عنوانات
عزلت گزینی کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی شرط۔
فرصت کو غنیمت جاننے کی ترغیب۔
اس سلسلۂ عالیہ میں بعض مبتدیوں کو جلدی تاثر نہ ہونے کا بھید۔
ان بزرگوں کی محبت تھوڑی بھی بہت ہے اور بزرگوں کے لباس سے استفادے کی ترغیب۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
عزلت گزینی کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی شرط:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 265 میں عزلت گزینی کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی کی شرط کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:-
متن:
آپ نے گوشتہ نشینی اختیار کرنے کی آرزو کی تھی، ہاں بیشک گوشہ نشینی صدیقین کی آرزوہے آپ کو مبارک ہو۔ آپ گوشہ نشینی اختیار کریں اور اس طرح یکسوہوں کہ مسلمانوں کے حقوق کی رعایت ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آنحضرت علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:"حقُّ الْمُسْلمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خمسٌ: رَدُّ السَّلامِ، وَعِيَادَةُ الْمرِيضَ، واتِّبَاعُ الْجنَائِزِ، وإِجابة الدَّعوةِ، وتَشمِيت العْاطِسِ (مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ (1) سلام کا جواب دینا۔ (2) مریض کی عیادت کرنا۔ (3) جنازہ کے ساتھ چلنا۔ (4) دعوت کا قبول کرنا۔ (5) اور چھینک کا جواب دینا)۔ لیکن دعوت قبول کرنے میں چند شرطیں ہیں:۔ ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے ’’اگر طعام مشتبہ ہو، یا دعوت کا مکان اور وہاں کا فرش حلال نہ ہو، یا وہاں ریشمی فرش اور چاندی کے برتن ہوں، یا چھت یا دیوار پر جانداروں کی تصویریں ہوں، یا باجے یا سماع کی کوئی چیز موجود ہو، یا کسی قسم کا لہو و لعب کا شغل ہو، یا غیبت چغلی و بہتان اور جھوٹ وغیرہ سننا پڑے تو ان سب صورتوں میں دعوت کا قبول کرنا منع ہے، اور یہ سب امور اس دعوت کی حرمت اور کراہت کا موجب ہیں۔ اور اسی طرح اگر دعوت کرنے والا ظالم یا فاسق یا مبتدع (بدعتی) یا شریر یا تکلف کرنے والا اور فخر و مباہات کا طالب ہے تب بھی یہی حکم ہے، اور ’’شرعۃ الاسلام‘‘ میں ہے کہ’’ ایسے طعام کی دعوت قبول نہ کریں جو ریا و سمعہ کے لئے تیار کیا گیا ہو‘‘۔ اور محیط میں ہے کہ جس دسترخوان پر لہو و لعب یا سرور کا سامان ہو، یا وہاں لوگ غیبت کرتے ہوں، یا شراب پیتے ہوں وہاں بیٹھنا نہیں چاہئے۔ اگر یہ سب موانع موجود نہ ہوں تو دعوت قبول کرنے سے چارہ نہیں ہے لیکن اس زمانے میں ان موانع کا مفقود ہونا دشوار ہے۔۔۔ اور نیز جان لیں کہ
عُزلت از اغیار باید نے ز یار
غیر سے دوری نہ ہرگز یار سے
کیونکہ ہمرازوں کے ساتھ صحبت رکھنا اس طریقۂ عالیہ کی سنتِ مؤکدہ ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ’’ ہمارا طریق صحبت ہے کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت‘‘۔ اور صحبت سے ان کی مراد طریقت سے موافقت کرنے والوں کی صحبت ہے نہ کہ مخالفینِ طریقت کی صحبت، کیونکہ ایک کا دوسرے میں فانی ہونا صحبت کی شرط ہے جو موافقت کے بغیر میسر نہیں ہوتا۔ اور مریض کی عیادت سنّت ہے جبکہ اس بیمار کا کوئی خبر گیر ہو اور اس کی تیمارداری کرتا ہو، ورنہ اس بیمار کی عیادت (بیمار پرسی) واجب ہے جیسا کہ مشکوٰۃ کے حاشیہ میں کہا ہے۔ اور نمازِ جنازہ میں حاضر ہونے کے لئے کم از کم چند قدم جنازے کے پیچھے چلنا چاہئے تاکہ میت کا حق ادا ہو جائے۔ اور جمعہ و جماعت اور نماز پنجگانہ و نماز عیدین میں حاضر ہونا ضروریاتِ اسلام میں سے ہے کہ جن سے چارہ نہیں ہے اور باقی وقتوں کو تبتل و انقطاع (تنہائی و گوشہ نشینی) میں گزاریں لیکن پہلے نیت کی تصحیح کر لینی چاہئے اور گوشہ نشینی کو دنیا کی کسی غرض سے آلودہ نہ کریں، اور ذکرِ الٰہی جل سلطانہ کے ساتھ باطنی جمعیت کے حاصل ہونے اور بے فائدہ و بے کار اشغال سے منہ موڑنے کے سوا (گوشہ نشینی سے) اور کچھ مقصود نہ ہو۔۔۔ اور تصحیح نیت میں بڑی احتیاط کریں، ایسا نہ ہو کہ اس کے ضمن میں کوئی نفسانی غرض پوشیدہ ہو، اور نیت کے درست کرنے میں (اللہ تعالیٰ کے حضور میں) التجا و تضرع بہت زیادہ کریں اور عاجزی و انکساری اختیار کریں تاکہ’’ حقیقت نیت‘‘ میسر ہو جائے۔ سات استخارے ادا کریں تاکہ تصحیح نیت کے ساتھ گوشہ نشینی اختیار کرسکیں، امید ہے کہ اس پر بڑے بڑے فائدے مرتّب ہوں گے۔ باقی حالات کو ملاقات پر موقوف رکھا ہے۔ والسّلام
تشریح:
کیا پُر مغز کلام ہے۔ در اصل ان تمام چیزوں کی بنیاد ایک حدیث شریف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔“
