اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات علوم و معارف کے خزانے ہیں۔ حضرت کی بات کے اندر جو وزن اور نور ہے وہ ہماری بات میں نہیں ہے۔ ہمیں حضرت کی باتوں سے نہ صرف فیض بلکہ سند بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے حوالہ و تائید سے ہم اپنی باتوں کو مستند بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ ہم صحیح بات بھی کر رہے ہوں، لیکن جب ہم اپنے حوالے سے وہ بات کرتے ہیں تو اس پہ ہزار طرح کے اشکالات ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہماری بات اتنی مستند نہیں ہے۔ لیکن جب حضرت بات کرتے ہیں تو وہ بات کم از کم ہند و پاک کے صوفیا کے اوپر حجت ہوتی ہے۔
آج کے درس کا آغاز ایک بہت اہم بات سے ہو رہا ہے، جو سمجھ آجائے تو اس کے بے شمار فوائد ہیں۔
ہر عمل جو شریعت کے مطابق کیا جائے وہ داخلِ ذکر ہے:
حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں: ہر عمل جو شریعت کے مطابق کیا جائے وہ داخلِ ذکر ہے۔ ایک شخص زبان سے اللہ اللہ کا ذکر نہیں کرتا، لیکن اس کا ہر کام سنت کے مطابق ہے۔ اگر آپ جاننے کی جستجو کریں تو اس کا ہر کام سنت کے مطابق ہونے کا سبب یہی معلوم ہوگا کہ اسے ہر وقت اللہ یاد ہے اور اس کو یہ بھی پتا ہے کہ اللہ پاک آپ ﷺ کے طریقے کی پیروی سے خوش ہوتے ہیں۔ یہ آدمی جو ہر وقت آپ ﷺ کے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے اور یہی اصل چیز ہے۔ اور جو ہم زبان سے ”اَللہ اَللہ، سُبْحَانَ اللہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے ہیں، یہ سب ذکر کی ابتدائی صورتیں ہیں۔ ابتدا میں یہی کرنا ہوتا ہے، جب یہ دل میں اتر جائے اور فکر اس کے مطابق ہو جائے، تو اس کے بعد بے شک زبان اس کے مطابق نہ ہلے، یہ عمل میں بدل جاتا ہے۔
میں چند دن پہلے اس پر بات کر رہا تھا کہ بعض الفاظ ہمارے ہاں ایسے معمول بہا ہیں کہ تقریباً بچے بچے کی زبان پر ہیں، لیکن ان کی حقیقت بعض دفعہ خواص تک کو بھی حاصل نہیں ہوتی۔ مثلاً ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو سُبْحَانَ اللہِ کہہ دیتے ہیں، لیکن ان الفاظ کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ ان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصور سے برتر و بالا ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور وہ تمام چیزوں کے اثر سے پاک ہے۔ کتنے ہی لوگ سُبْحَانَ اللہِ کہتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔
ہم اَللہُ اَکْبَر کہتے ہیں۔ اس کے معنی کا عربی دانوں کو پتا ہے، علماء کو بھی پتا ہے، عام لوگوں کو بھی پتا ہے، لیکن کیا اس کا ہمارے اوپر وہ اثر ہے، جو ہونا چاہئے؟ مثلاً ہم دفتر میں ہیں تو افسر کا اثر ہم پر زیادہ ہے یا اللہ کا اثر زیادہ ہے؟ ’’اَکْبَر‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ”اس سے بڑا“۔ ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کا مطلب ہے ”سب سے بڑا“۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بڑائی ہمارے دل میں یوں چھا جائے کہ ہم لوگ اللہ کے سامنے کسی کی بات کو خاطر میں نہ لائیں۔ الله جل شانهٗ کی بات کے مقابلہ میں کسی کی بات کو کوئی حیثیت نہ دیں۔ کیا یہ حقیقت ہمیں حاصل ہے؟
اسی طرح اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ، یہ سارے کلمات اور ان کے معانی ہمیں ازبر ہیں، مگر ہم ان کی حقیقت سے بے خبر ہیں، لیکن جو شخص شریعت پر عمل کر رہا ہے، اس کے مطابق زندگی گزار رہا ہے، ہر چیز شریعت کے مطابق کر رہا ہے، وہ ان کی حقیقت سے واقف ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) دفتر دوم مکتوب نمبر 30 میں اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اے فرزند! فرصت، صحت اور فراغت کو غنیمت جاننا چاہئے اور ہمیشہ اپنے اوقات کو ذکر الہٰی جل شانہ میں مصروف رکھنا چاہئے۔ ہر وہ عمل جو روشن شریعت کے مطابق کیا جائے ذکر میں داخل ہے اگرچہ وہ خرید و فروخت ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا تمام حرکات و سکنات میں احکام شرعیہ کی رعایت کرنی چاہئے تاکہ سب کام ذکر (کے حکم میں) ہو جائیں۔ کیونکہ ذکر سے مراد غفلت کا دور ہونا ہے اور جب تمام افعال میں اوامر و نواہی کو مدنظر رکھا جائے تو ان اوامر و نواہی کا حکم دینے والے (حق تعالیٰ) کی (یاد کی) غفلت سے نجات حاصل ہو جاتی ہے اور اس تعالیٰ کے ذکر پر دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ دوام ذکر حضرات خواجگان نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسراہم کی "یادداشت" سے ایک الگ چیز ہے کیونکہ وہ یادداشت صرف باطن تک منحصر ہے اور اس دوام ذکر کا اثر ظاہر میں بھی جاری ہے اگرچہ دشوار ہے۔ وَفَّقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَاِیَّاکُمْ بِمُتَابَعَۃِ صَاحِبِ الشَّرِیْعَۃِ عَلَیْہِ وَعَلیٰ اٰلِہٖ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ وَ التَّحِیَّۃُ۔
تشریح:
یہاں پر مجھے حضرت شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی ایک بات یاد آگئی۔ ”الطاف القدس“ میں لطیفۂ جوارح کا کافی تفصیلی ذکر آیا تھا۔ ”لطیفۂ جوارح“ یعنی انسان کا ہر ہر عضو شریعت کے مطابق استعمال ہونے لگے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر یہ چیز بدرجۂ اتم موجود تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ دل میں بھی اللہ کی طرف متوجہ رہتے تھے اور ان کا ظاہر بھی اللہ تعالیٰ کا تابع ہوتا تھا، ظاہر و باطن دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہا کرتے تھے۔
ظاہر کو شریعت کے مطابق بنانا اس طرح کہ شریعت کی اتباع تمام اعمال کے اندر سرایت کر جائے، یہی حقیقی ذکر ہے اور یہ بہ نسبت باطن کو شریعت کے مطابق بنانے کے زیادہ مشکل ہے۔ اگر نظر غلط استعمال ہو رہی ہے، کان غلط استعمال ہو رہا ہے، دماغ غلط استعمال ہو رہا ہے، ہاتھ پاؤں غلط استعمال ہو رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اللہ یاد نہیں، اسے حقیقی ذکر کی کیفیت حاصل نہیں۔ ہاں جب یہ ساری چیزیں شریعت کے مطابق استعمال ہونے لگیں، تب یہ سمجھا جائے گا کہ انسان غفلت سے نکل آیا ہے، اور غفلت سے نکلنا ہی ذکر اللہ ہے۔
یہ ہمارے لئے حضرت کی بہت جامع نصیحت ہے کہ صرف زبانی طور پر لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، کہنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ حقیقی ذکر، اللہ کی یاد کو اپنے ہر عمل میں بسا لینا بھی ضروری ہے۔ ہاں ابتدا زبانی ذکر سے ہی ہوتی ہے۔ پہلی سیڑھی زبانی ذکر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پہلی سیڑھی پہ قدم رکھے بغیر آخری سیڑھی تک پہنچ جائیں۔ ابتداءً پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنا پڑے گا، پھر دوسری، پھر تیسری، پھر چوتھی اور اخیر میں آپ سب سے اوپر والی سیڑھی پہ پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح ذکر حقیقی کی منزل تک پہنچنے کے لئے پہلی سیڑھی زبانی ذکر ہے۔ ابتداءً اسے ہی اختیار کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک کزن کے بیٹے کا واقعہ ہے کہ وہ بچپن میں اپنی والدہ سے کہتا تھا کہ امی میں سکول نہیں جاؤں گا میں بس کالج جاؤں گا، تو اس کی والدہ ہنس پڑتی کہ بچہ ہے، تبھی اس طرح کہہ رہا ہے۔ ظاہر ہے سکول پڑھے بغیر انسان کالج میں نہیں جا سکتا۔ لیکن بچہ بچہ ہوتا ہے، بچے کی سمجھ اتنی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی کہتا ہے کہ میں باطن کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ ظاہر کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتا، اس کی مثال اسی بچہ کی طرح ہے جو سکول جائے بغیر کالج جانا چاہتا ہے۔ صحیح ترتیب یہ ہے کہ ذکر اللہ کی ابتدا زبان سے ہوگی، پھر دل میں جائے گا، پھر پورے جسم میں جائے گا، پھر استحضار میں تبدیل ہوگا اور اس کے بعد اس سے اعمال وجود میں آئیں گے۔ یہی ترتیب ہے، اس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔
صحبتِ شیخ کی ترغیب:
نقشبندی سلسلہ میں اس پر بہت زیادہ زور ہے۔ حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقے میں نسبتِ انعکاسی سے ابتدا ہوتی ہے اور نسبت انعکاسی صحبتِ شیخ پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ دفتر اوّل، مکتوب 119 میں صبحتِ شیخ کی ترغیب کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
یہ راستہ دیوانگی چاہتا ہے (جیسا کہ) حدیث شریف میں وارد ہے: لَنْ یُّؤْمِنَ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُقَالَ اَنَّہُ مَجْنُوْنٌ (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگ اس کو مجنون (دیوانہ) نہ کہنے لگیں)۔
تشریح:
یعنی لوگ ان پر انگلی اٹھائیں گے کہ یہ کیا کر رہا ہے لیکن یہ لوگوں کی پَروا نہیں کرے گا۔
متن:
اور جب دیوانہ پن آگیا تو بیوی بچوں کی تدبیر سے فارغ ہوگیا اور کذا و کذا (یعنی ایسا ہوگا ویسا ہوگا) کے اندیشہ سے جمعیت میسر ہوگئی (یعنی دل کو اطمینان حاصل ہوگیا)۔ یہ دیوانگی آپ کی طبیعت میں موجود ہے لیکن بیکار عوارض کے باعث آپ نے اس کو خس و خاشاک میں چھپا دیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ یہ ظاہری دُوری کی وجہ سے آپ میں بہت کچھ بے مناسبتی مفہوم ہوتی ہے، اس کا جلد تدارک فرمائیں اور اپنی کم ہمتی کو عین ہمت (استطاعت) جان کر اس جسدی (ظاہری) دوری کو رفع کریں۔ اس گروہ (صوفیاء) کی جمعیت (دلی اطمینان) مخلوق کے دلی اطمینان سے بہت بلند ہے، مخلوق کی دل جمعی کے اسباب ان (صوفیاء) کے تفرقے اور اختلافات کا باعث ہیں۔ مخلوق کے اختلافات کے اسباب (فقر و نامرادی وغیرہ) میں ہاتھ ڈالنا چاہئے (یعنی ان میں غور کرنا چاہئے تاکہ دل کا اطمینان حاصل ہو، اور اگر بالفرض اس گروہ کو مخلوق کی جمعیت کے اسباب عنایت ہو جائیں تو اس جمعیت سے بھی ڈرنا چاہئے اور حق سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں التجا کرنی چاہئے تاکہ یہ جمعیت بلائے جان نہ بن جائے۔ اور فلاں فلاں (صاحب تکمیل) حضرات کے حال پر قیاس نہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ تمام مراتب فرق مراتب کے اعتبار سے تکمیل ہونے سے پہلے سب نقص کے مراتب ہیں۔
تشریح:
یعنی اس میں انسان کو تن، من، دھن سے متوجہ ہونا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ میں ابتدا جذب سے ہوتی ہے اور جذب میں انسان کو الله جل شانهٗ کی طرف اتنی توجہ حاصل ہونی چاہئے کہ اللہ کے علاوہ باقی تمام چیزوں سے غفلت ہو جائے۔
اب میں اس اجمال کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔ غور سے سنیں:
ہم میں سے ہر شخص دو چیزوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے: (1) نفس امارہ کے ساتھ۔ (2) اپنے شیطان کے ساتھ۔ کوئی انسان اس حالت سے خالی نہیں ہے۔ حتٰی کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی شیطان تھا؟“ فرمایا: ”ہاں، مگر میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے۔“ معلوم ہوا کہ شیطان اور نفس دونوں ساتھ ہوتے ہیں۔ نفس ابتدا میں نفسِ اَمّارہ ہوتا ہے، خدا سے باغی ہوتا ہے، اپنی مرضی کرتا ہے اور پابندی بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔
ایک آدمی ادھر بیٹھا ہوگا، اس کو کوئی پروا نہیں ہوگی، لیکن اگر اسے کہہ دیں کہ تو نے یہاں سے اٹھنا نہیں ہے تو اس کی طبیعت بوجھل ہو جائے گی اور وہاں بیٹھنا اس کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ حالانکہ اگر آپ نے اس کو یہ نہ کہا ہوتا کہ ادھر سے اٹھنا نہیں ہے تو اس کو کوئی پروا نہ تھی، وہ گھنٹوں وہیں بیٹھا رہتا۔ انسان کی طبیعت پابندی سے گھبراتی ہے، یہ انسان کا خاصہ ہے، اور شریعت سراسر پابندی ہے۔ اس وجہ سے نفس کے لئے شریعت پر آنا بڑا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے حدیث شریف میں آتا ہے: ’’الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 7606) ترجمہ: ”دنیا کافر کے لئے جنت ہے اور مومن کے لئے قید خانہ ہے“۔ قید خانہ اسی معنیٰ میں کہا گیا کہ مومن ہر وقت پابند ہے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا اسے یہ پابندی برداشت کرنی پڑے گی۔ اِس ہر وقت کی پابندی پہ نفس چیخ اٹھتا ہے، بغاوت کرتا ہے، نہیں مانتا۔ نفس کی کسی بھی چیز پر پابندی لگا دی جائے تو یہ اسے بغاوت پہ اکسانا شروع کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم گھنٹوں نیچے دیکھتے رہیں تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر پابندی لگا دی جائے کہ اوپر نہیں دیکھنا، بس پریشانی شروع ہو جائے گی۔ شریعت میں آنکھ، کان، زبان، دماغ، ہاتھ پاؤں، غرض تمام چیزوں پہ کوئی نہ کوئی پابندی ہے۔ نفس اس پابندی کے خلاف ہر وقت بغاوت کرتا ہے، نہیں مانتا۔ اس ہر وقت کی بغاوت کو آپ کیسے دبائیں گے؟ کیونکہ مطلوب تو یہی ہے کہ آپ ہر وقت اس کو کنٹرول اور قابو میں رکھیں۔ حدیث میں لفظ ”قابو“ آیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو قابو کیا، وہ عقل مند ہے۔ یہ قابو کیسے ہوگا؟ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اس کو قابو کرنے کے لئے طریقہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کے لحاظ سے دیوانگی کی ضرورت ہوگی۔ یہ نفس دیوانگی سے کم کسی بات پہ قابو نہیں ہو سکتا۔ گویا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی توجہ حاصل ہو جائے جو باقی ساری توجہات کو کاٹ سکے۔ انسان میں نفس کے مقابلے کی قوت پیدا ہونی چاہئے۔ اولاً چاہے وقتی طور پر آجائے، بعد میں مستقل طور پر بھی آجاتی ہے۔ وقتی طور پر اس قوت کا آنا، یہ جذب ہے۔
اسی بات کو حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یوں فرمایا کہ ”یہ راستہ دیوانگی چاہتا ہے“۔ وہ دیوانگی اس معنیٰ میں ہے کہ ابتدا میں جذب کی ضرورت ہے، جب یہ جذب شروع ہو جائے تو اس جذب سے کام لینا چاہئے۔ اپنی تمام چیزوں کو درست کر لینا چاہئے، آنکھ کا دیکھنا ٹھیک کر لو، کان کا سننا درست کر لو، زبان کا بولنا صحیح کر لو۔ ہاتھ پاؤں کا استعمال بہتر کر لو، نفس کو صبر کرنا سکھا دو، قناعت کرنا سکھا دو، ریاضت کرنا سکھا دو، تقویٰ پہ لے آؤ۔ الغرض اس جذب کے ذریعے سب اعضاء و جوارح کو ظاہری و باطنی طور پر شریعت کے مطابق ڈھال لو، ایسا کر لو گے تو سلوک طے ہو جائے گا۔
سلوک میں باقاعدہ ایک ترتیب ہوتی ہے۔ جذب میں ترتیب نہیں ہوتی۔ سلوک درجہ بدرجہ ہوتا ہے اور جذب مجموعی طور پر (as a whole) ہے۔ جذب محبت کی طرح ہے، محبت میں بھی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جذب میں calculation نہیں ہے، جب calculation آئی تو جذب نہ رہا۔
میں آپ کو ایک دیوانگی سے معمور غزل سناتا ہوں۔ بعض چیزیں سمجھانے کے لئے نثر میں بڑی تقریریں کرنی پڑتی ہیں، مگر وہی چیزیں اشعار میں ذرا جلدی سمجھ آجاتی ہیں۔
درِ دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا
تشریح:
(دنیا کی چیزیں محدود ہیں، محدود چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں، لیکن انسان کی حرص مزید چاہتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد (مجھے اور زیادہ چاہئے) اور اللہ تعالیٰ کی ذات لامحدود ہے، اللہ پاک کی صفات لامحدود ہیں، لہٰذا اللہ پاک کے ساتھ محبت بھی لامحدود ہوگی۔ اس لئے اس کے درِ دولت پہ آنے والوں کی تشنہ لبی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔
عُمُق کیا جانے بحرِ عشق کہ سادہ ہیں ہم کتنے
نتیجہ اِس کی پیمائش کا بھی سوئے ادب نکلا
یہاں چپ باش، کچھ پوچھو نہیں یہ بحرِ حیرت ہے
یہاں پر سر جھکانا ہی تو ملنے کا سبب نکلا
تشریح:
(اس راہ میں پوچھنا نہیں، بس ماننا ہی ماننا ہے، خاموشی ہی خاموشی ہے، سر جھکانا ہی سر جھکانا ہے۔ اگر آپ نے کہہ دیا کہ ایسا کیوں ہے تو بات ختم ہوگئی۔ اس میں مکمل طور سر تسلیمِ خم کرنا ہے اور یہ جذب سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
ذرا چشمِ تصور سے جمال اس کا تو دیکھو نا
کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دم نکلا تو اب نکلا
میرے تارِ نفَس کو نَفْس کے تاروں نے الجھایا
تشریح:
یہ وہی بات ہے جو ابھی میں تھوڑی دیر پہلے عرض کر رہا تھا کہ ہمارے نفس کی لاتعداد خواہشات ہیں، اس نے ہماری روح کو باندھ لیا ہے، اصل کام کے لئے نہیں چھوڑ رہا۔ ہم اس سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن نکل نہیں پا رہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بڑی عمدہ مثال دی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ جیسے ایک بچے کو آپ چلنا سکھاتے ہیں۔ (ہم پشتو میں اس کو کہتے ہیں ”پاپلی پاپلی“ یعنی آجاؤ آجاؤ۔) اس بچے کو چلنے کے لئے کہتے ہیں تو وہ محنت کرتا ہے، چلنے کی کوشش کرتا ہے، دو قدم چل کے گر جاتا ہے۔ آپ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں: اٹھو اٹھو شاباش! وہ اٹھتا ہے، چلنے کی کوشش کرتا ہے، دو قدم چل کے پھر گر پڑتا ہے۔ آپ پھر کہتے ہیں: اٹھو اٹھو شاباش شاباش۔ وہ پھر چل پڑتا ہے اور پھر گر جاتا ہے اور رونا شروع کر دیتا ہے کہ میرے بس میں نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر آپ کے دل میں محبت امڈ آتی ہے اور آپ اس کو پیار سے اٹھا لیتے ہیں۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں اٹھو اٹھو شاباش۔ تو ہم لوگ کوشش کرتے ہیں گر جاتے ہیں اٹھ جاتے ہیں۔ پھر کوشش کرتے ہیں، پھر گر جاتے ہیں۔ اس طرح بار بار گرتے ہوئے جب ہم بالکل ٹوٹ جاتے ہیں تو اللہ کے سامنے رونا شروع کر دیتے ہیں کہ یا اللہ! مجھ سے نفس کا مقابلہ نہیں ہو رہا۔ اس وقت اللہ پاک جتنا چاہے اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اِس کو جذبِ وہبی کہتے ہیں اور یہ جذبِ وہبی تا عمر، تا دمِ آخر چلتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سلوک کبھی بھی خود مکمل طے نہیں کیا جاسکتا، سلوک اللہ کی طرف سے طے کروایا جاتا ہے، لیکن انسان کی طرف سے ’’وَالَّذِيْنَ جٰهَدُوْا فِيْنَا‘‘ (العنکبوت: 69) کے بموجب کوشش مطلوب ہے۔ کوشش کے بعد اللہ پاک راستہ دیتے ہیں اور اپنی طرف کھیچنتے ہیں اور اس میں پھر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جذب وہبی کے ذریعہ سے سلوک مکمل ہوتا ہے، لیکن پہلے ذرا اللہ پاک دیکھتے ہیں کہ کتنی کوشش کرتا ہے۔ مشکل میں ہمت ہارتا ہے یا میری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مشکل میں انسان کا ہمت ہارنا علیحدہ بات ہے۔ مشکل میں دل برداشتہ ہو جائے اور اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے، یہ اور بات ہے۔ دل برداشتہ ہونا نفس کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف متوجہ ہونا اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے میں اللہ پاک انسان کو محبت سے کھینچتا ہے، انسان اللہ کی ماننے لگتا ہے۔ اور دل برداشتہ ہونے میں انسان نفس کی مانتا ہے۔
سلوک میں نفس ہی کے خلاف لڑنا ہے۔ کورس میں کوئی کمی نہ ہو۔ اللہ کو ہماری مشکلات بھی معلوم ہیں۔ کورس یہی ہوگا لیکن کچھ نمبر آپ خود لیں گے، کچھ اضافی نمبر ملیں گے، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ کوشش میں کمی نہ کریں اور اپنے آپ کو مستحق بھی نہ سمجھیں۔ یہ ہمارا طریقہ ہے۔
یہ جو ابھی میں نے بتایا یہ چشتیہ سلوک ہے اور پہلے جو بتایا تھا وہ نقشبندی سلوک تھا۔ الحمد للہ ان دونوں کو ہمارے سلسلہ میں یکجا کیا گیا ہے۔ نقشبندی سے ابتدا ہے، چشتی پہ انتہا ہے۔ اللہ پاک نے ایسے ہی انتظام کیا ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو پہلے نقشبندی سلوک طے کرایا پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیه کا ہاتھ میاں جی نور محمد جھنجھانوی چشتی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ہاتھ میں دلوایا۔ یہ سب منجانب اللہ تھا۔ اب ہم اسی طریقہ سے چل رہے ہیں اور یہ طریقہ ما شاء اللہ انتہائی متوازن طریقہ ہے۔
نقشبندی حضرات نے سلوک کو بالکل بھلا دیا تھا۔ سلوک کی بات تک نہیں کرتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ بات شروع ہوئی ہے ورنہ پہلے تو اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے کہ سلوک بھی کوئی چیز ہے۔ حتٰی کہ یہاں تک کہا گیا، اور اب بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک طریقہ جذب کا ہے اور ایک طریقہ سلوک کا ہے (یعنی دونوں کو الگ الگ مستقل طریقے سمجھتے ہیں) خدا کے بندو! یہ کیا بات ہوئی! سلوک اصل ہے، جذب اس کے لئے ذریعہ ہے۔ سلوک تو آپ نے ہر صورت طے کرنا ہے۔ آپ سے سلوک کا مطالبہ ہے۔ اسی کے لئے آپ ساری محنتیں کرتے ہیں۔
اس کو یوں سمجھیں جیسے آپ نے کسی لوہے کی چیز کو کسی خاص شکل میں ڈھالنا ہے۔ اس کے لئے آپ کو پہلے لوہا گرم کرنا ہوگا۔ اصل مطلوب لوہے کو اس خاص شکل میں ڈھالنا ہے، اسی کے لئے لوہے کو گرم کر رہے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ گرم کرنا ہی مقصود ہے، تو یہ بات سراسر غلط ہوگی۔ لوہے کو گرم کرنا مقصود نہیں، بلکہ گرم کرنا صرف ایک ذریعہ ہے، جسے استعمال کر کے آپ لوہے کو کوئی خاص شکل دے رہے ہیں۔
ابھی پرسوں کی بات ہے ایک نقشبندی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے آپ کی بات پہ اشکال ہے۔ میں نے کہا: کیا اشکال ہے؟ کہتے ہیں: حدیث شریف میں دل کی بات ہے اور آپ نفس کی بات کرتے ہیں۔
یہ بات حضرت مفتی شفیع صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ایک بیان سے چلی، آپ پہلے وہ بیان سنیں۔
آج کا سبق۔ "قلب کا بہترین مصلح ایمان ہے"۔
"شریعت نے دل کی اصلاح کے لئے ایمان رکھا ہے۔ اس لحاظ سے ایمان کا محل بھی انسانی دل ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت بھی دل کے اندر آتی ہے۔ یہی محبت آدمی سے عمل کراتی ہے۔ دل کے اندر جذبے پیدا ہوتے ہیں۔ اس جذبہ کے مطابق انسان چلتا ہے۔ اولاً ایمان انسانی دل پر وارد ہوتا ہے، وہاں سے ترقی کر کے دوسرے مقامات پر پہنچتا ہے۔ اس کی تاثیر سارے بدن تک پہنچتی ہے۔ تو پھر ہاتھ بھی مومن بن جاتا ہے کان بھی مومن بن جاتا ہے اور سب اعضا میں ایمان داری پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر دل میں بے ایمانی گھسی ہو تو ہاتھ پیر بھی بے ایمان ہوں گے اور وہ بے ایمانی کی باتیں سوچے گا۔ اس لئے کہ دل کی نیت خراب ہے۔ چنانچہ دل کو اصل قرار دے کر انبیاء علیہم السلام بھی اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ اس کے اندر نور چمک پیدا کرے تاکہ اس کے اندر عالمِ غیب کی چیزیں روشن ہو جائیں اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ دل پر ایمان وارد ہو۔ دل چونکہ پاک ظرف ہے اس لئے اس میں پاک چیزیں ہی آتی ہیں یعنی ایمان داخل ہوتا ہے، پھر عمل بھی ویسا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اگر دل میں خوشی ہے تو چہرے پر بھی خوشی کے آثار ظاہر ہوں گے۔ خوشی درحقیقت قلب کی صفت ہے، مگر چہرے سے نظر آتی ہے۔ دل میں اگر غم بھرا ہوا ہے تو چہرے سے غم معلوم ہوتا ہے۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ آج تو بڑے غمگین نظر آتے ہو۔ حالانکہ غم چھپی ہوئی چیز ہے وہ آنکھوں سے دیکھنے کی چیز نہیں ہے لیکن چونکہ دل کا اثر چہرے پر پڑتا ہے تو ہر جاننے والا جان لیتا ہے کہ یہ غم زدہ ہے اور واقعی وہ غم زدہ ہوتا ہے۔ تو غمی، خوشی، محبت و عداوت اور کرنا نہ کرنا یہ چیزیں انسان کے دل سے متعلق ہیں۔ اگر دل درست ہے تو سب چیزیں درست ہیں، اگر دل خراب ہے تو اس کی وجہ سے یہ سب چیزیں خراب ہیں اور اس کی وجہ سے ہاتھ پیر پر اثر پڑتا ہے اور وہ اثر جو دل پر وارد ہوتا ہے وہ ترقی کر کے اعضاء و جوارح پر طاری ہوتا ہے، اچھا ہو یا برا۔“
ماخوذ از ”آج کا سبق“ صفحہ نمبر، 310 مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ)۔
اس مضمون اور اس سے ثابت شدہ بات سے انکار نہیں کیونکہ یہ اصل میں اس حدیث شریف کی شرح ہے کہ ”انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو ساری چیزیں ٹھیک ہیں، اگر وہ خراب ہو جائے تو ساری چیزیں خراب ہو جائیں۔“ اب اگر مفتی شفیع صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی تفسیر معارف القرآن میں ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها 0 وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها﴾ (الشمس 9-10) کی تفسیر کو دیکھا جائے تو اس سے بات صحیح طور پر واضح ہوتی ہے۔
اس کی تشریح کرتے ہوئے میں نے کہا:
”جزاك اللہ! یقیناً ایسا ہی ہے کہ دل جسم کا بادشاہ ہے، لیکن بادشاہ کی بادشاہت تب چلتی ہے، جب رعایا اس کے حکم مانے۔ رعایا جب تک باغی ہو تو بادشاہ کی اولین کوشش یہی ہوگی کہ اس کی رعایا فرماں بردار بن جائے۔ پس نفس کی اصلاح کے بغیر دل کی سلطنت قائم نہیں ہو سکتی، اور دل کی چاہت کے بغیر نفس اصلاح کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اس لئے نقشبندی سلسلہ میں جذب سے ابتدا ہوتی ہے، لیکن اس پر کام مکمل نہیں ہوتا، بلکہ نفس کی اصلاح کے لئے سلوک طے کرنا لازم ہوتا ہے، جو قرآن پاک کے ان الفاظ میں وارد ہوا ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكّٰها وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰها﴾ اور اگر اس کی تکمیل سے پہلے کسی نے اپنے آپ کو کامل سمجھ لیا تو حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اس کو ”مجذوب متمکن“ کہتے ہیں اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ نہ خود پہنچے ہیں نہ دوسروں کو پہنچا سکتے ہیں۔
پھر اس پر اشکال آیا۔ اشکال ہمارے بڑے عزیز دوست کا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے غلط کیا ہے، اشکال کرنا چاہئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔
”السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ! حضرت ایک اشکال ذہن میں آیا ہے کہ حدیث شریف:’’اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَةً‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 52) میں صرف دل تک بات محدود ہے، اس میں نفس کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ آپ کی تحریر سے لگتا ہے کہ دل کے ساتھ ساتھ نفس کی صفائی بھی ضروری ہے۔ اگر مناسب محسوس فرمائیں تو اصلاح فرما دیں۔ چونکہ سوال جواب کا گروپ ہے، اس لئے جسارت کر رہا ہوں۔“
اس پر میں نے لکھا کہ اس پر تو الطاف القدس میں لطائفِ ثلاثہ پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیه نے پورا باب لکھا۔ مختصراً عرض کرتا ہوں: اگر کوئی پوچھے قرآن میں آیا ہے: ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّٰها﴾ اس کے مطابق مکمل کامیابی نفس کے تزکیہ پر موقوف ہے، تو پھر دل کی بات کیوں کی جاتی ہے، تو اس کا کیا جواب دو گے؟ قرآن نے بھی حتمی اور مکمل بات کی ہے۔ ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّٰها﴾ یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا۔ اس میں کہیں دل کا تذکرہ نہیں، صرف نفس کا ذکر ہے۔ جیسے اس حدیث میں مکمل بات ہے یہاں پر بھی مکمل بات ہے تو پھر کیا جواب دو گے؟
اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ہم دونوں صورتوں میں کہیں گے کہ دونوں باتیں بیک وقت صحیح ہیں۔ ایک قرآن سے مستنبط ہے اور دوسری حدیث شریف سے۔ دونوں منجانب اللہ ہیں، ایک وحی متلو (تلاوت کی جانے والی) ہے، دوسری وحی غیر متلو ہے۔ اس لئے ان کی تطبیق کرنی پڑے گی۔ تطبیق اس طرح ہوگی کہ نفس کی مکمل اصلاح دل کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں اور دل کی مکمل اصلاح نفس کے تزکیہ کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں کی اصلاح ہو جائے تو دونوں ٹھیک ہوں گے۔ اس طرح قراۤن و حدیث دونوں کی بات ٹھیک ہوگئی۔ دونوں کی اہمیت کا پتا چل گیا کہ دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔ دونوں آپس میں لازم ملزوم ہیں۔
اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے عقل کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا۔ نقشبندی سلسلہ میں تو یہ بات بہت واضح ہے کہ جذب دل میں ہوتا ہے، جس کو سلوک کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور تقویٰ دل میں ہوتا ہے، لیکن بنتا نفس کے رذائل کو دبانے سے ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ان چیزوں کو صحیح طور پر سمجھنے کی بہت ضرورت ہے، انہیں سمجھے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ اگر ہم لوگ ان چیزوں کو نہ سمجھیں تو پتا نہیں بات کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ نفس کا مقابلہ کرنے کے لئے طبیعت میں دیوانگی (جذب) آجائے۔ حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں: (یہ دیوانگی آپ کی طبیعت میں موجود ہے، لیکن اس کے اسباب آپ کو اختیار کرنے پڑیں گے۔)
مثلاً چقماق پتھر کے اندر صلاحیت پہلے سے موجود ہے، صرف رگڑ کی ضرورت ہے۔ جب تک رگڑ نہیں ہوگی وہ پتھر کا پتھر رہے گا، لیکن جب آپ رگڑیں گے تو اس سے چنگاری نکلے گی۔ اگر قریب کوئی خس و خاشاک یا تیل وغیرہ ہو تو آگ بھڑک اٹھے گی۔
فرمایا: (یہ دیوانگی آپ کی طبیعت میں موجود ہے لیکن بے کار عوارض کے باعث آپ نے اس کو خس و خاشاک میں چھپا دیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ ظاہری دوری کی وجہ سے آپ میں بہت کچھ بے مناسبتی مفہوم ہوتی ہے۔ (یعنی آپ جو بے مناسبتی محسوس کر رہے ہیں وہ ظاہری دوری کی وجہ سے ہے۔) صحبت میں آ جائیں تاکہ آپ کی جو اصل چیز ہے وہ ظاہر ہو جائے۔)
میں آپ کو ایک بہت بڑی بات بتاتا ہوں۔ تصوف میں یہ چیزیں اتنی حتمی، اتنی اٹل اور اتنی واضح و بیّن ہیں کہ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہیں، لیکن افسوس ان پہ غور نہیں کیا جاتا۔ اب ذرا دیکھو ایک ہے ”فاعِلہ“ اور ایک ہے ”مجاہدہ“ فاعلہ انسان کے اندر چھپی ہوتی ہے، جیسے چقماق میں یہ صفت موجود ہے کہ اسے رگڑنے سے چنگاری پیدا ہوگی، اسے ظاہر کرنے کے لئے صرف ایک حرکت کی ضرورت ہے۔ یہ صفت از خود اس کے اندر موجود ہے آپ پیدا نہیں کر سکتے، آپ صرف اس کو فعال کرنے کے لئے انتظام کر سکتے ہیں۔ یوں ہی ہمارے اندر لطائف موجود ہیں۔ لطیفۂ قلب سب کے اندر موجود ہے، لطیفۂ روح سب کے اندر موجود ہے، لطیفۂ سر سب کے اندر موجود ہے۔ یہ ساری چیزیں سب کے اندر موجود ہیں، لیکن فعال کرنے کے لئے ایک محنت کی ضرورت ہے۔ اس محنت کو فاعلہ کہتے ہیں۔ اس کو مختلف طریقوں سے فعال کرتے ہیں، مثلاً ذکر، مراقبہ، شغل اور صحبتِ شیخ وغیرہ۔ ان ذرائع سے فعال (activate) کرتے ہیں۔ ان سب میں اعلیٰ طریقہ صحبتِ شیخ کے ذریعہ فعال کرنا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ تقشبندی سلسلے میں ابتدائی فیض نسبتِ انعکاسی کا ہے۔ یعنی یوں کہ سکتے ہیں کہ خود فعال کرنے کا جو راستہ ہے بہت طویل اور کٹھن ہے لیکن جب آپ صحبت میں ہوں گے تو وہ راستہ بہت آسانی کے ساتھ طے ہو جائے گا۔ بعض دفعہ صرف صحبت میں بیٹھنے سے وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ شیخ کوئی طریقہ بتا دیتا ہے اور اس طریقہ پہ آپ جب عمل کرتے ہیں تو نظام فعال ہو جاتا ہے، اور کام چل پڑتا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی کے مراقبات چل رہے تھے۔ میں نے ان کو ایک مراقبہ دیا۔ وہ مراقبہ ان کو بہت پسند آیا، اور چل پڑا۔ وہ چل رہا تھا کہ اسے اگلا مراقبہ دے دیا گیا۔ وہ اگلے مراقبہ پہ محنت کر رہا تھا، لیکن پہلے والے کو چھوڑ نہیں رہا تھا، کیونکہ وہ اس کو پسند تھا۔ لیکن اب وہ اس سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اب نہیں ہو رہا۔ میں نے کہا اب نہیں ہوگا۔ کہا: کیوں نہیں ہوگا؟ میں نے کہا: کیونکہ آپ اس مراقبہ سے گذر کر اگلے پہ پہنچ گئے ہیں، اب اگلے پہ دھیان دو۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے بارے میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے حضرت کو بتایا کہ مجھے ہر چیز سے خوشبو آتی ہے۔ فرمایا: ان شاء اللہ اب نہیں آئے گی۔ کہتے ہیں: میں بڑا حیران ہوا کہ حضرت نے یہ کیا بات کی۔ خوشبو تو ایک اچھی چیز ہے، سنت ہے، ہر آدمی چاہتا ہے۔ تو حضرت نے ایسا کیوں فرمایا کہ اب نہیں آئے گی، اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد پھر مجھے خوشبو آنا بند ہوگئی۔ میں ڈر گیا، اور حضرت سے عرض کی کہ حضرت اب تو خوشبو بالکل نہیں آرہی۔ فرمایا: بیٹا میں نے آپ کو اگلے درجے پہ ترقی دے دی، اس مرحلہ میں خوشبو نہیں آتی۔
