سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 476

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال: 01

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر چار ہزار مرتبہ اور پندرہ منٹ دل پر ’’اللہ اللہ‘‘ محسوس کرنا ہے، اس کو ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے، لیکن دل پر پورا پندرہ منٹ ’’اللہ اللہ‘‘ محسوس نہیں ہوتا، درمیان میں دنیاوی خیالات آتے رہتے ہیں؟

جواب:

بھائی صاحب! خیالات دنیا کے آتے رہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص راستے پر چل رہا ہو تو راستے پر بہت سارے اور لوگ بھی ہوتے ہیں، ان کو تو انسان راستے سے ہٹا نہیں سکتا، لیکن اپنی منزل کی طرف انسان رواں دواں ہوتا ہے، تو اس وجہ سے آپ ان کی پرواہ نہ کریں، بس اپنے کام سے کام رکھیں اور یہ تصور کریں کہ میرا دل ’’اللہ اللہ‘‘ کر رہا ہے، اس طرف دھیان ہی نہ دیں، تو یہ بالکل ٹھیک ہو گا اور اب آپ ساڑھے چار ہزار مرتبہ ’’اللہ اللہ‘‘ زبان سے کریں اور باقی پندرہ منٹ دل پر ’’اللہ اللہ‘‘ محسوس کریں۔

سوال: 02

ان راتوں میں اگر ہم شبِ برات والے اعمال کر لیں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا یا پھر اس کے لئے کچھ خاص اعمال ہیں؟

جواب:

ان راتوں کے بارے میں اتنا فرمایا گیا ہے کہ یہ لیلۃ القدر کی راتوں کی طرح ہیں، اس کا مطلب اجر برابر ہونا نہیں کہ ان کا اجر بھی لیلۃ القدر کے برابر ہو، لیکن جس طرح ان کا اجر بہت زیادہ ہے اسی طرح ان کا بھی بہت زیادہ اجر ہو گا، باقی اس کے لئے کچھ خاص اعمال نہیں ہیں، بس وہی نفلی اعمال ہیں۔ باقی فرض اور واجب تو متعین ہوتے ہیں، ان میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا، لیکن نفلی اعمال میں اضافہ ہو سکتا ہے تو جتنے نفلی اعمال کر سکتے ہیں کر لیں۔ اور نفلی اعمال مختلف قسم کے ہوتے ہیں، نماز کے نفلی اعمال بھی ہوتے ہیں، نفلی نمازیں ہوتی ہیں، نفلی ذکر ہوتا ہے، ذکر بھی نفل ہی ہے، مستحب ہے، اس طرح درود شریف ہے، دعائیں ہیں، قرآن پاک کی تلاوت ہے، یہ سارے اعمال آپ ان میں کر سکتے ہیں اور جس طریقے سے وہاں باری باری کرنے کا بتایا گیا تھا تاکہ تھکاوٹ نہ ہو۔ اس طریقے سے آپ اس میں بھی کر سکتے ہیں۔

سوال: 03

اگر مسلسل روزے نہ رکھ سکے، ایک یا دو رکھے اور بیچ میں چھوڑے تو ٹھیک ہو گا یا مسلسل رکھے؟

جواب:

یہ اگرچہ مستحب ہے لیکن چونکہ اس کا اجر بہت زیادہ ہے، انسان سوچ بھی نہیں سکتا، ایک سال روزے کا اجر کوئی معمولی بات ہے؟ آج کل foreign بھی لوگ جاتے ہیں، اور بیرونی ممالک میں وہ سروس کرنے کے لئے بھی جاتے ہیں تو دس گناہ سے زیادہ تنخواہ میں نے کہیں بھی نہیں دیکھی، اور دس گناہ سے زیادہ تنخواہ کہیں ہوتی بھی نہیں، تو اس کے لئے لوگ کتنے جتن کرتے ہیں، کتنی سفارشیں کرتے ہیں اور کتنی منتیں اور کتنی کوششیں کرتے ہیں، پھر کبھی اس میں کامیابی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ تو یہاں پر ایک دن کا ایک سال کے برابر اجر یعنی تین سو پینسٹھ گنا اجر ہے۔ پتہ نہیں پھر کیوں غفلت ہے! اصل میں بات یہ ہے کہ یہ یقین اور ایمان والی بات ہے کہ انسان کو اگر معلوم ہو کہ وہاں کے اجر کی حیثیت کیا ہے، تو پھر ذرا معلوم ہو جائے کہ مجھے اس کو چھوڑنا چاہیے یا چھوڑنا نہیں چاہیے؟ ترغیب کے طور پر کہہ رہا ہوں، یہ کوئی لازمی طور پر نہیں کہہ رہا، کیونکہ واجب نہیں ہے، اگر کوئی نہ رکھے تو گناہ کوئی نہیں، لیکن اتنا بڑا اجر اگر کوئی چھوڑ دے تو اس پر حیرت بھی ہوتی ہے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا رمضان شریف میں قرآن پاک کے ساتھ ایسا شغف ہوتا تھا کہ قرآن شریف ہی کی تقریبا ساری رات تلاوت ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ایک مہمان آئے ہوئے تھے جو عالم تھے، آٹھ رکعات کے بعد جو وقفہ ہوتا تھا اس میں حضرت نے پوچھا کہ وہ مہمان کدھر ہیں؟ تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو سو رہے ہیں تو حضرت کی زبان سے بے ساختہ نکلا عجیب ذوق ہے! اس کے بعد کچھ نہیں فرمایا، بس صرف زبان سے بے ساختہ نکلا عجیب ذوق ہے، مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے مہینے میں سونا کیسی عجیب بات ہے، تو حضرت کے ہاں بالکل ایسی ہی خواہش تھی، ہماری بھی یہ خواہش ہے کہ جو ہمارے سلسلے کے لوگ ہیں کم از کم ان کا ذوق ہمارے سلسلے جیسا تو ہو، حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق رمضان شریف میں روزوں کے لئے کیسا تھا؟ آپ اندازہ کریں کہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ حرمیں شریفین گئے تھے تو پورا مہینہ رمضان شریف کا ایسے گزارتے کہ سحری کے وقت جاتے تھے مسجد عائشہ، وہاں سحری کرتے تھے، پھر وہاں سے احرام کی نیت باندھتے اور یہاں پر آتے اور نماز پڑھتے، نماز کے بعد عمرہ کرتے، عمرہ کے بعد سر منڈھاتے، پھر اس کے بعد آرام فرماتے، روزانہ ایک عمرہ کرتے تھے۔ آخر ذوق ہے۔ ہمارے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ حال تھا، اسی طرح ہمارے اور اکابر ہیں، ان سب کا ما شاء اللہ یہی ذوق تھا، یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل یہ ذوق بہت کم ہو رہا ہے، ظاہر ہے جتنی انسان کو طلب ہو تو اتنا ہی اللہ پاک دیتے ہیں تو یہ بہت اہم دن اور بہت اہم راتیں ہیں، ان میں کوشش کریں کہ کچھ نا کچھ کما لیں، آپ ایک روزہ بھی نہ رکھیں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اصولی بات تو یہ ہے، کیونکہ یہ مستحب ہے لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ سارے روزے رکھوں، کیونکہ اس سے محرومی تو بڑی محرومی ہے، چھوٹی محرومی تو نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال: 04