یہ دو باتیں ہیں: (1) بری صحبت سے خلوت اچھی ہے۔ جیسے minus ،zero سے بڑا ہے اور zero ،plus سے بڑا ہے۔ یہ مثال سب لوگ سمجھ جائیں گے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اب خلوت کو آپ zero سمجھ لیں، صحبتِ سُوء کو minus سمجھ لیں اور صحبتِ خیر، صحبت صالح کو plus سمجھ لیں، بات واضح ہو جائے گی۔ اگر صحبت کی وجہ سے برائی میں پھنسنے کا خطرہ ہو تو پھر خلوت بہتر ہے اور اگر خلوت کی وجہ سے اچھی صحبت سے محرومی ہو، تو پھر صحبت بہتر ہے۔ اس میں ساری چیزوں کا لب لباب آ گیا۔
مختلف لوگوں کے مختلف معیار ہوتے ہیں اس وجہ سے فیصلوں میں فرق پڑ جاتا ہے۔ نقشبندی سلسلہ میں سلوک نسبت انعکاسی سے شروع ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس میں صحبتِ شیخ کو بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا نقشبندی سلسلہ میں سالکین کے لئے صحبتِ شیخ کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے جبکہ چشتی حضرات پہلے صفائی چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گندے برتن میں آپ نے کوئی اچھی چیز ڈال لی تو وہ بھی گندی ہو جائے گی اس لئے پہلے برتن کو صاف کرو، پھر اس کے بعد اس میں اچھی چیز ڈالو۔ اس وجہ سے وہ پہلے صفائی کراتے ہیں اور بعد میں ذکر کراتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک چیز ”تخلیہ“ بھی ہوتا ہے۔ یہ اجتہادی ذوق کی بات ہے۔ ہم لوگ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کون اچھا ہے۔ ہم یہ کہیں گے کہ دونوں بڑے اچھے ہیں اُن کا طریقہ بھی اچھا ہے اِن کا طریقہ بھی اچھا ہے۔ عام لوگ ان کا فرق نہیں سمجھ سکتے، البتہ حالات، ذوق اور مناسبت پر منحصر ہے جس کا جو ذوق ہو اسی کے مطابق کر لے۔ سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اپنے شیخ سے پوچھ لے وہ ان کو صحیح صورت حال بتا دیں گے کہ آپ کے لئے خلوت اچھی ہے یا صحبت بہتر ہے۔
حضرت نے پوری تشریح کے ساتھ ساری چیزیں بتا دی ہیں۔ عزلت نشینی برائی سے بچنے کے لئے ہے اچھائی سے بچنے کے لئے نہیں ہے۔ لہٰذا خلوت میں برائی سے بچنا ہے اچھائیوں سے نہیں بچنا ہے۔ بنیادی اچھائیاں تو کرنی ہوں گی۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق بتائے ہیں۔ اگر کوئی خلوت میں ہو تو بھی وہ پانچ حقوق ممکنہ حد تک پورے کرتا رہے۔ وہ حقوق یہ ہیں:
(1) سلام کا جواب دینا: سلام کا جواب دینا تبھی ہو گا جب کوئی سلام کرے گا۔ جب اس کا موقع آئے گا تبھی سلام کا جواب دو گے۔ اگر کوئی موقع سامنے آئے گا ہی نہیں تو جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بات اس وقت ہے جب آپ باہر ہوں، بازار میں ہوں، راستہ میں ہوں یا کہیں سے آئیں یا کوئی آپ کے پاس آ جائے تو ایسے مواقع پر سلام و کلام کر لو۔
(2) مریض کی عیادت کرنا: اس کے لئے باہر جایا جا سکتا ہے۔ جیسے ایک آدمی اپنی خلوت گاہ میں بیٹھا ہوا ہو اور اس کو پتا چل جائے کہ فلاں مریض ہے تو تھوڑی دیر کے لئے اس کے پاس چلا جائے۔ اس کی عیادت کر کے پھر واپس آ جائے، اپنی خلوت میں بیٹھ جائے۔ اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔
(3) جنازہ کے ساتھ چلنا: جنازہ فرضِ کفایہ ہے، اس وجہ سے فرضِ کفایہ کی نیت سے جنازہ میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے، پھر بعد میں واپس آ جائے۔
(4) دعوت قبول کرنا: اس پر حضرت نے بڑا تفصیلی کلام کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا کہ آج کل مشتبہ چیزوں سے بچنا بڑا مشکل ہے۔ اس لئے دعوت قبول کرنا بہت مشکل ہے۔
(5) چھینک کا جواب دینا: یہ بھی تبھی ہو گا جب آپ کے سامنے کوئی چھینکے گا۔ آپ کے سامنے کوئی چھینکے گا نہیں تو آپ جواب بھی نہیں دیں گے۔
خلاصہ یہ کہ جو معروف خلوت ہے اس میں یہ چیزیں رکاوٹ نہیں ہیں۔ آپ جنازے کے ساتھ بے شک جائیں، آپ مریض کی عیادت کر لیں، یہ دو چیزیں آپ remotely کر سکتے ہیں، خلوت کے ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ باقی تین چیزیں خلوت میں ہوتے ہوئے آپ کے اوپر لازم ہی نہیں ہوتیں کیونکہ سلام کا جواب تبھی دیا جائے گا جب کوئی سلام کرے گا اور دعوت تبھی قبول کی جائے گی جب condition صحیح ہو گی۔ اور چھینکنے پر اَلْحَمدُ لِلّٰہ کا جواب تبھی دیا جائے گا، جب کوئی آپ کے سامنے چھینکے گا۔ اس وجہ سے یہ تینوں چیزیں معاف ہو سکتی ہیں کیونکہ حالات اس کے موافق نہیں ہوتے۔ لہٰذا آدمی باقی دو کر لے، ان میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ان سے خلوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