مثلاً آپ لاہور جا رہے ہیں۔ لاہور کے راستے میں گوجر خان کے قریب ایک بہت زبردست قسم کا باغ ہے، ہریالی ہے اور ما شاء اللہ بڑی عمدہ جگہ ہے۔ آپ کو وہ جگہ بہت پسند آئی، لیکن آپ چند کلو میٹر آگے گئے تو ریگستان آگیا۔ جس نے آپ کو بھجوایا اس کے ساتھ آپ کا فون پہ رابطہ ہے، آپ گھبرا کے اسے فون کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی تک بہت خوبصورت مناظر والے مقام تھے اور اب بالکل ریگستان شروع ہوگیا ہے۔ وہ آپ کی بات سن کے کہتا ہے ما شاء اللہ آپ آگے جا رہے ہیں، پہنچنے والے ہیں۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ آپ ریگستان پہنچ گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ زیادہ راستہ طے ہوگیا۔ یہاں نہ ریگستان مطلوب ہے، نہ نخلستان مطلوب ہے، بلکہ راستہ طے کر کے لاہور پہنچنا مطلوب ہے۔ لہٰذا نخلستان آیا، یہ بھی آپ کا مشاہدہ ہے، ریگستان آیا، یہ بھی آپ کا مشاہدہ ہے، دریا آیا، یہ بھی آپ کی مشاہدہ ہے، یہ سب محض آپ کے مشاہدات ہیں، ان میں مطلوب کوئی بھی نہیں ہے۔
الحمد للہ! میرے شیخ نے مجھے بھی یہ بات سمجھائی تھی۔ جب ایک بار میں نے کچھ اس طرح کی بات عرض کی تو فرمایا: ”ارے چھوڑو! یہ رستے کے کھیل تماشے ہیں، ان کے اندر نہ پڑو۔“ بعض لوگ ان رستوں کے کھیل تماشوں میں پڑ جاتے ہیں اور اپنا مقصود گم کر دیتے ہیں۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ نسبتِ انعکاسی اور شیخ کی صحبت کے ذریعہ معاملات بہت جلدی طے ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے بزرگ کے قول سے استدلال کرتا ہوں، جس نے دیہاتی انداز میں بہت اونچی بات کی۔ غالباً حضرت تاج محمود امروٹی (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، سندھ کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے الفاظ تو مجھے یاد نہیں، لیکن مفہوم یاد ہے۔ فرمایا: "دیکھو! اگر دودھ کو بلو بلو کے سرخ بھی کر دو، جب تک جاگ نہیں ڈالو گے، اس سے مکھن نہیں نکلے گا"۔ حضرت نے گویا یہ سمجھایا کہ جب تک شیخ کی طرف سے نسبت کا القا نہیں ہوگا، اس وقت تک آپ کا مجاہدہ بھی کام نہیں کرے گا، قوتِ فاعلہ بھی کام نہیں کرے گی۔ یہ تب کام کریں گے جب شیخ کی نسبت ساتھ شامل ہو جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے جس کو عموماً لوگ نہیں سمجھ پاتے۔
ایک دفعہ حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے ساتھ ایسا ہوا کہ آپ کے خواب میں حضور ﷺ تشریف لائے اور ایک چیز کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ کو یہ چیز حاصل ہوگئی ہے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ شاید میں اپنے شیخ سے آگے بڑھ گیا ہوں کہ آپ ﷺ خود تشریف لائے ہیں، ورنہ شیخ کے ذریعہ سے کہلوا دیتے۔ یہ ایک خیال اور وسوسہ تھا۔ ایسے لوگوں کو وسوسے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ صبح نماز کے بعد حضرت سری سقطی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ انہوں نے فرمایا: رات آپ ﷺ تشریف لائے تھے اور یہ فرمایا تھا؟ حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کہنے لگے کہ: حضرت آپ کو کیسے پتا؟ فرمایا: مجھے اللہ پاک نے بتا دیا۔ بس جنید بغدادی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) صاحب شرم سے پانی پانی ہوگئے کہ یہ تو معاملہ بہت اونچا ہے۔
بعض دفعہ انسان کو غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ شاید مجھے یہ کمال حاصل ہوگیا۔
کسی نے مجھے اپنا خواب سنایا تھا کہ ایک بزرگ خواب میں آئے، انہوں نے کہا کہ:
Then our man collapse like their building
یعنی انسان اونچی بلڈنگ کی طرح منہدم ہوگیا۔ بلڈنگ کا منہدم ہونا دکھائی دیا۔ یعنی بلڈنگ بہت اونچی ہے، لیکن جب شامت آجائے تو کیا ہو سکتا ہے، اونچی بلڈنگ بھی گر کر تباہ ہو جاتی ہے۔
بعض دفعہ بہت اونچائی پہ جا کر بھی انسان پاش پاش ہو سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو۔ ذرا سوچیں کہ شیطان کتنے اونچے مقام پہ پاش پاش ہوا ہے۔ اگر اپنے اوپر نظر ڈالو گے اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگو گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اس تصوف کے شعبے میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ کے ذریعہ سے ہی اس قسم کی چیزوں سے حفاظت فرماتے ہیں کہ انسان کی اپنے اوپر نظر نہیں پڑتی۔ ورنہ انسان بہت جلدی بھول جانے والا ہے۔ اگر اپنی محنت سے کام کرتا ہو اور کچھ حاصل کر لے تو بہت پھول جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ مجھے میری محنت سے حاصل ہوا، لیکن جب تصوف کی لائن پہ آتا ہے تو جو بھی اس کو حاصل ہوتا ہے، کہتا ہے یہ سلسلہ کی برکت ہے، میرے شیخ کی برکت ہے، شیخ کی صحبت کی برکت ہے۔ نتیجتاً اس چیز سے بچا رہتا ہے۔
آپ اندازہ کر لیں کہ ہر بزرگ چاہے کتنے بڑے مقام پہ کیوں نہ ہو وہ اپنے شیخ کے سامنے ہیچ ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کتنے اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ اپنے وقت کے مجدد ہیں، ہزار سے زیادہ کتابیں لکھیں، کتنے زیادہ خلفاء اور کتنے لوگوں کی تربیت فرمائی۔ لیکن وہ خود فرماتے ہیں کہ ایک وکیل پہلے میرے مخالف تھے، بعد میں معتقد ہوگئے، مداح ہوگئے اور ایسے مداح ہوگئے کہ وہ فدا ہوگئے۔ (حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں) میں بیان کر رہا تھا اور وہ سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ (ان دنوں فارسی سب کو آتی تھی تو اس وکیل کو بھی فارسی آتی تھی) تو میرے سامنے مسلسل یہ شعر پڑھ رہا تھا:
تو مکمل از کمال کیستی
تو منور از جمال کیستی
تشریح:
"تو کس کے کمال سے مکمل ہے تو کس کے جمال سے منور ہے"۔
حضرت فرماتے ہیں: میں بھی جوان تھا، مجھے بھی جوش آگیا۔ میں نے کہا:
من مکمل از کمالِ حاجیَم
من منور از جمال حاجیَم
تشریح:
میں اپنے حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں، میں اپنے حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں۔
اور حاجی صاحب کو دیکھو تو میاں جی نور محمد جھنجھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ ان کو دیکھو تو وہ اپنے شیخ کے سامنے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجتے۔ ہر ایک کو دوسرے پہ فدا دیکھو گے۔ اور یہ معاملہ اوپر تک، آپ ﷺ تک جاتا ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’أَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَأدِیْبِیْ‘‘۔ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، جلد 1، ص 35)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین ادب سکھایا۔‘‘
یہ معاملہ اسی طرح اوپر جاتا ہے۔ یہ محفوظ ترین طریقہ ہے۔ اگر درمیان میں شیخ والی بات نہ ہو تو شیطان بننا کوئی مشکل نہیں ہے۔
اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ آپ ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جن سے بھی اللہ نے دین کی قبولیت والا کام لیا ہے، وہ اس راستہ سے گذرے ہیں تب کام لیا ہے۔ پہلے ان کی انانیت اپنے شیخ میں فنا ہوئی ہے، تب کام لیا گیا ہے۔ جن کی انانیت زندہ تھی، کام نہیں کر سکے، محض باتیں کی ہیں، جن سے اللہ پاک نے کام لیا، پہلے ان کی انانیت فنا کی پھر اس کے بعد ان سے کام لیا۔ اور اب تک ہمارا یہی طریقہ ہے۔
سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو دیکھ لیں۔ اپنے وقت کے علامہ تھے، ایسے علامہ جن کے شیخ بھی ان کو علامہ کہتے تھے۔ لیکن دیکھیں کہ یہ علامہ اپنے شیخ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
یہ حضرت سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے اپنے شیخ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے بارے میں چند اشعار ہیں۔
اے مسیح دردِ دل، چارہ گرِ آزارِ دل
پا رہا ہے تیرے درماں سے شفا بیمار دل
دور باش افکارِ باطل، دور باش اغیارِ دل
سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لئے دربارِ دل
اور ہی مٹ جائے گی تاریکئ افکارِ دل
خانۂ دل میں جو پھیلیں گے کبھی انوارِ دل
تیرے اک چھینٹے سے اے ابر بہاری ان دنوں
سبز ہے، شاداب ہے، سیراب ہے، گلزارِ دل
دور ہوتی جا رہی ہے جو کھٹک کہ دل میں تھی
تیرے سوزن سے نکلتے جا رہے ہیں خارِ دل
عشق کا رہبر دلیلِ راہ جس دن سے بنا
بن رہا ہے آپ ہی انکارِ دل، اقرارِ دل
(یعنی جو رکاوٹیں تھیں وہ دور ہو رہی ہیں۔ دل پہلے نہیں مان رہا تھا وہ مان رہا ہے۔)
ہوش ہے، گرمی و مستی ہے، وفورِ شوق ہے
شکر ہے رونق پہ ہے امروز کاروبار دل
جمع وہ سامان ہو جس کی خریداری بھی ہو
