سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 464

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


آج پیر کا دن ہے۔ پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 1:

السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں۔ اس ماہ میں بھی دل اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بجائے کپڑے، جوتوں اور اس طرح ضرورت سے زیادہ چیزوں کی طرف مائل ہے۔ دل میں بات آتی ہے کہ ان کی بجائے لوگوں کی مدد میں دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری ہے۔ لیکن جتنا ابھی تک لوگوں پر اللہ کے لئے خرچ کیا اس سے زیادہ فضول خرچی دنیاوی معاملات میں کی ہے۔ اس عادت سے تنگ بھی ہو رہا ہوں۔ اللہ کے راستے میں بخل و کنجوسى ہے۔ جبکہ دنیاوی چیزوں میں ہاتھ نہیں رکتا۔ اللہ پاک آپ کی برکت سے اس سمیت دیگر تمام رذائل سے نجات عطا فرمائے۔ حضرت جی اس سے نجات کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

الحمد للہ! اللہ پاک نے آپ کو فکر نصیب فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ حقائق کا انکار تو نہیں کر سکتے۔ ہم جو بھی دین کے کام کرتے ہیں وہ اللہ جل شانہ کے حکم سے کرتے ہیں۔ جو کہ اٰجلہ ہے۔ اٰجلہ سے مراد یہ ہے کہ اس کا صلہ آخرت میں ملے گا۔ اور جو ہم اپنے لئے دنیا کے کام کرتے ہیں وہ عاجلہ ہے۔ اور عاجلہ کا اثر قرآن سے ثابت ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الآخِرَةَ (القیامۃ: 20-21) لہذا یہ بات قابل ملامت نہیں ہے کہ ہم دنیا کی طرف سوچ زیادہ کیوں رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ فجور کے زمرے میں آتا ہے اور فجور ہمارے نفسوں کو الہام کئے گئے ہیں۔ چنانچہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس کے مقابلے کا ہے۔ یعنی یہ چیزیں ہوں گی لیکن مقابلہ کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ نفس نفس مطمئنہ ہو جائے۔ لہذا نفس مطمئنہ کی کوشش اور محنت، ہمت اور استقامت کے ساتھ جاری رہنی چاہیے۔ ورنہ جو باتیں آپ کر رہے ہیں ان سے ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ مجھے پہلے سے ہی یہ چیز حاصل ہو جائے کہ نفس شرارت ہی نہ کرے۔ جب کہ یہ کیفیت نفس مطمئنہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ ایسا ہو گا، لیکن اس کے باوجود مجھے یہ کام کرنا ہے۔ مثلاً کسی کو کہیں جانا ہے، لیکن اس طرف مخالف سمت میں تیز ہوا چل رہی ہے لیکن اسے اس طرف بہر صورت جانا ہے۔ تو وہ اس تیز ہوا کو روک نہیں سکتا، لیکن اس تیز ہوا کے مقابلے میں زیادہ طاقت لگائے گا، یا جیسے کوئی دریا میں تیر رہا ہے اور اس کی destination سامنے کی طرف ہے تو وہ دریا کے بہاؤ کے مقابلے میں جائے گا لہذا وہ کوشش کرے گا کہ زیادہ سے زیادہ resistance کر کے وہ اس مقام کے قریب اتر جائے۔ یعنی وہ کچھ نیچے تو جائے گا لیکن اس کو پتا چلے گا کہ اس کنارے پر مجھے واپس آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ فطری چیزیں ہیں۔ لہذا اس سے disturb نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کو ہمت اور استقامت کی بنیاد بنانا چاہیے۔ جیسے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا(فصلت: 30) اور جب ہم نے "رَبُّنَا اللهُ" کہہ دیا تو اس میں ہم نے ایمان بالغیب کی تمام چیزیں accept کر لیں۔ کیونکہ اس کے اندر ساری چیزیں ہیں۔ چنانچہ ان کو accept کر لینے کے بعد ان پر استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب استقامت ہو گی تو سارا کام ہو جائے گا۔ لہذا تصوف کی یہ محنت اسی استقامت کے حصول کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے۔


سوال نمبر 2:

السلام علیکم! حضرت میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ کو عافیت میں رکھے۔ اگر آج وقت ہو تو جواب ارشاد فرما دیں۔ حضرت جی اصلاحی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا تھا۔ 10 منٹ قلب، 10 منٹ روح، 10 منٹ سر، 10 منٹ خفی اور 15 منٹ اخفىٰ پر دیا گیا تھا۔ شروع کے آدھے سے زیادہ وقت میں سب لطائف پر ٹھیک محسوس ہوتا تھا الحمد للہ۔ پھر آہستہ ہو گیا اور اب کبھی کبھی جب تک بہت زیادہ دھیان نہ ہو تو پتا نہیں چلتا یا کم پتا چلتا ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے، کبھی نہیں۔ ایک اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب تھوڑا بہت محسوس ہو رہا ہو تو دھیان رکھ پاتی ہوں، لیکن جب بہت کم محسوس ہو تو دھیان مسلسل وساوس کی طرف پہنچ جاتا ہے اور ذکر سے ہٹ جاتا ہے اور سینے پر بہت بوجھ ہوتا ہے۔ حضرت جی اگر ذکر میں وساوس شدید آ جائیں جیسے شہوانی خیالات یا دوسرے برے خیالات، تو ایسی حالت میں بھی ذکر جاری رکھنا چاہیے یا زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو تو چھوڑ دینا چاہیے؟

جواب:

در اصل آپ نے دو چیزوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ ایک اچھی بات ہے اور ایک بری بات ہے۔ ان دونوں کے خلط ملط ہونے کی وجہ سے آپ پریشان ہو گئی ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے بات یہ ہے کہ لطائف لطیفہ سے نکلا ہے اور لطیف کہتے ہیں باریک چیز کو۔ لہذا جتنا جتنا یہ آپ میں راسخ ہوتا جائے گا اتنا ہی اس کا احساس کم ہوتا جائے گا۔ صرف اسی وقت پتا چلے کا جب آپ توجہ کریں گی۔ ابتدا میں تیز ہوتا ہے اور ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جتنا جتنا یہ ڈوبتا جائے گا اتنا اتنا کم محسوس ہو گا۔ جیسے سائیکل چلاتے ہوئے انسان کا سارا جسم ہلتا ہے۔ لیکن جہاز پر پتا بھی نہیں چلتا کہ میں جا رہا ہوں۔ حالانکہ اس کی speed سائیکل کی speed سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح گاڑی کی speed ہے۔ کیونکہ زیادہ speed والی گاڑی پر بھی آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ میں سفر کر رہا ہوں۔ بالخصوص اگر موٹروے وغیرہ پر جا رہے ہوں تو پتا نہیں چلتا، اسی وجہ سے accident بھی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ speed کا پتا ہی نہیں چل رہا ہوتا کہ گاڑی کتنی speed پر چل رہی ہے۔ اگر speed meter کو نہ دیکھے تو عین ممکن ہے کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ اسی طرح لطیفے کا احساس کم ہوتا جاتا ہے، اگرچہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب آپ اس کی طرف توجہ کریں گی تو آپ کو ہوتا ہوا محسوس ہو گا۔ لیکن اس سے دھوکہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی رک بھی جائے تو انسان کو احساس ہوتا ہے کہ شاید ہو رہا ہو گا۔ اس لئے اسے check کرتے رہنا چاہیے۔ اور ہمارے حضرت فرماتے ہیں کہ جب کسی کے لطائف چل رہے ہوں تو اسے ساتھ ساتھ زبانی ذکر بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ بعض دفعہ لطائف رُکے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو پتا نہیں ہوتا۔ لہذا زبان کا ذکر ہو رہا ہو گا۔ بہرحال آپ دو چیزیں mix کر رہی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈوبتا جاتا ہے اور اس کا احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ وساوس کی طرف دھیان نہیں کرنا ہوتا۔ وساوس کی طرف جتنا دھیان کریں گی اتنا ہی وساوس آپ کے اوپر چڑھ دوڑیں گے۔ لہذا آپ اپنے ذکر کی طرف دھیان رکھیں اور چاہے جتنا بھی ہو یہی آپ کو وساوس سے بچائے گا۔ آپ ذکر بالکل نہ چھوڑیں۔ مثلاً آپ ذکر تو چھوڑ دیں گی لیکن اگر نماز میں آپ کو وسوسے آتے ہوں تو کیا نماز بھی چھوڑ دیں گی؟ کیونکہ آپ نے بھاگنا تو نہیں ہے۔ بہر حال آپ ذکر نہ چھوڑیں۔ البتہ وساوس کی طرف دھیان نہ کریں اور ان کی پرواہ نہ کریں۔


سوال نمبر 3:

السلام علیکم! حضرت میرے ذکر کو مہینے سے اوپر ہو گیا ہے۔ میرا ذکر یہ ہے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" 200 مرتبہ، "اللہ" 200 مرتبہ، "اللہُ اللہ" 200 مرتبہ، حق 500 مرتبہ، ہر لطیفہ پر اللہ 5 منٹ کے لئے محسوس کرنا ہے اور ہر نماز سے پہلے دو، تین منٹ یہ مراقبہ کرنا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے سامنے جیسے کھڑا ہونا ہے ویسے مجھے کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ مراقبہ کرنے کے بعد بھی ابھی تک پختگی نہیں ہے اور ادھر ادھر کے خیالات بھی رہتے ہیں، رہنمائی فرمائیں۔ حضرت جی میں نظر کا مجاہدہ، کھانے کا مجاہدہ، پسندیدہ کپڑے اللہ کی راہ میں دینے کا مجاہدہ کر چکا ہوں۔ نظر کے مجاہدے میں بعض اوقات بے احتیاطی ہوتی ہے، ہمت سے اکثر بچ جاتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے خاموشی کا مجاہدہ ملا تھا، اس پر ابھی تک پختگی نہیں، کبھی خاموشی اختیار کر لیتا ہوں، کبھی نہیں کر پاتا۔ اس کی اطلاع دیر سے کرنے کی وجہ سستی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں شرمندہ ہوں اور آئندہ وقت پر اطلاع کروں گا۔

جواب:

فی الحال جو سبق آپ کو دئیے گئے تھے وہ پختہ نہیں ہوئے۔ تو آگے دوڑ، پیچھے چھوڑ نہیں کرنا ہے، اس لئے انہی کو پختہ کریں، لہذا جو مجاہدات آپ کو دیئے گئے ہیں ان کو آپ پختہ کریں، جیسے نظر کا مجاہدہ ہے، کھانے کا مجاہدہ ہے، پسندیدہ کپڑے اللہ کی راہ میں دینے کا مجاہدہ ہے۔ مجاہدات میں ہمت کرنی ہوتی ہے، یہ ہمت کے بغیر نہیں ہوتے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کوئی گاڑی پھنس جائے تو دو چار لوگ جمع ہو کر اس کو دھکا دیتے ہیں تو وہ ساتھ ساتھ کہتے ہیں اے ہوں۔ اس اے ہوں کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارے اسی ایک ہی وقت میں ہمت کریں۔ اور جب سارے اسی ایک ہی وقت میں ہمت کر لیں تو کام ہو جاتا ہے۔ اگر ساتھ ساتھ یہ اے ہوں نہ کریں تو کوئی ایک سیکنڈ بعد زور لگائے گا اور کوئی سیکنڈ پہلے لگائے گا، جس سے زیادہ force جمع نہیں ہو گی اور total vector زیادہ نہیں بنے گا۔ نتیجتاً کام نہیں ہو گا۔ لہذا آپ کو یہ اے ہوں والا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔


سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی اللہ تبارک و تعالیٰ سے آپ کی صحت اور لمبی عمر کے لئے دعا گو ہوں۔ حضرت جی میرا 15 منٹ کا مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ چل رہا ہے اور باقی سارے لطائف پر 5، 5 منٹ ذکر ہو رہا ہے اور بارہ تسبیح کا ذکر اور 100 دفعہ اسم اللہ کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ یہ مراقبہ تقریباً تین دفعہ دہرا چکا ہوں لیکن کچھ کیفیات حاصل نہیں ہو رہیں۔ اس مراقبے میں مہینہ دوبارہ ہو چکا ہے اور دو ناغے ہوئے ہیں، اگر اس طرح كى کیفیت حاصل ہونا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہر حال سے واقف ہے اور میری ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت کے زیر اثر ہے، کچھ غلط کرنے پر بھی پکڑ ہو جائے گى تو یہ کیفیت مجھے قدرتی طور پر یا شاید والدین کی تربیت کی وجہ سے بچپن سے ہی حاصل ہے اور مجھے میری پکڑ محسوس ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اس مراقبے سے کوئی اور کیفیت مقصود ہے تو وہ مجھے حاصل نہیں ہو رہی۔ لطائف پر ذکر کبھی تیز رہتا ہے اور کبھی متوجہ ہونے سے ہوتا ہے۔ مصروفیت کی وجہ سے اکثر ذکر رہ جاتا ہے تو دوبارہ بہت مشکل ہوتا ہے وقت کی پابندی کرنا۔ معمولات کا chart بنانا دوبارہ شروع کر چکا ہوں اور منزل جدید بھی پڑھنا شروع کی۔ وقت کی کمی کى وجہ سے ذکر، مراقبہ، تلاوت قرآن کے علاوہ باقی معمولات چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتا۔ آج کل مندرجہ ذيل مصروفیات ہیں: دفتر جا رہا ہوں یا گھر سے دفتر کا کام دیکھ لیتا ہوں، freelancing project لیا ہوا ہے اس پر سارا دن کام کرتا ہوں، ایک training کر رہا ہوں نئی technology کے اوپر، جس کی practice بھی کرنی ہوتی ہے۔

