خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج اتوار کا دن ہے اور جیسا کہ اعلان ہوا تھا کہ lockdown کے دوران اتوار کے دن بھی تعلیمات مجددیہ کا درس ہوا کرے گا، چنانچہ آج الحمد للہ تعلیمات مجددیہ درس نمبر 2 ہو رہا ہے جو عقائد کے بارے میں دوسرا درس ہے۔ ایک درس اس سے پہلے بھی اس موضوع پر ہو چکا ہے۔ اس وقت حضرت کے تین مکتوبات شریفہ ہمارے سامنے ہیں، جلد اول کا مکتوب نمبر 67، مکتوب نمبر 17 اور مکتوب نمبر 266۔ ان مکتوبات میں عقائد پر بات کی گئی ہے۔ چونکہ مکتوب نمبر 17 اور 67 میں عوام کے لیے نسبتاً آسان انداز میں عقائد بیان کیے گیے ہیں اس لیے ان کو علیحدہ بیان کیا جا رہا ہے، اور مکتوب نمبر 266 جو حضرت نے خصوصی طور پر اپنے شیخ کے صاحبزادگان کے لیے تحریر فرمایا تھا اور کلامی لحاظ سے بھی اہم ہے، اس کو انشاء اللہ بعد میں بیان کیا جائے گا۔
متن:
مکتوب نمبر 67 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
یہ بھی جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں یعنی صاحبِ شرع سے سننے پر موقوف ہیں۔
تشریح:
خود اپنی طرف سے ہم نہیں بنا سکتے۔
متن:
ہر وہ اسم جس کا اطلاق شرع شریف میں حضرت حق سبحانہٗ پر ہوا ہے اس کا اطلاق کرنا چاہیے۔
تشریح:
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اسماء کا تعلق اللہ تعالی کی صفات کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی کی صفات نبی ہی بیان کر سکتے ہیں، لہذا اسماء بھی اس کے متعلق ہوں گے۔
متن:
اور جس اسم کا نہیں ہوا اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے اگرچہ اس اسم میں کتنے ہی کمال درجے کے معانی پائے جاتے ہوں۔ مثلا اللہ تعالیٰ پر ’’جوّاد‘‘ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اسم آیا ہے مگر (حق تعالیٰ کو) سخی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ (حق تعالیٰ کی یہ صفت شرع میں) نہیں آئی۔
اللہ تعالیٰ کی صفات جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے بے چون و بے چگون ہیں اس لیے جتنا نبی نے اس کے بارے میں فرمایا ہے اس پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی کرنا خطرناک ہے اس ضمن میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام صاحب شرح سے سننے پر موقوف ہیں۔
قرآن مجید اور آسمانی کتابوں کے بارے میں مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 7 میں ارشاد فرماتے ہیں:
قرآن مجید خداوند جل سلطانہٗ کا کلام ہے جس کو حرف و آواز کے لباس میں ہمارے پیغمبر علیہ وعلٰی آلہ الصلٰوۃ والسلام پر نازل فرمایا گیا ہے اور اس کے ذریعے بندوں کو اَمر و نہی کا مخاطب کیا گیا ہے۔ جس طرح ہم اپنے کلامِ نفسی کو تالو و زبان کے ذریعے حرف و آواز کے لباس میں لا کر ظاہر کرتے ہیں اور اپنے پوشیدہ مقاصد و مطالب کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے کلامِ نفسی کو تالو و زبان کے واسطہ کے بغیر محض اپنی قدرتِ کاملہ سے حرف و آواز کا لباس عطا فرما کر اپنے بندوں کے لیے بھیجا ہے۔
تشریح:
مثلاً میں کوئی بات کرنا چاہتا ہوں تو وہ بات میرے دماغ میں کیسے موجود ہے؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ صرف ایک بسیط شکل میں موجود ہے۔ البتہ جب وہ میری زبان پر آتی ہے تو اس کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر پیدا ہو جاتی ہے، ایک لفظ پہلے آتا ہے دوسرا اس کے بعد آتا ہے۔ مثلاً میں لفظ "سرخ" بولتا ہوں، لیکن یہ لفظ الفاظ کی صورت میں میرے دماغ میں موجود نہیں ہے لیکن جب میں اس کو بولوں گا تو ”س“ پہلے آئے گا، پھر ”ر“ آئے گا، اور پھر ”خ“ آئے گا، گویا ایک ترتیب کے ساتھ یہ حروف ادا ہوں گے، اس لیے کلام اصلی کو ظاہر کلام کی طرح نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مثال میں نے صرف سمجھانے کی لیے دی ہے، ورنہ اللہ تعالی کی ساری چیزیں مثالوں سے پاک ہیں، وہ مثالوں میں سما ہی نہیں سکتیں۔ چنانچہ اللہ کا کلام بسیط موجود تھا، موجود ہے اور موجود رہے گا لیکن وہاں سے ایک ترتیب سے ہماری طرف بھیجا گیا ہے، اور ایسی ترتیب سے آیا ہے جو ہمیں سمجھ آ سکتی ہے۔ گویا کہ یہ کلام ہمارے پاس آنے کے بعد وجود میں آیا ہے اور یہ حادث ہے، لیکن اصل کلام مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالی کی صفت ہے۔ جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے تو پھر کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
متن:
اسی طرح حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے کلامِ نفسی کو تالو و زبان کے واسطہ کے بغیر محض اپنی قدرتِ کاملہ سے حرف و آواز کا لباس عطا فرما کر اپنے بندوں کے لیے بھیجتا ہے اور اپنے پوشیدہ اوامر و نواہی کو حرف و آواز کے ضمن میں لا کر ظاہر فرما دیا ہے۔ پس کلام کی دونوں قسمیں یعنی نفسی اور لفظی حق جل و علا کا کلام ہیں اور ان دونوں قسموں پر کلام کا اطلاق کرنا حقیقت کے طور پر ہے جس طرح کہ ہمارے کلام کی دونوں قسمیں نفسی و لفظی حقیقت کے طور پر ہمارا کلام ہیں، نہ یہ کہ قسمِ اول حقیقت ہے اور قسمِ ثانی مجاز، کیونکہ مجاز کی نفی جائز ہے اور کلامِ لفظی کی نفی کرنا اور اس کو کلامِ خدا نہ کہنا کفر ہے۔
تشریح:
یعنی ہمارے پاس جو قرآن موجود ہے اس کے بارے میں اگر میں کہوں نعوذ باللہ من ذلک کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو ایسا کہنا کفر ہو گا۔
متن:
اسی طرح دوسری کتابیں اور صحیفے جو پہلے انبیاء علٰی نبینا وعلیہم الصلوات والتسلیمات پر نازل ہوئی ہیں، سب حق سبحانہٗ کا کلام ہیں۔ اور جو کچھ قرآن مجید اور ان کتابوں و صحیفوں میں درج ہے وہ سب خداوند جل سلطانہٗ کے کلام ہیں جن کا ہر زمانے کے موافق بندوں کو مکلف فرمایا ہے۔
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے وہ کیسا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی زبان اور تالو کے استعمال سے اپنی سوچی ہوئی بات کو اپنے الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کو ان اسباب کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام نفسی کو ان کے بغیر ہماری سمجھ کے مطابق ایک خاص زبان میں معروف الفاظ کی صورت میں اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔
متن:
پس اس کی دونوں قسمیں نفسی اور لفظی اللہ تعالیٰ ہی کے کلام ہیں۔ اس میں حقیقی اور مجاز کی بنیاد پر پہلے کو اللہ تعالیٰ کا کلام کہنا اور دوسرے کو نہیں کہنا کہ مجاز کی نفی جائز ہے، کفر ہے۔
انبیاء کرام کے بارے میں مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 10 میں ارشاد فرماتے ہیں:
انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات، حق جل شانہٗ کی طرف سے مخلوق کی طرف بھیجے ہوئے ہیں تاکہ وہ مخلوق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت دیں اور گمراہی سے ہٹا کر سیدھے راستے پر لائیں، اور جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرے اس کو بہشت کی خوشخبری دیں اور جو کوئی انکار کرے اس کو دوزخ کے عذاب سے ڈرائیں۔
تشریح:
یعنی بشیر و نذیر۔
متن:
اور جو کچھ انہوں نے حق جل و علا کی طرف سے پہنچایا اور بتایا ہے سب حق اور سچ ہے، اس میں خلاف ہونے کا شائبہ بھی نہیں ہے۔
حضرت محمد صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم اجمعین خاتم انبیاء ہیں اور آپ کا دین تمام سابقہ ادیان کا ناسخ ہے، اور آپ کی کتاب (قرآن مجید) پہلی تمام کتابوں سے بہترین ہے، اور آپ کی شریعت کو کوئی منسوخ کرنے والا نہیں ہے بلکہ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔ حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام (قیامت کے قریب) آسمان سے نزول فرما کر آپ ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور آپ ہی کے امتی کی حیثیت سے رہیں گے۔
اور مکتوب نمبر 67 ہی کے عقیدہ نمبر 12میں ارشاد فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی شفاعت حق ہے (یعنی اولاً پیغمبر) ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (الفاتحہ: 3) جل سلطانہٗ کی اجازت سے گنہگار مؤمنوں کی شفاعت کریں گے پھر صالحین۔ آنحضرت علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: "شَفَاعَتِی لِاَہْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِی"۔ ”میری شفاعت، میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہو گی“۔
