تعلیمات مجددیہ

درس 26

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


عنوانات:

ولایت سے مراد فنا و بقا ہے۔

ولی کو اپنی ولایت یا خوارق کا علم ہونا شرط نہیں ہے۔

اولیاء اللہ کے بعض کشف غلط واقع ہوتے ہیں۔

خوارق و کرامات کا ظہور ولایت کی شرط نہیں ہے۔




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

الله جل شانهٗ نے امتِ مسلمہ کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه کے قلب مبارک پر جو معارف القا فرمائے ہیں، اگر ہم ان کو حاصل کر لیں تو ہمیں مفت میں بہت ساری چیزوں میں آسانی حاصل ہو گی۔

ولایت سے مراد فنا و بقا ہے:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 216 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

ولایت سے مراد فنا و بقا ہے اور خوارق و کشفیات خواہ کم ہوں یا زیادہ‘ اس (فنا و بقا) کے لوازم میں سے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس سے خوارق زیادہ ظاہر ہوں اس کی ولایت بھی اتم و اکمل ہو بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ (کسی بزرگ سے) خوارق بہت کم ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی ولایت اکمل ہوتی ہے۔ اور خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کا مدار دو چیزوں پر ہے: عروج کے وقت میں بہت زیادہ عروج کرنا اور نزول کے وقت میں بہت کم نیچے اترنا۔ بلکہ کثرت خوارق کے ظہور میں کُلیہ قاعدہ قلت نزول یعنی بہت کم نزول کرنا ہے، خواہ وہ عروج کی جانب کسی بھی کیفیت سے ہو کیونکہ صاحب نزول عالم اسباب میں اترتا ہے اور اشیاء کے وجود کو اسباب سے وابستہ پاتا ہے اور مسبب الاسباب کے فعل کو اسباب کے پردے کے پیچھے دیکھتا ہے۔ جس شخص نے نزول نہیں کیا اور نزول کے اسباب تک نہیں پہنچا اس کی نظر صرف مسبب الاسباب کے فعل پر ہے کیونکہ (مسبب الاسباب کے فعل پر اس کی نظر ہونے کے باعث) تمام اسباب اس کی نظر سے مرتفع (اٹھ گئے) ہیں۔ پس حق سبحانہ و تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے ظن کے موافق علیحدہ علیحدہ معاملہ کرتا ہے۔ اسباب کو دیکھنے والے کا کام اسباب پر ڈال دیتا ہے اور جو اسباب کو نہیں دیکھتا اس کا کام بغیر وسیلے کے مہیا کر دیتا ہے۔ حدیث قدسی "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِي" (ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں) اس مطلب پر دلیل ہے۔ بہت مدت تک دل میں یہ خلش رہی کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اس امت میں اکمل اولیا بہت گزرے ہیں مگر جس قدر خوارق حضرت سید محی الدین جیلانی قدس سرہ سے ظاہر ہوئے ہیں اس قدر خوارق ان میں سے کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ آخر کار حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس معما کا راز ظاہر کر دیا اور معلوم ہوا کہ ان کا عروج اکثر اولیاء سے بلند تر واقع ہوا ہے اور نزول کی جانب میں مقامِ روح تک نیچے اترے ہیں جو عالم اسباب سے بلند تر ہے۔

خواجہ حسن بصری اور حبیب عجمی قدس سرہما کی حکایت اس مقام کے مناسب ہے: منقول ہے کہ ایک دن خواجہ حسن بصریؒ دریا کے کنارے کھڑے ہوئے کشتی کا انتظار کر رہے تھے تاکہ دریا سے پار ہوں، اسی اثنا میں حبیب عجمیؒ بھی آنکلے اور پوچھا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ فرمایا کشتی کا انتظار ہے حبیب عجمیؒ نے کہا کشتی کی کیا حاجت ہے کیا آپ یقین نہیں رکھتے؟ خواجہ حسن بصریؒ نے کہا کیا آپ علم نہیں رکھتے۔ غرض کہ حبیب عجمیؒ کشتی کے بغیر دریا سے گزر گئے اور خواجہ حسن بصریؒ کشتی کے انتظار میں کھڑے رہے۔ خواجہ حسن بصریؒ نے چونکہ عالم اسباب میں نزول کیا ہوا تھا اس لئے (کارکنانِ قضا و قدر) ان کے ساتھ اسباب کے وسیلے سے معاملہ فرماتے تھے اور حبیب عجمیؒ نے چونکہ پورے طور پر اسباب کو نظر انداز کر دیا تھا اس لئے (کارکنانِ قضا و قدر) ان کے ساتھ اسباب کے وسیلے کے بغیر معاملہ کرتے تھے۔ لیکن فضیلت حضرت خواجہ حسن بصریؒ کے لئے ہے جو صاحب علم ہیں اور جنہوں نے عین الیقین کو علم الیقین کے ساتھ جمع کر لیا ہے اور اشیاء کو جیسی کہ وہ ہیں سمجھ لیا ہے کیونکہ قدرت کی اصل حقیقت کو حکمت میں پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ حبیب عجمیؒ صاحب سکر ہیں اور فاعلِ حقیقی پر ایک ایسا یقین رکھتے ہیں جس میں اسباب کا کچھ دخل نہیں ہے۔

تشریح:

حضرت کے کتنے بڑے معارف ہیں۔ حضرت نے یہ بہت اہم نکتہ بیان فرمایا ہے۔ بہت سارے لوگ اس چیز کو نہ جاننے کی وجہ سے پتا نہیں کن کن فضول چیزوں میں پڑے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ مقصودِ اصلی کیا ہے۔ تصوف بذات خود مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصود حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اصل مطلوب شریعت پر عمل ہے۔ تصوف اور طریقت اس عمل کو آسان کرنے اور عقائد کو پختہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ تصوف کے ذریعہ عقائد پختہ اور اعمال آسان اس طرح ہوتے ہیں کہ عقائد کا تعلق یقین کے ساتھ ہے، لہٰذا جتنا علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین بڑھے گا، عقائد اتنے پختہ ہوتے جائیں گے اور اعمال کا تعلق نفس کو قابو کرنے کے ساتھ ہے، لہٰذا جتنا نفس قابو ہو گا، اتنا اتنا عمل آسان ہوتا جائے گا۔ نفس کا قابو ہونا فنا ہے اور اس کے بعد اللہ پاک کی طرف سے جو تشکیل ہوتی ہے، وہ بقا ہے۔ اسی بات کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یوں فرمایا کہ ولایت سے مراد فنا و بقا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔

یہاں ایک لفظ ”خوارق و کشفیات“ آیا ہے، ”خوارق“ ”خارق“ کی جمع ہے، اس سے مراد خرقِ عادت امور ہیں۔ خرق عادت کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے عمومی طریقۂ کار کو by pass کر کے کوئی کام بغیر اسباب کے کر دیا جائے، جیسے آگ کی فطرت ہے کہ وہ جلاتی ہے۔ لیکن اگر آگ نہ جلائے تو یہ خلافِ فطرت اور خرقِ عادت ہے۔ خرقِ عادت امر نبی کے لئے معجزہ ہوتا ہے اور ولی کے لئے کرامت ہوتی ہے۔

اسی طرح کشف بھی ایک خرق عادت امر ہے۔ مثلاً اللہ پاک نے آنکھ دیکھنے کے لئے بنائی ہے۔ میں اگر اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتا ہوں تو یہ عام عادت اور فطرت کی بات ہے۔ آنکھ ایک سبب ہے جس کو میں دیکھنے کے لئے استعمال کر رہا ہوں۔ اس دیوار کے پیچھے مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا کیونکہ اللہ پاک نے یہ چیزیں ایسی بنائی ہیں کہ میری آنکھ اس دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتی اور رات کے وقت اندھیرے میں بھی میں نہیں دیکھ سکتی۔ اگر کسی کو دیوار کے پیچھے نظر آتا ہے، یا وہ رات کے وقت بآسانی کھلی آنکھوں سے اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے، تو یہ خلافِ فطرت اور خرقِ عادت امر ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ رات کے اندھیرے میں night vision infrared آلات کے ذریعے دیکھنا خرقِ عادت نہیں ہے بلکہ یہ عام عادت کے مطابق ہے، ایک scientific phenomenon ہے۔ اگر اس کے ذریعے کوئی دیکھے تو کرامت نہیں ہو گی۔ اگرچہ عام لوگوں کو وہ کرامت ہی محسوس ہو گی، اس لئے کہ ان پر اسباب کھلے ہوئے نہیں ہیں۔