جواب:

اس پر میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ سردیوں کے دن تھے کچھ students نے کہا چلو! فلم دیکھتے ہیں، دوسرے students نے کہا نہیں! سردی کے دن ہیں حلوہ پکاتے ہیں، تیسرے کچھ study type students تھے جو بیچارے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں، انہوں نے کہا نہیں! یہ لمبی راتیں ہیں، پڑھتے ہیں، اس میں فائدہ اٹھاؤ، یہ کیا طریقہ ہے کہ حلوہ پکاتے ہیں، فلم دیکھتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سیانوں نے تجویز پیش کی کہ چلو toss کرتے ہیں اگر شیر آ گیا تو فلم دیکھتے ہیں، اگر خط آ گیا تو حلوہ پکاتے ہیں اور اگر سکہ کھڑا ہو گیا تو پھر پڑھ لیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اسی طرح آپ نے رمضان شریف میں اتنے سارے کام اپنے ذمے لئے ہوئے ہیں تو اب بھگتو۔ انسان کو کوئی planning کرنی چاہیے۔ رمضان شریف کی کمائی کو آپ ضائع کر رہے ہیں، رمضان شریف ہر وقت تو میسر نہیں ہوتا۔ گیارہ مہینے آپ اپنا کام کریں، رمضان کے مہینے کے لئے اپنے آپ کو فارغ کریں۔ اگرچہ دفتر کی مصروفیات آپ کی مجبوری ہے۔ کیونکہ اس میں آپ کو چھٹی نہیں ملتی۔ الحمد للہ! ہم لے لیا کرتے تھے اور خدا کی شان ہے، ہمیں مل جاتی تھی۔ اگر دفتر کے کام نہیں چھوڑ سکتے تو وہ زائد کام جن کو چھوڑنا ممکن تھا ان کو چھوڑ دیتے۔ اب آپ اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک busy کر کے کہتے ہیں کہ چاہنے کے باوجود مجھ سے رمضان شریف کے معمولات نہیں ہو رہے۔ یہ کیسی چاہت ہے؟ یہ تو سکہ کھڑا ہونے والی بات ہے۔ سکہ کھڑا ہونے والے لوگ بھی تو چاہ ہی رہے تھے، کیا ان کو چاہت مل سکتی تھی؟ نہیں مل سکتی تھی۔ لہذا آپ اس پر تھوڑا سا سوچیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ چیزیں چھوڑ دیں۔ لیکن planning کرنی چاہیے کہ میں کون سے وقت میں کون سا کام کروں۔ چنانچہ آپ نے اپنے آپ کو جو اتنا زیادہ busy کیا ہوا ہے اس پر غور کریں۔


سوال 5:

السلام علیکم! فلاں

One more month of meditation is completed. ذکر is continued as well.

Meditation was of 15 minutes لطیفۂ روح and 15 minutes لطیفۂ قلب. I have felt ذکر for 4 or 5 minutes لطیفۂ روح three to four minutes in لطیفۂ قلب.

Three days were skipped. Should I continue this?

جواب:

Yes but لطیفۂ قلب is earlier than لطیفۂ روح

انہوں نے اس طرح بتايا جیسے وہ لطیفۂ قلب کے اوپر بعد میں کر رہی ہوں۔ اور يہ غلطی بہت سارے لوگ کر رہے ہیں کہ لطیفۂ روح پہلے کرتے ہیں اور لطیفۂ قلب بعد میں، کیونکہ دایاں پہلے ہے۔ جب کہ یہ غلط ہے، کیونکہ لطیفۂ قلب بنياد ہے اور لطیفۂ روح اس کے اوپر dependent ہے۔ لہذا اگر آپ نے لطیفۂ قلب بعد میں کیا ہے تو معاملہ reverse ہو گیا۔ کیونکہ وہ اس کے لئے بنیاد نہیں بنے گا۔ چنانچہ لطیفۂ قلب محروم رہ سکتا ہے۔ اس لئے پہلے لطیفۂ قلب کرنا چاہیے، پھر لطیفۂ روح کرنا چاہيے۔ جب کہ تیسرا کلمہ، دررود شریف اور استغفار کا ذکر پہلے بھی کیا جا سکتا ہے اور بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسے آپ subject to condition لے لیں، یعنی اپنے احوال مطابق کر لیں۔