تشریح:
چھوٹے مجرم چھوٹی سفارش سے بھی بچ سکتے ہیں لیکن بڑے مجرم بڑی سفارش سے ہی بچ سکتے ہیں، لہذا کبیرہ گناہوں کی شفاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے۔
متن:
جبکہ مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر8 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات تمام جہان کے لیے رحمت ہیں۔ حضرتِ حق سبحانہ و تعالٰی نے ان کو مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور ان بزرگوں کے ذریعے بندوں کو اپنی بارگاہ میں بلایا ہے اور دارالسلام (جنّت) کی طرف جو کہ اس کی رضا کا مقام ہے دعوت دی ہے وہ شخص بہت ہی بے نصیب ہے جو (مولائے) کریم کی دعوت کو قبول نہ کرے اور اس کی دولت کے دستر خوان سے نفع نہ اٹھائے۔ اور ان بزرگوں (انبیاء) نے حضرت سبحانہ و تعالٰی کی طرف سے جو کچھ تبلیغ کی ہے وہ سب حق اور سچ ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ عقل بھی اگرچہ حجت (دلیل) ہے لیکن اس کی حجیت ناقص ہے۔ حجتِ بالغہ کاملہ صرف انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت سے حاصل ہوئی ہے تاکہ بندوں کے لیے کوئی عذر کا موقع نہ رہے۔
انبیاء ؑمیں سب سے پہلے حضرت آدم علٰی نبینا علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات ہیں اور ان میں سب سے آخر اور خاتمِ نبوتّ حضرت محمد رسول اللہ علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات ہیں، لہٰذا تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات پر ایمان لانا چاہیے اور سب کو معصوم اور راست گو (سچّا) سمجھنا چاہیے۔ ان بزرگوں علیہم الصلوات و التسلیمات میں سے کسی ایک پر ایمان نہ لانا تمام (انبیاء) پر ایمان نہ لانے کو مستلزم ہے کیونکہ ان سب کا کلمہ متفق ہے اور ان کے دین کے اصول بھی ایک ہی ہیں۔ اور حضرت عیسٰی علٰی نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسلام جب آسمان سے نزول فرمائیں گے تو وہ خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی شریعت کی متابعت کریں گے۔ حضرت خواجہ محمد پارسا جو حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالی سرہما کے کامل خلفاء میں سے ہیں اور عالم و محدث بھی ہیں اپنی کتاب "فصولِ ستہ" میں معتمد روایت سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علٰی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام نزول کے بعد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر عمل کریں گے اور ان کے حلال کو حلال اور ان کے حرام کو حرام قرار دیں گے۔
تشریح:
یہ ایک عجیب نکتہ ہے۔ اسے سمجھانا ضروری ہے، عیسی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو نبی کے طور پہ نہیں آئیں گے، یہ confirm بات ہے، وہ ایک امتی کے طور پہ آئیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عمل کیسے کریں گے؟ کیونکہ عمل کے لیے قرآن اور سنت بنیاد ہے لیکن عملی لحاظ سے ہمارے پاس فقہ موجود ہے جب کہ فقہ عوام کے لیے ہے اور اس کے درجات بھی ہیں جیسے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات وغیرہ، یہ ساری چیزیں اس میں طے شدہ ہیں۔ عیسی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو امت کا ایک زمانہ گزر چکا ہو گا، اس وقت قدرتاً تمام چیزوں کی تدوین ہو چکی ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کی تدوین بھی ہو چکی ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کی بھی، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کی بھی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کی بھی۔ لہذا عیسی علیہ السلام کوئی نئی چیز تو نہیں لائیں گے، بلکہ جن پرانی چیزوں کی تدوین ہو چکی ہے انہی میں سے کسی پر عمل کریں گے۔ اگرچہ تمام فقہی مذاہب ٹھیک ہیں کوئی بھی غلط نہیں ہے، لیکن امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ واقعتاً بہت ہی جامع ہے۔ اسی لیے ان کو امام اعظم کہتے ہیں۔ اس وقت بھی امت کی کثرت کے مقتدا وہی ہیں یعنی ساٹھ فیصد سے زائد مسلمان ان کے پیروکار ہیں۔ بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان، افغانستان، سینٹرل ایشیا، ترکی، ایسٹرن یورپ کے مسلمان اور تقریبا آدھا مصر، یہ سب فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں اور ان علاقوں میں آبادی کی کثرت ہے۔ بیس کروڑ کے لگ بھگ پاکستان میں ہیں اور انڈیا میں اس سے بھی زیادہ ہیں اسی طرح بنگلہ دیش، نصف افغانستان حنفی المسلک ہے۔ عراق اور ترکی بھی کثرت آبادی والے ممالک ہیں اور ان میں اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار ہے۔ یہ سب ملا کر اگر دیکھا جائے تو کافی بڑی تعداد بن جاتی ہے۔ تقریبا 60 فیصد سے زیادہ بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکاروں کی تعداد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا شافعی مسلک پر ہیں اور یہ بھی کثرتِ آبادی والے ممالک ہیں اور انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک ہی ملک ہے اور دوسری طرف پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کو ملا جائے تو انڈونیشیا سے تعداد بڑھ جاتی ہے، اس لیے پھر بھی تعداد احناف سے کم ہے، تو یوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار 20 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ اس کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار ہیں۔ زیادہ تر افریقی ممالک مالکی ہیں سوائے مصر کے، کیونکہ مصر میں نصف نصف ہے۔
سومالیہ، سوڈان، الجیریا، الجزائر یہ سب مالکی المسلک ہیں، اس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ماننے والے 10، 12 پرسنٹ کے لگ بھگ ہیں۔ آخر میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سعودی عرب میں تین چار فیصد لوگ حنبلی مسلک پر ہیں، اسی طرح چار پانچ فیصد غیر مقلد ہیں۔ اس سے اندازہ کریں کہ کتنی بڑی آبادی فقہ حنفی کے پیرو کاروں کی ہے۔
جب میں جرمنی میں تھا تو عید کے معاملے میں اختلاف ہوا تو میں پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہاں کے عرب حضرات جو ہمارے دوست تھے اور ساری چیزیں بھی ہماری مشترکہ ہوتی تھیں لیکن میرا روزہ تھا اور ان کی عید تھی۔ وہ سب میرے گھر جرگہ کے طور پر آ گیے کہ آپ ہر چیز میں ہمارے ساتھ ہیں سوائے اس مسئلہ کے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا میں اس مسئلہ میں ایک اصول کے ساتھ ہوں، اور مجھے معلوم ہے کہ تمہارے مقابلے میں پاکستان کا موقف صحیح ہے لہذا میں اس کے مطابق عمل کروں گا، میں پاکستان کے نام کے ساتھ نہیں ہوں بلکہ میں اصول کے ساتھ ہوں۔ ان میں سے کچھ حضرات واقعی اہلِ علم تھے، علمی طور پر کافی باتیں ان کو معلوم ہوں گی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ کو سواد اعظم (جس پر زیادہ لوگ متفق ہوں) کا ساتھ دینا چاہیے۔ میں نے کہا اسی طرح فیصلہ کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا: سارے Middle East کا صرف پاکستان کے ساتھ تقابل کر کے دیکھو کہ کن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے؟ کہنے لگے شیخ! آپ سے جیتنا بڑا مشکل ہے۔ بہر حال اس کے بعد پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا اور میں نے ان کی تواضع وغیرہ کی۔ اب اگر عیسٰی علیہ السلام اکثریت پر بھی فیصلہ فرمائیں تو فقہ حنفی کے حق میں ہی فیصلہ ہو گا کیونکہ ان فقہی مسالک میں سے کسی ایک کو ترجیح دیں گے تو بھی کسی دلیل سے ہی ایسا کریں گے۔ بہر حال یہ چونکہ ظنی بات ہے اس لیے ہم اس پر زور نہیں دیتے کیونکہ یہ کشفی بات ہے اور کشف ظنی ہوتا ہے۔
متن:
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تمام انبیاء کرام کے بارے میں فرمایا کہ وہ معصوم ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر ایمان نہ لانا سب کا انکار ہے کیونکہ سب کی دعوت ایک ہے اور آپ ﷺ کو خاتم النبیین فرماکر ارشاد فرماتے ہیں کہ عیسٰی جو آخر میں تشریف لائیں تو نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اور چونکہ امت میں دین کی تدوین ہوچکی ہے اور فقہ مرتب ہوچکی ہیں اس لیے حضرت رحمۃ اللہ علیہ ان میں سے کسی ایک کے مطابق عمل فرمائیں گے اور حضرت پارساؒ کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فقہ حنفی پر عمل کریں گے۔
فرشتوں کے بارے میں مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 15 میں ارشاد فرماتے ہیں: اور فرشتے خداوند جل و علا کے مکرم بندے ہیں، حق تعالیٰ جل شانہٗ کے امر کی نافرمانی کرنا ان کے حق میں جائز نہیں، جس کام کا ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں، عورت مرد ہونے سے پاک ہیں، توالد و تناسل ان کے حق میں مفقود ہے۔
تشریح:
یعنی ان کو اللہ جل شانہ نے اپنے امر سے پیدا کیا ہے اور سب کو ایک جیسا پیدا کیا ہے، لہٰذا ان کی نسل توالد و تناسل کے ذریعے سے نہیں بڑھ رہی بلکہ اللہ تعالی جتنے فرشتوں کو پیدا فرمانا چاہے فرما دیتا ہے۔ اسی لیے ان میں مرد اور عورت کا تصور بھی نہیں، کھانے پینے سے بھی پاک ہیں۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے آئے تو ابراھیم علیہ السلام نے ان کے لیے بچھڑا ذبح کیا مگر انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ بھی نہیں بڑھایا چنانچہ ابراہیم علیہ السلام ڈر گیے کہ شاید یہ میرے دشمن ہیں، کیونکہ اس وقت دشمن بھی نمک حرام نہیں ہوتے تھے، اگر کسی کا نمک کھا لیتے تو اس کے ساتھ دشمنی نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ابراہیم علیہ السلام ڈر گیے، تو فرشتوں نے کہا کہ ہم رسول یعنی فرشتے ہیں اور فلاں جگہ پر عذاب کے لیے آئے ہیں۔ ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا کہ وہاں تو لوط علیہ السلام بھی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہمیں معلوم ہے لیکن یہ امر طے ہو چکا ہے۔ کیونکہ فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔
مجھ سے ایک صاحب نے بذریعہ میسج پوچھا کہ میں نے آ پ کے بیان میں سنا ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور فرشتوں سے بھی گناہ نہیں ہوتا تو کیا انبیاء فرشتے ہوتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں انبیاء فرشتے نہیں ہوتے۔ فرشتے اللہ پاک کے ایسے بندے ہیں جن کے ساتھ نفس ہے ہی نہیں اور وہ وہی کرتے ہیں جو اللہ پاک چاہتے ہیں، ان کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی، جبکہ پیغمبر انسان ہوتے ہیں، ان میں ساری چیزیں انسانوں والی ہوتی ہیں، ان کے جذبات و خواہشات سب چیزیں انسانوں کی طرح ہوتی ہیں، البتہ ان کو اپنے نفس پر قابو ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے امر کی خلاف ورزی نہیں کرتے، اللہ پاک کی طرف سے چنے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے معصوم ہونے کا یہ معنٰی ہے۔ اس نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی، میں نے کہا یہ ایک عقیدہ ہے، اسے عقیدے کے طور پر مانو کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں کیونکہ اگر آپ یہ نہیں مانتے تو آپ کا عقیدہ خراب ہو گا اور میں صرف آپ کا عقیدہ بچانا چاہتا ہوں، باقی آپ کی اپنی مرضی ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ صحیح عقیدہ یہی ہے۔ کیونکہ آج کل آ بیل مجھے مار والی صورت حال ہے لہذا خواہ مخواہ ایسی باتوں میں دخل دینا جس میں انسان کو خطرہ ہو بے وقوفی ہے۔
متن:
بعض فرشتوں کو حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے رسالت کے لیے برگزیدہ کیا ہے اور ان کو وحی پہنچانے کے کام سے مشرف کیا ہے، انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی کتابوں اور صحیفوں کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) لانے والے بھی یہی ملائکہ ہیں جو خطا و خلل سے محفوظ اور دشمن کے مکر و فریب سے معصوم ہیں، جو کچھ انہوں نے حضرت حق سبحانہٗ کی طرف سے پہنچایا ہے سب صدق و صواب ہے، اس میں کسی قسم کا شائبۂ احتمال و اشتباہ نہیں۔ اور یہ ملائکہ حق سبحانہٗ کی عظمت و جلال سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کے اوامر کی تعمیل کے سوا ان کو کچھ کام نہیں ہے۔
تشریح:
ایک صاحب کو ایک دفعہ کوئی بہت ہی مشکل کام آن پڑا، ان کو منکشف ہوا کہ فرشتے آ گیے ہیں اور کھڑے ہیں۔ انہوں نے فرشتوں سے کہا کہ آپ موجود ہیں تو میری مدد کر دیں۔ انہوں نے کہا ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کر سکتے، آپ اللہ پاک سے مانگیں اگر اللہ ہمیں حکم دے تو ابھی کر دیتے ہیں۔ پھر فرشتوں نے ان کو شاید کچھ کلمات سکھائے کہ اس کے ذریعے دعا مانگیں۔ جیسے ہی انہوں نے اللہ تعالی سے ان کلمات کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ پاک کا حکم ہو گیا، اور فوراً فرشتوں نے action لیا اور کام ہو گیا۔ گویا کہ ان کو ایک نظارہ کروایا گیا کہ فرشتے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے ﴿یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ ( النحل: 50) یعنی فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کی مرضی سے کرتے ہیں۔
متن:
فرشتے وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ عورت مرد، توالد تناسل کھانے پینے سے پاک مخلوق ہیں۔ ان میں بعض کو پیغام پہنچانے کے لیے بھی مقرر فرمایا ہے جس میں ان سے بھول چوک ممکن نہیں۔
متن:
عقیدہ نمبر 9 میں فرماتے ہیں: ملائکہ علیہم الصلوات والتسلیمات حق سبحانہ و تعالی کے معزز بندے ہیں اور حق تعالیٰ کی جانب سے رسالت و تبلیغ کی دولت سے مشرف ہیں اور جس چیز کے لیے مامور ہیں اس کی تعمیل کرتے ہیں اور اللہ جل شانہ کی سرکشی اور نافرمانی ان میں مفقود ہے وہ خوراک اور پوشاک سے پاک ہیں ازدواجی تعلقات سے معرا ہیں اور توالد و تناسل سے مبرا ہیں حق جل سلطانہ کی کتابیں اور صحیفے انہی کے ذریعے نازل ہوئے ہیں انہی کی امانت پر محفوظ اور مامون ہیں۔
اور مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 9 میں مندرجہ بالا باتوں میں مزید یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
ان سب پر ایمان لانا بھی دین کی ضروریات میں سے ہے اور ان کو سچا جاننا بھی واجباتِ اسلام میں سے ہے۔
جمہور اہلِ حق کے نزدیک خواص بشر خواصِ ملک سے افضل ہیں کیونکہ ان (خواصِ بشر) کا حق تعالٰی سے واصل ہونا موانعات اور تعلقات کے باوجود ہے اور ملائکہ کا قرب بغیر کسی مزاحمت اور ممانعت کے ہے۔ تسبیح و تقدس اگرچہ فرشتوں کا کام ہے لیکن جہاد اس دولت کے ساتھ جمع کرنا کامل انسان کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِيْنَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِيْنَ دَرَجَةً وَّكُلًّا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰى﴾ (النساء: 95) "اللہ تعالٰی نے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے بہترین جزاء کا وعدہ فرمایا ہے"۔
ایمان کی تعریف: (یہ بہت اہم بحث ہے۔)
مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 16 میں یوں فرماتے ہیں کہ:
ایمان نام ہے تصدیقِ قلبی اور اقرارِ لسانی کا، اور جو کچھ دین سے متعلق تواتر اور یقین کے ساتھ اجمالاً و تفصیلاً ہم تک پہنچا ہے (اس کو صحیح مانا جائے) لیکن اعضاء کے اعمال نفسِ ایمان سے خارج ہیں، البتہ ایمان میں کمال کو بڑھانے والے اور حسن پیدا کرنے والے ہیں۔
تشریح:
یعنی اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں۔ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ (العصر: 3) اس آیت میں ایمان اور اعمال کے درمیان میں واؤ عاطفہ مذکور ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ جدا جدا چیزیں ہیں، البتہ اعمالِ صالحہ کی وجہ سے ایمان میں قوت آتی ہے اور اعمالِ قبیحہ کی وجہ سے کمزوری آتی ہے۔
متن:
امام اعظم کوفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایمان، زیادتی و نقصان (یعنی کمی بیشی) کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تصدیقِ قلبی، نفسِ ایمان اور اذعانِ قلب (قلبی یقین) سے عبارت ہے جس میں کمی و زیادتی کے فرق کی گنجائش نہیں، اور جو فرق کو قبول کرے وہ ظن و وہم کے دائرہ میں داخل ہے۔