نیز اچھے لوگوں کی صحبت کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ جن لوگوں کی صحبت سے فائدہ ہوتا ہے، وہ دو قسم کے ہیں:
(1) علماء کی صحبت: جن سے انسان علمی مسائل سیکھتا ہے۔
(2) مشائخ کی صحبت: جن سے انسان کی قلبی حالت بہتر ہوتی ہے۔
کیونکہ قلب ایک magnet (مقناطیس) ہے، transmitter بھی ہے اور receiver بھی ہے۔ لہٰذا جو اللہ والا ہو گا، اس کے ہاں سے خیر کی چیزیں radiate ہو رہی ہوں گی جنہیں لوگ receive کر لیں گے اور برے لوگوں کے دل بری چیزیں radiate کر رہے ہوں گے ان سے بچنا ضروری ہو گا۔ خلوت کا مقصد بری radiation سے بچنا ہے اچھی چیز سے بچنا نہیں ہے۔ اچھی چیز کو حاصل کرنا مقصد ہے۔ لہٰذا اگر اچھی صحبت مل جائے تو اس کے لئے خلوت قربان کی جا سکتی ہے اور اگر بری صحبت ہو تو اس سے چھٹکارا حاصل کر کے دوبارہ خلوت میں چلا جائے۔ یوں سمجھ لیجئے it is subject to condition یعنی اس کا انحصار اس پر ہے کہ کس قسم کی حالت ہے۔ میرے خیال میں کافی حد تک وضاحت ہو گئی۔ الحمد للہ۔
فرصت کو غنیمت جاننے کی ترغیب:
یہ بہت بڑی بات ہے۔ دفتر اول کے مکتوب نمبر 133 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
فرصت (کے لمحات) کو غنیمت جانیں اور وقت عزیز کی قدر کریں، رسوم و عادات سے کوئی کام نہیں بنتا، حیلے بہانے تلاش کرنے سے، سوائے خسارہ و مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مخبرِ صادق علیہ وعلیٰ آلہ من الصلوات اتمہا ومن التسلیمات اکملہا نے فرمایا ہے۔ ھَلَکَ الْمُسَوِّفُونَ سَوفَ اَفعَلُ (یعنی عنقریب یہ کام کروں گا، کہنے والے ہلاک ہو گئے)۔
تشریح:
مُسَوِّفُوْن یعنی ٹالنے والے۔ لاہور میں ہمارے کچھ ساتھی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ پورا سال ہم سے کہتے رہتے ہیں کہ شاہ صاحب آئیں تو ہمیں اطلاع کر دینا۔ جب آپ لاہور آتے ہیں اور ہم انہیں بتاتے ہیں تو پھر وہ ہم سے کہتے ہیں: اوہو! فلاں کام پڑ گیا ہے، یہ مصروفیت آ گئی ہے، ان شاء اللہ میں آؤں گا اور پھر اگلے سال پہ ٹال دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ نہیں کرنا چاہتے اور ظاہر ہے ان پہ زبردستی تو نہیں کی جا سکتی۔ لیکن حدیث شریف میں آیا ہے: ھَلَکَ الْمُسَوِّفُوْنَ (تنبیہ الغافلین، ص: 144)
ترجمہ: ’’ابھی کر لیں گے" کہنے والے ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘
یہ ٹال رہے ہیں۔ اصل میں ان کی عمل کرنے کی نیت نہیں ہے۔ ان کی نیت ٹالنے کی ہے۔ جب مجلس ہو گی تو اس مجلس کو گرم کر دیں گے۔ کہیں گے واہ جی! کیا بات ہے، لیکن عمل نہیں کریں گے۔
جو لوگ طالب ہوتے ہیں (سبحان اللہ!) ان کا حال بھی ہم نے دیکھا ہے۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے کھنچ کے آتے ہیں۔ ایک دن مجھے روس سے ایک خاتون کا میسیج آیا، وہ بتا رہی تھی کہ وہ وہاں بیٹھی ہے اور تعلق قائم ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کی طلب ہی ہے۔ اس طریقہ سے پتا نہیں کہاں کہاں سے لوگ یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ طلب والے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بڑی قدر کرنی چاہئے۔ جب کہ مُسَوِّفُوْنَ بس بے چارے ساری عمر اسی میں لگے رہتے ہیں۔
متن:
موجودہ عمر کو موہوم کام (لذات و آسائشِ دنیاوی) میں صرف کرنا اور موہوم (بے فائدہ) کو موجود (زندگی) کے لئے حفاظت کرنا بہت بُرا ہے۔ چاہئے کہ نقدِ وقت (موجودہ وقت) کو اہم کاموں میں صرف کریں اور ادھار (غیر موجود وقت) کو دنیاوی کاموں اور بے فائدہ آرایشوں کے لئے مؤخر کر دیں۔
تشریح:
یعنی موجودہ وقت کو اچھے کاموں کے لئے استعمال کریں اور دوسری چیزوں کو بعد پہ ٹالیں۔ جو وقت آپ کے پاس ہے، اس کو اچھے کاموں کے لئے خرچ کر لیں اور یہ سوچیں کہ پتا نہیں موت کس وقت آ جائے لہٰذا میں یہ وقت اچھے کام کے لئے صرف کروں۔
متن:
(مسلسل ٹالتے رہیں) حق سبحانہ و تعالیٰ (اپنی طلب میں) تھوڑی سی بے آرامی بخشے تاکہ ماسوائے حق کے آرام سے نجات حا صل ہو۔ (محض) گفتگو سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ وہاں تو (یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں) قلبِ سلیم طلب کرتے ہیں لہٰذا اصل مقصد کا فکر کرنا چاہئے اور بے فائدہ کاموں سے پوری طرح منھ پھیر لینا چاہئے۔
تشریح:
حضرت نے گویا کہ یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے جو فرصت دی ہے اس کی قدر کرو کیونکہ وقت بہت بڑی دولت ہے۔ time is more than money۔ لوگ کہتے ہیں time is money، لیکن ہم کہتے ہیں:
Time is more than money, money can be stored but time can’t be stored, once you missed it then you can’t get it.
آپ گذرا ہوا وقت دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ جو وقت یوں ہی چلا گیا وہ ضائع ہو گیا۔ ایسی عجیب بات ہے کہ آنے والا لمحہ جو مستقبل ہے ابھی حال ہو گیا اور ابھی ماضی ہو گیا۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اب تو ایسے جلدی جلدی وقت گذرتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ میں اکثر دیکھتا ہوں کہ ابھی جمعہ گذرا ہوتا ہے، پھر جمعہ آ رہا ہوتا ہے۔ جیسے یہ بیان ابھی گذرے گا اور اگلا بیان آ جائے گا۔ اوقات کے اندر برکت نہیں رہی۔ جو وقت آپ کے پاس ہے، اس کی قدر کرو۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ﴾ (ابراہیم: 10)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
اگر کوئی وقت کی قدر کرے گا تو وقت کو بڑھا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں برکت ڈال دیں گے۔ تھوڑے وقت میں آپ کا بہت زیادہ کام ہو جائے گا۔ بعض لوگوں کے وقت میں بڑی برکت ہوتی ہے تھوڑے وقت میں بہت کام ہو جاتا ہے اور بعض لوگوں کے وقت میں برکت نہیں ہوتی بہت سارے وقت میں بھی کام نہیں ہوتا کام پھنسا رہتا ہے مسلسل مسائل ہوتے رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے کام پھنسا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان مطمئن نہیں ہوتا۔ جو وقت کی قدر کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے وقت میں برکت ڈال دیتے ہیں اور ما شاء اللہ اس سے پھر کام لیتے ہیں۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 136 میں ارشاد فرمایا کہ:
متن:
اس مرتبہ آپ کا لشکر میں جانا فقیر کو پسند نہیں آیا۔ دیکھئے اس میں کیا حکمت ہے۔ وَالاَمرُ عِندَاللّٰہٖ سُبحَانَہُ (اور سب کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں) خیال فرمائیں کہ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کمالِ مہربانی سے آپ کو روز مرہ کے گزارہ کے اسباب عطا فرمائے ہوئے ہیں اس کو غنیمت جان کر اصل کام کی فکر کرنی چاہئے نہ کہ اس کو مزید معیشت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ (اس طرح) کاموں کا تسلسل جاری ہو جاتا ہے (یعنی یہ سلسلہ طلب لا متناہی ہو جاتا ہے) اور درویشی میں طولِ امل (لمبی امید لگانا) کفر ہے۔ اور قرض سے فارغ ہونے کا معاملہ معلوم نہیں ہے (کہ کب ادائیگی ہو) کہ خواجہ صاحب سے کوئی صورت پیدا کر لیں اور اگر آپ کو کوئی شبہ ہے تو خواجہ صاحب کی طرف صاف صاف واضح طور پر لکھنا چاہئے، اگر وہ بھی جواب میں صاف طور پر لکھیں اور (جواب سے) پختہ وعدہ مفہوم ہو تو اس نیت سے چلے جائیں، لیکن تسویف (نیک کام میں ٹال مٹول) اور تاخیر کا کیا علاج۔ (آپ کو) جو کچھ کرنا ہے جلد کریں کیونکہ فرصت کے لمحات غنیمت ہیں۔
تشریح:
گویا کہ حضرت نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ زیادہ لمبی لمبی امیدیں رکھنا کہ میں یہ کروں گا، وہ کروں گا، یہ رویہ انسان کو خیر کے کاموں سے روک دیتا ہے۔ دین کا کام، خیر کا کام نہ چھوڑو باقی جو موقع کی مناسبت کے لحاظ سے آئے اسے کر لو۔ آپ کے منصوبے اتنے بڑے بڑے ہوں کہ پورے ہی نہ ہو سکیں تو ان کا کیا فائدہ۔ بعض لوگ کہتے ہیں، جب تک پوری عمارت تیار نہیں ہو گی تب تک مدرسہ شروع نہیں کر سکتے۔ وہ پوری عمر مدرسہ ہی بناتے رہتے ہیں کام نہیں ہوتا۔ بھئی آپ چٹائی کے اوپر بیٹھ کر کام شروع کر لیں، جیسا اور جتنا ہو گا، اللہ تعالی بڑھاتا جائے گا، کام بڑھتا جائے گا۔ اس کے لئے مؤخر نہ کیا کرو۔ جو وقت اللہ نے دیا ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جتنے بھی بڑے بڑے دینی منصوبے ہوئے ہیں وہ سارے کے سارے اسی کسمپرسی میں شروع ہوئے ہیں. پہلے کوئی بھی نہیں جانتا تھا لیکن بعد میں اللہ پاک اس کو اتنا بڑھا دیتے تھے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ لہٰذا بہت زیادہ لمبی لمبی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔
معیشت کے مسئلہ میں یہ مرض ہمیشہ کے لئے ہے۔ یہ متعدی مرض ہے اور ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ آپ کا ایک معقول معیشت کا نظام ہوتا ہے اور آپ دوسرے کو بھی شروع کرتے ہیں، پھر دوسرے کے ساتھ تیسرے کو شروع کرتے ہیں، پھر تیسرے کے ساتھ چوتھے کو شروع کرتے ہیں۔ مجھے بتاؤ کہاں رکو گے؟ کہیں پر تو رکنا ہے۔ اگر آپ کی حرص پوری ہی نہیں ہوتی تو پھر کیسے رکیں گے؟ نتیجتاً ہمیشہ پریشان ہوتے رہیں گے۔
بعض لوگ دو دو تین تین کام کر رہے ہوتے ہیں، دفتر میں بھی کام کر رہے ہوتے ہیں، پھر کوئی کاروبار بھی کر رہے ہوتے ہیں، پھر کسی اور کے ساتھ کوئی ڈیل بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک عجیب گورکھ دھندا ہوتا ہے۔ اس گورکھ دھندے میں وہ لوگ ہمیشہ پریشان اور مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بھئی درست طرزِ عمل یہ ہے کہ اپنے اخراجات محدود کر لو یہ آپ کے بس میں ہے آمدنی کو بڑھانا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اس میں اور بہت ساری پابندیاں ہیں۔ جب تھوڑے پہ گذارا کرنا آئے گا تو اس سے سکون و اطمینان بھی حاصل ہو گا۔
ہمارے ایک ساتھی کے واقعہ سے مجھے بہت عبرت حاصل ہوئی، وہ جب آرمی سے ریٹائر ہوئے، میں نے ان سے ویسے ہی پوچھا کہ حضرت ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا 6000 روپے پنشن ہے، گاؤں میں رہوں گا، گاؤں میں اتنے اخراجات نہیں ہوتے، لہٰذا مجھے کسی اور کام کی ضرورت نہیں ہے، میرا گاؤں میں اچھا گذارا ہو جائے گا۔ دیکھیں کتنی اچھی سوچ ہے۔ عام لوگوں کی یہ سوچ نہیں ہوتی۔ عموماً جب ریٹائرمنٹ ہوتی ہے تو آمدنی تقریباً نصف ہو جاتی ہے، اس لئے بہت سارے لوگ جن کی ریٹائرمنٹ ہونے والی ہوتی ہے وہ اتنے پریشان اور فکر مندی میں ہوتے ہیں کہ رو رو کے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں، دعائیں کراتے ہیں کہ پنشن مل جائے۔ ان میں بڑے بڑے جرنل کرنل ٹائپ لوگ بھی ہوتے ہیں، جنہیں ہم نے اس طرح پریشان دیکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اخراجات ان کی اضافی آمدن کے مطابق ہوتے ہیں اور وہ ان اخراجات کے عادی ہوتے ہیں سوچتے ہیں کہ اگر ہم ریٹائر ہو جائیں گے تو پھر وہ اضافی چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ وہ لوگ جو کسی وجہ سے دیتے رہتے ہیں، وہ تو ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی ختم ہو گئے اور مزید یہ کہ پنشن بھی تنخواہ سے تقریباً آدھی ہی ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد لوگ بھی منہ موڑ لیتے ہیں تو اندھیرا نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہمیں اپنے بزرگوں نے بتایا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے وقت جتنی آپ کی آمدنی ہو، اپنے اخراجات اس کے حساب سے رکھو۔ کیسا عجیب ترین اصول ہے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت جتنی آمدنی ہو اپنے اخراجات اسی کے حساب سے رکھو۔ اس طرح جب آپ ریٹائر ہوں گے تو آپ کو فرق نہیں پڑے گا، آپ کے گھر والے بھی اس کے عادی ہوں گے اور آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ورنہ پھر ایسا ہوتا ہے جیسا ہمارے ایک دوست کے ساتھ ہوا، بڑے اچھے آدمی تھے۔ اب وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ وہ جب ریٹائر ہوئے تو ان کے بچے بڑے ہو گئے تھے۔ جو ریٹائر ہوتے ہیں زیادہ تر ان کے بچے بڑے ہی ہوتے ہیں. ہمارے اس دوست کے بچوں میں بعض بر سر روزگار بھی تھے. بعض پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بچے کہتے ہیں کہ آپ ابھی کام کر سکتے ہیں، اس لئے کام کرتے رہیں، ورنہ اگر آپ گھر پہ بیٹھ جائیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی، اپنے بوڑھے باپ سے کام کرواتے ہو، اب تم کس لئے ہو؟ تم کام کرو، میں آرام کروں گا۔ میں نے جتنا کام کرنا تھا کر لیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا۔ چونکہ وہ نیک آدمی تھے تو دفتر کی مسجد کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا کہ میں بغیر تنخواہ کے مسجد میں خدمت کرنا چاہتا ہوں، میں تنخواہ نہیں لوں گا، مجھے مسجد کا خادم بنا دیا جائے۔ کتنی اچھی سوچ ہے اور بڑی اچھی مصروفیت ہے۔ کیونکہ بچے یہی کہتے ہیں کہ اگر آپ فارغ بیٹھ جائیں گے تو بیمار ہو جائیں گے، لہٰذا مسجد کی خدمت میں لگ کے فارغ نہیں رہے، مصروف ہو گئے۔ ہاں دینی مصروفیت ہے، جس میں پیسہ نہیں ہے، لیکن اس میں اجر ہے۔ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی اچھی موت عطا فرمائی۔
لوگ بس توسیع ہی مانگتے رہتے ہیں۔ خدا کے بندو! کہیں پہ رک جاؤ، کہیں پہ آخرت کے لئے بھی تیاری کرو۔ مسلسل دنیا کے لئے ہی لگے رہو گے، کب رکو گے!! واقعتاً بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم موت تک بس دنیا کمانے میں لگے رہیں گے۔ جن کے کچھ وسائل نہیں ہیں ان کی تو مجبوری ہے۔ اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جن کے مناسب وسائل ہیں ان کو ذرا رکنا بھی چاہئے۔ لیکن عموماً ایسے لوگ یہ بات نہیں سمجھتے، ہمارے ایک دوست بڑے پریشان تھے۔ وہ بھی ریٹائر ہیں۔ پریشان اس بات پر تھے کہ کہتے ہیں، میرے جتنے بچے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے ان کے لئے ایک ایک پلاٹ خرید لوں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کیا تیرے والد نے تیرے لئے پلاٹ چھوڑا تھا؟ جس طرح تجھے اللہ پاک نے رکھا ہے، اسی طرح ان کو بھی رکھ لیں گے۔ لیکن یہ ایک عجیب سوچ ہے۔ بھئی! ان بچوں کی آخرت کی فکر کرو۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت اپنے بچوں کے لئے بھی تو کچھ پس انداز کریں۔ حضرت کے بارہ بیٹے تھے۔ حضرت نے جواب دیا: ”یا تو یہ اللہ والے ہوں گے یا اللہ کے دشمن ہوں گے۔ اگر یہ اللہ والے ہیں تو اللہ ان کے لئے کافی ہے۔ اگر یہ اللہ کے دشمن ہیں تو میں ان کے لئے کیوں کماؤں۔“ بڑا ہی صاف جواب دے دیا۔ لکھنے والے نے لکھا کہ حالت یہ تھی کہ عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیه کے بارہ کے بارہ بیٹے اپنے وقت کے گورنر تھے اور ہشام بن عبدالملک نے اپنے بچوں کے لئے بہت خزانے چھوڑے ہوئے تھے، ان کے بچوں کو بازاروں میں بھیک مانگتے دیکھا گیا۔ واقعی اللہ تعالیٰ جن کو دینا چاہے، اس کے لئے پھر کیا مشکل ہے۔ جو لوگ اللہ پر سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، ان کی بات اور ہے۔
باقی یہ میں یہ نہیں کہتا کہ کام نہ کریں، بھئی کام ضرور کریں لیکن کام کے طور پر کریں۔ جو کام ہے اسی کے حساب سے کریں۔ آخر گورنمنٹ بھی آپ کو کسی وجہ سے ریٹائر کرتی ہے کہ اب آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ اب آپ آخرت کے لئے تیاری کر لو۔
اس سلسلۂ عالیہ میں بعض مبتدیوں کو جلدی تاثر نہ ہونے کا بھید:
اب نقشبندی سلسلہ کے بارے میں بات شروع ہو رہی ہے۔ اس سلسلۂ عالیہ، یعنی ”نقشبندی سلسلہ میں بعض مبتدیوں کو جلدی تاثر نہ ہونے کا بھید“ کے بارے میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 145 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے بعض طالب ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی سیر کی ابتداء عالم امر سے ہوتی ہے لیکن جلدی متاثر نہیں ہوتے اور لذت و حلاوت جو جذبہ کا مقدمہ ہے اپنے اندر جلدی پیدا نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم خلق کی نسبت عالم امر ضعیف واقع ہوا ہے اور یہی ضعف اثر پذیری میں رکاوٹ و سدراہ ہوتا ہے۔ اور یہ تاثیر کا دیر سے ہونا اس وقت تک متحقق ہے جب تک کہ ان میں عالم امر کوعالمِ خلق پر غلبہ اور قوت حاصل نہ ہو جائے اور معاملہ بر عکس نہ ہو جائے۔ اس ضعف کا علاج طریقہ عالیہ کے مناسب یہ ہے کہ کوئی صاحب تصرف پورے طور تصرف سے کام لے۔۔۔۔ اور وہ علاج جو دوسرے طریقوں کے مناسب ہے وہ پہلے تزکیہ نفس ہے پھر ریاضتیں اور سخت مجاہدے جو شریعت علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے مطابق ہوں کرائے جائیں، اور جاننا چاہئے کہ تاثیر کا دیر سے ہونا استعداد کے کم ہونے کی علامت نہیں ہے اکثر کامل استعداد والے حضرات بھی اس بلا میں مبتلا رہتے ہیں۔ والسلام
تشریح:
سبحان اللہ! کیا عجیب اور کتنی فیصلہ کن بات ہے۔ بہت واضح طور پر اس چیز کا اعتراف فرمایا ہے۔ پانچ لطائف عالمِ امر کے اور پانچ لطائف عالمِ خلق کے، ان کو لطائفِ عشرہ کہتے ہیں۔
عالمِ امر کے پانچ لطائف یہ ہیں: (1) قلب۔ (2) روح۔ (3) سر۔ (4) خفی۔ (5) اخفی۔
عالم خلق کے پانچ لطائف یہ ہیں: (1) نفس۔ (2) آگ۔ (3) ہوا۔ (4) پانی (5) مٹی۔
در اصل یہ طبیعتوں کا فرق ہوتا ہے۔
سبحان اللہ! دیکھیں اس میں ساری چیز آ گئی۔ لیکن یہ بات حضرت مجدد صاحب نے چونکہ اپنی اصطلاح میں کی ہے، لہٰذا صرف اس اصطلاح سے نکلنے کی دیر ہے، یہ ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ کسی میں عالمِ خلق کے پانچ لطائف زیادہ غالب ہوتے ہیں اور کسی میں عالمِ امر کے پانچ لطائف زیادہ غالب ہوتے ہیں۔ جن کے عالمِ امر کے پانچ لطائف غالب ہیں وہ عالمِ امر کی چیزوں کو فعال کرنے سے ہی فوراً فعال ہونا شروع ہو جائیں گے مثلاً ان کے لطائف چلنا شروع ہو جائیں گے، ان کا کام ہونا شروع ہو جائیں گے، ان کے وہی مراقبات آسانی سے ہو جائیں گے اور ان کے لئے سلوک طے کرنا آسان ہو جائے گا۔ ان میں اثر پذیری ہوتی ہے۔ اور جن کے عالمِ خلق کے لطائف غالب ہوتے ہیں، وہ چونکہ عالمِ امر کی چیزوں سے dominate نہیں ہیں، کیونکہ ان میں عالمِ خلق کے لطائف غالب ہیں، لہٰذا ان میں پہلے عالمِ خلق کی چیزوں کو دبانا ہے، نفس کو دبانا ہے، آگ، ہوا، پانی کے رذائل کو دبانا ہے۔ گویا عالمِ امر میں ابھارنے کا عمل ہے، یہاں دبانے کا عمل ہے۔ عالمِ خلق کی چیزوں میں دبانا ہوتا ہے اور عالمِ امر کی چیزوں میں ابھارنا ہوتا ہے۔ اگر یہ عالمِ امر والی چیزیں غالب نہیں ہیں تو پھر دبانے سے کام چلے گا۔ دبانے میں مجاہدہ اور ریاضت ہے۔ اور توجہات سے مراد یہ ہے کہ ایک طریقے سے ان کی طبیعت میں تاثر پیدا کیا جائے۔ یہ بات حضرت نے عرض کی ہے کہ ہم میں دوسرے طریقوں کی مناسبت ہے، فرمایا:
’’اس ضعف کا علاج (دو علاج بتائے) طریقہ عالیہ کے مناسب یہ ہے کہ کوئی صاحب تصرف پورے طور تصرف سے کام لے اور وہ علاج جو دوسرے طریقوں کے مناسب ہے (یعنی چشتیہ سہروردیہ قادریہ) وہ پہلے تزکیہ نفس ہے (یعنی وہ پہلے نفس کا تزکیہ کریں، یعنی عالم خلق والا) پھر ریاضتیں اور سخت مجاہدے جو شریعت علیٰ صاحبہا الصلوۃ و السلام کے مطابق ہوں کرائے جائیں اور جاننا چاہئے کہ تاثیر کا دیر سے ہونا استعداد کے کم ہونے کی علامت نہیں ہے‘‘۔
خدا کے بندو! استعداد کم نہیں ہے۔ ان میں تو پہلوانی کی استعداد ہے لیکن وہ اس استعداد کے ذریعے دنیا کی طرف جا رہے ہیں، ان کا رخ آخرت کی طرف موڑو۔ جب آپ رخ آخرت کی طرف موڑ دیں تو (سبحان اللہ) وہ سب سے آگے جائے گا۔ یعنی طاقت ور تو ہے لیکن اس کا رخ غلط طرف ہے۔ اس کا رخ صحیح طرف کرنا پڑے گا۔
یہاں مزاج اور مناسبت والی بات آ گئی۔ جن کی طبیعت میں چشتیت ہے ان کو زبردستی نقشبندی نہ بناؤ۔ جو نقشبندی ہیں ان کو زبردستی چشتی نہ بناؤ۔ کیسی خوبصورت نصیحت ہے۔ یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت بڑی اور بالکل صاف بات کی ہے کہ جس کی جس طریقہ کے ساتھ مناسبت ہے اس کو اسی طرف جانے دیا جائے۔ جیسے مجھے میرے شیخ (حضرت مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا: (حالانکہ میرے شیخ چشتی تھے) کہ آپ کو نقشبندی سلسلہ کے ساتھ مناسبت ہے۔ میں پہلے بھی یہ سمجھتا تھا، لیکن تب یقین ہو گیا۔ حضرت نے بڑی دعائیں دیں۔ میں حضرت کو باتیں بتاتا تھا، مجھے تو پتا نہیں چلتا تھا لیکن حضرت کو فوراً پتا چل جاتا تھا کہ یہ فلاں چیز ہے۔ حضرت یہ چیزیں نوٹ فرما رہے تھے۔ ان سب چیزوں سے حضرت کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی طبیعت میں عالمِ امر کو عالمِ خلق کے اوپر فوقیت حاصل ہے۔ لہٰذا ان کو اس لائن سے فائدہ ہو رہا ہے تو حضرت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ مجھے زبردستی چشتی نہیں بنایا۔ بلکہ (ما شاء اللہ) اس طریقہ سے کام کیا۔ وہ توجہات تھیں یا واللہ اعلم جو بھی تھا، مجھے ذکر رکوا دیا۔ بہت ہی کم ذکر کی اجازت دی اور ڈانٹ ڈپٹ سے ان تمام چیزوں کو آگے بڑھایا۔ بزرگوں کے ہاں یہی طریقہ ہوتا ہے۔ الحمد للہ! ہمیں اللہ تعالیٰ نے بڑے اچھے بزرگ عطا فرمائے۔ ان حضرات کو پتا تھا کہ کس سے کیا کام لینا چاہئے۔ پھر ایسا وقت آ گیا کہ حضرت نے خود فرمایا: اب جتنا ذکر کر سکتے ہو کرو اور جو ذکر کرنا چاہتے ہو وہ کرو، اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی چیز ہوتی ہے، بس اس کو وقت اور حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ مشائخ کا بنیادی کام یہی ایڈجسٹمنٹ ہی ہوتا ہے۔
میڈیکل کے شعبے میں ایڈجسٹمنٹ ہی تو ہے۔ طب کے میدان میں ایڈجسٹمنٹ ہی ہے۔ بعض کی طبیعت سرد خشک ہوتی ہے۔ آپ اس کو سرد خشک غذائیں دیں تو مزید بیمار ہو جائے گا۔ اس کے لئے گرم مرطوب چیز چاہئے۔ اگر آپ اس کو گرم مرطوب چیز کھلائیں گے تو اس سے اس کو فائدہ ْہو گا۔ بے شک آپ اس کو دوائی نہ دیں بس گرم مرطوب کھانے دیں تو اس کو فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ اس کو علاج بالغذا کہتے ہیں۔ جیسا کہ طب میں ہے اسی طرح روحانیت میں بھی ہے۔ جن کی عالمِ امر پر توجہ مرکوز ہوتی ہے ان کا علاج الگ ہے۔ ان کو اس طریقے سے آگے بڑھایا جاتا ہے اور جن کی توجہ عالمِ خلق پر ہوتی ہے، وہاں دبانے سے کام ہوتا ہے۔ دبانے سے مطلب یہ ہے کہ ان میں رذائل کو دبانے سے ابتدا کی جاتی ہے۔ یہ مکتوب نمبر 145 بہت قیمتی مکتوب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ان بزرگوں کی محبت تھوڑی بھی بہت ہے اور بزرگوں کے لباس سے استفادے کی ترغیب:
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا فیض اور اثر مخفی ہوتا ہے۔ وہ صرف ان کو پتا چلتا ہے جن پر وہ چیز مخفی نہیں ہوتی۔ باقی لوگ انہیں جاننے کے لئے انہی حضرات کے محتاج ہوتے ہیں جن پہ وہ چیزیں مخفی نہیں ہیں۔ وہ اس کے بارے میں کچھ بتائیں تاکہ باقی لوگ بھی ان مفید چیزوں سے استفادہ کریں۔ جیسے کہ پودوں کے اندر علاج کی چیزیں مخفی ہوتی ہیں، مختلف بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں سے مخفی ہوتی ہیں لیکن جاننے والوں پہ مخفی نہیں ہوتیں۔ جو لوگ نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھتے ہیں اور ان کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک آدمی بندروں سے بہت تنگ ہوا۔ کسی پہاڑی علاقے میں رہتا ہو گا۔ بندر آ کر ساری چیزیں چٹ کر جاتے تھے کوئی چیز محفوظ نہیں ہوتی تھی۔ اس نے یوں کیا کہ ایک بہت تیز زہر لے آیا اور کھانے میں ملا کر بندروں کے سامنے ڈال دیا کہ وہ کھا لیں گے تو مر جائیں گے۔ اپنے وقت پہ بندر آئے، جیسے ہی انھوں نے ان چیزوں کو سونگھا تو بغیر کھائے واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بندر واپس آئے اور ان کے ساتھ ایک بہت موٹا بندر بھی تھا۔ ہر بندر کے پاس ایک ٹہنی سی تھی، جس کے کچھ پتے تھے۔ بندر وہ زہر آلود چیز بھی کھاتے تھے اور ساتھ اس ٹہنی سے بھی کھاتے تھے۔ سارا چٹ کر گئے، انہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ کیونکہ وہی ٹہنی اس زہر کا علاج اور تریاق تھا۔
مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ”دنیا میرے آگے“ میں یہ واقعہ بتایا ہے کہ ایک دفعہ عرب ممالک میں سفر کے دوران راستہ میں ایک جگہ ٹائر تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ہم تھوڑی دیر کے لئے گاڑی سے باہر نکل آئے۔ وہاں ایک بہت خوشبو دار پودا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں اس کی طرف بڑھنے لگا تو وہاں کے مقامی آدمی فوراً میری طرف جھپٹے کہ مولانا اس کو ہاتھ نہ لگائیں۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ اس نے کہا، یہ ایسا پودا ہے کہ اس کو آپ ہاتھ لگائیں گے تو اس کے اندر جو کانٹے ہیں وہ آپ کو چبھ جائیں گے اور ان میں بالکل ایسا زہر ہوتا ہے جیسا بچھو میں ہوتا ہے، آپ کو شدید درد ہو گا۔ کہتے ہیں میں پیچھے ہو گیا۔ اس نے کہا: لیکن اس کا علاج بھی ہے، اور وہ اس کی جڑوں کے اندر ہے۔ اس نے جڑ کھودی اور اسے نچوڑا تو جڑ سے کچھ پانی سا نکلا اور کہا کہ اگر کسی کو یہ چبھ جائے تو فوراً رس نکال کر تھوڑا سا زبان پر رکھ لے، بس اس کا اثر ختم ہو جائے گا۔ اللہ پاک نے اس کا علاج بھی ساتھ ہی رکھا ہوا ہے لیکن یہ جن کو پتا ہو گا انہی کو پتا ہو گا، اور جن کو پتا نہیں ہو گا، وہ ان سے معلوم کرے گا جن کو پتا ہو گا۔ ﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ﴾ (النحل: 43)
ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو‘‘۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 142 میں ”ان بزرگوں کی محبت تھوڑی بھی بہت ہے اور بزرگوں کے لباس سے استفادے کی ترغیب“ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
فقراء کی محبت اور اس گروہ کی طرف توجہ رکھنا حق جل سلطانہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے۔ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ سے اس پر استقامت کی درخواست اور امید ہے۔ وہ نیاز جو آپ نے درویشوں کے لئے بھیجی تھی وہ بھی موصول ہو گئی اور سلامتی کی فاتحہ پڑھی گئی۔ اور جو طریقہ آپ نے اخذ کیا تھا اور اس سے جو نسبت (کیفیت) حاصل ہوئی تھی اس کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ خدا نہ کرے کہ اس میں کچھ سستی واقع ہوئی ہو۔
بیت: یک چشم زدن خیال او پیشِ نظر
بہتر زوصال خوبرو یاں ہمہ عمر
(ایک لمحہ خیالِ حق ہے اگر دائمی وصلِ غیر سے بہتر)
اگر ان بزرگواروں کی نسبت سے تھوڑی سی نسبت بھی حاصل ہو جائے تو اس کو تھوڑا نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ دوسروں کی انتہا ان کی ابتداء میں درج ہے۔ مصرع
قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا (چمن کو دیکھ کے اس کی بہارکو سمجھو)
لیکن اس میں سُستی و کمی کا غم نہیں کرنا چاہئے جبکہ محبت کا رشتہ اس نسبت والوں کے ساتھ قوی اور مضبوط ہے وہ فرجی (قبا) جو کئی مرتبہ پہنی گئی تھی ارسال کی گئی ہے کبھی کبھی اس کو پہن لیا کریں۔ اور ادب سے محفوظ رکھیں کہ اس سے بہت فوائد کی توقع ہے۔
جب بھی اس قبا کو پہنیں باوضو پہنیں اور سبق کی تکرار کریں، امید ہے کہ پوری طرح طمانیتِ قلب حاصل ہو جائے گی۔ اور جب بھی لکھنا چاہیں تو پہلے اپنے باطنی احوال لکھیں اس لئے کہ ظاہری احوال باطنی احوال کے بغیر اعتماد نہیں رکھتے۔
تشریح:
اب ذرا اس پہ غور فرمائیں۔ حضرت (مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) نے ان (مکتوب الیہ) کو کوئی قبا عطا فرمائی ہو گی اس کے بارے میں فرمایا کہ اس کو کبھی کبھی پہن لیا کرو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
ایسی چیزوں سے کیسے فائدہ ہوتا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں۔
قرآن پاک میں ہے کہ جس وقت طالوت کو بادشاہ بنا دیا گیا تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ ان کی ہم پر کیا فضیلت ہے؟ نہ ان کے پاس مال ہے نہ کوئی اور فضیلت والی چیز، تو ہم اپنے اوپر ان کی فضیلت کیوں مانیں؟ اللہ پاک نے اپنے نبی کے ذریعہ سے ان تک بات پہنچائی کہ ان کو میں نے دو چیزیں دی ہیں، ایک علم اور دوسری جسمانی قوت اور فرمایا کہ ان کے پاس ایک تابوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠﴾ (البقرہ: 248)
ترجمہ: ’’اور ان سے ان کے نبی نے یہ بھی کہا کہ: طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (واپس) آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے‘‘۔
اس لئے علماء کرام فرماتے ہیں، بزرگوں کے تبرکات میں سکینہ ہوتا ہے۔ اس سے سکینہ کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔
سکینہ کیا ہے؟ اس کی تعریف صحیح معنوں میں تو نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے ذریعہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا ایسا تعلق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مخلوق سے نہیں ڈرتا۔ مخلوق کی قوتوں اور تمام چیزوں سے ایک قسم کی غفلت سی رہتی ہے، وہ اس پہ اثر نہیں کرتیں۔ جیسے اگر کوئی کسی کو مارنا چاہتا ہے تو وہ ڈر جاتا ہے، مگر جس کو سکینہ حاصل ہو گا، وہ ڈرے گا نہیں، اس سے بچے گا ضرور، لیکن ڈرے گا نہیں۔ سکینہ کوئی اس قسم کی چیز ہوتی ہے۔ یہی سکینہ احد کے وقت بھی اتارا گیا تھا۔ احد کی لڑائی میں میں مسلمان وقتی طور پر ظاہری شکست سے غم زدہ تھے، اللہ نے ان کے اوپر اونگھ طاری کی تھی۔ اس کا ذکر بھی قرآن پاک میں ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے یہ جو اونگھ آئی، اس میں اتنا اطمینان حاصل ہو گیا کہ وہ سارا رنج و غم ختم ہو گیا۔
اب چونکہ بزرگوں کا قلب اللہ کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کا اثر ان کے لباس اور ان کی تمام چیزوں میں آ جاتا ہے۔ پھر جو لوگ ان کو استعمال کرتے ہیں ان کو بھی وہ سکینہ کی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہاں پر بھی یہ فرمایا ہے کہ اس میں بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ جب بھی اس قبا کو پہنیں، با وضو پہنیں، قدر کریں اور سبق کی تکرار کریں، امید ہے کہ پوری طرح طمانیتِ قلب حاصل ہو جائے گی۔
طمانیتِ قلب کا اس میں بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالی ہم کو حضرت کے فیوض برکات وافر نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