سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 479

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مجلس سوال و جواب 479 - خانقاہ

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

آج پیر کا دن ہے، پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 1:

السلام علیکم لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 دفعہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 دفعہ، حق 600 دفعہ اور اَللہ 100دفعہ، ایک مہینہ پورا ہو گیا آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آپ آگے اس طرح کریں اللہ 300 دفعہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 دفعہ اور اللہ اب 300 دفعہ کریں، ایک مہینے کے لیے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم! میں اور گھر والے online بیان اور دعا میں شامل ہوتے ہیں اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھاتے ہیں وہ ہمیں اشاروں میں کہتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کبھی تو انہیں سمجھاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بھاگ جاتے ہیں ۔حضرت خواتین کے لیے تو اتوار کو بیان ہوتا ہے کیا بچوں کے لیے الگ بیان کی ترتیب ہو سکتی ہے؟ یا والدین کو کوشش کرکے ان کو سمجھانا چاہیے، براۓ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

یہ واقعی ایک قابل فکر بات ہے کہ ہم بڑوں کا خیال تو رکھتے ہیں لیکن بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ بچوں کا حق بہت زیادہ ہے، اب دو طریقوں سے اس پر عمل ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ واقعی ان کے لیے کوئی چھوٹا موٹا پروگرام ترتیب دینا چاہیے اور دوسرا یہ کہ والدین ان کو سمجھانا شروع کریں کیونکہ بچوں کے لیے یقیناً پروگرام تو ہو سکتا ہے لیکن ہر وقت تو نہیں ہو گا اور بہت ساری چیزیں ان کی ضرورت کی ہوتی ہیں جو کہ بڑوں کو بتائی جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بڑوں کو جو چیزیں سمجھانی ہوتی ہیں وہی بچوں کو بھی سمجھانی ہوتی ہیں کچھ ابتدائی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں صرف زبان کا مسئلہ ہوتا ہے باقی سمجھانے والی بات میں کوئی فرق نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں جو والدین ہیں وہ جب سمجھ جائیں تو وہ بات ان کی زبان میں بچوں کو بھی سمجھا دیں یعنی آسانی کے ساتھ ان کو سمجھائیں۔ والدین والی بات یہ تو فوراً عمل میں آنی چاہیے کیونکہ اس میں تو کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں البتہ جو ہماری والی بات کہ ان کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیا جائے اس پر عمل کے لیے ضروری ہے ہم پہلے اس کو مشورے میں لے آئیں کیونکہ ہمارے سارے پروگرام لگے بندھے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ ٹائم نکالنا ہوتا ہے اور ٹائم نکالنے کے لیے ہمارے پاس ٹائم ہو گا تو ٹائم نکلے گا تو اس صورت میں فی الحال اس کے بارے میں کوئی commitment تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر کوئی موقع ایسا محسوس ہوا کہ اس میں علیحدہ وقت ان کو دیا جا سکتا ہے تو اس پر ان شاء اللہ غور کیا جائے گا اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ میں ہی وہ پروگرام کر لوں ہو سکتا ہے کہ کسی اور ساتھی کو بتا دیا جائے کہ وہ بچوں کو وہی باتیں جو کہ ہم بڑوں کو سمجھاتے ہیں وہ جو ان کی مناسب باتیں ہوتی ہیں وہ ان کو سمجھائیں، اصل میں ہمیں ایک مشکل ہے ورنہ یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا کیونکہ بچوں کو سمجھانے میں عورتوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے یعنی عورتیں زیادہ آسانی کے ساتھ بچوں کو سمجھا لیتی ہیں اسی لیے اسکولوں میں استانیاں چھوٹے بچوں کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ اب چونکہ عورت کی آواز بھی ستر ہے اور اس کے لیے پھر یہ بات مشکل ہو گی کہ اس کی حفاظت کی جائے کہ وہ آواز کہاں کہاں جائے گی اور کون اس کو سنے گا اس میں یہ مشکلات ہیں اس وجہ سے اس پر عمل تو نہیں ہو سکتا، بہرحال یہ بات ممکن ہے کہ کوئی ساتھی اس کے لیے تیار ہو جائے اور پھر ہم ان کی خدمت میں یہ بات پیش کریں تو شاید اس پر عمل ہو سکے اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

سوال نمبر 3:

شرعی پردہ کی اہمیت کیا ہے؟ اور اس کے نتیجے میں اپنوں سے ہی جو مسائل پیدا ہوتے ہیں انہیں کیسے بہتر کریں خاص طور پر شادی شدہ عورت اسے کیسے maintain کرے؟

جواب:

یہ واقعی ہمارے معاشرے کی ایک دکھتی رگ ہے بالخصوص دیندار لوگوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پردے کی جو definition لوگوں نے اپنی مرضی سے کی ہے وہ رواجی پردہ ہے، شرعی پردہ نہیں ہے اور اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور جو ماڈرن خواتین ہیں انہوں نے تو اپنی terminology ایجاد کی ہے وہ terminology یہ ہے کہ وہ کہتی ہیں بس دل کا پردہ ہونا چاہیے، دل صاف ہونا چاہیے باقی سب چیزیں جائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو دل کو دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ان کو کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ دل کو دیکھتا ہے تو آپ اگر نماز نہ پڑھیں اور آپ کہیں کہ بس اللہ تعالیٰ دل کو دیکھتا ہے بس میرے دل میں نماز کا احترام ہے بس یہ کافی ہے تو کیا اس پر آپ کو معافی مل جائے گی؟ وہ تو دل کی بات ہے لیکن ساتھ ساتھ ظاہر کی بھی بات ہے آپ ظاہر کو ختم نہیں کر سکتے۔ یہ مسائل ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ مسائل سب کو ہیں صرف آپ کو نہیں ہیں اور لوگ اس میں راستہ بھی بنا لیتے ہیں اور راستہ بنانے کے لیے ہر ایک کے لیے ایک جیسا طریقہ نہیں ہے کیونکہ حالات سب کے مختلف ہیں اس میں سب سے پہلے یہ بات ہے کہ انسان اضطراری طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ ایک ہوتا ہے بس جی مانگ لیا جیسے کہ مثال کے طور پر کوئی چیز missing ہو یا بیماری ہو مثلاً اس کے لیے انسان جس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے لوگوں سے دعا کرواتا ہے اس طرح اس کے لیے بھی اضطراری کیفیت بن جائے تو پھر (أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ) (النمل: 62)"کون ہے جو کہ مضطر کی دعا قبول فرماتا ہے" اللہ جل شانہ مضطر کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ اسی لیے اگر کسی کی اضطراری حالت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راستہ نکال لیتا ہے۔ انسان دعا شروع کرے اور اس کے لیے planning شروع کرلے planning سے مراد یہ کہ مثال کے طور پر اس کے بارے میں تذکرہ ہو اپنے متعلقہ لوگوں کے ساتھ اور گاہے گاہے اس کے بارے میں بات ہو اور جو اپنے خاندان کے شرفاء اس چیز کو سمجھتے ہوں ان کو اعتماد میں لے کر ان سے request کی جائے کہ اس کے اوپر بات کریں آہستہ آہستہ اور متعلقہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے کسی وقت ان کی سمجھ میں آجائے۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ساتھی مجھ سے بیعت ہوئے تو بیعت ہونے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ میری بیوی پردہ نہیں کرتی تو میں کیا کروں ؟ میں نے کہا اس کو بس جو خواتین کی مجلس ہوتی ہے اس میں آپ ان کو لایا کریں بس یہ کام آپ کا ہے باقی کام اللہ کا پاک کا ہے بس آپ صرف یہ کریں کہ مجلس میں لایا کریں۔ تو اس نے ان کو مجلس میں لانا شروع کیا اور ہر ہفتے اتوار کو خواتین کے لیے ہمارے ہاں مجلس ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے ساتھ آتی تھی باقاعدگی کے ساتھ اور بے پردہ یعنی بڑی چادر ہوتی تھی لیکن باقاعدہ پردے میں نہیں ہوتی تھی اس نے مجھے کہا کہ میں اس کو بیعت کے لیے کہہ دوں؟ میں نے کہا بیعت کے لیے ابھی نہیں کہنا تین مہینے کے بعد اس نے کہا کہ میں شاہ صاحب سے بیعت کرنا چاہتی ہوں مجھے اس کے شوہر نے کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتی ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے، اعلان ہو جائے گا جو بیعت کرنا چاہتی ہیں وہ بیعت ہو جائیں گی تو اعلان ہو گیا تو وہ بیعت ہو گئی جب بیعت ہو گئی تو اس کے ساتھ ہی اس نے family والوں کو کہا کہ میرا آج سے شرعی پردہ ہے اس نے شرعی پردہ شروع کیا، اب ان کے خاندان والے بھی چونکہ پردے کے عادی نہیں تھے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ چونکہ اس نے سوال ہی یہ اٹھایا تھا کے وہ بالکل پردہ نہیں کر رہی تھی تو اس کے خاندان کا بھی یہی حال ہو گا۔ جب ایسا ہوا تو اس پر ان کے چچا اور بڑوں نے زبردست قسم کے comments دینے شروع کر دیئے جیسے کہ ہوتا ہے،انہوں نے اس پہ اعتراض کیا کمال ہے شیخ سے پردہ نہیں اور خالو سے پردہ ہے یہ کیسی بات ہے؟ انہوں نے کہا: آپ کو کس نے کہا کہ شیخ سے پردہ نہیں ہے؟ ہم نے پردہ تو شیخ سے سیکھا ہے۔ اس کے بعد جب ان کو پتہ چلا کہ ہاں شیخ سے بھی پردہ ہے انہوں نے جب تحقیق کی تو کہا بس پھر ٹھیک ہے الحمد للہ کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں میں مشہور ہےکہ شیخ سے پردہ نہیں ہوتا اور واقعی بعض احتیاط بھی نہیں کرتے وہ ان کے سامنے بے پردہ آ جاتی ہیں اور ان کو بیٹیاں سمجھ کے ان کے ساتھ باتیں کرتی ہیں یہ ٹھیک ہے بیٹیاں ہی ہیں ساری بہنیں ہیں باقاعدہ یعنی اس میں الفاظ بھی آتے ہیں، جیسے لوط علیہ السلام نے کہا تھا کہ میری بیٹیاں ہیں بیٹیوں سے مراد وہی جو باقی جتنی بھی عورتیں تھیں وہ بیٹیاں ہی تھیں حضرت لوط علیہ السلام کی۔ تو بیٹیوں کی بات آتی ہے لیکن وہ اس طرح بیٹیاں نہیں ہیں جس طرح واقعی خونی بیٹیاں ہوتی ہیں کیونکہ خونی بیٹیوں سے تو پردہ نہیں ہوتا لیکن باقی جو رشتے کی بیٹیاں ہوتی ہیں یا جیسے کسی عالم کی شاگردہ ہوتی ہیں وہ بھی بیٹیاں ہوتی ہیں کسی پیر کی مریدنیاں ہوتی ہیں وہ بھی بیٹیاں ہوتی ہیں، وہ بیٹیاں ہونا اور چیز ہے ان کے لیے شریعت کے احکام تبدیل نہیں ہوتے تو اس وجہ سے پردہ شیخ سے بھی ہوتا ہے اور غیر محرم رشتہ دار جیسے کہ خالو سالے، دیور اور جو قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں ان سے پردہ ہوتا ہے بلکہ دیور کے بارے میں تو پوچھا گیا تو فرمایا: "دیور تو موت ہے" آج کل دیور سے کوئی پردہ نہیں کرتیں بلکہ دیور کے بارے میں جب بات اٹھائی جاتی ہے تو اچھی خاصی resistance ہوتی ہے، مار کٹائی تک بات آ جاتی ہے یہ ہماری جہالت ہے اس جہالت کو علم سے ختم کیا جا سکتا ہے اور بات کر کے آہستہ آہستہ جیسے شر آہستہ آہستہ آتا ہے تو خیر کو بھی آہستہ آہستہ آنا چاہیے تاکہ میدان ہموار ہو پھر اس کے بعد بات بنے گی ان شاء اللہ۔ ہمیں پردہ کروانا چاہیے لیکن اس کے لیے طریقہ کار آہستہ آہستہ development والا ہو، اگر فوراً یہ بات کی جائے تو اس میں بعض دفعہ مشکلات ہوتی ہیں جیسے اگر آپ گرم چیز کو یکدم ٹھنڈی چیز میں ڈال دیں تو اس میں cracks وغیرہ پڑ جاتے ہیں تو اگر اس کو آہستہ آہستہ ٹھنڈا کیا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر گرم جگہ سے یکدم ٹھنڈی جگہ پر چلیں جائیں تو آپ بیمار ہو جاتے ہیں اور اگر آپ آہستہ آہستہ steps میں باہر نکل جائیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا تو یہ ساری چیزیں قدرتی ہیں جس طرح دین آھستہ آھستہ نازل ہوا ہے اسی طریقے سے بتدریج عمل میں بھی لایا جا سکتا ہے حکمت عملی کے ساتھ، ہم حکمت عملی اختیار کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر 4:

بچوں کی تربیت میں اگر شوہر ساتھ نہ دے اور کوئی ذمہ داری بھی نہ اٹھائے تو کیا کیا جائے؟

جواب:

جتنا کام کسی ماں کی ذمہ داری ہے وہ تو پورا کرے، شوہر نہیں کرتا تو اس سے پوچھا جائے گا لیکن ماں تو جتنا کر سکتی ہے وہ تو کرے۔ اگر شوہر نماز نہیں پڑھتا تو کیا بیوی بھی نماز چھوڑ دے بلکہ اس کے لیے دعا کرے لیکن اپنے طور پر تو نماز پڑھے اس طرح شوہر کی جو ذمہ داری ہے اگر وہ پوری نہیں کرتا تو جو بیوی کی ذمہ داری ہے وہ اپنے طور پہ جتنا پورا کر سکتی ہے وہ کرے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم حضرت میں بہت پریشان ہوں تو میرے لیے دعا کیجئے۔



جواب:

جی بالکل دعا کرتا ہوں، دل سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔

سوال نمبر 6:

بچوں کی تربیت پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتایئے گا۔

جواب:

آپ ﷺ نے بچوں کی تربیت کیسے کی وہ آپ کتابوں میں پڑھ سکتی ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے انھوں نے کھجور منہ میں ڈال دی تو آپ ﷺ نے ان کے منہ میں انگلی ڈال کہ قے کروا کر نکلوا دی اور فرمایا کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو، یہ تربیت تھی۔ اس طرح ایک بچہ کھانا کھانے لگا تو اس کو روک دیا کہ وہ بسم اللہ پڑھ شروع کرے۔ اس طرح یہ ساری باتیں جمع کرنی چاہیے تو اس پر عمل ہو سکتا ہے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 7 :

تعویذ کے بارے میں بتائیں وہ جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب:

آپ جذبات میں نہ آیئے گا میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیار کر لو جو صحابہ کرام کے طریقے تھے۔ مثلاً تہجد کی نماز کے بعد اللہ سے مانگو سب سے بہترین وقت ہوتا ہے جو سب کو میسر ہے۔ حج میں دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن حج سب کو میسر نہیں، وہ تو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے لیکن تہجد کی نماز تو سب کو میسر ہے اور گھر میں ہی پڑھ سکتا ہے تو تہجد کے بعد زبردست قبولیت کا وقت ہے کیونکہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا: 'آسمان اول سے ندا آتی ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں، ہے کوئی پریشان کہ اس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں" جب اللہ پاک خود اعلان کرتے ہیں تو اس پہ لبیک ہی کہنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح فرض نمازوں کے بعد جو دعائیں قبول ہوتی ہیں اس کے بعد مانگا کریں اکثر لوگ دعائیں مانگتے ہیں لیکن بس جلدی جلدی صرف بس رسم ہی پوری کرنی ہوتی ہے مانگنا تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ فرض کے بعد دعائیں قبول ہوتی ہیں تو دعا کرنی چاہیے۔ اس کے بعد عام دعا ہے کیونکہ (فادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکمْ) (غافر:60) یہ قرآن کا حکم ہے، سند قرآن سے موجود ہے اس وجہ سے دعا بہت بڑی بات ہے یہ simple دعا ہے جو انسان کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کوئی وظیفہ کر لے جیسے سورۃ یٰسین شریف، آیۃ الکرسی، اور وظائف ہیں جو مسنون ثابت ہیں یا ویسے ہی تجربے سے جو ثابت ہیں اس طرح کے وظیفے کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد پھر دم ہے، یہ بھی ٹھیک ہے آپ ﷺ اور صحابہ کرام نے بھی دم فرمایا ہے یعنی دم سے بھی کام ہوتے ہیں اس کے بعد تعویذ کی باری آتی ہے، تو میں نے جس ترتیب سے بتایا اس ترتیب سے اس کی سند کی مضبوطی ہے یعنی سب سے پہلے تہجد کی سند سب سے زیادہ مضبوط ہے پھر اس کے بعد اس طرح ہوتے ہوتے تعویذ کا سب سے اخیر میں نمبر ہے یہ جائز ہے ناجائز نہیں، بالخصوص نابالغوں کے لیے کیونکہ وہ خود تو کچھ کر نہیں سکتے اس پہ دم ہی کریں گے، وہ وظیفہ تو کر نہیں سکتے ان کو تعویذ پہنائیں گے شرط یہ ہے کہ یہ جائز طریقے سے ہو جائز طریقے سے مراد یہ کہ اس میں قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہو یا کوئی اللہ کا نام لکھا ہو، شرک وغیرہ نہ ہو یا اس قسم کی کوئی چیز شیطان سے مانگنا جیسے بدبخت لوگ کرتے ہیں ایسی کوئی چیز نہ ہوجو صحیح طریقے سے تعویذ لکھا گیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو بہت لوگوں نے مجبور کیا تعویذ کے لیے تو حضرت نے مجبور ہو کر تعویذ لکھا اس سے الحمد للہ ان کا کام بھی ہو گیا وہ تعویذ بعد میں کھل گیا تو دیکھا کہ اس پہ لکھا تھا میں کہتا ہوں: میں جانتا نہیں، یہ مانتے نہیں ہیں، اے اللہ ان کا کام کر دے بس اتنا لکھا تھا بس وہی ان کا تعویذ تھا۔ اب ظاہر ہے یہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے والی بات ہی ہو گئی تو اس طریقے سے بعض بزرگ کی زبان سے کچھ بھی نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرما لیتے ہیں پھر بعد میں آنے والوں کے لیے وہ ایک تعویذ بن جاتا ہے۔ اللہ پاک بعض لوگوں کی باتیں قبول فرما لیتے ہیں جیسے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو چلا دیا تو وہ بھی تو بندے تھے اللہ تعالیٰ کے اس طرح آگے کسی امتی کی بات کو بھی چلا سکتے ہیں۔ یہ تعویذ اس زمرے میں آتا ہے پس اگر کسی نے جائز طریقے سے تعویذ کیا ہے اس کو ہم ناجائز نہیں کہتے لیکن اس کے مقام کو اتنا ہی سمجھنا چاہیے جتنا کہ ہے اس سے زیادہ نہیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم حضرت جی جون 2020 کے معمولات کا چارٹ بھیج رہا ہوں۔ جون میں روزمرہ کے اوقات کام میں تھوڑی بہت بے ترتیبی آ گئی تھی خصوصاً رات کو سونے اور صبح کو اٹھنے کے اوقات میں گڑ بڑ ہو گئی تھی جس سے معمولات میں سستی ہو گئی اور تب سے لے کر اب تک کے معمولات بہت خراب چل رہے ہیں رات جلدی نہیں سو رہے فجر کی نماز قضا ہو رہی ہے اور ذکر بھی متاثر ہو رہا ہے اور میرے ساتھ بچے اور بیوی کی بھی ترتیب خراب ہے کہ کوئی بھی جلدی نہیں سوتے جس سے اگلا پورا دن متاثر رہتا ہے اور رات کو پھر وہی خراب routine حضرت جی اب سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ جلدی سو جایا کروں گا اور باقیوں کو بھی سونے کا جلدی کہوں گا تاکہ مزید routine خراب نہ ہو رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

دعا تو میں یقیناً سب کے لیے کرتا ہوں لیکن ہمت اپنی اپنی ہوتی ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا حضرت میرے لیے دعا کیجئے کہ حج کروں حضرت نے فرمایا: جب حج کے دن آ جائیں مجھے اپنے اوپر پورا اختیار دے دینا میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاز پر بٹھا دوں گا اور آپ کے لیے دعا بھی کر لوں گا۔ یہ جو تمنائی دعائیں ہوتی ہیں یہ ارادے والی نہیں ہیں۔ جیسے میں نےکہا اضطراری کیفیت جب انسان کی اضطراری حالت ہو جائے تو پھر بات بنتی ہے۔ جس طرح آفس کا آپ کے سر پر کوئی کام آ جائے تو آپ کو پریشانی ہوتی ہے اور آپ خود بھی دعائیں کرتے ہیں اور لوگوں سے بھی کرواتے ہیں اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں۔ جب تک آپ کی نماز کے لیے وہ حالت نہیں بنے گی اس وقت تک آپ کا یہ کام نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ دل کو دیکھتا ہے زبان کو نہیں دیکھتا۔ اپنے آپ کو خود سیدھا کرنا پڑے گا اس کے لیے خود محنت کرنی پڑے گی اور خود تڑپ پیدا کرنی پڑے گی۔ بہرحال جتنی نمازیں آپ کی قضا ہو چکی ہیں تین سے ضرب دے کر اتنے روزے رکھیں مطلب ہر قضا نماز کے لیے تین روزے ہیں، آپ روزے رکھنا شروع کریں اور مجھے اطلاع کر دینا۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

I hope you are well dear حضرت! I am فلاں twenty years old from U.K Birmingham. I have this question. When it is said that the قرآن is a cure for disease, does this mean every disease including spiritual and bodily disease and medical disease? Following questions: Also how do we unlock the bodily medical disease healing power of the Quran? Is this correct to say that just as اللہ has granted water the inherent ability to quench thirst, in the same way, the recitation of the قرآن has been granted the inherent ability to cure all bodily and medical diseases? I do understand Urdu ماشاءاللہ very good.

جواب:

اچھا ہوا آپ نے بتا دیا کہ اردو جانتے ہیں، بات سب لوگوں کی سمجھ میں آجائے گی ان شاء اللہ۔ پیارے بھائی دو باتیں سمجھنی چاہئیں۔ ایک وقت آئے گا جب ساری چیزیں بند ہو جائیں گی بارش مدتوں تک نہیں ہو گی اور زمین بھی پانی کھینچ لے گی یعنی پانی گہرائی میں چلا جائے گا، دجال حملہ کرے گا اس طرح کہ وہ کہے گا کہ میں تمہارے لیے بارش برساتا ہوں مجھے خدا مان لو، یہ بہت بڑی آزمائش ہو گی۔ ایسی صورت میں جو اللہ جل شانہ کے وعدوں پہ یقین رکھنے والے ہوں گے ان کو پتا ہو گا کہ اس وقت ذکر اللہ سے ہی انسان کا پیٹ بھرے گا تو وہ ذکر کریں گے تو ان کے پیٹ بھرنا شروع ہو جائیں گے۔ اب جب وہ وقت تو آئے گا تو اس طرح ہی ہوگا کیا اِس وقت لوگوں نے کھانا چھوڑ دیا ہے؟ اس وقت تو کھانا ملتا ہے تو کھائیں جب بند ہو جائے گا تو وہ special case ہوگا۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دونوں کو combine کرنا چاہیے۔ medical treatment شریعت میں منع نہیں ہےدوا آپ ﷺ کی سنت ہے آپ ﷺ نے سینگنیاں لگوائی ہیں۔ آپ ﷺ نے باقاعدہ بعض چیزوں کے خواص بتائے ہیں جیسےکھجوروں میں عجوہ کھجور اور اس طرح دودھ اور شہد کے۔ اگر یہ genral بات ہوتی تو آپ ﷺ قرآن پاک کی کوئی سورت بتاتے، یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن سے نہیں ہوتا یہ دونوں چیزیں side by side ہیں ایک میں روحانیت ہے اور دوسرے میں مادیت ہے یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے جسم کے اندر دونوں چیزیں ہیں مادیت بھی اور روحانیت بھی، اسی طرح ان تمام چیزوں میں مادیت بھی اور روحانیت بھی ہوتی ہے تو ان دونوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ medical جو treatment ہے وہ بھی کرنا چاہیے لیکن solely اس پہ depend نہیں کرنا چاہیے، بہت آسانی ہو جاتی ہے اگر روحانیت کو بھی ساتھ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھایا ہےکہ بعض دفعہ بعض کلام پڑھنے سے بڑے زبردست اثرات اللہ تعالیٰ نصیب فرما دیتے ہیں ماشاءاللہ لیکن اللہ پاک کی سنت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسباب میں اپنی قدرت کو چھپاتے ہیں لہذا دونوں ساتھ ساتھ ہونے چاہئیں، ان سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔

England کا ہی واقعہ ہے ہمارے بہت بڑے بزرگ تھے وہ ہسپتالوں کا دورہ کیا کرتے تھے وہاں دیکھاکہ ایک آدمی insomniaکا مریض تھا اس کو نیند نہیں آتی تھی وہ انگریز تھا۔ بزرگ سب سے پوچھ رہے تھے تو اس نے اپنا حال بتایا تو اس کو کہا کہ اللہ پاک کا ذکر کرو، اللہ کا ذکر ان کو سکھایا، اگلے دن جب گۓ تو وہ انگریز ان کو دیکھ کر اپنے بستر سے اچھلا اور کہا اللہ، اللہ، اللہ، آج رات میں بڑے سکون سے سویا ہوں۔ ذکر کو اللہ پاک نے اس کے لیے دوا بنا دیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ insomnia کے وارڈ ختم ہونے چاہئیں لیکن اس سے انکار نہیں ہے دونوں چیزیں اپنی جگہ ہیں لہذا مادی علاج بھی ہونا چاہیے اور spiritual بھی ہونا چاہیے، دونوں اکٹھے زیادہ فائدہ ہے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 10:

شیخ السلام علیکم!

I am a Chinese and recently completed my master’s degree in international relations from the U.K. Back in China, I am facing a challenge of working in an organization where حجاب and Islamic way of life would not be welcome. Kindly advise me how can I balance my faith with professional life? In other words what type of job opportunity should I accept? جزاک اللہ

جواب:

This is a difficult question for me because you have asked this a little later. If you would asked me at the time when you were opting for the area of studies then it would be better to ask. And I think I would be in a better position to tell you which area is better for ladies, specially for Muslim ladies? Now as you have done your master degree and now you have to choose a career within that area. So it means, it has been near it and for me the choice is a little bit difficult but I remember once I went to a doctor: ENT specialist, my throat was infected. So I asked him which things I should avoid in eating? So he told me that you should do this intelligently. I ask him how? He said the thing which you feel is not good for you, it is problematic for you. So then you should not use and you should avoid them. So this thing I will also tell you to see your situation in which the difficulties for the ladies (Muslim ladies) are less, then adopt that because I don’t know your area which type of offers are there? So therefore, I cannot tell you in detail but I can tell you in principle which area is less difficult for you in adopting the Islamic practice. Then I think you should choose that one. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ help you in choosing your area of work!

سوال نمبر 11:

السلام علیکم شاہ صاحب آج کل لوگ سالگرہ بہت اہتمام سے مناتے ہیں اور جو پرہیزگار ہیں ان کے لیے ایک وبالِ جان ہے کیونکہ بچے تو نا سمجھ ہوتے ہیں ان کے لیے سالگرہ کی رنگا رنگ تقریب زیادہ اہمیت رکھتی جا رہی ہے۔ دیندار والدین کے لیے یہ ایک بہت بڑی مصیبت بنتی جا رہی ہے۔ ہمیں بحیثییت مسلمان سال میں عیدین کے علاوہ اور کون سے مواقع ہیں کہ اگر ہم ان دنوں میں شرعی حدود میں رہ کر اس طرح کی کوئی رنگا رنگ تقریب منقعد کیا کریں تاکہ بچوں کے ذہنوں میں سالگرہ کی اہمیت کم ہو جائے اور بچوں کو سالگرہ منانے کے علاوہ اسلامی دنوں کو منانے میں دلچسپی پیدا ہو رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

یہ question تھوڑا سا مشکل اس لحاظ سے ہے کہ ہم لوگ ذرا وقت پر نہیں سوچتے جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے بات کی عین وقت پہ ہم بچوں کو بتائیں کہ یہ چیز ناجائز ہے بہت مشکل ہے ان کو سمجھ آنا، ضد کریں گے۔ ادھر اور بچے بھی ہوتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی ان کا بھی شوق ہوتا ہے پھر کیا کرنا چاہیے تو ایک چیز ہے جس کو ہم کہتے ہیں ذہن سازی، ذہن سازی پہلے سے ہوتی ہے وقت پہ نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں جنگ میں گھوڑے نہیں پالے جاتے، (وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ)(الانفال:60) تیاری پہلے سے کرنی ہوتی ہے تو بچوں کا بھی ذہن پہلے سے بنانا ہوتا ہے وقت پر ساری چیزیں آپ ان سے نہیں منوا سکتے تو وقت پہ ان کو اگر سمجھایا جائے کہ ہمارا کام نہیں ہے یہ اس قسم کے کام کرتے ہیں یہ ٹھیک نہیں کرتے، مسلمانوں کے کام نہیں ہیں، مسلمان تو اس، اس طرح کرتے ہیں۔ بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں وہ pick کر لیتے ہیں، باقی لوگوں سے زیادہ وہ pick کرتے ہیں لیکن آپ ان کو time دیں تاکہ وقت پر وہ سمجھ جائیں۔ آپ بچوں کی بات کر رہے ہیں میں بڑوں کی بات کر رہا ہوں، میں Germany میں تھا office lady جو تھی اس نے مجھے فون کیا happpy birth day to you Mr. Ahmed

24 April میرا date of birth لکھا ہوا تھا، ان کے پاس میرے document تھے میں نے کہا its not my date of birth اب ان کو کون سمجھائے، اس نے کہا میرے سامنے کاغذوں پہ لکھا ہوا ہے میں نے کہا

It's written in Christian date and this is not our date. We follow another system that is the lunar system and we don't follow this.

اس کو فوراً click ہو گیا کہتی ہے yes okay okay بس بات ختم ہو گئی مطلب طریقے سے بات کرنی ہوتی ہے اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے۔

ہمارے گھر میں بھی میرا جو بیٹا تھا اس کے لیے چچاؤں نے date of birth کا arrangement کیا تھا باقاعدہ special cake منگوایا تھا۔ میں نے فریج میں دیکھا تو cake پڑا ہوا ہے سمجھ گیا کہ اچھا یہ تیاری ہے کیونکہ date تو آ رہی ہے اس میں سے میں نے ایک piece انجان بن کر کاٹ کے کھا لیا، بعد میں ان کو پتا چل گیا کہ اوہو یہ تو کٹ گیا ہے پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے لیکن cake تو کھانے کی چیز ہوتی ہے اس کے لیے کوئی خاص time نہیں ہوتا پہلے بھی کھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کبھی ہنسی مذاق اور کبھی دوسرے طریقے سے آہستہ آہستہ سمجھانا ہوتا ہے۔ یہ ایک cultural قسم کا issue ہے اس میں بہت محنت کرنی ہوتی ہے آپ کو بھی آہستہ آہستہ بچوں اور بڑوں کو سمجھانا پڑے گا اس وقت تو بڑے بچوں سے زیادہ بچے ہیں ان کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے، آپ بچوں کو بے شک سمجھا دیں گے ان کے چچاؤں اور ماموؤں کو نہیں سمجھا سکیں گے وہ سامنے آئیں گے، پھوپھیاں اور خالائیں وہ آپ کے سامنے آئیں گی یہ آپ کے ساتھ مسئلہ بنے گا ان سب کو آہستہ آہستہ سمجھانا پڑے گا اور طریقے سے بتانا پڑے گا کہ ہمیں ان چیزوں میں نہیں پڑنا۔

میں آپ کو اپنا ایک واقعہ بتاتا ہوں، میں hostel میں تھا تو میں نے اپنے کمرے میں زبردست قسم کی decoration کی تھی، خالی table lamp اس کے لیے ڈی آئی خان سے منگوایا تھا۔ مجھے اپنے ایک class fallows نے کہا آپ یہ کیا کر رہے ہیں کمرےکو کیا بنایا ہوا ہے؟ میں نے کہا میں اس کمرے میں رہنا پسند کرتا ہوں ادھر ادھر پھرنا پسند نہیں کرتا ہوں یہ مجھے باہر جانے سے بچا لیتا ہے بس میرا یہی area ہے میں نے اسی میں رہنا ہے اس کو ہی decorate کرنا ہے تاکہ مجھے کسی اور جگہ جانا ہی نہ پڑے۔ اسی طرح اگر آپ بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے گھر میں نماز کے لیے خوبصورت جگہ بنا دیں باقاعدہ decoratedکریں اور ان کو کہہ دیں دیکھو یہ نماز کی جگہ ہے ادھر ہم نماز پڑھتے ہیں، پھر وہ آپ کے ساتھ ماشاءاللہ بڑی خوشی کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ آپ اس طرح کریں گے تو ان کو ساتھ ساتھ learning بھی ہوگی۔

ایک German lady تھی، ایک دن اس نے مجھ سے office میں پوچھا کیا آپ کے بچے ہیں؟ میں نے کہا: جی ہیں۔ تو کیا آپ نے ان کے لیے کھلونے خریدے ہیں؟ میں نے کہا وہ natural کھیل کھیلتے ہیں، انہوں نے کہا natural کھیل کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا جب وہ اپنی والدہ کو دیکھتے ہے کہ وہ کپڑے دھوتی ہیں تو جس طرح کپڑے انہوں نے لٹکائے ہوتے ہیں انھوں نے بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کپڑے لٹکا لیے ہوتے ہیں اس کے نیچے ٹب بھی رکھ لیتے ہیں مختلف چیزوں سے پانی نہ ٹپکے اگر ٹپکے تو اسی میں ٹپکے۔ اسی طرح cooking کے لیے بھی اس قسم کی چیزیں بنائی ہیں۔ وہ کہتی ہے very interesting I want to meet them میں نے کہا of course you can meet them یہ طریقہ ہے بچوں کو involve کرنے کا، بچوں کو healthy گیموں میں involve کریں، یہ جو فضول قسم کے جو mobile دے کر ان کو چپ کرایا جاتا ہے یہ ماؤں کی کمزوری ہے اب ایک دفعہ کمزوری آ جائے تو پھر بھگتنی پڑے گی اس کے جتنے مسائل ہیں وہ بھگتنے پڑیں گے۔ اگر آپ نے خود سادہ ٹیلیفون رکھا ہے تو بچے بھی کسی بڑے موبائل کی demand نہیں کریں گے۔ کہتے ہیں one has to do something for something تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے تو آپ سے بھی کہوں گا کہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔



سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت عقل کو جذبات پر ترجیح دینے سےکیا مراد ہے؟ کیا دماغ کو جذبات سے خالی رکھنا چاہیے جیسے غصے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے؟

جواب:

یہ بڑی عجیب بات کی ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس چیز کو discuss کیا ہے کہ ہر چیز کا اپنا اپنا کام ہے عقل کا اپنا، دل کا اپنا، نفس کا اپنا کام ہے اس میں balance رکھنا ہوتا ہے تو طریقہ کار یہ ہے کہ دل کا بہت بڑا رول ہے کہ ایمان اور کفر دل میں ہوتا ہے تو دل میں ایمان لانا (اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصدِْیْقٌ بِالْقَلْب) سب سے پہلے جو چیز آپ کو چاہیے وہ کیا ہے؟ وہ ایمان ہے اور وہ دل میں ہونا چاہیے تو گویا کہ دل بنیاد بن جاتا ہے اگر دل میں ایمان نہ ہو تو بے شک آپ بڑے اچھے اچھے کام کریں اس کا کیا فائدہ؟ وہ دنیا میں تو فائدہ پہنچا سکتے ہیں آخرت میں آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو شروع دل سے ہوتا ہے اس کے بعد اس ایمان کی روشنی سے عقل منور ہو سکتی ہے اگر آپ چاہیں تو محنت ہے اور وہ یقین کے لحاظ سے ہے، یقین کے لحاظ سے علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین یعنی اس کے اوپر محنت کرنی ہوتی ہے (وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ) (البقرۃ: 4) باقاعدہ قرآن پاک میں آتا ہےکہ یقین کے ذریعے سے ہم عقل کو ایمانی عقل بنا سکتے ہیں کیونکہ اگر ایمانی عقل نہیں ہے تو پھر نفسانی عقل ہو گی دنیاوی عقل ہو گی۔

عقل کی دو قسمیں ہیں، دنیاوی یا ایمانی، ایمانی عقل۔۔ اگر دل میں ایمان ہے اور آپ نے اس عقل کو یقین میں convert کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ یقین کے درجات پہ چلی ہے تو ایسی صورت میں وہ ایمانی عقل بن جاتی ہے۔ ایمانی عقل کیا کرتی ہے؟ وہ آخرت کے تقاضوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے یعنی آخرت میں کون سی چیز فائدہ پہنچاتی ہے کون سی چیز نقصان پہنچاتی ہے؟ جیسے آپ زہر نہیں کھاتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ زہر سے انسان مر جاتا ہے یا بیمار ہو جاتا ہے تو آپ زہر نہیں کھاتے آپ کو عقل اجازت نہیں دیتی کہ آپ زہر کھائیں بعینہٖ اس طریقے سے اگر ایمانی عقل ہو تو گناہ سے بچیں گے کیونکہ گناہ سے انسان جہنم میں جاتا ہے وہ اپنے آپ کو گناہ سے بچائے گا اور کفر کے کلمے سے انسان ہمیشہ کے لیے جہنم میں جا سکتا ہے تو پھر آدمی اپنے آپ کو کفر سے بچائے گا بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ وہ کفر کے کلمے کی بجائے آگ میں پڑنے کو ترجیح دے گا لیکن کفر کا کلمہ نہیں کہے گا کیونکہ اس کی ایمانی عقل strong ہو جاتی ہے یوں سمجھ لیجئےکہ قلب کے ایمان سے عقل ایماندار ہو جاتی ہے پھر اس کے بعد سمجھدار ہو جاتی ہے یعنی پہلے ایماندار پھر سمجھدار ہو جاتی ہے اور عقل کی سمجھ سے پھر ساری چیزیں control ہوتی ہیں کیونکہ دل میں جو جذبات ہوتے ہیں وہ جذبات اچھے بھی اور برے بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اچھے جذبات یہ ہیں کہ کوئی نرم دل، ہمدرد ہے ہمدردی دل میں ہوتی ہے اور اس طرح قساوت یہ بھی دل میں ہوتی ہے اس طرح غصہ جو تکبر کی وجہ سے آتا ہے وہ بھی دل میں ہوتا ہے گویا یوں سمجھ لیجئے کہ جو امراض قلبی یا اخلاقِ حمیدہ، یہ تمام چیزیں دل کی ہیں اور پھر عقل فیصلہ کرے گی کہ یہ بری چیزیں نہیں لینی بلکہ صحیح چیزیں لینی ہیں جیسے انسان گاڑی چلاتا ہے تو اِدھر کھائی ہے اُدھر روڈ ہے تو کھائی میں نہیں گاڑی لے جاتا روڈ پہ چلاتا ہے کیونکہ اس کو پتا ہے اگر اس پے چلوں گا تو اپنی منزل پہ پہنچوں گا اگر ایسا نہیں کروں گا تو میں ختم ہو جاؤں گا۔ اسی طریقے سے عقل بری چیزوں سے بچتی ہے اور اچھی چیزیں کرتی ہے لیکن یہ ممکن تب ہوتا ہے جب نفس cooperate کرے اگر نفس نہ مانے اور باغی ہو تو بے شک آپ ارادہ بھی کریں اس سے کچھ نہیں ہو گا وہ رکاوٹ ہے۔ مثال کے طور پر سامنے بڑی چٹان ہے آپ اس پہ چڑھ ہی نہیں سکتے تو آپ جتنا مرضی زور لگائیں پہلے اس چٹان کو دور کرنا پڑے گا۔ نفس کی جو resistance ہے اس کی محنت اصل بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: (قدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا) (الشمس: 9-10) نفس کی جو رکاوٹ ہے اس کو دور کرنا بنیادی کام ہے۔ اب جیسے سوال میں بتایا گیا کہ کیا دماغ کو جذبات سے خالی رکھنا چاہیے؟ بھائی جذبات تو دماغ میں ہوتے ہی نہیں جذبات تو دل میں ہوتے ہیں دماغ میں تو علم یا جہل ہوتا ہے یوں سمجھ لیجئے information or decision control یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ جذبات دماغ میں نہیں ہوتے البتہ یہ ہے کہ دماغ ان چیزوں سے جو دل میں ہوتی ہیں متاثر ضرور ہوتا ہے تو متاثر نہیں ہونا چاہیے یعنی اپنی عقل کو آپ ایمانی عقل بنا کر آخرت کے خوف کی وجہ سے برائی کی طرف نہ جانے دیں اور برے جذبات سے اس کو بچائیں مثال کے طور پر غصہ سب کو آ سکتا ہے کیونکہ دل میں اگر ایسا جذبہ ہے تو اس کی وجہ سے غصہ آسکتا ہے لیکن پھر کیا غصہ کیا جائے؟ اگر غصہ کیا تو پھر ایک فوری طریقہ اور ایک علاجی طریقہ بھی ہوتا ہے فوری طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کر لیں کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، پانی پی لیں ادھر ادھر ہو جائیں، چھوٹا ہے تو اس کو اپنے سے ہٹائیں اگر بڑا ہو تو اس سے ہٹ جائیں یہ سارے طریقے وقتی ہیں وقتی طور پر چونکہ تربیت جلدی نہیں ہو سکتی تو آپ نے یوں وقتی طریقوں کو استعمال کرنا ہے لیکن اصل یہ ہےکہ جس وجہ سے غصہ آ رہا ہے اس کا علاج کرو، جیسے ایک دفعہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کسی نے بہت زیادتی کی تو ایک آدمی ان کو جانتا تھا کہ یہ تو بادشاہ تھا تو انہوں نے کہا کہ حضرت آپ کو کچھ بھی اثر نہیں ہوا؟ فرمایا: وہ اثر میں بلخ میں چھوڑ آیا ہوں اب ظاہر ہے چیز تو ان کے لیے بھی وہی تھی جس سے وہ لوگ اثر لیتے ہیں۔ اسی طرح حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تربیت کے لیے خانقاہ میں تھے حضرت نے ان کا امتحان لینے کے لیے یا سمجھانے کے لیے اپنے ساتھ کھانے پہ بٹھایا تھا اور اپنی طرف کوفتے رکھے تھے اور ان کی طرف ساگ سرکایا ہوا تھا تو حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ باہر آئے تو انھوں نے کہا حاجی صاحب رشید کا اتنا زیادہ لمبا ہاتھ نہیں اپنی طرف آپ نے کوفتے رکھے ہوئے ہیں ان کی طرف آپ نے ساگ سرکایا ہوا ہے یہ کیا بات ہے؟ حضرت نے کن آنکھیوں سے ان کو دیکھتے دیکھتے کہا دل تو چاہتا ہے کہ ان کو چوڑھے چماروں کے ساتھ بٹھاؤں لیکن کیا کروں انسان ہیں آخر ترس آتا ہے تو اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے ورنہ اپنے ساتھ بٹھانے کے قابل نہیں ہےحضرت خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے بعد میں کسی نے پوچھا حضرت کیا یہ بات ہوئی تھی اس طرح؟ کہا بالکل ہوئی تھی تو کیا کچھ reaction نہیں ہوا؟ انہوں نے کہا reaction کیوں ہوتا بالکل صحیح بات کر رہے تھے میں اس قابل تھوڑا تھا وہ تو انھوں نے میرے اوپر کرم کر کے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا ہوا تھا یہ کوئی تھوڑی بات تھی مجھے اگر کھانا بھی نہ دیتے ویسے بٹھا دیتے تو یہ بھی میرے لیے بڑی سعادت کی بات تھی چہ جائیکہ انھوں نے کھانا بھی دیا، کمال کی بات کرتے ہو مجھے کیا سوچنا تھا۔ اب دیکھیں اس پر لوگ کتنے ناراض ہو جاتے ہیں کسی کے بارے میں اگر ایسی بات کی جائے تو وہاں ٹھہر سکتا ہے؟ تو یہ سب کچھ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا لیکن چونکہ وہ شیخ کے منصب کو پہچان گئے تھے بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے کی برکات جان چکے تھے خود اپنی کمزوریاں جان چکے تھے اپنے مقام کو جان چکے تھے لہذا ان کو کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس کو سمجھداری کہتے ہیں یہی بنیادی چیز ہے کہ اگر ایک انسان ایسی چیزوں کو سیکھ جائے اور عمل کرنے کے قابل ہو جائے، اسی کو تربیت کہتے ہیں تربیت کے لیے بزرگوں کے پاس جانا ہوتا ہے اسی مقصد کے لیے جانا ہوتا ہے کہ عقل، دل اور نفس کی بھی اصلاح ہو جائے۔



سوال نمبر 13:

السلام علیکم حضرت جی آپ کو بتانا تھا کہ میرے چوتھے ذکر یعنی لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ 300 مرتبہ، حَق 300 مرتبہ اور اَللہ 100 مرتبہ ایک مہینہ کا مکمل ہو گیا ہے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ، 400 مرتبہ حق اور اللہ 100 مرتبہ ایک مہینے کے لیے کریں ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اللہ پاک آپ کی مکمل حفاظت فرمائے اور مجھ سمیت میرے سب گھر والوں کو آپ کا فیض و برکت نصیب فرمائے۔ حضرت گزشتہ کئی ماہ سے علاجی ذکر میں ہر ماہ ایک دو ناغے ہو جاتے تھے اس ماہ الحمد للہ 30 دن بغیر ناغے کے مکمل ہو گیا، حضرت آخری سبق یہ تھا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلا للہ 400 مرتبہ، حق 400 مرتبہ اور اَللہ 100 مرتبہ، حضرت آگے کے لیے تلقین فرمائیں۔ منزل الجدید میں کوتاہی ہو رہی تھی لیکن کل صبح کے بیان مبارک سے زبردست ترغیب ہوئی اور اب اس کو پابندی سے کرنے کی نیت کی ہے ان شاء اللہ۔ بیانات سننے میں بھی کوتاہی ہو رہی ہے میرا پہلا contract ختم ہوا اور نئی job بہت tough ہے، بمشکل کھانے سونے کا وقت نکلتا ہے لیکن شکر ادا کرتا ہوں الحمد للہ نوکری جاری ہے ہمارے اکثر colleagues کو terminate کر دیا ہے اور ناشکری و بے صبری سے ڈر لگتا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی برکت سے میری اصلاح فرما دے آمین۔

جواب:

اب آپ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلّا للہ 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ اور اللہ 100 مرتبہ ایک مہینے کے لیے کریں ان شاء اللہ۔ دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آسانی نصیب فرما دے اور وہاں کی برکات بھی نصیب فرما دے آمین۔


سوال نمبر 15:

السلام علیکم حضرت مشائخ کے ہاں مناسبت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ اگر ایک شخص کئی سال کسی شیخ کے پاس رہ کر بھی شیخ کی رائے پر اپنی رائے رکھے اور شیخ کی ترتیب کی پرواہ نہ کرے، بار بار توجہ دلانے کے باوجود اپنی ہی کرے اور تاویلوں سے کام لے یہاں تک کہ شیخ کو قلبی تکلیف ہونے لگے تو کیا ایسے شخص کو شیخ تعلق سے فارغ کر سکتا ہے؟ کہنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ بیشک کچھ نہیں کرنا فارغ کرنا ٹھیک طریقہ نہیں ہے؟

جواب:

سبحان اللہ یہ سوال ایک شیخ نے کیا ہے لہذا جواب ان کے لحاظ سے ہوگا۔ واقعۃً یہ دو مشکل باتیں ہیں اس میں ایک مشکل کو opt کرنا پڑے گا جیسے کہتے ہیں "آگے کنواں پیچھے کھائی" اگر کوئی شخص مانتا نہیں اور آپ اس کو ایسے ہی چلائے رکھیں تو اس کو فائدہ نہیں ہو گا اور اگر آپ اس کو فارغ کرتے ہیں تو جتنا فائدہ ہو رہا ہے وہ اس سے بھی رہ جائے گا مطلب دو مشکل باتیں ہیں ان میں سے ایک مشکل choose کرنا ہے کیونکہ یہ ایک اجتہادی بات ہے اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ میں اپنا طریقہ کار بتا دیتا ہوں جو میں استعمال کرتا ہوں ضروری نہیں کہ میرے طریقے کو سارے لوگ استعمال کریں لیکن چونکہ مجھ سے پوچھا گیا ہے میں تو صرف وہی کہہ سکتا ہوں جس کو میں اپنے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ یہ علاج ہے اور علاج جو ہوتا ہے اس میں ماننا لازم ہے کیونکہ اس کو فائدہ ہی نہیں ہو گا۔

ایسی صورت میں یہ خدمت بھی کی جا سکتی ہے کہ ان کو کوئی ایسا صاحب بتا دیا جائے کہ فلاں شیخ کے پاس چلے جائیں جیسے ہمارے گزشتہ مشائخ میں یہ بات ہوتی تھی جب وہ دیکھ لیتے تھے کہ مجھ سے کسی کی مناسبت نہیں ہے تو پھر وہ خود ہی بتا دیتے کہ آپ فلاں کے پاس چلے جائیں ان سے آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ابھی recentely کوئٹہ سے ایک صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہتا ہے میرا شیخ ہے نام بھی بتا دیا کہتا ہے میرے شیخ نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی نقشبندی شیخ کے ساتھ رابطہ کریں تو انھوں نے اس کے مزاج کو دیکھ لیا ہو گا کہ ان کی نقشبندیت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے، تو کہتا ہے کہ میری آپ کے ساتھ کچھ مناسبت محسوس ہو رہی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ اپنا رابطہ رکھوں، میں نے کہا ٹھیک ہے۔ یہ بات genuine ہے بالخصوص جب آپ کو اپنے شیخ نے بھی بتایا ہے پھر اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کیونکہ اگر آپ کو میرے ساتھ مناسبت ہے تو میں آپ کو روک البتہ آپ کو اختیار ہے آپ اگر اس طرف آتے ہیں تو پھر مکمل آنا ہو گا یہ نہیں کہ کچھ اُدھر کچھ اِدھر یہ نہیں ہو سکے گا مکمل بات ماننی پڑے گی ہاں البتہ اپنے طور پہ دل میں بڑا احترام اور ادب رکھنا ہو گا ویسے بھی سارے مشائخ کا ادب و احترام رکھنا چاہیے بالخصوص اس کا تو رکھنا ہی ہو گا جو پہلے والے ہیں آپ ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں رکھیں گے ان کے بارے میں کوئی بات دل میں نہیں لائیں گے بلکہ سمجھیں کہ میری مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے ان حضرت نے مجھے فرمایا ہے ان کے اندر کوئی مسئلہ نہیں تھا یہ آپ کر سکتے ہیں۔ وہ سمجھ گئے انھوں نے کہا بالکل ٹھیک ہے تو ماشاءاللہ اب ہمارے ساتھ ان کا رابطہ ہے اس کو بیعت بھی نہیں کیا کیونکہ بیعت کی ضرورت تھی ہی نہیں کہ وہ پہلے سے بیعت تھے کسی سلسلے میں تو داخل تھے اور صحیح سلسلہ تھا لہذا بیعت نہیں کیا لیکن تربیت کا تعلق ان کا میرے ساتھ ہو گیا۔ اس طرح کئی واقعات ہیں کراچی میں ایک صاحب تھے جو کہ مسلمان ہو گئے تھے نو مسلم تھے کسی جیل میں کسی مسلمان کے ساتھ رابطہ ہو گیا تھا تو مسلمان ہو گئے تھے۔ وہ شیخ کی تلاش میں تھے پھر کسی نے کہا آپ بنوری ٹاؤن پہنچ جائیں تو بنوری ٹاؤن پہنچ گئے وہاں پہ جو عالم تھے انھوں نے ان سے کہا کہ اپنا سر منڈوا لیں ان کے لمبے لمبے بال تھے وہ مخلص تو تھا بہرحال فوراً سر کے بال منڈوا دیئے تو بعد میں اساتذہ سے کسی نے کہا کہ یہ اس لیے نہیں آئے یہ کسی شیخ کی تلاش میں ہیں ان کے لیے شیخ ڈھونڈنا پڑے گا ورنہ یہ واپس بھی جا سکتا ہے اب چونکہ بنوری ٹاؤن کا پہلے جو set up تھا وہ حضرت مولانا طفیل رحمۃ اللہ علیہ جو نقشبندی شیخ تھے ان کے ساتھ مل کر شروع ہوا تھا تو انھوں نے ان کہ پاس بھیج دیا مولانا طفیل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب چلے گئے تو حضرت نے ان کو اپنے ساتھ کچھ عرصہ رکھا لیکن پھر ایک دن اس کو بلایا اور انہیں کہا کہ بیٹا میں نے بہت غور کیا آپ کو میرے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ آپ نے ان کو وہیں پر ایک اور نو مسلم صاحب جن کی تربیت ہوئی تھی شیخ بھی بن گئے تھے تو ان کے بارے میں بتایا کہ آپ ادھر جائیں آپ کا فائدہ ادھر ہو گا ان شاء اللہ، ان کو وہاں بھیج دیا۔ سبحان اللہ کیا عجیب واقعہ ہوا کہ انھوں نے ان کو ساتھ لے جا کر کمرے میں دروازہ بند کر کے پتا نہیں اندر کیا ہوا وہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے لیکن جب یہ باہر آیا تو ایسے سرشار تھا کہ جیسے کسی کا نشہ ٹوٹ گیا ہو یعنی اس کو مکمل satisfaction ہو گئی تھی تو مزاج کی ایسے بات ہوتی ہے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے مزاج کا فرق ہوتا ہے تو یہ بھی ان کے اخلاص کی بات تھی کہ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ کو مجھ سے مناسبت نہیں ہے آپ کو فلاں کے پاس جانا چاہیے اور صحیح جگہ بھی بتا دی تو وہاں گئے تو واقعی ان کو فائدہ بھی ہوا تو اسی طریقے سے آپ ان کے لیے جگہ منتخب کریں اور ان کے لیے صحیح سوچیں یا مشورہ کر لیں لیکن ان کو اس طرح لٹکانا نہیں چاہیے لٹکانے سے ان کو اتنا فائدہ نہیں ہو گا عین ممکن ہے کہ ان کو نقصان ہی ہو تو لٹکانا نہیں چاہیے البتہ ان کے لیے کچھ کوشش کر کے جو صحیح جگہ ہے ڈھونڈ کے ان کو وہیں پر بھیجنا چاہیے تاکہ ان کو فائدہ ہو ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش اور تندرست رکھے۔ حضرت جی ذکر کا مہینہ پورا ہو گیا، میرا ذکر 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ، 600 مرتبہ حق، تین ہزار مرتبہ اسم ذات اور دس منٹ کا قلب پر مراقبہ ہے۔ حضرت ذکر کے دوران کبھی کبھار دل کی دھڑکن ذکر کے ساتھ ایک سی محسوس ہوتی ہے، کبھی کبھار سینے میں ٹکور کی طرح گرمائش محسوس ہوتی ہے، توجہ بھی پہلے سے بہتر محسوس ہو رہی ہے۔ حضرت جی اس کے علاوہ جہاں ضرب لگاتا ہوں کبھی کبھار وہاں نہیں لگتی بلکہ آس پاس لگ جاتی ہے کوشش کے باوجود بھی واضح محسوس ہوتا ہے کہ ضرب کی جگہ تبدیل نہیں ہو رہی، آگے کے لیے آپ جیسے حکم فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ کچھ نہ کچھ فائدہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے اس کو ہی فی الحال آپ آگے جاری رکھیں اسی سے ان شاء اللہ گویا کہ اصلاح ہو جائے گی۔ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ، 600 مرتبہ حق اور 3500 مرتبہ اسم ذات اور یہی دس منٹ کا قلب پہ مراقبہ جاری رکھیں ان شاء اللہ العزیز، جیسے بھی اللہ نے چاہا تو اس طرح کریں گے، آپ فی الحال ایک مہینہ اور کریں ان شاء اللہ باقی چیزیں وقت پہ ٹھیک ہو جائیں گی۔

سوال نمبر 17:

ماشاء اللہ ماشاء اللہ ایک مدرسہ ہے جس میں طالبات ہیں تو ان کی پوری complete report ہے۔

جواب:

میں نام تو نہیں لیتا کیونکہ نام لینا ہمارا طریقہ نہیں ہے، البتہ طریقہ بتاؤں گا تو اس کے ساتھ ہی وہ نوٹ کر لیں۔

سوال نمبر 18:

لطیفۂ قلب دس منٹ تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

اب ان کو لطیفۂ قلب پندرہ منٹ کا دے دیں۔

سوال نمبر 19:

لطیفۂ قلب دس منٹ محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

اس کو پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 20:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ دونوں پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 21:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ان کو جو چار لطائف ہیں پہلے ان کے اوپر دس منٹ اور آخری لطیفہ، لطیفۂ اخفیٰ پہ پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 22:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر پندرہ منٹ تو پہلے تین لطائف پر دو مہینے سے یہی وظیفہ ہے لیکن سِر پر ذکر محسوس نہیں ہوتا کیا کریں؟

جواب:

ایک مہینہ اور کریں تاکہ سِر پر بھی ذکر محسوس ہونا شروع ہو جائے۔

سوال نمبر 23:

لطیفۂ قلب دس منٹ۔ لطیفۂ روح پندرہ منٹ دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ابھی دو پر دس منٹ اور اگلے لطیفے پہ پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 24:

لطیفۂ قلب پر دس منٹ کے لیے نزول رحمت کا ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ان کو پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 25:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ، لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ان کو اب سب لطائف پر پانچ منٹ کا بتا کے پندرہ منٹ کے لیے لطیفہ مراقبہ احدیت بتا دیں، مراقبہ احدیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جیسے کہ اس کی شان ہے اس کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پہ آتا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پہ آتا ہے اور شیخ کے قلب سے جو طالبہ ہے اس کے لطیفۂ قلب پر آ رہا ہے۔


سوال نمبر 26:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

اب اس کو دونوں لطائف پہ دس، دس منٹ اور اگلے لطیفے پر پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 27:

چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کر لیا رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

سبحان اللہ اب اس کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو، سو (100) دفعہ اور دس منٹ کے لیے لطیفۂ قلب بتا دیں۔

سوال نمبر 28:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ؟

جواب:

دونوں لطیفوں پہ دس دس منٹ کا بتائیں اور لطیفۂ سِر پر پندرہ منٹ کا بتائیں۔

سوال نمبر 29:

لطیفۂ قلب دس منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ کیا کروں؟

جواب:

لطیفۂ قلب پہ دس منٹ اور لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ کا بتائیں۔



سوال نمبر 30:

لطیفۂ قلب پر نزول رحمت کا تصور دس منٹ کے لیے ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ؟

جواب:

اس کو لطیفۂ قلب پر باقاعدہ ذکر محسوس کرانے کا پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 31:

لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ان کو لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دونوں پر دس دس منٹ اور اگلا لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر پر پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 32:

لطیفۂ قلب پندرہ منٹ پر ذکر محسوس ہوتا ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 33:

حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کے علم، عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے۔ حضرت جی بارہ تسبیحات کے ساتھ لطائف کے مراقبے جاری ہیں اور مراقبہ عبدیت پچھلے چند ماہ سے جاری ہے، حضرت جی مراقبہ احدیت سے لے کر مراقبہ حقیقت قرآن کر چکا ہوں اور مراقبہ حقیقت صلوۃ سے پہلے مراقبہ عبدیت شروع کیا تھا، نماز میں یکسوئی پہلے سے بہتر ہوئی ہے، رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

اللہ تعالیٰ اور بھی بہتر فرمائے بہرحال جب آپ آ جائیں تو ان شاء اللہ آپ کو بقیہ بتا دوں گا ان شاء اللہ العزیز۔

سوال نمبر 34:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شاہ صاحب میرا مراقبہ پورا ہو گیا، مراقبہ سے پہلے 100 مرتبہ اللہ بولنا اور پندرہ منٹ دل پہ مراقبہ کرنا، دل میں تو محسوس کرتی ہوں لیکن سنائی نہیں دیتا،کہیں میں اس میں مشغول تو نہیں کہ میرے دل کے ساتھ یہ ہو رہا ہے رہنمائی فرمائیں؟۔

جواب:

اگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہاں پر اللہ، اللہ ہو رہا ہے مثال کے طور پر آپ تمام خیالات سے یکسو ہو کر دل کی طرف متوجہ ہو جائیں اور دیکھیں کہ آپ کو اگر اللہ، اللہ محسوس ہو رہا ہے تو پھر پرواہ نہ کریں پھر آپ دس منٹ لطیفۂ قلب پر رکھیں اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح پر شروع کریں۔

سوال نمبر 35:

چھوٹی عید پر تصویر نہیں بنائی لیکن چودہ اگست پر بنائی تھی کیا کروں؟

جواب:

اس پہ استغفار کریں اور دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھیں اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا عہد کریں۔

سوال نمبر 36:

جواب :

اگر یہ ہزار دفعہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر پندرہ سو مرتبہ کریں ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 37:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

I hope حضرت is well and the family! Please forgive me for sending late question. Sometimes when I make my ذکر I fall asleep and have loose count of exactly how much I have done? What should I do? And also how can I prevent myself from sleeping while making ذکر?

جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

ماشاءاللہ It is side effect of ذکر because ذکر brings اطمینان قلب and because of اطمینان قلب a person can have an effect to sleep but one can control it. Once I was in Islamia College Peshawar hostel and one of our colleagues was from Malaysia. I told him that now the weather is very good. It was spring at that time, so I told him that the weather was very good. He said yes but this good weather should be used for good purposes not for bad purposes. You should not sleep, you should do work. So this thing, I tell you also. If you are getting satisfaction with ذکر so you should use it for good things. Be prepared for more work and use this good condition to do ذکر in a good way and if you feel a little bit difficult in this, then you can take tea. You can refresh yourself by washing your face. This will give you freshness and ان شاء اللہ you will be able to do your ذکر in good session.


سوال نمبر 38:

حضرت جی شیخ کی محبت کے اختیاری اسباب جو ہیں وہ کیا ہو سکتے ہیں؟

جواب:

ماشاءاللہ بڑا اچھا سوال ہے اختیاری اسباب میں سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان کی مجلس میں حاضری زیادہ کی جائے ایک تو یہ بات ہے دوسری بات یہ ہے کہ عقلی محبت پیدا کی جائے کیونکہ طبعی محبت جو ہے یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتی لیکن اگر عقلی محبت سے جڑ لگ جائے تو وہ آہستہ آہستہ اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ طبعی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جیسے ہماری تبلیغی جماعت میں جو لوگ وقت لگاتے ہیں تو ان کو ایک بات بتاتے ہیں کہ جس چیز پر جان مال وقت لگ جائے تو اس کے ساتھ تعلق پیدا ہو جاتا ہے یعنی اس کو پھر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک political party جو غلط پارٹی تھی صحیح پارٹی نہیں تھی۔ ہمارے ایک نیک دوست تھے وہ اس میں تھے میں نے انہیں ایک دن کہا کمال ہے آپ اس پارٹی میں کیسے ہیں یعنی کم از کم باقی لوگ تو ہیں لیکن آپ کیسے ہیں؟ وہ مجھے کہتے ہیں شبیر صاحب اس پہ ہمارا بہت وقت لگا ہے بہت محنتیں قربانیاں ہوئی تھیں وہ قربانیاں یاد آتی ہیں۔ اب دیکھیں جو قربانیاں انھوں نے کی تھیں اس کی وجہ سے وہ بندھا ہوا تھا تو اس کا مطلب عقلی محبت ہو اور عقلی محبت کے جو تقاضے ہیں ان پر عمل ہو اس سے آہستہ آہستہ طبعی محبت میں وہ چیز convert ہو جاتی ہے، ہو گیا تو سبحان اللہ نہیں ہوا تو عقلی محبت ہی کافی ہے اس سے بھی کام ہو جاتا ہے ماشاء اللہ۔

سوال نمبر 39:

حضرت جی جیسے ہم سنتے رہتے ہیں کہ شیخ سے بڑی محبت ہونی چاہیے اگر شیخ سے اس قدر محبت نہ ہو جو معیار ہے۔ ایک عام اکرامِ مسلم کی حد تک اگر رکھیں تو کیا پھر بھی فائدہ ہو گا؟

جواب:

جتنی محبت ہے اتنا فائدہ ضرور ہوگا یقیناً، کیونکہ بزرگوں نے فرمایا ہے شیخ جو ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے لینے کا ایک دروازہ ہے یہ دروازہ کتنا کھولنا چاہیے یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اس کو کتنا کھولتے ہیں اور اس کو کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اس کے لیے کتنا surrender کیا ہوا ہے۔ جتنا آپ نے surrender کیا ہے اتنا فیض ملے گا یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اس کا شیخ قطب نہیں ہے لیکن وہ اس کو قطب سمجھتا ہے اس کو قطب کا فیض ملے گا حالانکہ اس کا شیخ قطب نہیں ہو گا لیکن اس کو فیض ملے گا کیونکہ فیض دینے والا اللہ ہے شیخ نہیں ہے۔ شیخ تو ایک ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذریعہ بناتا ہے۔ باقی نعوذ باللہ من ذالک اس کو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں شریک نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ شرک ہی سے بچنے کے لیے تو انسان تصوف میں آتا ہے تو اگر وہی چیز انسان تصوف میں کرے تو وہ تو بہت غلط بات ہو گی، شرک نہیں کرنی چاہیے اس کے خلافِ سنت کاموں پہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بعض دفعہ ہوتا ہے اب سنت مستحبہ کی بھی قدر کرنی چاہیے لیکن اس پر آپ کسی کو ملامت تو نہیں کر سکتے مثال کے طور پر عمامہ ہے تو عمامہ سنت مستحبہ ہے اب اگر وہ شیخ سنت مستحبہ نہیں کرنا چاہتا اور آپ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے اوپر یہ لازم نہیں ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سنت نصیب فرمائی آپ اس کو شیخ کے لیے نہ چھوڑیں کیونکہ یہ تو آپ ﷺ کی سنت ہے تو اس کو تو آپ کرو لیکن اس کی وجہ سے اپنے شیخ کے ساتھ بدگمانی بھی نہ کریں کیونکہ اگر آپ عام آدمی کو ملامت نہیں کر سکتے اس پر، تو شیخ کو کیسے ملامت کریں گے۔

سوال نمبر 40:

اگر عام آدمی جتنی محبت رکھے تو کیا پھر بھی فیض ہوتا ہے؟

جواب:

فیض ہوتا ہے یقیناً ہوتا ہے مثال کے طور پر دیکھیں دروازہ آدھے سے کچھ کم کھلا ہے بس اتنا ہی اس سے ہوا جائے گی پورا بند ہو گا تو بالکل نہیں جائے گی پورا کھل جائے گا تو بہت زیادہ جائے گی۔

سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ آپ جانتے ہیں بہت بڑے علامہ تھے اتنے بڑے علامہ تھے کہ ان کے شیخ بھی ان کو علامہ سمجھتے تھے تو جس وقت اپنے شیخ سے بیعت ہوئے تو ان کا یہ حال تھا کہ ان کے سامنے بالکل سب کچھ ختم کر چکے تھے مٹ گئے تھے بس گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ اپنا جو مقام تھا وہ سارے کا سارا surrender کر دیا تھا تو پھر اللہ پاک نے ان کو جو نئے سرے سے دیا وہ بہت زیادہ تھا۔ اسی طریقے سے ہمارے جو حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تھے بہت بڑے فلسفی عالم تھے اور فلسفہ ہی میں ان کے شیخ نے ان کو شکست دے دی ان کی خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ discussion کتابوں میں موجودہ ہے، سوال و جواب میں لا جواب ہو گئے اس کے بعد پھر خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی ایک دفعہ تشریف لائے حضرت کے پاس کہ حضرت مسئلہ ہے کہتے ہیں دل سے کوئی چیز نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے حضرت نے بے نیازی سے کہا وہ فلسفہ ہو گا تو وہ رو پڑے انہوں نے کہا حضرت یہ بڑی مشکل سے میں نے حاصل کیا ہے، اس کو آپ فرما رہے ہیں کہ فلسفہ ہو گا یہ کوئی چیز ہی نہیں جیسے آج کل سائنس، تو اب کوئی بڑا scientists ہو تو اگر اس کا شیخ کہہ دے کہ سائنس نکل رہی ہے تو وہ بڑا پریشان ہو گا۔ حضرت نے فرمایا اس سے بھی اچھی چیز اللہ دے دیں گے اور پھر وہی ہوا کہ اللہ پاک نے وہ چیز دے دی۔ مقصد یہ ہے جس کا جتنا حصہ ہوتا ہے اس کے حساب سے پھر اللہ پاک ان کو نوازتا ہے بڑے بڑے واقعات ہیں ماشاء اللہ کتابوں میں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں بہت سارے واقعات ہیں اس قسم کے، حضرت نے مختلف موقعوں پہ بیان کیے ہیں تو اس میں یہی بنیادی بات ہے کہ جو دو طریقے ہیں ایک سلوک نبوت ہے ایک سلوک ولایت ہے تو جو سلوک ولایت ہے اس میں یہی ہوتا ہے کہ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ، یہ تین باتیں ہوتی ہیں۔ پہلے انسان اپنے آپ کو surrender کرتا ہے شیخ کے سامنے اس سے پھر انسان ترقی کرتا ہے تو آپ ﷺ کے سامنے سب کچھ۔۔ یعنی آپ اندازہ کریں جیسے اس وقت بہت سارے لوگ ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ محبت بھی کرتے ہیں ان پہ جان دے دیں گے لیکن چہرے پہ داڑھی رکھنا گوارا نہیں کریں گے اس طرح یا نہیں ہے تو اس کا مطلب محبت تو ان کو ہے لیکن وہ جو سنت والی بات ہے وہ ان کو نہیں مل رہی تو اب یہ ہے کہ یہی transformation اگر شیخ کے ذریعے سے ہو جائے کہ انسان اپنا سب کچھ سنت پہ قربان کر لے اور سنت کی طرف آ جائے تو یہ فنا فی الرسول ہے پھر اس کے بعد فنا فی الرسول کے مرتبے پہ پہنچنے کے بعد چونکہ آپ ﷺ کو ہر چیز میں اللہ کی طرف surrender کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی بات کچھ بھی نہیں کرتے تھے سب باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرتے تھے آپ ﷺ کی جتنی دعائیں ہیں اس میں آپ دیکھیں کون سی دعا ہے جس میں اس کا رخ اللہ کی طرف نہیں ہے؟ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف رخ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اس مقام پہ انسان پہنچ جائے تو پھر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو بس یہی مقصود ہوتا ہے، عبدیت کاملہ حاصل ہو جاتی ہے اور عبدیت نصیب ہو جائے تو اور کیا چیز چاہیے۔


وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ۔