ایمان اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کا نام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ جو کچھ دین سے متعلق تواتر اور یقین کے ساتھ اجمالاً و تفصیلاً ہم تک پہنچا ہے اس کو صحیح مانا جائے۔ اعمال کی وجہ سے ایمان زائل تو نہیں ہوتا ہے لیکن اچھے اعمال سے اس میں قوت آجاتی ہے اور برے اعمال سے کمزوری جیسا کہ جو مر رہا ہو وہ بھی اس وقت زندہ ہی کہلاتا ہے لیکن کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور جو مکمل صحت مند ہوتا ہے وہ بھی زندہ ہوتا ہے لیکن وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ زندہ ہونے میں تو ایک جیسے لیکن قوت میں مختلف۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لیے فرمایا کہ نفس ایمان میں زیادتی اور نقصان نہیں ہوتا ہے وہ یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اور ایمان میں کمی بیشی کا اقرار شک کی طرف لے جاتا ہے جو ایمان میں نہیں کرنا چاہیے۔
ایمان میں کمال اور نقص، طاعات و حسنات کے اعتبار سے ہے۔ جس قدر طاعت زیادہ ہو گی اتنا ہی ایمان میں کمال بھی زیادہ ہو گا۔ لہٰذا عام مؤمنوں کا ایمان انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے مثل نہیں ہوتا کیونکہ ان کا ایمان طاعات کی قربتوں کی وجہ سے کمال کے اس عالی مقام پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ عام مؤمنوں کا ایمان ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اگرچہ یہ دونوں نفسِ ایمان میں شرکت رکھتے ہیں لیکن ان (انبیاء) کے ایمان نے طاعات کی بجا آوری کی وجہ سے ایک اور حقیقت پیدا کرلی ہے، گویا کہ دوسروں کا ایمان اس ایمان کا فرد نہیں ہے اور ان کے درمیان مماثلت و مشارکت مفقود ہے۔
ایمان کے کمال کی پہچان یہ ہے کہ صاحب ایمان اعمال اور طاعات میں کیسے ہیں؟ لہٰذا عام مؤمن اور انبیاء میں اس لحاظ سے تقابل ممکن ہی نہیں کہ ان کے اعمال و طاعات بالکل وہی ہوتے ہیں جو مطلوب ہیں جبکہ باقیوں کے لیے وہ نمونہ ہیں اس طرح ان کی حقیقت میں ہی فرق پیدا ہو گیا کہ وہ معیار ہیں اور باقی اس معیار کا اتباع کرنے والے۔
اگرچہ عام انسان نفسِ انسانیت میں انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے ساتھ شریک ہیں لیکن دوسرے کمالات کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات بہت بلند درجات پر پہنچے ہیں اور ایک اور ہی حقیقت حاصل کرلی ہے۔ گویا کہ حقیقتِ مشترکِ (انسانی) میں وہ عالی مرتبہ ہیں بلکہ انسان وہی ہیں اور عوام لوگ نسناس (یعنی بن مانس) کا حکم رکھتے ہیں۔
تشریح:
یعنی ایمان ایک حقیقت ہے جو دو چیزوں پر مبنی ہے۔ تصدیق قلبی اور اقرار لسانی، ایمان کا تعلق محض ان دو چیزوں کے ساتھ ہے۔ جیسے ہم ایمانِ مفصل میں پڑھتے ہیں: "اٰمَنْتُ بِاللہِ وَ مَلَآئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ" اس میں کہا گیا ہے "ایمان لایا" ایمان لانے کا مطلب ہے میں نے مان لیا، یعنی جیسے ہے اسی طرح دل سے اس کی تصدیق کی اور زبان سے اس کا اقرار کر لیا، یہاں تک ایمان ہے۔ اس کے بعد طاعات کے ذریعے ایمان کو مزید طاقت حاصل ہوتی ہے۔ جو اطاعت گزار ہو گا اس کا ایمان پختہ ہو گا اور جو اطاعت گزار نہیں ہو گا اس کا ایمان کمزور ہو گا۔
متن:
امام اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "أَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا"۔ "تحقیق میں مؤمن ہوں"۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "أَنَا مُؤْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی"۔ "ان شاء اللہ تعالیٰ میں مؤمن ہوں"۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے توجیہ ہو سکتی ہے یعنی فی الحال حالتِ ایمان کے اعتبار سے تو کہا جا سکتا ہے "أَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا"۔
تشریح:
کیونکہ اپنے ایمان پر کوئی شک تو نہیں کر سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں ہوں، شک ایمان کے خلاف ہے لہٰذا موجودہ حالت پر "أَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا" ہے اور مستقبل کا پتہ نہیں ہے کہ ایمان باقی رہا ہے یا نہیں تو "اِنْ شَآءَ اللہُ" ہے۔
متن:
اور خاتمہ اور انجام کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے: "أَنَا مُؤْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی"۔ لیکن یہ قول جس وجہ سے بھی کہا جائے بہر صورت ان شاء اللہ کہنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
تشریح:
کیونکہ شک کا عنصر پایا جائے گا۔ یہ کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قول کے لیے جو بنیاد بنائی ہے تو وہ ایسا کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ مجتہد ہیں، مجتہد اگر غلطی پر بھی ہو تو اس کو ایک اجر ملتا ہے لیکن ہم لوگ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی توجیہ کریں، ان کے خلاف بات نہ کریں اور اپنے لیے وہ طریقہ اختیار کریں جو محفوظ ہو جو یہ ہے کہ ان شاء اللہ نہ کہیں بلکہ "أَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا" کہیں کہ اللہ کا شکر ہے میں مومن ہوں، اللہ کی صفات کو مانتا ہوں، فرشتوں کو مانتا ہوں، انبیاء کو مانتا ہوں، کتابوں کو مانتا ہوں، تقدیر کو مانتا ہوں، ہر خیر و شر اللہ پاک سے ہونے کو مانتا ہوں اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کو مانتا ہوں اور آخرت پر یقین رکھتا ہوں۔
ایک دفعہ جرمنی میں میری قادیانیوں کے متعلق ایسے لوگوں کے ساتھ بہت سخت بحث ہوئی جو بیچارے قادیانیوں کے متعلق زیادہ نہیں جانتے تھے، ایک پاکستانی شخص مجھے کہنے لگا کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ اسلام کو ایک طرف رکھ دیں۔ میں نے کہا یہ ممکن نہیں ہے کہ میں تھوڑی دیر کے لیے اسلام کو ایک طرف رکھ دوں، بلکہ ایک لمحہ کے لیے بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ microsecond کے لیے بھی اسلام کو اپنے سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔ It is impossible۔ مثال کے طور پر آپ بیسویں منزل سے لٹکے ہوئے ہیں تو آپ ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے ہاتھ نہیں ہٹا سکتے کیونکہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی ہاتھ ہٹائیں گے تو موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اس کے بعد وہ ایک سیکنڈ دوبارہ نہیں ملے گا۔ اس لیے ہم محفوظ طریقے سے رہیں گے اور محفوظ طریقہ یہی ہے کہ ہم ذرہ بھر بھی شک کے عنصر کو نہ لائیں۔
متن:
جس طرح مرض الموت میں مبتلا زندہ اور صحت مند زندہ، زندہ ہونے میں یکساں ہیں لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے اس طرح انسانیت میں انبیاء اور عام انسان مشترک ہیں لیکن کمالات میں ان کا آپس میں بہت زیادہ فرق ہے بلکہ ان کا یہ کمال انسان ہونے کے باوجود اس مقام پر ہونا ہے جس کو کفار نہ سمجھ سکے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ شک سے بچنے کے لیے کہتے تھے کہ میں مؤمن برحق ہوں جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے کہ میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں۔ حضرت فرماتے ہیں گو اس کو انجام پر محمول سمجھ کر دوسرے قول کی گنجائش ہے لیکن ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے شک کا وہم ہوتا ہے۔
مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 17 میں یوں فرماتے ہیں کہ:
مؤمن گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اگرچہ وہ گناہِ کبیرہ ہی کیوں نہ ہوں ایمان سے خارج نہیں ہو۔
تشریح:
اس بارے میں بھی اختلاف ہے۔
متن:
منقول ہے کہ ایک روز امام اعظم علیہ الرحمہ علمائے کبار کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ایک شخص نے آ کر پوچھا کہ ’’اس مؤمن فاسق کے لیے کیا حکم ہے جو اپنے باپ کو ناحق مار ڈالے اور اس کے سر کو تن سے جدا کر کے اس کے کاسۂ سر میں شراب ڈال کر پیے اور شراب پی کر اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے، آیا وہ مؤمن ہے یا کافر؟‘‘۔
تشریح:
گناہ تو ایسا ہے کہ انسان کانپ جاتا ہے۔
متن:
علماء میں سے ہر ایک نے اس کے حق میں غلط فیصلہ کیا اور اصل معاملہ سے دور چلے گیے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی اثنا میں فرمایا کہ ’’وہ مؤمن ہے اور ان کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوا۔‘‘ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات علماء کو بہت گراں گزری اور انہوں نے (امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں) طعن و تشنیع کی زبان دراز کی۔ آخر چونکہ امام صاحب کی بات برحق تھی اس لئے سب نے (بحث و مباحثہ کے بعد) اس کو قبول کر لیا اور اس کے درست ہونے کا اعتراف کیا۔
تشریح:
حجاج بن یوسف نے کتنی زیادتیاں کیں؟ لیکن صحابہ نے اس کے پیچھے بھی نماز پڑھی تھی۔ کسی عام آدمی کو قتل کتنا بڑا جرم ہے، اس نے عام لوگوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے علماء کو قتل کیا۔ یہ کتنا بڑا جرم تھا، اس کے باوجود صحابہ نے اس کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔ کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے؟
متن:
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 12 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
ایمان سے مراد تصدیقِ قلبی ہے ان اُمور کے ساتھ جو دین میں ضرورت کے تحت تواتر کے ساتھ پایہ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اقرارِ لسانی (زبان سے اقرار کرنا) بھی ان اُمور کے ساتھ ضروری ہے جیسا کہ صانعِ حقیقی کے وجود پر حق تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا ہے۔ اور اسی طرح آسمانی کتابوں اور نازل شدہ صحیفوں کو حق جاننا ہے۔ اور انبیاء کرام اور ملائکہ عظام عَلَیہِمُ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیمَاتُ اِلٰی یَومِ القِیَامَۃِ پر ایمان لانا ہے۔ اور آخرت پر ایمان لانا جس میں جسموں کے ساتھ اُٹھنا، عذابِ دوزخ اور ثوابِ بہشت کا دائمی ہونا۔ آسمانوں کا پھٹنا اور ستاروں کا جھڑنا اور زمین و پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہونا ہے۔
توبہ قبول ہونے کی حد کے بارے میں مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 18 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اگر کسی گنہگار مؤمن کو موت کے غرغرہ (حالتِ نزع) سے پہلے پہلے توبہ حاصل ہو جائے تو بھی اس کی نجات کی بہت بڑی امید ہے کیونکہ (اس وقت تک) توبہ کے قبول ہونے کا وعدہ ہے اور اگر وہ توبہ و انابت سے مشرف نہ ہوئی تو پھر اس کا معاملہ خدائے جل سلطانہٗ کے سپرد ہے اگر چاہے تو اس کو معاف کر دے اور بہشت میں بھیج دے اور اگر چاہے تو بقدرِ گناہ عذاب دے اور آگ سے یا بغیر آگ سزا دے، لیکن آخرکار وہ نجات پائے گا اور انجام کار اس کے لیے بہشت ہے۔ کیونکہ آخرت میں رحمتِ خداوندی جل سلطانہٗ سے محروم ہونا کافروں کے لیے مخصوص ہے، اور جو کوئی ذرہ برابر بھی ایمان رکھتا ہے وہ رحمتِ الٰہی کا امیدوار ہے، اگر وہ گناہ کے باعث ابتداء میں رحمتِ خداوندی سے محروم رہا تو آخر میں اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے رحمت میسر ہو جائے گی۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ﴾ (سورة آل عمران 3 آيت 8)۔ "اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو ہدایت فرمانے کے بعد کجی سے بچا اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بہت عطا فرمانے والا ہے"۔
ایمان کی مزید تفصیل مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 13 میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
اور اسی طرح ایمان لانا پانچوں وقت کی نماز پر اور ان میں رکعتوں کے تعین پر، مال کی زکوٰۃ پر، رمضان کے روزوں پر، حج بیت الحرام کے لیے استطاعتِ راہ کی توفیق پر۔ اور اسی طرح ایمان لانا کہ شراب پینا، ناحق کسی نفس کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، چوری، زنا، یتیم کا مال کھانا اور سود کھانا سب حرام ہیں۔ اور ان جیسی چیزوں کی حرمت پر ایمان لانا جو تواتر سے (حرام) ثابت ہو چکی ہیں ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اور مؤمن کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور کفر میں بھی داخل نہیں ہوتا۔ کبیرہ گناہ کو حلال جاننا کفر ہے اور گناہِ کبیرہ کا ارتکاب فسق ہے۔
اور اپنے آپ کو مومن برحق جاننا چاہیے یعنی اپنے ایمان کے ثبوت اور حق ہونے کا اعتراف کرنا چاہیے اور کلمہ استثناء یعنی ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ نہیں ملانا چاہیے کیونکہ اس میں شک کا وہم ہوتا ہے جو ایمان کے ثبوت کی صورت میں مخالفت رکھتا ہے اگر استثنا کا استعمال خاتمہ کے ساتھ راجع کرے جو مبہم ہے تو بھی ثبوت حال کے اشتباہ سے خالی نہیں ہے لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ شک و شبہ کی صورت کو ترک کردے۔
مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 11 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اور آنحضرت علیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات نے جو کچھ آخرت کے احوال کی نسبت خبر دی ہے سب حق اور سچ ہے۔ یعنی: قبر کا عذاب اور اس کی تنگی، منکر نکیر کا سوال، دنیا کا فنا ہونا، آسمانوں کا پھٹ جانا، ستاروں کا پراگندہ ہو جانا، زمین اور پہاڑوں کا اٹھا لیا جانا اور ان کا ریزہ ریزہ ہو جانا، مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنا، روح کا جسم میں واپس ڈالنا، قیامت کا زلزلہ، قیامت کی ہولناکیاں، اعمال کا محاسبہ، اعمال کے متعلق اعضا کی گواہی، نیکیوں اور برائیوں کے اعمال ناموں کا دائیں اور بائیں ہاتھ میں اڑ کر آنا، میزان کا رکھا جانا تاکہ اس کے ذریعے نیکی اور بدی کی کمی و زیادتی معلوم کی جا سکے، اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو نجات کی علامت ہے اور اگر ہلکا ہوا تو یہ خسارے کا نشان ہے۔ اس میزان کا ہلکا اور بھاری ہونا دنیاوی میزان کے ہلکا اور بھاری ہونے کے بر خلاف ہے وہاں جو پلہ اوپر کو جائے گا وہ بھاری ہو گا اور جو پلہ نیچے ہو گا وہ خفیف اور ہلکا ہو گا۔
(عقیدہ نمبر 12) انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کی شفاعت حق ہے (یعنی اولاً پیغمبر) مَالِکِ یَوْمِ الدِّین جَلَّ سُلْطَانُہٗ کی اجازت سے گنہگار مومنوں کی شفاعت کریں گے پھر صالحین۔ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا "شَفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ" "میری شفاعت میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہو گی"۔
عقیدہ نمبر 13 میں کہ پل صراط کو دوزخ کی پشت پر رکھا جائے گا اور مؤمن اس پل کو عبور کر کے بہشت میں چلے جائیں گے لیکن کافروں کے پاؤں لڑکھڑا جائیں گے جس سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے۔ یہ بات حق اور ثابت ہے۔
اورعقیدہ نمبر 14 میں حضرت فرماتے ہیں کہ اور بہشت جو مؤمنین کو نعمتیں مہیا کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے اور دوزخ جو کافروں کو عذاب دینے کے لیے بنائی گئی ہے، دونوں مخلوق ہیں، ہمیشہ باقی رہیں گی اور کبھی فانی نہ ہوں گی اور حساب و کتاب کے بعد جب مؤمن بہشت میں چلے جائیں گے تو وہ ہمیشہ بہشت ہی میں رہیں گے اور بہشت سے باہر نہیں آئیں گے۔ اور اسی طرح کفار جب دوزخ میں جائیں گے تو ہمیشہ دوزخ ہی میں رہیں گے اور وہاں دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے اور ان کے عذاب میں کبھی تخفیف نہ ہو گی۔ (جیسا کہ) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ہُمْ یُـنْظَـرُوْنَ﴾ (البقرة: 162) "نہ تو ان (کفار) کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کو مہلت دی جائے گی"۔ اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ اگرچہ اپنے گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے دوزخ میں جائے گا لیکن اس کو بقدرِ عصیان عذاب دے کر آخرِ کار دوزخ سے نکال لیا جائے گا، نیز اس کے چہرہ کو سیاہ بھی نہیں کیا جائے گا جبکہ کفار کا چہرہ سیاہ کر دیا جائے گا۔ اور حرمتِ ایمان کی وجہ سے گنہگار مؤمن کی گردن میں طوق و زنجیر ہی ڈالی جائے گی، جیسا کہ کفار کے لیے ہو گا۔