بعض ظالم لوگ جنہوں نے ابتدا میں نبوت کے دعوے کئے تھے، انہوں نے بعض scientific phenomenonکو استعمال کر کے لوگوں کو دھوکہ دیا تھا۔ مثلاً چہروں پہ نور لانے کے لئے کوئی طریقہ اختیار کیا تھا اور بھی کئی اس طرح چیزیں استعمال کی گئی ہیں۔ حالانکہ در اصل وہ عام عادت کے مطابق کام تھا، لیکن لوگوں کے لئے خلافِ عادت تھا لہٰذا لوگ اس پہ دھوکہ کھا جاتے تھے۔

جب حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیه فوت ہوئے تو ان کے خلیفہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیه اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمة اللہ علیہ موجود تھے۔ وہاں ایک صاحب زار و قطار رو رہے تھے اور چاہ رہے تھے کہ اس طرح روتے روتے حضرت گنگوہی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے چہرے پہ ہاتھ پھیر لوں۔ شیخ الہند رحمة اللہ علیه نے ان کو پکڑ لیا اور دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ لوگ حیران ہو گئے کہ حضرت تو اس طرح نہیں کرتے، آخر کیا وجہ ہوئی؟ بعد میں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ آدمی حضرت کا مخالف تھا، لیکن ایسے ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ معتقد ہے، اور اس نے ہاتھ پہ ایسا پاؤڈر ملا ہوا تھا، جو کسی چیز پہ لگا دیا جائے تو چند منٹوں کے بعد وہ چیز سیاہ ہو جاتی ہے۔ یوں در اصل وہ حضرت کا چہرہ سیاہ کرنا چاہتا تھا تاکہ لوگوں کو دکھایا جائے کہ یہ وہابی تھا اور اس کا چہرہ موت کے وقت سیاہ ہو گیا۔ گویا یہ ان کی سازش تھی۔ لیکن حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیه اللہ والے تھے، یہ حضرات بہت زیرک اور بہت ہوشیار ہوتے ہیں، انہوں نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ کیا کرنا چاہتا ہے اور پکڑ کے دیکھا تو معلوم ہو گیا کہ انہوں نے ایسا کرنا تھا۔

الغرض ایک عادت اور عام طریقہ کار کی چیز ہوتی ہے اور ایک خلافِ عادت چیز ہوتی ہے۔ اس مثال سے یہ بات مزید واضح ہو سکتی ہے کہ جیسے نیلا تھوتھا تانبے کو سلفیورک ایسڈ میں ڈالنے سے بنتا ہے۔ تانبے کا رنگ سرخ نما ہوتا ہے اور سلفیورک ایسڈ کا رنگ زردی مائل سرخ نما ہوتا ہے، جب یہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں، تو بالکل طوطے کی طرح سبز رنگ بن جاتا ہے، اس کو نیلا تھوتھا (copper sulphate) کہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک فطرت کی بات ہے، اس میں کوئی کرامت نہیں، بلکہ ایک عمومی عمل ہے کہ آپ نے دو چیزیں ملا کر ایک نئی چیز بنا دی ہے۔ ہم لوگ جب F.S.C میں کوئی تجربہ کرتے تھے تو بہت دلچسپی لیتے تھے کہ بڑی مزے کی چیز ہے، نئی نئی چیزیں بن رہی ہیں۔ یہ چیزیں بظاہر بڑی عجیب لگتی ہیں، لیکن وہ عجیب نہیں ہوتیں، ہاں ہم پر ان کا طریقہ کار نہیں کھلا ہوتا۔

اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ کشفیات اور خوارق عجائبات ہیں اور عجائبات کا وقوع ممکنات میں سے ہے۔ یہ عجائبات مقصود نہیں ہیں لیکن ان عجائبات کا ہونا عین ممکن ہے۔ تصوف کے راستے میں ان چیزوں کو توابع کہتے ہیں، جس کو میں عرف عام کے مطابق ضمنی اثرات کہہ سکتا ہوں۔ جیسے الرجی کو دور کرنے کے لئے آپ کوئی اینٹی الرجک دوا لے لیں تو اس سے الرجی تو ٹھیک ہو جائے گی، لیکن آپ کو نیند بھی آئے گی۔ جبکہ آپ کا مقصود نیند نہیں ہے، بلکہ مقصود الرجی کا علاج ہے۔ آپ نہیں چاہتے ہوں گے کہ مجھے نیند آئے۔ مثلاً آپ گاڑی چلا رہے ہوں تو آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ کو نیند آئے اور آپ سے یہی کہا جائے گا کہ نیند آ رہی ہے تو گاڑی نہ چلائیں۔ لیکن دوائی کے ضمنی اثرات کے طور پر نیند آئے گی۔ اسی طرح بزرگ خوارق و کشفیات وغیرہ نہیں چاہتے، ان سے دور بھاگتے ہیں، بلکہ کہا گیا ہے کہ وہ ان چیزوں کے ظہور پر ایسے پریشان ہوتے ہیں، جیسے حائضہ عورت اپنے حیض کا خون نظر آنے پر پریشان ہوتی ہے۔ یعنی جس طرح حائضہ عورت اپنے حیض کے خون کو کبھی بھی ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتی، یہ ان کے لئے پردے کی چیز ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ چیز موجود ہے، اس سے وہ انکار تو نہیں کر سکتی، لیکن اس کو چھپائے گی ضرور۔ اسی طرح بزرگ خوارق و کشفیات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بلکہ باتوں باتوں میں چھپا دیتے ہیں، آگے پیچھے کر دیتے ہیں، تاکہ ظاہر نہ ہوں۔ جتنا ان کا بس چلے اسے چھپاتے ہیں۔ بعض دفعہ اللہ پاک خود ہی ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اس میں انسان کچھ نہیں کر سکتا، وہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ حضرات خود یہی کوشش کرتے ہیں کہ ظاہر نہ ہوں۔ عوام چاہتے ہیں کہ ہم سے کوئی کرامت ہو ہی جائے، کیونکہ یہ دنیا ہے، تو عوام دنیا کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں، ان کا مقصود دنیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی ترقی نہیں ہوتی، دنیا کے طالب جو ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’الدُّنْيَا جِيفَةٌ وَطُلَّابُهَا كِلَابٌ‘‘ (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري، ج2 ص267)

ترجمہ: ’’دنیا مردار ہے اور اس کو طلب کرنے والے کتے ہیں‘‘۔

لہٰذا جو ان چیزوں کے طالب ہوں گے، وہ دنیا دار ہیں، وہ تصوف میں ترقی نہیں کر سکتے، وہ اِدھر اسی میں ہی پڑے رہیں گے۔

اس وجہ سے ہمارے اکابر اس معاملہ میں بہت زیادہ چوکنے ہوتے ہیں۔ اگر کسی میں ذرہ بھر بھی اس قسم کے جراثیم دیکھتے ہیں تو خوب روک ٹوک، ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں کہ کسی طریقہ سے ان سے یہ چیز نکل جائے، وہ اس طرف نہ آئیں۔ لیکن جن لوگوں میں اس چیز کا خیال نہ ہو، وہ انہی چیزوں میں پڑے رہتے ہیں۔

ایک بار مفتی مختار الدین شاہ صاحب دامت برکاتہم یہاں تشریف لائے تو ہم ان کے ساتھ ایک صاحب سے ملنے کے لئے گئے، وہاں ایک صاحب مفتی صاحب سے کہنے لگے کہ آج کل کے حالات کے بارے میں کیا کشف ہے؟ مفتی صاحب ان چیزوں سے دور رہتے تھے، لیکن ان صاحب کو طلب تھی، وہ صاحب کشفیات وغیرہ کی باتیں بہت کرتے تھے۔