سوال نمبر 6:

السلام علیکم! دعا کی درخواست ہے۔ اللہ طبیعت ٹھیک رکھے تاکہ روزے کے بعد اپنے فرائض انجام دے سکوں۔ آمین

جواب:

آمین۔


سوال نمبر 7:

السلام علیکم! حضرت جی آپ کو رمضان کے مہینے کی بہت بہت مبارک ہو۔ میرے ذکر اور مراقبے کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ میرا ذکر 3000، مراقبہ 15 منٹ ہے۔ ذکر میں اب خیالات نہیں آتے پورا دھیان رہتا ہے۔ مراقبہ میں بھی خیالات نہیں آتے، شروع کے 5 منٹ دھیان رہتا ہے پھر آخر میں بھی دھیان رہتا ہے مگر مکمل توجہ نہیں رہتی۔ دل اللہ اللہ کر رہا ہوتا ہے اور سانس میں محسوس ہونے لگ جاتا ہے، کسی وقت پورے جسم میں بھی محسوس ہونے لگتا ہے مگر بہت کم۔ ذکر اور مراقبہ فجر کے بعد کرتی ہوں، چھ مہینے سے ناغہ نہیں ہوا۔ معمولات کا chart بھیج رہی ہوں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

ذکر تو آپ اتنا ہی رکھیں 3000 مرتبہ۔ اور دل کا مراقبہ جو آپ 15 منٹ کر رہى ہیں وہ 10 منٹ رکھیں۔ اور 10 منٹ آپ مراقبہ لطیفۂ روح كو دے دیں۔ لطیفۂ روح اگر آپ کو نہیں معلوم تو website پر ذکر کے بارے میں subject دیکھ لیں، جہاں آپ کو تصوير سے معلوم ہو جائے گا کہ لطیفۂ روح کدھر ہے۔ اس پر بھی 10منٹ دھیان رکھيں کہ اللہ اللہ ہو رہا ہے۔


سوال نمبر 8:

حضرت السلام علیکم!

I have been reciting اللہ اللہ fifteen hundred times for around two months. There have been no feelings associated with this ذکر except for a few days when I initially started it. دعا is requested for.

جواب:

دعا تو میں یقیناً کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس ذکر کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔ اب اللہ اللہ 2000 مرتبہ کريں۔

آپ کا معمولات کا chart پڑھا نہیں جا رہا، اس کو ذرا صاف کر کے بھیج دیں تاکہ کم از کم پڑھا جا سکے۔ کیونکہ Whatsapp پر ویسے بھی کچھ مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے آپ E-Mail کے ذریعے سے send کر دیں یا اسی کو بہت clearly بھیجیں۔ پہلے خود پڑھیں کہ آپ سے پڑھا جا رہا یا نہیں۔ پھر ہی میں اس کو پڑھ سکوں گا۔ ان شاء اللہ۔


سوال نمبر 9:

ہمارے مجاہدے کی مدت پوری ہو گئی ہے۔ آگے آپ رہنمائی کریں۔ الحمد للہ اس مہینے مجھ سے صرف ایک روز نمازِ اشراق قضا ہوئی، باقی معمولات صحیح تھے۔ میری سہیلی سے اس مہینے میں کوئی عمل قضا نہیں ہوا۔ الحمد للہ! اللہ کے فضل و کرم سے میں نے تین ختمِ قرآن کر لئے۔ اللہ قبول فرمائے۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے یہ چیزیں مکمل کر لیں۔ لیکن رمضان شریف میں اب میں مزید آپ کو فی الحال کچھ نہیں دے رہا۔ رمضان شریف کے جو معمولات آپ کو دیئے گئے ہیں ان کو باقاعدگی اور تفصیل کے ساتھ کر لیا کریں۔ اس میں time لگا دیں اور علاجی ذکر وغیرہ سب کچھ جاری رکھیں۔ نیز رمضان شریف کے معمولات کی طرف دھیان زیادہ رکھیں بالخصوص لیلۃ القدر آ رہی ہے اس میں عبادت کی بھر پور کوشش کریں۔ ان شاء اللہ رمضان شریف کے گزرنے کے بعد میں آپ کو مزید دوں گا۔ اور رمضان شریف کے معمولات کا chart اگر آپ کو نہیں ملا تو پوچھ لیں آپ کو بھیج دیا جائے گا اور اس پر مکمل عمل کر کے دکھائیں۔


سوال نمبر 10:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں راولپنڈی سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ حضرت والا میں نے قرآن پاک کو mobile میں download کیا ہے جو حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کے آسان ترجمۃ القرآن کے نام سے ہے۔ mobile پر تلاوت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ رات کو گھر والی آرام کر رہی ہوتی ہے جس سے کمرے کی light بند ہوتی ہے۔ کیا میں mobile phone پر تلاوت قرآن پاک کر سکتا ہوں۔

جواب:

بالکل کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہم خود بھی mobile پر تلاوت کر لیتے ہیں۔


سوال نمبر 11:

السلام علیکم! حضرت جی ثوابی ذکر اور بیان اکٹھے سن اور کر سکتے ہیں؟

جواب:

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم computer پر downloading کر رہے ہوتے ہیں، تو اگر دو چیزیں download کرنا شروع کردیں تو series لگ جاتی ہے تو وہ پوری نہیں ہو رہی ہوتیں۔ اور اگر آپ series میں کر لیں تو ایک بھی جلدی ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد دوسرا بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ system کو پھنسانے والی بات ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اپنے system کو نہ پھنسائیں اور بیان سنتے وقت صرف بیان سنیں اور ثوابی ذکر کرتے ہوئے صرف ذکر کر لیں۔ ہاں! walk کے دوران آپ کر سکتے ہیں کیونکہ walk کے دوران ذکر کے لحاظ سے کوئی اور مصروفیت نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ بیان سننا ہوتا ہے اور سننے میں بھی دماغ استعمال ہوتا ہے اور بولنے میں بھی۔ لہذا دونوں کی طرف پوری توجہ نہیں رہے گی۔


سوال نمبر 12:

السلام علیکم! آپ کو حال کی اطلاع دینا چاہتا ہوں، آج سحری کے وقت ذکر کرتے ہوئے دوسری تسبیح "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" کے دوران مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سب دنیا side پر ہو گئی اور میں اللہ کے عرش کے قریب ہو کر ذکر کر رہا ہوں الفاظ میں کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ میرا یہ مہینہ 200 400، 400، اور 100 ہے۔

جواب:

آپ 200، 400، 600 اور 100 ذکر کریں۔ اور ذکر جاری رکھیں، کشفیات کی طرف توجہ نہ دیں۔ مجھے بھی حضرت نے اس سے روکا تھا۔ میں نے کوئی ایسی بات کی تھی تو حضرت نے فرمایا یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ لہذا یہ راستے کی باتیں ہیں، راستے میں انسان بہت ساری چیزیں دیکھتا ہے، لیکن منزل مقصود پہ نظر جانی چاہیے۔ منزل مقصود اللہ کی رضا ہے جو نفس مطمئنہ کے ساتھ attach ہے۔ اس لئے نفس مطمئنہ کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ بعض دفعہ ان کشفیات میں پھنس کر انسان نفس مطمئنہ کی اہمیت کو نہیں محسوس کر پاتا۔ نتیجتاً اس میں پیچھے رہ جاتا ہے اور جن کو ان چیزوں کا بالکل پتا ہی نہیں ہوتا وہ آرام سے نفس مطمئنہ حاصل کر کے سارے فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کی مثال حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑى عجیب دی ہے۔ فرمایا کہ کوئی گاڑی میں جا رہا ہو جس کے شیشے کھلے ہوئے ہوں، تو اس کو راستے میں پتہ چلتا رہتا ہے اب فلاں جگہ آ گئی اور اب فلاں جگہ آ گئی۔ اس میں بڑی خوبصورت وادیاں بھی ہوتی ہیں اور اگر کسی وجہ سے کہیں گاڑی کھڑی ہوئی تو ایک آدمی نے سوچا کہ یہاں اتر کر کچھ سير کرتا ہوں یہ سوچ کر وہ وہاں نیچے اتر گیا۔ اور گاڑی چل پڑی اور وہ ادھر رہ گیا۔ اب وہ سیر کرتا رہے منزل سے تو رہ گیا۔ چنانچہ بعض دفعہ ان چیزوں میں انسان پھنس جاتا ہے لہذا ان چیزوں کی طرف توجہ نہ کریں۔ اصل چیز کی طرف توجہ کریں۔ کیونکہ ذکرِ علاجى مقصود نہیں بلکہ ذکر ذریعہ ہے۔ لہذا اس ذریعہ کے مقصود پر نظر ہونی چاہیے۔


