے گی۔

شیخ مقتدا کے لئے نصائح:

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر اول کے مکتوب نمبر 224 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

جاننا چاہئے کہ شیخ بننے اور حق جل و علا کی طرف مخلوق کو دعوت دینے کا مقام بہت ہی عالی ہے: اَلشَیْخُ فِی قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِ فِی اُمَّتِہٖ

تشریح:

سبحان اللہ! آج دوسری دلیل بھی مل گئی۔ پہلے حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیه کے ارشادات میں یہ پڑھا تھا۔ آج حضرت نے بھی فرما دیا۔ اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ اُمَّتِہٖ۔

متن:

(شیخ ( کی حیثیت) اپنی قوم میں ایسی ہے جیسی نبی کی اپنی امت میں) آپ نے سنا ہو گا۔ ہر بے سرو سامان کو اس عالی مقام سے کیا نسبت ہوسکتی ہے ؂

ہر گدائے مردِ میداں کَے شود

پشۂ آخر سلیماں کَے شود

ہر گدا کب مردِ میداں بن سکے؟

کب کوئی مچھر سلیماں بن سکے

احوال و مقامات کا مفصل علم حاصل ہونا اور مشاہدات و تجلیات کی حقیقت کی معرفت او کشفوں و الہامات کا حاصل ہونا اور واقعات کی تعبیرات کا ظاہر ہونا اس عالی مقام کے لوازمات میں سے ہے (وَبِدُونُھا خَرْطُ الْقَتَادِ) (اس کے علاوہ کانٹوں میں ہاتھ ڈالنا ہے)۔

تشریح:

یعنی بعض لوگوں کو کشفوں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے جب کہ بعض کو الہامات کے ذریعہ سے پتہ چلتا ہے۔ کشف و الہام دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ الہام میں بس دل کے اوپر بات آتی ہے، جیسے استخارہ میں آپ کو پتہ چلتا ہے، دل میں ایک بات آ جاتی ہے۔ اسی طرح الہام میں دل میں ایک بات آ جاتی ہے۔ استخارہ بھی ایک قسم کا الہام ہی ہوتا ہے، لیکن عام الہام اور استخارہ والے الہام میں فرق یہ ہے کہ صاحبِ الہام کو عام طور پر الہامات آتے رہتے ہیں اور استخارہ میں دعا کے ذریعہ الہام کو کھینچا جاتا ہے، استخارہ کے ذریعے عام شخص بھی الہام کو حاصل کر سکتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس عالی مقام کے لئے اس کا علم ہونا ضروری ہے کہ تجلی کس کو کہتے ہیں، مشاہدہ کس کو کہتے ہیں، احوال کیا ہوتے ہیں، مقامات کیا ہیں؟ اللہ والوں کو ان چیزوں کے بارے میں مکمل شرح صدر ہوتا ہے۔

متن:

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اکابرِ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم اپنے بعض مریدوں کی مقامِ شیخی تک پہنچے سے پہلے کسی مصلحت کے پیشِ نظر ایک طرح کی اجازت دیدیتے ہیں اور ایک لحاظ سے تجویز فرماتے ہیں کہ وہ طالبوں کو طریقت کی تعلیم دیں اور ان کے احوال و واقعات سے مطلع رہیں۔

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی علاقہ میں کوئی ایسا صاحب نہیں ہوتا، جو اصلاح کا کام کر سکے اور شیخ کے فہم کے مطابق وہاں کسی کا ہونا ضروری ہے۔ ایک صاحب کی ابھی مکمل اصلاح نہیں ہوئی ہے، لیکن ان کی ذمہ داری لگا کر انہیں وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ گویا ایک طریقہ سے ان کی اصلاح بھی کرواتے ہیں، خبر داری کے ذریعہ سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ معلومات کرتے رہتے ہیں، ان سے کام بھی لیتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کو فائدہ بھی پہنچا دیتے ہیں۔ یعنی اس کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں، کنٹرول خود کرتے ہیں، لیکن ذریعہ اس صاحب کو بناتے ہیں۔ مشروط اجازت اس قسم کی ہوتی ہے۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی میں شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے، جب اس کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ اس ذمہ داری پوری کرنے کے لئے خود ہی کچھ کوشش و محنت کر کے کچھ نہ کچھ بن ہی جاتا ہے۔

شرم و حیا کی ایک مثال دوں۔ بہت عجیب بات ہے لیکن کرنی پڑتی ہے۔ ہم نے نمازوں کے اوقات پہ کام کیا ہے۔ ہم سے یہ کام اس لئے ہوا کہ ہمیں کمپیوٹر آتا تھا۔ بس اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں تھے۔ کمپیوٹر کے ذریعہ سے ہم نے اس کے کلیے قاعدے معلوم کر کے کمپیوٹر پروگرام تیار کرنا شروع کر لیا، نمازوں کے اوقات میں یہ ہمارا سارا contribution تھا۔ اس کے بعد مجھے حضرت حلیمی صاحب رحمة اللہ علیه کی برکت سے ایک صاحب (جو اوقاف ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین تھے) کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے مجھے قائل کیا کہ رؤیتِ ہلال پر کام کرو۔ مجھے اس مقصد کے لئے تیار کرنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ میں مان نہیں رہا تھا۔ خیر جب مان گیا تو الحمد للہ وہ کام بھی تقریباً ایک ڈیڑھ سال میں ہو گیا۔ وہ چل پڑا تو لوگوں نے مجھے ماہرِ فلکیات مشہور کر دیا۔ اب مجھے خود پتہ ہے کہ میں ماہر فلکیات نہیں ہوں، کیونکہ ماہر فلکیات تو فلکیات کے باقاعدہ کورسز کرنے والے اور یہ سب کچھ سیکھنے والے ہوتے ہیں۔ میں نے تو اس کو باقاعدہ سیکھا ہی نہیں تھا، تو میں کیسے ماہر فلکیات ہوا۔ مجھے شرم آئی کہ لوگ کہتے تو ہیں، اب میں ان کو منع تو نہیں کر سکتا تو چلو پھر سیکھ ہی لوں۔ پھر میں نے اپنے لئے C.Ds arrange کیں، جو ان دنوں مل رہی تھیں، اب بھی ملتی ہیں۔ اب تو ان دنوں سے بھی ذرا جدید ملتی ہیں۔ تو C.Ds arrange کیں، لائبریری سے انگریزی و اردو کتابیں نکالیں۔ جہاں جہاں سے جو کچھ مل سکتا تھا، سب پڑھنا شروع کر لیا۔ اس طریقہ سے ہم لوگوں کی نظروں میں گویا کہ ایک مستند ماہر فلکیات بن گئے۔ یہ ایک شرم والی بات تھی کہ لوگ مجھے ماہر فلکیات کیوں کہتے ہیں، میں ماہر فلکیات تو نہیں ہوں۔ صرف نمازوں کے اوقات اور رؤیتِ ہلال پہ کام کرنا فلکیات میں مہارت نہیں ہے۔ رؤیتِ ہلال تو اس کا صرف ایک جز ہے، بلکہ جز کا بھی جز ہے۔ یہ فلکیات کی ایک شاخ spherical trigonometry کے استعمال کا ایک جز ہے۔ اب اس پہ ہم کیا دعویٰ کر سکتے تھے کہ ہم ماہر فلکیات ہیں۔ لیکن بعد میں وہ سب چیزیں ہمیں کرنی پڑیں۔

اسی طرح بعض لوگوں کو اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ یہ کچھ حیا کرے گا اور کچھ کام کر لے گا۔ لیکن اگر کوئی مکمل بے حیا بن جائے تو پھر واپس لے لیتے ہیں کہ یہ تو معاملہ گڑبڑ کر رہا ہے، اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

متن:

اور ایک لحاظ سے تجویز فرماتے ہیں کہ وہ طالبوں کو طریقت کی تعلیم دیں اور ان کے احوال و واقعات سے مطلع رہیں۔ اس طرح کی تجویز میں شیخِ مقتدا پر لازم ہے کہ ان’’ مریدان مجاز‘‘ (اجازت یافتہ مریدوں) کو اس کام میں بڑی احتیاط سے کام کرنے کا حکم کریں اور تاکید کے ساتھ غلط مقامات کی نشان دہی کریں اور بار بار ان کے نقص کی اطلاع دیتے رہیں اور مبالغہ کے ساتھ ان کے ناقص ہونے کو ظاہر کریں۔ اس صورت میں اگر شیخ اظہارِ حق میں سستی کرے گا تو یہ خیانت ہو گی اور اگر مرید کو یہ بات پسند نہ آئے تو وہ بدنصیب ہے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ حق جل و علا کی رضامندی شیخ کی رضامندی سے وابستہ ہے اور حق تعالیٰ کا غضب شیخ کے غضب پر موقوف ہے۔ اس پر کیا مصیبت ہے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ ہم سے قطع تعلق کرنا اس کو کہاں تک پہنچا دے گا، اگر ہم سے قطع کرے گا تو اس کو کون ملا دے گا۔ حق سبحانہ و تعالیٰ کی پناہ! اگر اس قسم کے خیالات اس کے دل میں آئیں تو فوراً تو بہ کرے اور استغفار کرے اور حق سبحانہ، و تعالیٰ کی درگاہ میں التجا و زاری کرے کہ وہ اس بڑی مصیبت (شیخ سے اعراض) میں اس کو مبتلا نہ کرے اور اس خطرناک بلا و آزمائش میں اس کو گرفتار نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ دوستوں کی اس لاپرواہی اور اضطراب سے کسی قسم کا غبار اور آزار اس (فقیر) کے دل میں داخل نہیں ہوا، اس وجہ سے امیدوار ہے کہ تمام کاموں کا انجام بخیر ہو گا۔

تشریح:

سبحان اللہ! میں نے صبح ہی ایک صاحب سے یہ بات عرض کی تھی کہ الله جل شانهٗ نے اس لائن کی بڑی حفاظت فرمائی ہے۔ جو اس میں اخلاص والے لوگ ہیں۔ جو شیخ اور مرید کا آپس میں ربط ہے، اس پہ اللہ پاک کی طرف سے ’’یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ‘‘ والی بات اتنی مضبوط ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے، قدم قدم پر اس میں رہنمائی ہوتی ہے۔ جو شیخ سے آگے کا سوچتا ہے، اسے ہمیشہ مار پڑتی ہے۔ شیخ سے آگے سوچنے سے مراد یہ ہے کہ تعجیل میں مبتلا ہوتا ہے کہ مجھے جلدی کچھ مل جائے، یا اپنے آپ کو زیادہ ظاہر کرے کہ گویا مجھے کچھ حاصل ہو چکا ہے۔ ایسے لوگ بڑے خسارے میں جاتے ہیں۔ اس وجہ سے سمجھ دار لوگ اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہیں سمجھتے، بس ان کو ذمہ داری کے طور پر جو کچھ مل گیا، اسی پہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، اس سے زیادہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے اور اسی میں خیر ہے۔ اگر الله جل شانهٗ کا تعلق کسی کو حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ نہ چاہے کہ وہ لوگوں کی تربیت کرے، بس میری طرف ہی رہے تو مجھے بتاؤ وہ اچھا ہے یا اپنی مرضی سے لوگوں کی طرف چلا جانے والا اچھا ہے؟ وہی اچھا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہے۔ اسی میں اس کی روحانی ترقی ہو رہی ہو اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی طرف لوگوں کی انگلیاں بھی نہیں اٹھ رہیں، محفوظ ہے۔ لہذا خود اپنے طور پہ اس حالت کو اختیار کرنا چاہئے، جس میں حفاظت ہے۔

سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیه کو جب خلافت ملی تھی تو انہوں نے کیا خوب غزل پڑھی تھی۔ حضرت علامہ تھے اور ان کا پورا خاندان بزرگوںکا خاندان تھا، لیکن آپ ملاحظہ کریں کہ جس وقت ان کو خلافت ملی تو کن جذبات کا اظہار فرما رہے ہیں:

بتقریب عطائے خلافت (1942)

ابھی تو مشقِ فغان کنج میں ہزار کرے

تشریح: (یعنی ابھی اپنی محنت کو کچھ نہیں سمجھ رہا)

اثر کے واسطے کچھ اور انتظار کرے

جو آج لذتِ دردِ نہاں کا جویا ہے

وہ پہلے سوز سے دل کو تو داغ دار کرے

انھیں کے دینے سے ملتا ہے جس کو ملتا ہے

(تشریح: یہ اپنے آپ سے نفی کر رہے ہیں۔)

وہی نہ چاہیں تو کوشش کوئی ہزار کرے

ادب سے دیکھ لے مشتاق دور سے ان کو

مجال ہے جو انھیں کوئی ہم کنار کرے

(تشریح: یعنی الله جل شانهٗ کے ساتھ وصال تو نہیں ہو سکتا، بس دور سے ہی ان سے تعلق رکھا جا سکتا ہے)

سنا تو دے اسے افسانۂ غمِ ہجراں

وہ اعتبار کرے یا نہ اعتبار کرے

وہ اپنے کان سے سنتے ہیں میرے نالوں کو

وہ طرزِ نالہ ہو جو ان کو بے قرار کرے

تیری نظر میں ہے تاثیرِ مستیِ صہبا

تری نگاہ جسے چاہے بادہ خوار کرے

(تشریح: یہ وہی بات ہے کہ کون سی ذمہ داری ملتی ہے، اپنی طرف دیکھنے کی یا کسی مخلوق کی طرف جانے کی)

تری نگاہ میں دونوں خواص رکھے ہیں

وہ چاہے مست کرے، چاہے ہوشیار کرے

(تشریح: مست سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی بس توجہ رہے، یعنی سکر کی حالت۔ اور صحو کی حالت میں چاہے ہوشیار کر لے)

ان حضرات کی نظر میں اللہ تعالیٰ کی عظمت تھی، اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، اس لئے ان میں تعجیل نہیں تھی۔ وہی لوگ تعجیل میں گرفتار ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے وہ تعجیل کیا کریں گے، وہ تو کہیں گے میں نے کچھ کیا ہی نہیں، میں کیوں اپنے لئے کچھ خاص چاہوں۔

الله جل شانهٗ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرما دے۔

وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