اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رنج و محنت لوازم محبت میں سے ہے:
آج ہم دفتر اول مکتوب نمبر 140 سے شروع کر رہے ہیں جس میں حضرت مجدد صاحب یہ بات بیان فرما رہے ہیں کہ رنج و محنت لوازمِ محبت میں سے ہے۔ اہل محبت کے ساتھ یہ چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ اس بارے دفتر اول مکتوب نمبر 140 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اے محبت کے نشان والے! رنج و محنت محبت کے لوازمات میں سے ہے، فقر کے اختیار کرنے میں درد و غم کا ہونا ضروری ہے۔ بیت
غرض از عشق توام، چاشنئ درد و غم است
ورنہ زیرِ فلک اسباب تنعم چہ کم است
(چاشنی غم کی ترے عشق سے حاصل ہے مجھے
ورنہ دنیا میں تعیش کی کمی کوئی نہیں)
دوست (حقیقی) رنج و پراگندگی چاہتا ہے تا کہ اس کے غیر سے پورے طور پر انقطاع حاصل ہوجائے۔
تشریح:
الله جل شانهٗ یہ چاہتا ہے کہ ہم قلبی طور پر ما سوا اللہ سے مکمل طور پہ کٹ جائیں۔ کسی سے ہمارا کوئی طمع نہ ہو۔ ہمیں کسی اور کے ساتھ غرض نہ ہو، غرض ہو تو صرف الله جل شانهٗ کے ساتھ ہو۔ ہم لوگ اسی کی محبت میں جی رہے ہوں اور اسی کی محبت میں سب کام کر رہے ہوں۔
متن:
اس مقام میں آرام بے آرامی میں ہے، اور ساز سوز میں اور قرار بیقراری میں،
تشریح:
اس مقام میں آرام بے آرامی میں ہے، ساز سوز میں ہے اور قرار بیقراری میں ہے۔ یعنی جو اللہ کی محبت میں بے قرار ہے وہی اس کا قرار ہے۔
متن:
اور راحت جراحت میں یعنی زخمی ہونے میں ہے، اس مقام میں فراغت طلب کرنا اپنے آپ کو رنج میں ڈالنا ہے۔ (لہٰذا) اپنے آپ کو پورے طور پر محبوبِ (حقیقی) کے سپرد کر دینا چاہئے۔ اور جو کچھ اس کی طرف سے آئے اس کو نہایت خوشی سے قبول کرنا چاہئے اور اپنے ابرو نہیں پھیرنے چاہئیں (یعنی منھ نہیں بنانا چاہئے) زندگی گزارنے کا طریقہ اسی روش میں ہے، جہان تک ہو سکے استقامت اختیار کریں ورنہ سستی (بڑھاپا) آپ کا تعاقب کر رہی ہے آپ (کے ذکر و اذکار) کی مشغولیت بہت اچھی ہو گئیتھی لیکن قوی ہونے (کمال کو پہنچنے) سے پہلے ہی کمزور ہو گئی۔ مگرکچھ غم نہیں۔ اگر اپنے آپ کو ان ترددات سے تھوڑا سا بھی جمع کرلیں تو پہلے سے بھی بہتر ہوجائیگی، تفرقہ کے ان اسباب کو عین جمعیت کے اسباب جانیں تاکہ اپنا کام کر سکیں۔
تشریح:
سبحان اللہ! حضرت نے ایک بہت بڑی فکر عطا فرمائی ہے کہ ہم لوگ یہ بات نہ سوچیں کہ اس دنیا میں آرام ہی آرام کرنا ہے بلکہ یہاں پر ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم یہاں اسی طریقہ سے رہیں جیسے الله جل شانهٗ چاہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ تخت پر بٹھانا چاہتے ہیں تو تخت پر بیٹھیں، تختہ پہ چڑھانا چاہتے ہیں تو تختہ پہ چڑھ جائیں۔ ہمارا اپنا کوئی ارادہ نہ ہو، ارادہ اللہ کا ہو اور اللہ کے ارادہ کے سامنے ہم ایسے ہو جائیں، جیسے غَسّال (غسل دینے والے) کے سامنے میت ہوتی ہے۔ میت خود حرکت نہیں کر سکتی، غسال اس کو جس طرف حرکت دینا چاہتا ہے، اسی طرف اس کو حرکت ہوتی ہے۔ اسی میت کی طرح ہماری اپنی ذاتی طور پر کوئی طلب نہ ہو، بلکہ ہماری طلب وہی ہو، جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔
فرمایا کہ اس مسئلہ میں اگر کوئی بات ایسی آ جائے جو ہمارے مزاج کے خلاف ہو تو اس پر منہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ استقامت اختیار کرنی چاہئے اس طرز پر کہ ہم اللہ پاک کے ہیں اور اللہ ہی کے رہیں۔
فرمایا: چونکہ آگے بڑھاپا آنے والا ہے، بڑھاپے میں انسان کے قویٰ کمزور ہوتے ہیں، اس لئے اس سے پہلے پہلے انسان جتنا کر سکتا ہے، کرے۔ حضرات مشائخ فرماتے ہیں کہ موت سے پہلے زندگی کی قدر کرو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کی قدر کرو اور فقر سے پہلے مال کی قدر کرو۔ تاکہ بعد میں افسوس نہ ہو۔ ہر چیز میں صرف ایک ہی فکر ہو کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے۔
فرمایا کہ تفرقہ اس کو کہتے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کرے۔ تفرقہ کی مخالفت میں ہی جمعیت ہے۔ جب انسان منفی کو منفی سے ضرب دیتا ہے تو مثبت حاصل ہوتا ہے۔ انسان ما سوا اللہ کی محبت سے حتی المقدور اپنے آپ کو منقطع کر لے، اسی میں جمعیت ہے۔
تلوینات و تمکین کے حاصل ہونے کا مطلب:
تلوین کا معنی ہے: لون (رنگ) کا بدلنا۔ اس سے مراد ہوتا ہے: مقام سلوک میں سالک کے احوال کا بدلنا۔
تمکین کا معنی ہے: کسی اچھی حالت پر قرار پانا۔
انسان کبھی خوش ہوتا ہے کبھی خفا ہوتا ہے، کبھی بڑے مزے میں ہوتا ہے اور کبھی افسردہ ہوتا ہے۔ یہ ساری چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن جب ایک انسان کی ایسی حالت ہو جائے جو اللہ کو پسند ہو اور اس حالت پر اس کو استقامت و استقرار نصیب ہو جائے تو یہ حالت تمکین کہلاتی ہے۔
میں ایک دفعہ اِسی سلسلہ میں اپنے شیخ رحمة اللہ علیه کی خدمت میں کچھ عرض کر رہا تھا۔ شیخ نے فرمایا: ”یہ تلوین ہے، ان شاء اللہ کسی اچھے حال پر تمکین حاصل ہو جائے گی۔“ مطلب یہ ہے کہ سلوک میں احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 175 تلوینات و تمکینات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه فرما رہے ہیں:
متن:
جاننا چاہئے کہ سالکوں کو خواہ وہ ابتدا میں ہوں یا انتہا میں احوال کی تلوینات کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأنٍ﴾ (سورة الرحمن 55 آيت 29) ) وہ ہر روز نئی شان میں ہے) کا مقتضا یہی ہے۔ اس بارے میں حاصل کلام یہ ہے کہ اگر وہ تلوین (احوال کی تبدیلی) قلب پر ہے تو وہ سالک ارباب قلوب (اہل دل) سے ہے اور ابن الوقت (زمانہ ساز) کے نام سے موسوم ہے اور اگر قلب تلوین سے نکل گیا اور احوال کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام تمکین و اطمینان میں پہنچ گیا تو اس وقت احوال متلونہ کی کیفیات نفس پر وارد ہوں گی جو کہ قلب کے مقام پر اس کی خلافت کے طور پر بیٹھا ہوا ہے اور یہ تلوین تمکین کے حاصل ہونے کے بعد ہے اور اس تلوین والے کو اگر ابوالوقت کہیں تو جائز ہے اور اگر محض اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے نفس بھی ان تلوینات سے گذر جائے اور تمکین و اطمینان کے مقام پر پہنچ جائے تو اس وقت تلوینات قلب (جسم) پر وارد ہوتی ہیں جو امور مختلفہ (عناصر اربعہ) سے مرکب ہے، یہ تلوین دائمی ہے کیونکہ تمکین قالب کے حق میں متصور نہیں ہے اگرچہ وہ لطائف میں سے الطف لطیفہ (خفی و اخفیٰ) کے رنگ میں رنگا ہوا ہو کیونکہ وہ تمکین جو اس رنگین ہونے کے راستہ سے قالب پر آتی ہے وہ بطریق تبعیت (اتباع کے طور پر) ہے اور احوال متلونہ کا وارد ہونا بطریق اصالت ہے اور اعتبار اصل کا ہوتا ہے نہ کہ فرع اور تابع کا۔ اور اس مقام و اخص الخواص میں سے ہے اور حقیقت میں ابو الوقت بھی یہی شخص ہو سکتا ہے۔
تشریح:
حضرت نے بہت گہری بات فرمائی ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ تلوین کا مطلب ہے حال کا بدلتے رہنا، کبھی ایک حالت ہونا کبھی دوسری حالت ہونا اور تمکین کا مطلب ہے کسی ایک حالت پر قرار پانا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه نے فرمایا: ابتدا میں قلب میں تلوینات ہوتی ہیں۔ انسان کے اندر جو دنیا کی محبت ہے وہ اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ کبھی کوئی حال طاری ہوتا ہے، کبھی کوئی۔ جب انسان ان چیزوں سے نکل جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ قلب کی تلوین سے نکل گیا، احوال کی غلامی، عارضی چیزوں کی غلامی سے نکل گیا اور مقام تمکین و اطمینان پر پہنچ گیا۔ لیکن ابھی اس نے قلب کی تمکین کو حاصل کیا ہے، نفس کی تمکین کو حاصل نہیں کیا۔ کیونکہ نفس کی تلوین کی بنیاد نفس کے تقاضے ہیں، جو بغیر مجاہدہ اور محنت کے دور نہیں ہوتے۔ نفس کو تبھی اطمینان آئے گا جب آپ مجاہدہ کے ذریعہ سے اس کو تمکین کی حالت پر پر راسخ کر دیں گے۔
مثال کے طور پر ایک انسان میں حرص ہے، اس پر کسی وقت حرص کا غلبہ ہوا، لیکن اس نے ہمت کی اور نفس کے اس تقاضے پہ عمل نہیں کیا۔ یہ در اصل اس نے قناعت حاصل کر لی، لیکن یہ قناعت وقتی ہے، ابھی اس کو اس پہ استقامت حاصل نہیں ہوئی، اگر کسی اور وقت دوبارہ اس پہ حرص طاری ہو گئی تو یہ اس حرص کے تقاضے پر عمل کر سکتا ہے۔ لہٰذا جب تک باقاعدہ طور پہ مسلسل مجاہدہ کر کے اس قناعت اور دوسرے مقامات کو مستحکم نہ کرے اور ان کو مستقل مقام نہ بنائے اس وقت تک اس کی حرص اور نفس کے دوسرے تقاضے چلتے رہیں گے۔
احوال میں جو تلوینات اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، یہ یکے بعد دیگرے دور کرنی پڑتی ہیں۔ کیونکہ قلب میں ایک ہی قسم کی تبدیلیاں ہوتی ہیں جب کہ نفس کی تبدیلیاں مختلف قسم کی ہو سکتی ہیں۔ جیسے دس مقاماتِ سلوک ہیں اسی طرح تبدیلیاں دس قسم کی ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کو ایک ایک کر کے نکالنا ہوتا ہے۔ یہ دس مقامات تو اختصاراً بتائے گئے ہیں، ورنہ حقیقت میں تو یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت ساری چیزوں کی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جو کہ ایک ایک کر کے ختم کی جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک انسان کو جھوٹ بولنے کی بیماری ہے، کسی وقت ہمت غالب آ گئی، جھوٹ نہیں بولا، دنیاوی تکلیف برداشت کر لی اور کسی وقت ڈر گیا اور جھوٹ بول دیا اس کا مطلب ہے کہ اس کو استقامت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک شخص شراب کا رسیا ہے۔ کسی وقت ہمت کر کے شراب نہیں پیتا اور کسی وقت دوستوں میں گیا، وہ سب پی رہے تھے، تو اس کی ہمت مغلوب ہو گئی اور اس نے شراب پی لی۔ سگریٹ نوش لوگوں کے ساتھ اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ اسی لئے ہوتا ہے کہ انہیں ایک حالت پر استقرار اور استقامت حاصل نہیں ہوئی، اس لئے ان کے احوال بدل رہے ہیں۔
ایک صاحب ہمارے جماعت کے ساتھی ہیں، پہلے چرس کا نشہ کرتے تھے، جب مجھ سے بیعت ہو گئے تو ایک بار مجھے کہا کہ حضرت کبھی کبھی مجھ سے غلطی ہو جاتی ہے، میں چرس پی لیتا ہوں۔ میں نے کہا نہ پیا کریں، آپ کو کون کہتا ہے کہ پئیں۔ کہتے ہیں کہ اصل میں چرسی بھائیوں کو دعوت دینے کے لئے جاتا ہوں، تو وہاں اس طرح کا ماحول بن جاتا ہے کہ پی لیتا ہوں۔ میں نے کہا: آپ پر ان کو دعوت دینا لازم نہیں ہے، آپ کسی اور کو ان کے پاس بھیجا کریں، خود ان کو دعوت نہ دیں، ورنہ وہ آپ کو دعوت دے دیں گے۔ کیونکہ وہ پرانے نشئی ہوتے ہیں، انسان کو پھر وہ پرانی چیزیں یاد آ جاتی ہیں، لہٰذا گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ یہ سب تلوین کے حالات ہیں، تلوین ہوتی رہتی ہے، یہ اتنی آسانی کے ساتھ دور نہیں ہوتی۔
فرمایا: جو تلوین کی حالت میں چل رہا ہے یہ ابن الوقت ہے، کیونکہ اس کا وقت بدلتا رہتا ہے، کبھی ایک حالت میں ہوتا ہے، کبھی دوسری حالت میں۔ جب کہ وہ آدمی جو تمکین حاصل کر لیتا ہے اپنا مقام مستحکم کر لیتا ہے، اس کے اوپر استقامت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسا شخص ابو الوقت ہے، وقت کے ساتھ اس کا رنگ بدلتا نہیں، ہر وقت میں ایک حالت پر استقامت کے ساتھ قائم رہتا ہے۔
فرمایا، جب انسان نفس کی تمکین حاصل کر لے، پھر اس کے بعد ایک اور تلوین کا سامنا ہوتا ہے، وہ قالب کی تلوین ہوتی ہے۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے، لیکن میں عوام کو سمجھانے کے لئے آج کل کے دور کے مطابق ذرا اور رنگ میں عرض کرنا چاہوں گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک نفس ہے اور ایک جبلت ہے۔ نفس کی اصلاح تو ہو سکتی ہے، مگر جبلت کی اصلاح نہیں ہوا کرتی۔ جبلت بھی اللہ پاک نے پیدا کی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو اس کو مان سکتے ہو، لیکن اگر یہ سنو کہ کسی کی جبلت تبدیل ہو گئی ہے تو ہرگز نہ مانو کیونکہ جبلت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر پٹھان پٹھانی سے نہیں نکل سکتا، ہندوستان ہندوستانی ہو گا، پٹھان پٹھان ہو گا، عرب عرب ہو گا، عجم عجم ہو گا۔ بعض طبیعتوں میں جلال ہوتا ہے، ان کا جلال بزرگی میں بھی نہیں جاتا۔ اگر وہ بزرگ بھی بن جاتے ہیں تو جلالی بزرگ ہوتے ہیں۔ اب تین مرحلے ہو گئے:
1- قلب کی اصلاح: اس کو تصفیۂ قلب کہتے ہیں۔ تصفیۂ قلب ذکر اذکار سے ہوتا ہے۔ جب تک آپ کو اللہ یاد رہے گا آپ کا دل ٹھیک رہے گا، جب اللہ بھول جائے گا، خیال نہیں رہے گا تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ کیونکہ قلب تو ہے ہی تبدیل ہونے والا، قلب کا معنی ہی تبدیلی ہے۔ تصفیہ قلب سے انسان دل کی تمکین حاصل کرتا ہے۔
2- تزکیۂ نفس: انسان اس سے نفس کی تمکین حاصل کرتا ہے، یعنی نفس کی اصلاح کرتا ہے۔
3- مجاہدہ کے ساتھ جبلت کا مقابلہ: جبلت کا معاملہ انسان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے رہتا ہے۔ جبلت میں یہ ہوتا ہے کہ جس کی جو بھی جبلت ہے اس سے اللہ پاک نہیں روکتا۔ لیکن شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اب اگر اس کی جبلت شریعت کی مخالفت کی ہے تو یہ مجاہدہ اس کو ہمیشہ کرنا پڑے گا۔ اس مجاہدہ سے اس کی جبلت ٹھیک تو نہیں ہو گی ہاں اس کو مجاہدہ کا اجر ملتا رہے گا۔ نفس کے مجاہدہ سے نفس ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن جبلت کے مجاہدہ سے جبلت ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کالے برتن کے اوپر کالک لگی ہوئی ہے۔ آپ اس کو مانجھیں گے، صاف کریں گے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ اس کو لگی کالک دور ہو جائے گی، لیکن جس وقت برتن کی اپنی سیاہی سامنے آ جائے گی تو اس کو آپ دور نہیں کر سکتے۔ آپ جتنا چاہے کھرچ لیں، کھرچتے رہیں، برتن ختم ہو جائے گا لیکن اس کی سیاہی دور نہیں ہو گی، وہ اپنی جگہ پہ قائم رہے گی۔ یعنی آپ جبلت کو تبدیل نہیں کر سکتے، اس میں آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کی جبلت آپ کو شریعت کے خلاف مجبور کرتی ہے تو آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر ایک بہت جلالی آدمی ہے، اس کو کسی ایسے مقام پہ غصہ آ گیا، جہاں غصہ جائز نہیں ہے، اب وہ ”قہر درویش بر جان درویش“ کے مصداق غصہ کو برداشت کرے گا اور اس برداشت کرنے پہ اس کو اجر ملے گا، اس کا غصہ ختم نہیں ہو گا، کیونکہ وہ اس کی جبلت کا حصہ ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ غصہ کی حالت سر سے پاؤں تک سرخ ہو جاتے ہیں، لیکن برداشت کرتے ہیں، کیونکہ اس کا حل برداشت کرنا ہی ہے، یہ جبلت والا غصہ ختم تو نہیں ہوسکتا، ہاں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص بڑا سخی ہے، لیکن سخاوت کے ساتھ ساتھ اسراف بھی کر رہا ہے۔ اب وہ شریعت میں سخاوت تو کرے گا، لیکن اسراف کی حد تک نہیں جائے گا۔ اپنے آپ کو زبردستی روکے گا۔
خلاصہ یہ کہ کوئی شخص جیسا بھی ہے، اگر اس کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہے تو اس نفس کی اصلاح کی وجہ سے وہ جبلت کا مقابلہ کرے گا، جبلت کو ختم نہیں کر سکے گا اور یہ مقابلہ تا دمِ آخر جاری رہے گا۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے قالب کی تلوین کا جو ذکر فرمایا، وہ یہی چیز ہے کہ قالب میں کوئی تبدیلیاں نہیں لا سکتا، قالب کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اب میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ میرے خیال میں آپ کو یاد ہو گا کہ جب ہم شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیه کی کتاب ”الطاف القدس“ پڑھ رہے تھے تو اس میں حضرت نے فرمایا تھا کہ صحابہ کرام کا لطیفۂ جوارح میں کام ہوتا تھا۔ لطیفۂ جوارح قالب ہی ہے اور یہی جبلت ہے۔ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنه کی اپنی جبلت تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالیٰ عنه کی اپنی جبلت تھی، حضرت عثمان رضي الله تعالیٰ عنه کی اپنی جبلت تھی، حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه کی اپنی جبلت تھی۔ وہ اپنی اپنی جبلت پہ قائم رہتے تھے۔ ان کی اصلاح تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب سے ہی ہو گئی تھی۔ ان کے نفس کی اصلاح بھی ہو گئی تھی، قلب کی اصلاح بھی ہو گئی تھی۔ وہ ان چیزوں سے گذر چکے تھے۔ اب ان کے پاس صرف قالب اور جوارح والی بات رہ گئی تھی۔
انسان کا قالب جسے ہم جسم کہتے ہیں، وہ امور مختلفہ یعنی عناصرِ اربعہ سے مرکب ہے، اس میں آگ ہے، پانی ہے، ہوا ہے اور مٹی ہے۔ یہ چار عناصر ہیں، چار طبیعتیں ہیں۔ کسی کی آبی طبیعت ہوتی ہے: سلِپ ہونے والی ہوتی ہے، کسی کی آتشی طبیعت ہوتی ہے: غصے والی۔ کسی کی خاکی طبیعت ہوتی ہے: بالکل عاجزی والی۔ اور کسی کی ہوائی و بادی طبیعت ہوتی ہے: ہر وقت خیالات میں لگے رہنے والی۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے طبّی طور بھی انسان کے چار مزاج ہیں، انہی کے حساب سے انسان کو اپنا علاج کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ چار طبیعتیں بھی اللہ نے بنائی ہیں، انہی کے حساب سے سلوک میں ان کا کام ہوتا ہے۔ مشائخ اس چیز کو پہچان لیتے ہیں کہ سالک کو کس قسم کی dose دینی چاہئے، کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ یہ زیادہ بہتر طور پہ اپنا کام کر سکیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اصل میں ابو الوقت یہی ہیں، جن کو تمکین حاصل ہوتی ہے، جو وقت کے تقاضوں کو پہچان کر اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوتے ہیں، یہ ابن الوقت نہیں ہوتے کہ وقت کے ساتھ تبدیل ہو جائیں بلکہ ماحول کو تبدیل کرنے والے ہوتے ہیں، کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتے، بلکہ دوسروں کو متاثر کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ چیز حاصل کرنی ہے۔
حق تعالیٰ کا فیض ہمیشہ خاص و عام پر وارد ہے:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 164 میں فرماتے ہیں:
متن:
حق سبحانہ و تعالیٰ کا فیض تمام خواص و عوام، ہر کریم و لئیم (سخی اور کنجوس) پر خواہ وہ مال کی قسم سے ہو، یا اولاد کی، یا ہدایت و ارشاد کی قسم سے ہو، سب پر بغیر امتیاز وارد ہو رہا ہے۔
تشریح:
جیسے بارش برس رہی ہوتی ہے تو گندگی اور کوڑے کے ڈھیر پر بھی برس رہی ہے، دریا پر بھی برس رہی ہے، پہاڑ پر بھی برس رہی ہے، پتھر پہ بھی برس رہی ہے اور پھولوں پہ بھی برس رہی ہے۔ بارش ہر چیز پہ برس رہی ہوتی ہے، لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا ظرف ہوتا ہے، ہر ایک اس کا اپنا اپنا اثر لے رہا ہوتا ہے۔
متن:
لیکن بعض کے فیوض قبول کرنے اور بعض کے قبول نہ کرنے میں فرق اسی (بندہ کی طرف) سے پیدا ہوتا ہے۔
تشریح:
بندہ کی صلاحیت اور استعداد مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه صاحب اس موقع پر ایک شعر فرمایا کرتے تھے۔
ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر
تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا
اگر تو اس کے مطابق کرتا تو وہ تجھے بھی دیتا، اس کے ہاں تو کوئی کمی نہیں۔ وہ کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے۔ وہ تو سب کو دے رہا ہے، لیکن کوئی لینے والا بھی تو ہو۔
صحیح بات ہے کہ ہم تو بتاتے بتاتے تھک گئے کہ خدا کے بندو! تہجد کا وقت اللہ سے لینے کا وقت ہے۔ تہجد میں اللہ پاک کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا کہ اس کو دوں؟ ہے کوئی پریشان کہ اس کی پریشانی دور کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں؟ ہے کوئی تکلیف میں مبتلا کہ اس کی تکلیف دور کروں؟ مسلسل اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ اب کسی کو پریشانی ہے تو اس وقت کہہ دے کہ لبیک یا اللہ! میں حاضر ہوں، مجھے ضرورت ہے۔ اس کا کام بن جائے گا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کیا مانگتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ آپ کیا مانگتے ہیں، آپ کے مانگنے کا معیار کیا ہے، آپ کون سی چیز مانگ رہے ہیں۔
حضرت سالم رحمة اللہ علیه جو عبد اللہ بن عمر رضي الله تعالیٰ عنه کے بیٹے تھے۔ ہشام بن عبد الملک خلیفہ ان سے مطاف میں کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم دیں کہ میں پورا کروں۔ حضرت نے فرمایا: اس بڑی شان والے کے کعبہ کے سامنے مجھے کسی غیر سے مانگنے میں شرم آتی ہے۔ ہشام بن عبد الملک اس وقت بادشاہ تھے۔ اس نے دل میں کہا کہ چلو باہر جا کے دے دوں گا۔ حرم شریف سے باہر آئے تو پھر ہشام کہنے لگا: حضرت اب بتا دیجئے، کوئی حکم ہو تو حاضر ہوں۔ حضرت نے فرمایا: میں آپ سے کیا مانگوں، دین مانگوں یا دنیا مانگوں؟ کہا: دین تو میرے پاس نہیں ہے دنیا ہے، دنیا ہی مانگ سکتے ہیں۔ فرمایا: دنیا تو میں دنیا بنانے والے سے بھی کبھی نہیں مانگتا، تجھ سے کیا مانگوں، تو تو خود محتاج ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ میدان ہے، جس میں ہر شخص کا اپنا معیار ہوتا ہے۔
ہر شخص کو اللہ کی طرف سے وقت بھی ملتا ہے، موقع بھی ملتا ہے، یہ نہیں کہ موقع نہیں ملتا۔ لیکن اس موقع سے وہ کیا فائدہ اٹھاتا ہے، یہ اسی پر منحصر ہے۔
قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں ایک واقعہ لکھتا ہے۔ آپ کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں، اس کی کتاب میں یہ واقعہ موجود ہے، بڑا لمبا واقعہ ہے، میں سارا تو بیان نہیں کر سکتا لیکن اس کا آخری حصہ بیان کر رہا ہوں کہ اس کی کوئی دعا قبول ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اشارہ ہو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ حطیم کے مقام پہ ایک بزرگ کھڑے ہیں، وہ قدرت اللہ شہاب سے فرماتے ہیں کہ میرا نام خواجہ بختیار کاکی ہے۔ اگرچہ تو ہمارے گروپ کا آدمی نہیں ہے، (ظاہر ہے وہ دنیا دار آدمی تھا) لیکن بہت بڑی ہستی نے تیری سفارش کی ہے اس وجہ سے ہم تجھے کچھ دینا چاہتے ہیں۔ پھر ان کے سامنے ایک پیالہ دودھ کا رکھا اور کہا بتاؤ آخرت چاہتے ہو یا دنیا چاہتے ہو؟ اس پر قدرت اللہ شہاب خود کہتا ہے میرے دل میں آیا کہ اگر میں آخرت مانگوں گا تو فوراً موت ہو جائے گی (بعض لوگوں میں خصوصاً عورتوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر میری دعا قبول ہو گئی تو شاید میں مر جاؤں گی۔ اس ڈر سے لیلۃ القدر میں بھی آخرت نہیں مانگتیں۔ ایک عورت تھی۔ مجھے اس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے کہہ دیا کہ یا اللہ مجھے جنت نصیب فرما۔ پھر اچانک کہتی ہے، یا اللہ! میں نے جھوٹ بولا ہے۔ ڈر گئی کہ کہیں فوراً موت دے کر جنت میں ہی نہ بھجوا دی جاؤں۔ یہ سچا واقعہ ہے۔ لوگوں میں ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں۔) قدرت اللہ شہاب کہتا ہے، میری بھی شامت آ گئی، دنیا داری سامنے آ گئی، میں نے سوچا کہیں فوراً مر نہ جاؤں تو میں نے کہا: کچھ آخرت چاہتا ہوں، کچھ دنیا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں: اتنے میں ایک کتا آیا اور اس نے دودھ میں منہ ڈال دیا۔ حضرت نے فرمایا: افسوس یہ مفت کی سعادت تیری قسمت میں نہیں تھی، یہ اجتبائیت والی بات تیری قسمت میں نہیں تھی۔ اب مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ (مجاہدہ تو پھر ماسٹر ہوتا ہے) پھر اس سے ایسے مجاہدات لئے گئے کہ اس کو نانی یاد آ گئی تھی۔ ہر طرح کے مجاہدات اس سے لئے گئے تھے۔
دنیا مانگنا اور آخرت مانگنا، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا معیار ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی موقعہ ملتا ہے، لیکن افسوس ہ اس وقت انسان بڑی چھوٹی سی چیز مانگ لیتا ہے، دنیا کی کوئی چیز مانگ لیتا ہے، اگرچہ دنیا بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگی جاتی ہے، لیکن آپ کو اگر قبولیت کا کوئی ایسا موقعہ مل گیا کہ کوئی ایک ہی چیز مانگنا ہو اور سب چیزوں پر ایک ہی چیز کو ترجیح دینی ہو تو کس کو دیں گے؟ وہاں آپ کا امتحان ہوتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ آخر آپ کے دل کی اصل خواہش کونسی ہے۔
اس لئے اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ لوگ اللہ والوں کے پاس جاتے نہیں اور اگر جاتے ہیں تو دنیا کے لئے جاتے ہیں، دین کے لئے نہیں جاتے۔ جب کبھی ان کی توجہ ہوتی ہے کہ بھئی مانگو جو مانگنا ہے، تو وہ کوئی دنیا کی چیز مانگ لیتے ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه صاحب نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیه (جو حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کے شیخ تھے ایک دفعہ ان) کے ہاں بے وقت مہمان آ گئے (جیسے تین چار بجے کے لگ بھگ اگر کوئی مہمان آیا ہو، کیونکہ گاؤں میں ہوٹل وغیرہ تو نہیں ہوتے، خود ہی انتظام کرنا پڑتا ہے) ایک نان بائی نے دیکھ لیا کہ بے وقت کے مہمان آ گئے ہیں، حضرت کو تکلیف ہو گی۔ اس نے مہمانوں کو گنا اور خود ہی روٹیاں لگانا شروع کر لیں، جب روٹیاں پک گئیں تو حضرت کے گھر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹایا کہ حضرت یہ روٹیاں میں پیش کر رہا ہوں، آپ کے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ حضرت نے کہا: اچھا، بہت شکریہ اور روٹیاں لے لیں۔ ظاہر ہے اس وقت حضرت کو ضرورت بھی تھی اور ہدیہ کے طور پہ دے رہا تھا۔ انہوں نے روٹیاں لے لیں، لیکن دل میں اس کے لئے بہت زیادہ محبت آ گئی۔ مہمان رخصت ہو گئے پھر اس نان بائی کو بلایا۔ اس کو کہا مانگو کیا مانگتے ہو۔ بس اس کی بات بن گئی۔ اس نے کہا: حضرت اگر دے سکتے ہو تو مجھے اپنی طرح بنا دو۔ انہوں نے کہا: ایسا نہ کہو، یہ بہت مشکل بات ہے، آپ برداشت نہیں کر سکو گے، کوئی اور چیز مانگ لو۔ اس نے کہا: حضرت مجھے کوئی اور طلب نہیں ہے، میں نے یہ کام للہ فی اللہ کیا ہے، اگر آپ کچھ دینا چاہتے ہیں تو میری صرف یہی طلب ہے اور اگر نہیں دینا چاہتے تو بس ٹھیک ہے، میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا۔ اب اس شخص نے حضرت سے ایسے انداز میں کہا کہ حضرت اپنے وعدے کے پابند ہو گئے۔ کہا: اچھا آ جاؤ! اس کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے اور کنڈی چڑھا دی۔ اندر کیا ہوا وہ تو اللہ کو پتا ہے۔ لیکن حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ جب تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا تو ایک باقی باللہ کی جگہ دو باقی باللہ تھے۔ فرق یہ تھا کہ ایک باقی باللہ (جو اصل تھا) وہ تو ہوش میں تھا اور دوسرا بے ہوش تھا، برداشت نہیں کر سکا تھا۔ ایک چیز یوں اچانک مل جائے تو آدمی کیسے برداشت کرے۔ تین دن تک بے ہوش رہا اور اس کے بعد فوت ہو گیا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ نان بائی مر گیا، لیکن خوش قسمت تھا کہ باقی باللہ بن کر مرا۔
یہ معیار کی بات ہے، اس کا معیار اتنا اونچا تھا اللہ پاک نے اسی کے لحاظ سے اس کو نواز دیا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ تہجد میں بھی موقع ملتا ہے اور بعض دفعہ پوچھا بھی جاتا ہے کہ کیا چاہئے؟ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کیا مانگتے ہیں۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حج کے موقعہ پر عرفات میں ہمیں ہمارے شیخ ہمارے بزرگ مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه اور مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیه (جو حضرت تھانوی صاحب کے خلیفہ تھے) دونوں کا ساتھ نصیب ہوا۔ عرفات کے حالات بالکل الگ ہوتے ہیں، وہ ایک الگ نظام ہے، جس میں انسان اپنے حالات میں نہیں ہوتا، بس اللہ تعالیٰ جیسے اس کو رکھنا چاہے، اس طرح ہوتا ہے۔ خیر کچھ دیر کے لئے ایسے ہوا کہ سب لوگ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه کی طرف متوجہ ہو گئے اور حضرت مولانا فقیر محمد صاحب بالکل اکیلے ہو گئے، میں ان کے قریب چلا گیا۔ اللہ کا شکر ہے حضرت کی خدمت کی ڈیوٹی میری لگی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے ان کو اُنس ہو گیا تھا، مجھے پہچانتے تھے اور ہمارے لئے بڑی دعائیں بھی کیا کرتے تھے۔ میں نے قریب آ کر کہا کہ حضرت آپ اپنی مرضی کی دعائیں تو ہمارے لئے کرتے رہتے ہیں، آج میں آپ سے اپنی مرضی کی دعا کروانا چاہتا ہوں۔ عرفات کا موقعہ ہی ایسا ہوتا ہے، اس میں تو سخی لوگوں کی سخاوت اور بھی زوروں پر ہوتی ہے اور حضرت تو ویسے بھی بہت سخی تھے۔ فرمایا: بتاؤ بتاؤ، شبیرا بتاؤ! (پشتو میں جلدی جلدی کہا۔) میں نے کہا: حضرت دعا کریں اللہ مجھ سے راضی ہو جائے۔ ایک دم خوش ہو کر کہتے ہیں ”ہاتھ ملاؤ شبیرا!“۔ حضرت بہت زیادہ خوش ہو گئے۔
کیونکہ ایسے لوگوں کے دل کی دعا تو یہی ہوتی ہے کہ مجھ سے کوئی ایسا مانگے۔ ویسے کوئی دنیا مانگتا ہے تو بھی دعا کرتے ہیں۔ کیونکہ بزرگ بڑے سخی ہوتے ہیں، دنیا مانگنے والوں کے لئے دنیا کی دعا بھی کرتے ہیں، لیکن اوپر اوپر سے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے محض دنیا کے لئے دعا کرانے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پانچ ہزار روپے کے نوٹ پر چائے پکا لے۔ تو کیا جس نے پانچ ہزار روپے کا نوٹ دیا تھا، اس کو خوشی ہو گی؟ وہ کہے گا خدا کے بندے یہ تو نے کیا کیا، اس سے تو بہت کچھ کر سکتا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی بزرگوں کو ان چیزوں کے لئے دعا کا کہے تو پھر انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت مجھے کبھی کبھی ایسے واقعات بھی بتایا کرتے تھے۔
حضرت بہت خوش ہو گئے اور واقعتاً اگر کبھی آپ ان سے اس قسم کی چیز مانگیں تو یہ بزرگ بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں اور دل سے دعا کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کوئی ایک آدھ ہی ہوتا ہے، اکثر لوگ دنیا کی طلب رکھتے ہیں اور دنیا کی بات ہی کرتے ہیں اور دنیا ہی کی چیزیں لینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔
حضرت تھانوی رحمة الله عليه صاحب نے یہ چیز ایک واقعہ کے ذریعہ بڑے اچھے طریقے سے سمجھائی ہے۔ ایک بادشاہ موڈ میں آ گیا۔ بادشاہ تو ہوتے ہی موڈی ہیں۔ اس نے کہہ دیا کہ جو جس چیز پہ ہاتھ رکھے گا، وہ اس کی ہو جائے گی۔ جتنے درباری تھے، کسی نے کرسی پہ ہاتھ رکھا، کسی نے فانوس پہ رکھا، کسی نے میز پر رکھا، کسی نے پردوں پہ رکھا، الغرض جس نے جس چیز پہ ہاتھ رکھا وہ اس کی ہوتی گئی، ایک باندی بادشاہ کو پنکھا جھل رہی تھی، اس نے کسی چیز پہ ہاتھ نہیں رکھا تھا۔ بادشاہ نے ازراہِ تلطف کہا کہ پگلی پنکھا تو بعد میں بھی جھل سکتی ہو، کچھ اپنے لئے کرو۔ اس نے کہا بادشاہ سلامت میں نے اپنی پسندیدہ چیز پہ ہاتھ رکھا ہوا ہے، دیکھا گیا تو اس نے بادشاہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے کہا تو بڑی ہوشیار ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ یہ واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں: جو اللہ کی رضا لے لے، بس اس نے سب کچھ لے لیا۔ جو اللہ کا ہو گیا، اللہ اس کا ہو گیا، اس کے پاس پھر کس چیز کی کمی ہے۔ حضرت نے اس طرح مختلف طریقوں سے باتیں سمجھائی ہوئی ہیں، کوئی سمجھ لے تو بات بنے۔
متن:
﴿وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَ لَکِنْ کَانُوا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ (سورہ نحل 16 آیت 33) (اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے)۔
موسم گرما میں سورج کپڑے اور دھوبی پر یکساں پڑتا ہے لیکن (سورج کی گرمی سے) دھوبی کا چہرہ سیاہ اور کپڑا سفید ہو جاتا ہے۔ یہ عدم قبول کی کیفیت خداوند قدس جل سلطانہ سے روگردانی کی وجہ سے ہے اور روگردانی کرنے والے کے لئے بدبختی لازم اور نعمت سے محرومی ضروری ہے۔ اس جگہ کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے کہ بہت سے روگردانی کرنے والے ایسے ہیں جو دنیاوی نعمتوں کی وجہ سے ممتاز ہیں اور ان کی روگردانی ان کی محرومی کا سبب نہیں بنی؟ جاننا چاہئے کہ یہ وہ بد بختی ہے جو استدراج کے طور پر اس کی خرابی کے لئے نعمت کی صورت میں ظاہر کی گئی ہے تا کہ (ایسا شخص) روگردانی اور ضلالت میں منہمک رہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ﴾ (سورہ مؤمنون 23 آیت 55، 56) (کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد ترقی دیتے ہیں تو یہ ہم ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں (یہ بات نہیں ہے) بلکہ وہ نہیں سمجھتے)۔ پس (حق تعالیٰ سے) روگردانی کے باوجود دنیا اور اس کی نعمتوں کا حاصل ہونا عین خرابی ہے۔ بچو اس سے بچو! و السلام۔
تشریح:
واقعتاً بات ایسی ہی ہے کہ بعض اوقات کوئی انسان دنیا مانگتا ہے اور اس کو دنیا فوراً دے دی جائے تو یہ خسارہ کی بات ہو سکتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیه نے اس کی بھی مثال دی ہے کہ کسی شخص کی آواز مکروہ ہو اور وہ کسی سخی آدمی سے کوئی چیز مانگے اور بار بار مانگتا رہے، تو وہ جلدی سے اس کو دے کر رخصت کر دے گا کہ جاؤ اپنا کام کرو، اس کا ادھر کھڑا ہونا پسند نہیں کرے گا اور اگر کسی کا وہاں کھڑا رہنا اور مانگنا پسند ہو گا تو اس کو جلدی نہیں دے گا، تاکہ مانگتا رہے۔ اس وجہ سے اللہ جل شانہ کئی بار تاخیر سے بھی عنایت فرماتے ہیں، الله جل شانهٗ کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ، ان کی استعدادوں کے مطابق اپنا اپنا ہوتا ہے۔
وساوس و خطرات کا آنا کمالِ ایمان کی علامت ہے:
وساوِس و خطرات کا آنا کمال ایمان کی علامت ہے۔ اس بارے میں دفتر اول مکتوب نمبر 182 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
درویشوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی (اتفاق سے) طالبان طریقت کے خطرات و وساوس کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئی۔ اسی ضمن میں ایک حدیث کا ذکر آیا کہ ایک روز حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب کرام میں سے بعض نے آں سرور عالم ﷺ کی خدمت میں اپنے برے خطرات (وساوس) کی شکایت کی۔ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ذٰلِکَ مِنْ کَمَالِ الْاِیْمَانِ (یہ کمال ایمان میں سے ہے) اس وقت اس حدیث کے معنی اس فقیر کے دل میں اس طرح آئے۔ اور حقیقت حال کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے۔ کہ کمال ایمان سے مراد کمال یقین ہے اور کمال یقین کمال قرب پر مترتب ہے اور قلب اور اس سے اوپر کے لطائف (روح، سر، خفی اور اخفی) کو قرب الہی جل شانہ جس قدر زیادہ حاصل ہو گا اسی قدر ایمان و یقین بھی زیادہ ہو گا اور قالب کے ساتھ اس کی بے تعلقی زیادہ ہو جائے گی اس وقت خطرات قالب میں بہت زیادہ ظاہر ہوں گے اور بہت نا مناسب وسوسے نمایاں ہوں گے پس لازماً برے خطرات کا سبب کمال ایمان ہو گا۔ لہٰذا نہایت النہایت کے منتہی کو خطرات جس قدر زیادہ اور نا مناسب ہوں گے ایمان کی اکملیت اسی قدر زیادہ ہو گی کیونکہ کمال ایمان اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام لطائف سے الطف لطیفہ کو لطیفہ قالب کے ساتھ کامل بے مناسبتی ہو اور یہ بے مناسبتی جس قدر زیادہ ہوں گے بخلاف مبتدی اور متوسط کے کہ اس قسم کے خطرات ان کے لئے زہر قاتل اور باطنی مرض کو زیادہ کرنے والے ہیں فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَاصِرِیْنَ (پس تو (ہمارے کلام کے سمجھنے میں) قصور کرنے والوں میں سے نہ ہو)۔
تشریح:
وساوس کا آنا کمالِ ایمان کی علامت ہے۔ اس کو ہم دو معنوں میں لے سکتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دنیا دار الابتلاء ہے، اس وجہ سے ابتلاء تو ہر صورت میں ہو گا۔ قرآن پاک میں ایک جگہ پر ارشاد مبارک ہے کہ شیطان نے اللہ پاک کو کہا کہ میں ان کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا۔ اللہ پاک نے فرمایا: تو اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان پہ چڑھ دوڑ، ان کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتا ہے، کر لے، جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ اب جو اللہ والے ہیں، کمال ایمان والے ہیں، شیطان ان کے اوپر حملہ تو کرے گا اور ان کے مقام کے حساب سے شدید حملہ کرے گا۔ بعض کو تو چھوٹے چھوٹے طریقوں سے ڈھیر کر دے گا، لیکن جو چھوٹے موٹے طریقوں سے ڈھیر نہیں ہو گا، اس کے لئے وہ اپنا اسلحہ بڑھائے گا، مزید وار کرے گا، کمال ایمان والوں پہ بہت زیادہ خطرناک حملے کرے گا۔ کیونکہ معمولی حملوں سے تو وہ ٹس سے مس بھی نہیں ہوں گے۔ اس وجہ سے اہل کمال پہ شیطان کے وساوس بہت زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا یہی مطلب ہے کہ زیادہ وساوس آنا کمالِ ایمان کی علامت ہے۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قسم کی بات بتائی کہ ہمیں تو اس قسم کے وساوس آ رہے ہیں کہ ہم انہیں ظاہر کرنے کے بجائے جل کر کوئلہ ہونا پسند کریں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا آپ لوگوں کو یہ حالت نصیب ہو گئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایسے ہی ہے۔ فرمایا: ذَاكَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ (مسند احمد، حدث نمبر: 158) کہ یہ اصل ایمان ہے۔
مراتب کمال میں تفاوت:
اس بارے میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 158 میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متن:
جاننا چاہئے کہ کمال کے درجات مختلف ہیں جو قابلیتوں کے فرق کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کمال میں تفاوت کبھی کمیت (مقدار) کے لحاظ سے ہوتا ہے اور کھبی کیفیت کے اعتبار سے، اور کبھی ان دونوں (کیفیت و کمیت) کے اعتبار سے (بیک وقت ہوتا ہے)۔ اور بعض کا کمال مثلا تجلی صفاتی سے ہے اور بعض دوسروں کا کمال تجلی ذاتی کی و جہ سے۔۔۔۔ اس بہت بڑے تفاوت کے باوجود ان دونوں تجلیوں والے افراد اور ان کے ارباب کے درمیان بڑا فرق ہے، بعضوں کا کمال حق سبحانہ کے ماسوا صرف قلب کی سلامتی پر ہے اور روح کی آزادی تک ہے، اور بعض دوسرے حضرات کا کمال ان دونوں کے ساتھ بھی تحقیق شدہ ہے اور لطیفہ سر کے شہود تک بھی، اور تیسرے گروہ کا کمال ان تینوں امور کے ساتھ ساتھ اس حیرت تک ہے جو لطیفہ خفی کے ساتھ منسوب ہے۔ اور چو تھے گروہ کا کمال ان چاروں امور کے علاوہ اس اتصال تک ہے جو لطیفہ اخفی کی طرف منسوب ہے۔ ﴿ذلِکَ فَضْلُ اللّٰہٖ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (جمعہ 62: آیت4) (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کر تا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے)۔۔۔ مذکورہ بالا مراتب میں سے ہر مرتبہ میں کمال حاصل ہو نے کے بعد رجوعِ قہقری ہے (یعنی اُلٹے پاوں لوٹنا ہے تا کہ مخلوق کو حق جل و علا کی طرف دعوت دے) یا ثبات و استقرار ہے یعنی اس میں ٹھہر جانا ہے اور ان دونوں میں سے پہلا مقام تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور اس میں حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کی طرف دعوتِ حق دینے کے لئے رجوع کرنا ہے اور دوسرا مقام استہلاک یعنی مغلوب الحال ہونے اور مخلوق سے یکسوئی و عزلت ہونے کا مقام ہے۔ وَالسَّلَامُ أوَّلًا وَ آخِرًا۔
تشریح:
حضرت نے اس میں یہ ارشاد فرمایا کہ لوگ مختلف وجوہات سے باکمال ہوتے ہیں، مختلف قابلیتوں کی وجہ سے ان کے کمال میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی کمال کمیت کی وجہ سے ہوتا ہے، یعنی کمال کا درجہ اونچا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کیفیت کے اعتبار سے ہوتا ہے، یعنی کمیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی، لیکن کیفیت بہت اچھی ہوتی ہے۔ کبھی کمال ان دونوں کے مجموعے سے ہوتا ہے۔ بعض لوگ تجلیِ صفاتی کے ساتھ عروج کرتے ہیں اور بعض لوگ تجلیِ ذاتی کے ساتھ عروج کرتے ہیں، اس لحاظ سے دونوں کے مرتبہ میں بھی فرق ہوتا ہے۔
فرمایا کہ بعضوں کا کمال ما سوا اللہ سے قلب کی سلامتی میں ہوتا ہے۔ یعنی ان کا دل ماسوا اللہ سے محفوظ ہوتا ہے، دل میں غیر نہیں ہوتا۔ ’’مَا فِیْ قَلْبِیْ غَیْرُ اللہِ‘‘ دل میں غیر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روح نفس سے آزاد ہو چکی ہوتی ہے۔
بعض دوسرے حضرات کا کمال ان دونوں یعنی روح اور قلب کے ساتھ بھی تحقیق شدہ ہے اور بعض کا کمال لطیفۂ سر کے شہود تک بھی ہے۔ سالک کو لطیفۂ سر کا شہود ہو جاتا ہے یعنی لطیفۂ روح کا فعال ہونا، جس میں قلب باقاعدہ Mouthpiece بنتا ہے، جس سے انسان کو بصیرت حاصل ہوتی ہے اور بعض کو لطیفۂ سر کی وجہ سے فراست حاصل ہو جاتی ہے۔
تیسرے گروہ کا کمال ان تینوں امور کے ساتھ ساتھ اس حیرت تک ہے، جو لطیفۂ خفی کے ساتھ منسوب ہے۔ (لطیفۂ خفی مقام حیرت تک لے جانے والا ہے)
چوتھے گروہ کا کمال ان چاروں امور کے علاوہ اس اتصال تک ہے، جو لطیفۂ اخفیٰ کی طرف منسوب ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ لطائف اصل میں تو عرش سے اوپر ہیں، لیکن ہم لوگ ان لطائف پر محنت کے ذریعہ سے ان کی جڑوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، ان کو فعال کرتے ہیں۔ اب ہو گا یہ کہ اگر کسی کا لطیفۂ روح چل پڑا تو قلب تک رسائی ہو گئی۔ حضرت مجدد صاحب نے آغاز قلب سے کیا ہے کہ بعضوں کا کمال حق سبحانہ کے ما سوا صرف قلب کی سلامتی پر ہے تو قلب کے لطیفہ کے ذریعہ سے اس کو کمال حاصل ہوا۔ بعض کو لطیفۂ روح کے ذریعہ سے کمال حاصل ہو گیا۔ بعض کو لطیفۂ سر کے ذریعہ سے کمال حاصل ہو گیا۔ بعض کو لطیفۂ خفی تک کمال حاصل ہو گیا، بعض کو لطیفۂ اخفیٰ تک کمال حاصل ہو گیا۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ مختلف لطائف کے رسوخ کے ذریعہ سے جو کمال حاصل ہوتا ہے، یہ ہر ایک کا اپنا ہوتا ہے۔
مراتب کمال میں تفاوت کے متعلق شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیه صاحب نے ایک اور تحقیق فرمائی ہے۔ میرے خیال میں اُس کو اِس کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اصل لطائف تین ہیں۔ عقل، نفس اور قلب۔ جب یہ اعتدال پر آ جائیں، تو بنیادی اصلاح ہو جاتی ہے اور آدمی باکمال ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان باکمال لوگوں میں سے جن کا قلب‘ بمقابلہ دوسروں کے زیادہ صاف ہے، وہ صدیقین میں آ جاتے ہیں، جن کی عقل زیادہ صفائی حاصل کر لے، وہ علماء راسخین میں آ جاتے ہیں اور جن کا نفس زیادہ صفائی حاصل کر لے وہ زہاد میں آ جاتے ہیں۔
حقیقت حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، لیکن ہم ایک جائزہ کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کے کمالات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے، جیسے ان میں قلب کی صفائی زیادہ ہے اور ان کا مقام صدیقین کی طرف ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیه کے ہاں عقل کی رسائی بہت زیادہ ہے، لہٰذا ان کا مقام علمائے راسخین کی طرف ہے۔ اور حضرت کاکا صاحب رحمة اللہ علیه کے ہاں نفس کی صفائی کا اہتمام زیادہ تھا، تو ان کا مقام زُہَّاد کی طرف ہے۔
گویا کہ مرتبۂ کمال کے اعتبار سے اولیاء اللہ کی قسمیں بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مزاج مختلف بنائے ہوئے ہیں، کسی کا کوئی لطیفہ زیادہ صاف ہوتا ہے اور کسی کا کوئی دوسرا لطیفہ زیادہ صاف ہوتا ہے۔ محنت تو سب کو کرنی ہوتی ہے، لیکن صفائی کا معیار ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ بعض کے ہاں قلب کی صفائی بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ صدیقین کی طرف چلے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو بہت زبردست بصیرت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بصیرت کی وجہ سے ان کی ہر چیز اعلیٰ معیار پہ آ جاتی ہے، جس کو صدیقین کا قول و فعل کہتے ہیں۔ اور بعض کے ہاں عقل میں بہت زیادہ صفائی آ جاتی ہے، جن کی سمجھ بہت زیادہ ہو، جن پہ علوم بہت کھلیں، جن کو فقاہت بہت زیادہ حاصل ہو جائے اور چھپے ہوئے اسرار ان کے اوپر کھلنے لگیں، وہ سمجھ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے علمائے راسخین بن جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں علمائے راسخین کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ بعض باکمال لوگ اپنے نفس کو اس حد تک تسلیم کروا دیتے ہیں کہ ان کا نفس بالکل ہی کالعدم ہو جاتا ہے، وہ زہاد میں آ جاتے ہیں۔
کمال ولایت کا مدار کثرت خوارق پر نہیں ہے:
اس بارے میں دفتر اول مکتوب نمبر 107 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
خوارق کا ظاہر ہونا نہ ولایت کے ارکان میں سے ہے اور نہ (ولایت کے) شرائط میں سے، بخلاف معجزہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کہ وہ مقامِ نبوت کے شرائط میں سے ہے۔ لیکن (شرط ولایت نہ ہونے کے باوجود) اولیاء اللہ سے خوارق کا ظہور بہت کچھ شائع وظاہر اور اس کے خلاف کم ہی ہوا ہے (یعنی اولیاء سے ظہورِ خوارق نہ ہوا ہو)۔ لیکن خوارق کا کثرت سے ظاہر ہونا ولایت کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا البتہ وہاں فضیلت کے لئے قرب الہیٰ کے درجات کا اعتبار ہے ممکن ہے کسی ولیٔ اقرب سے (جو حق تعالیٰ سے قُرب کا درجہ زیادہ رکھتا ہے) بہت کم خوارق ظاہر ہوئے ہوں اور ولیٔ ابعد (جو قربِ الٰہی کا کم درجہ رکھتا ہے) سے بکثرت ظاہر ہوں۔ وہ خوارق جو اس امت کے بعض اولیائے کرام سے ظاہر ہوئے ہیں اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اس کا عشرعشیر (سوواں) حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا، حالانکہ اولیاء میں سے سب سے افضل ولی ایک ادنی صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچتا۔ خوارق کے ظہور پر نظر رکھنا کوتاہ نظری ہے اور استعداد تقلیدی کی کمی پر دلالت کرتا ہے، نبوت و ولایت کے فیوض قبول کرنے کے لائق وہ لوگ ہیں جن میں تقلیدی استعداد ان کی قوتِ نظری پر غالب ہو۔
تشریح:
تقلیدی استعداد سے مراد یہ ہے کہ ان کا ایمان بالغیب بمقابلہ قوت نظری کے زیادہ ہو۔ analysis والی نظر پر ایمان بالغیب والی بات غالب ہو۔
غور فرمائیں! یہاں پر حضرت نے یہ بات فرمائی ہے کہ خوارق سے انکار تو نہیں کرنا چاہئے، لیکن خوارق کو کمالِ ولایت کا معیار نہیں بنانا چاہئے۔ عوام میں یہ رواج ہوتا ہے کہ جس ولی سے زیادہ کرامت کا ظہور ہوتا ہے، ان کو بڑا ولی مانتے ہیں۔
حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیه کی خدمت میں ایک صاحب دس سال رہے اور پھر جانے لگے تو حضرت نے کہا: کیا بات ہے، کیوں جا رہے ہو؟ کہا: حضرت میرا تو یہ خیال تھا کہ آپ کے ہاتھ پہ کچھ کرامت دیکھوں گا، دس سال میں کوئی کرامت نہیں دیکھی، اس وجہ سے جا رہا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: اچھا بتاؤ ان دس سالوں میں مجھ سے کوئی خلاف سنت کام ہوتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا نہیں ایسا تو نہیں دیکھا۔ فرمایا: جنید کی اس سے بڑھ کر کرامت اور کیا ہو گی کہ اس نے دس سال میں اللہ کو ناراض نہیں کیا۔
یہی بنیادی بات ہے۔ سنت کے مطابق زندگی گذارنا بہت بڑی کرامت ہے۔ کیونکہ شیطان آپ کو سنت پہ چلتا دیکھ کر کبھی سکون سے نہیں بیٹھے گا، وہ مسلسل آپ کے پیچھے چلے گا، آپ کے پیچھے رہے گا تاکہ آپ کو سنت سے ہٹائے۔ اس کی پوری محنت اسی پر ہی ہوتی ہے کہ آپ کو سنت سے ہٹا دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