سوچ کر اے دل لگانا چاہئے بازارِ دل
تشریح:
(کہتے ہیں اتنے جوش میں آگیا ہوں کہ مجھ میں اب کنٹرول کرنے کی ہمت نہیں۔ اللہ پاک سے مدد مانگ رہے ہیں۔)
المدد توفیقِ ضبط و المدد تابِ سکوت
لب پہ لے آئے نہ جوشِ دل کہیں اسرارِ دل
تشریح:
(یعنی کہیں میں اپنا حال ظاہر نہ کر دوں۔)
قلبِ عاشق بھی ہے پھر ہم پایۂ عرشِ بریں
جلوہ فرما مسندِ دل پر اگر ہو یارِ دل
سامنے ہے منزلِ مقصود، اے رہوارِ دل
اور بھی اب تیز ہونی چاہئے رفتارِ دل
خانۂ دل میں نہ جب تک کم ہو گھر کا شور و غل
گوشِ دل سے سن سکے کیونکر کوئی گفتارِ دل
تشریح:
(یہ وہی بات جو ابھی تھوڑی دیر پہلے بیان ہوئی ہے کہ جذب میں آپ کو پہلے تمام چیزوں سے کاٹا جاتا ہے، کیونکہ جب تک آپ کے اوپر نفس حاوی ہے، آپ سلوک طے نہیں کر سکتے۔ پہلے نفس کے تمام راستوں کو کاٹا جاتا ہے، جب کٹ جاتے ہیں، پھر نفس کی نوک پلک کو درست کرتے ہیں۔
خانۂ دل میں نہ جب تک کم ہو گھر کا شور و غل
گوشِ دل سے سن سکے کیونکر کوئی گفتارِ دل
فخر تو اس رشتۂ تسبیح پر فرما نہ شیخ
دل کی رگ رگ سے تو پہلے کھینچ لے زُنّارِ دل
تشریح:
اس میں سارا کلام تقریباً اس قسم کا ہے اور یہ ہم پہلے پڑھا کرتے تھے۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ لائن اس قسم کی ہے۔ سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) باوجود اس کے کہ علامۂ وقت تھے، لیکن اللہ پاک نے جب کام لینا چاہا تو حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) صاحب کی طرف متوجہ کیا۔
اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے کہ انسان کو صحبتِ شیخ کو لازم پکڑنا چاہئے۔ کیونکہ صحبتِ شیخ کے ذریعہ سے وہ صلاحیتیں جو انسان کے اندر مخفی ہیں کام میں لگ جاتی ہیں۔ جیسے حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے ہیں: "یہ ظاہری دوری کی وجہ سے آپ میں بہت کچھ بے مناسبتی معلوم ہوتی ہے، اس کا جلد تدارک فرمائیں (یعنی صحبت سے دوری کی وجہ سے آپ کے اندر جو چیزیں چھپی ہوئی ہیں وہ ظاہر نہیں ہو رہیں۔ ان کو ظاہر کر لیں) اور اپنی کم ہمتی کو عین ہمت استطاعت جان کر اس جسدی ظاہری دوری کو رفع کریں"۔ (جو آپ کی کم ہمتی ہے اسی کے مطابق بند و بست کر کے اس دوری کو دور کر لیں تاکہ آپ کو یہ اصل چیز حاصل ہو جائے۔)
فرمایا: "اس گروہ کی جمعیت مخلوق کے دلی اطمینان سے بہت بلند ہے، مخلوق کی دل جمعی کے اسباب ان کے تفرقے اور اختلافات کا باعث ہیں"۔ یعنی مخلوق جن چیزوں سے اطمینان حاصل کرتی ہے، وہ ان کے لئے تفرقہ ہے۔ یہ حضرات ان چیزوں کی طرف نہیں جاتے۔ ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ یہ ان چیزوں کو رکاوٹ مانتے ہیں۔
فرمایا: "مخلوق کے اختلافات کے اسباب میں ہاتھ ڈالنا چاہئے، یعنی ان میں غور کرنا چاہئے تاکہ دل کا اطمینان حاصل ہو، اور اگر بالفرض اس گروہ کو مخلوق کی جمعیت کے اسباب عنایت ہو جائیں تو اس جمعیت سے بھی ڈرنا چاہئے"۔
یعنی اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے دنیاوی اسباب عنایت فرما دے تو اس پہ ڈرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ میرے لئے رکاوٹ بن جائیں، یعنی آپ کی دلی خواہش یہ نہ ہو کہ مجھے یہ چیز مل جائے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ دے تو شکر کرو، لیکن ڈرنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے لئے مصیبت بن جائے۔
حضرت مجدد صاحب نے اس انداز میں نصیحت فرمائی ہے کہ جن چیزوں نے آپ کو روکا ہے ان کو آہستہ آہستہ کُرید کے بتار رہے ہیں کہ یہ چیزیں جن کی وجہ سے آپ رکے ہوئے ہیں، یہ ہمارا مقصود نہیں ہیں۔
حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) انگریزوں کے دور کے ڈپٹی کلکٹر تھے، انگریزوں کے دور میں یہ بڑا اونچا منصب تھا۔ یہ معمولی لوگ نہیں ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں کے دور کے جنرل اور آج کے دور کے جنرل میں بڑا فرق ہے۔ خواجہ صاحب اُس دور کے ڈپٹی کلکٹر تھے، لیکن حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی صحبت میں رہنے کے لئے چھٹیاں لیں، اپنا سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضرت کے ساتھ کافی مدت تک خانقاہ میں سکونت اختیار کئے رکھی اور ما شاء اللہ اپنی تربیت کی تکمیل کروائی۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ان کو بڑا ڈانٹ ڈپٹ کے سکھایا، ان کی کلکٹری کو کوئی حیثیت نہ دی۔ خواجہ صاحب حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی سوانح لکھ رہے تھے۔ ایک دفعہ کسی جگہ دوات پڑی رہ گئی، کسی کی ٹھوکر سے وہ دوات گر گئی اور سیاہی فرش پر پھیل گئی۔ اس پر حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ان کو بہت ڈانٹا، کہا کہ تجھے اتنا طریقہ بھی نہیں آتا، یہ کوئی طریقہ ہے کہ اس طرح کسی چیز کو یوں بے احتیاطی سے پڑے رہنے دیا جائے۔ نکل جاؤ یہاں سے۔ یہ کہہ کر خانقاہ سے نکال دیا۔ خواجہ صاحب، حضرت کے عاشق تھے، باہر نکل گئے، حکم پر عمل کیا، لیکن سیڑھیوں میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے پوچھا: بھئی وہ باؤلا کدھر گیا۔ لوگ چلے گئے، دیکھا تو سیڑھیوں میں بیٹھے ہیں اور بڑے جوش سے ایک کلام پڑھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں:
اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر ہم در نہ چھوڑیں گے
حکومت اپنی اپنی ہے کہیں اُن کی کہیں اپنی
اللہ پاک نے پھر ان کو کیسا بنایا، کیا بنایا! ان کا یہ مقام تھا کہ خود بیان کیا کہ ایک موقع پہ حضرت تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا: مجھے بہت فکر تھی کہ میرے بعد سلسلہ کا کیا ہوگا، میری دو آدمیوں پہ نظر ٹھہر گئی کہ ان شاء اللہ یہ ہوں گے تو کام چل پڑے گا۔ ایک جامعہ اشرفیہ لاہور والے مفتی محمد حسن صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا نام لیا، اور دوسرے کا نام بتاتے ہوئے خواجہ صاحب خاموش ہوگئے، کیونکہ وہ خود ان کا اپنا نام تھا۔ دونوں کا نام حسن تھا۔ ایک عزیز الحسن اور دوسرے مفتی محمد حسن۔
اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ صحبتِ شیخ بہت بڑی چیز ہے۔ یہ اگر کسی کو ملتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ دنیا و ما فیہا سے اونچی دولت ہے۔ شیخ چاہے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے لیکن مرید کے لئے بہت کچھ ہے۔ کیونکہ مرید کے لئے شیخ اللہ پاک سے لینے کا ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کو اپنے شیخ کی صحبت و قرب حاصل ہے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اپنے مواعظ میں تین بزرگوں کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ تینوں حضرات اتنے بڑے مقام کے حامل تھے کہ ان کو طیُّ الارض حاصل تھا۔ جہاں چاہتے، وہاں پہنچ جاتے تھے، ایک بار ان کے شیخ نے ان تینوں سے پوچھا: عید آرہی ہے، آپ لوگوں نے عید کی نماز کہاں پر پڑھنی ہے؟ ایک نے کہا: حضرت میں تو مکہ مکرمہ میں پڑھوں گا۔ فرمایا: اچھا ٹھیک ہے، ما شاء اللہ بہت اچھا ذوق ہے۔ دوسرے سے پوچھا کہ آپ کہاں پڑھیں گے؟ انہوں نے کہا: میں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں پڑھوں گا۔ فرمایا: ما شاء اللہ بہت اچھا ذوق ہے۔ تیسرے سے پوچھا، اس نے کہا: حضرت جہاں آپ ہوں گے، وہیں میں بھی پڑھوں گا۔ انہوں نے کہا: آپ جیت گئے۔ یہی اصل بات ہے۔ اگر انسان غور کرے تو یہ بہت اونچی چیز ہے۔ لیکن یہ راز ہر ایک پہ نہیں کھلتا جن پہ کھل جاتا ہے، ان کے سامنے باقی دنیا کچھ بھی نہیں ہوتی اور جن پہ نہیں کھلا ہوتا ان کی اپنی قسمت ہے۔ قسمت قسمت کی بات ہے۔
اہلِ جمعیت کی صحبت کی ترغیب:
ایک تو شیخ کی صحبت ہے، جس کی بات ابھی ہوئی۔ ایک اہل جمعیت کی صحبت ہے، اہل جمعیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمعیتِ قلب حاصل ہو چکی ہے۔ دفتر اول مکتوب 120 میں حضرت اہلِ جمعیت کی صحبت کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
متن:
شاید کہ جناب میر صاحب نے فراموشی اختیار کرلی ہے کہ سلام و پیام سے بھی یاد نہیں فرماتے، فرصت بہت کم ہے، اس (فرصت) کو اعلیٰ ترین مقاصد میں صرف کرنا ضروری ہے، اور وہ (اعلیٰ مقصد) اربابِ جمعیت کی صحبت ہے، کیونکہ صحبت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت ہی کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام غیر صحابہ رضی اللہ عنہ پر فضیلت حاصل ہے خواہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا عمر مروانیؒ (یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ یہ دونوں حضرات حضور اکرم ﷺ کی صحبت کے علاوہ تمام درجات کی نہایت اور تمام کمالات کی غایت تک پہنچے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کی خطا آنحضرت ﷺ کی صحبت ہی کی برکت کی وجہ سے ان دونوں کے صواب سے بہتر ہے۔
تشریح:
سبحان اللہ! کیا عجیب بات فرمائی۔ یہ چیز ہم لوگ نہیں سمجھ پاتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالیٰ عنه یہ خواہش کرتے تھے کہ کاش میرا صواب (درستگی) آپ ﷺ کے سہو میں بدل جائے۔ یعنی جو آپ ﷺ سے نماز میں سہو ہو رہا ہے، میرا صواب اس کی طرح ہو جائے۔
حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو خطا ہے وہ آپ ﷺ کی صحبت کی برکت کی وجہ سے ان دونوں (اویس قرنی اور عمر مروانی) کے صواب سے بہتر ہے۔
متن:
اور حضرت عمرو بن العاصؓ کا سہو ان دونوں کے صواب سے افضل ہے کیونکہ ان بزرگواروں کا ایمان، رسول اللہ ﷺ کی شرف زیارت، فرشتہ کی حاضری اور وحی کے مشاہدہ کرنے اور معجزات کے دیکھنے کی وجہ سے شہودی ہو چکا تھا۔
اور ان (صحابہ رضی اللہ عنہ) کے سوا کسی اور کو اس قسم کے کمالات جو تمام کمالات کے اصول ہیں نصیب نہیں ہوئے۔ اور اگر حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوتا کہ صحبت کی فضیلت میں یہ خاصیت ہے تو ان کو صحبت سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی اور وہ اس فضیلت پر کسی چیز کو ترجیح نہ دیتے: ﴿وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَاءُ وَاللہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (البقرة: 105) (اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے لئے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والاہے)۔
تشریح:
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ غالباً حضرت علامہ آلوسی رحمة اللہ علیه کا واقعہ ہے۔ یہ بہت بڑے عالم تھے، ان کے شاگرد بھی بڑی تعداد میں تھے، ایک شاگرد ان کو بڑا محبوب تھا۔ اس کے علاقہ میں حضرت کا جانا ہوا، باقی شاگرد تو حاضر ہوئے لیکن وہ نہ آیا۔ حضرت نے ان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کدھر ہے؟ انہوں نے کہا: وہ آج کل بوڑھے والدین کی خدمت میں بہت زیادہ مصروف ہیں، اس وجہ سے وہ حاضر نہیں ہو سکے۔ فرمایا: ما شاء اللہ والدین کے بڑے خدمت گذار ہیں، ان شاء اللہ بہت اچھی، سکون و اطمینان کی زندگی گذاریں گے۔ پھر ذرا خاموشی کے ساتھ کہا: لیکن اس کے علم میں برکت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ الله جل شانهٗ نے والدین کو دنیا میں آنے کا ذریعہ بنایا ہے، لہٰذا دنیا کے اسباب کے لحاظ سے اطمینان والدین کی خدمت میں ہے۔ استاذ سے علم حاصل ہوتا ہے، لہٰذا علم میں برکت اساتذہ کی خدمت میں ہے۔ مشائخ چونکہ اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ ہوتے ہیں، لہٰذا اللہ پاک کا قرب مشائخ کی خدمت میں ہے۔ مشائخ کے ساتھ تعلق جتنا مضبوط ہوگا، یہ نعمت اتنی زیادہ حاصل ہوگی۔ اللہ پاک نے یہ معاملات اسی طرح طے کئے ہیں۔
یہ بات پہلی دفعہ میں نے حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے مکتوب شریف میں ہی پڑھی تھی کہ اگر حضرت اویس قرنی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو معلوم ہوتا کہ صحبت کی فضیلت میں یہ خاصیت ہے تو ان کو صحبت سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی اور وہ اس فضیلت پر کسی چیز کو ترجیح نہ دیتے۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ اس سے کیا ہوتا ہے تو وہ تمام چیزوں کو کم از کم ایک لمحہ کے لئے چھوڑ دیتے اور آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ جاتے، بے شک پھر واپس چلے جاتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ کا آنکھوں سے دیدار کر لیتے۔
اویس قرنی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) افضل التابعین ہیں۔ لیکن ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی سے کم ہیں۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ حرم شریف میں ایک گراؤنڈ فلور ہے، جس کو مطاف کہتے ہیں، ایک اس سے اوپر کا ہے، جس کو میزانیاً فلور کہتے ہیں، پھر اس کے بعد پہلا فلور ہے پھر اس کے بعد دوسرا فلور ہے۔ میزانیاً فلور کی سب سے پہلی صف گراونڈ فلور کی سب سے آخری صف کے بعد سمجھی جائے گی اور میزانیاً فلور کی سب سے آخری صف کے بعد پہلے فلور کی سب سے پہلی صف شمار ہوگی اور دوسرے فلور کی سب سے پہلی صف پہلے فلور کی آخری صف کے بعد شمار ہوگی۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر سمجھیں کہ بزرگوں کے بھی طبقات ہیں، پہلے صحابہ رضی اللہ عنہ کا طبقہ ہے، پھر تابعین کا طبقہ ہے، پھر تبع تابعین کا طبقہ ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا آخری طبقہ تابعین کے پہلے طبقہ سے بھی افضل ہے۔ اسی طرح تبع تابعین کا سب سے اول طبقہ تابعین کے آخری طبقہ سے ادنیٰ ہے۔ یہ اس قسم کی ترتیب ہے۔ اگر ہم لوگ ان چیزوں کو سمجھ لیں تو بہت فائدہ ہو۔
اغنیاء کی صحبت سے بچنے اور فقراء کی صحبت کے حصول کی ترغیب:
دفتر اول کے مکتوب نمبر 132 میں اغنیاء کی صحبت سے بچنے اور فقراء کی صحبت کو حاصل کرنے کی ترغیب پر حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
اے میرے بھائی! آپ نے ظاہری طور پر فقراء کی ہم نشینی سے تنگ دل ہو کر دولت مندوں کی مجلس اختیار کر لی ہے (یہ کام) بہت بُرا کیا۔ آج (دنیا میں) اگر آپ کی آنکھ (بصیرت) بند ہو تو کل (قیامت کے دن) کھل جائے گی۔ اس وقت ندامت و پشیمانی کے علاوہ کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آگاہ کر دینا ضروری ہے۔ اے ابو الہوس! تمہارا معاملہ دو حال سے خالی نہیں۔ دولتمندوں کی مجلس میں دل جمعی ملے گی یا نہیں۔ اگر اس سے (دل جمعی) مل جائے تو بُرا اور اگر نہ ملے تو اس سے بدتر ہے۔ اگر مل جائے تو یہ (جمعیت نہیں بلکہ) استدراج ہے۔ عِیَاذًا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ مِن ذالِکَ (اللہ سبحانہ کی اس سے پناہ) اور اگر نہ ملے تو ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ﴾ (الحج: 11) (دنیا و آخرت (دونوں جگہ) نقصان ہے) ان کے حال کی نشانی ہے۔ فقراء کے آستانوں کی خاکروبی دولت مندوں کے ہاں کی صدر نشینی سے بہتر ہے۔ آج اگر یہ بات آپ کو معقول معلوم ہو یا نہ ہو آخر کار معقول معلوم ہو جائے گی مگر اس وقت کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ مرغن غذائیں اور فاخرہ لباس کی تمنا اور آرزو نے تم کو اس مصیبت میں ڈالا ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے اگر اصل کی طرف رجوع کر لیں۔ جو چیز بھی حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف رکاوٹ کا سبب ہو اس کو دشمن جان کر اس سے فرار اختیار کریں اور پرہیز کریں۔
﴿اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ﴾ (التغابن:14) (بیشک تمہاری بیویاں اور اولاد میں سے تمہارے دشمن ہیں پس تم ان سے بچتے رہو) نصِ قطعی ہے۔
صحبت کے حقوق نے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ ایک مرتبہ آپ کو نصیحت کر دی جائے۔ عمل کریں یا نہ کریں۔ میں تمہاری فضول باتوں کو پہلے سے جانتا ہوں کہ تمہارے لئے اس طریقہ کے فقر پر استقامت دشوار ہے۔
وَقَد کَانَ مَا خِفْتُ اَن یَّکُونَا اِنَّا اِلَی اللّٰہ رَاجِعُونَا
ترجمہ: (بیشک وہ بات ہو کے رہی جس کا خوف تھا
تحقیق ہم خدا کی طرف ہیں رجوع اب
اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور حضرت محمد مصطفیٰ علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات و التحیات اَتَمَّہَا وَ اَکْمَلَہَا کی تابعداری کو لازم پکڑے۔ مجھے تمہاری عادت اور قابلیت سے کچھ اور ہی توقع تھی لیکن تم نے اپنے نفیس جوہر کو پاخانے (گندگی) میں پھینک دیا۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.
تشریح:
دنیا کی چیزیں فانی ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے بزرگوں کی صحبت کو چھوڑنا حماقت ہے۔ اگر ہم نے اللہ والوں سے دوری اختیار کر لی تو ہم اللہ اور اس کے دین سے دور ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی معیت کا ذریعہ ہے، اگر وہ کمزور ہو جائے تو بے شک ہم کتنے اونچے مقام پر ہوں، بالآخر ہم اللہ کی معیت سے کٹ جائیں گے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو اپنے ذریعہ کو مضبوط کرنا ہے اور اس کا ذریعہ صحبتِ سوء کے مقابلہ میں صحبت صالح اختیار کرنا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ صحبتِ سوء سے خلوت اچھی ہے اور صحبِت صالح خلوت سے اچھی ہے۔ اب حضرت اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ صحبتِ صالح خلوت سے بہتر ہے۔
بعض صحبتیں گوشہ نشینی پر ترجیح رکھتی ہیں:
اس کے بارے میں دفتر اول مکتوب نمبر 270 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
میرے بھائی شیخ نور محمد! آپ نے (ہم) دُور پڑے ہوؤں کو اس طرح بھلا دیا ہے کہ سلام و پیام سے بھی یاد نہیں کرتے۔ آپ کو گوشہ نشینی و یکسوئی کی بڑی خواہش تھی، سو میسر ہوگئی۔ لیکن بعض ایسی صحبتیں ہیں جو گوشہ نشینی اور تنہائی پر فضلیت رکھتی ہیں۔ (مثلاً ) حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے حال پر قیاس کریں کہ چونکہ آپ نے گوشہ نشینی اختیار کی لہٰذا حضرت خیرالبشر علیہ وعلی آلہ الصلوت والتسلیمات کی صحبت حاصل نہ کر سکے اور اسی لئے وہ صحبت کے کمالات سے بہرہ ور نہ ہوئے اور تابعین میں سے ہوگئے اور اوّل درجہ کی فضیلت سے محروم ہو کر دوسرے درجہ میں رہ گئے۔ اللہ سبحانہ کی عنایت سے (یہاں) ہر روز کی صحبت نئی طرز پر ہے۔ مَنِ اسْتَوَی یَوْمَاہُ فَھُوَ مَغْبُوْن(جس کے دو دن برابر ہوں وہ نقصان میں ہے)۔ اور سلام ہو آپ پر اور اُن سب پر جو ہدایت کے راستے پر چلے اور حضرت محمد مصطفی علیہ وعلیٰ آلہ الصلوات والتسلیمات کی متابعت کو لازم پکڑیں۔
تشریح:
کیسی عمدہ نصیحت فرمائی ہے۔ یعنی آپ کو اپنا مقصود حاصل ہوگیا کہ آپ نے ایسے یکسوئی اختیار کر لی، اچھی بات ہے، لیکن جو صحبتِ صالح سے آپ کو ملنے والا تھا وہ آپ نے چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ سے کام رہ گیا۔
خانقاہ کا تصور بنیادی طور پر اسی حدیث شریف سے مستنبط ہے، کہ صحبتِ سوء سے خلوت اچھی اور خلوت سے صحبتِ صالح اچھی ہے۔ خانقاہ آپ کو بیرونی صحبت سے بچا کے رکھتی ہے۔ جب آپ خانقاہ میں رہتے ہیں تو آپ صحبت سوء سے محفوظ رہتے ہیں، گھر کے اندر جو مشکلات ہوتی ہیں، یا بازار میں یا دوسری جگہوں میں جو مسائل ہوتے ہیں وہ سب مسائل سے آپ منقطع ہوگئے، لہٰذا آپ ان سے خلوت میں آگئے، لیکن جب خانقاہ میں شیخ کی مجلس ہو، تو پھر وہ مجلس خلوت سے اچھی ہے۔ گویا کہ دونوں طرح کی بہتری خانقاہ میں موجود ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی خانقاہ میں یہ قانون تھا کہ عشاء کے بعد خلوت ہوا کرتی تھی۔ اس میں کسی کو دوسرے کے ساتھ ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ انہی میں حضرت مفتی شفیع صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اور بڑے بڑے لوگ سوتے تھے، عشاء کے بعد باتیں کرنے کی اجازت نہیں تھی، آپ بے شک سو جائیں لیکن کسی اور کو پریشان نہ کریں۔ پھر جب شیخ کی مجلس ہوتی تو سب لوگ اپنے اپنے خلوت خانوں سے نکل کے حضرت کی مجلس میں موجود ہوتے تھے۔ یہ خانقاہ کا بنیادی تصور ہے۔ آج کل چونکہ ان چیزوں کی اہمیت کا احساس نہیں ہے، لہٰذا بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہم سب کی اصلاح کر لیں۔ خدا کے بندے جب تک آپ کی اپنی اصلاح نہیں ہوئی، آپ دوسرے کی کیا اصلاح کریں گے۔ اگر خود میرے اپنے ہاتھ گندے ہیں تو میں ان کے ذریعہ سے صفائی کیسے کروں گا! ایسی صورت میں تو صفائی کرنے کے بجائے مزید گندا کر دوں گا۔ اس لئے ہونا یہ چاہئے کہ جب تک اپنی اصلاح نہ ہو تب تک آپ دوسروں کے بجائے اپنی اصلاح پر ہی توجہ دیں۔ خانقاہیں اسی مقصد کے لئے تھیں کہ اس میں انسان کی اپنی اصلاح ہو، پھر جب باہر جائیں تو دوسروں کی اصلاح ہو۔ باہر جانے سے پہلے اتنا انتظام اپنے پاس موجود ہو کہ اگر کچھ گند لگ جائے تو فوراً دوبارہ سے واپس آئے اور اپنے آپ کو صاف کرے۔
یہی مولانا الیاس (رحمۃ اللّٰہ علیہ) فرماتے تھے کہ میں جب میوات گشت کے لئے جاتا ہوں تو اپنے ساتھ صلحاء کی جماعت کو لے جاتا ہوں۔ اس کے باوجود میرے دل پہ اثر ہو جاتا ہے۔ اس اثر کو مٹانے کے لئے میں سہارنپور شریف جاتا ہوں، (وہاں پر اپنی خانقاہ تھی) یا پھر رائے پور شریف جاتا ہوں، (وہاں شاہ عبد القادر رائے پوری (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی خانقاہ تھی) اور یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ یہ خلوت ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اپنی اصلاح، اپنا خیال اور اپنی حفاظت، بہت بڑی بات ہے۔ انسان کو یہ بات خیال میں رکھنا چاہئے ورنہ، نہ اپنی صلاح ہوگی نہ دوسروں کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