یہ ایک مرض ہے، جس کو لگ جائے وہ اسی میں گم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو بچائے، یہ متعدی مرض ہے، اگر ایک کو ہو تو اس سے دوسرے کو بھی لگتا ہے۔ اس سے اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے کہ کہیں مجھے نہ لگ جائے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا بھی نہیں چاہئے، جن کو کشفیات کا مرض ہو۔ خواہ مخواہ ایک لت پڑ جاتی ہے، پھر آدمی اسی میں سر گرداں پھرتا رہتا ہے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه اس معاملہ میں اتنے زیادہ چوکنے تھے کہ میں نے ایک بار کوئی اپنا حال بتانا چاہا، درمیان میں کچھ ایسی باتیں آ گئی تھیں تو حضرت نے فرمایا: ”دور کرو دور کرو یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں“۔ یہی صحیح تربیت ہے، تاکہ اس طرف ذہن بھی نہ جائے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے خود اپنا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمة اللہ علیه سے کہا کہ حضرت کیا تسخیر کا عمل بھی ہوتا ہے؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ہوتا ہے، میں جانتا ہوں اور سکھا بھی سکتا ہوں، لیکن مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تم خدا بننے کے لئے آئے ہو یا بندہ بننے کے لئے آئے ہو؟ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کہتے ہیں، یہ بات سن کر مجھے اس سے اتنی نفرت ہو گئی کہ اب اس کا نام بھی نہیں سن سکتا۔

آج کل عامل لوگ اس تسخیر کے عمل کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں کہ کسی طرح یہ عمل مل جائے اور ہم انسانوں اور جنات کو مسخّر کر لیں۔ یہ جنات کو قابو کرنا بھی تسخیر کا حصہ ہے۔ قابو کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان سے خدمت لی جاتی ہے۔ جنات بھی ایک مکلف مخلوق ہے۔ اگر آپ انہیں مسخر کر کے بغیر اجرت دئیے زبردستی ان سے کام لیتے ہیں تو یہ جرم نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت عمر رضي الله تعالیٰ عنه فرماتے تھے کہ ”الله جل شانهٗ نے جن کو آزاد پیدا کیا ہے تم کون ہو ان کو غلام بنانے والے؟“ تاریخی فقرہ ہے: ”تم ان کو غلام بنانے والے کون ہوتے ہو؟“

عامل لوگ اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں، پھر بھگتتے بھی ہیں۔ آپ کسی کو زبردستی غلام بنائیں گے تو کیا وہ آرام سے بن جائیں گے؟ کیا وہ اپنا دفاع نہیں کریں گے؟ ان کی جتنی طاقت ہو گی، اس کے مطابق وہ اپنا دفاع کریں گے اور وہ دفاع کرتے بھی ہیں، نتیجتاً نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ لوگ مارے بھی جاتے ہیں۔ اوروں کو چھوڑیں، عاملین کے گھر والے بھی بڑے پریشان ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک خالو تھے انہوں نے بڑی مشقیں کی تھیں، بڑے باکمال عامل تھے، لیکن مخلص تھے، اس کام کو کبھی دنیا کے لئے استعمال نہیں کیا، پروفیسر تھے، انہیں اس کام کی ضرورت بھی نہیں تھی، لیکن انہوں نے یہ مشقیں کی تھیں اور واقعی بہت با کمال عامل تھے۔ ان کے گھر میں بھی یہی مسئلہ تھا کہ جب کسی کے لئے تعویذ دیتے تو ان کے بچوں کی شامت آ جاتی۔ میرے چھوٹے چھوٹے کزن تھے، کبھی کوئی نیچے سیڑھیوں میں پڑا ہوتا تھا، کوئی نالی کے پاس پڑا ہوتا تھا۔ ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہی رہتا تھا۔ جب کچھ ایسا ہوتا تو ہماری خالہ کہتی تھیں کہ آپ نے پھر کچھ ایسا کیا ہو گا، کسی کو تعویذ وغیرہ دیا ہو گا۔ ان کے ساتھ یہ چیزیں ہوتی تھیں، لیکن وہ تھے بہت مخلص، اس کو کبھی دنیا کے لئے استعمال نہیں کیا۔ پھر اللہ پاک نے ان کو اس کا اجر بھی دیا۔

الغرض یہ کشفیات و خوارق تصوف میں مطلوب نہیں ہیں لیکن تصوف میں ضمنی اثرات کے طور پہ آ جاتے ہیں۔ مخلص لوگ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب اللہ پاک ان سے خود ظاہر کروا دیں تو پھر وہ اس میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

فرمایا: ”خوارق و کشفیات خواہ کم ہوں یا زیادہ‘ اس (فنا و بقا) کے لوازم میں سے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس سے خوارق زیادہ ظاہر ہوں اس کی ولایت بھی اتم و اکمل ہو بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ (کسی بزرگ سے) خوارق بہت کم ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی ولایت اکمل ہوتی ہے۔ اور خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کا مدار دو چیزوں پر ہے۔“

حضرت تھانوی رحمة اللہ علیه کی تعلیمات میں بہت پہلے میں نے یہ بات پڑھی تھی کہ خوارق ان حضرات سے زیادہ صادر ہوتے ہیں جو مقامِ عروج میں ہوتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمة الله عليه کے ایک خلیفہ کے خلیفہ ہیں۔ حیدر آباد میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ میں ریلوے سٹیشن کی طرف جا رہا تھا تو ٹیکسی والا کہتا ہے کہ گاڑی چلی گئی ہو گی۔ میں نے کہا: کیسے جا سکتی ہے، تم جاؤ، گاڑی نہیں جا سکتی۔ کہتے ہیں جب ہم پہنچ گئے تو وہاں گاڑی کھڑی تھی، اس میں کوئی خرابی ہو گئی تھی جس وجہ سے وہ نہ چل سکی۔ کہتے ہیں، اس طرح کئی واقعات ہوتے تھے۔ میں جب بھی اپنے شیخ کو بتاتا تو فرماتے: ”اچھا ابھی تک عروج چل رہا ہے۔“ وہ نزول کا انتظار کر رہے تھے، کیونکہ تکمیل نزول سے ہوتی ہے۔ گویا کہ وہ اس کی تحسین نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو ایک طرح سے انتظار میں ڈال لیتے تھے کہ اچھا ابھی عروج ہے۔ اور جس وقت نزول شروع ہو گیا تو پھر ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہوتی تھیں، پھر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت نے بھی یہی بات فرمائی ہے: عروج کے وقت میں بہت زیادہ عروج کرنا اور نزول کے وقت میں بہت کم نیچے اترنا۔

نزول میں کیا ہوتا ہے اور عروج میں کیا ہوتا ہے! عروج میں انسان کی نظر اللہ پر ہوتی ہے، اسباب پر نہیں ہوتی۔ یعنی جو مقام عروج میں ہوتے ہیں، وہ مسبب الاسباب کے سامنے اسباب کو بالکل کچھ بھی نہیں سمجھتے، ان کی نظر اللہ پر ہوتی ہے۔ ایک شخص اللہ تعالیٰ پہ یقین اور توکل کے لحاظ سے تو بہت اچھا ہے، لیکن لوگوں میں کام نہیں کر سکتا، کیونکہ لوگوں میں کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان ان چیزوں کے ساتھ موجود ہو جو لوگوں میں ہوتی ہیں۔ یعنی وہ لوگوں کے ساتھ ایک ہی page پر ہو۔ پھر وہ ان کے احساسات بھی سمجھ سکتا ہے، ان کی تربیت بھی کر سکتا ہے۔ جو لوگ ایسے ہوتے ہیں، ان کو لوگوں کے ساتھ مِکس کیا جاتا ہے۔ اِس کو بقا کہتے ہیں۔ عروج فنا میں ہے اور نزول بقا میں ہے۔ فنا میں انسان کی اپنے اوپر سے نظر ہٹ جاتی ہے، چیزوں کے اوپر سے نظر ہٹ جاتی ہے، صرف اللہ پہ نظر ہوتی ہے۔ اور بقا میں چیزوں کے اوپر نظر ہوتی ہے، اس کے مطابق اللہ پاک نے جو حکم دیا ہوتا ہے، اس حکم کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