علامات قیامت کے بارے میں
مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اور علاماتِ قیامت میں سے جن کی خبر مخبرِ صادق علیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات نے دی ہے سب حق ہیں، ان میں کسی قسم کے اختلاف کا کوئی احتمال نہیں۔ مثلاً خلافِ عادت مغرب کی جانب سے آفتاب کا طلوع ہونا، ظہورِ حضرت مہدی علیہ الرضوان، نزولِ حضرت روح اللہ (عیسٰی) علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، خروجِ دجال، ظہور یاجوج ماجوج، خروجِ دابۃ الارض، اور ایک دھواں جو آسمان سے اٹھ کر تمام انسانوں کو گھیر لے گا اور لوگوں کو دردناک عذاب سے مبتلا کر دے گا اس وقت لوگ مضطرب ہو کر (حق تعالیٰ سے) عرض کریں گے کہ ’’اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے دور فرما دے کہ ہم ایمان لاتے ہیں"۔ اور آخری علامت آگ ہے جو عدن سے اٹھے گی۔
ایک گروہ (مہدویہ) اپنی نادانی کی وجہ سے ایک شخص کے متعلق گمان کرے گا جس نے اہلِ ہند میں سے ہوتے ہوئے ’’مہدیٔ موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ مہدی ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے زعم میں کہیں گے کہ وہ مہدی تو گزر چکا ہے اور فوت ہو چکا اور اس کی قبر کا نشان بتائیں گے کہ وہ فرہ میں ہے۔ (لیکن) وہ صحیح احادیث جو بحدّ شہرت بلکہ معنی کے لحاظ سے حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں وہ اس گروہ (مہدویہ) کی تکذیب کرتی ہیں، کیونکہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے جو علامتیں ’’مہدی‘‘ کی بیان فرمائی ہیں وہ علامات ان لوگوں کے معتقد شخص کے حق میں مفقود ہیں۔
تشریح:
یعنی امام مہدی علیہ السلام کا آنا لازم ٹھہر گیا ہے اور وہ ضرور تشریف لائیں گے۔ ان کی علامتیں بھی بتائی گئی ہیں لہذا ان علامات کے مطابق ان کو پہچان لیا جائے گا۔
متن:
احادیثِ نبویہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام میں آیا ہے کہ ’’مہدی موعود‘‘ جب ظاہر ہوں گے تو ان کے سر پر بادل کا ایک ٹکڑا ہو گا اور اس ابر میں ایک فرشتہ ہو گا جو پکار کر کہے گا کہ یہ شخص مہدی ہے اس کی متابعت کرو۔ اور آپ علیہ وعلٰی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ چار آدمی پوری روئے زمین کے مالک (بادشاہ) ہوئے ہیں ان میں دو مومن اور دو کافر ہیں: ذوالقرنین اور سلیمانؑ مؤمنوں میں سے تھے اور نمرود اور بختِ نصر کافروں میں سے، اور اس زمین کا پانچواں مالک میرے اہلِ بیت میں سے ہو گا یعنی مہدی۔ اور آپ علیہ وعلٰی آلہ الصلوٰہ والسلام نے فرمایا کہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ خدائے تعالیٰ میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص کو پیدا نہ فرمائے کہ اس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام بھی میرے والد کے نام کے موافق ہو گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی۔
اور حدیث میں وارد ہے کہ اصحابِ کہف حضرت مہدی کے معاونین میں سے ہوں گے۔ اور حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام ان (مہدی) کے زمانے میں نزول فرمائیں گے اور وہ (مہدی) دجال کے قتل کرنے میں حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی موافقت کریں گے۔ اور ان (مہدی) کی سلطنت کے ظہور کے زمانے میں زمانے کی عادت کے برخلاف اور نجومیوں کے حساب کے بھی برخلاف چودہ ماہِ رمضان کو سورج گہن ہو گا اور اسی ماہ کے شروع میں چاند گہن ہو گا۔
تشریح:
کیونکہ سورج گرہن مہینے کی ابتدا میں ہوتا ہے اور چاند گرہن مہینے کے وسط میں ہوتا ہے لیکن امام مہدی کے ظہور کے زمانے میں اس کا الٹ ہو گا، وسط میں سورج گرہن ہو گا اور ابتدا میں چاند گرہن ہو گا۔
متن:
اب انصاف سے دیکھنا چاہیے کہ یہ علامات جو بیان کی گئی ہیں اس فوت شدہ شخص (سید محمد جونپوری) (اور غلام احمد قادیانی) میں موجود ہیں یا نہیں۔ (ان کے علاوہ) اور بھی بہت سی علامات ہیں جو مخبرِ صادق علیہ وعلٰی آلہ الصلٰوہ والسلام نے بیان فرمائی ہیں۔ شیخ ابنِ حجرؒ نے ’’علامات مہدیٔ منتظر‘‘ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دو سو کے قریب علامات بیان کی گئی ہیں۔ بڑی نادانی اور جہالت کی بات ہے کہ مہدی موعود کا معاملہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ایک گروہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ "ہَدَاہُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ اِلٰی سَوَاءِ الصِّرَاطِ" "اللہ سبحانہٗ ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دے"۔
اس طرح غلام احمد قادیانی کا دعوی بھی جھوٹا ہے لیکن اس بنیاد پر ہم اس کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس نے جو نبوت کا دعوی کیا ہے اس کے بعد اس سے معجزہ طلب کرنے سے بھی بندہ کافر ہو جاتا ہے اس لیے یہاں تک بات ہی نہیں پہنچتی۔
پیغمبر علیہ وعلٰی آلہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں تقسیم ہو گیے تھے وہ سب ناری (دوزخی) ہیں مگر ان میں سے ایک فرقہ نجات پائے گا۔ اور عنقریب میری امت بھی تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی وہ بھی سوائے ایک ’’فرقۂ ناجیہ‘‘ کے سب ناری ہوں گے (صحابہؓ نے) دریافت کیا کہ وہ فرقۂ ناجیہ کون لوگ ہیں؟ آپ علیہ وعلٰی آلہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے طریقے اور میرے اصحاب کے طریقے پر ہوں گے۔
تشریح:
یہاں سے طریقۂ صحابہ ثابت ہو گیا۔ چونکہ اس چیز میں نفس رکاوٹ ہے لہذا جب نفس کی اصلاح ہو جائے تو ہم طریق صحابہ پر آ جائیں گے۔
متن:
اور وہ فرقہ ناجیہ اہلِ سنت و الجماعت ہے جو آں سرور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی متابعت کو لازم جانتے ہیں اور آں سرور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اصحاب کی پیروی کرتے ہیں۔ "اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْنَا عَلٰی مُعْتَقَدَاتِ اَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَاَمِتْنَا فِی زُمْرَتِہِمْ وَاحْشُرْنَا مَعَہُمْ"۔ "اے اللہ! تو ہم کو اہلِ سنت و جماعت کے اعتقادات پر ثابت قدم رکھ، اور ہم کو ان کے زمرے میں موت دے اور ان ہی کے ساتھ ہمارا حشر کرنا"۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ﴾ ( آل عمران: 8)۔ "اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے قلوب میں کجی پیدا نہ کرنا اور ہم کو اپنی رحمت سے نواز، بیشک تو بڑا ہی بخشش کرنے والا ہے"۔
تشریح:
جو اعتقادی لحاظ سے صحابہ کو اپنا رہنما اور مقتدا مانتے ہیں، ان کے طریقے پر ہمیں چلنا چاہیے، جو ان کے طریقے پر نہیں چل رہے لیکن اعتقاد کے لحاظ سے مانتے ہیں وہ بھی اہل السنت والجماعت ہیں، گناہ گار ہو سکتے ہیں لیکن اہل السنت والجماعت ہیں کیونکہ انہوں نے اعتقاد کے لحاظ سے مان لیا ہے البتہ عمل کے لحاظ سے جب مانیں گے تو وہ ان کے طریقے پر بھی ہوں گے۔ گویا کہ تصوف ہمیں اعتقاد سے عمل پہ لاتا ہے اور اسی اعتقاد کے عمل پہ لاتا ہے جو اس کا تقاضا ہوتا ہے۔
متن:
قبر کے عذاب کے بارے میں:
(عقیدہ نمبر 10) مخبر صادق علیہ و علٰی آلہ الصلٰوۃ و السلام نے جن چیزوں کی خبر دی ہے مثلاً احوالِ قبر، احوالِ قیامت، حشر و نشر اور بہشت و دوزخ سب سچ اور حق ہیں۔ آخرت پر ایمان لانا بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کی طرح ضروریاتِ اسلام میں سے ہے۔ آخرت کا منکر صانعِ حقیقی کے منکر کی مانند اور قطعی کافر ہے۔
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر10میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اور قبر کا عذات اور اس کا ضغطہ (تنگ ہونا) وغیرہ حق ہیں، اور اس کا انکار کرنے والا اگرچہ کافر نہیں ہے لیکن بدعتی ہے کیونکہ وہ احادیثِ مشہورہ کا منکر ہے اور چونکہ قبر دنیا و آخرت کے درمیان برزخ ہے اس لیے اس کا عذاب بھی ایک اعتبار سے دنیا کے عذاب کے مشابہ ہے کہ وہ بھی منقطع (ختم) ہونے والا ہے اور ایک اعتبار سے عذابِ آخرت کے مانند ہے کیونکہ وہ عذابِ آخرت کی قسم سے ہے۔ اس عذاب کے مستحق زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پیشاب (کی چھینٹوں) سے احتیاط نہیں کرتے اور وہ لوگ بھی ہیں جن کو چغل خوری اور نکتہ چینی کی عادت ہے۔ اور قبر میں منکر نکیر کا سوال بھی حق ہے اور قبر میں یہ ایک عظیم فتنہ اور آزمائش ہے۔ حضرت حق سبحانہ و تعالٰی ثابت قدم رکھے۔