سوال نمبر 13:

السلام علیکم! الحمد للہ میرا 15 منٹ والا عمل پچھلے ہفتے کو پورا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی جاری رکھا اور اب اس میں 5 ہفتے ہو گئے۔ میں عمل صبح کے وقت کرتی ہوں، اس جمعہ کو صبح نيند کے غلبے کی وجہ سے نہیں کیا اور پھر ظہر اور عصر کے بعد بھی مصروفیت کی وجہ سے رہ گیا۔ مغرب کے وقت عمل کرنے کا ارادہ اس خیال سے ترک کیا کہ مہینہ پورا ہو چکا ہے، اب اگلی ہدایت پر کروں گی۔ مگر جب میں نماز کے بعد تسبیح فاطمی کی تو عجیب بات ہوئی کہ سبحان اللہ کر کے شروع کیا تو گویا کسی نے زبردستی مجھے عمل پہ لگا دیا۔ تسبیح ادھر ہی چھوٹ گئی اور میں نے پورے دھیان سے اور جذب ہو کر عمل کیا ایسے دھیان سے اس سے پہلے کبھی میسر نہیں آیا تھا۔ اب دوبارہ اطلاع دیتى ہوں کیونکہ پچھلے ہفتے غالباً آپ کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کی ہدایت نہیں ملی تھی۔ حضرت عرض ہے کہ آپ نے جو عمل کرنے کے لئے بتایا تھا وہ ایک ماه مکمل کر لیا ہے 15 منٹ کے لئے۔ لیکن دو چار دن 15 منٹ سے کم ہوئے ہیں۔ اور اگر کوئی بیماری کى وجہ سے عشاء کے بعد فرض پڑھ کر سو گیا اور رات کے کسی پہر اٹھ کر تراویح ادا کرے تو کیا یہ درست ہے؟

جواب:

آپ نے یہ تو بتا دیا کہ عمل کر لیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون سا عمل کیا ہے۔ کیا خیال ہے آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں کہ میں نے دوائی کھا لی ہے اور یہ نہ بتائیں کہ کون سی دوائی کھائی ہے تو وہ ڈاکٹر کیا جواب دے سکے گا۔ ڈاکٹر ریحان ہمارے family doctor تھے ایک دفعہ میں ان کے پاس گیا جبکہ دوائی کی chit میرے پاس نہیں تھی۔ کیونکہ میں پشاور سے سیدھا ان کے پاس گیا تھا، تو میں نے کہا chit میرے پاس نہیں ہے، انہوں نے پوچھا: کون سی دوائی تھی؟ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ نے خود ہی لکھی تھی۔ تو انہوں نے کہا: میرے پاس تو ہزاروں مریض آتے ہیں، کیا میں سب کی دوائیاں یاد رکھ سکتا ہوں؟ اسی طرح آپ کے لئے بھی میرا یہی جواب ہے۔ میرے پاس بہت سارے لوگ آتے ہیں، کوئی خطوط بھیجتا ہے، کوئی کسی اور ذریعے سے رابطہ کرتا ہے، تو مجھے کیا پتا کہ آپ کو کون سا عمل دیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کو عمل نہ کہیں، کیونکہ عمل عملیات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ عملیات میں سے نہیں ہے بلکہ یہ اصلاحی ذکر ہے، اسے ہم علاجی ذکر کہتے ہیں، عمل نہیں کہتے۔ اور ہماری عملیات والی line ہے ہی نہیں۔ یہ اصلاحی line ہے۔ چنانچہ آئندہ اسے علاجی ذکر کہیں اور ساتھ ساتھ بتاتی رہیں کہ میں نے آپ کو کون سا ذکر دیا تھا۔


سوال نمبر 14:

السلام علیکم! شاہ صاحب 2 دن پہلے میں اپنے بیٹے کو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں پڑھا رہی تھی اس کے بعد دوپہر کی نماز پڑھی تو عجیب کیفیت طاری ہو گئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے علمِ دین کی خاطر کتنی تکالیف برداشت کیں اور ہمیں دین by birth ملا ہے۔ لیکن ہم نے اس کا کیا حال کر دیا۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ بے اختیار آنسو جب جاری ہو جائیں تو کیا اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟

جواب:

اس سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ نماز تب ٹوٹتی جب زبان سے کوئی آواز نکلے اور وہ آواز غیر نماز کی ہو۔ اور آواز تب نکلے جب منہ کھلا ہو اگر منہ بند ہو تو کڑکڑ تو ہوتی ہے لیکن اس سے کوئی آواز نہیں بنتی۔ چنانچہ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی، لہذا اگر کسی کو زور سے رونا آ رہا ہو تو اسے منہ بند رکھنا چاہیے جس سے آواز نہیں بنے گی۔ اور اگر آواز دور تک پہنچے اور اس سے کوئی لفظ بن رہا ہو تو اس سے زیادہ مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے آواز ساتھ نہیں شامل کرنی چاہیے البتہ آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے۔ جیسے مکہ مکرمہ میں ائمہ مساجد نماز میں روتے ہیں جو ان کا اپنا مسلک ہے۔ جس سے لوگوں کا بھی یہی ذہن بن گیا ہے، چنانچہ وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر آواز ایسی ہو جس سے کوئی لفظ بن رہا ہو تو اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لئے اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ویسے ہی آنسو بہہ رہے ہوں یا جسم ہل رہا ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ بے اختیاری اتنا ہی ہوتا ہے اس سے زیادہ اختیاری ہو جاتا ہے جس پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔


سوال نمبر 15:

حضرت جی! میرا ذکر اور مراقبہ 33 دنوں سے جاری ہے۔ آگے کا ذکر فرمائيں۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 اور اللہ 1000 مرتبہ۔ اور 5 منٹ مراقبہ ہے۔ مراقبے میں دل کے اوپر ذکر 5 منٹ کرتا ہوں۔

جواب:

آپ نے مراقبے کی کیفیت نہیں بتائی، مراقبے کی کیفیت بھی بتائیں اور آپ نے یہ غلط نمبر پر بھیجا ہے۔ یہ نمبر احوال بتانے کے لئے نہیں ہے۔ اسی لئے بسا اوقات جواب رہ جاتا ہو گا۔ کیونکہ اس نمبر پر بہت سارے message آتے ہیں جس بنا پر اس میں message گم ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے دوسرا نمبر ہے اسے note کر لیں 03155195788 اس number پر سوال و جواب یا اپنے احوال وغیرہ بھیجا کریں۔


سوال نمبر 16:

السلام علیکم! جی آپ نے ایک دن مجلس میں فرمایا تھا کہ اللہ پاک نے ہمارے سلسلے پہ یہ خصوصی فضل فرمایا ہے کہ جو ہمارے سلسلے میں بیعت ہوتا ہے کم از کم اس کا ایمان محفوظ ہو جاتا ہے۔ تو اگر کوئی اپنی اصلاح کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اس نیت سے آپ سے بیعت ہو کہ اس کا ایمان بچ جائے، اگرچہ اس کو مناسبت بھی نہ ہو، اصلاح کے لئے آپ سے رابطہ بھی نہ کرے تو اس کو بھی کیا یہ نعمت مل سکتی ہے؟

جواب:

در اصل ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے۔ بیعت کی بھی ایک بنیاد ہوتی ہے جو کہ اصلاح ہے۔ وہ بیعت ہی نہیں ہے جس میں اصلاح مقصود نہ ہو۔ اصلاح کی نیت کے بغیر وہ کس لئے بیعت کر رہا ہے؟ "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" "تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" لہذا بیعت میں مقصود صرف یہی ہوتا ہے کہ میں اپنی اصلاح کے لئے بیعت کر رہا ہوں۔ اگر وہ اصلاح کی نیت سے بیعت نہیں کر رہا ہے تو اس کی بیعت ہی نہیں ہوئی۔ البتہ اگر وہ اپنی اصلاح کے لئے بیعت کر رہا ہے اور پورا نہ کر سکے (جیسا کہ بعض حالات کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے) تو اللہ پاک کم از کم اس کے ایمان کو محفوظ فرما دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض سلسلے مقبول ہوتے ہیں جس کی بدولت اللہ جل شانہ ان کو بچا لیتے ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ہے: ﴿اَللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (البقرۃ: 257) اس میں تقوی کا ذکر نہیں ہے اور دوسری جگہ آیا ہے: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ (یونس: 63-62) یہاں تقوی کا بھی ذکر ہے۔ اور ولایتِ خاصہ تقوی کے حصول کے ساتھ ہے اور ولایت عامہ سارے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ لہذا اگر کسی وجہ سے اتنی قبولیت ہو کہ وہ ایمان کو بچا دے تو یہ ہو سکتا ہے۔ سلسلے کی برکت بھی یقیناً ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