السلام علیکم حضرت جی! آپ کے اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے، محترم حضرت جی! جو وظیفہ ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا الله‘‘ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُو‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’حَق‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اللہ‘‘ پانچ سو مرتبہ اور مراقبہ پانچ منٹ کے لئے، لطیفہ قلب اور لطیفہ روح دس منٹ کے لئے لطیفہ سر، آپ نے دیا تھا، ان کو تیس دن کیا الحمد لله مکمل ہو گئے اور ’’اللہ اللہ‘‘ محسوس ہو رہا ہے، لیکن مراقبہ کے دوران کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ نیند یا اونگھ آ جاتی ہے، اس کے لئے آئندہ کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

في الحال یہی کریں کہ جو دو سو، چار سو، پانچ سو اور چھ سو یہ تو جاری رکھیں، باقی قلب کے اوپر پانچ منٹ اور روح کے اوپر بھی پانچ منٹ اور سر کے اوپر بھی پانچ منٹ کریں، اب ان شاء اللہ آگے بڑھیں تو خفی کے اوپر دس منٹ کر دیں یعنی چار لطائف ہو گئے، یہ کر لیں اور نیند کا حل یہ ہے کہ اس سے پہلے کوئی چائے وغیرہ پی لیا کریں، fresh ہو جایا کریں تاکہ نیند نہ آئے، ویسے یہ اس کا side effect ہے، لیکن اس سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔

سوال: 05

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ابھی آپ سے بیٹیوں کے بارے میں بات ہوئی تھی، الحمد للہ با قاعدگی سے نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہیں، روزانہ ہم عصر کے وقت چھ ہزار درود پاک کا ورد کرتے ہیں اور تقریباً فی بندہ ایک ہزار دفعہ پڑھتا ہے اور جو بچی ہے، وہ بچیوں میں دونوں سے بڑی ہے، وہ تیس دفعہ درود تنجینا اور ایک سو بیالیس مرتبہ ’’یَا سَلَامُ‘‘ کا ورد بھی کرتی ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ مزید تو فیقات سے نوازے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصیب فرمائی ہے، بچیوں کی تربیت بہت اہم ذمہ داری ہے اور ان کو اس رخ پر لگانا کہ ان کا دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگ جائے یہ بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال: 06

Sir, let me tell you one more thing, my duration was listed for five five minutes zikr and phase. Right now, I have managed my time. One more thing, my temperature stays warm and this has been happening for so long, and I have noticed during checking. Flana used to check me saying that you are warm. But when she checked my temperature through the thermometer I was always normal.

جواب:

اصل میں آپ نے یہ جو temperature والی بات فرمائی ہے یہ تو خیر medical problem ہے، اس میں ہم سے متعلق کوئی بات نہیں ہے، البتہ آپ نے ما شاء اللہ جو یہ ذکر کا بتایا ہے، تو یہ پانچ پانچ منٹ جو ذکر آپ کر رہے ہیں، اس کو آپ دس دس منٹ کر لیا کریں اور مراقبہ فیض جو right now آپ کر رہی ہیں اس کو آپ جاری رکھیں تاکہ یہ صحیح طرح ہونے لگے۔

سوال: 07

آج کل ہمارے بہت بڑے بڑے اللہ والے فوت ہو رہے ہیں۔

جواب:

یقیناً اس کا بڑا دکھ ہے اور سب کے لئے ایک پریشانی کا مسئلہ ہے لیکن بہر حال ہم مسلمان ہیں، مسلمانوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، ہر چیز کو ہم اس direction میں لیں گے، جس direction میں ہمیں فائدہ ہو، نہ غم ہمارا مطلوب ہے نہ خوشی ہمارا مطلوب ہے، غم سے بھی اسی کو پانا ہے، اور خوشی سے بھی اسی کو پانا ہے، یعنی ہمارا بنیادی مقصد اللہ کو پانا ہے، اس وجہ سے ہمارے شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے داماد حضرت سید سلیمان رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے تو اس پر بھی کسی نے comment کیا ہے کہ دامادِ شیخ بھی چل بسے۔ تو یقیناً دکھ کی بات ہے، لیکن یہ اس رخ پر لانے کے لئے ہے تاکہ ہمارا مسلمانوں کا جو شایان شان طریقہ ہے وہ جاری رہے۔ اس پر میں نے کچھ غزل بھیجی ہے، وہ یہ ہے:

جو بھی آیا وہ جانے کے لئے آیا ہے

کس نے ہمیشہ رہنے کا اذن پایا ہے

لمحہ لمحہ یہاں جو ہمارا گنا جاتا ہے

اتنے ہی ہوں گے جو ساتھ لے کے کوئی آیا ہے

(ایک لمحہ بھی بڑھ نہیں سکتا، جتنا کوئی لایا تو اتنا ہی ہو گا)

اس حقیقت کو خوش دلی سے قبول کرنا ہے

صبر اس پر اس کے زخموں کے لئے پھایا ہے

(پھایا وہ جو پٹی ہوتی ہے)

جو طریقہ ہے بزرگوں کا اس کو چھوڑنا نہیں

چاہیے وہ چھوڑ دیں ہمیں یہ ہمیں سکھایا ہے

(یعنی بزرگ ہم سے اٹھتے جا رہے ہیں تو ہم ان کا طریقہ نہ چھوڑیں، ان کا طریقہ ہم نے اپنانا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کب کے دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ظاہر ہے ان کا طریقہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ یہ سارے ہمارے اکابر ہیں، دنیا سے چلے گئے ہیں، لیکن اپنا اپنا طریقہ ہمارے لئے چھوڑ گئے تو ہم لوگ ان کے طریقوں سے استفادہ کرتے ہیں۔

شر اور فتنے سے ہر ایک دور کے بچنا ہے شبیر

ہے کامیاب جس نے شر نفس کا دبایا ہے

جو بھی آیا ہے وہ جانے کے لئے آیا ہے

کس نے ہمیشہ رہنے کا اذن پایا ہے

سوال: 08

السلام علیکم حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، الحمد للہ ذوالحجہ کے روزے رکھ رہا ہوں۔ میری گھر والی کے ساتھ معاملات تو ویسے ہیں کل میں نے اس کو منانے کی پوری کوشش کی اس کے بھائی کے سامنے بیٹھ کر سب آرام سے بتایا، کوئی غلطی ہو تو معافی مانگتا ہوں اور اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں معاف کرتا ہوں، چاہے معافی مجھ سے مانگو یا نہیں، میں تمہیں اللہ تعالی کی خاطر معاف کرتا ہوں۔ حضرت مجھے اپنے اندر احساس کمتری اور کنجوسی والی بیماری محسوس ہوتی ہے، اس حوالے سے راہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، میں خوش ہو گیا، کوئی تو خبر دینے والا ہے کہ روزے رکھ رہا ہوں ماشا اللہ۔ آج کل ایسے لوگ بھی کم ہیں۔ یہ سب باتیں اللہ کی خوشنودی کے لئے ہیں، اللہ قبول فرمائے۔

