خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں صحیح جواب دینے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس سے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچائے۔
سوال 01:
کسی نے مجھ سے سوال کیا تھا جن کو میں نہیں جانتا تھا۔ اگر ہم سے شرک کے علاوہ کوئی کبیرہ گناہ سر زد ہو جائے اور ہمیں اس کا احساس بھی ہو جائے، اور ہم اللہ پاک سے سچے دل سے توبہ طلب کریں تو کیا توبہ قبول ہو گئی؟ اگر توبہ قبول ہو جاتی ہے تو کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے ہمیں معاف فرما دیا ہے؟ کیونکہ اپنے گناہ کی شرمندگی میں ہمارا دل مسلسل بے چینی اور بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔
جواب:
میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو مجھے لکھا کہ مجھے نمبر یہاں سے ملا ہے اور website کا بتایا، میں نے کہا کہ اپنا تعارف کرا دیں، unknown لوگوں کے سوالات کے جوابات نہیں دیئے جاتے، تلخ تجربات ہیں، البتہ تجویز یہ ہے کہ اپنے لئے کسی ایک مربی کو رکھ لیں جو آپ کو اچھی طرح جان سکے پھر وہ آپ کے حال کے مطابق جواب دے سکے گا کیونکہ آپ نے آپ نے حال کی بات پوچھی ہے، علمی جواب سے آپ کی تسلی نہیں ہو رہی۔
یہ میں نے کیوں کہا ہے؟ یہ میں ذرا سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ text میں میں اتنا زیادہ سمجھا نہیں سکتا۔
اصل میں انھوں نے دو باتیں پوچھی ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اگر گناہ ہو جائے اور توبہ کر لے تو کیا توبہ قبول ہو جائے گی؟ تو اس کا علمی جواب یہ ہے کہ اللہ پاک سے امید رکھنی چاہیے، کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ﴿اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا﴾(الزمر: 53) ’’اللہ پاک سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے‘‘ تو علمی جواب تو یہی ہے۔ لیکن وہ حال کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا؟ تو یہ ایک نئی بات ہے جو کہ حال سے تعلق رکھتی ہے، علم سے تعلق نہیں رکھتی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ اچھی طرح کر لے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کر لے، اگر کسی کا حق اس کے ساتھ وابستہ ہے تو اس کا حق اسے لوٹا دے ورنہ کم از کم معاف کرا لے اور اگر قضا کے ساتھ تعلق ہے مثلاً نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، الغرض جو بھی ہے تو اس کی قضا بھی کر لیں، پھر ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پوچھا کہ مربی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میں نے کہا کہ تربیت کرنے والا، اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا﴾ (الشمس: 9) یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے یعنی بری خصلتوں سے پاک کیا۔ تو ان رذائل سے پاک کرانے والے کو مربی کہتے ہیں بشرطیکہ صحیح پیر ہو۔ لیکن آج کل صحیح پیر کا جاننا بہت ضروری ہے، یہ بہروپیئے بھی بہت ہیں، قدم قدم پر سمجھانا پڑتا ہے کیونکہ مجبوری ہے، اب کیا کریں ہم پر حالات ایسے آگئے ہیں کہ رہبر کے جامے میں ڈاکو ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں سے پھر کیسے بچیں، ان کے لئے کچھ راستے بنانے پڑتے ہیں، تو اس کے لئے ہم کہتے ہیں کہ مصلح و مربی کے اندر کم از کم آٹھ نشانیاں ہونی چاہئیں۔ وہ آٹھ نشانیاں ہوں تو انسان اپنی تربیت ان سے وابستہ کر لے: سب سے پہلی تو یہ بات ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو کیونکہ اس کا عقیدہ اگر گڑبڑ ہے، اعمال اگرچہ اچھے بھی ہوں تب بھی فائدہ نہیں۔ تو اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ عقائد ما شاء اللہ ہماری کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، بہشتی زیور میں ہیں اور کتابوں میں بھی عقائد لکھے ہیں اور وہ ان عقائد کے مطابق ہو اور اس کے بعد اس کو بنیادی شریعت کا علم ہو، جس کو فرضِ عین درجے کا علم کہتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس فرض العین درجے کے علم پر عمل ہو کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عمل کی پرواہ نہیں کرتے: مثلاً کچھ لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کو بھی پیر بنا لیتے ہیں، کوئی رنڈیاں نچاتے ہیں تو ان کو بھی پیر بنا لیتے ہیں، لہذا وہ کم از کم عمل تو کرتا ہو اور چوتھی بات یہ ہے کہ وہ کسی مستند سلسلے میں با قاعدہ بیعت ہو اور اس کو کسی مستند سلسلے سے اجازت بھی ملی ہو اور پھر ما شاء اللہ ان کا فیض جاری ہو، یہ فیض جاری ہونے پر بعض لوگ confused ہو جاتے ہیں۔ فیض جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ان سے رابطہ رکھ لے تو نیک اعمال کی توفیق ہو کیونکہ فیض نیک اعمال کی توفیق کو کہتے ہیں لہٰذا جو ان کے ساتھ وابستہ ہوتے جاتے ہیں ان کو نیک اعمال کی توفیق ہوتی جاتی ہے، جیسے ہمارے سلسلے میں کوئی آتا ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ اگر عورت ہے تو اس کو پردہ نصیب ہو جاتا ہے اور اگر مرد ہے تو اکثر کو داڑھی نصیب ہو جاتی ہے، حج فرض ہے تو حج کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے، نماز پڑھنا نصیب ہو جاتا ہے، یہ ما شاء اللہ سلسلے کا فیض ہے جو نظر آتا ہے۔ اس پر کسی کو بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود نظر آتا ہے کہ اللہ تعالی توفیق عطا فرما دیتے ہیں تو چھے باتیں ہو گئیں۔ ساتویں بات یہ ہے کہ مروّت نہ کرنا یعنی وہ اصلاح میں کسی سے مروت نہ کرتا ہو، مروت اس کو کہتے ہیں کہ مرید ذرا با حیثیت آدمی ہو تو اس کو پوری بات نہ بتائی جا سکے گول سی بات بتا دی جائے اور مروت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو عیب اس میں ہو اس کو بتا سکے مثلاً تیرے اندر حسد ہے، تیرے اندر کینہ ہے، تیرے اندر یہ ہے، تیرے اندر یہ ہے اور اس کی صحبت میں اللہ تعالی کی محبت بڑھتی ہے تو یوں سمجھ لیجئے کہ اگر اللہ جل شانہ نے یہ باتیں کسی صاحب کو نصیب فرما دیں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اس بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ کبریتِ احمر ہے پھر عمر بھر ان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے۔ بہرحال یہ مربی کا مطلب ہو گیا۔ بہر حال اگر کسی نے سچی توبہ کر لی تو جن گناہوں سے بھی توبہ کی وہ سب معاف ہو جاتے ہیں، بشرطیکہ کسی کے حق کے ساتھ متعلق نہ ہوں اور ان کی قضا ضروری نہ ہو جسے نماز، روزے، زکوۃ کی قضا وغیرہ۔ اس صورت میں حق ادا کرنا یا معاف کروانا اور قضا کی صورت میں قضا کرنا بھی لازمی ہوتا ہے اور آپ اسی ویب پر تصوف کے section میں ’’زُبدَۃُ التصوف‘‘ اور ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ download کر کے پڑھیں، بہت ساری چیزوں کا آپ کو پتا چل جائے گا تو پوچھا کہ ہمیں توبہ کی قبولیت کا احساس کیسے ہو گا؟ تو یہ وہی سوال ہے جو حال سے متعلق ہے، چنانچہ اگر سچی توبہ کی ہوتی ہے تو دل گواہی دے دیتا ہے لہٰذا اس وقت تک توبہ کرتا رہے اور صلٰوۃ التوبہ پڑھتا رہے جب تک دل گواہی نہ دے کہ میری توبہ قبول ہو چکی ہے۔ ویسے اللہ تعالی سے امید رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اور ’’الاِیْمَانُ بَیْنَ الخَوْفِ وَ الرَّجَاءِ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے تو اس بات پر ڈرنا ہے کہ کہیں مجھ سے اس میں کوئی کمی نہ ہو جائے اور اس بات کی امید رکھنی ہے کہ اللہ بہت غفور اور رحیم ہے، میری توبہ قبول کر چکے ہوں گے۔