عقیدہ نمبر 11: قیامت کا دن برحق ہے اور یقیناً آنے والا ہے۔ اس دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور ستارے گر جائیں گے، زمین اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو کر معدوم ہو جائیں گے جیسا کہ نصوصِ قرآنی اس کی ناطق ہیں اور تمام اسلامی فرقوں کا اس پر اجماع ہے اور وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کا منکر کافر ہے۔ اگرچہ وہ وہمی مقدمات سے اپنے کفر کو آراستہ کر کے پیش کرے اور بیوقوفوں کو راہِ راست سے بھٹکائے۔ اس دن قبروں سے اٹھنا اور بوسیدہ اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا زندہ ہونا حق ہے۔ اعمال کا حساب اور میزان کا قائم ہونا، اعمال ناموں کا اڑ کر آنا اور نیک لوگوں کے دائیں ہاتھ میں اور بُرے لوگوں کے بائیں ہاتھ میں پہنچنا بھی حق ہے۔ اور پل صراط جو کہ دوزخ کی پشت پر رکھی جائے گی اس پر سے گزر کر جنتیوں کا جنت میں پہنچنا اور دوزخیوں کا دوزخ میں گرنا بھی حق ہے۔ یہ سب اُمور ممکنات میں سے ہیں جن کے واقع ہونے کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے پس ان کو بغیر توقف کے قبول کر لینا چاہیے اور وہمی مقدمات کی بناء پر شک و تردد نہیں کرنا چاہیے۔ ﴿مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ﴾ (الحشر: 7) اور ”جو کچھ رسول تم کو دے اس کو پکڑ لو“ یہ نص قطعی ہے اور اس (قیامت کے) روز بُرے لوگوں کے حق میں نیک لوگوں کا شفاعت کرنا حضرت رحمان جَلَّ سُلْطَانُہٗ کی اجازت سے شفاعت کرنا حق ہے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: "شَفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ" "میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے" اور کافروں کو حساب کے بعد دوزخ میں ہمیشہ کے لیے داخل ہونا ہے، اور عذابِ دوزخ بھی حق ہے اسی طرح مؤمنوں کا ہمیشہ کے لیے جنّت میں داخل ہونا حق ہے، اور جنت کی نعمتیں بھی حق ہیں۔ مؤمن فاسق کو اگرچہ اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا اور اپنے گناہوں کے موافق عذاب میں مبتلا ہو گا لیکن ہمیشہ دوزخ میں رہنا اس کے حق میں مفقود ہے، کیونکہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا اور اس کا انجام رحمت پر ہے اور اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
مدار خاتمہ پر ہے:
ایمان اور کفر کا مدار خاتمہ پر ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان تمام عمر ان دونوں صفتوں (ایمان اور کفر) میں سے کسی ایک کے ساتھ متصف رہتا ہے اور آخر میں اس کی ضد سے متصف ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اعتبار خاتمہ کا ہے ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8) "اے ہمارے پردورگار! ہمارے دلوں کو ہدایت فرمانے کے بعد کجی سے بچا اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا فرما بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے"
خلافت اور امامت کی بحث اہل سنت کے نزدیک اگرچہ اصول دین میں سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ اعتقاد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن چونکہ شیعہ اس کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور انھوں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے، لہذا مجبوراً علمائے اہل حق رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس بحث کو علم کلام یعنی عقائد کے ساتھ ملحق کر دیا ہے اور حقیقت حال سے آگاہ فرما دیا ہے حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے بعد امام برحق اور خلیفہ مطلق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کے بعد حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
تشریح:
ان کو خلفائے راشدین کہتے ہیں اور ان کی افضلیت کی ترتیب بھی یہی ہے۔
متن:
ان (خلفاء راشدین) کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔
حضرات شیخین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی افضلیت صحابہ و تابعین کے اجماع سے ثابت ہو چکی ہے چنانچہ اس کو اکابر ائمہ نے نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ جو اہل سنت کے سردار ہیں فرماتے ہیں کہ شیخین کی افضلیت باقی تمام امت پر یقینی ہے۔ دوسرے صحابہ پر شیخین کی افضلیت کا انکار سوائے جاہل یا متعصب کے اور کوئی نہیں کر سکتا حضرت امیر علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی مجھ کو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضلیت دے وہ مفتری ہے میں اس کو اسی طرح کوڑے لگاؤں گا جس طرح مفتری کو لگائے جاتے ہیں (یعنی اسّی کوڑے) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
تشریح:
جو نجیب الطرفین سید ہیں۔
متن:
اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں اور ایک حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں عروج واقع ہوا تو میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ "میرے بعد میرا خلیفہ علی ہو"۔ فرشتوں نے کہا "اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ خدائے تعالیٰ چاہے وہی ہو گا اور آپ کے بعد خلیفہ ابوبکر ہیں نیز حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر (علی) نے فرمایا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک دنیا سے تشریف نہیں لے گیے جب تک مجھ سے یہ عہد نہیں لے لیا کہ میری وفات کے بعد خلیفہ ابو بکر ہوں گے اس کے بعد عمر پھر عثمان اور اس کے بعد تو خلیفہ ہو گا۔
اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں اور علمائے اہل سنت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم و اجتہاد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر فضیلت دیتے ہیں۔ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں حضرت عائشہ کو مطلقاً فضیلت دیتے ہیں لیکن جو کچھ اس فقیر کا اعتقاد ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ علم و اجتہاد میں پیش پیش ہیں اور حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالی عنہا زہد و تقوی اور انقطاع (مخلوق سے علیحدگی) میں پیش رو ہیں اسی لیے حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کو بتول کہتے ہیں جو انقطاع میں مبالغہ کا صیغہ ہے۔
تشریح:
جو تَبَتُّلْ سے ہے۔
متن:
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فتاوٰی کا مرجع تھیں۔ اور اصحاب پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی کوئی علمی مشکل ایسی نہ تھی جس کا حل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس نہ ہو۔
وہ جنگ و جدال اور جھگڑے جو اصحاب کرام علیہم الرضوان کے درمیان واقع ہوئے ہیں مثلاً جنگ جمل، جنگ صفین ان کو اچھے معانی اور نیک نیتی پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا و تعصب سے دور سمجھنا چاہیے کیونکہ ان بزرگوراروں کے نفوس حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی صحبت میں رہ کر ہوا وہوس اور تعصب سے پاک اور حرص و کینہ سے بالکل صاف ہو چکے تھے۔ وہ اگر صلح کرتے تھے تو حق کے لیے اور اگر لڑائی جھگڑا کرتے تھے تو وہ بھی حق کے لیے ہوتا تھا، اور ہر گروہ اپنے اپنے اجتہاد کے موافق عمل کرتا تھا اور خواہشات و تعصب کے شائبہ سے پاک ہو کر مخالف دشمن کی مدافعت کرتے تھے۔ ان میں سے جو شخص اپنے اجتہاد میں مصیب یعنی راستی پر تھا اس نے دو درجے بلکہ ایک قول کے مطابق دس درجے ثواب پایا اور جو مخطی یعنی خطا پر تھا اس کو بھی ایک درجہ ثواب کا حاصل ہے۔ پس مخطی مصیب کی طرح ملامت سے دور ہے بلکہ درجات ثواب میں سے ایک درجہ ثواب کی امید رکھتا ہے علماء نے فرمایا ہے کہ ان جنگوں میں حق حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب تھا اور مخالفوں سے اجتہاد میں غلطی ہوئی لیکن اس کے باوجود ان پر طعن نہیں کیا جا سکتا اور ان پر ملامت کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، چہ جائے کہ ان کی طرف کفر و فسق کی نسبت کی جائے حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی وہ نہ کافر ہیں نہ فاسق، کیونکہ ان کے پاس تاویل ہے جو کفر و فسق کو روکتی ہے۔
