20200824_QA480 مجلس سوال و جواب 480 - خانقاہ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے، پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات کئے جاتے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال 1:
السلام علیکم حضرت جی میرا نام فلاں ہے میں راولپنڈی سے ہوں، آپ نے جو ایک ماہ کا لطیفۂ قلب دیا تھا وہ مکمل ہو گیا ہے اس میں مجھے دل میں کبھی اللہ اللہ ہوتے ہوئے محسوس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا؟
جواب:
پندرہ منٹ کے لیے آپ کو جو دل کا مراقبہ دیا تھا اس کو فی الحال ایک مہینہ مزید جاری رکھیں تاکہ مستقل طور پر یہ محسوس ہونے لگے۔ ان شاء اللہ اگلے مہینے پھر دیکھیں گے کہ اس کی کیا صورت حال ہے۔
سوال 2:
السلام عليکم شاه صاحب الحمد لله زما دا سبق پوره شو۔ دوه سوه ځله، شپږ سوه ځله اؤ پنځه سوه ځله۔ اؤ پهٔ زړهٔ مې پنځلس منټه مراقبه وه الحمد لله محسوس کيږي خو کله آواز ورک شي اؤ کله بيا واپس راشي مطلب کله صحيح محسوس کيږي اؤ کله سلو۔ ماشاء الله الحمد لله کار شورو شو تاسو دا يو مياشت نور هم وکړئ چې کله دا پوخ شي نو بيا به پهٔ دې ان شاء الله خبره کوؤ
جواب:
ماشاءاللہ، الحمد للہ۔
سوال 3:
السلام علیکم حضرت جی محترم! آپ نے آج کے بیان میں اہل بیت کی اہمیت کو بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا۔ حضرت جی کچھ سوالات ذہن میں آئے ہیں وہ تمام لوگ جو سید ہیں اہل بیت ہیں مگر ان میں سے چند کے اعمال اور طرز زندگی شریعت کے مطابق نہیں ہوتی یعنی بدعت وغیرہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلاً میں نے کچھ سید دیکھے ہیں جو خود کو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ فقہ جعفریہ والوں کے ساتھ محرم الحرام کی مجالس وغیرہ میں بھی شریک ہوتے ہیں اور ان کو میں نے قبر چومتے ہوئے بھی دیکھا ہے تو کیا پھر بھی ایسے لوگوں کو ہمیں اہل بیت کی طرح اہمیت دینی چاہیے؟ جزاک اللہ خیرا! آپ کی دعاؤں کی طلب گار۔
جواب:
شاید آپ کے اس سوال کا اثر تھا کہ آج یہ سوال مجھ سے صبح کی مجلس میں بھی کیا گیا جو نماز کے بعد ہمارا عمومی طور پر سوال و جواب کی صورت میں سیرت کے مطالعہ کے طور پر ہوتاہے اس عنوان سے، اور الحمد للہ اس کا میں نے تفصیلی جواب دے دیا ہے آپ اس کو سن لیں ان شاء اللہ آپ کو اس کا جواب تفصیلی مل جائے گا۔ البتہ مختصراً میں عرض کر دیتا ہوں یا دوبارہ میں کہہ دیتا ہوں کہ نسب جو ہوتا ہے یہ تو غیر اختیاری ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کون سے نسب میں پیدا کریں۔ اس وجہ سے نہ یہ کمال کی بات ہے اپنے طور پر اور نہ انکار کی بات ہے، البتہ یہ ہے کہ ایک نسبت کی بات ہے اس وجہ سے اس نسبت کی جو قدر کرتے ہیں اس کو اس کا فائدہ مل جاتا ہے۔ ہمارے اکابر نے اس کے ساتھ جو معاملہ کیا ہے اس کی میں نے ایک مثال دی ہے: حضرت شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے اور وہ معتکف تھے چالیس سال تک قرآن پاک کا ترجمہ اس میں کیا تھا ان کا یہ کشف ہوتا تھا کہ وہ سید کے لئے اٹھتے تھے اور کسی اور کے لئے نہیں اٹھتے تھے تو ان کو پتا چل جاتا کہ یہ سید ہیں تو ایک شیعہ نواب تھے تو اس نے کہا کہ سنا ہے کہ شاہ صاحب اس طرح کرتے ہیں تو میں اپنے آپ کو test کر لیتا ہوں کہ آیا میں سید ہوں یا نہیں تو میں جاتا ہوں دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کرتے ہیں جب وہاں شاہ صاحب سے ملنے کے لئے گئے تو ان کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس پر حضرت سے اس نواب صاحب نے کہا حضرت مجھے الحمد للہ پتا چل گیا کہ میں سید ہوں اس پر تو مجھے خوشی ہے لیکن اس پر میں حیران ہوا کیونکہ اگر آپ کو اتنا تیز کشف ہے تو کم از کم آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ میں تو شیعہ ہوں جبکہ آپ شیعہ نہیں ہیں تو آپ نے پھر میرا کیوں اکرام کیا؟ اس پر حضرت نے فرمایا کہ دیکھو قرآن پاک میں اگر غلط آیتیں لوگ شامل کر لیں تو کیا ان غلط آیتوں کی وجہ سے قرآن کی صحیح آیتوں کی بے ادبی کر سکتے ہیں؟ تو اس نے کہا نہیں کر سکتے، انھوں نے کہا بس آپ کا عقیدہ صحیح نہیں ہے اس وجہ سے میں اس کو نہیں مانتا لیکن آپ کا نسب صحیح ہے اس کا میں اکرام کرتا ہوں۔ اس کو سن کر ماشاءاللہ وہ اہل سنت و الجماعت میں ہو گئے پھر بعد میں انھوں نے بڑا کام کیا اور ماشاءاللہ انھوں نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی۔ سادات کا جو اکرام ہے اس کا اپنا ایک فائدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں، البتہ ان کے عقیدے اگر غلط ہیں تو نہیں لینے چاہیے جیسے ان بزرگ نے کیا۔ اسی طرح ان کے غلط کاموں کو بھی نہیں لینا چاہیے۔ جیسے والدین کا بہت احترام بتایا گیا قرآن پاک میں لیکن ساتھ یہ فرمایا کہ اگر آپ کسی ایسی چیز کا حکم دیں جس کا آپ کے پاس علم نہ ہو تو آپ ان کی بات نہ مانیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کا احترام اپنی جگہ پر لیکن شریعت کے مقابلے میں ان کی بات کی کوئی حثیت نہیں ہو گی۔ اس طرح جو سادات ہیں تو ان کا احترام اپنی جگہ پر لیکن شریعت کے خلاف ان کی بات کو نہیں مانا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ بات کافی ہے باقی تفصیلی بیان پھر آپ بعد میں سن لیجئے گا۔
سوال 4:
السلام علیکم شاہ صاحب میرا ذکر مراقبہ ثبوتیہ اللہ کے فضل سے مکمل ہو گیا الحمد للہ۔ اللہ پاک ہی جب سارے فیصلے کرتے ہیں میری زندگی کے، کیونکہ مالک ہیں تو مجھے tension لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ اللہ تو محبت کرنے والا اور حکمت والا ہے، اس خیال سے دل کو تسلی اور دماغ کو سکون ملا ہے الحمد للہ۔ اللہ پاک آپ کو ہماری طرف سے بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب:
ماشاءاللہ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اب جو مراقبہ شیونات ذاتیہ والا ہے اس کا آپ نے مراقبہ کرنا ہے۔ اور وہ مراقبہ فیض ہے یعنی اللہ پاک کی شان ہر وقت بدل رہی ہے اور اس کی شان سب سے اونچی ہے تو اس کا جو فیض ہے وہ آپ ﷺ کے قلب مبارک میں آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے دل میں آ رہا ہے اور میرے شیخ کے دل سے میرے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔ آپ اس کو ایک مہینہ کریں ان شاء اللہ، اس کے بعد مجھے اطلاع کر دیں۔
سوال 5:
السلام علیکم شاہ صاحب میں کبھی کبھی بہت نا امید ہو جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ میرے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں ہو گا پھر نوافل پڑھ لیتی ہوں تو تھوڑا سکون مل جاتا ہے، کچھ وقت بعد پھر وہی حال ہو جاتا ہے اکثر اوقات منفی سوچ رہتی ہے کہ میرے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے اور یہ کہ مجھ جیسے انسان کے ساتھ برا ہی ہونا ہے، آپ اصلاح فرما دیں؟
جواب:
جی ہاں میں تو وہی بات کروں گا جو میں جانتا ہوں باقی اس کو ماننا اور اس کو اپنے اوپر نافذ کرنا یہ آپ کا اپنا کام ہو گا۔ اس مسئلے میں ظاہر ہے میں کچھ نہیں کر سکتا البتہ اتنی بات ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے: (أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي) "میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو میرے ساتھ وہ رکھتا ہے"۔ اب چونکہ اللہ پاک نے یہ فرما دیا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے، اللہ تعالیٰ اگر ناراض ہو گئے تو مجھے بتاؤ پھر ہماری جگہ کون سی ہے پھر تو تباہی ہی تباہی ہے۔ لہذا کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے اگر اللہ پاک کبھی ذرا سختی بھی فرماتے ہیں تو وہ بھی ہمارے لئے کرتے ہیں، جیسے والدین سختی کرتے ہیں تو بچوں کے لئے کرتے ہیں اس طرح اگر اللہ پاک کبھی سختی فرماتے ہیں تو وہ بھی ہمارے لئے فرماتے ہیں ورنہ اللہ پاک کو کیا فائدہ۔ اگر نعوذ باللہ کوئی جہنم میں گر جائے تو اللہ پاک کو کیا فائدہ اور اگر کوئی جنت چلا جائے تو اللہ پاک کو کیا کمی ہو گی۔ چنانچہ یہ سب کچھ ہمارے لئے ہو رہا ہے تو ہمیشہ اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھیں اور یہ که اللہ تعالیٰ نے آپ کو جب ایمان کی دولت دی ہے اور اچھے سلسلے کے ساتھ تعلق دیا ہے تو ان شاء اللہ آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ ہی ہو گا۔ اور ہمیشہ اللہ پاک سے خیر کے طالب رہیں اور دعاؤں میں آہ و زاری کریں، یہی ہمارا کام ہے اس سے زیادہ ہمارا کام نہیں ہے۔ باقی معاملات اللہ پہ چھوڑنے چاہئیں۔
اللہ اکبر
سوال 6:
اللہ تعالیٰ مجھے اس امتحان سے نکالے میں اس جھنجھٹ سے بہت تھک چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے دل پھٹ رہا ہے اپنی بیٹی کو خود سے دور نہیں کر سکتی۔ دو سال کچہری میں ذلیل ہوئے اور اب پھر نئے سرے سے، حضرت جی میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
رہنمائی میں کس چیز کی کروں یہ بات تو میں ہمیشہ کرتا ہوں اور آپ اگر میرے بیانات سنتی ہیں تو آپ کو اس کا پتا چل رہا ہو گا۔ باقی یہ ہے کہ ہمارا کام اور آپ کا کام صرف دعا کرنا ہے مطلب اللہ پاک سے مانگنا ہے اور نیک کام کرنے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے اچھے فیصلے ہماری طرف آ جائیں۔ ہمارے جو اعمال اوپر جاتے ہیں اس کے مطابق ہی فیصلے آتے ہیں۔ لہذا اگر ہمارے اچھے اعمال ادھر سے جا رہے ہوں گے تو پھر ہر حال میں ہمارے پاس اچھے ہی فیصلے آئیں گے۔ اگرچہ ہم اس کو اپنے مخالف بھی سمجھیں پھر بھی یہ ہمارے حق میں اچھے ہوں گے، کیونکہ اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ اصل میں یہ دنیا سب کچھ نہیں ہے بلکہ اصل میں تو وہ دنیا ہے۔ اس لئے یہاں پر اگر کوئی تکلیف مل رہی ہے تو اس تکلیف کا اجر مل رہا ہے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اولٰأُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴾(البقرۃ: 156- 158) "یعنی جس وقت ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں إِنّا لِلَّـهِ وَإِنّا إِلَيهِ رٰجِعونَ۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشک ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں پس جب ہم یہ کہتے ہیں تو اللہ پاک فرماتے ہیں: "یہی وہ لوگ ہیں جن پہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت چھا جاتی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو کہ ہدایت پانے والے ہیں" اور اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ﴾ (البقرۃ: 45) "نماز کے ذریعے سے اور اور صبر کے ذریعے سے مجھ سے مدد مانگو" تو صبر کرنا اور تہجد کی نماز کے بعد جو دعائیں ہیں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مانگو، یہی طریقہ ہمارے پاس ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ یہ جو عامل لوگ ہیں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے وہ چیزیں ہمارے پاس نہیں ہیں، ہم تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملانے کی باتیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، اللہ پاک سے مانگو، اللہ پاک ہی مدد کرنے والے ہیں۔ تو بس آپ بھی یہی کریں ہم بھی یہی کریں گے ان شاء اللہ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ سے اپنی کیفیت کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔
نمبر1: موت، قبر اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کی سوچ نے خوف پیدا کر دیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ بیٹیاں اور ان کے بچے بھی آتے ہیں تو رغبت نہیں ہوتی۔ گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے میں بھی جو خوشی محسوس ہوتی تھی اب نہیں ہوتی اور میں اسی سوچ میں رہتی ہوں که معمولات میں سے اب کیا پڑھوں، ہر وقت یہی پریشانی رہتی ہے۔ اس کا اثر طبیعت پر ہو رہا ہے جس سے ڈر ہے کہ دینی اور دنیاوی دونوں فرائض انجام دینے میں مسئلہ ہو جاتا ہے۔ ذہنی طور پر پریشانی بننے دینے کی بجائے اپنی کیفیت کی مثبت توانائی کیسے بناؤں؟ جزاک اللہ خیر۔
جواب:
اصل میں واقعۃً ہر چیز کو ایک balance انداز میں لینا چاہیے۔ unbalance انداز میں آپ کوئی بھی کام کریں گے تو وہ آپ کو فائدے کی جگہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس میں اگر آپ کو اس بات کا ڈر ہو کہ پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا تو یہ آپ کے لئے اچھائی کے عمل کے لیے ایک تازیانہ ہونا چاہیے یہ نہیں کہ آپ اس سے ڈر جائیں،کیونکہ اللہ کا جو خوف ہوتا ہے وہ شیر اور نعوذ باللہ من ذالک درندے کے خوف کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہمارے دشمن ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارا دوست ہے ﴿اَللہُ وَلِیُّ الْمُوْمِنِیْن﴾ قرآن پاک میں صاف صاف فرماتا ہے اللہ پاک ﴿اَللہُ وَلِیُّ الْمُوْمِنِیْن اللَّـهُ وَلِىُّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَوْلِيَآؤُهُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـهُـمْ﴾مطلب ہے کہ "اللہ پاک مومنین کا دوست ہے"﴿يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمَاتِ﴾ "ان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتا ہے" یعنی اندھیروں سے ان کو روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ ہمارے ساتھ تو اللہ پاک کا یہ معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ تو ہمارا دوست ہے، اس وجہ سے اللہ کی طرف سے اگر کوئی بات آئے گی تو خیر کی آئے گی تو اس کا ڈر اس طرح نہیں ہونا چاہیے نعوذ باللہ من ذالک کہ انسان سارا کام چھوڑ دے بلکہ اس کی خوشی کے لئے کام کرے۔ جب آپ کو پتا ہے کہ ہر چیز اس کے پاس ہے جیسے دفتر میں ہم کرتے ہیں دفتر میں کیا ہوتا ہے جس وقت ہمیں پتا ہو کہ یہ جو باس ہے یہی ہمارے بارے میں سارے فیصلے کرتا ہے تو اے سی آر بھی یہی لکھتا ہے سب کچھ کرتا ہے تو اس کے پاس جاتے ہوئے کیا ڈر کی وجہ سے کام چھوڑ دیتا ہے، بلکہ کام کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی بات ہے بالخصوص جب ان کے ساتھ میٹنگ ہوتی ہے تو اپنی فائل وغیرہ کو سارا کچھ ٹھیک کر کے غلطیاں نکال کے ان کے پاس لے جاتے ہیں، تو ایسے ہی آپ بھی یہی کریں کہ مثال کے طور پر رات کا جب وقت ہو جائے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے اگر کوئی غلطی کی ہے تو میں اس پر توبہ کر لوں تاکہ میرا سارا معاملہ ٹھیک ہو جائے اور صبح جب اٹھیں تو آپ یہ ارادہ کر لیں کہ میں آج کون سا اچھا اچھا کام کر سکتی ہوں، اب یہ دونوں باتیں جب آپ کریں گی تو ان شاء اللہ آپ کا اگلا دن پہلے دن سے اچھا ہو گا۔ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈر کو نعوذ باللہ من ذالک کسی اور چیز کے ڈر کی طرح نہ بنائیں۔ اللہ جل شانہ تو ہمارا دوست ہے اور اللہ جل شانہ تو ہمیں اچھی جگہ پہ پہنچانا چاہتے ہیں اللہ جل شانہ نے جنت ہمارے لئے بنائی ہے اپنے لئے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہی نہیں، لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ پاک کی بات مان کر ہم ادھر پہنچ جائیں اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
سوال 8:
میرے پڑھنے والے معمولات اتنے زیادہ نہیں کہ پورے کرنے میں مشکل ہو۔صبح شام کے اذکار میں سورۃ یٰسین، واقعہ، سورۃ ملک، رحمن، سجدہ، مزمل، سورۃ السجدہ، نصف پارہ، دعائیں اور تسبیحات وغیرہ ہیں۔ ان میں الحمد للہ لگی رہوں تو دل لگا رہتا ہے مگر موت کا خوف بڑھ کر depression کی طرف لے گیا ہے۔
جواب:
نہیں اصل میں depression آپ کو پہلے ہو چکا ہو گا یہ چیز آپ کو نہیں لے جا سکتی صرف آپ کو اس سے محسوس ہو گیا۔ اس وجہ سے آپ اگر depression کی مریضہ ہیں تو بیشک اپنا علاج کروائیں اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ جو بات ہے اس کی وجہ سے depression نہیں ہوتی اس کی وجہ سے تو depression ٹھیک ہوتی ہے۔ تو آپ کو اگر پہلے سے کوئی depression ہے تو اس کا آپ علاج بیشک کر دیں، علاج کرنا تو سنت ہے، لیکن یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ اللہ جل شانہ مجھ پر بہت مہربان ہیں، اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ مثلاً ایک ڈاکٹر آپ پر مہربان ہے اور وہ آپ کو کہتا ہے کہ دیکھو شوگر کا مریض ہے تو میٹھا نہ کھا یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا تو کیا ڈر کے مارے آپ (نعوذ باللہ ) کہیں گے کہ میں ڈاکٹر سے ڈروں؟ ڈاکٹر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، میٹھا کھانے سے ڈریں، کیونکہ وہ ڈاکٹر تو آپ پر مہربان ہے۔ تو اس طرح اللہ پاک ہمیں جن چیزوں سے روک رہا ہے وہ ہمارے لئے روک رہا ہے اللہ پاک کا اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس وجہ سے آپ اللہ پاک کے ساتھ اپنا بہتر تعلق پیدا کریں اور اللہ جل شانہ کی رحمت کا زیادہ سے زیادہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت آ رہی ہے، بلکہ روزانہ پانچ منٹ یہ مراقبہ شامل کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت میرے پورے جسم پر چھا رہی ہے۔
سوال 9:
حضرت شاہ صاحب السلام علیکم! بعد از سلام مسنون آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک چاہتا ہوں۔ بندہ احقر کا پہلا ذکر برائے اصلاح اور تزکیۂ نفس بفضلِہ تعالیٰ چالیس دن بلا ناغہ مکمل ہوچکا ہے، لہذا مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ احقر نے مذکورہ وظیفے کے لئے صبح نماز کے بعد کا وقت مناسب سمجھا لیکن بدقسمتی سے اسی دن تقریباً پندرہ دن نماز باجماعت ادا نہیں ہوئی البتہ مذکورہ بالا چالیس دن بلا ناغہ وظیفہ کیا، اور بعد از ہر نماز کے اذکار کی بھی توفیق ہوئی۔
جواب:
ماشاءاللہ ماشاءاللہ! اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ اب آپ یوں کریں گے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ پوری عمر روزانہ کر لیا کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ جو ذکر میں کر رہا ہوں اس طرح آپ نے ذکر کرنا ہے 100 دفعہ ﴿ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ﴾ 100 دفعہ﴿ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو﴾ 100 دفعہ حَق حَق حَق حَق، 100 دفعہ ﴿ اللہ اللہ اللہ اللہ﴾ یہ آپ نے کرنا ہے اور ان شاء اللہ العزیز پہلا والا تو جیسے میں نے کہا عمر بھر ہے، یہ ایک مہینہ کرنے کے بعد پھر آپ اطلاع کریں تو آپ کو ان شاء اللہ بتا دیا جائے گا۔
audio کا جواب:
السلام علیکم آپ نے چونکہ audio بھیجی ہے اور میں نے منع کیا ہے بالخصوص ladies کے لئے کہ audio نہ بھیجا کریں سوال و جواب کے session میں، کیونکہ میں پھر جب سناتا ہوں تو ظاہر ہے اس کو تو سنایا ہی نہیں جا سکتا تو آپ text میں یہ بات بھیج دیں تو پھر اس کے بعد آپ کو ان شاء اللہ جواب ملے گا۔
سوال:
فلاں صاحب کا بیان سنا دولت کے امتحان پر کہ دولت کے امتحان میں ہر شخص فیل ہے، کیونکہ دولت کہتی ہے ھَلْ مِنْ مَّزِیْد اور مزید اور مزید اور میں اس گھن چکر میں مبتلا ہوں کہ کیا کروں؟
جواب:
اصل میں دولت نہیں بلکہ انسان کے نفس کی خواہش اس کے اوپر حاوی ہے یعنی اسے جو ملا ہوتا ہے اس پہ اکتفا نہیں کرتا۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے جو اس کے لئے بہت suitable ہے وہ ہے perversion، یہ ایک نفسیاتی بیماری بن جاتی ہے کہ جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے جو usual means ہیں حاصل ہونے کے یا جس رفتار سے وہ چیز ملتی ہے، اگر اس پہ انسان satisfied نہ ہو تو وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ بیمار اس طرح ہو جاتا ہے کہ اس سے پھر پاگلوں جیسی حرکتیں ہوتی ہیں۔ لہذا نفس کی خواہشات کو control میں رکھنے سے ہی انسان کو فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کو control نہ کیا جائے تو پھر تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر reactor جو ایٹمی طاقت ہے اس کو آپ open رکھیں تو atom bomb ہے لیکن اگر آپ نے اس کو control کر لیا تو یہ reactor ہے پھر energy ہے اور پھر اس سے آپ کام لے سکتے ہیں۔ پانی کو اگر آپ کھلا چھوڑ دیں تو تباہی لا سکتا ہے آپ اس کا dam بنا دیں تو آپ کے لئے energy ہے پھر آپ کے لئے مفید بھی ہے۔ اس طریقے سے جو چیز بھی آپ control کریں تو ہی آپ کو اس سے فائدہ ہو گا۔ انسان کی جو ضروریات ہیں وہ limited ہیں۔ کتنا کھائے گا کتنا پیئے گا کتنا پہنے گا، ہر چیز ہماری limited ہے۔ اگر ہم اپنی ضرورت کے مطابق کمانا چاہیں تو بہت جلدی satisfy ہو سکتے ہیں اور اگر ہم اپنی خواہش کے مطابق کمانا چاہیں تو never، پھر کبھی بھی ہم مطمئن نہیں ہو سکتے، کیونکہ ھَلْ مِنْ مزید والی بات ہو گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ایک وادی سونے کی ہو تو وہ چاہے گا کہ دوسری وادی سونے کی اس کے پاس ہو اور بنی آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی اور چیز نہیں بھر سکتی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ان تمام چیزوں پہ روک لگانی پڑے گی یہی علاج ہے۔کیونکہ نفس کا علاج مجاہدہ ہے اور مجاہدے کا مطلب نفس کی مخالفت ہے۔ لہذا آپ نفس کی مخالفت کریں گے تو اس کا علاج ہو گا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے۔