سوال 02:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
1۔
شیخ صاحب ایک ماہ ہو گیا ہے ان اعمال کو ’’لَآ اِلٰہَ إِلَّا اللہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ إِلَّا ہُو‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَق‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ، مراقبہ قلب 10 منٹ اور مراقبہ روح 15 منٹ۔ مراقبہ روح کو دو ماہ ہو گئے ہیں اور ذکر محسوس ہوتا ہے، آگے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اگر آپ کو مراقبہ قلب اور مراقبہ روح دونوں محسوس ہوتے ہیں اپنی اپنی جگہ تو اب آپ مراقبہ قلب اور مراقبہ روح 10 ,10 منٹ کریں اور مراقبہ سر 15 منت کریں۔
2۔
رمضان کے معمولات کا جو chart ہے، کیا اس کو رمضان کے بعد بھی follow کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ سارے نفلی اعمال ہیں، اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، چونکہ رمضان شریف میں لوگوں کا وقت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اس لئے ہم زیادہ بتاتے ہیں، تاہم اگر کوئی بعد میں بھی کر سکتا ہے تو اس پر پابندی نہیں ہے۔
سوال 03:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آج کل کچھ لوگ قربانی نہیں کرتے کہ ہم صاحب نصاب نہیں ہیں، جب کہ آج کل تو طالب علموں کے پاس بھی پیسے ہوتے ہیں آج کل کے دور میں قربانی کا نصاب کیا ہے؟
جواب:
قربانی کے نصاب میں آج کل والی بات نہیں ہے پرانا ہی نصاب ہے جو چل رہا ہے، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف پیسوں کی قیمت کم ہوتی ہے تو پیسے بڑھتے ہیں تو آج کل چاندی 1212 روپے تولہ ہے تو ساڑھے باون سے ضرب دے دیں، یہ 63630 روپے بن جاتے ہیں تو اگر 63630 روپے اگر کسی کے پاس ہیں یا اس رقم کی قیمت کی کوئی چیز ہے یا کسی کے پاس اس کی ضرورت سے زیادہ اتنا مال ہو کہ جس سے وہ نصاب تک پہنچ جائے تو پھر اس کے اوپر بھی زکوۃ فرض ہو جاتی ہے، اگر اس مال پر سال گزر جاۓ اور اگر قربانی کے ایام سے پہلے پہلے اس کے پاس اتنا مال آ چکا ہے یا کوئی چیزیں ہیں تو اس پر قربانی بھی لازم ہو جائے گی۔ بعض لوگ اس مسئلے میں ذرا ٹال مٹول کرتے ہیں کہ چونکہ اب قربانی کافی مہنگی ہو گئی ہے، تقریباً تیرا چودہ ہزار میں حصہ آتا ہے تو تقریباً 63 ہزار تو نصاب ہے، اس میں سے تیرہ چودہ ہزار نکل گئے تو یہ تو بہت زیادہ ہے۔ تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ خدا کہ بندو اللہ کے ساتھ حساب نہ کرو، اگر اللہ پاک نے تمہارے ساتھ حساب کر لیا تو پھر پتا چل جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو کون سی چیز کا حکم دیا گیا تھا؟ بیٹے کے ذبح کا، کیا بیٹے کے ذبح کے برابر کوئی چیز ہو سکتی ہے؟ تو قربانی تو اصل میں وہی تھی ہماری قربانی تو نقل ہے۔ اب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس کو ایسا قبول فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے جنت سے مینڈھا بھیجا، اور اسمٰعیل علیہ السلام ذبح نہیں ہوۓ اور مینڈھا ذبح ہوا۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ تو نے بالکل اپنے خواب کو سچا کر کے دکھا دیا۔ پتا چلا کہ اس کو اسی حالت میں قبول فرمایا جیسے اسمٰعیل علیہ السلام کو قبول فرمانا تھا، وہ مینڈھا اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کا قائم مقام تھا۔ اب ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم یہ کرتے ہیں کہ ہم کوئی جانور ذبح کرتے ہیں یا کوئی حصہ قربانی کرتے ہیں تو ہماری جو نقل ہے وہ بھی اللہ تعالی اس کے برابر مان لیتے ہیں جیسے اللہ پاک نے فرمایا کہ تو نے اپنے خواب کو سچا کر کے دکھایا، تو ہماری اس نقل کا اس کے ساتھ کوئی ratio نہیں بنتا، پھر بھی اللہ پاک اس کو بھی قبول فرما لیتے ہیں۔ اگر اللہ پاک فرماتے کہ سارا مال خرچ کر لو میں اور دے دوں گا تو وہ بھی کرنا ہوتا۔ یہ تو اللہ تعالی نے ہمیں بہت تھوڑے کا بتایا ہے، لہذا خوشی کے ساتھ قربانی کرنی چاہیے، اللہ تعالی بہت قبول فرمانے والے ہیں اور ان تین دنوں میں کوئی عمل اس عمل کے برابر نہیں ہوتا۔ لہذا اگر کوئی قربانی نہیں کرتا اور کروڑوں روپے خرچ کر لیتا ہے تو اس کے برابر ثواب تو کیا بلکہ وہ مجرم ہے کیونکہ قربانی نہ کرنا جرم ہے، بے شک اس نے کروڑوں روپے خیرات کئے ہوں، کیونکہ وہ تو نفلی ہیں، نفلی عمل تو واجب کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس پر تو بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ تو نصاب آج کل 63630 روپے کے لگ بھگ ہے۔
سوال 04:
کچھ لوگ ذی الحجہ کے دنوں میں قربانی سے پہلے بال اور ناخن کاٹنے کو گناہ سمجھتے ہیں کہ قربانی نہیں ہو گی، تو کیا یہ ضروری ہے یا مستحب ہے؟
جواب:
یہ بالکل مستحب ہے، حاجیوں کی نقل ہے، واجب نہیں ہے، اگر اس کو واجب سمجھا گیا تو اس کا ترک واجب ہو جائے گا۔ لہذا یہ واجب نہیں ہے یہ صرف اور صرف مستحب ہے، کوئی کرے گا تو اس کو ثواب ہو گا، نہیں کرے گا تو بس اس ثواب سے محرومی ہو گی، جیسے دو رکعت نفل کوئی پڑھتا ہے تو اس کو اس کا اجر ملتا ہے نہیں پڑھتا تو اس کا ثواب نہیں ملتا۔
سوال 05:
حضرت ہمارے گھر میں باقی بھائی بہنوں کے بچے بھی آتے رہتے ہیں ان کے پاس موبائل یا tablet بھی ہوتے ہیں اور وہ سالگرہ وغیرہ بھی مناتے ہیں۔ ہم نے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ کام غلط ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گناہ کرتے ہیں اور گناہ کرنا برا کام ہے۔ ہم نے اس انھیں سمجھایا کہ اس طرح نہیں کہتے۔ پھر سالگرہ والی فضول خرچی سے منع کیا تو بچے کہنے لگے کہ ہم غریب کچھ نہیں کر سکتے، سالگرہ کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ بچوں کو الگ رکھنے کی بھی کوشش کی ہے، لیکن پھر بھی اس کا برا اثر ہوتا ہے۔ حضرت پریشانی کے لئے دعا بھی فرمائیں اور اس صورتحال میں بچوں کو کس طرح سمجھائیں یا ان کی تربیت کیسے کی جائے؟