تشریح:
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان لڑائیوں میں نہ مال غنیمت لیا گیا، نہ کسی کو غلام یا باندی بنایا گیا۔ خوارج نے علی کرم اللہ وجہہ سے اسی وجہ سے بغاوت کی تھی کہ آپ نے لڑائی کی لیکن نہ ان سے مالِ غنیمت حاصل کیا اور نہ ان کو غلام اور باندی بنایا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ جب ان کے ساتھ بات کرنے کے لیے گیے تھے تو انھوں نے خوارج کو جواباً کہا تھا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تم میں سے کون باندی بنا سکتا ہے؟
متن:
علماء نے فرمایا ہے کہ ان جنگوں میں حق حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب تھا اور مخالفوں سے اجتہاد میں غلطی ہوئی لیکن اس کے باوجود ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے پیغمبر علیہ و علٰی آلہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے "اِیَّاکُمْ وَ مَا شَجَرَ بَیْنَ اَصْحَابِیْ" جو اختلافات میرے اصحاب کے درمیان ہوں تم ان سے بچتے رہو پس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کو بزرگ جاننا چاہیے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیے اور ان میں سے کسی کے حق میں بد گمان نہیں ہونا چاہیے اور ان کے لڑائی جھگڑوں کو دوسروں کی مصلحت سے بہتر جاننا چاہیے، فلاح و نجات کا صرف یہی طریقہ ہے۔ کیونکہ اصحاب کرام کی دوستی پیغمبر صل اللہ علیہ وسلم کی دوستی کے باعث ہے اور ان سے بغض رکھنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی تک لے جاتا ہے ایک بزرگ فرماتے ہیں: "مَا اٰمَنَ بِرَسُولِ اللہِ مَنْ لَّمْ یُوَقِّرِ الصَّحَابَۃَ" اس شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں جس نے آپ کے اصحاب کی عزت و توقیر نہیں کی۔
شیخین کی فضیلت:
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 14 میں شیخین کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اور حضرات خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب کے موافق ہے کیونکہ اہلِ حق کا اجماع اسی پر ہے کہ پیغمبروں صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ سبحانہ علیہم اجمعین کے بعد افضلِ بشر حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ بعد ازاں حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور ان کی افضلیت کی وجہ جو کچھ اس فقیر نے سمجھی ہے وہ فضائل و مناقب کی کثرت نہیں ہے بلکہ:
۱۔ ایمان کی اسبقیت ہے ۲۔ مال کے خرچ کرنے میں پیش پیش رہنا اور ۳۔ دین کی تائیدات اور ملتِ متین کی ترویج میں اپنے نفس کو لگائے رکھنے میں اولیت ہے، کیونکہ سابق اگرچہ دین کے معاملے میں لاحق کا استاد ہے اور لاحق جو کچھ پاتا ہے وہ سابق کی دولت کے دستر خوان سے پاتا ہے۔ اور ان تینوں صفات کا مجموعہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات میں منحصر ہے جس نے ایمان کی سبقت کے ساتھ ساتھ مال کو خرچ کیا اور اپنے نفس کو دین کے کاموں میں لگایا وہ یہی (حضرت ابوبکر صدیق) رضی اللہ تعالےٰ عنہ ہیں، اور یہ دولت اس امت میں ان کے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلٰی آلہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: "لَیْسَ مِنَ النَّاسِ اَحَدٌ اَمَنَّ عَلَیَّ فِی نَفْسِہٖ وَ مَالِہٖ مِنْ اَبِی بَکْرِ بْنِ اَبِی قُحَافَةَ وَلَوْ کُنْتُ مُتِّخَذًا مِّنَ النَّاسِ خَلِیْلاً لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَکْرٍ خَلِیْلاً وَ لٰکِنْ اُخُوَّۃَ الْاِسْلَامِ اَفْضَلُ سُدُّوْا عَنِّی کُلَّ خَوْخَۃٍ فِی ہَذَا الْمَسْجِدِ غَیْرَ خَوْخَۃِ اَبِی بَکْرٍ" "لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہؓ سے زیادہ بڑھ کر اپنے نفس اور مال خرچ کرنے میں احسان کیا ہو، اگر میں لوگوں میں سے کسی کو دوست بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن اسلامی اخوت افضل ہے، اس مسجد میں ابوبکرؓ کی کھڑکی کے علاوہ جتنی کھڑکیاں ہیں سب کو بند کر دو" اور حضرت علیہ و علٰی آلہ الصلٰوۃ و السلام نے فرمایا: "اِنَّ اللہَ بَعَثَنِی اِلَیْکُمْ فَقُلْتُمْ کَذَبْتَ وَ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ صَدَقْتَ وَ وَاسَانِی بِنَفْسِہٖ وَ مَالِہٖ فَھَلْ اَنْتُمْ تَارِکُوْنَ لِی صَاحِبِی" "بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا پس تم نے مجھے جھٹلایا اور ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری ہمدردی و غمخواری کی کیا تم میرے لیے میرے دوست کو نہیں چھوڑ سکتے"
اور آپ علیہ و علٰی آلہ الصلٰوۃ و السلام نے یہ بھی فرمایا: "لَوْ کَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ" "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطابؓ ہوتا"۔ اور حضرت امیر (علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں اس امت میں سب سے افضل ہیں جو کوئی مجھ کو ان دونوں پر فضیلت دے وہ مفتری ہے اور میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جتنے مفتری کو لگاتے ہیں۔
مشاجرات صحابہ کے بارے میں:
اور وہ جھگڑے اور جنگیں جو حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے صحابہؓ کے درمیان واقع ہوئی ہیں ان کو نیک نیتی پر محمول کرنا چاہیے اور ان کو ہوا و ہوس کے گمان اور حُبِّ جاہ و ریاست اور طلبِ رفعت و منزلت سے دُور سمجھنا چاہیے کیونکہ یہ نفسِ امارہ کی رذیل خصلتوں میں سے ہیں۔ اور ان بزرگوں کے نفوس حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی صحبت میں پاک و مزکی ہو چکے تھے، البتہ اس قدر ہے کہ جو جھگڑے اور جنگیں حضرت علیؓ کی خلافت میں واقع ہوئیں ان میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب حق تھا اور مخالفین خطائے اجتہادی پر تھے۔ جس میں طعن و ملامت کی مجال نہیں۔ لہٰذا فاسق کہنے کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے جبکہ تمام صحابہ عدول ہیں اور ان کی تمام روایات مقبول ہیں۔ اور حضرت امیرؓ کے موافقوں اور مخالفوں کی روایات صدق و وثوق دونوں میں مساوی ہیں اور لڑائی جھگڑے کے باعث کسی پر جرح نہیں ہے۔ لہٰذا سب کو دوست رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی دوستی حضرت پیغمبر علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دوستی کی وجہ سے ہے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّی اَحَبَّھُمْ" "جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی" اور ان کے ساتھ بغض و دشمنی سے پرہیز رکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ بغض رکھنا آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے ساتھ بغض رکھنا ہے جیسا کہ آپؐ نے ارشا فرمایا ہے: "مَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِی اَبْغَضَھُمْ" "جس نے ان کے ساتھ بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض رکھا"۔ ان بزرگوں کی تعظیم و توقیر حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و السلام کی تعظیم و توقیر ہے اور ان کی تعظیم نہ کرنا آپؐ کی تعظیم نہ کرنا ہے، لہٰذا تمام (صحابہؓ) کی تعظیم و توقیر حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و السلام کی صحبت کی وجہ سے کرنی چاہیے۔ شیخ شبلیؒ فرماتے ہیں: "جس نے صحابہ کرامؓ کی عزت نہ کی اس کا رسول اللہ پر بھی ایمان نہیں"۔
تشریح:
اللہ جل شانہ ہمارے عقیدوں کو سلامت رکھے۔ اس کے مطابق اپنے عقیدے بنانے چاہئیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اپنے اعمال کی حفاظت کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے عقائد کو سلامت رکھیں، ان پر قائم رہیں، دوسروں تک بھی ان کو پہنچائیں اور وہ اعمال کریں جو ان عقیدوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچے ہیں۔ اللہ تعالی قبول فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن