تعلیمات مجددیہ

درس 27

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


عنوانات:

1- خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے۔

2- ولی کو اپنی ولایت یا خوارق کا علم ہونا شرط نہیں۔

3- پیری مریدی کے آداب و نصائح۔

4- مریدوں کے لئے ضروری آداب و شرائط۔

5- احوال و واقعات شیخ کی خدمت میں ظاہر کرنے کی ترغیب۔

6- طریقہ عالیہ میں نئی نئی باتیں نکالنے والوں کی مذمت۔




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے:

گذشتہ درس میں دفتر دوم کے مکتوب نمبر 92 میں ”خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے“ کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ یہ بہت نازک موضوع ہے کیونکہ بہت سارے لوگ خوارق و کرامات کو ولایت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس شخص کو ولی ہی نہیں مانتے جس کے ہاتھ پہ کوئی کرامت نہ ہو یا اس کو کشف نہ ہوتا ہو۔ یہ بہت عجیب سوچ ہے، لیکن بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ اگر کسی کو کشف نہ ہوتا ہو، اس کے ہاتھ پہ کرامت ظاہر نہ ہوتی ہو اور وہ کہے کہ ولایت کے لئے اس کی ضرورت نہیں ہے، تو لوگ کہیں گے کہ اس کو کشفت و کرامت ہوتا نہیں، اس لئے یہ اس طرح کہتا ہے۔ لہٰذا الله جل شانهٗ نے ایسے حضرات سے یہ بات کہلوا دی جن کی کرامات و کشفیات مشہور ہیں۔ انہوں نے بھی چونکہ یہ بات ارشاد فرمائی ہے، لہٰذا ان کی بات ہمارے لئے بہت بڑی سند ہے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ حضرت فرماتے ہیں:

متن:

جان لیں کہ خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے اور جس طرح علماء خوارق و کمالات کے حصول کے لئے مکلف نہیں ہیں اسی طرح اولیاء بھی خوارق کے ظہور کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ ولایت سے مراد قرب الہی جل سلطانہ ہے جو نیسان ماسویٰ کے بعد حق جل و علا اپنے اولیا کو عنایت فرماتا ہے۔

تشریح:

نسیانِ ما سویٰ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ تمام چیزوں کو بھول جانا اور ان کو کوئی وقعت نہ دینا۔

متن:

بعض کو یہ قرب عطا فرماتے ہیں لیکن اس کو غائبات حالات کی کوئی اطلاع نہیں دیتے۔ اور بعض کو یہ قرب بھی عطا کر دیتے ہیں اور ان مغیبات پر بھی اطلاع بخش دیتے ہیں۔ اور تیسرے شخص کو قرب کی دولت سے کچھ بھی عنایت نہیں کرتے لیکن مغیبات کی اطلاع بخش دیتے ہیں۔ یہ تیسرا شخص اہل استدراج سے ہے کہ جس کو نفس کی صفائی نے اس کو مغیبات کے کشف میں مبتلا کر کے گمراہی میں ڈال دیا ہے۔

تشریح:

تین combinations بتائے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ قرب عطا فرماتے ہیں لیکن کشفیات اور خوارق نہیں دیتے۔ (2) دونوں عطا فرما دیتے ہیں۔ (3) کشفیات اور مغیبات تو ہوتی ہیں لیکن قرب نہیں ہوتا۔

یہ تیسرا شخص اہل استدراج میں سے ہے، یعنی ان لوگوں میں سے ہے جن کو ڈھیل دی گئی ہو۔ بعض لوگوں کو ڈھیل دے کر ان کے اوپر حجت تمام کی جاتی ہے۔ جیسے کسی کے اوپر دولت کی فراوانی ہوتی ہے، لیکن اس سے اس کو قرب عطا کرنا مطلوب نہیں ہوتا بلکہ امتحان مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانیت میں بھی بعض لوگوں کو قرب عطا نہیں کرتے لیکن یہ چیزیں (خوارق و کرامات) دے دیتے ہیں اور وہ اسی میں لگے رہتے ہیں، اسی پہ بحثیں کرتے ہیں۔ یہ جو عامل لوگ ہیں، ان کا یہ اچھا خاصا مشغلہ ہوتا ہے۔ جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو ان کی گفتگو بھی یہی ہوتی ہے کہ میں نے فلاں پہ تعویذ کر دیا اس کے ساتھ یہ ہو گیا، اس نے اپنے لئے کچھ یہ انتظام کر دیا، پھر اس طرح بچ گیا، پھر میں نے یہ کیا۔ یہی سٹوریاں ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے ہٹ جاتے ہیں، ان کو حق کا پتا نہیں چلتا، بس انہی کھیل تماشوں میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے اکابر اس میں بہت چوکنے ہیں اور جب کبھی کسی کو ان چیزوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو فوراً روکتے ہیں کہ اس طرف نہ جاؤ۔ یہ شجرہ ممنوعہ ہے، اس کی خواہش نہ کرو۔

متن:

آیۃ کریمہ (وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ عَلٰى شَىْءٍ ۚ اَلَآاِنَّـهُـمْ هُـمُ الْكَاذِبُوْنَ، اِسْتَحْوَذَ عَلَيْـهِـمُ الشَّيْطَانُ فَاَنْسَاهُـمْ ذِكْـرَ اللّٰـهِ ۚ اُولٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ) (المجادلہ: 18-19) (یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں آگاہ رہو کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان پر شیطان غالب ہو گیا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کردیا یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں خبردار کہ شیطان کا گروہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے) اس (آیۂ کریمہ) میں ان لوگوں کے حال کی نشان دہی ہے۔

پہلی اور دوسری قسم کے لوگ جو کہ قرب کی دولت سے مشرف ہیں اولیاء اللہ میں سے ہیں مغیبات کا کشف نہ ان کی ولایت کو زیادہ کرتا ہے اور نہ عدم کشف ان کی شان ولایت میں نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ البتہ درجات قرب کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس کو غیبی صورتوں کا کشف نہیں ہوتا وہ ان کشفی صورتوں والے سے افضل اور پیش قدم ہوتا ہے۔

تشریح:

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس کو کشف نہیں ہوتا وہ اس سے افضل ہوتا ہے جس کو کشف ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص غریب ہے اور دوسرا مال دار ہے، تو کیا مال دار اللہ کے زیادہ قریب ہے؟ نہیں! اللہ کا قرب اعمال کی بدولت نصیب ہوتا ہے۔ دیکھا جائے گا کہ کیا وہ مال اپنے لئے استعمال کرتا ہے یا اللہ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اگر اللہ کے لئے استعمال کرتا ہے تو ولی اللہ ہے اور اگر محض اپنے نفس کے لئے استعمال کرتا ہے تو پھر ایسا نہیں ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ مال دار آدمی جو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے، وہ بھی ولی اللہ ہوتا ہے، اور دوسرے شخص کے پاس کچھ بھی نہیں، لیکن اس کی قلبی حالت ایسی ہے کہ وہ اسی مقام میں اس مال دار سے بڑھا ہوا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کو کشفیات وغیرہ نہیں ہوتیں لیکن ان کا مرتبہ کشفیات والوں سے زیادہ ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو کشفیات ہوتی ہیں لیکن وہ کشفیات کو کچھ نہیں سمجھتے، ان کو بھی اللہ پاک نوازتے ہیں، وہ بھی اولیاء اللہ ہوتے ہیں۔ لیکن ولایت کا انحصار کشفیات کے اوپر نہیں ہے بلکہ اعمال کے اوپر ہے ؎

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

جو عمل کرتا ہے، اسی کے مطابق اس کا مقام بنتا ہے۔ کشف و خوارق غیر اختیاری چیزیں ہیں اور فرمایا: ﴿لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرہ: 286) یعنی اللہ پاک آپ سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں فرماتے، جس پہ آپ کا کنٹرول نہ ہو، جو آپ کر نہ سکیں۔ لہٰذا جو آپ نہ کر سکیں اللہ کی طرف سے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہے، اس پر اجر بھی نہیں۔ ہاں! اگر اللہ نے خود ہی وہ چیز آپ کو عنایت فرما دی تو پھر آپ اس پر شکر کرو گے، یہ شکر آپ کا نیک عمل شمار ہو گا، اس پر آپ کو اجر بھی ملے گا۔ مثلاً کسی کو کشف ہوا ہے اور وہ اس پر شکر کرتا ہے کہ اے اللہ! تیرا شکر کہ تو نے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی۔ یہ شکر ادا کرنا اس کا ذاتی عمل ہے، اس پر اس کو اجر ملے گا، اس کی وجہ سے وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ حضرت سلیمان علیه السلام نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ قرآن پاک میں ہے کہ چیونٹیوں میں سے ایک چیونٹی نے آواز لگائی: خبردار! سلیمان علیه السلام کا لشکر آ رہا ہے، وہ تمہیں روند ڈالیں گے اور ان کو پتا بھی نہیں ہو گا، اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ حضرت سلیمان علیه السلام نے اس چیونٹی کی آواز سنی۔ ہم پاس ہوتے ہیں پھر بھی چیونٹی کی آواز نہیں سن سکتے، لیکن حضرت سلیمان علیه السلام نے اس کی آواز سنی، یہ معجزہ تھا، خارقِ عادت امر تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس پر شکر کیا کہ اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ نعمت نصیب فرمائی۔ شکر ایک نیک عمل ہے۔ اگر کسی شخص کو یہ چیزیں مل گئیں اور وہ شکر کرتا ہے تو یہ اس کا نیک عمل ہے اور جس کو نہیں ملیں اور وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کا نیک عمل ہے، دونوں پر اجر ملے گا۔ جیسے ایک شخص کی روح خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے ترستی ہے، مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، وہ صبر کرتا ہے، تو یہ اس کا عمل ہے اور اس پر صبر کا اجر پاتا ہے۔ اور جو پہنچ جاتا ہے وہاں پر دعائیں کرتا ہے، شکر کرتا ہے تو یہ بھی عمل ہے، اس پر بھی اجر ملتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی کے پاس خواہ خوارق و کشفیات ہوں یا نہ ہوں، دونوں صورتوں میں اجر عمل پہ ہی ملتا ہے۔ وہ خوارق و کشفیات کی وجہ سے افضل یا غیر افضل نہیں قرار پاتا بلکہ اس کی افضلیت یا غیر افضلیت کا مدار اس کے عمل پر ہے، ہاں عمل کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، کبھی شکر پر اجر ملتا ہے، کبھی صبر پر مل جاتا ہے۔

ولی کو اپنی ولایت یا خوارق کا علم ہونا شرط نہیں:

آگے حضرت فرماتے ہیں کہ ولی کو اپنی ولایت یا خوارق کا علم ہونا بھی شرط نہیں ہے، ضروری نہیں ہے کہ اس کو پتا ہو۔ بعض دفعہ پتا نہیں ہوتا، لیکن اس سے ایسا عمل صادر ہو جاتا ہے، جس کا دوسرے لوگوں کو پتا چل جاتا ہے، لیکن اس کو پتا نہیں چلتا، اس سے اللہ پاک چھپا دیتے ہیں۔

پیری مریدی کے آداب و نصائح:

حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر اول کے مکتوب نمبر 221 میں پیری مریدی کے سلسلے میں کچھ باتیں ارشاد فرمانا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے کے کون سے آداب ہیں اور کون سی نصیحیتیں ہیں۔ فرمایا:

متن:

اور اس طریق میں پیری و مریدی طریقے کی تعلیم و تعلم پر موقوف ہے کلاہ و شجرہ پر موقوف نہیں ہے، جو کہ اکثر مشائخ کے سلسلوں میں رسم بن گئی ہے، یہاں تک کہ ان کے متاخرین نے پیری مریدی کو صرف کلاہ و شجرہ پر منحصر کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور طریقت کے معلم کو مرشد کہتے ہیں، پیر نہیں جانتے اور پیری کے آداب کی رعایت اس کے حق میں بجا نہیں لاتے، یہ بات ان کی کمال جہالت و نادانی کی وجہ سے ہے۔۔۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے مشائخ نے پیرِ تعلیم و پیرِ صحبت کو بھی پیر ہی کہا ہے، اور پیر کہلوانا جائز قرار دیا ہے، بلکہ پیر اول کی حینِ حیات ہی میں اگر طالب اپنی ہدایت کسی دوسری جگہ دیکھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ پیر اول کے انکار کے بغیر دوسرا پیر اختیار کر لے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے اس بات کے جائز ہونے کے بار میں علمائے بخارا کے فتوے کو درست قرار دیا ہے، ہاں اگر کسی پیر سے خرقہ ارادت حاصل ہو گیا ہے تو دوسرے پیر سے خرقہ ٔارادت نہ لے، اور اگر لے تو اس کو خرقہ تبرک تصور کرے، اس سے یہ بات لازم نہیں ہے آتی کہ دوسرا پیر ہر گز اختیار نہ کرے بلکہ روا ہے کہ خرقۂ ارادت ایک سے حاصل کر ے اور طریقت کی تعلیم دوسرے سے اور صحبت تیسرے سے رکھے اور اگر یہ تینوں نعمتیں کسی ایک ہی (پیر) سے حاصل ہو جائیں تو زہے قسمت اور جائز ہے کہ متعدد مشائخ کی تعلیم اور صحبت سے استفادہ کرے۔ جاننا چاہئے کہ پیر وہ ہے جو مرید کو حق سبحان اللہ و تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور یہ معنی تعلیمِ طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہیں، کیونکہ پیرِ تعلیم شریعت کا بھی استاد ہے اور طریقت کا بھی رہنما ہے، بخلاف پیر خرقہ کے۔ لہٰذا پیر تعلیم کے آداب کی رعایت کو بہت زیادہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے اور اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضات و مجاہدات کرنا احکامِ شرعیہ کی بجاآوری اور سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام و التحییۃ کی پیروی کا التزام کرنے میں ہے، کیونکہ رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے مقصود نفسِ امارہ کی خواہشات کو ختم کرنا چاہئے جو اپنے مولا جل سلطانہ کی دشمنی پر قائم ہے۔ لہٰذا نفسانی خواہشوں کا دور کرنا احکامِ شریعہ کی بجا آواری پر وابستہ ہوا، جو شخص جس قدر شریعت میں راسخ اور ثابت قدم ہو گا اسی قدر خواہشات نفسانی سے دور ہو گا۔ لہٰذا نفسِ امارہ پر شریعت کے اوامر و نواہی کی بجاآوری سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں اور صاحبِ شریعت کی تقلید کے علاوہ کسی چیز میں اس نفسِ امارہ کی خرابی متصور نہیں۔ جو لوگ وہ ریاضات و مجاہدات جو سنت کی تقلید کے علاوہ اختیار کریں وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔

تشریح:

حضرت نے یہاں پیری مریدی کے بارے میں کچھ موٹی موٹی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ہمیں محتاط ہو کر ان کو سننا ہے کیونکہ یہ موضوع بہت نازک ہے۔

راہِ سلوک میں اصل چیز تربیت ہے۔ تربیت ہی مقصود ہے، تربیت ہی اصلاح کی بنیاد ہے، بیعت ہونا مقصود نہیں ہے۔ پس اگر کوئی شخص بغیر بیعت کے کسی سے تربیت کروا رہا ہے تو یہ بالکل ٹھیک ہے اور اگر بیعت کے بعد تربیت کروا رہا ہے تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس سے بیعت ہوتے ہیں، وہ ضعف کی وجہ سے یا کسی بھی اور مسئلہ کی وجہ سے اس کی تربیت نہیں کر سکتا، تو کیا آپ اس کے ساتھ ویسے ہی بیٹھے رہیں گے، اپنا وقت ضائع کریں گے؟ آپ کو اس سے بیعت کر کے بیعت کی برکت حاصل ہو گئی ہے، اس سے کوئی انکار نہیں ہے، جیسے حضرت نے فرمایا کہ اس سے خرقۂ تبرک تو مل گیا ہے۔ لیکن اصل چیز تربیت ہے، اگر اس جگہ تربیت نہیں ہو رہی تو اس کا انکار نہ کرتے ہوئے، کسی شیخِ تعلیم کو ڈھونڈ لے جو تربیت کر سکتا ہو۔ کیونکہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ موت سے پہلے پہلے آپ کی تربیت ہو جائے۔ اس کے لئے اگر آپ کسی دوسرے شیخ کے پاس جائیں تو بالکل جائز ہے۔ کیونکہ اگر ایک پیر کے کچھ مسائل ہیں، بیمار ہے یا اور کوئی کمزوریاں ہیں، تو مخلص پیر اس سے انکار بھی نہیں کرتا، بلکہ وہ تو آپ کو بہت آسانی کے ساتھ کسی اور سے تربیت کروانے کی اجازت دے دیتا ہے، بلکہ خود ہی کہہ دیتا ہے کہ اب آپ کسی اور جگہ جا کر اپنی تربیت کروا لیں۔ لیکن اگر وہ خود نہ کہے تو اس کا انکار کئے بغیر، اس سے محبت کو ختم کئے بغیر، اس سے محبت کو قائم رکھتے ہوئے، کسی شیخ تعلیم سے بغیر بیعت کے بھی اپنی تربیت کراؤ اور اس سے اپنی تکمیل کراؤ، یہ ضروری ہے۔

حضرت فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ زیادہ تر کلاہ و شجرہ پر ہی چلتے ہیں۔ کلاہ و شجرہ سے مراد بیعت ہے، یعنی محض بیعت پر بیعت کرتے جاتے ہیں، یہ ایک رسم سی بن گئی ہے اور لوگوں نے پیری مریدی کو صرف اسی تک منحصر کر رکھا ہے کہ بس بیعت ہو گئے، سلسلہ میں داخل ہو گئے، صرف یہ کافی نہیں ہے بلکہ تربیت کروانا ضروری ہے۔

فرمایا کہ لوگ نہیں جانتے کہ مشائخ نے پیرِ تعلیم و پیرِ صحبت کو بھی پیر ہی کہا ہے (یعنی وہ بھی پیر ہے) اور ان کو پیر کہلوانا جائز قرار دیا ہے، بلکہ پیر اول کی حینِ حیات ہی میں اگر طالب اپنی ہدایت کسی دوسری جگہ دیکھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ پیر اول کے انکار کے بغیر دوسرا پیر اختیار کر لے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے اس بات کے جائز ہونے کے بارے میں علمائے بخارا کے فتوے کو درست قرار دیا ہے۔ ہاں اگر کسی پیر سے خرقۂ ارادت حاصل ہو گیا ہے۔ خرقہ ارادت سے مراد یہ کہ جس کا مرید ہو گیا ہے، بیعت ہو گیا ہے تو دوسرے پیر سے خرقۂ ارادت نہ لے، اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ دوسرے سے بھی بیعت ہو جائے اور اگر ہو جائے تو اس کو صرف تبرک تصور کرے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرا پیر ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ بلکہ یہ روا ہے کہ ایک سے خرقۂ ارادت حاصل کرے اور دوسرے سے تعلیم۔

میں نے اس کی مثال بھی دی تھی کہ شاہ عبد القادر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے سید صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو حضرت شاہ عبد العزیز (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے مانگا تھا کہ مجھے دے دو۔ فرمایا بالکل! آپ لے لیں۔ غور کریں سید صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) بیعت کن سے تھے؟ شاہ عبد العزیز (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے۔ لیکن تربیت کون کر رہے ہیں؟ شاہ عبد القادر (رحمۃ اللّٰہ علیہ)۔ پھر شاہ عبد القادر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے سید صاحب کی تربیت کی تکمیل کی، اپنے ساتھ ان کو اعتکاف کروایا۔ خود حضرت شاہ عبد القادر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) چالیس سال سے معتکف تھے۔ ان کو اپنے ساتھ مسجد میں بٹھا لیا۔ چھ مہینے تک حضرت نے ان سے کافی مجاہدات اور ریاضتیں کروائیں، جو کچھ ضروری تھا کروایا۔ چھ مہینے کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے فرمایا: بھئی اپنے مرید کو پرکھ لو کچھ کمی ہو تو بتانا۔ حضرت سمجھ گئے کہ تکمیل ہو گئی ہے۔ فرمایا کہ پھر آپ ان کو اجازت بھی دے دیں۔ فرمایا: بھئی اجازت تو آپ سے ہی ہو گی، اس سے سلسلہ آپ کا ہی چلے گا، جو کام میں نے کرنا تھا کر لیا۔ اب یہ کیسی بات ہے! بیعت ایک سے ہوئی، تربیت دوسرے سے ہوئی اور پھر اجازت پہلے والے سے دلوائی جا رہی ہے۔ ہمارے سلسلہ میں اس سے بھی ایک عجیب واقعہ ہے۔ جو واقعہ پہلے سنایا وہ ہمارے سلسلے کا تھا۔ لیکن جو واقعہ اب سنانے لگا ہوں یہ قریبی سلسلہ کا واقعہ ہے۔

حضرت مولانا عبد الماجد دریا آبادی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پاس بیعت ہونے کے لئے آ گئے۔ حالانکہ بڑے ہی آزاد خیال ہو گئے تھے۔ حضرت نے فرمایا: اس سے بہتر ہے کہ آپ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے بیعت ہو جائیں اور ان کو لے کر حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے پاس آ گئے۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے کہا کہ آپ ان کو بیعت فرما لیں۔ انہوں نے کہا: آپ کیوں بیعت نہیں کرتے؟ کہا حضرت میں اس قابل نہیں ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ ہم جنید و شبلی ہیں تو جنید و شبلی نہ میں ہوں نہ آپ ہیں، لیکن بیعت اور تربیت کے لئے جنید و شبلی ہونا ضروری نہیں ہے، تربیت آپ بھی کر سکتے ہیں، میں بھی کر سکتا ہوں، آپ اس کو بیعت کر لیں۔ انہوں نے کہا: حضرت آپ ہی بیعت کر لیں۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے کہا کہ اچھا پھر یوں کر لو کہ بیعت تم کر لو، تربیت میں کر لوں گا۔ لہٰذا بیعت تو حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے کروایا، جبکہ تربیت حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے کی اور بعد میں حضرت ہی کے مجاز ہوئے۔

معلوم ہوا کہ یہاں تنگ نظری والی بات ٹھیک نہیں ہے، یہ وسعت نظری کی چیزیں ہیں۔

اب اگر کوئی میرے بیٹے محمد پر محنت کر لے اور اس کو کامل کر دے تو کیا مجھے خفگی ہو گی؟ ہرگز نہیں! بلکہ مجھے تو بڑی خوشی ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی میرے مرید پر محنت کر رہا ہے اور اس کو فائدہ بھی ہو رہا ہے، عدمِ مناسبت والی بات نہ ہو کہ خراب ہونے کا خدشہ ہو، تو کیا مجھے خوشی نہیں ہو گی؟ بالکل خوشی ہو گی۔ لہٰذا یہاں تنگ نظری سے کام نہیں چلتا۔

حضرت نے فرمایا:

متن:

اور طریقت کی تعلیم دوسرے سے اور صحبت تیسرے سے رکھے اور اگر یہ تینوں نعمتیں کسی ایک ہی (پیر) سے حاصل ہو جائیں تو زہے قسمت اور جائز ہے کہ متعدد مشائخ کی تعلیم اور صحبت سے استفادہ کرے۔ جاننا چاہئے کہ پیر وہ ہے جو مرید کو حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور یہ معنی تعلیمِ طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہیں، کیونکہ پیرِ تعلیم شریعت کا بھی استاد ہے اور طریقت کا بھی رہنما ہے، بخلاف پیر خرقہ کے۔ لہٰذا پیر تعلیم کے آداب کی رعایت کو بہت زیادہ ملحوظِ رکھنا چاہئے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے۔

تشریح:

اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) جو بات فرمانے والے ہیں، یہ وہ بات ہے، جس کے بارے میں نقشبندی سلسلہ کے بہت سارے حضرات غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، لہٰذا اسے اچھی طرح سن اور سمجھ لیں۔ فرمایا:

متن:

اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضات و مجاہدات کرنا احکامِ شرعیہ کی بجا آوری اور سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام و التحییۃ کی پیروی کا التزام کرنے میں ہے، کیونکہ رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے مقصود نفسِ امارہ کی خواہشات کو ختم کرنا ہے جو اپنے مولا جل سلطانہ کی دشمنی پر قائم ہے۔ لہٰذا نفسانی خواہشوں کا دور کرنا احکامِ شریعہ کی بجا آواری پر وابستہ ہوا، اور جو شخص جس قدر شریعت میں راسخ اور ثابت قدم ہو گا اسی قدر خواہشات نفسانی سے دور ہو گا۔ لہٰذا نفسِ امارہ پر شریعت کے اوامر و نواہی کی بجا آوری سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں۔

تشریح:

حضرت فرما رہے ہیں کہ ہمارا مجاہدہ یہ ہے کہ سنت پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں، ذرہ بھر بھی آگے پیچھے نہ ہوں، اوامر و نواہی پر اچھی طرح عمل کریں، اس مسئلہ میں ہم لوگ عزیمت کے راستے کو اختیار کریں، رخصت کی طرف نہ جائیں۔ خود حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا یہ حال تھا کہ وہ چاروں اماموں کے مسلک پر عمل کرتے تھے کہ کسی امام کے خلاف بات نہ ہو۔ ہاں اگر بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ دونوں ائمہ میں ایسا اختلاف ہے کہ کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے، دوسرے پر نہیں ہو سکتا، جیسے فاتحہ خلف الامام کا عمل ہے کہ یہ بعض کے نزدیک فرض ہے، دوسرے بعض کے نزدیک حرام ہے۔ حضرت نے اس کی بھی یوں رعایت رکھی کہ جماعت خود کراتے تھے، تاکہ اس کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔ ساری عمر جماعت اس لئے خود کرائی کہ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ ہی نہ ہو۔ چمڑے کی جائے نماز پر نماز نہیں پڑھتے تھے، کیونکہ یہ امام مالک (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مسلک میں جائز نہیں تھا۔ اسی طرح جس امام کے نزدیک کوئی چیز جائز نہیں ہے، غایت احتیاط کی وجہ سے اس سے بچتے تھے۔ یہی مجاہدہ ہے اور یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ فرمایا:

متن:

لہٰذا نفسِ امارہ پر شریعت کے اوامر و نواہی کی بجا آوری سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں۔اور صاحبِ شریعت کی تقلید کے علاوہ کسی چیز میں اس نفسِ امارہ کی خرابی متصور نہیں۔ جو لوگ وہ ریاضات و مجاہدات جو سنت کی تقلید کے علاوہ اختیار کریں وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔

تشریح:

یعنی جو ریاضتیں اور مجاہدات مسنون نہیں ہیں، وہ اصل مقصود نہیں ہوتے، بلکہ محض ذریعہ ہوتے ہیں۔ اصل مطلوب تو وہی ہے، جو مسنون ہے۔ لیکن اگر مسنون ریاضتیں اور مجاہدات نہ رہیں تو پھر ان کو پیدا کرنے کے لئے اضافی مجاہدہ ہو گا، جو ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کی مثال یوں دیتا ہوں کہ جس شخص کی نظر six by six ہو، اس کو عینک کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عینک لگائے گا تو خواہ مخواہ اپنے آپ پر بوجھ ہی ڈالے گا، اپنی نظر کو خراب کرے گا۔ لیکن جس کی نظر six by six نہیں ہے، اگر اسے عینک کے ذریعہ six by six نظر حاصل ہو جائے یا اس کے قریب قریب حاصل ہو جائے تو ظاہر ہے اسے عینک کا استعمال کرنا پڑے گا، اس کی مجبوری ہے۔ اسی طرح نفس کی اصلاح کے جس مجاہدہ کی ضرورت ہے، وہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کے اعمال میں موجود ہے، انہی کو استقلال سے کرنے میں نفس کی اصلاح مضمر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اعمال آسانی سے کرتا رہے اور ان کے ذریعہ اس کی اصلاح ہو جائے تو سبحان اللہ! پھر اسے اس کے علاوہ کسی اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں، لیکن اگر ان اعمال کے ذریعہ اس کی اصلاح نہ ہو سکے، اس کے یہ اعمال درست ہی نہ ہوں یا وہ ان اعمال پر آتا ہی نہ ہو، تو نماز وغیرہ پر لانے کے لئے یا ان کو درست کرنے کے لئے اضافی مجاہدہ کی ضرورت ہو گی، جو اس عینک کی طرح ہو گا۔ یہ مجاہدہ ایک اضافی چیز ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ آپ کی نماز اس طرح بن جائے کہ تمام برائیوں سے روک سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعض اوقات اضافی مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا مجاہد مسنون اعمال میں سے تو نہیں ہوتا، لیکن مسنون اعمال پر لگا دیتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکتا، اگر وہ چند دن تک تہجد سے دو گھنٹے پہلے اٹھے تو اس کے لئے تہجد کے وقت اٹھنا آسان ہو جائے گا، یعنی بعض اوقات اضافی بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں: ع

مشکلیں ہم پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں۔

اگر آپ نفس کے اوپر اضافی بوجھ ڈالیں تو وہ اس مجاہدہ کے لئے خود بخود تیار ہو جائے گا، جس کے لئے آپ کہتے ہیں۔

اس پر ایک بہت ہی عبرت آموز واقعہ بھی ہے۔ زیادہ پرانا واقعہ نہیں، قریب ہی کچھ عرصہ پہلے کا ہے۔ ایک امریکی سفیرہ اپنے کتے کو لے کر dog center میں آئی، اس کے آنے سے کچھ دن پہلے ہی سیکورٹی سخت کر دی گئی اور کافی ہائی فائی سیکورٹی والے الارم بجنے لگے۔ dog center والے حیران ہو گئے کہ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ سفیرہ آنا چاہتی ہے، خیر وہ آ گئی، اور dog center کے بڑے عہدہ والے لوگوں سے ملاقات کی۔ وہ اپنے ساتھ ایک کتا لائی تھی، در اصل اس نے اس کا علاج کروانا تھا، کتے کا مسئلہ یہ بتایا کہ یہ مجھ سے خفا ہو گیا ہے، میری بات نہیں مانتا، اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ dog center والوں نے کہا: اس کو چھوڑ دیں ہم کوشش کر لیتے ہیں، اگر کامیاب ہو گئے تو بتا دیں گے۔ اس نے کتے کو وہاں چھوڑ دیا۔ رات کو dog center کے بڑے نے اپنے کارکنان میں سے ایک کو کہا کہ اس کتے کا آپ نے اس طریقہ سے انتظام کرنا ہے کہ اس کو زیادہ دیر بھوکا رکھنا ہے، جب اس کو کھانا کھلائیں تو تھوڑا کھانا دیں اور ساتھ دو لِتر بھی ماریں۔ کچھ دیر بعد پھر کھانا مانگے، پھر کھانا دیں اور ساتھ دو لِتر ماریں۔ پوری رات ایسا کرنا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ صبح سفیرہ کو اطلاع دی گئی کہ آپ کا کتا ٹھیک ہو گیا ہے، آپ آ کر اسے لے جائیں۔ جب وہ آئی تو کتے کو چھوڑا گیا، وہ فوراً جا کے اس کے پاؤں میں پڑ گیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے اسے کیسے ٹھیک کیا؟ کہتے ہیں: بس یہ نہ پوچھو، اتنی بات پر اکتفا کرو کہ اس کا علاج ہو گیا۔ انسان بھی بعض دفعہ ایسا کرتا ہے کہ آسانی کے ساتھ جو ملتا ہے، اس کی قدر نہیں کرتا۔ پھر اس کو مشکل میں ڈال کر وہ آسانی یاد دلائی جاتی ہے کہ یہ دیکھو تمہارے ساتھ اللہ پاک نے کتنی آسانی کی ہے۔ پھر وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ایک بات سوچ کے دیکھیں۔ آپ اس وقت جس حالت میں ہیں، کچھ لوگ جو بڑی مشکلات میں پھنسے ہوں، اگر آپ سے کہیں کہ ہمارے والی حالت تم لے لو، لیکن یہ کام کر دو۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ فوراً تیار ہو جائیں گے۔ ایسا ایک واقعہ خود میرے ساتھ ہوا ہے۔ ہمارا تیسرا سمسٹر تھا اور کمپیوٹر سائنس کا پیپر ہوا، سارے لڑکوں کا پیپر خراب ہو گیا، کیونکہ انصر پرویز صاحب نے پیپر بنایا تھا اور وہ بڑا conceptual قسم کا پیپر بناتے تھے۔ سارے لڑکوں کا پیپر خراب ہو گیا۔ ہم بھی سمجھے کہ ہمارا پیپر بھی خراب ہو گیا۔ سب طلباء بہت پریشان تھے اور پریشانی کے عالم میں طلباء جیسی احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں، وہی سب کچھ کر رہے تھے۔ کوئی چائے پی رہا ہے، کوئی مذاق کر رہے ہیں، کوئی گپ شپ اور قہقہے لگا رہے ہیں، کوئی مالٹے کھا رہے ہیں، اس طرح اپنا جی بہلا رہے ہیں۔ سب اسی میں لگے ہوئے تھے۔ ہم قریب ایک کھوکھے پر چائے پینے کے لئے گئے۔ وہاں میرے اور کلاس فیلوز بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوں گاڑیاں اندر سے جاتی تھیں، باہر والا رستہ نہیں تھا، بابا جی کا کھوکھا وہیں تھا۔ ہم ادھر بیٹھے ہوئے تھے، اچانک میرا دوست کھڑا ہو گیا۔ میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہتا ہے: یار تو تو مولوی آدمی ہے، تو نماز میں سب کچھ بھول جائے گا، میں تو فلم دیکھوں گا۔ اتنے میں اس کی گاڑی آ گئی۔ وہ اس میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس کی بات سے میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ میں نے سوچا کہ اس آدمی نے تجھ پر کتنا اچھا گمان کیا ہے۔ کیا تو اس قابل ہے کہ نماز میں سب کچھ بھول جائے گا؟ یہ بات میری سوچ میں آ گئی اور اسی میں میرا ذہن گردش کرتا رہا۔ ظہر کی نماز کا وقت آ گیا، ہم ظہر کی نماز کی تیاری کے لئے چلے گئے۔ اب راستے بھر میں یہ سوچیں چل رہی ہیں۔ سوچتے سوچتے اچانک ایک خیال آیا، میں نے کہا یہ تیسرا سمسٹر ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تیسرے سمسٹر میں پڑھائی کے لئے کامیاب نہیں ہوئے تھے، فیل ہو گئے تھے، انہیں join ہی نہیں کروایا گیا، اگر آج ان کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ اس پیپر میں فیل ہونا قبول کر لو تو ہم تمہیں لے لیتے ہیں، تو وہ کیا کریں گے؟ وہ بڑے شوق سے یہ فیل ہونا قبول کر لیں گے اور سمسٹر میں join ہو جائیں گے۔ میں نے سوچا: تجھے اللہ پاک نے اتنا دیا ہے کہ تم تیسرے سمسٹر تک پہنچ گئے ہو۔ یہ تو ایک پیپر ہی ہے، پیپر تو بعد میں بھی ٹھیک ہو سکتا ہے، کوئی ایسی بات نہیں، پھر اس میں اتنی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی برکت سے ذہن میں یہ بات آ گئی۔ اب جیسے ہی میں مسجد پہنچا تو بجائے اس کے کہ میں صلوٰۃ الحاجۃ پڑھوں، دو رکعت صلوٰۃِ شکرانہ پڑھ لی۔ ایسے موقعہ پہ صلوۃ شکرانہ پڑھنا بالکل ایک مختلف چیز تھی، جس کا میں نے تجربہ کیا، لیکن اللہ پاک نے توفیق دی صلوۃِ شکرانہ پڑھ لی۔ میں نے اتنی سریع الاثر brain washing نہیں دیکھی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری brain washing صحیح سمت میں ہو گئی اور مجھ پر یہ بات اتنی طاری ہوئی کہ میں ان لوگوں کو پاگل سمجھنے لگا جو اس پر بحث کر رہے تھے، حالانکہ آدھا گھنٹہ پہلے میری اپنی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ میں ان سے کوئی مختلف نہیں تھا، لیکن آدھے گھنٹے بعد میں ان کو پاگل سمجھ رہا ہوں کہ یہ کیا بے وقوف لوگ ہیں۔ اگلے پیپر کے لئے پڑھو اب پچھلے پر بے فائدہ بحث سے کیا ملے گا، جو ہونا تھا ہو گیا، بس ٹھیک ہے، اگلے پیپر کے لئے تیاری کرو۔ آپ کے آپس میں بحث کرنے سے اس پیپر میں ایک نمبر بھی نہیں بڑھے گا، ہاں اگلے پیپر کے لئے تیاری کرو گے تو کم از کم اس کا فائدہ ہو جائے گا۔ اس طرح میری brain washing ہو گئی۔ اب ظاہر ہے، میں تو نارمل ہو گیا، اگلے پیپر کے لئے تیاری بھی شروع کر دی۔ اگلے دن میرے پاس میرا ایک کلاس فیلو آیا اور کہا کہ سر کے پاس چلتے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہتا ہے: یار پیپر لینے ہیں۔ میں نے کہا: میں نہیں جاتا۔ کہتا ہے کہ بس تو نے میرے ساتھ جانا ہے۔ میں نے کہا: اچھا چلتے ہیں، ہم ٹیچر انصر پرویز صاحب کے پاس چلے گئے۔ ان کو بھی پتا تھا کہ یہ لوگ پیپر لینے کے لئے آ رہے ہیں، اس لئے وہ اپنے ساتھ پیپر کا پورا بنڈل لے کے باہر آئے، اس کو اس کا پیپر دے دیا اور مجھے کہتے ہیں: آپ کو بھی چاہئے؟ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے نہیں چاہئے، انصر پرویز صاحب ویسے بھی مذاق اڑاتے تھے، وہ میرا بھی مذاق اڑاتے کہ تمہیں کیوں نہیں چاہئے؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے سر! دے دیں۔ میں نے پوچھا کہ سر! کتنے لوگ پاس ہو گئے؟ کہتے ہیں: صرف پانچ۔ جب میں نے پیپر پہ دیکھا تو میں بھی ان پانچ میں تھا اور وہ دوست بھی ان پانچ میں تھا۔ میرے %70 نمبر آئے تھے۔ اب میں کبھی پیپر کو دیکھ رہا ہوں، کبھی نمبروں کو دیکھ رہا ہوں کہ نمبر ملے کیسے اور وہ بھی انصر پرویز صاحب سے! وہ تو کوئی نکتہ نہیں چھوڑتے۔ لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ مجھے 70 فیصد نمبر ملے تھے اور میں پاس ہو گیا تھا۔ یہ اللہ پاک نے (لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیدَنَّکُمْ) (ابراہیم: 7) کا معاملہ دکھایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ نعمتوں کو بڑھا دے گا۔ یہی بنیادی چیز ہے کہ اگر کوئی شخص تکلیف والی حالت میں ہے اور اپنے سے زیادہ تکلیف والی حالت کو دیکھے تو موجودہ حالت پر شکر نصیب ہو جائے گا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ دنیا میں اپنے سے کم پہ نظر ڈالو، کیونکہ دنیا عاجلہ ہے اور آخرت میں اپنے سے اوپر پہ نظر ڈالو، کیونکہ وہ آجلہ ہے۔ پھر آپ کو درست کام کرنے کی توفیق ہو گی۔

مریدوں کے لئے ضروری آداب و شرائط:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 221 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

جاننا چاہئے کہ صحبتِ (شیخ) کے آداب کی رعایت اور شرائط کو مدِّنظر رکھنا اس راہ کی ضروریات میں سے ہے تاکہ افادہ اور استفادہ کا راستہ کُھل جائے، ورنہ (آداب کی رعایت کے بغیر) صحبت سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہو گا اور اس کی مجلس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا (اس لئے) بعض ضروری آداب و شرائط لکھے جاتے ہیں، گوشِ ہوش سے سننے چاہئیں:

جان لیں کہ طالب کو چاہئے کہ اپنے’’چہرۂ دل‘‘ کی تمام اطراف و جوانب سے ہٹا کر اپنے مرشد کی طرف متوجہ کرے اور پیر کی خدمت میں رہتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر نوافل و اذکار میں بھی مشغول نہ ہو۔

تشریح:

یہ بات بعض لوگوں کو کافی گراں محسوس ہوتی ہے۔ بالخصوص جب اعتراض کرنے والے اس قسم کی باتیں سنتے ہیں تو ان کی بڑی عیش ہو جاتی ہے۔

متن:

اور نہ ہی اس کے حضور میں اس کے علاوہ کسی اور کی طرف التفات کرے، اور پوری طرح اسی کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا ر ہے حتیٰ کہ جب تک وہ حکم نہ کرے ذکر میں بھی مشغول نہ ہو۔ اور اس کی خدمت میں رہتے ہوئے نمازِ فرض و سنت کے علاوہ کچھ ادا نہ کرے۔

تشریح:

حضرت صوفی محمد اقبال صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے مجھے یہ بات سمجھائی تھی۔ سارے مشائخ یہی بات کرتے ہیں، اس میں دو رائے نہیں ہیں۔ فرمایا: آپ شیخ کے پاس نفس کی اصلاح کے لئے آئے ہیں، اور نفس کی اصلاح فرض عین ہے، جب فرض عین کا وقت ہو تو آپ کو ایسا کوئی نفلی کام نہیں کرنا چاہئے، جس کا شیخ نے حکم نہ دیا ہو۔ آپ اس وقت اپنے شیخ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا جو حصہ شیخ کے قلب میں آپ کے لئے ڈالا ہے، اگر اس وقت آپ نے وصول نہیں کیا تو وہ رہ جائے گا، اس سے اعراض کرنا کافی مہنگا پڑ جائے گا۔ لہٰذا شیخ کے قلب کی طرف متوجہ رہو تاکہ جو آپ کا حصہ اس کے دل میں آپ کے لئے آ رہا ہے، وہ آپ کو وقت پر مل جائے۔ دینے والی ذات تو اللہ ہی کی ہے، لیکن وہ آپ کو جس ذریعہ سے دے رہا ہے، اس وقت آپ اس ذریعہ کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہ ہوں، تاکہ آپ کا حصہ آپ کو مل جائے۔

متن:

سلطانِ ایں وقت (جہانگیر) کا واقعہ منقول ہے کہ اس کا وزیر اس کے سامنے کھڑا تھا اسی اثناء میں اتفاقاً وزیر کی نظر اس کے اپنے کپڑے پر پڑی اور وہ اس کے بند کو اپنے ہاتھ سے درست کرنے لگا۔ اسی حال میں تھا کہ اچانک بادشاہ کی نظر وزیر پر پڑگئی کہ وہ اس کے غیر (یعنی اپنے کپڑے) کی طرف متوجہ ہے، تو بادشاہ نے نہایت عتاب آمیز لہجہ میں کہا کہ’’ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ میرا وزیر میرے حضور میں اپنے کپڑے کے بند کی طرف توجہ کرے’’ سوچنا چاہئے کہ جب کمینی دنیا کے وسائل (مثلاً بادشاہ) کیلئے چھوٹے چھوٹے آداب ضروری ہیں تو وصول الی اللّٰہ کے وسائل (مثلاً پیر) کے لئے ان آداب کی کامل درجہ رعایت نہایت ہی ضروری ہو گی۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو سکے ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کر اس کا سایہ پیر کے کپڑے یا سایہ پر پڑے اور اس کے مصلّے پر پاؤں نہ رکھے

تشریح:

مشائخ نے یہ باتیں لکھی ہیں۔ اعتراض کرنے والے لوگ اس قسم کی باتوں کا بڑا مذاق اڑاتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ”فیضِ شیخ“ میں یہ ساری چیزیں لکھی ہیں۔ مجھے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمة اللہ علیه نے اجازت دی تھی کہ رسالہ ’’ام امراض‘‘ اور ’’فیض شیخ‘‘ پڑھ لوں۔ حضرت صوفی صاحب نے خود فرمایا کہ مجھ سے میرے شیخ مولانا زکریا صاحب نے پوچھا کہ یہ جو کتاب میں لکھا ہے کہ ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ آپ کا سایہ اپنے شیخ کے اوپر پڑے، اسی طرح آپ ان کے مصلے کے اوپر پاؤں نہ رکھیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ فیض کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ فیض اتنی نازک چیز ہے کہ ذرا سی بے توجہی سے روٹھ سکتا ہے، اس وجہ سے تمام چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه نے بھی اس کا ایک اور رنگ میں ذکر فرمایا ہے: فرمایا کہ جو حال اللہ کی طرف سے آئے، وہ بڑا نازک مہمان ہوتا ہے۔ ذرا سی بے توجہی سے روٹھ سکتا ہے اور ختم ہو سکتا ہے۔

متن:

اور اس کے مصلّے پر پاؤں نہ رکھے اور اس کے وضو کی جگہ پر وضو نہ کرے اور اس کے خاص برتنوں کو استعمال نہ کرے اور اس کے حضور میں پانی نہ پئے، کھانا نہ کھائے اور نہ کسی سے گفتگو کرے بلکہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔ اور پیر کی غیبت (غیر موجودگی) میں جہاں پیر رہتا ہے اس جگہ کی طرف پاؤں نہ پھیلائے، اور نہ اس کی طرف تھوکے اور جو کچھ پیر سے صادر ہو اس کو صواب (درست) جانے اگرچہ بظاہر درست معلوم نہ ہو وہ جو کچھ کرتا ہے الہام سے کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے اذن سے کرتا ہے لہٰذا اس صورت میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

تشریح:

یہ بڑی مشکل بحث ہے، اس پہ میں تفصیل سے بات نہیں کر سکتا، لیکن مجھے کم از کم شرح صدر ہے کہ ایسا ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ پیر کی ایک غلطی بھی مرید کے لئے اصلاح کا باعث بنتی ہے۔ وہ غلطی اس سے اس لئے کرائی جاتی ہے تاکہ مرید کی ایک خاص چیز درست ہو جائے۔ مثلاً وہ بہت زیادہ نکتہ چیں ہے تو اسی نکتہ چینی کی کیفیت کو ایک محبوب سے کروا کے یہ نکتہ چینی دور کروائی جاتی ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہے، کیونکہ اصل فیصلہ مجموعی اعمال پر ہے، ایک آدھ چھوٹے عمل پر نہیں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ 0 فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ 0 وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ 0 فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ﴾ (القارعۃ: 6-10)

ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے۔ تو وہ من پسند زندگی میں ہو گا۔ اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہو گا‘‘۔

نکتہ چیں آدمی کی نظر صرف عیب والے عمل پہ ہوتی ہے وہ صرف عیب کو دیکھتا ہے اور اپنے خیال میں اس کو کم سمجھنے لگتا ہے۔ نتیجتاً خود اپنی حیثیت سے گر جاتا ہے۔ لہٰذا بعض دفعہ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں کہ ان سے بھی اس قسم کے کام کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ سنبھل جائے اور ان چیزوں سے باز آئے۔ پیر جو کچھ کرتا ہے، الہام سے کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے اِذن سے کرتا ہے، لہٰذا اس صورت میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

متن:

اگرچہ بعض صورتوں میں اس کے الہام میں خطا کا ہونا ممکن ہے لیکن "خطائے الہامی" خطائے اجتہادی کے مانند ہے۔

تشریح:

میں مکتوبات شریفہ کا درس دیتے ہوئے پہلے بھی بہت ڈرتا تھا اور اب بھی ڈرتا ہوں کہ یہ بہت بڑے لوگوں کی باتیں ہیں، کہیں میں اپنی طرف سے اس میں کوئی بات کر لوں اور پتا نہیں کیا سے کیا ہو جائے۔ حضرت کی طرف سے ارشاد ہوا کہ ڈرنا نہیں ہے، اول تو اللّٰہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے اور اگر خطا ہو بھی گئی تو وہ خطا اجتہادی ہو گی، جس پہ اجر ہی ملتا ہے۔ یعنی آپ اندازہ کر لیں تسلی کہاں سے کرائی جا رہی ہے۔ یہاں بھی حضرت یہی فرما رہے ہیں کہ اگر غلطی ہو بھی گئی تو وہ خطا اجتہادی ہو گی اور خطائے اجتہادی پہ اجر ہوتا ہے۔

متن:

اس پر ملامت و اعتراض جائز نہیں۔ اور نیز چونکہ اس مرید کو اپنے پیر سے محبت پیدا ہو چکی ہے اس لئے جو کچھ محبوب (پیر) سے صادر ہوتا ہے محب (مرید) کی نظر میں محبوب دکھاتی دیتا ہے لہٰذا اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔

کھانے پینے، پہننے، سونے اور طاعت کرنے کے ہر چھوٹے بڑے کاموں میں پیر ہی کی اقتدا کرنی چاہئے نماز کو بھی اسی کی طرز پر ادا کرنا چاہئے اور فقہ کو بھی اس کے عمل سے اخذ کرنا چاہئے۔

آں را کہ در سرائے نگار یست فارغ است

از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار

(جو شخص ہو نگار کے گھر سب ہے اس کے پاس، باغ اور لالہ زار کی حاجت نہیں اسے)

اور اس (پیر) کی حرکات و سکنات پر کسی قسم کے اعتراض کو دخل نہ دے اگرچہ وہ اعتراض رائی کے دانے کے برابر ہو کیونکہ اعتراض سے سوائے محرومی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ بد بخت وہ شخص ہے جو اس بزرگ گروہ کا عیب بیں ہے (عیب دیکھنے والا) اللّٰہ تعالیٰ ہم کو اس بلائے عظیم سے بچائے۔ اور اپنے پیر سے خوارق و کرامات طلب نہ کرے اگرچہ وہ طلب خطرات (قلبی) اور وساوس کے طریق پر ہوں۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ کسی مومن نے اپنے پیغمبر سے معجزہ طلب کیا ہے (یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا) معجزہ طلب کرنے والے کافر اور منکر لوگ ہوتے ہیں۔

تشریح:

دیکھو کتنی بڑی دلیل دی ہے۔ ہمارے ذہن میں ایسی دلیل کبھی نہ آئی ہو گی کہ معجزہ ہمیشہ کافروں نے مانگا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو جھاڑ پڑتی تھی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتے تھے دے دیتے تھے لیکن جو مانگتے تھے ان کو جھاڑ پڑتی تھی۔ جبکہ مسلمان ایسا کبھی نہ کرتے تھے کیونکہ ان کے لئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک ہی کافی تھا۔ ان سے تو کبھی تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کبھی کسی نبی سے معجزہ طلب کریں۔ اسی طرح مرید کو بھی شوق نہیں ہوتا کہ میرے پیر سے کوئی کرامت ظاہر ہو۔ اس کے لئے وہ محبت سب سے بڑی چیز ہے، جو اللہ پاک نے اس کے دل میں ڈالی ہے۔ اس سے بڑی چیز اور کیا ہو سکتی ہے، وہ اسی کے ذریعہ سے سب کچھ مان لیتا ہے، اس کو کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی۔

معجزات از بہر قہر دشمن است

بوئے جنسیت پئے دل بردن است

موجب ایماں نباشد معجزات

بوئے جنسیت کند جذب صفات

(معجزہ ہے عجز دشمن کے لئے

اپنے اپنایت سے ہیں اپنے بنے

موجب ایماں نہیں ہیں معجزات

بلکہ اپنایت سے ہے جذب صفات)

اگر دل میں کسی قسم کا شبہ پیدا ہو تو اس کو بلا توقف (پیر کی خدمت میں) عرض کر دے (پھر بھی) اگر حل نہ ہو تو اپنی تقصیر سمجھے اور پیر کی طرف کسی قسم کی کوتاہی یا عیب و نقص منسوب نہ کرے اور جو واقعہ بھی ظاہر ہو پیر سے پوشیدہ نہ رکھے اور واقعات کی تعبیر اسی سے دریافت کرے اور جو تعبیر خود طالب پر منکشف ہو وہ بھی عرض کر دے، اور صواب و خطا کو اسی سے طلب کرے۔ اور اپنے کشفوں پر ہرگز بھروسہ نہ کرے کیونکہ اس دارِ (فانی) میں حق باطل کے ساتھ ملا ہوا ہے اور خطا صواب کے ساتھ ملی جُلی ہوئی ہے اور بے ضرورت اور بلا اجازت اس سے جدا نہ ہو، کیونکہ اس کے غیر کو اس کے اوپر اختیار کرنا ارادت کے منافی ہے اور اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کرے اور بلند آواز سے اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے بے ادبی میں داخل ہے اور ظاہر و باطن میں) جو فیض و فتوح اس کو پہنچے اس کو اپنے پیر ہی کے ذریعے سمجھے، اور اگر واقعہ میں دیکھے کے فیض دوسرے مشائخ سے پہنچا ہے اس کو بھی اپنے پیر ہی سے جانے اور یہ سمجھے کہ چونکہ پیر تمام کمالات و فیوض کا جامع ہے اس لئے پیر کا خاص فیض مرید کی خاص استعداد کے مناسب اس شیخ کے کمال کے موافق جس سے یہ صورتِ افاضہ ظاہر ہوئی ہے مرید کو پہنچا ہے، اور وہ پیر کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جو اس فیض سے مناسبت رکھتا ہے اور اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

تشریح:

یہ سمجھنے والی باتیں ہیں۔ اگر کسی اور پیر سے فائدہ ہو رہا ہے تو یہ بھی اسی پیر کی قبولیت کی علامت ہے کہ اس کے مرید کے لئے اللہ پاک نے انتظام کر دیا۔ جیسے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمة اللہ علیه نے میری قدر کی، میرے ساتھ شفقت کی اور محبت کا معاملہ فرمایا، وہ حضرت مولانا اشرف صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ہی کی برکت تھی۔ اگر میں مولانا صاحب کے تعلق کے بغیر حضرت کے پاس جاتا تو کیا ایسا ہوتا؟ پھر ایسا نہ ہوتا، اب اگر میں کہوں کہ مجھ میں اتنا کمال تھا کہ حضرت صوفی اقبال صاحب نے مجھے اپنی تربیت میں لیا، تو ظاہر ہے میرے اندر کوئی کمال نہ تھا، ہاں اللہ کا فضل تھا اور مولانا صاحب رحمة اللہ علیه کی برکت تھی۔ اس لئے فرمایا: وہ پیر کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے، جو اس فیض سے مناسبت رکھتا ہے اور اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

متن:

ابتلا و آزمائش کی وجہ سے مرید نے اس کو دوسرا شیخ خیال کیا ہے او فیض کو اس کی طرف سے جانا ہے یہ بڑا بھاری مغالطہ ہے۔ حق سبحانہٗ اس لغزش سے محفوظ رکھے اور سید البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل پیر کے ساتھ حسنِ اعتقاد اور اس کی محبت پر ثابت قدم رکھے (آمین)۔

غرض الطَّرِیقُ کُلُّہُ اَدَب (طریقت سراپا ادب ہے) مثل مشہور ہے کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچا۔ اور اگر مرید بعض آداب کے بجالانے میں اپنے آپ کو عاجز جانے اور ان کو کماحقہ ادا نہ کرسکے اور کوشش کرنے کے بعد بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکے تو قابلِ معافی ہے لیکن اس کو اپنے قصور کا اقرار ضروری ہے اور اگر اعاذنا اللّٰہ سبحانۂ آداب کی رعایت بھی نہ کرے اور اپنے آپ کو قصور وار بھی نہ جانے تو وہ ان بزرگوں کی برکات سے محروم رہتا ہے۔

تشریح:

یعنی اگر انسان کمزور ہے اور عمل نہیں کر سکتا تو یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ میں کمزور ہوں، اس وجہ سے مجھے اللہ پاک سے معافی چاہئے اور اللہ تعالیٰ میرے حال پر کرم کی نظر فرما دے، مجھے توفیق سے نوازے تاکہ میں ایسا کر سکوں۔ یہ احساس رکھ کر اللہ سے مانگا جائے تو پھر اللہ دیتا بھی ہے۔

ایک دفعہ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمة اللہ علیه، حضرت مولانا یحییٰ مدنی صاحب رحمة اللہ علیه اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب رحمة اللہ علیه، تینوں مدینہ منورہ میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور روحانیت کا بازار گرم تھا، بات چیت ہو رہی تھی، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے، کسی مسئلہ پر انہوں نے ایک بات کی، جس کے بارے میں مجھے کچھ معلومات تھیں، میں نے اپنی معلومات پیش کر دیں۔ ان کی معلومات میں اور ہماری معلومات میں فرق تھا۔ میں نے جن سے سنا تھا ان کا حوالہ بھی دیا، مولانا یحییٰ مدنی صاحب ان کو نہیں جانتے تھے، وہ چپ ہو گئے، بات ختم ہو گئی۔ لیکن میرے دل پہ بڑا بوجھ تھا کہ خواہ مخواہ میں نے بزرگوں کی بات میں دخل در معقولات کر کے اچھا نہیں کیا، ساری رات طبیعت پریشان رہی۔ صبح میں سلام پڑھنے کے لئے جا رہا تھا اور حضرت صوفی اقبال صاحب رحمة اللہ علیه سلام پڑھ کے واپس آ رہے تھے۔ (اس وقت تک صوفی اقبال صاحب نے مجھے اجازت نہیں دی تھی، یہ بہت پہلے کا واقعہ ہے) حضرت صوفی صاحب اپنی بائیں طرف چل رہے تھے، جیسے مسنون طریقہ ہے اور میں اپنی دائیں طرف چل رہا تھا، یعنی میں ایک طرف تھا، وہ دوسری طرف تھے۔ میں نے حضرت کو دیکھا تو میں کراس کر کے حضرت کے پاس پہنچ گیا، اور سلام کر کے عرض کیا کہ حضرت ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: کہو بیٹا کیا بات ہے؟ میں نے کہا: حضرت کل کی بات سے میری طبیعت پہ بڑا بوجھ ہے، میں نے آپ لوگوں کی بڑی بے ادبی کی ہے، مجھے آپ لوگ معاف کر دیں، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ حضرت بہت خوش ہوئے۔ فرمایا: اصل میں یہی ادب ہے کہ اپنے آپ کو با ادب نہ سمجھا جائے۔ جو اپنے آپ کو با ادب سمجھے، وہی بے ادب ہے۔ یہ اصل ادب ہے۔ حضرت بہت خوش ہوئے اور بڑی دعائیں دیں۔ یہ حضرات بڑے کھلے دل کے ہوتے ہیں، لیکن ہم لوگ کم از کم اپنے آپ کو قصور وار تو سمجھیں۔ اب دیکھیں قصور وار سمجھنے میں میرا کیا چلا گیا! مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا، فائدہ ہی ہوا، کیونکہ حضرت نے شفقت فرمائی اور ما شاء اللہ محبت فرمائی۔ اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک آدمی اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا ہے تو اللہ کی طرف سے بھی عنایت ہوتی ہے اور بزرگوں کی طرف سے بھی ما شاء اللہ توجہ ہوتی ہے، لیکن اگر اپنے آپ کو حق پر سمجھے تو پھر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

احوال و واقعات شیخ کی خدمت میں ظاہر کرنے کی ترغیب:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 223 میں فرماتے ہیں:

متن:

برادرم خواجہ جمال الدین حسین نے ایک مدت سے اپنے احوال کی کیفیات سے مطلع نہیں کیا۔ کیا آپ نے نہیں سُنا کہ مشائخ کُبرویہ اُس مرید کو جو تین دن تک اپنے احوال و واقعات شیخ کی خدمت میں پیش نہ کرے’’ کفِ پائے‘‘ (پاؤں کا تلوا، یا چپّل) کہتے ہیں۔ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا، آئندہ ایسا نہ کریں اور جو کچھ ظاہر ہوتا رہے اس کو لکھتے رہا کریں۔

تشریح:

اس عبارت میں کسی پہ اپنے احوال بیان نہ کرنے پہ گرفت فرمائی ہے۔

طریقہ عالیہ میں نئی نئی باتیں نکالنے والوں کی مذمت:

حضرت جب طریقہ عالیہ کہتے ہیں تو مراد طریقہ عالیہ نقشبندیہ ہوتا ہے۔

دفتر اول مکتوب نمبر 131 میں فرماتے ہیں:

متن:

ہاں بعض خلفائے متاخرین نے اس طریقہ عالیہ میں بعض اختراعات (نئی نئی باتیں) نکال لی ہیں اور اکابرین کی اصل راہ چھوڑ دی ہے۔ ان کے مریدوں کی ایک جماعت اس کا اعتقاد رکھتی ہے کہ ان نئی اختراعات سے اس طریقے کی تکمیل ہو گئی ہے۔ حَاشَا وَکَلَّا (خدا کی پناہ ایسا نہیں ہے) ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ﴾ (الکہف: 6) (کتنی بڑی بات ہے جو ان کے منھ سے نکل رہی ہے) بلکہ انہوں نے (سلسلہ کی) تخریب اور ضائع کرنے میں کوشش کی ہے۔ افسوس ہزار افسوس کہ بعض وہ بدعات جو دوسرے سلسلوں میں بھی ہرگز موجود نہیں۔ اس طریقہ عالیہ میں جاری کر دی ہیں۔

تشریح:

اس بات کی کچھ تشریح عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اصلاح کے طریقہ میں تبدیلی تو ہوتی رہے گی کیونکہ یہ ایک طریقہ کار ہے اور طریقہ کار تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن دین میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ دین میں تبدیلی کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔﴾ (المائدہ: 3)

ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا‘‘۔

لہٰذا دین مکمل ہو گیا ہے اس میں کسی سلسلہ کو تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ کوئی سلسلہ اس کا مجاز ہی نہیں ہے۔ کوئی عالم بھی دین میں تبدیلی نہیں کر سکتا، شیخ کیا کرے گا۔ امام بھی نہیں کر سکتا۔ دین تو اپنے طور پہ قائم ہے۔ لہٰذا یہاں تبدیلی سے مراد طریقہ کار کی تبدیلی ہے۔ طریقہ کار کی تبدیلی کئی دفعہ ہو چکی ہے۔ خود حضرت مجدد الف ثانی صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے کئی تبدیلیاں کی ہیں، حضرت شیخ عبد الخالق عجدوانی صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی کئی تبدیلیاں کی ہیں، پھر خواجہ عبید اللہ احرار (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی طریقہ کار میں کئی تبدیلیاں کی ہیں، پھر اس کے بعد سید صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہوتی رہیں گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاج کا ایک طریقہ کار ہے اور علاج کے ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی لازمی ہوتی ہے۔ البتہ دین میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ فرمایا:

متن:

(مثلاً) نماز تہجد جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور قرب و جوار کے لوگ بھی نماز تہجد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور نہایت اطمینان کے ساتھ (نماز تہجد باجماعت) ادا کرتے ہیں حالانکہ کراہتِ تحریمہ کے ساتھ یہ عمل مکروہ ہے۔

تشریح:

لوگوں نے اپنی اپنی دکان داری سجائی ہوئی ہے اور اپنی نئی نئی باتیں پیدا کر دی ہیں۔

دفتر اول مکتوب 168 میں فرماتے ہیں:

متن:

لیکن اس زمانے میں وہ نسبت شریفہ عنقاء مغرب (یعنی مخفی ہو گئی ہے اور پوشیدگی میں منھ چھپا لیا ہے (اس گروہ میں سے) ایک جماعت نے اس دولت عظمیٰ کے حاصل نہ ہونے اور اس نعمت عالیہ کے فقدان کی وجہ سے چاروں طرف اپنے ہاتھ پاؤں مارے ہیں (یعنی متلاشی رہے ہیں) اور نفیس جواہر کو چھوڑ کر مٹی کی چند ٹھیکریوں کو حاصل کر کے خوش ہو گئے ہیں اور بچوں کی طرح اخروٹ و منقی پر مطمئن ہو گئے اور اپنے بزرگوں کے طریقے کو چھوڑ کر کمال بے قراری اور حیرانی میں کبھی ذکر جہر سے تسلی حاصل کرتے ہیں اور کبھی سماع و رقص میں آرام ڈھونڈتے ہیں۔ چونکہ ان کو خلوت در انجمن میسر نہیں ہے اس لئے وہ خلوت کا چلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ان بدعات کو اس نسبت شریفہ کا متمم و مکمل خیال کر لیا ہے اور اس بردبادی کو عین آبادی سمجھ لیا ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ ان کو (صحیح اور غلط) سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس طریقہ کے اکابرین کے کمالات کی ذرہ سی خوشبو ان کی جان کے دماغ میں پہنچا دے۔

تشریح:

یہاں پر دو باتیں خلط ملط ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر سلسلہ کا اپنا ایک انداز اور طریقہ کار ہوتا ہے، جیسے ایلو پیتھی کے اپنے کچھ اصول ہیں، ہومیو پیتھی کے اپنے کچھ اصول ہیں، حکمت کے علاج کے اپنے اصول ہیں اور آکیو پنکچر کے اپنے اصول ہیں۔ اگر آپ ایک جز ایلو پیتھی سے لے لیں، دوسرا ہومیو پیتھی سے، تیسرا آکیو پنکچر سے اور چوتھا حکمت سے، تو علاج نہیں ہو پائے گا۔ لہٰذا روحانیت میں طریقہ کار میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے، البتہ ایک نیا طریقہ نکالا جا سکتا ہے۔ مثلاً بارہا تجربے سے کسی شخص نے یہ تحقیق کر لی کہ اگر سالک پہلے مرحلہ پر ذکر جہری سے خلوت در انجمن سیکھے۔ (یہ میں بہت بڑی بات عرض کر رہا ہوں، الحمد للہ۔ یہ علمی بات ہے۔) خلوت در انجمن نقشبندی سلسلہ کی چیز ہے، مثلاً گرمیوں میں پنکھے چلتے ہیں، پنکھے کی آواز سے لوگ مانوس ہوتے ہیں، باہر جو بچوں کا شور ہو رہا ہو، وہ عموماً انسان تک نہیں پہنچتا۔ ہمارے گھر کی خواتین بچوں کو سلانے کے لئے ایگزاسٹ فین چلا دیتی ہیں، اس کے شور کے ساتھ بچے مانوس ہیں، تو باہر کا شور ان کی نیند میں خلل انداز نہیں ہوتا، وہ سوتے رہتے ہیں۔ اس شور نے آپ کو باہر کے شور سے منقطع کر دیا تو یکسوئی پیدا ہو گئی۔ جس وقت بجلی چلی جاتی ہے اور پنکھے بند ہو جاتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ باہر تو بڑا شور ہے، حالانکہ جس وقت پنکھے چل رہے تھے، تب پتا نہیں چل رہا تھا کہ باہر اتنا شور ہے۔ کیونکہ پنکھے کے شور کے ساتھ آپ مانوس تھے۔ اسی طریقہ سے اگر کوئی یہ تحقیق کرے کہ آج کل انتشار قلبی بہت ہے، جس کی وجہ سے مراقبہ بہت مشکل ہو گیا ہے، اکثر لوگوں کا نہیں ہو پاتا، ایسی صورت میں اگر پہلے تھوڑی دیر کے لئے ذکر جہری کرائیں، پھر اس یکسوئی کی وجہ سے وہ مراقبہ کی طرف متوجہ ہو جائے، تو کام جلدی ہو جائے گا۔ اب کسی شخص نے اس تحقیق کو حاصل کر کے، راہ سلوک طے کرنے کے ذرائع میں اس کو بھی شامل کر لیا، اور وقتی طور پر بنیاد بنایا، تو بالکل ٹھیک ہے۔ کیونکہ طریقہ کار میں تبدیلی یا کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

اب اگر کوئی اس طریقہ کو باقی مراحل کے لئے بنیاد بنا دے اور اس بنیاد پر نقشبندی سلسلہ کا کام آسان ہو جائے، تو یہ آج کل کے دور کی مشکلات سے نکلنے کے لئے ایک ترکیب ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر اس نئے طریقے کو مستقل بنیاد بنا لے اور سلسلہ کی اصل چیزیں چھوڑ دے تو یہ اس نظام ہی کو تبدیل کرنے والی بات ہو گی۔ حضرت نے ان باتوں سے روکا ہے، کیونکہ اس سے اپنی انفرادیت اور طریقہ کار، جس کے ذریعے سے فائدہ ہوتا ہے، باقی نہیں رہتا۔

الله جل شانهٗ ہم سب کو صحیح طریقوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