جواب:
ایک بہت بڑی غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ عین وقت پر سمجھاتے ہیں تو عین وقت پر سمجھانے کی position نہیں ہوتی، کیونکہ بچے اس وقت wild ہو چکے ہوتے ہیں یعنی وہ مقابلے کی position پر آ چکے ہوتے ہیں اور اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، اس وقت آپ کہیں گے تو توڑ کر جواب دیں گے، ایسی بات ہو گی۔ آج کل بچے ذہین تو ہیں تو وہ بالکل tit for tat والی بات کرتے ہیں، آپ ایک بات کرتے ہیں وہ دس بات کریں گے، اس سے خواہ مخواہ تلخی بڑھے گی، ان کو نقصان ہو گا۔ اس کے لئے پہلے سے ذہن سازی کرنی ہوتی ہے۔ گھر والے ہوں یا بچے ہوں، بچوں کو وقت دینا ہوتا ہے اور ان کی ذہن سازی کرنی ہوتی ہے۔ الحمد للہ ہم نے ایسی بعض رشتہ دار خواتین کو دیکھا ہے اور بعض جو رشتہ دار نہیں ہیں ان کے بارے میں معلومات ہوئی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی مسلسل ذہن سازی کرتی رہتی ہیں اور ان کو اس قسم کے انداز میں سمجھاتی ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اپنی بات ہے۔ مثلاً یہ انداز کہ دیکھیں اللہ جل شانہ جس چیز سے ناراض ہو جاتے ہیں وہ تو بہت بری چیز ہے، ہمارا تو سارا کچھ اللہ پاک کے ساتھ ہے، پھر اگر اللہ پاک ناراض ہو گئے تو ہمارا کیا رہتا ہے۔ اب اس کو کچھ بھی نہ بتائیں کہ اللہ پاک کن چیزوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ بس پہلے صرف یہ بات اچھی طرح پکی کی جائے، جب یہ بات پکی ہو گئی تو پھر ان کو آہستہ آہستہ جو ذرا دور کی چیزیں ہوتی ہیں وہ بتائیں کہ اللہ پاک اس سے ناراض ہوتے ہیں، اللہ پاک اس سے ناراض ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ قریب آ جائیں اور یہ ذہن سازی اس وقت ہونی ہے جب وہ مسئلہ آیا نہ ہو، تو اگر اس انداز میں بچوں کی تربیت کی جائے تو پھر آہستہ آہستہ بچے ماننے لگتے ہیں اور اگر عین وقت پر کی جائے تو فائدہ نہیں ہو گا۔ کہتے ہیں کہ انگریز 50 سال پہلے سوچتے ہیں، مسلمان عین وقت پر سوچتے ہیں اور سکھ 50 سال بعد سوچتے ہیں۔ تو یہ عین وقت پر سوچنے والا طریقہ ٹھیک نہیں ہے اور نہ 50 سال بعد سوچنے کا طریقہ ٹھیک ہے، پہلے سوچنا چاہیے کہ کیا کیا حالات پیش آ سکتے ہیں اور ان کے لئے کیا کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے، پیش بندی اس کو کہتے ہیں، پیش بندی ہونی چاہیے پھر ما شاء اللہ مسئلہ حل ہو گا تو تھوڑی سی ہمت کرنی چاہیے، بچوں کو time دینا چاہیے تو اس سے فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔ بچوں کی بچوں کے انداز میں class لینے کی ضرورت ہے آج کل، ان کے ساتھ اس level پر بات کرنا جس level پر وہ ہیں اور اس level پر ان کو سمجھانا، یہ طریقے سیکھنے چاہیے۔
سوال 06:
السلام علیکم حضرت شاہ صاحب! میرا ذکر تھا لطیفہ خفی پر فیض کا ذکر 15 منٹ جو کہ تمام باقی اذکار کے ساتھ اللہ کے فضل سے مکمل ہوا، محسوس ہو رہا ہے، نماز میں اللہ کے سامنے محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جو کافی مفید پاتا رہا۔ آگے کے لئے کیا ہدایت ہے؟ میرا ذکر تھا لطیفہ قلب پر "فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْد" فیض کا ذکر 15 منٹ، جو الحمد للہ مکمل ہو چکا ہے۔
جواب:
اس لطیفے یعنی "فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْد" کا ذکر جو توحیدِ افعالی کا مراقبہ ہے، اس کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا؟ اس وقت آپ کی کیا کیفیت ہے؟ صرف اچھا محسوس ہوا، یہ کوئی جواب نہیں ہے۔ مطلب اس سے آپ نے کیا محسوس کیا؟ وہ مجھے بتا دو، پھر میں کچھ عرض کروں گا۔
سوال 07:
السلام علیکم! حضرت آپ نے مجھے 300 مرتبہ ’’سُبْحاَنَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ اِلٰہَ إلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر‘‘ اور 200 مرتبہ ’’لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ العَلِّی العَظِیم‘‘ پڑھنے کو بتایا تھا۔ تقریباً ہفتہ پہلے آپ خواب میں آئے اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا جی پڑھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا کہ بڑھا دو۔ اس خواب کا مطلب کیا ہے؟
جواب:
خواب کا مطلب تو یہ ہے کہ بڑھو، بڑھا دو کا مطلب ہے آگے بڑھو۔ یعنی اس پر رکو نہیں۔ میں نے آپ کو 40 دن کے لئے بتایا تھا تو اگر 300 مرتبہ یہ پورا ہو گیا ہے اور 40 دن ہو چکے ہیں تو میں آگے آپ کو بتا دوں گا۔ آپ نے اس کے بارے میں نہیں بتایا کہ 40 دن پورے ہو چکے ہیں یا نہیں۔
سوال 08:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی اللہ پاک آپ کو ہمیشہ تندرست اور صحت مند رکھے اور ہمیں آپ کے اقرباء کی عزت و احترام اور سچی محبت نصیب فرمائے، یہ حقیقتاً اللہ پاک کا فضل ہے کہ ہمیں آپ کے حلقے میں شامل فرمایا الحمد للہ۔ حضرت جی! ایک عرض ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ذکر و مراقبے کے دوران جو احوال آتے ہیں وہ نہ آئیں؟ چونکہ مقصود نہیں ہیں تو اس لئے مطلوب بھی نہیں، مطلوب اس میں ذات شریف ہے لہذا جب قلب ذاکر بنے تو وہی سنائی دے۔ حضرت پچھلے ہفتے دفتر کے کام کی وجہ سے صبح اشراق کے بعد سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لڑکے میرے چہرے پر تیزاب پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کیوں کر رہے ہو، آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی، اور ساتھ ہی ان سے بھاگ بھی رہا ہوتا ہوں، ڈر کر نہیں، بلکہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے۔ ایسے کئی بار ہوتا ہے، ایک دو بار بڑا سا ڈنڈا لے کے ان کو بھگا بھی دیتا ہوں، ایک جگہ با ریش شخص بیٹھا ہوتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ اس سے پوچھیں کہ یہ کیوں ایسا کر رہا ہے تو مخالفین میں سے نسبتاً ایک پختہ عمر کا ایک شخص کہتا ہے یہ بچہ بولے گا، میرے دل میں اچانک خیال آیا کہ شاید الزام لگا رہے ہیں تب ان لڑکوں نے مجھ پر تیزاب پھینکا، اللہ پاک پھر بچا لیتے ہیں بس پرفیوم کی پھوار کی طرح کوئی چیز میرے چہرے پر پڑنے سے جلن کا احساس ہوتا ہے، مگر چہرہ الحمد للہ سلامت رہتا ہے۔ اگر بیان میں کوئی بے ادبی، کوتاہی ہو گئی ہو جو عین ممکن ہے، تو معافی چاہتا ہوں؟
جواب:
اصل میں احوال میں دو باتیں ہوتی ہیں، ان کو مانگا بھی نہ جائے یعنی ان میں طلب بھی نہ ہو اور ان کو دور کرنے کی خواہش بھی نہ ہو۔ اختیاری اور غیر اختیاری کا فرق یہی ہے کہ اختیاری کو انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے اور اختیار سے چھوڑتا بھی ہے، یعنی امر و نواہی سب اختیاری ہیں، لیکن کیفیات اور احوال غیر اختیاری ہیں۔ اس وجہ سے احوال کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کے نہ ہونے کو بھی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر بہت خیالات آتے ہیں تو خیالات اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی ہو سکتے ہیں، تو اچھے خیالات اگر خود سے آ رہے ہیں تو ان کے آنے پر آپ کو ثواب نہیں مل رہا اور برے خیالات آنے پر آپ کو کوئی گناہ نہیں مل رہا۔ لہذا اگر خود سے آ رہے ہیں تو ان کے ساتھ لڑو بھی نہیں، پرواہ نہ کرو بس۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی سڑک پر جاتا ہے اور بہت سارے لوگ ساتھ بھی جا رہے ہیں، سامنے بھی آ رہے ہیں، آپ لوگوں سے بچتے بچاتے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں، آپ کو پرواہ نہیں ہوتی کہ میرے ساتھ کون جا رہا ہے، میرے سامنے کون آ رہا ہے، اس سے آپ کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بس اسی طرح یہ خیالات جو آپ کے موافق ہیں ان کی بھی پرواہ نہ کرو اور جو آپ کے خلاف ہیں ان کی بھی پرواہ نہ کرو۔ بس اپنے مقصد سے کام رکھو اور آگے بڑھو۔ بس یہی اس کا طریقہ کار ہے۔ لہذا ان کے بارے میں سوچو نہیں، باقی ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک آپ کی عصمت کو بچائیں گے۔ اللہ تعالٰی آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
سوال 09:
السلام علیکم حضرت والا! مرشد مولایی کی تعلیمات میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خلافت ولایت یا اللہ کی دوستی کا معیار نہیں ہے اور ایسے بھی حضرات ہیں جن کو کسی شیخ سے اجازت نہیں ہے لیکن اللہ کے ولی ہیں جیسے کے حدیث شریف سے ثابت ہے کہ بہت سے ایسے حضرات ہیں، مفہوم حدیث یہ ہے کہ ان کے بال بکھرے ہوتے ہیں، کپڑے گرد سے بھرے ہوتے ہیں لیکن اگر وہ اللہ تعالٰی کے نام کی قسم اٹھائیں تو اللہ پاک ان کی قسم کو پورا فرماتے ہیں۔ بہت سے اولیاء اللہ کو پہچانا بھی جاتا ہے اور بہت سوں کو نہیں جانا ہوتا۔ البتہ ان حضرات میں جن کی تشکیل ہوتی ہے یا جن سے کوئی خاص کام لیا جاتا ہے، خلافت کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، ان کو پھر شیخ کے حسن ظن یا شرحِ صدر پر اجازت دی جاتی ہے۔
باقی کچھ سوالات ان باتوں کے نقطہ نظر میں عرض ہیں رہنمائی کے لئے۔ اولاً خلافت کی جو اقسام ہوتی ہیں ان کی ذرا وضاحت فرما دیں: جیسے خلافت تربیتی اور جو خلافت دوسرے مشائخ کی طرف سے ہوتی ہے تو اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ دوسری بات، جب کسی شیخ کو یا کسی شخص کو خلافت اس کے تربیتی شیخ سے ملتی ہے اور اس نے عرصہ دراز دین کی خدمت اور اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھی تو پھر جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم آ جائے اور آپ ﷺ کے روضہ اقدس سے بھی حکم آ جائے کہ فلاں صاحب کو یا فلاں شیخ کو فلاں سلسلے میں اجازت دو، حالانکہ وہ اس سلسلے میں پہلے صاحبِ اجازت اور مصلح شیخ ہوتے ہیں تو پھر اس کے کیا معنی ہوئے اور کیا حکمت ہوتی ہے؟ کیونکہ سب سلاسل بھی ایک ہیں اور طریقہ کوئی بھی اختیار کیا جا سکتا ہے تو پھر ان کو اس سنت سے چھوڑنے کا کیا معنی بنتا ہے؟ مثال کے طور پر حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطب الدین الاقطاب حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت تھی، ان کے اجل خلفاء میں سے تھے تو چاروں سلاسل میں صاحب نسبت تھے، پھر ان کو حضرت مولانا عبد الله درخواستی رحمۃ اللہ علیہ نے مدینہ منورہ میں طلب فرمایا، فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے روضہ اقدس سے کہ تم کو اپنے قادری سلسلے میں اجازت دی جائے، جب کہ ان کو پہلے ہی سے چاروں سلسلوں بشمول قادری سلسلے میں بھی اجازت تھی تو اس سلسلے میں کیا حکمت ہوتی ہے؟ کیونکہ صاحب نسبت تو تھے ہی، تو پھر کیا یہ نسبت قوت کے لئے ہوتی ہے؟ جس کے لئے حضرت والا فرمایا کہ ہاں! نسبت کے معنٰی یہ ہیں کہ احکام شریعت پر بلا تکلف انسان عمل کر لے اور گناہ سے طبعاً دوری اختیار کرے اور تمام احوال میں عزیمت کے راہ کو اختیار کرنا سب سے بہتر طریقہ ہے یعنی عبادات میں، معاملات میں، معاشرت میں اور اخلاقیات میں۔ پھر اس کے بعد نسبت کے دوسرے معنی کیا ہوتے ہیں؟ یہاں پر کیا ان کو اس سلسلے سے بھی نسبت دی جائے؟
آخری سوال یہ ہے کہ جب کسی کو مرحوم اور فوت شدہ بزرگ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ فلاں کو اجازت دے دی جائے تو کیا وہ اجازت مرحوم شیخ کی طرف سے کہلائے گی؟ جیسے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ فلاں صاحب کو سلسلہ چشتیہ میں اجازت دی جائے تو کیا وہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اجازت کہلائے گی یا ویسے ہی نسبت کہلائے گی یا جو زندہ شیخ ہو گا اس کی طرف سے ہو گی؟ اگر یہ بات ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ نسبت میں قوت کا فائدہ ہو گا تو کیا یہ قاعدہ کلیہ یہ ہے؟ مثال کے طور پر صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ، عبد الغفار مدنی رحمۃ اللہ علیہ۔ اگر از حوالہ اس واقعہ جو حضرت مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے، اس سلسلے میں کچھ روشنی فرما دیں تو کرم گا۔
جواب:
بات بڑی مختصر ہے لیکن لوگ اس کو کافی لمبا کر دیتے ہیں، مختصر یہ ہے کہ اصل انسان مکلف اپنی تربیت کا ہے، حضرت مجدد صاحبؒ (اگرچہ یہ سب فرماتے ہیں لیکن میں حضرت مجدد صاحبؒ کا حوالہ اس لئے بتاتا ہوں کہ اس وقت ہم ان کو پڑھ رہے ہیں) فرماتے ہیں کہ تین چیزیں بنیاد ہیں: علم، عمل اور اخلاص۔ کیونکہ علم کے بغیر عمل ہو ہی نہیں سکتا اور اخلاص کے بغیر عمل میں پختگی نہیں آتی اور قبولیت والی بات نہیں ہے تو اگر علم اس کی ابتدا ہے تو اخلاص اس کی انتہا ہے۔ جب یہ والی بات سمجھ میں آ جائے تو طریقت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عقائد پختہ ہو جائیں جیسے ہونے چاہئیں، ان پر استقامت نصییب ہو اور عمل بلا تکلف ہونے لگے۔ جو تکلف سے انسان عمل کرتا ہے اور نفس کو مجبور کر کے کرتا ہے تو وہ بے تکلف ہو جائے یعنی اس کی عادت بن جائے، سنت عادیہ جس کو ہم کہتے ہیں۔ ایک آدمی بڑی مشکل سے نماز پڑھتا ہے، اس وقت اس کو مجاہدے کا اجر بھی ملتا ہے، لیکن دوسرا شخص ہے وہ نماز کو چھوڑ ہی نہیں سکتا، سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا، مار دو اس کو لیکن نماز نہیں چھوڑ سکتا۔ دونوں میں فرق ہے یا نہیں ہے؟ تو مطلب یہ ہے کہ اعمال میں اس قسم کا ہو جائے۔ اور اس میں اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ تو جب یہ بات سمجھ میں آ جائے تو جو مطلوبہ نسبت ہے بس وہ یہی ہے کہ انسان اعمال کو صحیح طریقے سے اللہ کی رضا کے لئے کرتا رہے۔ دوسری طرف اللہ پاک بھی اس کو قبول فرماتے ہیں، اس کی تربیت کا اس کی طرف سے سامان ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ۔ یہ نسبت ہے، یعنی اس طرف سے بھی اختیاری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہے۔ اور یہ سلسلہ چل پڑے۔ گویا ﴿يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِىٓ إِلٰی رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة﴾ (الفجر: 27-28) والی حالت اس کو حاصل ہو جائے، یہ اللہ پاک سے راضی ہو اور اللہ پاک اس سے بھی راضی ہو اور اس کو بندگی نصیب ہو جائے اور پھر اللہ پاک اس پر اس کو جنتی بنا دیں۔ تو یہ اس کی بنیاد ہے، یہ ہمارے لئے اتنا ضروری ہے بس، اس سے زیادہ نہیں۔ ہمیں اگر سوچنا ہے تو اتنا سوچنا ہے کہ ایسا ہو جائے، اس کے لئے انسان کچھ بھی محنت کرے وہ کم ہے۔ باقی اللہ جل شانہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرماتے ہیں، اگر اللہ پاک یہ فیصلہ فرما دے کہ یہ کسی اور کا نہیں میرا ہی ہے۔ بس میری طرف ہی متوجہ ہو اور باقی سارے لوگوں کے نزدیک اس کا کوئی مقام نہ ہو، لیکن میرا بن جائے یعنی اس کو لوگوں سے چھپا دے۔ ایسے لوگوں کو مستھلکین کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں سے چھپا دیتے ہیں، لوگ ان کو کچھ نہیں سمجھتے، لیکن اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہوتا ہے اور اللہ پاک ان سے پھر اور لوگوں کا کام بھی نہیں لیتا، بس جیسے فرشتوں کو پیدا کیا ہوتا ہے، فرشتوں کو اپنی طرف متوجہ رکھا ہوتا ہے اور کوئی کام دیا ہوتا ہے بس ان سے اور کچھ مطلوب نہیں ہوتا، لیکن کچھ لوگوں کو انبیاء کے نقشِ قدم پر واپس مخلوق کی طرف لوٹا دیتے ہیں، یہ جو مخلوق کی طرف لوٹا دیتے ہیں ان کو اجازت ہوتی ہے، گویا ان کی تشکیل ہو جاتی ہے کہ اب تم کام کرو، تو وہ امتثالِ امر کے طور پر کام کرتے ہیں، اب یہ کسی بھی شیخ کی طرف سے اس کو ہو سکتا ہے جو صاحب سلسلہ ہے، یعنی آپ ﷺ تک اس کا سلسلہ پہنچا ہوا ہے، اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس نے اس کی تربیت کی ہو، صاحبِ سلسلہ شیخ کسی کو بھی اجازت دے دے تو اس کے سلسلے میں اس کو اجازت ہو جاتی ہے۔ اب چونکہ اس کو اجازت ہو گئی تو اب وہ کام کر سکتا ہے، نسبت اس کو پہلے سے ادھر سے حاصل ہے۔ کیونکہ نسبت کا طریقہ تو وہی ہے جو میں نے آپ کو بتایا ہے وہ چاہے اپنے شیخ سے ہو جائے یا کسی اور طریقے سے اس کو اطلاع ہو جائے لیکن بہرحال نسبت تو اس کو حاصل ہو گئی۔ تاہم اس نسبت کو اگر قوی بنانا ہو کسی خاص صفت میں اور کسی خاص چیز میں تو اس کے کئی طریقے ہیں، ممکن ہے کہ اس کو کسی روح پُر فُتوح کے ساتھ اویسی تعلق ہو جائے اور خواب کے ذریعے سے یا کشف کے ذریعے سے ان کو اس روح سے فائدہ ہونا شروع ہو جائے اس کو اویسی نسبت کہتے ہیں (پہلے بھی میں اس پر بہت تفصیل سے بات کر چکا ہوں) تو یہ اویسی نسبت اس کی ذاتی نسبت کو strong کرتی ہے، یہ اس پر اضافہ ہے، لیکن اگر صرف اویسی نسبت کسی کو حاصل ہو تو وہ آگے transferable نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کو سلسلے کی نسبت کسی بھی سلسلے میں حاصل ہے اب اگر اس کو اویسی نسبت حاصل ہوتی ہے تو اس اویسی نسبت کے لحاظ سے اس کی نسبت strong ہو جاتی ہے۔ اب اگر وہ کسی اور کو اجازت دیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ اویسی نسبت کی بھی طاقت موجود ہوتی ہے یعنی وہ بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ گویا کہ communication والا رستہ تو اس کا اپنے سلسلے کی نسبت ہے لیکن اس کی strength اویسی نسبت سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کے ہاں کسی خاص سلسلے میں اس کے لئے ایک حصہ مقرر ہوتا ہے اور اس کی کچھ اپنی برکات ہوتی ہیں، وہ برکات ان کو پہنچانی ہوتی ہیں تو کسی ولی اللہ کی اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تشکیل ہو جاتی ہے کہ اس کو یہ چیز پہنچا دو۔ جیسے حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا یوسف متالا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بتایا تھا۔ حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آپ ﷺ کی طرف سے اشارہ ہوا اور انہوں نے اپنی نسبت ان کو دے دی، اگر نہ بھی دیتے تو پھر بھی مولانا یوسف متالا صاحب کے پاس تو چاروں سلسلوں میں نسبت موجود تھی، اس نسبت میں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن یہ کوئی extra چیز تھی جو اللہ پاک نے ان کو اس سلسلے کی دلوائی اور ما شاء اللہ اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے خود حضرت مولانا عبد الغفار صاحبؒ نے بالخصوص جو اجازت دی طریقہ راشدیہ میں اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں، تو مجھے انہوں نے یہ کہہ کر اجازت دی تھی کہ اگرچہ آپ کے پاس اپنی اجازت ہے لیکن چونکہ آپ طریقہ راشدیہ میں ذکر کراتے ہیں اور ذکر بالجہر ان کے طریقے پر کراتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو اس نسبت کا حصول بھی ہو جائے تاکہ آپ اس قوت کے ساتھ یہ ذکر کرائیں اور ان کو پتہ تھا کہ مجھے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بہت زیادہ محبت تھی، اور ہے۔ تو انہوں نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں بھی مجھے اجازت عطا فرمائی۔ اور پھر خدا کی شان کہ جن کے ذریعے سے مجھے دی تھی مولانا عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ جن کو طریقہ راشدیہ میں بھی اجازت تھی اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں بھی اجازت تھی اور صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اجازت تھی۔ وہ بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا تو ان سے میں نے بر سبیلِ تذکرہ کہا تھا کہ حضرت آپ کی اجازت مجھے مولانا عبدالغفار صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دے دی تو وہ رو پڑے اور فرمایا کہ جتنے سلسلے ہیں میں اپنی طرف سے بھی ان کی اجازت آپ کو دیتا ہوں۔ گویا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ مجھے اس سے فائدہ ہو گا تو مجھے انہوں نے اجازت دی۔ اسی طرح طریقہ راشدیہ کے ساتھ مجھے چونکہ بہت محبت تھی، بالخصوص مولانا لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اور ان دوسرے حضرات کے ساتھ، تو میں نے صرف ایک ٹیلیفون کیا مولانا اجمل قادری صاحب کو، انہوں نے بھی اپنی اجازت دے دی، حالانکہ میں نے کہا بھی نہیں تھا، نہ کبھی اس کا تصور تھا، لیکن انہوں نے اجازت دے دی، تو یہ اوپر سے معاملات ہوتے ہیں اس میں ہمارا کوئی کام نہیں ہوتا، لیکن ان اجازتوں کو اس معنی میں لینا چاہیے کہ اس سے نسبت کی تقویت ہو جاتی ہے، اصل نسبت پہلے ملی ہوتی ہے۔ مجھےحضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو اجازت دی ہے اس میں لکھا ہوا ہے، حضرت نے مجھے لکھ کر دیا ہے کہ مجھے آپ کی اشرفی نسبت کا پتہ ہے۔ گویا حضرت کو پہلے سے علم تھا، حضرت بڑے صاحبِ بصیرت تھے کیونکہ مجھے حضرت نے با قاعدہ سب لوگوں کے سامنے کہا کہ آپ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہیں، پہچان لیا۔ ظاہر ہے حضرت کو نسبت کا بھی ادراک تھا تو فرمایا آپ پر حضرت کا رنگ ہے اور آپ اپنے اس رنگ کو بڑھا لیں، چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے آپ کی اشرفی نسبت کا پتہ ہے اور میں مزید آپ کو اپنے بزرگوں کی اجازت دیتا ہوں۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ اجازت اصل میں تشکیل ہے، اصل نسبت نہیں ہے۔ گویا کہ جس طرح بغیر نسبت کے تشکیل نہیں ہو سکتی اسی طرح ہر نسبت والے کی تشکیل نہیں ہوتی، بس ان دو باتوں میں ساری بات آ گئی۔ لہذا اس کے لئے نسبت حاصل کرنا ضروری ہے، پہلے نسبت حاصل ہو پھر اس کے بعد تشکیل ہو گی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس کی بھی نسبت ہو ان میں سے ہر ایک کی تشکیل نہیں ہوتی، عین ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کو بس اپنے لئے رکھے تو اس کی تشکیل نہ ہو۔ اس لئے خلافتوں کا تو بالکل ہی منتظر نہیں رہنا چاہیے، بس وہ تشکیل کی بات ہے اگر ضرورت ہوئی تو وہ کر لیں گے، نہیں کیا تو بس ٹھیک ہے، اچھی بات ہے، یہ تو بالکل ایسی بات ہے کوئی محبوب کے ساتھ بیٹھا ہو اور محبوب کسی کو بازار بھیج دے تو اس کی عظمت یہ ہے کہ بازار میں اپنے محبوب کو نہ بھولے بلکہ اس کا کام کرے اور دل اس کے ساتھ ہو۔ لیکن جو پاس بیٹھا ہوا ہے تو وہ اگر یہ سوچے کہ مجھے کیوں نہیں بھیجا تو ایسے آدمی کو مجلس سے اٹھانا چاہیے یا نہیں اٹھانا چاہیے؟ ایسے آدمی کو مجلس سے اٹھانا چاہیے۔ خود جانا چاہتا ہے بازار، جاؤ پھر بازار کی سیر کرو۔ تو اپنی طرف سے خلافت کا شوق ایسا ہے جیسے کوئی بازار جانا چاہتا ہو۔ اور ایک بات اور بتا دوں، یہ مولویوں کی بات میں بتا رہا ہوں آپ کو صوفیوں کی بات نہیں بتا رہا، مولوی حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی مصلے پر خود کھڑا ہو گیا تو اس کے ساتھ مدد نہیں ہوتی اور جس کو آگے کر دیا جاتا ہے اس کے ساتھ مدد ہوتی ہے۔ جب یہ بات ہے تو پھر اگر کسی کو خلیفہ نہیں بنایا گیا اور وہ کہتا ہے کہ مجھے خلیفہ بناؤ تو اس کے ساتھ مدد کدھر ہو گی! وہ تو خراب ہی ہو گا اور جس کو خلیفہ بنایا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر اس کے ساتھ سلسلے کی الحمد للہ ایک قوت و تقویت اور مناسبت موجود ہو گی، لہذا اللہ پاک اس کی حفاظت فرمائیں گے۔ بہرحال یہ میں عرض کرتا ہوں کہ اویسی نسبت exist کرتی ہے اور اس سے تقویتِ نسبت ہو جاتی ہے اور اگر کسی بزرگ کے ذریعے سے اس کو دیں تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے کی وہ خاص چیز دلوائی جا رہی ہے، لہذا اس کو اس کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بزرگ اویسی طور پر کسی کو اجازت دیتا ہے یعنی ان کو خواب میں اشارہ کرتا ہے کہ ان کو دے دو تو یہ اجازت اگرچہ شرحِ صدر کی طرح ہے گویا کہ اس کو کسی بھی طریقے سے جیسے شرح صدر ہوتا ہے تو ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کو شرح صدر ہو گیا۔ اب یہ اجازت اس شخص کی اجازت قرار دی جائے گی جیسے مولانا درخواستی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت تھی وہ کوئی اور نہیں تھی، کیونکہ اجازتیں تو سب آپ ﷺ کی ہیں یعنی آپ ﷺ کا سلسلہ چل رہا ہے البتہ ہم کہتے ہیں کہ مجھے فلاں نے اجازت دی۔ جتنے بھی سلسلے ہیں ان سب کی اجازتیں آپ ﷺ کی طرف منسوب ہیں۔ البتہ کہا ان کے بارے میں جا رہا ہے جنہوں نے ان کو اجازت دی۔ تو مولانا عبد اللہ درخواستی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اپنے قادری سلسلے میں اجازت دی اور مجھے مولانا عبدالغفار صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دی، مجھے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دی، مجھے مولانا عبدالرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دی، مجھے میاں اجمل قادری صاحب نے دی۔ میں ان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان لوگوں نے اجازتیں دی ہیں، ان کو جس نے بھی کہا ہے اس سے میرا کوئی مطلب نہیں ہے، وہ ان کا معاملہ ہے جس نے بھی کہا ہے۔ لیکن ان اجازتوں کی نسبت ان کی طرف ہو گی جنہوں نے اجازت دی ہے۔ باقی اویسی نسبت کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا، اس کا تو بزرگ ذکر ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ راز ہے، اویسی نسبت راز ہوتی ہے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو دوست دوست کا راز نہ رکھ سکے تو وہ دوستی کے قابل نہیں ہے، تو اویسی نسبت کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا البتہ ہوتی ضرور ہے۔ اس وجہ سے میرا اپنا اندازہ ہے کہ جتنے بھی بڑے بڑے اولیاء ہیں ان سب کو اویسی نسبت پہلے سے حاصل ہو چکی ہوتی ہے لیکن پھر ان کو سلسلے کے ساتھ ملایا جاتا ہے یعنی سلسلے سے ان کو ظاہر کرایا جاتا ہے کیونکہ سلسلہ transparent چیز ہے اور اویسی نسبت transparent نہیں ہے وہ مخفی چیز ہے تو مخفی چیز کو اس کے لئے ذریعہ نہیں بنایا جاتا، جیسے کوئی خواب میں آپ ﷺ سے کوئی بات سنے تو وہ حدیث شریف نہیں ہے اور نہ وہ صاحب صحابی بنتے ہیں، لیکن اگر پہلے سے وہ عالم ہیں یعنی ان کو حدیث شریف کی سند حاصل ہے تو ان کو آپ ﷺ جب خواب میں بتائیں گے تو اس سے ان کی تقویت تو ہو جائے گی یعنی ان کے علم میں برکت تو آ جائے گی، اس سے اس کے علم میں نور تو آ جائے گا، لیکن وہ اس کو quote نہیں کر سکتا، کیونکہ quote کرنے کا حکم ہی نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے، اس کی ذاتی چیز ہے، لوگوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ متعدی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مجھے اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے تو بڑی نعمت ہے ایسے انداز میں نہیں کہنا چاہیے اگر کسی کو آپ ﷺ کوئی چیز بتائیں تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے آپ ﷺ نے بتایا ہے لہذا میں آپ کو بتاتا ہوں تو آپ اس چین میں آ گئے۔ میں آپ کو اس کی ایک بہت بڑی مثال بتاتا ہوں، حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مجلس میں کوئی چیز ایک صاحب کو کھانے کو دی، اس نے آگے کسی اور کو دی، حضرت اس پر ناراض ہوئے کہ میں نے تمہیں اپنی چیزوں کا داروغہ نہیں بنایا ہے، جس کو جو چیز دی جائے وہ صرف اسی کے لئے ہوتی ہے، اس لئے نہیں کہ وہ اس کو تقسیم کرنا شروع کر دے۔ تقسیم کرنا اور بات ہے اور اس کو دینا اور بات ہے۔ لہذا سلسلے کی طرف سے جو چیز آتی ہے وہ تقسیم والی ہوتی ہے، اویسی تقسیم کے لئے نہیں ہوتی، اگر اویسی کوئی تقسیم کرنا شروع کر دے تو سرزنش ہو سکتی ہے، وہی راز والی بات، خواجہ معین الدین چشتیؒ والی بات۔ تو اویسی نسبت سے انکار نہیں، لیکن اس کا اظہار نہیں اور سلسلے کو چھپانا نہیں، سلسلے کو آگے بڑھانا ہے اور اویسی نسبت کا اظہار نہیں ہے۔ اس میں قوت ضرور ہے لیکن اس کو صرف اپنے آپ تک ہی رکھنا ہے اس سے آگے اس کو نہیں بڑھا سکتے آپ، البتہ آپ کے اندر جو قوت آئی ہے وہ آپ کے سلسلے کے ذریعے سے آگے جا سکتی ہے، آپ اس کو اویسیّت کے طور پر نہیں آگے بڑھا سکتے۔ آپ کی سلسلے کی جو comunication ہے، مثال کے طور پر مجھے جتنی بھی نسبتیں الحمد للہ اللہ تعالی نے نصیب فرمائی ہیں اگر میں کسی کو اجازت دیتا ہوں تو اس میں وہ چیزیں آگے چلی جائیں گی، لیکن مجھے اس کے ذکر کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ ذکر کرنے پر پابندی ہو گی۔ لہذا طریقہ کار یہی ہے کہ جو چیزیں مجھے ظاہراً دی گئی ہیں اس کا میں ذکر بھی کر سکتا ہوں کہ ان حضرات نے مجھے اجازت دی ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ transparant ہے۔ لیکن اگر مجھے کسی اور طریقے سے بعض چیزیں ملی ہوں تو ان کی قوت بھی آگے ہو جائے گی لیکن اس سلسلے کی نسبت کے ساتھ ملحق ہو کر، اس سے علیحدہ طور پر نہیں، یعنی وہ اس کے ساتھ transfer ہو جائے گی۔ لیکن نہ میں اس کا اظہار کر سکوں گا، نہ اس کے اظہار کی ضرورت ہے۔ یہ تفصیلات ہیں اس میں، تو اس وجہ سے اگر کسی کو اس میں غلط فہمی ہے تو وہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے، باقی اویسی سلسلہ اس کو نہیں کہیں گے، اس کو ہم کہیں گے کہ یہ وہی سلسلہ ہے البتہ اویسی نسبت اس کے ساتھ attached ہے، اویسی نسبت کے attach ہونے کی وجہ سے سلسلہ اویسیہ قائم نہیں ہوتا، کیوں کہ سلسلہ by definition زنجیر کو کہتے ہیں، جیسے کہتے ہیں پا بہ سلاسل ہے یعنی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، تو یہ زنجیر سلسلہ ہے آپ ﷺ سے لے کر اب تک، اس میں ہر کڑی اپنے طور پر اہم ہے، درمیان میں کوئی کڑی کٹ گئی تو پھر زنجیر نہیں رہی پھر وہ وہاں تک نہیں پہنچے گا۔ جیسے حدیث شریف کا سلسلہ ہے، اسی طرح تصوف کا سلسلہ ہے، اسی طرح قرآن کا بھی سلسلہ ہوتا ہے، تو یہ تین سلاسل ہیں تو ان سلاسل میں transparency ہو گی۔ اس وجہ سے سلسلہ اویسیہ transparent نہیں ہوتا کیونکہ وہ direct چیز ہے، البتہ اویسی نسبت ہوتی ضرور ہے اور سلسلے میں اویسی نسبت شامل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا نہ اظہار کرنے کی ضرورت ہے اور نہ انکار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کے پاس ہے تو بس ٹھیک ہے اس کے ساتھ شامل ہو جائے گا، بس اس کو فائدہ ہو جائے گا۔
سوال 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی کیا حال ہے، خیریت سے ہیں؟ امید ہے آپ خیرت سے ہوں گے۔ ایک مشورہ آپ سے کرنا ہے، میں اللہ کی توفیق سے تقریباً دس سال سے تفسیر پڑھا رہا ہوں میرے دل میں داعیہ اٹھا ہے کہ میں whatsapp پر group بنا کر تفسیر کو شروع کروں۔ آپ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمایئے کہ مجھے اس سلسلے کو کیسے شروع کرنا چاہیے؟ کیا مکمل تفسیر بھی اس میں ہونی چاہیے یا صرف مطلقاً قرآن پاک کی آیات اور ان کا ترجمہ اور مختصر تفسیر اس کے ساتھ ہونی چاہیے؟ اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
اچھا جی! یہ تو خیر اس کی علمی بات ہے۔
سوال 11:
السلام علیکم!
I did zikr for more than a month:
500 times Haq
2000 times Haq Allah and
1000 times Allah. Also, today was my last day in office. My notice period is over. I am a bit happy about it. Wa alaikum salaam۔
جواب:
So now you should do,
500 times Haq
2000 times Haq Allah
1000 times Allah and
200 times hoo. In hoo, you will think about Allah subhanahu wa ta'ala. By hoo means Allah suhannaho wa taalah۔
سوال 12:
السلام علیکم مرشد!
(from some people of Singapore)
How are you Murshid? I hope you and your family are in the best health. Firstly, Murshid, please allow me to apologize for our shortcomings and all the issues our family are facing for which we have been consulting with you. I am sorry I offended you. In any way Murshid, it was with no intentions at all. It’s just that I have no one else to talk with about the issue. You are the only one I can look upon for the right guidance and Alhamdullilah thank you so much for the guidance. And once again Alhamdulillah I have started working, waking up at night to pray tahajjud prayers regularly and have been reading the Quran everyday since Ramadan. Murshid please find below our long overdue report and once again I apologize for not sending this sooner. The current situation in our family has taken me away from a lot of my other responsibilities but I know there should not be an excuse. Once again please forgive me. Here is the report and the children's report.
Myself:
My current aamal are,
- Third kalma , salwat-al-nabi, astaghfar 100, 100 times each
Muraqbaat:
Muraqba ALLAH silently for about ten minutes on Qalb
- Muraqba ALLAH silently for about ten minutes on Rooh
- Muraqba ALLAH silently on Siir for about ten minutes
- Muraqba ALLAH silently on Khafi for about ten minutes
- Muraqba ALLAH silently on Ikhfa for about twenty minutes
My recitation is usually done after ishraq prayers. Alhamdullilah Murshid after quitting my part time job in the clinic, I am not missing my prayers although the situation has made it hard to concentrate during my amal. Initially, I found that since I started praying in tahajjud, I am able to concentrate better. I am having a lot of sadness in my heart, Murshid, and at times during muraqaba I break into tears. I haven't heard my voice saying ALLAH for a quite while, but I have noticed during the Quran that another voice is reading with me.
جواب:
MashaALLAH it’s very good that you have started Alhadullilah tahajjud once again in the time that is a bit difficult, but Alhadullilah ALLAH subhan-ho-tallah have given you taufeeq for this. And may ALLAH subhan-ho-wa-ta’allah grant you taufeeq continuously. and because this tahajud is actually the key of walayat. It is told by mashaikh kram that tahajud is key for walayat. So therefore if Allah subhan-ho-talah grants taufeeq to someone, it means ALLAH wants him to become wali-ullah. This is actually a very very good thing. It is nafl. It is not farz or wajib but actually it is graded in very high rank. So therefore, continue this and it will make your path easy to ALLAH because it has barkat. It has barkat and Allah sends special barkat at the time of tahajjud and at the time of ishraq. These two are very very high ranking times. So those who are sitting at the time of ishraq after salat, Allah subhan-ho-taalah feed them something which is not fed at any other time. And during tahajjud, special rehmat is coming from Allah subhan-ho-talah towards people. So therefore, those who are standing at that time before Allah subhan-ho-talah, ALLAH grants them every rehmat at that time. So you see, you are just telling me that ALLAH has made it easy for you after this. So continue this Insha Allah-ol-aziz Allah will give you more.
As far as your muraqbaat are concerned, you just make muraqabat at all these points only for ten minutes. And after that you take another event and that is Muraqaba Ahadiyath. Muraqaba Ahdiyat means that you will start thinking that phase is coming from ALLAH subhan-ho-watalah according to his shaan and that is coming to the qalb of Rasulullah S.A.W and from the qalb of Rasulullah S.A.W, it is coming to the qalb of Sheikh and from the qalb of sheikh it is coming to your qalb. So do it for fifteen minutes for one month. Doing all these for one month, after that you can give me a report.
Questioner: My older son:
His aamal is third kalma, salawat, astaghfar 100 100 times,
La-ilaha-il-lalah 100,
La-ilaha-il-lalah hoo
100 times haq 100 times and
ALLAH 100 times.
His aamal is usually done after maghrib and he has been consistent in doing this and he mentioned that he is always feeling very sad and emotional. Other than that he does not have any feelings.
Answer:
Ok. Inshallah he should continue it and Allah subhan-ho-allah will grant him itminan-e-qalb.
La-ilaha-il-lalah 200 times,
La-ilaha-il-lalah Hoo 200 times,
Haq 200 times and
Allah 100 times.
Questioner: And second son:
La-ilaha-il-lalah 200 times,
La-ilaha-il-lalah Hoo 400 times,
Haq 600 times and
Allah 500 times and third kalma, salawat and astaghfar 100 times each.
Answer: Ok he should do now:
La-ilaha-il-lalah 200 times,
La-ilaha-il-lalah Hoo 400 times,
Haq 600 times and
Allah 500 times.
For five minutes he should think that his heart is also saying Allah Allah.
Questioner: Mashallah his aamal is consistently done after Ishraq. Currently Murshid, he is not talking to my husband or praying together with us but he is still praying and doing all his aamal regularly. He said that he is not feeling differently.
Questioner: For both the girls current aamals are:
Third kalma, salawat and astaghfar 100, 100 times and muraqba ALLAH in qalb for ten minutes. Their aamal is usually done after ishraq as well. Both the girls said that they are not feeling anything differently.
Answer: Ok. They should continue it but they should do this ALLAH, ALLAH in qalb for fifteen minutes now.
So now inshALLAH if there are any questions, you can ask.
سوال 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت کیا سوال و جواب کے لئے Youtube کا channel کھولا جا سکتا ہے کہ اب تک جتنے سوال و جواب اکھٹے ہو چکے ہیں ان میں سے روزانہ ایک سوال و جواب بھیج دیا جائے۔ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو آمین۔
جواب:
میرا خیال ہے کہ آپ حضرات آپس میں مشورہ کر لیں کیونکہ صرف ایک انتطامی بات ہے اس میں کوئی ممانعت تو نہیں ہے اور کام تو پہلے سے ہو چکا ہے صرف یہ ہے کہ انتظامی طور پر اگر ایسا ممکن ہے اور کوئی مشکل نہیں ہے تو کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال 14:
السلام علیکم! شاہ صاحب کیا وضو کے بغیر درود شریف پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب:
جی ہاں پڑھا جا سکتا ہے، قرآن اگر یاد ہو تو وہ بھی یاد سے پڑھا جا سکتا ہے اور ذکر بھی بغیر وضو کے کیا جا سکتا ہے، دعا بھی بغیر وضو کے مانگی جا سکتی ہے، درود شریف میں تین چیزیں ہیں، ذکر بھی ہے، درود بھی ہے اور دعا بھی ہے تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ایک بہت بڑے عالم نے راستے میں سفر میں فرمایا: شبیر یاد رکھو! درود شریف بھی بغیر وضو کے پڑھا جا سکتا ہے، شیطان پہلے وضو نہیں رہنے دیتا اور پھر کہتا ہے کہ بغیر وضو کے پڑھ نہیں سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بس درود شریف نہ پڑھو، اس سے محروم ہو جاؤ۔ اس وجہ سے درود شریف اگرچہ وضو کے ساتھ زیادہ افضل ہے اور زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن بغیر وضو کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
سوال 15:
ایک خاتون نے پوچھا ہے کہ کیا ان دنوں میں کوئی اپنے قضاء روزے رکھ لے یہ بہتر ہے یا یہ نفلی روزے رکھے، یہ بہتر ہے؟
جواب:
اس نے ذی الحج کے روزوں کے متعلق پوچھا ہے۔ میں تو اس کا جواب دینے کے قابل نہیں ہوں کیونکہ یہ علمی بات ہے اور یہ علماء ہی بہتر جان سکتے ہیں، لیکن بہر حال حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ قضاء زیادہ اہم ہے نفلوں سے، لہذا جو لوگ نفل پڑھتے ہیں اور قضاء نمازیں نہیں پڑھتے تو وہ گناہ گار ہیں، اس وجہ سے وہ نفلوں کے اوقات میں قضاء نمازیں پڑھا کریں، لیکن بالکل نفل چھوڑیں بھی نہ، کیونکہ پھر شیطان یہ کرے گا کہ دوسرے وقتوں میں بھی قضاء جیسے پہلے بھی نہیں پڑھتے تھے، نہیں پڑھنے دے گا اور نفلوں کے وقت میں بھی نہیں پڑھیں گے تو نفل بھی رہ جائیں گے، یوں دونوں ہی گئے۔ اس وجہ سے کچھ نفل ساتھ ساتھ پڑھنے چاہئیں تاکہ اس کی attachment باقی رہے، مثلا اشراق کی نماز میں آپ دو رکعات اشراق پڑھ لیں اور چار رکعات قضاء پڑھ لیں۔ آپ تہجد کے وقت اٹھیں تو چار رکعات تہجد پڑھ لیں پھر اس کے بعد قضاء پڑھ لیں۔ اس طرح اوابین کے ساتھ بھی پڑھیں، اس طرح ہر ایک کے ساتھ شامل کرتے رہیں۔ اس وجہ سے میں کہوں گا کہ آپ کے روزے جو باقی ہیں ایک سے لے کر سات تک تو قضاء روزے رکھیں اور باقی آٹھویں اور نویں تاریخ کو ذی الحج کے نفلی رکھ لیں تاکہ کم از کم آپ کو توفیق ہو جائے۔ یوں ان شاء اللہ آپ کو اس کا بھی اجر ملے گا۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو حق بات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا البَلَاغُ