ایک صاحبِ نزول بزرگ کا عالم بھائی بیمار ہو گیا۔ بیماری کے وقت تکلیف کی وجہ سے کراہتے ہوئے ”یَا اَللہ! یَا اللہ! یَا اَللہ!“ کہنے لگا۔ اس پر وہ صاحبِ نزول بزرگ کہتے ہیں: یوں کہو ”ہائے میری ماں! ہائے میری ماں!“، جلدی ٹھیک ہو جاؤ گے۔ وہ عالم حیران ہو گیا کہ یہ بزرگ کیا کہہ رہا ہے۔ کہنے لگا: آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ بزرگ کہتے ہیں: جو میں کہہ رہا ہوں، اس کو مان لو۔ اس نے یہ کہنا شروع کیا تو جلدی ٹھیک ہو گیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا تو اپنے آپ کو ایسے ظاہر کرتا ہے کہ میں بڑا قطب ہوں، پہنچا ہوا ہوں کہ اس وقت بھی اللہ اللہ کر رہا ہوں۔ تجھے اپنی تکلیف کا احساس نہیں ہے، بلکہ بزرگی کی طرف توجہ ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملہ پھر سخت ہی ہوتا ہے۔ میں آپ کو کہتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی دکھاؤ۔ اپنی اضطراری کیفیت ظاہر کرو، ایسی کیفیت میں جلدی جواب آئے گا۔ ﴿أَمَّن يُّجِيْبُ المُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ...﴾ (النمل: 62) والی بات ہو جائے گی۔ یہ معرفت کی بات تھی۔

فرمایا:

متن:

”بلکہ کثرت خوارق کے ظہور میں کُلیہ قاعدہ قلت نزول یعنی بہت کم نزول کرنا ہے، خواہ وہ عروج کی جانب کسی بھی کیفیت سے ہو کیونکہ صاحب نزول عالم اسباب میں اترتا ہے اور اشیاء کے وجود کو اسباب سے وابستہ پاتا ہے اور مسبب الاسباب کے فعل کو اسباب کے پردے کے پیچھے دیکھتا ہے۔ جس شخص نے نزول نہیں کیا اور نزول کے اسباب تک نہیں پہنچا اس کی نظر صرف مسبب الاسباب کے فعل پر ہے کیونکہ (مسبب الاسباب کے فعل پر اس کی نظر ہونے کے باعث) تمام اسباب اس کی نظر سے مرتفع (اٹھ گئے) ہیں۔ پس حق سبحانہ و تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے ظن کے موافق علیحدہ علیحدہ معاملہ کرتا ہے۔ اسباب کو دیکھنے والے کا کام اسباب پر ڈال دیتا ہے اور جو اسباب کو نہیں دیکھتا اس کا کام بغیر وسیلے کے مہیا کر دیتا ہے۔ حدیث قدسی "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِي" (ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں) اس مطلب پر دلیل ہے۔ بہت مدت تک دل میں یہ خلش رہی کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اس امت میں اکمل اولیا بہت گزرے ہیں مگر جس قدر خوارق حضرت سید محی الدین جیلانی قدس سرہ سے ظاہر ہوئے ہیں اس قدر خوارق ان میں سے کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ آخر کار حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس معما کا راز ظاہر کر دیا اور معلوم ہوا کہ ان کا عروج اکثر اولیاء سے بلند تر واقع ہوا ہے اور نزول کی جانب میں مقامِ روح تک نیچے اترے ہیں جو عالم اسباب سے بلند تر ہے۔“

تشریح:

یعنی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه کا عالمِ بالا کے ساتھ زیادہ رابطہ تھا، یعنی عروج میں زیادہ تھے اور نزول میں کم اترے تھے۔ اس وجہ سے ان کے ہاں خوارق کا ظہور زیادہ تھا۔ اور قادری سلسلہ میں ابھی تک یہ چیز موجود ہے، جو صحیح قادری بزرگ ہیں، ان میں یہ چیز ابھی تک ہے موجود کہ وہ اس طریقہ سے بہت کچھ لیتے ہیں اور ان سے خوارق کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔

ایک بار میں حضرت تسنیم الحق صاحب رحمة اللہ علیه کے ساتھ ان کے شیخ میخبند بابا جی رحمة اللہ علیه کے پاس گیا تھا۔ وہ بھی قادری تھے، ان کی عمر تقریباً 140 سال تھی۔ ان کی خانقاہ پہاڑ میں تھی۔ انہوں نے خود مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ شیخ پامال شریف نے جب مجھے اجازت دی تو میری تشکیل یہاں میخبند میں کی کہ یہاں پر رہوں۔ میں نے شکایت کی حضرت وہاں تو پانی نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا: ”پانی مل جائے گا ناں“ پشتو میں کہا ”اللہ تعالیٰ دے دے گا ناں“۔

وہ کہتے ہیں: میں یہاں آ گیا۔ صبح رفعِ حاجت کے لئے اوپر پہاڑ کی طرف گیا، جب استنجا خشک کرنے کے لئے میں نے ایک پتھر کو نکالنا چاہا تو اس کے نیچے کچھ تراہٹ، کچھ تری سی محسوس ہوئی، جیسے کہ وہ گیلا ہے، حالانکہ موسم خشک تھا، گیلا ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا۔ میں نے اس جگہ کو تھوڑا سا کریدا تو تھوڑا سا پانی نکلا اور کیچڑ سا بن گیا۔ میں نے اور کریدا تو تھوڑا سا پانی رسنا شروع ہو گیا۔ میں نے اپنے لوگوں کو بتایا، نوجوان کدال وغیرہ لے کر آئے اور کھودا تو زبردست چشمہ نکل آیا۔

جب ہم وہاں حضرت کے ساتھ گئے تھے، اس وقت بھی وہ چشمہ بہہ رہا تھا۔ حضرت نے چشمے کا رخ اپنی خانقاہ کی طرف کیا تھا اور وہیں پر حوض بنایا ہوا تھا۔ حوض میں وضو بھی کرتے تھے، پانی بھی بھرتے تھے، سارا کچھ اس سے ہوتا تھا اور پھر وہی پانی حوض سے نیچے پہاڑ کے دامن میں جاتا تھا، تو وہاں باقاعدہ گھاٹ بن گیا تھا۔ گاؤں کی عورتیں وہاں سے پانی بھرتی تھیں اور لوگ کپڑے دھونے کے لئے وہاں پر آتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پورا ایک نظام بنا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کرامت تھی۔

حضرت میخبند بابا جی کو بہت تیز کشف ہوتا تھا اور صاف نظر آتا تھا، اس میں کوئی شک نہیں ہوتا تھا۔ جب میں حضرت تسنیم الحق صاحب کے ساتھ ان سے ملنے گیا تو انہوں حضرت تسنیم الحق صاحب رحمة اللہ علیه کو گلے سے لگایا۔ چونکہ تسنیم الحق صاحب ان کے خلیفہ تھے۔ میرے دل میں خواہش ہوئی کہ مجھے بھی اس طرح گلے سے لگائیں۔ تو انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا: ”اپنے دل میں باتیں نہ رکھو، اچھا!“ میں نے کہا: ”اچھا“۔

صبح کے وقت میں، تسنیم الحق صاحب اور میخبند بابا جی ہم تینوں بیٹھے ہوئے تھے تو میخبند بابا جی نے واقعات سنانے شروع کئے کہ میرے ساتھ اس طرح ہوا اور اس طرح ہوا۔ مجاہدات اور اپنے روحانی سفر کے واقعات بیان کر رہے تھے۔ تسنیم الحق صاحب ذرا دور بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اگر آپ مجھے کہہ رہے ہیں تو میں یہ مجاہدات نہیں کر سکتا۔ تو ان سے فرمایا: ”تجھے نہیں کہتا“۔ تو پھر کس کو کہہ رہے تھے؟ یعنی پھر مجھے ہی کہہ رہے تھے، کیونکہ وہاں ہم تین ہی تو تھے۔ وہ سارے واقعات بیان کر رہے تھے جو ان کے ساتھ گذرے تھے۔

خیر حضرت مجدد الفِ ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرما رہے ہیں کہ یہ چیزیں مقصود نہیں ہیں، یہ راستے کی باتیں ہیں۔ ہاں یہ ہوتی ضرور ہیں، ان کا انکار نہ کرو، لیکن کیا ہمارے ساتھ بھی ہو جائیں؟ نہیں۔ اس کی خواہش نہ کرو، اس کی خواہش دنیا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عالمِ اسباب کے ذریعہ سے جو دے رہا ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو، یہ اس کا بہت کرم ہے کہ آپ کو عام اسباب کے ذریعہ سے مل رہا ہے۔ بہت خوش قسمتی ہے کہ آپ کے ذہن سے بزرگی کا تصور ہی نکال دیا ہے۔ آپ کے اوپر اللہ کا بہت کرم ہے۔ ورنہ ان چیزوں میں پڑ گئے تو اس سے نکلنا بہت مشکل کام ہے۔

ہماری کتاب ”پیغام محبت“ میں اس ”بزرگی“ کے بارے میں ایک کلام ہے۔ بزرگی کا گمان ایک بہت بڑی بیماری ہے، اگر کسی کو لگ جائے تو اس سے بچنا بڑا مشکل کام ہے۔ اس دور کے مجدد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کی برکات ہیں کہ انہوں نے یہ چیزیں اتنی صاف کی ہیں کہ ہم لوگ ان کا شکر ادا نہیں کر سکتے۔ حضرت نے ہمارے ذہنوں سے یہ چیزیں نکال دی ہیں اور یہ تصور دیا ہے کہ بزرگی کے پیچھے نہیں پڑنا، نارمل زندگی گذارو۔ حضرت نے ایک دفعہ فرمایا: بھئی دیکھو! ہر بات بزرگوں کی نہ کیا کرو، کیونکہ بزرگوں جیسا معاملہ اگر تمہارے ساتھ کیا گیا تو چیں بولو گے۔ بس اپنے آپ کو عاجز اور عام لوگ سمجھو، تاکہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ ہو۔

خدا کی شان ہے، اللہ پاک ایسے وقت پہ ایک چیز دل میں ڈال دیتے ہیں کہ اس سے پہلے ذہن کبھی اس طرف نہیں گیا تھا۔ حدیث شریف میں ایک دعا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اَللّٰهُمَّ وَاقِيَةً کَوَاقِيَةِ الْوَلِيْدِ‘‘ (الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر: 1446)

ترجمہ: ’’یا اللہ! میں آپ سے ایسی حفاظت مانگتا ہوں، جیسے بچے کی حفاظت ہوتی ہے‘‘۔

کیا بچہ بزرگ ہوتا ہے؟ بچہ بزرگ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی حفاظت ہوتی ہے۔ بچہ عاجز ہوتا ہے، کچھ نہیں کر سکتا، لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں۔ چنانچہ جو اپنے آپ کو کمزور سمجھے، کمتر سمجھے، اس کے لئے آسانی ہے۔ ورنہ اگر کسی کو بزرگی کا وسوسہ آنا شروع ہو گیا تو وہ ایک خطرناک وادی کے اندر داخل ہو گیا۔

بزرگی کی بیماری کے بارے میں ایک کلام ہے:

اس کو سنا بہت ہے مگر کیا ہے بزرگی

کتنے ہی سالکوں کی تمنا ہے بزرگی

تشریح:

کتنے لوگ ہیں جو بزرگی کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ہم بزرگ بنیں گے۔

سچ مچ اگر ملے تو ہے یہ نور کا ہالہ

جو جھوٹ سے ملے تو اندھیرا ہے بزرگی

تشریح:

اگر سچ مچ کسی کو بزرگی مل جائے تو وہ اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھتا۔ جو بزرگ ہیں وہ اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھتے اور جو اپنے آپ کو بزرگ سمجھیں وہ بے چارے اندھیرے میں مبتلا ہو گئے، اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔

شیطان کے تیروں میں یہ زہریلا تیر ایک

اور نفس کے سفل پن کی اک ادا ہے بزرگی

جو بھی بنے بزرگ سمجھے خاک وہ خود کو

تشریح:

جو بھی بزرگ بنتا ہے، وہ اپنے آپ کو بالکل مٹی سمجھتا ہے۔ حضرت کاکا صاحب رحمة اللہ علیه کتنے بڑے ولی اللہ تھے، لیکن اپنے بیٹے سے کہہ رہے ہیں کہ بیٹا میں نے بزرگی بزرگوں کے لئے چھوڑی ہے، علم علماء کے حوالے کیا ہے، درویشی درویشوں کے لئے واگذار کی ہے۔ بس جو اللہ پاک نے عبدیت کا طوق میرے گلے میں ڈالا ہے، شریعت پر چلنے کا۔ بس میں چاہتا ہوں کہ موت تک یہ میرے گلے میں رہے۔ بس یہی میرا مقام ہے۔

اپنی ہی بزرگی کا ہو قائل وہ ہے محجوب

تشریح:

جو اپنی بزرگی کا قائل ہو وہ محجوب ہے، حجاب میں ہے۔

محبوب بنے وہ جس کی بھی فنا ہے بزرگی

تشریح:

جو اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھتا، وہی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔

خود پہ نظر ہو کیسے اگر یار دل میں ہو

تشریح:

اب وجہ بتائی جا رہی ہے کہ اپنے اوپر نظر کیسے آ سکتی ہے، اگر اللہ کی محبت دل میں ہو تو انسان کو اپنا آپ خاک نظر آئے گا۔

طالب نہ ہو تو دل کا تماشا ہے بزرگی

تعجیل اس کو شیخ سے کرے ہے بدگمان

تشریح:

لوگ اپنے شیخ کے نام خط لکھتے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اس پر مجھے خلافت مل جائے گی، اب شیخ خاموش ہے تو کہتے ہیں، کمال ہے، میری بزرگی اس کو نظر ہی نہیں آ رہی، دیکھو میں تو ایسے کر رہا ہوں، میں تو تہجد بھی پڑھ رہا ہوں، میں تو یہ بھی کر رہا ہوں، میں تو وہ بھی کر رہا ہوں، یہ کیا طریقہ ہے، کوئی چیز سمجھ ہی نہیں رہا۔ لہذا شیخ سے بد گمان ہو جاتا ہے۔

راہِ سلوک میں جس کی مدعا ہے بزرگی

ایک شیخ پہ اعتماد ہی اس کا علاج ہے

بیماری اگر کوئی سمجھتا ہے بزرگی

تشریح:

ایک یہی علاج ہے کہ اپنے شیخ پر اعتماد ہو کہ جو کر رہا ہے، ٹھیک کر رہا ہے۔

شبیرؔ اس کا فضل ہی مجھ کو بچائے گا

مہلک مرض بہت ہے یہ سنا ہے بزرگی

تشریح:

بہت ہی مہلک مرض ہے، اللہ نہ کرے کہ کوئی بھی اس میں مبتلا ہو جائے تو ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے۔

حضرت مجدد صاحب نے فرمایا:

متن:

”خواجہ حسن بصری اور حبیب عجمی قدس سرہما کی حکایت اس مقام کے مناسب ہے: منقول ہے کہ ایک دن خواجہ حسن بصریؒ دریا کے کنارے کھڑے ہوئے کشتی کا انتظار کر رہے تھے تاکہ دریا سے پار ہوں، اسی اثنا میں حبیب عجمیؒ بھی آنکلے اور پوچھا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ فرمایا کشتی کا انتظار ہے حبیب عجمیؒ نے کہا کشتی کی کیا حاجت ہے کیا آپ یقین نہیں رکھتے؟ خواجہ حسن بصریؒ نے کہا کیا آپ علم نہیں رکھتے۔ غرض کہ حبیب عجمیؒ کشتی کے بغیر دریا سے گزر گئے اور خواجہ حسن بصریؒ کشتی کے انتظار میں کھڑے رہے۔ خواجہ حسن بصریؒ نے چونکہ عالم اسباب میں نزول کیا ہوا تھا اس لئے (کارکنانِ قضا و قدر) ان کے ساتھ اسباب کے وسیلے سے معاملہ فرماتے تھے اور حبیب عجمیؒ نے چونکہ پورے طور پر اسباب کو نظر انداز کر دیا تھا اس لئے (کارکنانِ قضا و قدر) ان کے ساتھ اسباب کے وسیلے کے بغیر معاملہ کرتے تھے۔ لیکن فضیلت حضرت خواجہ حسن بصریؒ کے لئے ہے جو صاحب علم ہیں اور جنہوں نے عین الیقین کو علم الیقین کے ساتھ جمع کر لیا ہے اور اشیاء کو جیسی کہ وہ ہیں سمجھ لیا ہے کیونکہ قدرت کی اصل حقیقت کو حکمت میں پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ حبیب عجمیؒ صاحب سکر ہیں اور فاعلِ حقیقی پر ایک ایسا یقین رکھتے ہیں جس میں اسباب کا کچھ دخل نہیں ہے۔"

تشریح:

یہ عقدہ کھل گیا کہ وہ عالم تو انتظار میں تھا اور وہ عارف (حبیب عجمی (رحمۃ اللّٰہ علیہ)) سکر میں تھے، ان کی اپنے اوپر نظر نہیں تھی اور اسباب پہ بھی نظر نہیں تھی، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ کیونکہ فرمایا ہے:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970)

ترجمہ: ’’میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

الحمد للہ! آج خوارق و کشفیات کے بارے میں بہت بڑا علم عطا ہوا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ خوارق و کشفیات ہوتے تو ہیں، اس لئے ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ مقصود نہیں ہیں، بلکہ ضمنی اثرات کے طور پر ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ جن کو خوارق و کشف ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ زیادہ کامل ہوں، بلکہ عین ممکن ہے کہ ابھی وہ بقا کی طرف آئے ہی نہ ہوں۔ اسے اسباب کی طرف لایا ہی نہ گیا ہو، تو اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جیسا وہ گمان رکھتے ہیں۔

ولی کو اپنی ولایت یا خوارق کا علم ہونا شرط نہیں ہے:

اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ولی سے کوئی ایسا کام بھی کروا دیتا ہے کہ جس کا اس کو پتا نہیں چلتا، لیکن اللہ تعالیٰ وہ کام کروا دیتا ہے۔

دفتر اول مکتوب نمبر 216 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

یہاں ایک نکتہ ہے جس کو ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جس طرح نفس ولایت حاصل ہونے میں ولی کو اپنی ولایت کا علم ہونا شرط نہیں ہے۔

تشریح:

یعنی بہت سارے اولیاء ایسے بھی ہیں جن کو اپنا ولی ہونا معلوم نہیں ہوتا۔

متن:

بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی ولی سے اس کے خوارق نقل کرتے ہیں (حالانکہ) اس کو ان خوارق کی نسبت بالکل اطلاع نہیں ہوتی۔ اور وہ اولیاء جو صاحب علم و کشف ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کو بھی اپنے بعض خوارق پر اطلاع حاصل نہ ہو بلکہ ان کی صورِ امثالیہ (مثالی صورتوں) کو (کارکنانِ قضا و قدر) متعدد مقامات پر ظاہر کر دیں اور دور دراز مقامات پر عجیب و غریب امور اُن صورتوں سے ظہور میں لائیں کہ جن کی ان صاحبِ صورت (اولیاء کو) ہرگز اطلاع نہ ہو۔

تشریح:

ایسا بالکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سلسلہ کی برکات ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں خواب میں شیخ کا نظر آنا، سلسلہ کا نظر آنا ہے۔ شیخ فیض کا ذریعہ ہوتا ہے، لہٰذا خواب میں فیض دکھانے کے لئے صورتِ مثالی شیخ کی بنائی جاتی ہے۔

ایک عامل جو عالم بھی ہیں، انہوں نے یہ واقعہ خود مجھے سنایا۔ وہ کوئی چلہ کر رہے تھے۔ ان کے استاذ نے انہیں کہا کہ آپ جائیں میں آپ کے پیچھے آ رہا ہوں، آپ جا کر چلہ شروع کر لیں۔ انہوں نے جا کر دائرہ لگا دیا، جیسا کہ عاملوں کا طریقہ کار ہوتا ہے، اور اندر بیٹھ گئے، پڑھنا شروع کر لیا۔ ادھر ان کے استاد ٹریفک میں پھنس گئے، اسلام آباد کی ٹریفک کا کیا پتا چلتا ہے، کسی وقت بھی اسلام آباد، راولپنڈی کی ٹریفک رکاوٹ بن سکتی ہے۔ لہذا استاذ پھنس گئے۔ ادھر اس نے چلہ شروع کر لیا تھا۔ سامنے چیزیں آنا شروع ہو گئیں اور اتنی خطرناک صورتوں میں آنا شروع ہو گئیں کہ وہ کہتے ہیں میں بہت ڈر گیا، قریب تھا کہ میں بھاگ جاتا۔ یہی وہ چیزیں چاہتی ہیں کہ یہ اپنے دائرہ سے باہر چلا جائے۔ اور اگر دائرہ سے باہر چلا گیا تو بس پھر سب کچھ ختم، ان کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: جب میں نے باہر جانے کا ارادہ کیا تو اچانک سامنے والی دیوار ہٹ گئی اور آپ آئے۔ آپ نے مجھے کہا: خبر دار! جو یہاں سے ہلے۔ میں نے کہا: شکر ہے، میں اکیلا نہیں ہوں، استاد جی نہیں ہیں لیکن شیخ ہیں۔ میں آرام سے بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد استاذ بھی پہنچ گئے۔ جب اس نے مجھے یہ واقعہ بتایا تو میں نے کہا مجھے تو پتا بھی نہیں ہے۔ اگر آپ نہ بتاتے تو مجھے علم نہیں ہوتا۔ یہ اللہ پاک نے اس کو سلسلہ کی برکت سے بچا لیا۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں تھا، ہمیں تو کوئی پتا ہی نہ تھا۔ اس طرح کئی حضرات اس قسم کی باتیں بتاتے ہیں، لیکن مجھے خود پتا ہے کہ میں تو ہوتا ہی نہیں ہوں۔ اگر اللہ پاک ہماری صورت کو سامنے لا کر کسی کی مدد کرنا چاہے تو اس میں ہمارا کیا کمال ہو سکتا ہے۔ وہ تو اللہ کا فعل ہے، ہمارا فعل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی صورت بھی استعمال کر سکتا ہے، آواز بھی استعمال کر سکتا ہے۔

اس طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہوا تھا۔ مولانا عزیز الرحمن صاحب رحمة اللہ علیه کے خاندان کے لوگ جو بٹگرام میں تھے، جب وہاں زلزلہ آیا، یہ تب کا واقعہ ہے۔ ان دنوں میں تو ادھر تھا ہی نہیں، میں مدینہ منورہ میں تھا۔ مولانا کہتے ہیں، ان کے گھر والوں نے ان کو بتایا کہ ایک ٹیلی فون آیا، ٹیلی فون پہ شاہ صاحب بات کر رہے تھے۔ شاہ صاحب نے کہا کہ فوراً گھر سے نکلو۔ جیسے ہی ہم گھر سے نکلے، گھر گر گیا۔ کہتے ہیں، ہم شاہ صاحب کی آواز سن کر گھر سے باہر نکلے تھے، حالانکہ میں ادھر تھا ہی نہیں، میں تو مدینہ منورہ میں تھا، مجھے شاید چھ مہینے یا سال کے بعد اس بات کا پتا چلا تھا۔

جب میں امریکہ میں تھا، اس وقت ہماری کالونی میں نئے نئے فون لگے تھے۔ ہر گھر میں فون نہیں تھا، کسی کسی گھر میں فون ہوتے تھے۔ ہمارے ادارے کے ایک بڑے آدمی تھے خالد اکبر صاحب، ان کے گھر میں فون تھا، ہم لوگ ان کے ذریعہ سے اس طرح بات کرتے کہ ان کو بتا دیتے کہ فلاں وقت میں فون کروں گا، ہمارے گھر والوں کو بتا دیں، چنانچہ ہمارے گھر والے آ جاتے تو ہم ان سے بات کر لیتے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آندھی کی وجہ سے ٹیلی فون کی تاریں کٹ گئیں اور فون کام نہیں کر رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے کہا، بھئی ٹیلی فون ٹھیک ہو گیا۔ جس وقت ٹیلی فون اٹھایا تو دوسری طرف آپ (شاہ صاحب) تھے، آپ نے پوچھا: کیا چاند نظر آ گیا ہے؟ میں نے کہا کہ جی نظر آ گیا ہے۔ اور پھر فون بند ہو گیا۔ ٹیلی فون دیکھا تو وہ ویسے کا ویسے بند تھا۔ پتا نہیں اس وقت ہوا نے تاروں کو لگایا تھا یا کیا ہوا تھا۔ میں جب واپس آیا تو دیکھا کہ خالد اکبر صاحب کے پاس تسبیح بھی ہے اور نماز بھی پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ما شاء اللہ یہ تو بڑا اچھا ہے۔ کہتے ہیں: یار آپ کے ٹیلی فون نے تو سارا کچھ کرایا ہے۔ میں نے کہا: میرے ٹیلی فون نے کیسے کرایا ہے؟ جب انہوں نے بتایا تو میں نے کہا: کمال ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک خراب ٹیلی فون کو اسی وقت جوڑ لیا اور جب بات ہو گئی تو پھر اس کے بعد پہلے کی طرح خراب۔ بہر حال یہ سب اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ بتائیں اس میں میرا کون سا کمال ہے، کیا میں یہ کر سکتا تھا؟ میں تو نہیں کر سکتا اور مجھے پتا بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ یہ ہو رہا ہے، یہ تو مجھے بعد میں پتا چلتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا۔ وہ خود بتاتے ہیں ورنہ مجھے تو علم بھی نہیں ہوتا۔

اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن یہ من جانب اللہ ہوتی ہیں، ان میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، یہ اللہ پاک کی دین ہے، اللہ پاک چاہے تو آپ کے لئے زہر کو دوائی بنا دے اور اللہ پاک چاہے تو دوائی کو زہر بنا دے، وہ ان تمام چیزوں پہ قادر ہے۔ لیکن آپ نے زہر کو زہر سمجھنا ہے، دوائی کو دوائی سمجھنا ہے۔ آپ نے زہر کو دوائی سمجھ کے نہیں کھانا، کھائیں گے تو آپ خود ذمہ دار ہیں اور دوائی کو زہر نہیں سمجھنا ورنہ وہمی بن جاؤ گے، ہر وقت پریشان رہو گے کہ پتا نہیں زہر ہو، پتا نہیں دوائی ہو۔ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہم لوگوں کو عام انداز سے ہی رہنا ہے، باقی اللہ تعالیٰ جو بھی کرے وہ اس کا کام ہے۔ اس میں ہم لوگ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ہم نے دعا کرنی ہے، دعا مسلمان کا کام ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے دعا کا حکم دیا ہے: ﴿فَادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (الغافر: 60) پھر اللہ پاک دعا سے ہمارا کام کرا دے، اسباب کے ذریعے سے کرا دے یا جس ذریعہ سے بھی کرا دے، یہ اس کا کام ہے۔

میرا رزلٹ اگلے دن صبح نکلنا تھا اور ڈاکٹر فدا صاحب نے مجھے کہا کہ اب بھی دعا کرو۔ ممکن ہے، اِسی وقت تمہارا کام بن جائے، دعا کسی وقت نہ چھوڑنا۔ آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ اب تو سارا رزلٹ تیار ہو چکا ہو گا، صرف اعلان ہونا ہو گا۔ کہتے ہیں نہیں! دعا سے کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے، دعا کے لئے ہمیں یہ چیزیں نہیں دیکھنی چاہئے، بلکہ دعا کے لئے ہمیں اللہ پر نظر کرنی چاہئے۔ جیسے خوارق و کرامات اسباب سے ہٹ کر اللہ پہ نظر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں، جب اللہ کے اوپر نظر ہو مخلوق پہ نظر نہ ہو تو پھر خوارق ہوتے ہیں، اسی طرح دعا کے وقت بھی یہی طریقہ یہ ہے کہ آپ الله جل شانهٗ کی قدرتوں کو سامنے رکھ کر دعا کریں، اسباب سے بالکل کٹ جائیں۔ لیکن جب آپ کوئی کام کر رہے ہوں، تب آپ نے اسباب کو دیکھنا ہے اور انہیں اختیار کرنا ہے۔

اس چیز کو حضرت مولانا روم رحمة اللہ علیه نے بڑا کھولا ہے۔ سبحان اللہ "مثنوی مولانا روم" کے سلسلۂ دروس میں ہمارا پورا ایک بیان اس پر ہے۔ اس میں حضرت نے یہ بات فرمائی ہے کہ انبیاء جس وقت اسباب اختیار کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے دہریے ہیں، یعنی اسباب کا اتنا خیال رکھتے ہیں اور جس وقت دعا مانگتے ہیں تو ایسے ہوتے ہیں، جیسے اسباب کو خیال ہی میں نہیں رکھ رہے کہ اسباب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ یعنی ان کو یہ نظر ہی نہیں آتا کہ اسباب بھی کوئی چیز ہے، کیونکہ اس وقت ان کی نظر اللہ پہ ہوتی ہے۔ دعا مانگتے وقت ان کی نظر اسباب سے ہٹ جاتی ہے اور جس وقت وہ اسباب اختیار کرتے ہیں تو ان کی نظر اسباب پر ہی ہوتی ہے، کیونکہ اسباب کو استعمال کرنا الله جل شانهٗ کا ادب ہے، اسباب اللہ نے پیدا کئے ہیں تو تم کیسے ان کو نظر انداز کر سکتے ہو۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه ایک دفعہ بیان کر رہے تھے کہ یک دم رک گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر بیان شروع کیا۔ فرمایا: میں رکا اس لئے تھا کہ ایک طی ارض والا شخص بہت دور سے میرا بیان سننے کے لئے طی ارض کر کے آیا تھا۔ مثلاً کوئی ادھر ہمارا بیان سننے کے لئے امریکہ سے آ جائے۔ طی ارض والوں کے لئے کیا مشکل ہے، ایک منٹ میں پہنچ جائیں گے، ان کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بہر حال جب وہ پہنچ گیا تو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیه نے فرمایا کہ میں نے اسے کہا اللہ پاک نے یہ پاؤں کس لئے دئیے ہیں؟ یہ مسافت طے کرنے کے لئے ہیں۔ جاؤ واپس جاؤ اور پاؤں کے ساتھ چل کے آؤ، اس طریقہ سے نہ آؤ۔ میں نے ان کو واپس بھیج دیا۔

لہٰذا ہم لوگوں کو یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا ہے۔ اسباب کو وہی اختیار کرے گا جس کی نظر بزرگی پہ نہ ہو، جو اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھتا ہو۔ جو اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہے، وہ اسباب اختیار نہیں کرتا اور پھنس جاتا ہے اور پھر نعوذ باللہ من ذلك بد گمان بھی ہو جاتا ہے، بعض دفعہ ایمان کو خطرہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ پاک سے ایک گمان رکھتا ہے، لیکن اللہ پاک نے اس کے لئے وہ منظور نہیں کیا ہوتا، نتیجتاً وہ بد گمان ہو جاتا ہے کہ اللہ میری نہیں سنتا۔ بھئی تم اپنی حالت کو دیکھو، اس قسم کی بات کیوں سوچ رہے ہو۔

متن:

اور دُور دراز مقامات پر عجیب و غریب امور اُن صورتوں سے ظہور میں لائیں کہ جن کی ان صاحبِ صورت (اولیاء کو) ہرگز اطلاع نہ ہو۔

از ما و شما بہانہ بر ساختہ اند

(بہانہ ہم سے تم سے ہے بنایا)

حضرت مخدومی قبلہ گاہی (خواجہ باقی باللہ) قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کہتے تھے کہ عجیب معاملہ ہے کہ لوگ اطراف و جوانب سے (میرے پاس) آتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو مکہ معظمہ میں دیکھا ہے اور موسمِ حج میں حاضر پایا ہے (بلکہ) ہم نے (آپ کے) ساتھ مل کر حج کیا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بغداد میں دیکھا تھا اور اپنی دوستی کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا ہوں اور نہ ہی کبھی اس قسم کے آدمیوں کو دیکھا ہے۔ کتنی بڑی تہمت ہے جو ناحق مجھ پر لگاتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الْاُمُوْرِ کُلِّھَا (سب کاموں کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے)۔ اس سے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے۔ ہاں اگر آپ کی طلب اور پیاس زیادہ معلوم ہوئی تو بہت جلد اور اس سے زیادہ لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تشریح:

حضرت کیسے عظیم معارف بیان فرما رہے ہیں۔ دیکھیں حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) یہ چیزیں فرما رہے ہیں اور آج کل نقشبندی حضرات اپنے آپ کو کیا سمجھ رہے ہیں اور کن چیزوں میں پڑ گئے ہیں۔ یہ سب بزرگی کی باتیں ہیں۔ آج کل ایسے مسائل بہت زیادہ ہیں۔

اولیاء اللہ کے بعض کشف غلط واقع ہوتے ہیں:

دفتر اول مکتوب نمبر 216 ہی میں فرماتے ہیں:

متن:

اگر سوال کریں کہ کیا سبب ہے کہ بعض کشوف کونی جو اولیاء اللہ سے صادر ہوتے ہیں ان میں غلطی واقع ہوجاتی ہے اور ان کے خلاف ظہور میں آتا ہے۔ مثلاً خبر دی گئی کہ فلاں شخص ایک ماہ بعد مر جائے گا، یا سفر سے وطن واپس آئے گا۔ (لیکن) اتفاقاً ایک ماہ بعد ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی وقوع میں نہ آئی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق کشف ہوا ہے اور جس بات کی خبر دی گئی ہے اس کا حاصل ہونا چند شرائط پر مشروط تھا۔ صاحب کشف نے اس وقت ان شرائط کی تفصیل پر اطلاع نہیں پائی اور اس چیز کے مطلق طور پر حاصل ہونے کا حکم کر دیا۔ یا یہ وجہ ہے کہ لوح محفوظ کے احکام میں سے کوئی ایسا حکم عارف پر ظاہر ہوا کہ وہ حکم فی نفسہٖ محو و اثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق کی قسم سے ہے لیکن اس عارف کو اس حکم کے معلق ہونے اور اس کے محو ہونے کے قابل ہونے کے متعلق کچھ خبر نہیں ہے۔ اس صورت میں اگر وہ (عارف) اپنے علم کے مطابق حکم کرے گا تو اس میں ضرور ہی خلاف ہونے کا احتمال ہو گا۔

تشریح:

یہ بات بہت عجیب ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اولیاء اللہ کے بعض کشف غلط ہوتے ہیں۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ مثلاً میری نظر 6 بائی 6 ہے اور میں دور ایک چیز کو دیکھ رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فلاں چیز ہے اور قریب جا کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی دوسری چیز ہے۔ اب اس میں میری نظر کی غلطی نہیں ہے، بلکہ میری سمجھ کی غلطی ہے، میرے اندازے کی غلطی ہے۔ اسی طرح ایک شخص کو illusion کی بیماری ہے، illusion کی بیماری میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی چیز محسوس ہوتی ہے، لیکن اصل میں ہوتی نہیں۔ نظر آتی ہے، لیکن موجود نہیں ہوتی۔ سنائی دیتی ہے، لیکن اصل میں آواز نہیں ہوتی۔ یہ ایک بیماری ہے۔ کہتے ہیں تقریباً تین سے پانچ فیصد لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے۔ اگر کوئی چاند دیکھ رہا ہو اور اس کو ویسے ہی illusion ہو رہا ہو، چاند کی طرح کوئی چیز نظر آ رہی ہو، لہذا اگر وہ قسم بھی کھائے تو قسم میں غلط نہیں ہو گا، کیونکہ اس بے چارے کو واقعی چاند نظر آ رہا ہے، وہ اس کو چاند ہی سمجھ رہا ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق قسم کھا رہا ہے، لہذا وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ اگرچہ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ جس چیز کے بارے میں وہ قسم کھا رہا ہے، وہ حقیقت میں ویسی نہیں ہے۔ اس پر بعض لوگ بڑے حیران ہو جاتے ہیں کہ بھئی یہ کیا بات ہوئی، تبلیغی آدمی تھا، بڑی لمبی داڑھی تھی، تسبیح کر رہا تھا اور کہتا ہے کہ مجھے چاند نظر آیا ہے، اس کی بات کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ ایسا ممکن ہے، دونوں باتیں غلط ہو سکتی ہیں۔ جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ہے، یہ بھی غلط ہو سکتا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کو واقعی چاند ہی نظر آ رہا ہو، اس کے لئے جھوٹ نہیں ہے، لیکن اس کے تبلیغی ہونے کی وجہ سے، عالم ہونے کی وجہ سے اور شریف ہونے کی وجہ سے میں کہوں کہ نہیں اس نے واقعی چاند دیکھا ہے، جبکہ باقی ذرائع سے مجھے پتا ہے کہ اس نے چاند نہیں دیکھا اور اس کی بات اس بنیاد پر مان لوں تو یہ بھی غلطی ہو گی۔ دونوں قسم کی غلطی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کشف کا حال ہے۔ کشف میں کسی چیز کا نظر آنا ہوتا ہے، چاہے بعد میں ہونے والا واقعہ ہو، چاہے دور کی کوئی چیز ہو، چاہے زماناً دور ہو، چاہے مکاناً دور ہو۔ زماناً دور ہونے میں بھی غلطی لگ سکتی ہے اور مکاناً دور ہونے میں بھی غلطی لگ سکتی ہے۔ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمة اللہ علیه کا کشف بڑا تیز تھا۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیه بہت بیمار ہو گئے، لوگوں نے پوچھا: حضرت آپ کا اندازہ کیا ہے؟ فرمایا: ابھی دس سال مزید حیات رہیں گے، ان شاء اللہ۔ لیکن حضرت اس بیماری میں فوت ہو گئے۔ اب لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ نے تو فرمایا تھا کہ ابھی دس سال عمر باقی ہے۔ فرمایا: ہاں مجھے غلطی لگ گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ جب میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو مجھے مہدی کا لفظ مکشوف ہوا۔ (کشف ہمیشہ براہِ راست نہیں ہوتا، بعض دفعہ بالواسطہ بھی ہوتا ہے۔ یعنی کوئی متعلقہ چیز محسوس ہو جاتی ہے۔) فرمایا: مہدی کا لفظ مکشوف ہوا تو میں نے مہدی کے ابجد معلوم کئے، جو 59 بن رہے تھے اور اس وقت ان کی عمر 49 سال تھی۔ لیکن وہ حضرت مہدی علیه السلام کی عمر سے متعلق بات تھی، لہذا مجھ سے غلطی ہو گئی۔

اس طرح کشف میں کئی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ وحی میں غلطی نہیں ہوتی، وحی کی حفاظت ہے۔ الہام اور کشف کی حفاظت نہیں ہے، ان میں شیطان بھی دخل دے سکتا ہے۔ حضرت نے ایک مکتوب شریف میں انتہائی زبردست قسم کی ایک اہم بات واضح کی تھی کہ کسی نے خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی دیکھا ہو، لیکن خواب میں حضور نے کوئی ایسی بات فرمائی ہو جو شریعت کے مطابق نہ ہو، تو ہم اس کو شریعت پر منطبق کر کے دیکھیں گے، اگر وہ شریعت کے مطابق نہ ہوئی تو پھر ہم نہیں مانیں گے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں تو شیطان نہیں آ سکتا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز کی طرح آواز بنا سکتا ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ آپ دیکھ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو رہے ہوں اور آواز شیطان کی طرف سے آ رہی ہو، جس سے آپ سمجھ رہے ہوں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ رہے ہیں۔ جیسے ڈبنگ ہوتی ہے۔ آج کل ڈبنگ بہت بڑی سائنس ہے، تو کیا شیطان ڈبنگ نہیں کر سکتا، کہ آواز اپنی بنا لے اور کوئی چکر چلا کر آپ کا عقیدہ خراب کر دے؟ اس قسم کی غلطیاں واقع ہو سکتی ہیں، جس سے بعد میں بڑے فساد آتے ہیں اور شیطان کو ان تمام چیزوں کا پتا ہے، لہٰذا وہ ان طریقوں کو استعمال کر سکتا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