اور جو آپ نے گھر والوں کے ساتھ معاملہ ڈیل کیا تھا، بہت اہم بات ہے اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے، بہت بڑی بات ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرتی نظام اسی اکائی سے وابستہ ہے، جہاں جہاں خیر ہے تو وہ معاشرے کی خیر کا سبب ہے، جہاں جہاں شر ہے تو وہاں معاشرے کے شر کا سبب یہی بن رہا ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ تو بہت اچھی بات ہے، اس میں انسان طریقے سے چلے اور کھلے دل کے ساتھ چلے، کیونکہ بعض دفعہ جو اس کی consequences ہوتے ہیں سختی کے۔ ان کی وجہ سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، پھر انسان برداشت نہیں کر سکتا، جس سے مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، لہذا آپ نے بڑا اچھا کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے اندر جو احساس کمتری ہے یا کنجوسی ہے یہ دو واقعی بیماریاں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، احساس کمتری تو ایک نفسیاتی بیماری ہے لیکن نفسیاتی بیماری ایک روحانی بیماری کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کے ساتھ attached ہے، وہ روحانی بیماری قابل ذکر ہے اور قابل علاج ہے وہ روحانی بیماری کیا ہے؟ وہ دنیا کی محبت ہے، جس شخص میں دنیا کی محبت نہ ہو اس کو احساسِ کمتری نہیں ہو سکتا، دنیا کی محبت اس کی جڑ ہے، مثال کے طور پر حسن ہے، یہ بھی دنیا ہے، مال ہے یہ بھی دنیا ہے، صحت ہے یہ بھی دنیا ہے، سرداری ہے یہ بھی دنیا ہے، یہ سب دنیا کی چیزیں ہیں، اب اگر میں اپنے اندر احساس کمتری محسوس کروں کہ دیکھو یہ سردار ہے، میں سردار نہیں ہوں، یہ احساس کمتری ہے، یہ دنیا کی محبت ہے۔ پیسے میرے پاس کم ہیں دوسرے کے زیادہ ہیں، یہ دنیا کی محبت ہے۔ صحت فلاں کی اچھی ہے میری اچھی نہیں، یہ دنیا کی محبت ہے، فلاں زیادہ حسین ہے میں کم حسین ہوں، یہ دنیا کی محبت ہے۔ الغرض یہ ساری باتیں دنیا کی طرف راجع ہیں، لہذا اگر دنیا کی محبت دل سے نکل جائے تو احساس کمتری خود بخود فنا ہو جائے، تو اس وجہ سے دنیا کی محبت کا علاج کرنا پڑے گا۔ بخل بھی یہی چیز ہے اس کا مطلب ہے دونوں کا روٹ ایک ہے وہ بھی دنیا کی محبت ہی ہے، مال کی محبت ہے اور مال کی محبت بھی دنیا ہی کی محبت ہے، لہذا اگر دنیا کی محبت ختم ہو جائے اور کم ہو جائے اور کنٹرول ہو جائے تو پھر ان شاء اللہ یہ دونوں بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔ بخل کا علاج تو اس طرح کر لیں کہ مال اپنے ہاتھ سے خیرات کے طور پر مستحق لوگوں کو دیتے رہیں، اس سے ان شاء اللہ دل کھلے گا اور جہاں تک احساس کمتری کا تعلق ہے تو اگر آپ کو احساس کمتری کسی بے ایمان کی وجہ سے ہے، یعنی اس کے پاس فلاں چیز ہے تو میرے پاس بھی ایسا ہو۔ جیسے انگلینڈ میں بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں، اچھی پوسٹوں پر ہوتے ہیں، ایسی صورت میں یہ کریں کہ ایمان کی دولت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کتنی بڑی دولت اللہ پاک نے مجھے دی ہے، اگر یہ نہ دیتا اور یہ دیتا تو کیا ہوتا، کچھ بھی نہیں تھا۔ اس طرح اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اللہ پاک نے جو سلسلے میں شامل ہونے کی دولت عطا فرمائی ہے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں، نمازوں کی توفیق بھی اللہ پاک دیتے ہیں اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں، یعنی اپنا رخ اللہ کی طرف موڑو اور آخرت کی طرف موڑو تو دنیا سے انسان کا دل بھر جائے گا اور پھر ان شاء اللہ یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔

سوال: 09

السلام علیکم حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات شریفہ میں جو رؤیتِ باری تعالی کے علوم بیان ہوئے ہیں ان میں بظاہر کچھ اختلاف نظر آتا ہے اس کی تشریح فرمائیں، اس اختلاف کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ دفتر اول مکتوب نمبر 283 میں ارشاد فرماتے ہیں آپ نے دریافت کیا تھا کہ اہل السنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ حق تعالی کی رؤیت دنیا میں نہیں ہے حتی کہ اکثر علماء نے شب معراج میں بھی نبی کریم ﷺ کی رؤیت کا انکار کیا ہے، حجۃ الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحیح یہی ہے کہ رسول ﷺ نے شب معراج میں اپنے رب کو نہیں دیکھا اور تم نے یعنی مجدد الف ثانیؒ نے اپنے رسائل میں شب معراج میں آپ ﷺ کی رؤیت کے بارے میں دنیا میں واقع ہونے کا اعتراف کیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ شب معراج میں آپ ﷺ کو رؤیتِ باری تعالی دنیا میں واقع ہوئی ہی نہیں، بلکہ آخرت میں واقع ہوئی کیونکہ آپ ﷺ اس رات کو جب مکان و زمان کے دائرے سے باہر پہنچ گئے اور تنگی مکان سے نکل گئے تو ازل و ابد کو آن واحد میں پایا ابتدا اور نہایت کو ایک نکتہ میں متحد پایا، اہل بہشت کو جو ہزار سال کے بعد بہشت میں جائیں گے ان کو دیکھ لیا، عبد الرحمن بن عوف کو جو فقراء صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پانچ سو سال بعد بہشت میں جائیں گے، ان کو دیکھا کہ اس مدت کے گزرنے کے بعد بہشت میں آ گئے ہیں اور آپ ﷺ نے ان سے اتنے توقف کی وجہ دریافت کی۔ پس وہ رؤیت جو اس مقام میں واقع ہوئی وہ آخرت کی رؤیت ہے اور وہ اس اجماع کے منافی نہیں ہے جو دنیا میں رؤیت کے عدم قوع پر ہوا ہے، اور اس کو رؤیتِ دنیاوی کہنا مجاز کے طور پر ہے اور ظاہر پر مبنی ہے۔ وَاللہُ تَعَالیٰ اَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الاُمُورِ کِلِّہَا۔