سوال 10:
موانع طریق میں سے حسن پرستی کے مرض میں مبتلا ہوں حسین بڑے یا بچے کی طرف شہوت تو نہیں مگر حسن کو دیکھنا اور حسن سے محظوظ ہونا عادت میں شامل ہوگیا ہے تو اب کیا کروں؟
جواب:
بات صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے روکا ہے اس سے منع ہونا ضروری ہے، اس کو logical ہم نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ بہت ساری باتیں جو ہماری logic میں نہیں آسکتیں لیکن اللہ جل شانہ نے جب منع کیا ہے تو بس اللہ کے فیصلے پر ہمارا فیصلہ ہونا چاہیے، کہ اس نے روکا ہے تو بس ٹھیک ہے۔ آپ کتنی ہی اچھی نیت سے غیر محرم کو کیوں نہ دیکھیں لیکن ہے تو گناہ، لہذا اس گناہ سے انسان کیوں نہ بچے، گناہ سے تو بچنا چاہیے۔ لہذا شہوت ہو یا نہ ہو لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہوا ہے لہذا منع ہوجانا چاہیے۔ اب اگر کوئی منع نہیں ہوتا تو وہ اپنی مصیبت کو خود ہی دعوت دیتا ہے۔
سوال 11:
اور اوپر سے پتا چلا کہ حسن پرستی اور حبِ دنیا دونوں میں مبتلا ہوں حبِ دنیا دولت بھی ہے اور بھی بہت ساری چیزیں دنیا ہیں۔ مگر عجیب حال یہ ہے کہ باقی علم و عمل اور دینی اعمال کی بنیاد پر خود کو بزرگ بھی سمجھتا ہوں۔
جواب:
یہ مرض صرف خیالی ہے اور خیال ہی اس کا علاج ہے۔ کیونکہ انسان کی بزرگی کا پتا تو خود چل ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی چابی تیرے ہاتھ میں نہیں ہے میرے ہاتھ میں نہیں ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر ہمیں اچھا سمجھے گا تو ہم اچھے ہوں گے، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم اچھے نہیں تو ہم ہزار مرتبہ لاکھ مرتبہ بھی اپنے آپ کو اچھا سمجھیں تو کیا فائدہ۔ ایک صاحب تھے وہ کہتے ہیں شہزادی کے ساتھ شادی کرنی ہے آدھا کام ہو گیا ہے آدھا باقی ہے اس نے کہا کیسے ہو گیا آدھا کام، کہتا ہے میں راضی ہوں بس وہ راضی ہو جائے تو انہوں نے کہا اصل کام تو اس کا راضی ہونا ہے۔ یہاں پر اصل راضی ہونا تو اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ہے باقی سارے لوگوں کے راضی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی بچی کی شادی ہو جائے اور پورے خاندان والے اور پورے گاؤں والے بلکہ پورے ملک والے اس کی تعریف کرتے ہوں لیکن شوہر کی نگاہ میں وہ اچھی نہ ہو تو اس کی زندگی کیسی ہو گی اس کی زندگی تو تاریک ہو گی۔ بیشک باقی لوگ اس کی تعریفیں کریں، اس تعریف سے اس کو کیا فائدہ؟ چنانچہ یہ صرف ہماری خیالی بیماری ہے تو اس کو خیال سے دور کرنا چاہیے۔ اور خیال یہ ہے کہ جب میں عجب میں مبتلا ہوں یعنی میں اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہوں تو یہ بیماری ہے اور جب یہ بیماری ہے تو پھر میں اچھا کیسے ہوا؟ پھر تو میں اچھا ہو نہیں سکتا۔ عجب بھی ایک بیماری ہے جس کا تکبر کے بعد دوسرا نمبر ہے۔ تکبر بڑی بیماری ہے کہ شیطان کو راندۂ درگاہ کروا دیا تو اسی طریقے سے عجب بھی ایک بیماری ہے۔ لہذا اگر مجھے پتا ہے کہ یہ بیماری مجھ میں ہے تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو بزرگ سمجھ سکتا ہوں؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو اس خیال کے ذریعے سے اپنے خیال کا علاج کر لیا کرو۔
سوال 12:
السلام علیکم میں برطانیہ سے فلاں ڈاکٹر صاحب بات کر رہا ہوں امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حق اور اس کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ قلب پر، 15 منٹ لطیفۂ روح پر، 10 منٹ لطیفۂ سر پر اور 10 منٹ کا خفی پر۔ اس ذکر کو تقریباً اب کل 9 مہینے ہو گئے ہیں۔ ایک مہینہ پہلے آپ نے 10 منٹ کا مراقبہ جس میں اللہ کا فیض حضور ﷺ اور شیخ کے قلب سے ہوتے ہوئے سینے میں داخل ہونے کا اضافہ فرمایا تھا، باقی مراقبہ نسبت میں اور اضافی مراقبے میں ارتکاز کافی بہتر ہے اور خیالات اتنے نہیں آتے اور یہ تعلق تھوڑا ہلکا اور آسان بھی لگتا ہے۔ مراقبے کو پورا ٹائم نہیں دے پا رہا لیکن کوئی ناغہ البتہ نہیں ہے، تقریباً ہر وقت سینے کے درمیان میں اللہ اللہ محسوس ہوتا رہتا ہے جیسے کہ میں اپنے دل میں بول رہا ہوں۔ کیفیات میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہے کیفیت ملی جلی سی ہے، گناہ کی طرف اگر خیال چلا جائے تو گناہ میں اتنی جاذبیت محسوس نہیں ہوتی، عبادت اور ذکر میں خشوع و خضوع کبھی کم اور کبھی بالکل نہیں ہوتا، سوچ ایسی ہے کہ جو ٹائم ذکر کے بغیر گزرا وہ waste لگتا ہے۔ کوشش رہتی ہے جب بھی یاد آئے ذکر اللہ کیا جائے لیکن دنیاوی کاموں سے اکثر یاد نہیں رہتا۔ آخرت اور موت کا خیال اکثر ذہن پر رہتا ہے البتہ دنیاوی کاموں میں بھی ذہن الجھا رہتا ہے اس لئے نماز اور ذکر وغیرہ میں اہتمام اور توجہ نہیں ہے۔ اللہ کی ذات اور مسلک کے بارے میں شکوک اور وسوسے بہت آتے ہیں لیکن توجہ نہ دینے کی کوشش کرتا ہوں اور یہاں کچھ مہینوں سے دل میں کبھی کبھی نفس کی بے ترتیبی محسوس کی اور دل کی دھڑکن تیز محسوس ہوئی تو check up کرایا تو ECG میں کچھ نہ نکلا پھر سوچا کہ آپ کو بھی بتا دوں۔ کچھ دنیاوی الجھنوں کی وجہ سے دل اداس اور مایوس رہتا ہے لیکن اللہ سے رحمت کی امید کافی ہے۔ سوچتا ہوں ان پریشانیوں میں گناہ دھل جائیں گے job کی timings ایسی ہو گئی ہیں کہ تہجد کی پابندی نہیں ہو پا رہی اور دنیاوی معاملات میں مشکلات کا اثر لگا رہتا ہے، اس لئے ہر نماز میں اللہ سے استقامت اور آسانی کی دعا کرتا ہوں۔
جواب:
ماشاءاللہ بڑی اچھی باتیں آپ نے بتائی ہیں الحمد للہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا یہ سب سے بڑی بات ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ کیفیت نصیب فرمائے کہ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں۔ انسان کو مسلسل خیر کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے اور جو غلطی ہو اس کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے اور ماشاءاللہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ یہی کر رہے ہیں الحمد للہ۔
امام احمد بن جنبل رحمۃ اللہ علیہ کا آخری وقت آیا تو غشی طاری ہو گئی بچوں نے کلمہ کی تلقین کے لئے زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا تو امام صاحب کی زبان سے مسلسل نکل رہا تھا ابھی نہیں ابھی نہیں ابھی نہیں ابھی نہیں، جب افاقہ ہو گیا تو پوچھا کہ حضرت یہ کیا حالت تھی؟ ہم کلمہ پڑھ رہے تھے آپ کہتے ہیں ابھی نہیں ابھی نہیں۔ فرمایا: مجھے تو آپ لوگوں کی باتیں نہیں سنائی دے رہی تھیں، شیطان میرے سامنے آیا تھا وہ سمجھا کہ شاید میں جا رہا ہوں تو وہ اپنے سر پہ خاک ڈال رہا تھا اور کہتا ہے احمد تو مجھ سے بچ کے چلا گیا افسوس احمد تو مجھ سے بچ کے چلا گیا تو میں اسے کہہ رہا تھا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں، ابھی میں زندہ ہوں پتا نہیں کس وقت غلطی ہو جائے۔ تو یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ اس وقت ہم دنیا میں ہیں اور دنیا میں غلطی کا امکان ہوتا رہتا ہے اور ہمیشہ ہمت سے کام لینا ہوتا ہے اس وجہ سے اگر غلطی ہو جائے تو فوراً اس کی تلافی کرنی چاہیے استغفار کرنا چاہیے۔ اس کے بدلے میں کوئی نیک کام کرنا چاہیے جیسے آپ کہتے ہیں کہ ماشاءاللہ ذکر کی طرف توجہ رہتی ہے لیکن دنیاوی معاملات کی وجہ سے غافل ہو جاتا ہوں تو اس کی وجہ سے پھر جب یاد آتا ہے تو پھر کر لیتا ہوں سبحان اللہ اس طرح کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائیں آپ نے جو بیماری کی بات کی آپ خود ڈاکٹر ہیں اور بیماری کی صورت میں علاج کرنا سنت ہے، لہذا اس کی خوب کوشش کر یں اور اس نیت سے کریں کہ مجھے جو صحت ملے گی ان شاء اللہ میں اس کو نیک کاموں میں استعمال کروں گا تاکہ یہ بھی دین بن جائے اور آپ نے جو تہجد کے بارے میں بات کی تو اگر مصروفیت ہو تو پھر آپ عشاء کے ساتھ چار رکعت تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کریں تاکہ آپ بالکل خالی نہ رہیں، ان شاء اللہ آپ کو اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملے گا۔
سوال 13:
السلام علیکم حضرت الحمد لله معمولات پر استقامت ہے اور نفع کی ایک صورت یہ محسوس ہو رہی ہے کہ غصہ پر کچھ control بہتر ہو گیا ہے اور نفس پر قابو بھی کچھ حد تک بہتر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ایک change جو معمولات میں کیا ہے وہ حزب الاعظم کی جگہ مناجات مقبول ہفتہ وار ترتیب پر شروع کر لیا ہے، دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
الحمد للہ! اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے اور حالات مزید بہتری کی طرف آجائیں۔
سوال 14:
آج کل دل کی کیفیت unsatisfactory ہے، عبادات اور معمولات میں خشوع و خضوع کی کمی ہے استغفار بھی کر لوں تو افاقہ نہیں ہو رہا۔ دعا کی بھی درخواست ہے اور ہدایت کی بھی جزاک اللہ۔
جواب:
ماشاءاللہ فکر کے لحاظ سے تو یہ بات بالکل صحیح ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جیسے غفلت موانع میں سے ہے اور نقصان پہنچاتی ہے اسی طرح یہ تعجیل بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی بیمار ہے وہ علاج نہیں کر رہا تو یقیناً اس کو نقصان ہو رہا ہے کیونکہ علاج late ہو رہا ہے تو ممکن ہے بیماری لاعلاج ہو جائے یا کچھ اور مسئلہ بن جائے، اسے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ڈاکٹر کے پاس چلا جائے اور اس کو اطمینان ہو کہ صحیح ڈاکٹر ہے پھر وہ جلدی مچائے گا تو اس میں بھی نقصان ہوگا۔ مثال کے طور پر کسی کو TB diagnose ہوا تو اب اس کے علاج میں نو مہینے تک دوائی لینی ہے اور وہ بھی باقاعدگی سے لینی ہے اس میں کبھی رکنا نہیں ہے۔ اب ڈاکٹر اس کو کہتا ہے کہ دوائی لو اور اس میں روزانہ آپ نے لینی ہے اور اس میں کمی نہیں کرنی اور مجھے اطلاع بھی کرنی ہے۔ لہذا اس وقت آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ دوائی وقت پہ لیں اور ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ رکھیں، اس سے زیادہ آپ کا کام نہیں ہے کیونکہ اگر آپ مزید tension لیں گے تو آپ کی بیماری کم نہیں ہو گی بلکہ مزید بڑھے گی۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر بھی آپ کو کہے گا کہ آپ tension نہ لیں آپ علاج کی طرف متوجہ ہوں یعنی practicaly اپنے علاج کو کریں theoretical میں نہ جائیں،details میں نہ پڑیں وہ آپ کا کام نہیں وہ ڈاکٹر کا کام ہے۔ ایک دفعہ ایک میجر جنرل صاحب کے ساتھ ہمارا کوئی کام تھا تو میں جب وہاں پہنچا تو مجھے پتا چلا که ان کا پوتا بیمار ہے اور وہ اسے علاج کے لیے C.M.H لے جا رہے تھے تو مجھے بڑا افسوس ہوا میں نے سوچا میں اس وقت کیوں آیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کیسے آئے ہیں تو میں نے ان کو letter دے دیا، انہوں نے کہا گاڑی میں بیٹھو تو میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ گاڑی خود چلا رہے تھے اور پوتا ان کے ساتھ تھا۔ ان کے ساتھ گھر کا کوئی اور فرد بھی تھا تو راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو میں نے مختصراً بتا دیا۔ انہوں نے کہا که یہ باتیں یہاں کی نہیں ہیں آپ کل آفس میں آئیں میں نے کہا ٹھیک ہے، بالکل صحیح ہے بات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد مجھے مزید بات تو کرنی نہیں تھی تو میں نے ویسے ہی پوچھا کہ حضرت ان کو کیا مسئلہ ہے۔ فوجی تو فوجی ہوتا ہے تو انہوں نے کہا It's not my job, it's doctor's job. Leave it کہ آپ چھوڑ دیں یہ میرا کام نہیں ہے یہ ڈاکٹر کا کام ہے کہ اس کو کیا مسئلہ ہے اب دیکھو دو ٹوک بات تو اس کی صحیح تھی، tension وہ نہیں لے رہا تھا لیکن practicaly کر کیا کر رہا تھا، ڈاکٹر کے پاس جا رہا تھا۔ یہ ایک اچھی training ہے ہمیں بھی لینی چاہیے ہمیں بھی یہ کرنا چاہیے کہ ہم کام کریں، اپنے آپ کو پریشان نہ کریں۔ پریشانی سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ کام کرنے سے پریشانی حل ہوتی ہے پریشانی دور ہوتی ہے بس یہی آپ کریں کہ آپ خواہ مخواہ جو چیزیں بعد میں حاصل ہونی ہیں ان کے لیے پریشان نہ ہوں بلکہ آپ کو تو procedure شروع کرنا ہے، procedure شروع ہو جائے تو بس آپ کو اتنا اطمینان ہونا چاہیے کہ میں صحیح line پہ لگ گیا ہوں اب اس کے بعد وہ چیز حاصل کب ہوتی ہے یہ آپ اپنے شیخ پر چھوڑیں بلکہ فی الاصل تو اللہ پر چھوڑیں۔
سوال 15:
محترم شاہ صاحب السلام علیکم! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں England سے فلاں بات کر رہی ہوں، آپ نے رمضان میں مجھے پندرہ منٹ کا مراقبہ کرنے کے لئے دیا تھا۔ جس میں تصور کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اب تک باقاعدگی سے مراقبہ کر رہی ہوں کوئی ناغہ نہیں ہونے دیا۔ ہر مہینے سوچتی ہوں کہ جب مراقبہ بہت اچھا ہو جائے گا تو آپ سے رابطہ کروں گی، لیکن رابطہ کرنے میں سستی ہو جاتی ہے ہر روز کا مراقبہ اتنا اچھا نہیں ہوتا لیکن اکثر دل اللہ اللہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن یکسوئی حاصل کرنے میں ابھی بہت مشکل ہے۔ ساتھ میں یہ وہم بھی ہوتا ہے کہ شاید میرا دل اللہ اللہ نہیں کر رہا ہو، صرف ایک وہم ہے جب کبھی دھیان اللہ کی طرف لگ جائے تو دل اللہ اللہ کرنا بند کر دیتا ہے اگر دل کی طرف توجہ کروں تو دھیان اللہ کی طرف سے ہٹ کر آنکھوں اور دماغ میں اس طرح کے منظر شروع ہو جاتے ہیں لیکن دل اللہ اللہ کرتا رہتا ہے۔ دل و دماغ دونوں اکھٹے نہیں ہوتے اب آگے آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا کروں۔
جواب:
سب سے بڑی غلطی جو آپ کے message میں مجھے نظر آئی ہے وہ یہ کہ جب مراقبہ ٹھیک ہو جائے گا تو پھر اطلاع کروں جبکہ آپ ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں تو کس وقت کرتی ہیں؟ جب ٹھیک ہو جاتی ہیں پھر اطلاع کرتی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ بہت ہی زیادہ ہوشیار ہیں۔ بہرحال بات تو غلط ہے ڈاکٹر کے ساتھ تو رابطہ اس وقت کیا جاتا ہے جب مرض ٹھیک نہ ہو رہا ہو بلکہ میں کہتا ہوں جیسے ہو رہا ہے بس اتنا ہی بتا دینا چاہیے۔ ٹھیک ہے چاہے غلط ہے جیسے ابھی آپ نے بتایا تو یہ بتانا ہوتا ہے بس اسی طرح آپ بتایا کریں جس حالت میں جو ہے وہ اسی طریقے سے بتایا کریں اس میں سستی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری بات آپ نے کہا ہر روز کا مراقبہ اتنا اچھا نہیں ہوتا، ٹھیک ہے حالات بدلتے رہتے ہیں انسان ہر روز کھاتا ہے لیکن ہر روز کھانے کا اثر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کبھی غصے میں کھاتا ہے تو اس کا اثر اور ہوتا ہے، کبھی خوشی میں کھاتا ہے اس کا اثر اور ہوتا ہے، کبھی غم میں کھاتا ہے تو اس کا اثر اور ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہمارے جو internal conditions ہیں اس کے اثرات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ چیز ایک ہی ہے لیکن internal condition مختلف ہے لہذا اس کے combination کے ساتھ وہ چیز بھی مختلف ہوتی جائے گی۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں مثلاً ایک پٹہ ہے چل رہا ہے اب آپ ایک زرد رنگ ڈال رہے ہیں اس پٹے کے اوپر اور اس پٹے کے اوپر مختلف رنگ ہیں مثلاً سرخ رنگ بھی ہے کالا رنگ بھی ہے سفید رنگ بھی ہے blue رنگ بھی ہے یہ سب رنگ اس کے مختلف حصے ہیں وہ اس کے سامنے گزر رہے ہیں۔اگر آپ ایک ہی زرد رنگ لگا رہے ہیں اس کے اوپر تو کیا خیال ہے وہ جو رنگ بنے گا پٹے کے اوپر وہ ایک جیسا ہو گا؟ سرخ کے ساتھ زرد ملے گا تو وہ اور ہو جائے گا یہ golden سا بن جائے گا۔ اور اگر کالے کے ساتھ ہو گا تو اور بن جائے گا اگر blue کے ساتھ ہو گا تو اور بن جائے گا اگر سفید کے ساتھ ہو گا تو اور بن جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ جو آپ کے internal conditions ہیں اس کے مطابق ایک ہی چیز جو آپ کر رہے ہیں تو اس کا اثر مختلف ہوتا ہے۔ لہذا آپ اس کو چھوڑ دیں یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ صرف یہ سوچیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔آپ کا کام کیا ہے وہ آپ نے باقاعدگی کے ساتھ کرنا ہے۔ جہاں تک وہم کی بات ہے تو اگر آپ کو وہم ہو کہ میں ذکر کر رہی ہوں تو یہ بھی تو ذکر ہے، بھئی ذکر کا اگر وہم ہو جائے تو وہ ذکر ہی ہو رہا ہو گا چاہے وہم سے ہو رہا ہو۔ تو آپ اس کی بالکل پرواہ نہ کریں اگر وہم بھی ہو پھر بھی وہ ذکر ہے۔ اور ماشاءاللہ جہاں تک یہ بات ہے کہ عقل اور دل کا اکٹھا ہونا، تو یقیناً یہ ایک کام ہے لیکن میں کہوں کہ یہ دونوں پہلے سے اکٹھے ہیں البتہ اس میں صرف اتنی بات ہے کہ عقل کا domain مختلف ہے دل کا domain مختلف ہے۔ عقل چیزوں کو الگ طرح دیکھتی ہے اور دل چیزوں کو الگ طرح دیکھتا ہے۔ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے تو یہ دل کی چیز ہے تو کیا عقل کبھی اندھی ہوتی ہے؟ عقل تو خود غرض ہوتی ہے، وہ دو اور دو چار کی طرح بات کرتی ہے۔ جب کہ دل دو دو چار نہیں کرتا، وہ دو دو پانچ بھی کر سکتا ہے، دو دو صفر بھی کر سکتا ہے۔ تو یہ result مختلف ہو گا لہذا آپ اس کی فکر نہ کریں جو کام آپ کر سکتی ہیں وہ کریں اور باقی اللہ پہ چھوڑ دیں۔ مراقبے میں ناغہ نہ کریں، اگر آپ زیادہ پریشان ہوں گی تو یکسوئی اس سے بھی خراب ہو گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو اناڑی driver ہوتا ہے وہ جب steering ہاتھ میں لیتا ہے تو کیسے لیتا ہے اس کے ہاتھ ہل رہے ہوتے ہیں اور جو مشاق ڈرائیور ہوتا ہے وہ باقاعدہ آرام سے لیتا ہے بلکہ درمیان میں اور کام بھی کرتا ہے باتیں بھی کرتا ہے، بلکہ بچے ساتھ ہوں تو ان کو تھپڑ بھی لگا رہا ہوتا ہے لیکن آرام سے گاڑی چلا رہا ہوتا ہے۔ جبکہ اناڑی جو ہوتا ہے وہ بالکل خالی سڑک پر بھی جائے گا تو tension کی وجہ سے اس کے ہاتھ پیر ہل رہے ہوں گے۔ تو یہ چیزیں آپ چھوڑیں جتنا آپ tension لیں گی اتنا ہی زیادہ مسئلہ بنے گا تو بس جو آپ کو کہا ہے وہ کریں ان شاء اللہ اس کا نتیجہ بہتر آئے گا۔ اللہ اکبر
سوال 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت یہ جو علماء اکثر تقاریر میں کہتے ہیں کہ سب کو معاف کر دو۔ اس میں آدمی کسی کے دیئے ہوئے دکھ کو تو معاف کر سکتا ہے، لیکن کسی نے جائداد پر قبضہ کیا ہو یا کوئی مال چھینا ہو اس جیسی کوئی بڑی تکلیف دی ہو تو اس کو کیسے معاف کریں؟ اس سے ہر وقت انسان کڑھتا رہتا ہے کہ فلاں نے میری اتنی بڑی جائداد پر قبضہ کیا اور ہمیں تعلیم یہ دی جا رہی ہے کہ ان کو معاف کردو۔ اتنے بڑے ظلم میں بھی الٹا ہمیں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کو معاف کردو، ایسے میں دنیا ظلم کی آماجگاہ بن جائے گی اور مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہو گا اور مظلوم کو ہی حکم دیا جا رہا ہے کہ معاف کر دو تو پھر آخرت کا دن یوم حساب تو پھر بےکار ہوا۔
جواب:
یہ ماشاءاللہ ڈاکٹر ہیں لیکن یہاں تھوڑے سے جذباتی ہو گئے ہیں۔ جذباتیت میں لوگ بعض دفعہ غلط جگہ سے بات پکڑ لیتے ہیں۔ سب سے پہلی بات کس نے ان کو کہا ہے که زبردستی معاف کرو۔ کہیں کسی کتاب میں، کسی حدیث میں ہے کہ معاف کرنا ہی پڑے گا؟ ایسا کہیں نہیں ہے۔میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں آپ بیشک معاف نہ کریں لیکن کیا آپ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کو معاف کرے؟ مثلاً آپ نے جو جرم کئے ہوئے ہیں یقیناً بہت جرم ہم نے کئے ہوئے ہیں کونسا جرم ہے جو ہم نے نہیں کیا۔ جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کر دے اگر اسی معافی کے لئے میں اس معافی کو وسیلہ بنانا چاہوں تو اس کا اختیار دیا گیا ہے یہ نہیں کہ زبردستی ہے۔ یہ جو آپ کو کہا گیا ہے یہ اختیار اس لئے دیا گیا ہے تاکہ آپ کو وہاں اس کا فائدہ ہو۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کو اللہ معاف کروانا چاہتے ہوں گے لیکن اصول اصول ہے اللہ تعالیٰ بے اصولی نہیں فرماتے لیکن کر سب کچھ سکتے ہیں، اب اس کو معاف کرنا چاہتے ہوں گے تو جس کا انہوں نے نقصان کیا ہو گا، جو اہل حق ہو گا، جس کا حق ہو گا تو اس کو جنت دکھائی جائے گی کہ دیکھو یہ جنت ہے اگر آپ اس کو معاف کر دیں اور نہ معاف کر یں تو کوئی بات نہیں وہ تو آپ کا اپنا حق ہے آپ اس سے اپنا حق لے سکتے ہیں۔ اب اس وقت وہ کیا کرے گا اس وقت وہ اس سے حق لے گا تو وہ تو بہت تھوڑا ہو گا لیکن اللہ پاک ان تمام چیزوں کو bypass کروا کے اس کو جنت دینا چاہیں تو اس وقت وہ کیا کہے گا؟ وہ یہی کہے گا، کم از کم میں تو یہی کہوں گا کہ مجھے جنت چاہیے، آپ اس کو بیشک جنت دے دیں لیکن مجھے بھی جنت دیں۔ اب ایسی صورت میں اللہ پاک نے اگر آپ کو اختیار دیا ہے تو آپ کے فائدے کی بات ہے یا نقصان کی؟ فائدے کی بات ہے۔ اس وجہ سے اگر آپ معاف نہ کرنا چاہیں تو آپ پہ زبردستی نہیں ہے بیشک آپ معاف نہ کریں۔ زبردستی نہیں کہ آپ نے گلہ اللہ تعالیٰ سے کرنا ہو کہ یہ کیوں مجھے حکم دیا جا رہا ہے؟ نہیں حکم تو ہے ہی نہیں، وہاں بھی حکم نہیں ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ہے اس میں بھی تو حکم تو نہیں دیا گیا choice دی گئی ہے۔ لہذا آپ اپنی choice پر اگر عمل کرنا چاہیں تو سبحان اللہ شوق سے کریں۔ حضرت شاہ اسحٰق رحمۃ اللہ علیہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے تو ان کے سامنے ان کے جوتے پڑے تھے ایک چور آیا اور ان کے سامنے سے جوتے اٹھا کر لے جانے لگا، ابھی چند قدم ہی گیا تھا کہ وہ اندھا ہو گیا ادھر کھڑا ہو کے رونے لگ گیا۔ لوگوں نے کہا بھئی کیا بات ہے کیا مسئلہ ہے کہتا ہے: یہاں جو بڑے میاں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے ان کے سامنے ان کے جوتے چوری کئے اور چند قدم چلا ہوں تو میں اندھا ہو گیا ہوں اب میں ادھر جا بھی نہیں سکتا۔ لوگ اس کو شاہ صاحب کے پاس لے گئے اور ان کے جوتے دلوا دیئے اور شاہ صاحب سے کہا کہ آپ اسے معاف کر دیں۔ حضرت نے کہا کہ میں نے تو اس کو چوری کے بعد ہی معاف کردیا تھا اور میں کیوں اس کو معاف نہ کرتا آخر یہ آپ ﷺ کا امتی ہے، اس کے لئے آپ ﷺ کو پھر تکلیف ہو گی میں آپ ﷺ کو تکلیف تو نہیں دینا چاہتا، لہذا میں نے تو اس کو معاف کر دیا تھا اب میں کیا کروں اللہ ہی معاف نہ کرے تو اس میں تو میرا بس نہیں چلتا وہاں تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس کو معاف کردے، تو انہوں نے دعا کی پھر اس کے بعد اس کی آنکھیں دوبارہ آ گئیں اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ تو معاف کرنا choice ہے یہ زبردستی نہیں ہے ﴿لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾ والی بات ہے که دین میں تو إِکْرَاہ ہے ہی نہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ خواہ مخواہ جذباتی نہ بنیں اور اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ کیونکہ معاملہ اللہ پاک تک جاتا ہے تو پھر اس میں مسئلہ ہوجاتا ہے لہذا ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہونا چاہیے۔
سوال 17:
حضرت والا سیدی و مرشدی السلام علیکم و رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ! حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے کہ میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کے تمام دروازوں پر دستک دی مگر سب دروازوں پر ہجوم پایا مگر جب میں نے تواضع کے دروازے پر دستک دی اور اس دروازہ سے گزر گیا تو اوروں سے سبقت حاصل کر لی۔ حضرت والا اگر اس ملفوظ پر روشنی فرمانا مناسب ہو تو کرم فرما کر روشنی فرمائیں۔
جواب:
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اصل میں صاف بات ہے ﴿مَنْ تَوَاضَعَ للہِ فقد رَفَعَهُ اللہُ﴾ یہ تو حدیث شریفہ بھی ہے کہ "اللہ کے لئے جس نے اپنے آپ کو گرایا تو اللہ پاک نے اس کو بلند کر دیا"۔ تکبر کے بارے میں فرمایا که (ألكبر رداءي) "بڑائی میری چادر ہے اور یہ چادر مجھ سے جو کوئی چھیننا چاہے تو اسے میں ریزہ ریزہ کر دوں گا"۔ تکبر اور تواضع یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، تکبر جتنی بڑی برائی ہے تو تواضع جو اس کی ضد ہے وہ اتنا ہی زیادہ اونچا کام ہو گا۔ مثال کے طور پر پانی ہے اس کے پاس ایک درخت کھڑا ہے وہ درخت جتنا اونچا ہو گا اتنا ہی پانی کے اندر اس کا سرا نیچے نظر آئے گا، یا پانی کے اندر جب آپ دیکھیں تو جس چیز کا سرا جتنا نیچے نظر آرہا ہے اتنا ہی وہ حقیقت میں اونچا ہو گا۔ تواضع تکبر کی چونکہ ضد ہے اور جب اللہ جل شانہ کی بڑائی آپ مانتے ہیں اس وجہ سے اللہ پاک کی بڑائی تو لا محدود ہے تو پھر مجھے بتائیں کہ اس کا اجر کیا ہو گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ عاجز لوگوں کو بہت زیادہ نوازتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مسکینی نصیب فرمائے۔ باقاعدہ حدیث شریف میں اس کی دعا ہے کہ (ہمیں زمرۃ المساکین میں اٹھا)۔ ﴿وَ احْشُرْنَا فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن﴾ اس وجہ سے یہ بہت بڑی دولت ہے۔ یہ تو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا قول ہے جو که خود امتی ہیں، ہمارے لیے تو آپ ﷺ کے فرمودات ہی کافی ہونے چاہئیں۔ اس وجہ سے تواضع بہت بڑی دولت ہے، اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال 18:
السلام علیکم حضرت میرا ذکر 200 بار لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 400 بار لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 600 بار حق اور 100 بار اللہ مکمل ہو گیا ہے آگے جیسے حکم فرمائیں۔
جواب:
اب آپ یوں کریں کہ باقی تو وہی رکھیں لیکن اللہ 300 مرتبہ کر لیں۔
سوال 20:
فلاں صاحب رحمانیہ مسجد سے السلام علیکم حضرت جی! میری والدہ کا ذکر چالیس دن card والا مکمل ہو گیا ہے آگے حضرت رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاءاللہ بڑی اچھی بات ہے اب ان کو یہ بتا دیں کہ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف، 100 دفعہ استغفار یہ تو عمر بھر کے لئے وہ کرتی رہیں اور اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کے تصور یہ کریں کہ ہر چیز چونکہ اللہ اللہ کر رہی ہے تو میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے تو بس اس دل کے اللہ اللہ کرنے کو سننے کی کوشش کر یں، دس منٹ اسی طرف توجہ رکھیں۔ ان شاء اللہ ایک مہینہ اس کو مکمل کر یں اس کے بعد مجھے اطلاع کر دیں اور کوئی وقت اس کے لئے مقرر کر لیں۔
سوال 21:
السلام علیکم حضرت جی! پچھلے ہفتے ایک رات بھول سے مجھ سے تیسرا کلمہ درود شریف اور استغفار کا ذکر رہ گیا تھا۔ حضرت جی بہت افسوس ہوا غفلت سے بہت ڈرتا بھی ہوں اس لئے سوچتا ہوں کہ حضرت جی کو کیسے بتاؤں گا۔ لیکن پھر بھی حضرت جی اس غفلت پر معافی کا طلبگار ہوں اللہ غفلت سے تمام مسلمانوں کی مجھ سمیت حفاظت فرمائے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ ہم سب کو غفلت سے نکال لے اور یہ جو ذکر ہے یہ تو بہت بڑی دولت ہے تو کوشش کر یں کہ آئندہ یہ نہیں رہے۔ تیسرےکلمہ کا ذکر، درود شریف اور استغفار یہ بہت بڑی دولت ہے۔ یہ تو ایک گلدستہ ہے تو اس گلدستے کو کبھی گم نہ کریں۔
سوال 23:
السلام علیکم!
I hope حضرت is well and the family! I wanted to know which thought is from اللہ and which thought is from شیطان in order to protect ourselves from the thoughts of نفس and شیطان and also what is نسبت?
جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
سبحان اللہ۔ الحمد للہ۔
Well and I hope ان شاء اللہ you will also be well. As for your question is concerned, so to know this, which thing is from اللہ and which thing is from شیطان or from نفس, it’s very very easy because
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدۃ:3)
this verses of قرآن tells us that دین has completed and no change will be done in this. Therefore, if anything is against شریعت coming in my mind, that will be either from شیطان or from نفس. If it is continuously coming in the same manner, so it means it's from نفس and if it is changing for example; if one time one thing is coming and the other time other thing is coming and changing frequently, so it’s from شیطان because شیطان doesn’t bother by which thing you may be deviated from the real path. For him it is equal whether a person becomes a Jew or becomes Christian or becomes Hindu or becomes Parsi. It's the same for شیطان. No change in this because he only wants to deviate you from the real path which is اسلام. On the other hand, نفس desires something it did. نفس is never interested in sin or مذہب. It only desires something for this and for that. For example if you give it that thing by real means, by normal means which is not against Islam it will be happy for this also. And if it is against اسلام it will be happy for that also. So نفس is never interested in good things or bad things but it is interested only in fulfilling the desires and شیطان is only interested in sin or کفر. He is not interested in your لذت or fulfilling desires. And what is نسبت? So it’s actually a combination of two things. Number one: when you will become a complete عبد and you will be doing only things according to سنۃ of رسول اللہ ﷺ and for اللہ سبحانہ و تعالیٰ so, if it becomes your طبیعت ثانی so then it’s from your side and from اللہ side, it is that اللہ accepts your اعمال and generates good means for your تربیت by itself day by day. So that is نسبت. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us this نسبت!
سوال 24:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی میرا ذکر مکمل ہو گیا ہے الحمد للہ 200، 400، 600 اور 9000 مرتبہ۔
جواب:
اب آپ 10000 (دس ہزار) کر لیں۔
سوال 25:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی ان دونوں میں سے کون سا درود افضل ہے ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم یا صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘۔
جواب:
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم آپ ﷺ کا نام جب آتا ہے تو اس کے ساتھ فوراً بولتے ہیں۔ لوگوں کا تقریباً معمول ہے کہ جب کبھی آپ ﷺ کا نام آتا ہے تو فوراً کہتے ہیں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم اور جب کوئی وظیفہ کے طور پہ پڑھتا ہے تو اس میں مختلف درود ہیں۔ اس میں ’’صَلَّی اللہُ علی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ بھی ہے اور ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّد‘‘ بھی ہے ’’جَزَی ﷲُ عَنَّا مُحَمَّدًا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ‘‘ بھی ہے اور اس طرح اور بھی مختصر درود شریف ہیں۔ بڑا اور زیادہ فضیلت والا درود اگر پڑھنا ہے تو وہ درود ابراہیمی ہے اور اگر چھوٹے درود پڑھنے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی پڑھ سکتے ہیں۔
سوال 26:
?توحید مطلب what is
جواب:
Actually توحیدِ مطلب is that by which you consider only one person responsible for your تربیت and you don’t contact any other person for this purpose. You may join any شیخ or any good person for sitting for صحبتِ صالحین. You should not consult any other person for your تربیت.For your تربیت there is only one شیخ. You see that امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ was having more than 4000 teachers but only one شیخ. He was having حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ and about that شیخ
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ was saying
﴾لَوْلَا سَنَتَان لَھَلَکَ النُّعْمَانُ﴿
(If I would not spend two years with امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ so I would be finished). May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us توفیق to be with one شیخ all the time for تربیت! This is توحیدِ and if you want to hear more about it, so I think you should read امداد السلوک in which حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ has explained this point very well. So for that you may consult that book .
سوال 27:
آپ نے جو ابھی بتایا ہے ابتدائی وظیفہ، بلا ناغہ چالیس دن پورا کر لیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ اب ان کو اگلا وظیفہ دس منٹ کے مراقبے کے ساتھ دے دیجئے گا۔
سوال 28:
اور پھر لطیفۂ قلب دس منٹ ذکر محسوس ہوا ہے الحمد للہ۔
جواب:
اب اس کو پندرہ منٹ کا لطیفۂ روح بھی ساتھ دے دیں۔
سوال 29:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ۔
جواب:
ماشاءاللہ ان کو دس دس منٹ باقی لطائف اور پندرہ منٹ کا لطیفۂ اخفیٰ دے دیں۔
سوال 30:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ۔
جواب:
سو اب دس دس منٹ کا لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور پندرہ منٹ کا لطیفۂ خفی۔
سوال 31:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ۔
جواب:
اب ان کو چاروں لطیفے دس منٹ کے اور آخری لطیفۂ پندرہ منٹ کا دے دیں۔
سوال 32:
لطیفۂ قلب دس منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
تو اب اس کو لطیفۂ قلب کے ساتھ پندرہ منٹ کا لطیفۂ روح بھی دے دیں۔
سوال 33:
اس طالبہ کو پہلے ذکر محسوس نہیں ہوتا تھا پھر حبس دم کا وظیفہ کر لیا تو اب محسوس ہونے لگا ہے ماشاءاللہ۔
جواب:
تو اب اس کو لطیفۂ قلب دس منٹ کا اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا دے دیں۔
سوال 34:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، ہر لطیفۂ پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاءاللہ تو اب اس کو لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح پہ دس دس منٹ اور لطیفۂ سر پر پندرہ منٹ دے دیں۔
سوال 35:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ۔
جواب:
اچھا اب اس کو بیٹھ کر بھی کروا دیں تا کہ یہ بیٹھ کر بھی کر سکے۔
سوال 36:
لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔
جواب:
اب لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح دس دس منٹ اور لطیفۂ سر ان کو پندرہ منٹ کا دے دیں۔
سوال 37:
لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔
جواب:
اس کو لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دس دس منٹ کا دیں اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ کا دے دیں۔
سوال 38:
لطیفۂ قلب پندرہ منٹ۔
جواب:
اس کو ابھی ایک مہینہ اور کرا دیں اگر محسوس نہیں ہو رہا۔
سوال 39:
لطیفۂ قلب دس منٹ۔
جواب:
اس کو لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا دے دیں۔
ماشاءاللہ! اللہ جل شانہ سب کی کوشش کو قبول فرمائے۔
﴾وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ﴿