دوسری طرف مجدد الف ثانیؒ دفتر دوم مکتوب نمبر 51 میں اسی موضوع کے متعلق ایک حدیث شریف کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ: اور بالمشافہ کلام سے یہ بات لازم نہیں کی کہ متکلم (کلام کرنے والا) سامع (سننے والے کو) ظاہر طور پر نظر بھی آئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سننے والے کی آنکھیں کمزور اور ضعیف ہوں جو متکلم کے انوار کی درخشندگی کو برداشت کرنے سے قاصر ہوں، جیسے آپ ﷺ نے رؤیت باری تعالیٰ کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ‘‘ (مسلم شریف، حدیث نمبر 461) ’’وہ نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں‘‘ نیز بالمشافہ گفتگو میں بھی شہودی حجابات اٹھ جاتے ہیں نہ کہ وجودی۔ بس سمجھ لو ایک مکتوب شریف اس قسم کا بھی ہے کہ مشائخ میں سے کسی نے اس کو بیان نہیں کیا۔ والسلام۔ آپ ﷺ کی معراج شریف میں رؤیت باری تعالی کے بارے ان دونوں مکتوبات شریف میں بظاہر متضاد باتیں معلوم ہوتی ہیں، ان کی وضاحت فرمائیں۔

دفتر سوم کے مکتوب نمبر 44 میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے آخرت میں رؤیتِ باری تعالی کے سوالات کے جوابات دیئے ہیں جو مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں، اسی موضوع کی تفصیل حضرت تھانویؒ نے اپنے ایک وعظ ’’تقلیل الکلام‘‘ میں بیان فرمائی ہے، جو مکتوبات شریفہ کے مقابلے میں آسان لگ رہی ہے، اگر اس سے کچھ تشریح فرمائیں تو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے، وعظ کا متن یہ ہے: عارفین نے فرمایا کہ دو جیزیں ایسی ہیں کہ جنت میں بھی منکشف نہیں ہوں گی، ایک مسئلہ قدر، دوسرا مسئلہ کُنْہِ ذات۔ اصل میں مسئلہ قدر بھی ذات ہی کی طرف راجع ہے، تو جب کُنہِ ذات کا انکشاف آخرت میں نہ ہو گا تو مسئلہ قدر کا انکشاف بھی نہیں ہوگا۔ اور یہ مسئلہ عدم ادراک کُنہِ ذات حدیث میں بھی مذکور ہے، ملا حسن کی اصطلاحات میں مذکور نہیں، اس لئے طلباء کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، کیوں کہ یہ تو ہر بات کو اصطلاحات معقولات سے سمجھنا چاہتے ہیں، مگر حدیث کی اصطلاحات ملا حسن کی اصطلاحات سے جدا ہیں۔ سنئے! حضور ﷺ تجلی جنت کے بارے میں فرماتے ہیں ’’لَا یَبْقٰی عَلٰی وَجْہِ الاَردَاءِ‘‘ اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ بجز کُنہِ ذات مخفی ہونے کے وہاں اور کوئی حجاب نہیں رہے گا، حضور ﷺ کنہ ذات کو کبریاء سے تعبیر فرمایا ہے: کیونکہ کبریاء اور عظمت اس کے لئے لازم ذات ہے اور کُنہِ ذات کا مخفی رہنا یہ اعلیٰ درجے کی عظمت ہے تو یہ لازم اس سے منفک ہے، اس لئے وہاں دیدار تو ہو گا، اور رب تعالیٰ بے پردہ اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے چاند کھلا ہوا ہو، مگر ایک پردہ جلالِ کبریاء کا باقی رہ جائے گا جس کی وجہ سے ہم احاطہ حسن الہی کا نہ کر سکیں گے کیونکہ وہ غیر محدود ہے اور ہم محدود، اور محدود لا محدود کا احاطہ نہیں کر سکتا، اس لئے حجاب باقی رہے گا، اور یہ راز تو تحقیقی ہے اور ایک راز عاشقانہ ہے وہ یہ کہ اگر کوئی حجاب باقی نہ رہا اور خدا کا حسن بھی محبوبانِ دنیا کی طرح محدود ہوتا تو چند روز میں جی بھر جاتا جیسے محبوبانِ دنیا سے جی بھر جاتا ہے کیونکہ ان کا حسن محدود ہوتا ہے اور ہمارا تمتع بھی محدود ہوتا ہے، اگر خدا کا حسن بھی ایسا ہی ہوتا اور غیر محدود نہ ہوتا تو لوگ جنت میں گھبرا کر وہاں سے نکلنے کی تمنا کرتے۔

جواب:

ما شاء اللہ! بظاہر تو اس میں مجھے کوئی بات نظر نہیں آ رہی کہ کوئی لمبی چوڑی بات کر سکیں، کیونکہ اختلافی بات ہے، اختلاف ہوتا ہے، صحابہ کرام میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے تو ہم لوگ اس میں کہاں بول سکتے ہیں، البتہ حضرت مجدد صاحبؒ کا نقطۂ نظر میں بتا سکتا ہوں، اور میں عرض کر سکتا ہوں کہ ان کا نقطۂ نظر کیا ہے اور حضرت تھانویؒ کا جو نقطۂ نظر ہے وہ بھی عرض کر سکتا ہوں، مجدد صاحبؒ تو خود اس بات کے قائل ہیں کہ آخرت میں رؤیتِ بصری ہو گی اور اس کے با قاعدہ زبردست دلائل دیتے ہیں اور جو مخالفین ہیں ان کو کافی جھاڑ پلاتے ہیں۔ اور اس حوالے سے بھی حضرت کی رائے بالکل واضح ہے کہ دنیا میں بھی رؤیتِ بصری نہیں ہو سکتی، صرف شبہ مثال تک بات جا سکتی ہے اور اب آپ ﷺ کی بات آ گئی، چنانچہ با قاعدہ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ یہ صرف آپ ﷺ کا مقام ہے کہ آپ ﷺ عالمِ آخرت میں داخل ہو گئے اور عالمِ آخرت میں جا کر مشاہدہ کیا۔ اس طرح جیسے کہ آخرت میں ہو گا، اس وجہ سے اس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، یعنی دنیا کے اندر اس کا اطلاق ہو گا، اس لحاظ سے حضرت مجدد صاحبؒ کا نقطۂ نظر تو یہی نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ کو معراج شریف میں دیدار ہوا ہے، لیکن اس طرح نہیں ہوا جس طرح یہاں دنیا میں کہا جائے، دنیا کی بات اور ہے وہاں کی بات اور ہے، تو مقامِ آخرت میں جا کر جو چیزیں وہاں ہونی ہیں، وہاں ان کو ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ ثبوت کے طور پر یہ باتیں بتائی بھی ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے اور دوسرے حضرات نے ساری تفصیل بتائی کہ اس طرح بعض اس وقت کے واقعات وہ بعد کے واقعات کے طور پر نظر آئے تو اس لحاظ سے یہ بات تو الگ ہے۔ اور حضرت تھانویؒ نے جو بات کی ہے وہ بالکل صاف بات ہے کہ واقعتًا کُنہِ ذات اور تقدیر کا ادراک نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تقدیر میں قدرت کی لا محدودیت ہے اور کُنہ ذات میں اللہ تعالی کی خود اپنی ذات کا معاملہ ہے، لہذا لا محدود کو محدود نہیں دیکھ سکتا اور اس کا ادراک نہیں کر سکتا، البتہ یہ تو نہیں کہا گیا کہ پورا احاطہ ہو گا، ہاں رؤیتِ بصری میں ہو گی۔ لہذا کُنہ ذات بھی نہیں ہو سکتا، تقدیر کا معاملہ بھی نہیں ہو سکتا، یہ دونوں ایک ہیں، البتہ رؤیتِ بصری یقینی ہے ان شاء اللہ ایسے ہی، بلکہ حدیث شریف میں جتنے یقین کے ساتھ فرمایا گیا کہ جیسے تم سب لوگ چاند کو دیکھتے ہو اور ایک دوسرے کے لئے مزاحم نہیں ہوتے، تو اس طرح اس رؤیتِ بصری سے بھی کوئی مزاحم نہیں ہو گا، تو رؤیتِ بصری میں وہاں پر تو کوئی اختلاف نہیں، باقی جہاں تک اس کی حقیقت کی بات ہے کہ وہ دیدار کس طرح ہوا تھا اس میں صحابہ کا بھی اختلاف ہے، تو جس چیز میں صحابہ کا بھی اختلاف ہو اس میں کوئی حتمی رائے تو قائم نہیں کر سکتے، بے شک ہم ان میں سے کسی ایک کی رائے کے ساتھ ہوں، بالآخر ’’وَ اللہُ أعْلمُ بِالصَّوَابِ‘‘ کہنا پڑتا ہے اور حضرت نے بھی کہا ہے ’’وَ اللہُ أعْلمُ بِالصَّوَابِ‘‘۔ بات اس پر ختم ہو گئی، اب اصل حقیقت تو اللہ تعالی کو پتا ہے، لہذا زیادہ تفصیلی بات تو اس پر نہیں کر سکتے۔

سوال: 10

Sheikh Assalam o alaikum,

You had asked me to do Muraqaba Aabdiyat to pray two rakat after all aamal and visualize that each cell of my body is prostrating to Almighty Allah Subhan-o-Taala. Subsequently, I am able to retain this feeling and some of the salat.

جواب:

Mashallah! Please continue it. Insha Allah Alla will help you a lot and try to extend it to more salah insha Allah this month.

سوال: 11

Sheikh Assalam o alaikum! I have been doing the Muraqiba of Allah Allah on the first two points for ten minutes and the third point for fifteen minutes. During the last one month, I just missed one day of muraqabah. My feelings are somewhat the same as the previous month.

جواب:

Ok. So now, if you are feeling Allah Allah on all these three points then extend it to a fourth point that you should do ten minutes muraqabah on the three points; i.e., on Latifa-e-Qalb, Latifa-e-Rooh and Latifa-e-Ser and fifteen minutes on Latifa-e-Khafi۔

سوال: 12

Sheikh Assalamualaikum! I have been doing the Muraqaba of Allah Allah on the first point for five minutes and the third point for ten minutes during the last one months. The feelings are better than the previous month.

جواب:

So, ok Insha Allah it’s very good. Now you can if you feel Allah Allah at all these points; i.e, these three points then you can extend it to the fourth point. Do five minutes at all these three points, first Latifa Qalab, Latifa-e-Rooh, Latifa-e-Ser and the fourth point is Latifa-e-Khafi for ten minutes.

سوال: 13

Sheikh Assalam o alaikum I have been doing Muraqabah of ﴾فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴿ for fifteen minutes after completing other aamal despite very bad health. I have been able to do it non-stop. The feelings are the same as the previous month.

جواب:

Ok,Masha Allah! It’s very good if you have done it, I mean ﴾فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴿ on the qalab. Now shift it to the Latifa-e-Rooh on which you will consider all Sifat-e-Sabootia which means Allah sees and speaks etc. All these eight sifaats; you can ask Yousuf and he will tell you about these eight sifaat. You will think that the phase of these eight Sifaat-e-Sabootia is coming from Allah Subhan-o-Ta’ala to the heart of Rasool-u- Allah SWA and from there to the heart of sheikh and from there to your Latifa-e-Rooh. You should do it for one month insha Allah.

سوال: 14

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ذوالحج کی قربانی کے لئے بعض جگہوں پر metro cash and carry وغیره سے جانور تول کے دئیے اور لئے جاتے ہیں، جیسے بکرا سات سو پچاس روپے کلو، کیا اس طرح قربانی کرنا مناسب ہے کہ بھاؤ تاؤ کر کے قربانی کا جانور خریدا جائے؟

جواب:

مجھے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا ہے کہ آپ جس طریقے سے بھی خریدیں، کیونکہ آپ نے جانور خوبصورت چننا ہے اس کا جو بھی rate ہو گا تو rate as a whole کا بھی ہوتا ہے، تول کا بھی ہوتا ہے، لہذا اس سے غرض نہیں ہے کہ آپ کیسے لیتے ہیں۔ تول کر بھی آپ لے سکتے ہیں اور as a whole بھی لے سکتے ہیں، عموماً as a whole لوگ لیتے ہیں، لیکن جرمنی میں بغیر تولے نہیں ملتا تھا تو ہم نے تول کے لیا تھا، لہذا آپ کے لئے اس کو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر آپ کی range میں ہے تو ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے ان شاء اللہ۔

سوال: 15

السلام علیکم حضرت جی! آپ کی اجازت سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، میں نے دس سال کی عمر میں حفظِ قرآن شروع کیا تھا اور چودہ سال کی عمر میں مکمل کیا تھا، لیکن مجھے اس وقت بھی قرآن کریم پختہ حفظ نہیں ہوا تھا البتہ جو پارہ یاد کر کے سناتی وہ یاد ہوتا تھا کہ کبھی تو ایک غلطی بھی نہ ہوتی، لیکن جیسے جیسے منزل آگے سپاروں میں پہنچ جاتی تو پھر میں بھول جاتی، لیکن تب اتنا یاد تھا کہ کوئی تلاوت سنتی تو پتا چل جاتا کہ کون سی صورت یا کون سا سپارہ ہے، سوائے درمیان کے دسویں پارے کے۔ اب میری عمر تینتیس سال ہے اس دوران میں نے بار بار کوشش کی کہ مجھے مکمل یاد ہو جائے لیکن ناکام رہی پھر شادی ہو گئی، میں نے اپنے شوہر کو قرآن سنانا شروع کیا لیکن پھر وہی صورتحال رہی جو سپارہ سناتی وہ اچھی طرح یاد ہو جاتا، لیکن دو تین دن کے بعد وہ مجھے پھر دوبارہ یاد کرنا پڑتا اس کے بعد بھی ایک دو بار کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ اب میں روزانہ ناظرہ پڑھتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اب میرا ذہن پہلے جیسا نہیں رہا کہ مکمل یاد کر سکوں جو کچھ سپارے یاد ہیں وہ بھی تراویح میں پڑھ لیتی ہوں، لیکن مجھے مکمل یاد نہیں۔ اس مسئلے میں میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھا سوال کیا ہے، بہت فکر والا سوال ہے۔ اصل میں قرآن کا یاد رکھنا لازم ہے، یاد کرنا لازم نہیں، یاد کرنا مستحب ہے۔ چنانچہ حضرت تھانویؒ کا یہ طریقہ تھا کہ جو لوگ صحیح یاد نہ کر سکتے تھے تو ان کو کہتے تھے تم مکمل حفظ نہ کرو، یعنی ٹیسٹ لے لیتے، تو اگر پتا چل جاتا کہ ان کو اچھی طرح یاد نہیں ہو سکتا تو کہتے اور بھی دین کے کام ہیں وہ کرو۔ لیکن اب آپ نے یاد کر لیا ہے، اللہ نے آپ کو ایک نعمت عطاء فرمائی ہے۔ اب کیسے اس پر عمل ہو کہ یہ حکم بھی نہ ٹوٹنے پائے کہ یاد نہ رہے اور اس سے بچنا اور آپ کی اپنی جو مشکل ہے وہ بھی ہے، تو ابھی آپ نے خود ایک بات کی ہے کہ میں ناظرہ پڑھتی ہوں تو میں اس کے ساتھ تھوڑی سی amendment کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ کام ٹھیک ہو جائے گا، آپ یوں کریں کہ اس کو ناظرہ نہ کہیں یاد کرنا ہی کہیں، مثال کے طور پر آپ ایک ہفتہ پہلا پارہ یاد کریں اور پھر ایک ہفتہ اس کو پڑھتی رہیں، پھر دوسرا پارہ یاد کریں، پھر اس کو پورا ہفتہ پڑھتی رہیں، پھر تیسرا پارہ یاد کریں اور اس کو پورا ہفتہ پڑھیں، اس طریقے سے تیس پارے پورے ہو جائیں تو اس کو دوبارہ شروع کریں، اب میں آپ کو یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ یاد ہو جائے گا لیکن آپ مسلسل یاد کرنے والی ہوں گی چنانچہ جیسے student concession ہوتا ہے وہ student concession آپ کو نہیں ملے گا کہ آپ مسلسل سٹوڈنٹ رہیں گی، تو آپ کم از کم قرآن بھولنے والوں میں شمار نہیں ہوں گی اور بھلا دینے والی بات میں نہیں ہو گی۔ ایک پارہ میں نے آپ کو اس لئے کہا ہے کہ وہ آپ آرام سے manage کر سکتی ہیں، کیونکہ حافظِ قرآن چاہے جیسا بھی ہو اس کو قرآن یاد ہو تو اس کو ایک پارہ یاد کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہوتا اور پھر اس کو ایک ہفتہ پورا پڑھنا، یہ بھی مشکل نہیں ہوتا، تو آپ کے معمولات میں یہ شامل ہو جائے گا ان شاء اللہ اور پھر آپ اس کو ناظرہ نہ کہیں آپ اس کو یاد کرنا ہی کہیں اور اپنے آپ کو student سمجھیں اور عمر بھر یہ کریں۔ تو اس بہانے آپ کے ما شاء اللہ کتنے قرآن ہو جائیں گے آپ اندازہ نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ آپ کا قرآن یاد کرنے میں جتنا ہو گا وہ بھی ہو گا اور پھر بار بار جو پڑھنا ہو گا وہ بھی شامل ہو گا اور پھر جب تیس تاریخ کے بعد دوبارہ شروع ہو گا تو پھر الحمد للہ آپ باقی لوگوں سے کافی آگے ہوں گی اور جرم میں بھی نہیں ہوں گی، اس طریقے سے کریں تو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

سوال: 16

Respected !حضرت شاہ صاحب

This is Falan from Abu Dhabi. I am praying for your good health. I have been stuck here in Ireland for the last five months instead of weeks in the normal situation due to Covid-19. But alhamdulillah I am safe from virus and doing my job and I am very much regular in daily zikr and tasbeehat, دعاؤں کی درخواست

جواب:

اللہ جل شانہ آپ کو استقامت نصیب فرمائے اور بلاؤں سے حفاظت فرمائے۔

سوال: 17

السلام علیکم شاہ صاحب آپ نے فرمایا تھا کہ ہم جو عبادات کرتے ہیں وہ یہ سوچ کر کرنی چاہئیں کہ ہم اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ اس طرح میں جو بھی نیک عمل کرتی ہوں تو کوشش کرتی ہوں کہ یہ سوچ کر کروں کہ میں اللہ کے لئے کر رہی ہوں، اب جب میں گھر کا کوئی کام بھی کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میں اللہ کے لئے کر رہی ہوں ایسی خدمت سے اللہ خوش ہوتے ہیں، جب میں اس طرح کرتی ہوں تو میں نے ایک نئی بات نوٹ کی ہے کہ میں کتنا بھی کام کروں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم۔ شاہ صاحب! کیا میری سوچ ٹھیک ہے کہ گھر کا کوئی چھوٹا سا کام بھی کرتے ہوئے یہ نیت کرنا کہ یہ کام میں اللہ کے لئے کر رہی ہوں؟

جواب:

بالکل آپ کی سوچ ما شاء اللہ سو فیصد ٹھیک ہے کیونکہ حقوق العباد حقوق اللہ کے حوالے سے ہیں، مثال کے طور پر میں اپنے والد کی خدمت کر رہا ہوں تو میں اگر یہ سوچوں کہ میں اللہ کے لئے کر رہا ہوں تو کیا یہ غلط ہو گا؟ کیونکہ والد کی خدمت کا حکم کس نے مقرر کیا ہے؟ اللہ پاک نے مقرر کیا ہے۔ یہی بات والدہ اور بہن بھائیوں کی خدمت میں بھی ہے، اصل میں حقوق اللہ اللہ پاک نے مقرر کئے ہیں لہذا جو بھی اس کو اللہ پاک کے لئے کر رہا ہے تو اللہ تعالی اس کا اجر بھی دیتے ہیں اور اللہ پاک قبول بھی فرماتے ہیں تو ما شاء اللہ آپ بالکل صحیح کر رہی ہیں، اللہ پاک مزید توفیقات سے نوازیں۔

سوال: 18

Alhamdulillah I have come to completion of zikr which you had given to me for one month:

200 times ‘‘لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ’’

400 times ‘‘لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُو’’

500 times ‘حَق’’

And اللہ اللہ

100 ‘‘ times ’’

and besides this Alhumdulillah there was no day which I have missed my zikr. I also read the following salah; Ishraq, Salah-Tul-Dua, Salah-Tul-Tawabin, Surah Yaseen, Surah Waqiah daily. The actual day of completion is Friday. Alhamdulillah through Hazrat’s tawajjuh, the thoughts about people have decreased. Sometimes I cannot control my tears from falling. When I make zikr, I always ponder over my past and thank Allah for what Allah has given to me, which is also to realize that I own nothing, even my own actions. It is not because of me but it is because of Allah Subhan-u-Taallah. So I am ashamed to be proud and have pride about something which in reality is not for me. I humbly request for dua and twaju۔

:جواب

مَا شَآءَ اللہ Alhamdulillah, Allah has granted you toufique to do these amal. So may Allah سُبحَانَہٗ تَعَالیٰ grant you more tufiquat doing good aamal especially itteba-e-sunnah! As far as zikar is concerned, now continue this,

200 times ‘‘لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ’’

400 times ‘‘لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُو’’

and instead of 400 times ‘‘حَق’’ you should do now 600 times ‘‘حَق’’ and 100 times ‘‘اللہ اللہ’’ and the rest is the same. I pray for you!


سوال: 19

السلام علیکم محترم شیخ صاحب! مجھے دس منٹ دل کا مراقبہ اور ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر 3300 مرتبہ دیا گیا تھا، 15 منٹ لطیفہ روح کا مراقبہ دیا گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سب ذکر ایک ساتھ کرنے ضروری ہیں، یا ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ ذکر ایک وقت میں ہوں اور دونوں مراقبے دن میں الگ الگ کسی وقت کر لوں؟ میری بیٹی دو ماہ کی ہے اور مجھے دن میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے اور میں پورا نہیں کر پاتی، بیٹی بار بار اٹھ جاتی ہے اور بیچ میں ذکر کو روکنا پڑ جاتا ہے، راہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اصل میں اس کی مثال exercise کی طرح ہے، exercise اگر کوئی continuously step by step سارے exercises ایک وقت میں کرے تو اس کا effect اور ہوتا ہے اور اگر صبح، دوپہر، شام کو یہ exercise split کر کے کرے تو اس کا اثر دوسرا ہوتا ہے، اس میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اگلے step کے لئے base بنتی ہے، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ واقعی اس طرح تقسیم کر لیں، مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے، مثلاً درمیان میں بچی جاگ جائے تو آپ اس کی خدمت کر لیں پھر اس کے بعد شروع کر لیں، زیادہ time نہیں گزرا ہو گا تو امید ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ effect باقی ہو گا تو اس لحاظ سے آپ اس کو اس طرح manage کر لیں کہ ایسا time ہو جس میں اس کے disturb ہونے کے امکانات کم سے کم ہوں، تو اس طریقے سے کریں تو ان شاء اللہ زیادہ فائدہ ہو گا، ویسے آپ اگر تھوڑا تھوڑا بھی کر لیں تو یقیناً نہ کرنے سے بہتر ہو گا، لیکن پورا فائدہ لینے میں مسائل ہوں گے۔ باقی ابھی ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر چار ہزار مرتبہ کر لیں۔

سوال: 20

السلام علیکم حضرت! پچھلے ایک ہفتے سے خود بخود جو پہلے فلمیں دیکھتا تھا ان کے scene اور dialogue ذہن میں آ رہے ہیں، میں خیالات کو جھٹک دیتا ہوں، پھر ایک دو گھنٹے بعد کسی فلم کا خیال ذہن میں آ جاتا ہے اس کے لئے کیا کروں؟

جواب:

آپ اس پر اس طرح کر لیں کہ جب بھی خیال آئے تو استغفار کر لیا کریں تو شیطان اگر یہ خیال لائے گا تو خود بخود روک دے گا، جب آپ استغفار کریں گے تو ظاہر ہے آپ کو خود بخود آنے کا گناہ تو ہے نہیں، جبکہ آپ اس پر عمل نہیں کر رہے ایک بات، دوسری بات آپ استغفار کر رہے ہیں، تو جب بھی یاد آئے تو سو مرتبہ استغفار کر لیا کریں اور بس پھر اپنے کام میں مشغول رہیں۔

سوال: 21

بھوک بہت زیادہ لگتی ہے اگر وقت پر کھانا نہ ملے تو کمزوری محسوس ہوتی ہے، برداشت نہیں ہوتا، مجھ میں قناعت بالکل نہیں ہے، جس کی وجہ سے مجھے اکثر پریشانی اٹھانا پڑتی ہے، کچھ راہنمائی فرمائیں۔

جواب:

یہ جو بھوک بہت زیادہ لگتی ہے اس کہ بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا وہ ڈاکٹروں کی بات ہے، کس وجہ سے لگتی ہے ڈاکٹر صاحب بھوک؟ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کا wait ٹھیک ہے، normal ہے یعنی کم نہیں ہو رہا، کیوں کہ ورنہ hyperthyroidism والی بات آ جاتی ہے تو اگر وزن normal ہے تو کوئی بات نہیں، پھر یہ نفسیاتی ہے اور نفسیاتی چیز کو نفسیاتی طور پر control بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے اختیاری چیز کو اختیاری طور پر control کیا جاسکتا ہے، اسی طرح نفسیاتی مسئلے کو نفسیاتی طور پر control کیا جاسکتا ہے، اصل میں جسم کے اندر ایک بٹن ہوتا ہے جب تھوڑی دیر کے بعد وہ on ہو جاتا ہے تو پھر بھوک نہیں لگتی، تو آپ اگر اس طریقے پر عمل کر لیں تو شاید اس سے فائدہ ہو جائے گا۔ ایک procedure ہے آپ ڈاکٹر عمر صاحب سے پھر بات کر لیں۔ قناعت کا نہ ہونا تو ایک بیماری ہے، اس کو حرص کہتے ہیں، تو اگر آپ میں حرص ہے تو پھر حرص کا علاج ہونا چاہیے۔

سوال: 22

Assalam u alaikum! Meditation for one month has been completed. Meditation was fifteen minutes on Latifa-e-Qalb and fifteen minutes on Latifa-e-Rooh in which the zikr of ‘‘اللہ اللہ’’ was to be felt. Zikr is continued as well. Should I carry on? I felt zikr for about five minutes on both the lataif?

جواب:

So you should continue it till you feel it all the time on each latifa. You should continue it for one more month until you feel the zikr of fifteen minutes completely on every latifa insha Allah.

سوال 23:

ایک استانی صاحبہ نے اپنی طالبات کے اذکار کی کیفیات بتائی ہیں، وہ اس کو نوٹ کرنا شروع کر لیں، سب سے پہلے پہلی والی سے شروع کریں، لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 10 منٹ، لطیفہ خفی 15 منٹ، تمام لطائف کا ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔ فجر کی ایک نماز قضا ہو گئی ہے۔

جواب:

ان کو بتا دیں کہ اب پانچواں لطیفہ اخفیٰ کا پندرہ منٹ بڑھا دیں، باقی چار کے دس دس منٹ کر لیں اور جو نماز قضا ہوئی ہے اس کی جگہ تین دن کے روزے رکھ لیں اور نماز قضا بھی پڑھ لیں۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے۔ ان کو بھی چوتھا لطیفہ 15منٹ دے دیں اور باقی دس دس منٹ کے۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو بھی چوتھا لطیفہ 15 منٹ کا اور باقی دس دس منٹ کے دے دیجئے گا۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 15 منٹ، لطیفہ روح پر پہلے ذکر تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو لطیفہ قلب پر ہی 15 منٹ کا شروع کروا دیں، لطیفہ قلب جب پکا ہو جائے تو پھر اس کے بعد لطیفہ روح کروائیں گے، اس میں شاید کمی رہ گئی ہے۔

لطیفہ قلب 10 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اس کو لطیفہ روح 15 منٹ کا دے دیں اور لطیفہ قلب 10 منٹ ہی رہے گا۔


5 منٹ کے لئے لطیفہ قلب پر نزولِ رحمت کا تصور۔ قلب پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! اس کو دس منٹ کر لیں۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، لطیفہ قلب پر ذکر محسوس ہوتا ہے، لطیفہ روح پر محسوس نہیں ہوتا، لطیفہ سر پر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو یہی چیز ہے دوبارہ کروا لیں۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ ان سے بھی فجر کی ایک نماز قضا ہو گئی ہے۔

جواب:

ان کے لئے بھی وہی حکم ہے کہ ان میں سے تین پر دس دس منٹ اور آخری چوتھے پر 15 منٹ اور تین روزے۔


لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 15 منٹ، دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اسے تیسرا لطیفہ دے دیں 15 منٹ کا، باقی دو دس دس منٹ کے۔

10۔

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو بھی تیسرا لطیفہ دے دیں 15 منٹ کا اور دو دس دس منٹ کے رہیں گے۔

11۔

آگے جو آپ نے کوائف بھیجے ہیں، چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا ہو گیا، عمر 13 سال ہے۔

جواب:

اس کا وظیفہ یہ ہے کہ ابھی اس کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، یہ سو سو دفعہ کا دے دیں، یہ کرنا شروع کر دیں۔

12۔

5 منٹ کے لئے لطیفہ قلب پر نزول رحمت کا تصور۔ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو یہی چیز دوبارہ دے دیں ایک مہینہ اور کر لے۔

13۔

300 مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ، ایک ماہ کر لیا۔

جواب:

اس کو اگلا سبق بتا دیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ سو سو دفعہ اور اس کے ساتھ 10 منٹ کے لئے لطیفہ قلب۔

14۔

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اس کو ما شاء اللہ تین لطائف پر دس دس منٹ اور چوتھے پر 15 منٹ کا ذکر بتا دیجئے گا اور یہی ذکر ان کا بھی اور دوسری بچی کا بھی ہے، لیکن اس کا اجرا اطمینان بخش نہیں ہے تو اس کو ایک دفعہ پھر کروا دیں اور جن سے فجر کی نماز قضا ہوئی ہے تو ان میں جو بیمار ہیں وہ بعد میں بتا دیں گے اور جو ابھی صحت مند ہیں ان کو تین روزوں کا کہہ دیں۔

سوال: 24

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! چالیس دن والے ابتدائی وظیفے میں اگر کوئی دورانِ وظیفہ سو جائے تو ناغہ شمار ہو گا یا ذکر؟

جواب:

اس کی تفصیل بتا دیں کتنے منٹ سو گئے؟

سوال: 25

السلام علیکم حضرت جی میرے احوال کچھ اس طرح ہیں کہ کچھ دنوں سے میں فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہیں ہو رہی ہے، باقی نمازیں وقت پر با جماعت ہو رہی ہیں، قرآن پاک کی تلاوت میں بھی ناغہ ہو رہا ہے یا با قاعدگی نہیں ہے، دل میں رشتے داروں کے لئے کدورت اور کینہ بھی ہے، ذکر میں با قاعدگی تو ہے لیکن توجہ کی کمی ہے، معمولات کا چارٹ بھرنا بھول جاتا ہوں اور براہِ مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

جواب:

یہ اصل میں توجہ کی کمی ہے، اپنی توجہ اس طرف بڑھایئے، کیونکہ کوئی اور تو آپ کو قابو نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا جو کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے، تو سب سے پہلے ہمت کریں، آج کل فجر مشکل ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن مشکل میں ایک بات ہوتی ہے کہ مجاہدہ بن جاتا ہے اور مجاہدے سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے، تو بہت سارے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ جی! ہمیں سلوک طے کرا دو، مطلب یہ ہے کہ ہم جذب حاصل کر چکے ہیں اب سلوک طے کرا دو، تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جب موقع آئے گا تو آپ کو بتائیں گے ان شاء اللہ، ابھی یہی سلوک کا ذریعہ ہے، اس وقت آپ روزے رکھنا شروع کر لیں آج کل یہ سلوک ہے اور فجر کی نماز با جماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنا شروع کریں، تہجد بھی شروع کریں، اس سے بڑا مجاہدہ کوئی ہے آج کل؟ یہ تو مسنون مجاہدہ ہے سبحان اللہ! یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی مسجد میں امام ہو جائے اور تنخواہ بھی ملے اور ثواب بھی ملے، یوں ما شاء اللہ آپ کے دونوں کام ہو جائیں گے۔ لہذا آپ اپنے یہ اعمال ٹھیک کر لیں اسی سے آپ کا سلوک طے ہو گا۔ بلکہ اب آپ کی نسبت سے میں سب ساتھیوں سے عرض کروں گا کہ جن لوگوں نے کہا تھا اور کہہ رہے ہیں یا کہنا چاہتے ہیں، میں ان سے میں کہوں گا کہ جو اگلے چار روزے ہیں یہ سارے رکھ لیں تاکہ آپ کا سلوک طے ہو جائے، اور آج کل تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز فجر کی پڑھیں تو اس سے ان شاء اللہ آپ کا جو سلوک طے ہو گا وہ کسی اور چیز سے نہیں طے ہو گا، کیونکہ یہ مجاہدہ ہے اور بہت زبردست مجاہدہ ہے۔ تو اس مجاہدے کی قدر کریں اور باقی جہاں تک آپ نے کہا ہے کہ رشتے داروں کے لئے کدورت اور کینہ ہے تو اس کے بارے میں تفصیل جاننا چاہوں گا، کیونکہ بعض دفعہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے سمجھنے میں۔ ذکر میں توجہ کی جو اختیاری کمی ہے وہ دور کر لیں، غیر اختیاری کی فکر نہ کریں، معمولات کا چارٹ بنانا اختیاری ہے لہذا اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے، اس کو با قاعدگی کے ساتھ پورا کر لیں، اللہ جل شانہ آپ کو، مجھے اور سب مسلمانوں کو خیر پر جمع فرما دے آمین۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