اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج بدھ کا دن ہے اور بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ کا بہت شکر ہے کہ اللہ پاک نے حضرت کے مکتوبات شریف کا ایک دور مکمل کروا دیا ہے۔ الحمد للہ۔ اور اب اس کے بعد اس کا دوسرا دور شروع ہونے والا ہے اور اس میں ان شاء اللہ ہمارا ارادہ ہے کہ topicwise یعنی عنوان کے لحاظ سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات کو سامنے لائیں۔ پہلے مکتوبات شریف کے عنوان سے دروس ہو رہے تھے۔ چونکہ مکتوبات، مکتوب الیہ کے حال کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں یہ ترتیب تھی کہ جن کو خط لکھا گیا ہے ان کی حیثیت کے مطابق جواب ہوتا تھا۔ اگر کوئی عالم ہے تو ان کو عالمانہ جواب ملتا تھا اور اگر کوئی عامی ہے تو عمومی جواب ملتا تھا، اور ہر ایک سے اس کے حال کے مطابق بات ہوتی تھی کوئی محقق ہوتا تو ان کے ساتھ تحقیق کی بات ہوتی، کسی کو عمل کی دعوت دینی ہوتی تو اس کو عمل کی دعوت دی جاتی۔
لیکن عوام میں سب کا حال ایک جیسا نہیں ہوتا، اس لئے ہمیں کچھ ایسا کام کرنا پڑے گا جس سے عوام و خواص سب کو مجموعی طور پر فائدہ ہو۔ اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے گا کہ جس عنوان پر حضرت نے جو بتایا ہے، جہاں جہاں بتایا ہے، ہم اس میں تکرارات کو ختم کر دیں اور حضرت کی آخری بات، آخری تحقیق سامنے لے آئیں۔
پہلے مرحلہ میں ہم تکرارات کو حذف کر دیں گے۔ جیسے حضرت مجدد صاحب نے 11 حضرات کو ایک ہی عنوان پہ خطوط بھیجے ہیں، ہم اس عنوان سے متعلق مضامین کو ان 11 خطوط سے اس طریقہ سے جمع کریں گے کہ جو بات سب مکتوبات میں مشترک و مکرر ہے وہ کسی ایک مکتوب سے لے لیں گے، اور باقی باتیں جو مکرر نہیں ہیں وہ سب مکتوبات سے لیں گے۔ اس طریقہ سے ایک تحقیق جمع ہو جائے گی اور اس موضوع کے بارے میں حضرت کی ایک مفصل بات سامنے آ جائے گی۔
آج کل یہ اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات سے فائدہ اٹھانے والے حضرات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو حضرت کے اس مشن کو سمجھ گئے ہیں اور انہوں نے وہی کیا جو حضرت چاہتے تھے، عملی لحاظ سے اس پہ آگئے۔ دوسرے وہ ہیں جو صرف ان باتوں میں رہ گئے جو حضرت کے حال کے مطابق بہت اونچی اونچی باتیں تھیں، وہ صرف وہی اونچی اونچی باتیں ہی کرتے رہے، عمل پہ نہیں آئے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آخری مکتوب میں جو بات کی ہے وہ بہت واضح ہے ابھی ان شاء اللہ میں عرض کروں گا۔
حضرت نے بہت وضاحت کے ساتھ صوفیائے کرام کے طریقے پر ارشاد فرمایا ہے یہ مکتوب نمبر 207 ہے دفتر اول حصہ دوم۔
اہل سنت والجماعت کے عقائد تعلیمات مجددیہ کے روشنی میں
تصوف سے کیا مقصود ہے ؟
مکتوب 207دفتر اول حصہ دوم میں فرماتے ہیں کہ
متن: ”صوفیائے کرامؒ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے“
تشریح: یہ حضرت نے بلکل final بات کی ہے، اور یہ بہت سارے مکتوبات شریفہ میں ہے، سب جمع کیے جا سکتے ہیں۔
معتقدات شرعیہ کے دو جز ہیں، ایک جو ایمان کی حقیقت ہے، اس کا یقین کامل حاصل ہو جائے، یہ معرفت ہے۔ دوسرا، احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے، یہ عمل ہے۔ کام اللہ کی رضا کے لئے کرنا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی شریعت ہے اس لئے شریعت کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور شریعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
شریعت پر عمل کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیں صرف میرے اور آپ کے ساتھ نہیں ہیں، سب کے ساتھ ہیں۔ ہر شخص نفس امارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ہر شخص کا شیطان اس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ بھی شیطان پیدا ہوا ہے؟ فرمایا: ہاں! لیکن میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے تو سب کے ساتھ ہوا ہے۔
معلوم ہوا کہ شیطان بھی سب کے ساتھ پیدا ہوتا ہے نفس امارہ بھی سب کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس نفس کو نفس امارہ سے نفس مطمئنہ بنانا ہوتا ہے، تاکہ انسان عمل کر سکے۔ اور شیطان سے بچنا ہوتا ہے اس کی بات نہیں ماننی ہوتی۔ اگر نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے تو شیطان سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔
تصوف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک تو ہمیں اعلی درجے کا یقین حاصل ہو جائے کہ ہمارا عقیدہ بلکل صحیح ہو اور اللہ تعالی کی ذات پر کامل یقین ہو، آخرت پر کامل یقین ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، تمام پیغمبروں پر۔ الغرض جو ہمارے ایمان کے تقاضے ہیں ان کے اوپر ہمارا کامل یقین ہو۔ ان کو معتقدات شرعیہ کہتے ہیں جس کو ایمان مفصل میں بیان کیا گیا ہے۔
دوسری بات شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ یہ تب آسان ہوگا جب ہمارا نفس نفسِ مطمئنہ ہو جائے گا۔
یہ دو کام تصوف کے بنیادی کام ہیں۔
شریعت پر عمل آسان ہونا سیر الی اللہ کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ جب کہ سیر فی اللہ کوئی حد نہیں ہے، وہ ہر شخص کے اپنے اخلاص پر منحصر ہے۔ جیسے حضرت نے مکتوب نمبر 36 میں فرمایا تھا کہ طریقت اور حقیقت یہ دونوں شریعت کے خادم ہیں۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے اخلاص حاصل ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعہ شریعت پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ ان دو بنیادی چیزوں پر زور دیں، حضرت کے تمام مکتوبات شریف کا لب لباب یہی ہے۔
الحمد للہ اللہ کا شکر ہے، تحدیث نعمت کے طور پہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت کے تمام مکتوبات شریفہ ہماری نظر سے گزرے ہیں، نہ صرف گزر گئے بلکہ لوگوں کے سامنے پیش کئے اور سب کے ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس لئے حضرت کی ہر قسم کی بات ہمارے سامنے آگئی ہے، اب ان سے ہم نچوڑ لے سکتے ہیں۔ اور ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اب ہماری کوششوں و کاوشوں کا محور یہی ہے۔
اب میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ الحمد للہ حضرت کی تعلیمات کا لب لباب یہی ہے کہ اور بنیادی چیزیں یہ دو ہیں، ان دو کے علاوہ تیسری چیز نہیں ہے۔
ماشاء اللہ ہمارے اس طریق میں یہ بہت بڑی پیش رفت ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور باقی مشائخ کی approach الگ نہیں ہے، ایک ہی ہے۔ بعض لوگوں کو بلکل مختلف نظر آتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے پوچھا تھا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی approach بلکل مختلف ہے، یہ کیا بات ہے؟ میں نے اس وقت کہا کہ جو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی approach اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی approach میں تنزیہ جان نہیں سکتے، وہ اللہ تعالی کی تنزیہ کو بھی نہیں جان سکتے۔ کم ازکم یہ جاننا چاہئے کہ اصل بنیاد کیا ہے، دونوں کیا چاہتے ہیں۔ دیکھو حضرت نے بلکل اخیر میں وہی بات فرمائی ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فرما رہے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی انفاس عیسی کا درس بھی الحمد للہ الحمد للہ ثم الحمد للہ تقریبا 14 سال ہم regularly کرتے رہے ہیں۔ حضرت کے ارشادات بھی ہمارے سامنے آئے ہوئے ہیں، ان کا خلاصہ و نتیجہ بھی یہی ہے۔ میں ابھی دکھا سکتا ہوں۔ یہ باہر ایک تختی ہم نے اول روز سے لگائی ہوئی ہے، یہ بھی حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مکتوب شریف لکھا ہوا ہے۔ دونوں پڑھ کے سناتا ہوں، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں ایک ہیں یا نہیں ہیں۔
انفاس عیسی میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ شریف روحِ طریق کے عنوان سے ہے۔ فرماتے ہیں:
”مقصود تو رضائے حق ہے۔“
دیکھو پہلی بات کون سی کی۔
”مقصود تو رضائے حق ہے۔ اب دو چیزیں رہ گئیں۔ طریق کا علم اور اس پر عمل سو طریق صرف ایک ہے یعنی احکام ظاہرہ اور باطنہ کی پابندی اور اس طریق کے معین دو چیزیں ہیں ایک ذکر جس پر تمام ہو سکے دوسری صحبت اہل اللہ کی جس میں کثرت سے مقدور ہو اور کثرت کے لئے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے اور دو چیزیں طریق یا مقصود کے مانع ہیں یعنی معاصی اور فضول میں مشغولی اور ایک امر ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے یعنی اطلاع حالات کا التزام اس کے بعد اپنی استعداد ہے حسب اختلاف استعداد مقصود میں دیر سویر ہو جاتی ہے“۔
حضرت نے فرمایا کہ مقصود رضائے حق ہے۔ اب ایک اس کا علم ہے اور دوسرا اس پر عمل ہے۔ علم کو حاصل کرنے کے لئے علم کا ذریعہ اختیار کرو اور عمل کے لئے عمل کے ذرائع اختیار کر لو۔ عمل میں احکام ظاہرہ اور باطنہ کی پابندیاں ہیں، یہ شریعت ہے۔ اس شریعت پر عمل کرنے کے لئے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ معتقدات شرعیہ پر عمل کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔ آسانی پیدا کرنے کے لئے ایک ذکر ہے جو دل کی اصلاح کرتا ہے، اور دوسری اہل اللہ کی صحبت ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی صحبت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اور کثرت سے بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے اور پھر دو چیزیں طریق مقصود کے مانع ہیں یعنی معاصی اور فضول میں مشغولی۔“ اس سے بچنا ہے۔ ان میں ایک ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے، ان حالات کا انتظام جو سلوک طے کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
اس میں سب کچھ آگیا۔ اس کے بعد اپنی استعداد ہے۔ حسب اختلاف استعداد دیر سویر ہو جاتی ہے۔
یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف آگیا۔ اب حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سنیں۔
یہ دفتر دوم کا مکتوب نمبر 31 ہے۔
حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه نے خواجہ شرف الدین حسین کی طرف وعظ و نصیحت کے طور پر صادر فرمایا۔
مختصر ترین مکتوب ہے
”الحمد للہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفےٰ۔ اے فرزند عزیز! فرصت کے لمحات غنیمت ہیں چاہئے کہ بیکار کاموں میں صرف نہ ہوں، “
دیکھو! فضولیات سے بچنے کا فرمایا
”بلکہ فرصت کے تمام اوقات حق جل و علا کی خوشنودی کے مطابق صرف ہوں“
رضا والی بات آگئی۔ اور طریقہ کار کے بارے میں فرماتے ہیں:
”پانچوں وقت کی نماز جمعیت (قلب) کے ساتھ با جماعت اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں۔ اور نماز تہجد کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ صبح کے وقت استغفار نہ چھوڑیں۔ “
ذکر والی بات بھی ہوگئی۔
”اور خواب خرگوش سے لذت حاصل نہ کریں۔ اور عارضی و فانی آسائشوں پر فریفتہ نہ ہوں۔ “
یہ دل کو صاف رکھنا ہے
”موت کے ذکر اور آخرت کے خوف کو اپنا نصب العین بنائیں۔ “
یہ یقین والی بات ہے۔
”مختصر یہ کہ دنیا سے روگردانی اختیار کریں اور آخرت کی طرف متوجہ رہیں۔ اور بقدر ضرورت دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں اور باقی تمام اوقات کو آخرت کے کاموں کی مشغولی سے معمور رکھیں۔ حاصل کلام یہ کہ دل غیر اللہ کی گرفتاری سے آزاد ہو جائے اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ و مزین ہو جائے۔
کار این ست و غیر ایں ہمہ ہیچ“
یہ کام ہے اور اس کے علاوہ سارا آگے پیچھے کچھ بھی نہیں۔
آخری فقرہ کتنا اہم ہے، کار ایں است۔ اصل میں تو یہی کام ہے وغیر ایں ہمہ ہیچ۔ اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت مجدد صاحب اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب دونوں کی تعلیمات کا خلاصہ ایک ہی نکلا۔ الحمد للہ۔ کیوں کہ منبع ایک ہے، دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمۂ فیض سے سیراب ہیں، لہٰذا باتوں میں اختلاف کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بات چیت میں فرق آ جاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ایک بہت بڑا فتنہ یہ تھا کہ دین کے رنگ میں بے دینی، تصوف کے رنگ میں تصوف سے فرار والی بات تھی۔ اس وقت حضرت مردانہ وار مقابلہ کرکے دین کو اصل صورت پر لے آئے۔ یہ حضرت کا بہت بڑا کام تھا حضرت نے شرعی تشریحات بھی کیں اور ساتھ ساتھ سلوک میں اور تصوف میں لوگوں نے جو گڑبڑ پھیلائی تھی وہ بھی دور کی۔ اس وجہ سے حضرت نے بلکل بنیادی چیزیں سب کو بتا دیں اور جہاں جہاں، جس جس ذریعہ سے گڑبڑ ہوئی تھی، اس اس ذریعہ سے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً کسی نے فلسفے کی گڑبڑ کی تھی، تو فلسفے (جو کلام کا موضوع ہے) کے رد کے طور اس کے ذریعہ سے اس کی تصحیح فرما دی۔ یہ (فلسفہ والی) اصل میں عوام کے لئے نہیں تھی, عوام کے لئے تو یہی بات تھی جو ابھی میں نے سنا دی۔ عوام کے لئے حضرت کی فکر اتنی تھی۔ باقی تشریحات سب خواص کے لئے تھیں، تاکہ وہ جہاں جہاں پھنسے ہوئے ہیں، وہاں سے نکل آئیں، جہاں جہاں ان کے اشکالات ہیں ان کو جواب مل جائیں، کیونکہ یہ بات اگر آپ بہت بڑے خواص کو بتا دیں، وہ کہیں گے یہ تو مجھے پہلے سے پتہ ہیں، لیکن جہاں وہ پھنسے ہیں، وہاں سے نہیں نکلیں گے، تو ان کو نکالنے کے لئے انہی کی زبان میں بات کرنی پڑے گی۔
حضرت نے تمام تفصیلات بتا دیں۔ اب inventing the wheel again والی بات کہ ہم لوگ بھی وہی چیز حضرت کی دریافت شدہ ہے، دوبارہ دریافت کرلیں۔ ہمارے پاس تو میدان عمل ہے، ہم میدان میں آئے ہیں عمل کریں اور وہی جو حضرت کا نچوڑ ہے وہ بتا دیں اور اس پر عمل کر لیں۔ یہ ہماری اس وقت ہمارے تمام کام کی بنیاد ہے۔
اب ہم نے ان تمام مکتوبات سے گزرنے کے بعد یہ جو شروع کیا ہے یہ اصل کام ہے۔ اب تک مکتوبات شریف کا جو مطالعہ ہوا ہے، اِس سے اب ہمیں اُس کا fruit ملے گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ اب اس کو ہم موجودہ حالت کے مطابق اور موجودہ دور کے لوگوں کی سمجھ کے مطابق لانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم اس سے خود استفادہ کرلیں اور دوسرے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔
اس وقت ہمارا جو دوسرا phase شروع ہوگیا ہے اِس کی بنیاد اس پر ہے کہ ہم لوگ اس سے استفادہ کر سکیں، کیونکہ وہ چیزیں جو مکتوبات شریفہ میں تھیں وہ خواص کے لئے تھیں۔ خواص سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے خاص پیغام تھا جس کا جو حال تھا اس کے مطابق تھا۔ لیکن اب ہم سب لوگوں کے لئے اس سے یہ پیغام نکال سکتے ہیں کہ ہم تکرارات ان کو حذف کرکے اس کا اصل اور آخری پیغام سامنے لے آئیں۔ یہ اس وقت ہمارا کام ہے۔ اللہ تعالی ہمیں کامیاب فرما دے (آمین)۔ بہرحال اب اللہ کا نام لے کر شروع کرتے ہیں۔
مکتوب 207 دفتر اول حصہ دوم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: ”صوفیائے کرامؒ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے“
تشریح: دو باتیں ہوگئیں: معتقدات شرعیہ اور عمل۔ دونوں میں سے پہلے زور معتقدات و عقائد پر ڈالا گیا ہے۔ عقائد پر حضرت کے تین مکتوبات شریف ہمیں ملے ہیں، ان کو ہم سامنے لا رہے ہیں۔ ان میں دو مکتوبات، مکتوب نمبر 17 اور مکتوب نمبر 87 نسبتاً عوام کے لئے ہیں۔ اور مکتوب نمبر 266 حضرت نے اپنے شیخ کے صاحبزادگان کو لکھے ہیں، ان میں کلامی موضوعات کے انداز میں عقائد کا بیان ہے، اس وجہ سے ہم اس کو علیحدہ رکھ رہے ہیں۔ اس کو علیحدہ طریقے سے بیان کریں گے، اور یہ جو عوام والے ہیں ان کو ہم علیحدہ طریقے سے بیان کریں گے، اس میں ہم لوگ کوشش کریں گے کہ تکرارات نکال لیں اور اصل چیز سامنے لائیں۔ کیونکہ عقائد تو سب کے ٹھیک ہونے چاہئیں، اس میں عوام و خواص کی بات تو نہیں ہے۔ عوام کا بھی عقیدہ ٹھیک ہونا چاہئے خواص کا بھی ٹھیک ہونا چاہئے۔ لہذا اس میں تو کوئی فرق نہیں ہوگا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ خواص جن مسائل میں پھنسے ہوتے ہیں ان سے اُن کو نکالنے کے لئے مزید کچھ بتانا پڑتا ہے۔
مجھے ایک دفعہ حضرت سید تحسین الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ بات بتانی چاہی کہ اللہ جل شانہ کے لئے نور کا خیال بھی نہیں آنا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالی تمام چیزوں سے بے نیاز ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ ہمیں تو اس طرف خیال بھی نہیں آتا۔ فرمایا: ہاں آپ لوگوں نے پڑھا نہیں ہے، ہم نے پڑھا ہے، ہمیں یہ خیال آتا ہے۔ بات بلکل صحیح ہے اب ظاہر ہے وہ جنہوں نے کتابیں پڑھی ہیں ان کی سوچ الگ ہوتی ہےَ۔ پتہ نہیں کن کن چیزوں سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا آج کل جو ظالم چیز ہے، اس پر سب قسم کی چیزیں بے محابا آ رہی ہیں۔ لہٰذا عوام کے پاس prerequisite knowledge ہی نہیں ہوتی وہ بھی بڑے سے بڑے بم کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں جو ان کے ایمان کو dynamite کرسکتا ہے۔ وہاں جاتے ہیں تو ان کے سامنے کبھی غامدی کی طرف سے بم آتے ہیں، کبھی کسی اور طرف سے، تو وہاں face تو سب نے کرنا ہوتا ہے۔
جو خواص والی باتیں ہوتی ہیں ان کو نکالنے کے لئے ذرا کچھ مختلف انداز ہوتا ہے۔ حضرت کا انداز بھی مختلف ہے، وہ ایک علیحدہ سٹائل ہے۔ اس وجہ سے اس مکتوب کو علیحدہ کرنا پڑا لیکن ان دو مکتوبات شریفہ کا رنگ ایک ہے، ایک جو شاہ خان جہاں کی طرف صادر فرمایا تھا اہل سنت والجماعت کے عقائد اور اسلام کے پانچ ارکان اور کلمہ حق کہنے کی ترغیب میں یعنی اسلام کی باتیں بادشاہ جہانگیر کے گوش گزار کرنے اور اس کے مناسب بیان میں۔
شاہ خان جہان چونکہ جہانگیر کے دربار میں تھے لہٰذا ان کو عوامی انداز میں خط لکھا۔ تاکہ ان کو بات سمجھ میں آ جائے۔ اور دوسرا ایک خاتون جو حضرت کی مریدہ تھیں ان کو عقائد اور اعتقادات کے بارے میں لکھا۔ یہ بھی عوامی بات تھی۔ تو یہ دونوں مکتوب ہمارے لئے ایسے ہیں جن کو ہم براہ راست عوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کو پہلے سامنے لاؤں۔
اس کے بعد یہ بات ہے کہ ہم نے چونکہ یہ دروس topicwise کرنا ہیں، اس لئے عقائد کے chapter میں پہلا topic ہم نے یہ چنا ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات اور صفات کے بارے میں حضرت کا کیا عقیدہ ہے۔ فی الحال اس پر بات کریں گے۔ اس موضوع پر حضرت کے مکتوبات سے کچھ collect کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں بیان کروں گا تو جہاں جہاں ضرورت ہوگی ان شاء اللہ اس کی کچھ تشریح بھی کروں گا۔ بعد ازاں ان شاء اللہ العزیز یہ دروس تحریر میں بھی آ جائیں گے۔
متن: چونکہ معتقدات شرعیہ پر یقین کا آنا پہلے مذکور ہے اس لئے ان کا پہلے ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اہل سنت والجماعت کے عقائد میں کمال استقامت کے ساتھ رکھے شرع کے مطابق ہر وقت کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالی ان کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
اللہ تعالٰی کی ذات کے بارے میں
مکتوب نمبر 67 عقیدہ نمبر 1 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذاتِ قدیم کے ساتھ موجود ہے۔
تشریح: قدیم وہ جو پہلے سے ہوتا ہے ازل سے ہوتا ہے۔ جیسے ہم لوگ کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم اس کے بارے میں نہیں جانتے یہ قدیم ہے۔
متن: اور تمام اشیاء اس سبحانہٗ کی ایجاد سے موجود ہوئی ہیں
حضرت نے اپنے انداز میں یہ بات فرمائی ہے کہ: پہلے کچھ بھی نہیں تھا اللہ پاک نے سب کچھ پیدا فرمایا۔
متن: (ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے) اور وہ بلند و برتر ہستی ان کو پیدا کر کے عدم سے وجود میں لائی ہے
تشریح: پہلے سے کچھ بھی نہیں تھا عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔
متن: (ان کی اپنی حقیقت عدم ہے) لہٰذا حق تعالیٰ قدیم اور ازلی ہے اور تمام اشیاء حادث اور نوپدید (بعد کی پیدا کی ہوئی) ہیں۔
تشریح: حادث ان چیزوں کو کہتے ہیں بعد میں پیدا ہوئی ہیں۔
متن: اور (حق تعالیٰ) جو قدیم و ازلی ہے وہ باقی اور ابدی ہے
وہ باقی اور ابدی ہے باقی سب فانی ہیں۔
متن: اور جو چیزیں حادث اور نوآمدہ (نئی پیدا شدہ) ہیں وہ فانی اور ہلاک ہونے والی ہیں یعنی معرضِ زوال (یعنی زوال کے میدان) میں ہیں(زوال پذیر ہونے والی ہیں)۔
اس طرح مکتوب نمبر 17 میں عقیدہ نمبر 1 میں فرماتے ہیں
یہ وہی مکتوب ہے جو خاتون کے نام لکھا گیا۔
متن: کہ اللہ تعالٰی بذاتِ اقدس خود موجود ہے،
تشریح: یعنی جس کو ہم وجود کہتے ہیں، جس وجود کو ہم جانتے ہیں، وہ وجود ظلی وجود ہے۔ اصل وجود کو ہم جانتے ہی نہیں ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوریٰ ہے، اللہ تعالی کا وجود بھی وراء الوراء ہے۔ لہذا اس کو تو ہم جانتے نہیں ہیں، اس لحاظ سے تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ لیکن یہ وجود جس کو ہم وجود کہتے ہیں یہ اللہ پاک کا پیدا کردہ ہے، عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔
متن: اللہ تعالٰی بذاتِ اقدس خود موجود ہے، اور اس تعالٰی کی ہستی اپنی خودی سے خود ہے (اپنی موجودگی کے لئیے کسی چیز کے محتاج نہیں) کا اور وہ تعالٰی جیسا کہ ہمیشہ سے ہے اب بھی ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا(اس کے لئے ماضی مستقبل اور حال ایک جیسے ہیں)۔ عدمِ سابق اور عدمِ لاحق کو اس تعالٰی کی جنابِ قدس میں کوئی راہ نہیں ہے
تشریح: کیوں؟ وجہ کیا ہے۔ قدیم ہے۔ ازلی اور ابدی ہے۔ نہ end ہے نہ start ہے۔ اس وجہ سے ازلی اور ابدی کے لئے تو عدم سابق بھی نہیں ہوگا عدم لاحق بھی نہیں ہوگا
متن: (کیونکہ وہ ازلی اور ابدی ہے) کیونکہ وجوبِ وجود اس مقدس درگاہ کا کمینہ خادم ہے اور سلبِ عدم اس بارگاہِ محترم کا کمینہ خاکروب ہے۔
تشریح: سلب عدم سے مراد عدم کو ختم کرنا۔
متن: اللہ تعالی ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کے وجوبِ وجود میں، نہ اس کی الوہیت میں
تشریح: اس کی طرح کوئی واجب الوجود نہیں ہے اور نہ کوئی اس کی طرح الہ ہے۔
متن: اور نہ استحقاقِ عبادت میں، کیونکہ شریک تو اس وقت درکار ہوتا ہے جب وہ تعالٰی کافی نہ ہو اور مستقل نہ ہو، اور یہ نقص کی علامت ہے جو وجوب والوہیت کے منافی ہے۔ اور جبکہ وہ کافی او مستقل ہے تو اس کا شریک بیکار و عبث ہوگا کیونکہ وہ بھی نقص کی علامت ہے جو الوہیت وجوب کے منافی ہے لہٰذا شریک کا اثبات دو شریکوں میں سے ایک شریک کے نقص کو متلزم ہے
تشریح: یعنی جب بھی ہم شریک بنائیں گے تو ایک شریک تو ناقص ہی ہوگا۔
متن: جو شرکت کے منافی ہے لہٰذا شرکت کا اثبات شرکت کی نفی کے لئے لازم ہوا اور یہ محال ہے۔
تشریح: جیسے ہم کہہ سکتے ہیں عُجب بزرگی کے لئے مانع ہے۔ جیسے ہی عجب ہوگیا بزرگی ختم اور بزرگی ہوگی تو عجب نہیں ہوگا۔
متن: لہٰذا حق سبحانہ و تعالٰی کا شریک محال ہوا۔(چونکہ وہ اپنی ذات و صفات میں کامل ہے اور نقص کا کوئی امکان نہیں لہٰذا شرکت جو نقص کو دور کرسکتا ہے اس کا امکان بھی نہیں رہا)
اللہ تعالیٰ کے صفات کے بارے میں
مکتوب نمبر 67 میں عقیدہ نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: منجملہ ان میں (حق تعالیٰ کی صفات) یہ ہیں: حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر، کلام اور تکوین ہیں، جو کہ قِدم (قدیم قدیم ہونے کے لحاظ سے) اور ازلیت (قدیم اور ازلی) (باقی ہونے کے لحاظ سے) صفات سے متصف ہیں، اور حضرتِ ذات جل سلطانہٗ کے ساتھ قائم ہیں۔ حوادث کے تعلقات صفات کے قدیم ہونے میں خلل انداز نہیں ہوتے۔
تشریح: حوادث میں جو چیزیں بعد میں وجود میں آ رہی ہیں ان کی وجہ سے صفات وہی رہتی ہیں صفات پہ کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ میں آنکھ بند کر لوں تو مجھے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا لیکن کیا میری نظر نہیں ہے؟ نظر تو اس وقت بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو قدم و ازلیت پر حوادثات ان سے اس کی ازلیت پر فرق نہیں پڑتا اس کی قدمیت میں فرق نہیں پڑتا۔
متن: اور متعلق کا حدوث ان صفات کی ازلیت کا مانع نہیں ہوتا۔ فلاسفہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اور معتزلہ اپنے اندھے پن
تشریح: فلاسفہ میں یہ بیماری ہے کہ وہ اپنی عقل پہ اتنا گمان کرتے ہیں کہ جہاں تک عقل کی رسائی نہیں ہوتی وہاں بھی اس کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ بے وقوفی ہے۔ اگر کوئی آلہ کسی چیز کا نہیں ہے، اس کے لئے آپ اسے استعمال کریں تو بے وقوفی ہے۔ ذرا آسانی سے سمجھاتا ہوں۔ کیا آپ آنکھ کے ذریعے سے سننے کا experiment کرسکتے ہیں؟ جو آنکھ کے ذریعے سننے کا experiment کرے گا اس کو آپ کیا کہیں گے؟ بیوقوف ہی کہیں گے۔ عقل غیب کی چیزیں دریافت نہیں کرسکتی۔ لہذا جو عقل کے ذریعہ سے اس کو ثابت کرنا چاہے گا تو بے وقوف ہے۔ حضرت فرماتے ہیں۔
متن: فلاسفہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اور معتزلہ اپنے اندھے پن کے باعث حدوثِ متعلَّق سے حدوثِ متعلِّق کو وابستہ کرتے ہیں
تشریح: یہ عجیب فقرہ ہے۔ حدوثِ متعلَّق کا مطلب یہ ہے کہ جس کو تعلق کر دیا گیا، جو دوسروں سے متعلق ہو۔ یوں سمجھ لیں کہ جو بعد میں پیدا ہوا ہے اس کو حدوث متعلَّق کہتے ہیں اور حدوث متعلِّق وہ ہوتا ہے جس نے حادث کو پیدا کیا ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ حدوث متعلِّق اور جو پیدا ہوا ہے وہ حدوث متَعَلَّق۔ تو پیدا کیے ہوئے کے احکامات کو آپ پیدا کرنے والے پر لازم کر لیں تو یہ کیا ہوگا؟ غلط ہوگا۔ حدوث متعلَّق سے حدوث متعلِّق کو وابستہ کرتے ہیں تو اندھے ہیں یا نہیں ہیں؟
متن: اور صفاتِ کاملہ کی نفی کرتے ہیں،
تشریح: صفات کاملہ اور صفات جزئیہ میں فرق ہے۔ اللہ تعالی کی صفات کاملہ تو فی الاصل صفات ہیں، باقی ظل ہیں۔
متن: اور حق تعالیٰ کو جزئیات کا عالم نہیں جانتے
تشریح: جو بعد میں چیز آئی اس کے جزئیات کا عالم نہیں جانتے
متن: کہ جس سے تغیر لازم آتا ہے جو حدوث کی علامت ہے۔ (فلاسفہ اور معتزلہ) یہ بھی نہیں جانتے کہ صفات ازلی ہوتی ہیں۔ اور صفات کے وہ تعلقات جو اپنے حادثۂ متعلقات کے ساتھ ہیں وہ بھی حادث ہوتے ہیں۔
تشریح: جو بعد میں ان صفات کے ساتھ متعلقات ہیں۔ مثلاً میری آنکھ کی بینائی پہلے سے موجود ہے، لیکن میں نے آپ کو اب دیکھا ہے، تو یہ دیکھنا حادث ہے۔ اگرچہ میری بینائی بھی حادث ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے آپ کو اب دیکھا۔ لیکن دیکھنے کی صفت تو پہلے سے ہے۔
متن: یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ آٹھوں صفات حقیقیہ قدیم اور ازلی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں۔ بعد کے ہونے والے واقعات سے ان کے قدیم ہونے اور ہونے اور ازلی ہونے پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ ان واقعات کے ہونے سے وہ واقعات حادث ہوتے ہیں نہ کہ یہ صفات جو ایسا کہیں وہ بے وقوف اور اندھے ہی ہوسکتے ہیں جیسا کہ فلسفیوں اور معتزلیوں نے ایسا سمجھا۔
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں
متن: اور اس سبحانہ و تعالی کی صفات کاملہ جیسے حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع و بصر، کلام اور تکوین اور ان صفات ثمانیہ آٹھ صفتوں کو صفات حقیقیہ کہتے ہیں جو کہ قدیم ہیں اور حق تعالی و تقدس کی ذات پر موجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں
کہ یہ صفات ثمانیہ حقیقیہ حق تعالٰی و تقدس کی ذات پر وجودِ زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں(یعنی محض علمی نہیں بلکہ حقیقی طور پر موجود ہیں) جیسا کہ علمائے اہلِ حق شَکَرَ اللہُ تَعَالیٰ سَعْیَہُمْ کے نزدیک مقرر ہے۔ اور اہلِ سنت شَکَرَ اللہُ تَعَالیٰ سَعْیَہُمْ کے علاوہ مخالف فرقوں میں سے کوئی بھی صفاتِ زائدہ کے وجود کا قائل نہیں،
تشریح: یعنی اہل سنت و الجماعت جو ہیں یہ صفات زائدہ کو اس کے وجود کے ساتھ جانتے ہیں۔
متن: یہانتک کہ فرقہ ناجیہ کے صوفیائے متاخرین بھی ان صفات کو عینِ ذات کہتے ہیں۔
تشریح: یعنی صفات کو سمجھتے ہیں کہ وہی عین ذات ہیں۔
متن: اور مخالفوں کے ساتھ موافقت اختیار کر لی ہے اگرچہ وہ بھی نفئ صفات سے پرہیز کرتے ہیں لیکن ان کے اصول اور متبادر (فوراً ذہن میں آنے والی) عبارتوں سے صفات کی نفی لازم آتی ہے۔ مخالفوں نے کمال کو صفاتِ کاملہ کی نفی میں خیال کیا وہ اپنی عقل کے پیچھے لگ کر نصوصِ قرآنی سے الگ ہوگئے ہیں ۔ ھَدَاھُمُ اللہُ سُبْحَانَہُ سَوَاءَ الصِّرَاطِ (اللہ سبحانہ ان کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے)۔
یعنی جو فرقہ ناجیہ نہیں انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر وجود زائد کے ساتھ ان صفات کا موجود ہونا اللہ تعالٰی کے کمال کی نفی کرتا ہے اس لئے اس کے منکر ہوئے جس سے ان صفات ہی کی نفی ہوئی اور فرقہ ناجیہ کے کچھ متاخرین لوگ ان سے متاثر ہوکر کہنے لگے کہ یہ صفات عین ذات ہیں اگرچہ اس کی نفی سے احتراز کرتے ہیں حالانکہ یہ صفات تو وجود ذات پر زائد موجود ہیں اس لئے تو ہمیں اس میں غور کرنے کی اجازت ہے لیکن اللہ تعالی ان کو کیسے استعمال فرماتے ہیں وہ ذات کے ساتھ ہے اس میں غور نہیں ہوسکتا خود ان کی تفصیل بھی بے چون و چگون ہے البتہ جتنا سمجھ میں آجائے وہ معرفت ہے۔
متن: اور دوسری صفات یا تو اعتباری ہیں یا سلبیہ، جیسے قِدَم و ازلیت اور وجوب والوہیت۔ اور جیسا کہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانی نہیں ہے، عرض و جوہر بھی نہیں، مکانی و زمانی بھی نہیں، حال و محل بھی نہیں، محددود متناہی بھی نہیں۔ وہ جہت سے بے جہت اور نسبت سے بے نسبت ہے۔ کَفارت اور مثلیت اس تعالٰی کی جانبِ قدس میں مسلوب ہے اور اس جل سلطانہ کی بارگاہ میں ضدّیت (ضد ہونا) اور ندیت (ہمسر ہونا) مفقود ہے۔ وہ مادر، پدر، زن و فرزند سے پاک و مبرا ہے کیونکہ یہ سب حادث ہونے کی علامات ہیں
تشریح: یعنی اللہ جل شانہ کی اصل صفات تو وہ ہیں جو اللہ میں پائی جاتی ہیں لیکن یہ سلبی چیزیں وہ ہیں جو اللہ میں نہیں ہیں۔ وہ اللہ کی صفات ہیں اور صفات سلبیہ مخلوق کی صفات ہیں۔ اور مخلوق کی جو صفات اللہ تعالی کی شان کے مطابق نہیں ہیں وہ اللہ تعالی میں نہیں ہیں۔
یہ اصل میں تنزیہ کا عقیدہ ہے۔ تنزیہ یعنی اللہ جل شانہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کوئی نقص کی چیز ہے وہ اللہ میں نہیں ہے۔ اور مخلوق کی چیزوں میں نقص ہوتا ہے کیونکہ مخلوق عدم سے وجود میں آئی ہے اور عدم سراسر نقص ہے۔
حضرت نے فرمایا ہے: عدم سراسر نقص ہے، لہذا اس وجہ سے صفت مخلوق کی نقص والی صفت اللہ میں نہیں ہو سکتی۔ اب کوئی کہتا ہے اللہ کا بیٹا ہے، یہ نقص ہے، اللہ کی بیوی ہے، یہ نقص ہے، اللہ بیٹیاں ہیں، یہ نقص ہے۔ قریش فرشتوں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ بیٹیاں ہیں، یہ نقص ہے، کھاتا ہے، نقص، پیتا ہے، نقص، سوتا ہے، نقص، اونگھتا ہے نقص۔ کیونکہ یہ چیزیں مخلوق کی ہیں۔ ہمسری نقص، برابری نقص۔ یہ ساری چیزیں نقص کی ہیں لہذا ان چیزوں سے اللہ پاک ہے۔
وَ مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَك۔ ساتھ ہی سُبْحٰنَك ہے۔ ساری مخلوقات جو تو نے پیدا کیں اس پہ کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن سُبْحٰنَك تو ان چیزوں سے ملوث نہیں ہے۔ تو اپنی ذات میں ان تمام سے پاک ہے۔ یہ اتنا زبردست عقیدہ ہے اگر کسی کی سمجھ میں آ جائے تو یقین جانیں اس کی روح پاک ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کہہ دیں کہ اللہ اوپر ہے، اللہ نیچے ہے، اللہ آگے ہے، اللہ پیچھے ہے۔ جب یہ کہیں گے تو آپ اس کے لئے dimension ثابت کر رہے ہیں، جو dimension بھی آپ لے رہے ہیں، دوسرے میں سے نفی کر رہے ہیں، تو نقص آ گیا۔ اس طریقہ سے آپ جو بھی اپنے طور پہ کریں گے تو اس میں کوئی نقص آ جائے گا۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات وراء الورا ہے، بے چون و بے چگون ہے، بے مثل ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ جب آپ کے اوپر یہ بات کھل جائے گی کہ اللہ کا خارج ہمارے خارج کی طرح نہیں ہے۔ اللہ خارج میں موجود ہے، وہ خارج اور ہے وہ یہ نہیں ہے جس کو ہم خارج کہتے ہیں۔ جب وہ یہ نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ کوئی کسی صورت میں مقابلہ میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ بلکل matching ہی نہیں آتا کوئی اس کے ساتھ interaction میں ہی نہیں آتا۔ اس لئے ہم کہتے ہیں، معیت کو بھی اس پر لے آؤ کہ معیت کیسے ہے؟ وہی سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ یہ domain ہی وہ نہیں ہے جس میں میں اس کو جانوں۔ احاطہ بھی domain مختلف ہے، لہذا احاطہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اس طرح جو چیزیں ہیں وہ واضح ہیں، لیکن کس طرح ہیں یہ بھی اللہ ہی جانتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مانیں گے، لیکن کیسے ہیں، یہ آپ نہیں کہہ سکتے۔
متن: اور ان سے نقص لازم آتا ہے۔ اور تمام قسم کے کمالات خاص اس تعالٰی کی جانب ِقدس کے لئے ثابت ہیں، اور تمام قسم کے نقائص حضرت جل سلطانہ کی بارگاہ سے مسلوب ہیں۔ مختصر یہ کہ امکان و حدوث کی تمام صفات جو سراسر نقص و شرارت ہیں سب اس تعالٰی کی جانب قدس سے مسلوب ہیں۔“
حق تعالیٰ کی تنزیہہ کے بارے میں ۔
متن: مزید مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اور نقائص کی باتیں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی جنابِ قدس سے مسلوب ہیں اور حق تعالیٰ جواہر، اجسام اور اعراض کی صفات و لوازم سے پاک و منزہ ہے۔ نیز زمان و مکان اور جہت کی بھی حضرت حق تعالیٰ کی شان میں گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اسی کی مخلوق ہیں۔ وہ شخص بہت بے خبر ہے جو حق سبحانہٗ کو فوق العرش جانتا ہے اور فوق کی جہت کا اثبات کرتا ہے، کیونکہ عرش اور اس کے علاوہ بھی تمام چیزیں حادث ہیں اور اس کی مخلوق ہیں۔ مخلوق اور حادث کی کیا مجال ہے کہ وہ خالقِ قدیم کا مکان بن جائے اور اس کی قرارگاہ ہو جائے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ عرش اُس تعالیٰ کی سب سے اشرف مخلوقات میں سے ہے اور اس میں نورانیت و صفائی تمام ممکنات سے زیادہ ہے اور لازمی طور پر وہ آئینہ کا حکم رکھتا ہے جس سے حق جل و علا کی عظمت و کبریائی کا ظہور ہوتا ہے۔ اس ظہور کے تعلق کی وجہ سے اس کو ’’عرش اللہ‘‘ کہتے ہیں، ورنہ عرش وغیرہ تمام اشیاء اس تعالیٰ کے نزدیک ایک جیسی حیثیت رکھتی ہیں اور سب اس کی مخلوق ہیں۔ لیکن عرش کو نمائندگی (آئینہ داری) کی قابلیت حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں ہے۔ آئینہ جو کسی شخص کی صورت ظاہر کرتا ہے (اس کے متعلق) یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص آئینے میں موجود ہے بلکہ اس شخص کی نسبت اور دوسری تمام اشیاء کی نسبت آئینے کے سامنے برابر ہے۔ صرف قبول کرنے کی قابلیت کا فرق ہے کہ آئینہ اس شخص کی صورت قبول کر کے ظاہر کرتا ہے اور دوسروں میں یہ قابلیت نہیں ہے۔
تشریح: ادھر پتھر پڑا ہے ادھر آئینہ پڑا ہوا ہے آپ کھڑے ہیں آئینے میں نظر آ رہے ہیں پتھر میں نظر نہیں آ رہے تو کیا خیال ہے آپ آئینے کے زیادہ قریب کھڑے ہیں یا اس کے ساتھ آپ کا کچھ زیادہ تعلق ہے۔ آپ پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا، آپ تو وہی ہیں لیکن آئینہ بدلا ہوا ہے آئینہ اور پتھر میں فرق ہے۔
حضرت اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کو ایسی صفات جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں جن سے نقص ثابت ہوتا ہے ان کا بیان فرماتے ہیں اور تجسیم کی عقیدے کی رد فرماتے ہیں اور عرش پر اللہ تعالی کے ہونے کی نفی فرماتے ہیں کیونکہ اس سے اللہ تعالی کی ایک جہت میں محدود ہونا اور اس کا جسم ہونا لازم آتا ہے البتہ جو قرآن میں اس کے بارے میں آیا ہے اس سے اس کے باقی ممکنات سے زیادہ صاف اور نورانی ہونا ثابت ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا ظہور ہوتا ہے۔
مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 5 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: حق سبحانہٗ و تعالیٰ نہ جسم ہے نہ جسمانی، نہ جوہر ہے نہ عرض، نہ محدود ہے نہ متناہی، نہ طویل ہے نہ عریض، نہ دراز ہے نہ کوتاہ، نہ فراخ ہے نہ تنگ، بلکہ واسع ہے لیکن ایسی وسعت نہیں جو ہماری سمجھ میں آ سکے، اور محیط ہے لیکن ایسا احاطہ نہیں جو ہمارے ادراک میں آ سکے، وہ قریب ہے لیکن ایسا قرب نہیں جو ہماری عقل میں آ جائے، اور ہمارے ساتھ ہے لیکن ایسی معیت نہیں جو عام طور پر متعارف ہے۔ پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ وہ (حق تعالیٰ) واسع ہے، محیط ہے، ہمارے قریب ہے اور ہمارے ساتھ ہے لیکن ان صفات کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی ہے، اور ہم جو کچھ جانتے ہیں یہی جانتے ہیں (اگر اس کی ذات کے جاننے کے بارے میں کچھ بیان کریں تو) مجسمہ (یعنی جسم کا قائل ہونا) کے مذہب میں قدم رکھنا ہے۔
چونکہ اللہ تعالی کی تنزیہہ بہت اہم ہے اس لئے حضرت مکتوب نمبر 67 کے عقیدہ نمبر 6 میں اس پر مزید زور دیتے ہیں کہ اللہ تمام مخلوقات کی نقص والی صفات سے پاک ہے اس کی وسعت اس کا احاطہ اس کی معیت اور اس کا قرب ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا پس ان صفات پر ایمان تو لانا ہے کیونکہ قرآن و سنت میں ان کا ذکر آیا ہوا ہے لیکن کیسے ہے اس پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ اس طرح اگر ہم اپنی سمجھ کے طور پر اس کا کچھ ذکر کریں تو اس کے لئے جسم ثابت کرلیں جس سے وہ پاک ہیں ۔
متن: اور فرمایا کہ حق تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہے۔ اور نہ ہی کوئی چیز اس تعالیٰ میں حلول کرسکتی ہے اور نہ وہ کسی چیز میں حلول کرتا ہے۔ تبعض (حصہ حصہ ہونا)تجزّی (جزء جزء ہونا) اس کی جنابِ قدس میں محال ہے اور ترکیب و تحلیل (جڑنا اور پارہ پارہ ہونا) بھی حضرت جل شانہٗ کی بارگاہ میں ممنوع ہے۔
حق تعالیٰ کا مثل اور ہم جنس بھی کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے بیوی بچے، حق تعالیٰ کی ذات و صفات بے مثل اور بے کیف ہیں، بے شبہ اور بے نمونہ ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ ہے اور ان صفاتِ کاملہ کے ساتھ متصف ہے جن کے ساتھ اس نے خود اپنی ذات کی تعریف فرمائی ہے لیکن جوکچھ اس سے ہماری فہم و ادراک میں آتا ہے اور جو کچھ ہماری عقل متصور کرتی ہے حق تعالیٰ اس سے منزہ اور بلند ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے: ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾۔ (آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں)۔
تشریح: اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان کی تنگ دامانی ہوتی ہے۔ جیسے محیط کا لفظ ہے، اب محیط کا لفظ جو ہم نے اپنے ذہن میں بنایا ہوا ہے وہ اللہ جل شانہ کے محیط ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، لہذا ہم اس کو اپنے context میں سمجھیں گے۔
میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ویسے مثال تو اللہ تعالی کے لئے نہیں دی جاسکتی ہے صرف سمجھانے کے لئے مثال ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
کسی فلم میں actor کسی پیغمبر کا کردار ادا کرتا ہے۔ علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے کہ اس فلم کو جب دیکھا جائے گا تو وہ اس پیغمبر کے بارے میں جو رائے اور خیال آئے گا وہ اس actor کی طرح آئے گا، حالانکہ وہ actor وہ پیغمبر نہیں ہے۔ وہ پاکی جو اس پیغمبر کے ساتھ ہے اس گندی چیز کے ساتھ ہم لوگ اس کی شبیہ بنا دیں، یہ بہت ہی بڑی جسارت ہے، بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح یہ الفاظ جو مخلوق کے لئے بنے ہوئے ہیں اس کو خالق کے لئے ہم کیسے استعمال کریں، اس کو خالق کے لئے استعمال ہی نہیں کرسکتے۔ ناممکن ہے، لہذا وراء الوراء کہتے ہیں، ہماری سمجھ سے ورا ہے۔ کیونکہ ایسی چیز جو کسی چیز کو explain کرنے کے لئے ہو وہ اس کے لئے کافی نہیں ہے۔ زمین سے آسمان کا فاصلہ کتنے گز ہے؟ آپ اس میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح مطلب یہ ہے کہ جو چیز مخلوق کے لئے بنی ہے وہ آپ خالق کے لئے استعمال کر لیں یہ ناممکن ہے حالانکہ آسمان بھی مخلوق ہے لیکن چونکہ بہت اونچی مخلوق ہے لہٰذا اس کے بارے میں ہم لوگ بے بس ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ جل شانہ سب کا خالق ہے کیسے ہم اس کے بارے میں کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ حضرت یہی فرما رہے ہیں۔
متن:
دوربینانِ بارگاہِ الست
پیش ازیں پے تیردہ اند کہ ہست
بارگاہِ الست جو پہنچے کہہ سکے یہ کہ ہاں وہاں وہ ہے
لیس کمثلہ شئی نے اس بات کا فیصلہ کردیا ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں پس جو اس نے اپنے لئے فرمایا ہے اسی پر ایمان ہے اور فہم و ادراک سے اس کی ہر صفت بالا ہے جیسے اللہ رحیم ہے، رحیم کس کو کہتے ہیں وہ ہم جانتے ہیں لیکن کتنا رحیم ہے اس کو ہم نہیں جان سکتے ہیں کیونکہ ہماری سوچ ہماری عقل کے ساتھ محدود ہے اور اس کی ہر صفت ہماری عقل میں نہیں آسکتی۔
حق تعالی ٰ کی صفات کے کمال کے بارے میں
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں
متن: ”اور وہ سبحانہ و تعالٰی کلیات و جزئیات کا عالمِ ہے اور اَسرار و پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے آسمانوں اور زمینوں میں ایک حقیر ترین ذرہ کی مانند بھی کوئی چیز اس سبحانہ کے دائر علم سے باہر نہیں ہے۔ ہاں چونکہ وہ سبحانہ، تمام اشیاء کا خالق ہے لہٰذا وہ تمام چیزوں کا جاننے والا بھی ہوا کیونکہ پیدا کرنے والے کو پیدا کی ہوئی چیزوں کا علم ہونا لازمی ہے۔ کسقدر بے نصیب ہیں وہ لوگ (یعنی فلاسفئہ یونان اور ان کے متبعین) کہ حضرت حق سبحانہ و تعالٰی کو جزئیات کا عالم نہیں جانتے اور اس بات کو اپنی ناقص عقل کی وجہ سے کمال سمجھتے ہیں، اور اپنی کمال بے وقوفی سے واجب الوجود جل سلطانہ کو ایک چیز سے زیادہ صادر کرنے والا نہیں جانتے اور اس کو بھی ایجاب و اضطرار کے ساتھ نہ کہ اختیار سے اور اس بات کو بھی کمال خیال کرتے ہیں۔ عجب جاہل ہیں کہ جہل کو کمال تصور کرتے ہیں اور اضطرار کو اختیار سے بہتر جانتے ہیں۔ اور وہ جہل میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دوسری چیزوں کو اس سبحانہ کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عقلِ فعال کو اپنی طرف سے تراش کر محدثات کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
تشریح: یہ ہمارے سائنسدان بھی آج کل انہی چیزوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو process ہو رہے ہیں ان کو ہی خالق سمجھ رہے ہیں۔
سمجھانے کے لئے مثال عرض کرتا ہوں کہ کوئی ملحد تھا وہ کہہ رہا تھا کہ یہ جیسے ہم لوگ شادی کرتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کے خالق ہیں۔
تو جن کے بچے نہیں ہو رہے ہیں پھر ان کے خالق بنو۔ کیا انہیں پیدا کرسکتے ہو؟ نہیں بھئی خالقیت خدا ہی کا کام ہے۔
مجھے خود ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔ میرا ہاتھ fracture ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ بات بھی کر رہے تھے اور اس کا پلاسٹر بھی چڑھا رہے تھے۔ مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب! ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی ہڈی کو سامنے لا کے اس کو باندھنا، یہی ہماری ساری مہارت ہے اس کے بعد سارا کام خود بخود ہوتا ہے وہ ہمارا کام نہیں ہے۔ اس ہڈی کا آپس میں ملنا یہ ہمارا کام نہیں ہے اور واقعتاً نہیں ہے اب وہ مواد دونوں طرف سے جو نکلتا ہے پھر آپس میں ملتا ہے پھر آپس میں جڑتا ہے اس میں ڈاکٹر کا کیا کام ہے اس میں ڈاکٹر کا تو کچھ بھی کام نہیں ہے وہ تو اس کی دوائی بھی نہیں دیتا۔ باندھ کر چھوڑ دیتا ہے، اس کے بعد ایکسرے کرتا رہتا ہے، دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہ دیکھیں یہ چیز بلکل سامنے نظر آ رہی ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے۔ تو وہ جو اندر ہی اندر ایمبریو والی باتیں اور وہ سارا کچھ ہو رہا ہے اور پتہ نہیں کیا کیا process پورا ہو رہا ہے، اور وہ کہتے ہیں ہم خالق ہیں۔
حضرت بہت جلال میں آ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
متن: عجب جاہل ہیں کہ جہل کو کمال تصور کرتے ہیں اور اضطرار کو اختیار سے بہتر جانتے ہیں۔ اور وہ جہل میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دوسری چیزوں کو اس سبحانہ کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عقلِ فعال کو اپنی طرف سے تراش کر
تشریح: یہ ان کی اصطلاحات ہیں کہ پہلے اللہ نے عقل اول بنائی پھر عقل اول نے عقل ثانی بنائی پھر اس نے عقل فعال بنائی۔ اب عقل فعال کام کر رہی ہے۔ یہ بڑے بڑے عقلاء تھے جنہوں نے یہ model پیش کیا ہے۔
متن: اور عقلِ فعال کو اپنی طرف سے تراش کر محدثات کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں
تشریح: کہ وہ یہ کام کر رہی ہے اللہ نہیں کر رہا۔
متن: اور آسمانوں اور زمینوں کے خالق کو معطل و بیکار جانتے ہیں۔ اس فقیر کے نزدیک اس گروہ سے زیادہ بے وقوف دنیا میں کوئی جماعت وجود میں نہیں آئی۔۔۔ سبحان اللہ (اہل اسلام میں سے) ایک ایسی جماعت ہے جو ان پلید لوگوں کو اربابِ معقول تصور کرتی ہے اور ان (کی باتوں) کو حکمت کی طرف منسوب کرتی ہے اور ان کے جھوٹے احکام کو نفس الامر کے مطابق خیال کرتے ہیں ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران ۳ آیت ۸) (اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت فرمانے کے بعد کجی کے بچاؤ اور ہم کو اپنی جناب سے رحمت عطا فرما بیشک تو بڑا عطا کرنے والا ہے)۔
حضرت اللہ تعالی ٰ کے علم کے بارے میں اہم بات ارشاد فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو صرف کلیات کا علم حاصل نہیں بلکہ جزویات کا بھی علم حاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور خالق اپنے مخلوق کو تمام باریکات تک جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ مختار ہے مظطر نہیں اور عقل فعال وغیرہ کا نظریہ فقط ایک فلسفیانہ موشگافی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں اور جو ایسی لغو باتیں کرنے والوں کو حکیم کا خطاب دے رہے ہیں ان پر بھی حضرت افسوس فرما رہے ہیں ۔
مکتوب نمبر 17 کاعقیدہ 4
متن: اور وہ تعالٰی ازل سے ابد تک ایک کلام کے ساتھ متکلم ہے، اگر امر ہے تو اسی ایک کلام سے ہے اور اگر نہی ہے تو وہ بھی اسی کلام سے، اور اسی طرح تمام اخبار و استخبار (خبر دینا، خبر طلب کرنا ہے) اسی ایک کلام سے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر توریت اور انجیل ہے تو وہ بھی اسی ایک کلام پر دلیل ہے اور اگر زبور و فرقان (قرآن) ہے تو وہ اسی کلام کا نشان ہے اور اسی طرح باقی تمام صحیفے اور کتابیں جو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات پر نازل ہوئی ہیں اسی ایک کلام کی تفصیل ہیں جب ازل و ابد اس وسعت اور درازی کے باوجود وہاں (حق تعالٰی کے نزدیک) آنِ واحد ہے بلکہ وہاں اس کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا اطلاق بھی اس مقام میں تنگئی عبارت کی وجہ سے ہے لہٰذا وہ کلام جو اس آن میں صادر ہوگا ایک کلمہ بلکہ ایک حرف بلکہ ایک نقطہ ہوگا
تشریح: میں آپ کو ایک مثال دوں ویسے اس پر فٹ نہیں آئے گی لیکن صرف سمجھانے کے لئے دے رہا ہوں، اس کو bridging کہتا ہوں یہ bridging ہے۔
دیکھیں مثلاً میں نے قرآن پاک یاد کرنا ہے، ایک ایک آیت کر کے یاد کر رہا ہوں، دہرا رہا ہوں، دو تین سال میں یاد ہوگیا۔ ایک شخص پر اللہ پاک فضل فرما دے اور یک دم اس کے دماغ میں سارا قرآن آ جائے اور سارا اس کو یاد ہو جائے کیا خیال ہے اس کا کیا process ہوگا
ایسا ہوا ہے یہ نہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ بعض لوگوں کو اللہ پاک نے ایسے نوازا بھی ہے اسی طرح اس میں تدریج نہیں ہے اس میں آگے پیچھے نہیں ہے سارے کا سارا ایک ہی وقت میں ہوا ہے بے شک وہ جب بیان کرے گا تو اس میں تاخیر و تقدیم ہوگی لیکن وہ جو آیا ہے یک دم آیا ہے۔ اس طرح اللہ جل شانہ کے ہاں تو ساری چیز ایسی ہے ایک ہی وقت آن واحد میں ہے۔ سب کچھ ایک جیسا ہے اس کے لئے ایک نقطہ کی طرح ہیں بلکہ نقطہ بھی define نہیں ہو سکتا۔
متن: جب ازل و ابد اس وسعت اور درازی کے باوجود وہاں (حق تعالٰی کے نزدیک) آنِ واحد ہے بلکہ وہاں اس کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا اطلاق بھی اس مقام میں تنگئی عبارت کی وجہ سے ہے لہٰذا وہ کلام جو آن کی آن میں صادر ہوگا ایک کلمہ بلکہ ایک حرف بلکہ ایک نقطہ ہوگا اور اس نقطہ کا اطلاق بھی اس جگہ آنِ (واحد) کے اطلاق کے مانند ہے جو تنگئی عبارت کی وجہ سے واقع ہے ورنہ نقطہ بھی اس کی گنجائش نہیں رکھتا۔ حضرت جل سلطانہ کی ذات و صفات کی وسعت عالمِ بے چونی و بے چگونی سے ہے اور اس وسعت و تنگی سے جو امکان کی صفات ہیں وہ اس سے پاک و منزّہ ہے۔
تشریح: دیکھیں ہمارے سامنے جو ظہور ہوتا ہے وہ حادث ہوتا ہے، اللہ کے سامنے تو وہ پہلے سے ہے، ہمارے سامنے بعد میں ظاہر ہوا ہے۔ البتہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے بتدریج ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولین و آخرین ہیں، آج کل کے قانون کے لحاظ سے سمجھا سکتے ہیں؟ لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے۔ یہ بنیادی بات ہے کہ اللہ تعالی کے علم میں تو یہ ساری چیزیں بلکل ایک وقت میں ہے وہاں حال مستقبل ماضی سب ایک ہے۔
ۘ
رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ
مکتوب نمبر 217 دفتر اول حصہ دوم میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
متن: طریق صوفیہ کے سلوک سے مقصود یہ ہے کہ شرعی اعتقادات کی حقیقت پر جو حقیقت ایمان ہیں یقین زیادہ ہو جائے اور احکام شرعیہ کی ادائیگی میں آسانی (اور لطف) حاصل ہونے لگے اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے۔ اور رویت (دیدار الہی) کا وعدہ جو آخرت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ دنیا میں ثابت نہیں ہے۔ اور مشاہدات و تجلیات جن پر صوفیہ خوشی منا رہے ہیں وہ صرف ظلال سے آرام اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے وراء الوارء ہے۔
تشریح: حضرت نے رویت باری تعالی کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کر دیا۔ حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ بہت سارے لوگوں کو اس میں دھوکا ہوتا ہے۔ عقیدہ کیا ہونا چاہئے یہ ایک بات ہے۔ لوگوں کو محسوس کیا ہو رہا ہے یہ دوسری بات ہے۔ ہم اس کو سمجھیں کہ یہ تیسری بات ہے۔ جیسے ٹیچر نے بورڈ پر لکھنا چاہا A لکھا گیا B سمجھا گیا C اصل میں تھا D۔ اس میں variation ہے۔ اس لئے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات وراء الوراء ہے اُس کو اِس دنیا میں نہیں دیکھا جا سکتا، رویت بصری اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ اگر ممکن ہوتی تو موسی علیہ السلام کو ہو جاتی کیونکہ وہ پیغمبر تھے انہوں نے مانگا بھی تھا اور اللہ پاک نے فرمایا تو نہیں دیکھ سکتا۔ چلو تجربہ کر لو یہ تجلی میں کرتا ہوں اگر تم نے اس کو برداشت کر لیا تو پھر دیکھیں گے۔
قرآن میں سارا واقعہ موجود ہے، نص قطعی ہے کہ رویت بصری لَنْ تَرَانی نے ختم کر دی۔ وہ ممکن نہیں۔ نص قطعی ہے۔ ہمارا عقیدہ یہی ہے۔ اب اس میں صوفیہ کو غلطیاں کیا ہوئی ہیں؟ حضرت کی زبان میں ان شاء اللہ ابھی آئے گا۔ غلطی یہ ہوئی ہے کہ بعض حضرات نے کہا کہ دل کو رویت ہو سکتی ہے دل دیکھ سکتا ہے آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ حضرت نے اس کا بھی انکار فرمایا۔ دل بھی نہیں دیکھ سکتا۔ پھر کچھ حضرات نے کہا کہ رؤیت بصری نہیں ہو سکتی دل بھی نہیں دیکھ سکتا لیکن وہ اس جہان کے اندر نہیں ہوتی ہے اس جہان سے ایک خاص حالت میں shift کر دیے جاتے ہیں، آخرت کے مقام میں شفٹ کر دیے جاتے ہیں وہاں دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں و ہاں بھی نہیں دیکھ سکتے وہاں shift بھی نہیں ہو سکتے، یہ صرف ایک کے لئے تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
تینوں باتیں حضرت نے بیان کی ہیں اب اگر کوئی اپنے آپ کو مجددی کہے گا تو اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرے گا۔ اب بتاتا ہوں اب میں حضرت کی ساری چیزیں صرف سناؤں گا، کیونکہ میں اس میں دائر کروں گا تو کہیں گے بھئی اپنی طرف سے بتا رہا ہے۔ میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا یہ کافی ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ مجھے کہنا نہیں ہے۔ اب حضرت کیا کہہ رہے ہیں وہ میں سناتا ہوں۔
حضرت مجدد صاحب ؒ نے یہاں پر ایک بہت بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بعض حضرات معارف کے حصول کے لئے تصوف کا بنیادی مقصد بھول جاتے ہیں اور وہ اپنے زعم میں مشکل مشکل معارف کا اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہوئے ان میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ جوتصوف کا بنیادی سبق ہے وہ بھی یاد نہیں رہتا۔ معارف کی انتہاء جو ہے وہ دیدار الٰہی ہے جو اس دنیا میں ممکن نہیں اور اس ضمن میں جو مشاہدات و تجلیات ظاہر ہوتی ہیں وہ اصل نہیں بلکہ شبہ و مثال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے وراء الوارء ہے پس اصل معرفت جو حاصل ہوسکتی ہے وہ ہے جس سے عبدیت حاصل ہو جس کا ظہور شرعی اعتقادات کی حقیقت یقین کا زیادہ ہونا اور احکام شرعیہ کی ادائگی میں آسانی کا حاصل ہونا ہوتا ہے پس اسی پر زور دینا چاہئیے۔ اس کے علاوہ کسی بات پر زور نہیں دینا چاہئیے۔
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر 5 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: مؤمنوں کو بہشت میں بے چونی بے چگونی کے طور پر اس سبحانہ کا دیدار ہوگا کیونکہ وہ رویت جو بے چون سے متعلق ہے وہ بھی بے چون ہوگی، بلکہ دیکھنے والا بھی بے چونی کی وجہ سے حظ وافر حاصل کرے گا تاکہ بے چون کو دیکھ سکے۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِكِ إِلَّا مَطَايَاهُ (بادشاہ کے عطیوں کو اس کی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں) آج اس معما کو اس نے اپنے اخصِ خواص اولیاء پر سہل کر دیا ہے اور منکشف ہو چکا ہے کہ یہ مسئلہ ان بزرگوں کے نزدیک تحقیقی ہے اور دوسروں کے لئے تقلیدی۔ اہل سنت کے علاوہ تمام مخالف گروہ خواہ وہ مؤمن ہوں یا کافر اس مسئلہ کے قائل نہیں ہیں اورحق جل سلطانہ کی رویت کو اِن (اہل سنت) بزرگوں کے علاوہ سب محال خیال کرتے ہیں اور مخالفین کی دلیل غائب کا شاہد پر قیاس ہے کہ جس کا فساد ظاہر ہے سنّتِ سنيہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام و التحیتہ کی متابعت کے نور کے بغیر اس قسم کے دقیق مسئلہ کے متعلق ایمان و یقین کا حاصل ہونا دشوار و محال ہے
لائقِ دولت نبود ہر سرے بارِ مسیحا نہ کَشد ہر خرے
(ترجمہ) نہیں ہر شخص سرداری کے قابل نہ ہرخر عیسیٰ برداری کے قابل
تشریح: یہ حضرت جنت میں رویت کے قائل ہونے کی بات کر رہے ہیں کہ اس کا جن لوگوں نے انکار کیا ہے، جیسے معتزلہ وغیرہ نے انکار کیا ہے، تو وہ غلطی پر ہیں۔ اہل سنت والجماعت اس کے قائل ہیں کہ جنت میں رویت ہوگی۔
متن: تعجب ہے کہ وہ لوگ جو "رویت" (حق جل و علا) کی دولت پر ایمان ہی نہیں رکھتے وہ کس طرح اس سعادت کے حصول سے بہرہ ور ہوں گے کیونکہ انکار کرنے والوں کے نصیب میں تو محرومی ہے اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہشت میں ہوں اور دیدار نہ ہو، کیونکہ جو کچھ شرع شریف سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ تمام اہلِ بہشت کو دیدار کی دولت حاصل ہوگی، یہ کہیں بھی نہیں آیا کہ بعض اہل بہشت کو دیدار ہوگا اور بعض کو نہ ہوگا۔ ان کے حق میں وہی جواب مناسب ہے جو حضرت موسٰی علٰی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرعون کے سوال (کے جواب) میں فرمایا تھا۔ اللہ تعالٰی ان (موسیؑ اور فرعون) کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:﴿فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْأُوْلىٰ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسىٰ اَلَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًى وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً﴾ (طہ۲۰ آیت۵۱تا۵۳) (فرعون نے کہا) کہ پہلی نسلوں کا کیا حال ہے؟ (موسیؑ نے کہا) ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں ہے، میرا رب نہ چُوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (وہ اللہ تعالٰی ایسا ہے) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے چلنے کے لئے اس میں راستے بنائے اور آسمان سے پانی اُتارا) جاننا چاہئے کہ بہشت اور بہشت کے علاوہ سب حضرتِ حق سبحانہ کے نزدیک برابر ہیں کیونکہ سب اس تعالٰی کی مخلوق ہیں، اور وہ سبحانہ کسی ایک چیز میں بھی حلول و تمکن کئے ہوئے نہیں۔ لیکن بعض مخلوقات کو انوارِ واجبی جل سلطانہ کے ظہور کی قابلیت نہیں اور بعض کو ہے جس طرح کہ آئینہ صورتوں کے ظہور کی قابلیت رکھتا ہے اور سنگ و کلوخ (پتھر اور مٹی) یہ قابلیت نہیں رکھتے۔ پس فرق جو کچھ ہے اِسی طرف سے ہے ورنہ حضرت جل سلطانہ کے ساتھ سب کی نسبت برابر ہے
تشریح: یعنی جنت کو اس کا محل بنا دیا تو وہاں پر ہوگا یہاں کو اس کا محل نہیں بنایا تو لہٰذا یہاں پر نہیں ہوگا۔
دنیا میں رویت باری کے بارے میں اسی مکتوب میں ارشاد فرماتے ہیں:
این قاعدہ یاد دار کانجا کہ خداست نے جزو نہ کُل نہ ظرف نہ مظروف است
(ترجمہ) جس جا خدا ہے یاد رکھو شک نہ حرف ہے جُز ہے نہ کُل ہے اور نہ مظروف و ظرف ہے۔
یہاں حضرت ؒ نے بہشت میں رویت باری تعالیٰ کی اثبات پر بات کی ہے کیونکہ شرع شریف میں یہ آیا ہے۔ اس کے مقابلے جو اہل حق نہیں انہوں نے اس کا اثبات نہیں کیا کیونکہ وہ موجودہ حالت پر آئندہ کی حالت کو منطبق کرتے ہیں حالانکہ ان دو حالوں میں کوئی نسبت نہیں کیونکہ انوار نبوت پر غیر متزلزل یقین کے بغیر اس مسئلے کا سمجھ میں آنا ممکن نہیں پس ایمان بالغیب کے بغیر اس کا سمجھنا ممکن نہیں البتہ حضرت فرماتے ہیں کہ جو اس کے منکر ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کیسے ہوگا اور اگر دیدار نہیں ہوگا تو وہ بہشت میں کیسے ہوں گے کیونکہ یہ کہیں ذکر نہیں کہ بہشت میں بھی کوئی دیدار سے محروم ہوگا پس اللہ تعالیٰ ہی ان کے بارے میں جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ فرمایا کہ اللہ تعالی کے لئے تو بہشت میں جو ہیں اور جو نہیں ہیں وہ برابر ہیں لیکن بعض کو بعض چیزوں کی قابلیت ہوتی ہے بعض کو نہیں جیسے آئنہ میں صورت نظر آتی ہے پتھر میں نہیں ۔
دنیا میں رویت باری کے بارے میں اسی مکتوب میں ارشاد فرماتے ہیں
متن: کہ دنیا میں رویت واقع نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ دنیا اس دولتِ (رویت) کے ظہور کی قابلیت نہیں رکھتی، اور جو کوئی اس دنیا میں رویت کے واقع ہونے کا قائل ہو وہ جھوٹا اور تہمت لگانے والا ہے،
اور اس نے حق سبحانہ، کے غیر کو حق جان لیا ہے۔ اگر اس دنیا میں یہ دولت میسر ہو سکتی تو حضرت کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوات و التسلیمات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حقدار تھے، اور ہمارے حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام جو اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں تو اس کا وقوع بھی اس دنیا میں نہیں ہوا بلکہ بہشت میں تشریف لے گئے تو وہاں رویت سے مشرف ہوئے جو کہ عالمِ آخرت سے ہے۔ لہٰذا دنیا میں رویت نہیں ہوئی بلکہ جب دنیا میں دنیا سے نکل کر آخرت کے ساتھ ملحق ہو گئے تو( اللہ تعالٰی کے) دیدار سے مشرف ہوئے۔
تشریح: اب یہ اللہ تعالی کا کام ہے دیکھو فرشتے بغیر موت کے آگے پیچھے جا رہے ہیں یا نہیں؟ جنت میں جا رہے ہیں واپس آ رہے ہیں، تو ان کے لئے اگر اللہ پاک نے اس کو بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اس رات کے لئے بنا دیا اور ان کو عالم آخرت میں لے گئے۔
اسی مضمون کو حضرتؒ آگے بڑھاتے ہیں کہ دنیا میں کسی میں دولت رویت کی قابلیت نہیں اور دنیا میں جو اس کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے کہ وہ شبہ و مثال کو رویت سمجھ رہا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السام اس کے زیادہ اہل تھے اور ہمارے نبیﷺ کو تو عالم آخرت میں لے جا کر اس دولت سے مشرف کیا گیا اس لئے وہ یہاں والوں کے لئے مثال نہیں بن سکتے اور وہاں والوں کے لئے انکار نہیں ۔
رویت بصری کا صرف آپ ﷺ کے لئے خاص ہونا
مکتوب نمبر 135 حصہ اول میں اس بارے میں کہ
متن: یہ سعادت صرف آپ ﷺ ہی کے لئے مخصوص ہے ارشاد فرماتے ہیں کہ ”حاصل کلام یہ ہے کہ اور رویت بصری کا دنیا میں واقع ہونا آنسرور علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے لئے مخصوص ہے، اور وہ حالت جو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے زیرِ قدم اولیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ رویت نہیں ہے اور رویت اور حالت کے درمیان وہی فرق ہے جو کہ اصل اور فرع (جڑ اورشاخ ) میں، یا شخص اور اس کے سایہ میں فرق ہوتا ہے، اور ان دونوں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا عین نہیں ہے۔“
اگر صوفیاء میں کسی نے رویت بصری کا دنیا میں دعویٰ کیا ہو تو اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
مکتوب 207 دفتر اول حصہ دوم میں اس مضمون کو مزید کھولتے ہیں !
متن: ”کیونکہ رویت باری تعالیٰ کے آخرت میں ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ دنیا میں ہرگز واقع نہیں ہوگی۔ وہ مشاہدات و تجلیات جن کے ساتھ صوفیہ خوش ہوتے ہیں وہ صرف ظلال سے آرام پانا اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کرنا ہے کیونکہ حق تعالیٰ ان سب سے وراء الوراء ہے۔ عجب کاروبار ہے کہ اگر ان مشاہدات و تجلیات کی حقیقت پوری طرح بیان کر دی جائے تو اس بات کا خوف ہے کہ اس راستے کے مبتدیوں کی طلب میں فتور اور ان کے شوق میں قصور واقع ہو جائے گا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر علم کے باوجود کچھ بھی نہ کہا جائے تو حق باطل کے ساتھ ملا رہے گا۔“
تشریح: اس میں حضرت نے پورا لب لباب دوسطروں میں بیان کیا ہے کہ جن لوگوں نے اس کے بتانے کے لئے کچھ بات کی ہے، انہوں نے شبہ و مثال کو رویت کی طرح سمجھ لیا وہ اس لئے تاکہ لوگوں کو شوق پیدا ہو اور آگے بڑھیں۔ لیکن عقیدہ کو disturb نہیں کرنا چاہئے تو حضرت نے فرمایا اگر میں بھی یہ بات کہوں تو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حق اور باطل آپس میں مل جائیں عقیدہ disturb نہ ہو جائے لہٰذا مجھے یہ بات کرنی پڑ رہی ہے۔ حضرت نے دونوں باتیں کھول دیں کہ جنہوں نے کیا ہے وہ اس وجہ سے کیا ہے اور جنہوں نے نہیں کیا، میں نے نہیں کیا تو اس وجہ سے نہیں کیا۔ یہ اس وجہ سے ہے یعنی شوق کے مقابلے میں عقیدہ زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ عقیدہ خراب ہو جائے تو جڑ ہی کٹ جائے گی
اب مکتوب نمبر 90 دفتر سوم میں حضرت اس کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں یہ وہ مکتوب ہے جس میں حضرت نے اسی موضوع پہ ہی بات فرمائی ہے
حضرت ان مشاہدات و تجلیات کے بارے میں جن پر صوفیہ کرام رویت کا دھوکہ کھاتے ہیں فرماتے ہیں کہ حق تعالی ان سے وراء الوراء ہے اور حضرت اس پر مزید فرماتے ہیں کہ اگر ان کی حقیقت بیان کی جائے تو وہ شوق ذوق جو صوفی کی ترقی میں معاون ہوسکتا ہے متاثر ہوسکتا ہے لیکن اگر نہ بیان کیا جائے تو حق کے بیان سے کتمان ہو جاتا ہے تو حضرت ﷺ نے اس کے بیان کرنے کو ترجیح دی کیونکہ عقائد کا صحیح ہونا بہرحال زیادہ اہم ہے۔
مکتوب نمبر 90 دفتر سوم
متن: فقیر ہاشم کشمی کے نام صادر فرمایا۔ ان کے سوال کے جواب میں کہ (دنیا میں) عارفوں کے قلب جو حق جل و علا کا مشاہدہ کرتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟
آپ نے دریافت کیا تھا کہ بعض محقق صوفیہ دنیا میں دل کی آنکھ سے حق تعالیٰ کی رویت و مشاہدہ کا اثبات کرتے ہیں جیسا کہ شیخ عارف (شہاب الدین سہروردی) قدس سرہ نے اپنی کتاب عوارف میں موضع المشاھدۃ بصرا القلب (مشاہدہ کا محل قلب کی آنکھ ہے) فرمایا ہے۔ اور شیخ ابو السحٰق کلا بادی قدس سرہ جو اس طائفہ علیہ کے قدماء میں سے ہیں اور ان کے سرداروں میں سے ہیں اپنی کتاب "تعرف" میں لکھتے ہیں و اجمعوا علی انہ تعالیٰ لا یری فی الدنیا بالابصار و لا بالقلوب الا من جھۃ الایقان (اور اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ کو دنیا میں ان آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ قلوب سے مگر یقین کی جہت سے دیکھا جا سکتا ہے) ان دونوں تحقیقوں کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہے اور اس میں آپ کی کیا رائے ہے اور اختلاف کے باوجود اجماع کس معنیٰ میں ہے؟
(جواب)
اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے۔ جان لیں کہ اس مسئلہ میں فقیر کے نزدیک صاحب "تعرف" قدس سرہ کا قول مختار و پسندیدہ ہے۔
اور یہ سمجھتا ہے کہ قلوب کو اس دنیا میں اس حضرت جل سلطانہ کی رویت کے لئے سوائے یقین کے اور کچھ نصیب نہیں ہے جس کو اپ رویت کہہ لیں یا مشاہدہ۔ اور جب (اس دنیا میں) قلب کو رویت حاصل نہیں ہوئی تو آنکھوں کو کیا حاصل ہوگی کیونکہ وہ (آنکھیں) اس دنیا میں اس معاملہ (مشاہدہ حق) میں بیکار و معطل ہیں۔
اس مکتوب میں سائل نے پوچھا تھا کہ حضرت شھاب الدین سہروردی ؒ دل کی آنکھ سے رویت کا اثبات کرتے ہیں جبکہ صاحب تعرف اس پر عارفین کا اجماع نقل کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کو دل کی آنکھوں سے بھی اس دنیا میں نہیں دیکھا جاسکتا تو اس میں تطبیق کی کیا صورت ممکن ہے تو حضرتؒ جواب میں فرماتے ہیں کہ صاحب تعرف کا قول مختار اور پسندیدہ کہ قلوب کو یہاں رویت کے لئے یقین کے علاوہ کچھ میسر نہیں تو جب دل کو بھی یہ دولت حاصل نہیں تو آنکھوں سے دیدار کا دعویٰ کرنے والوں کی کیا بات ہے۔
یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ یقین چونکہ دل و دماغ کا عمل ہے اس لئے دل میں رویت کی طرح کا جو احساس ہے اس کو غالباً شیخ سہروردی ؒ نے مشاہدہ فرمایا ہوگا جس کی جگہ دل ہے۔ کانک تراہ میں جیسا اشارہ ہے اور اس سے پھر اجماع پر بھی فرق نہیں پڑے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایقان کے معنی جو قلب کو حاصل ہوتے ہیں
تشریح: یہاں بہت باریکی سے حضرت نے اس کو discuss کیا ہے۔
متن: ایقان کے معنی جو قلب کو حاصل ہوتے ہیں وہ معنی عالم مثال میں بصورت رویت ظاہر ہوتے ہیں۔
تشریح: جو ہمارا یقین ہے جیسے نماز ہے، بصورت مثال وہاں پر نماز کی ایک صورت ہے، اسی طرح ایقان کی بھی ایک صورت ہے وہاں پر وہ رویت کی صورت بن جاتی ہے۔
متن: موقن بہ (یعنی جس پر یقین لایا گیا) وہ مرئی کی صورت میں ظہور کرتا ہے
تشریح: یعنی اس جیسا نظر آتا ہے
متن: کیونکہ عالم مثال میں ہر معنی و حقیقت کی ایک صورت ہے جو عالم شہادت کے مناسب ہے اور جب عالم شہادت میں کمال یقین رویت میں ہے
تشریح: یعنی عالم شہادت میں کمال یقین اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی چیز کو دیکھ لے
متن: تووہ یقین بھی عالم مثال میں رویت کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور جب ایقان رویت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو اس کا تعلق جو کہ موقن بہ کے ساتھ ہے اس لئے لازمی طور پر وہ بصورت مرئی اس جگہ ظاہر ہوتا ہے
تشریح: اس جگہ بصورت حقیقت نہیں بصورت مرئی ظاہر ہوگا
متن: اور جب سالک اس کو عالم مثال کے آئینے میں مشاہدہ کرتا ہے تو آئینہ داری کے توسط سے غافل ہو کر
تشریح: وہ اس کو بھول جاتا ہے کہ میں عالم مثال کو مشاہدہ کر رہا ہوں
متن: صورت کو حقیقت جانتے ہوئے خیال کر لیتا ہے کہ اس کو حقیقتاً رویت حاصل ہوگئی اور مرئی پیدا ہوگیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ رویت اس کے ایقان کی صورت ہے اور وہ مرئی موقن بہ کی صورت ہے،
تشریح: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
متن: وہ مرئی موقن بہ کی صورت ہے، یہ صوفیہ کی غلطیوں میں سے ہے۔ اور ان کے لئے صورتیں حقائق اشیاء سے متلبس ہو جاتی ہیں اور یہی دید جب غالب آ جاتی ہے اور باطن سے ظاہر میں اثر کر جاتی ہے تو کبھی کبھی سالک کو اس وہم میں ڈال دیتی ہے کہ رویت بصری بھی حاصل ہوگئی اور مطلوب بھی گوش سے آغوش میں آ گیا۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس معنی کا حصول جب کہ اصل میں بصیرت ہے وہ بھی وہم و تلبیس اشیاء پر مبنی ہے تو چشم ظاہر کو جو اس دنیا میں اس کی فرع ہے کیا رسائی حاصل ہوگی
تشریح: یعنی اگر بصیرت میں نہیں آسکتی تو بصارت میں کیسے آئے گی۔
متن: اور اس کو رویت کہاں سے حاصل ہو جائے گی۔ رویت قلبی کے سلسلہ میں بھی صوفیہ کا ایک جم غفیر توہم میں پڑا ہوا ہے یعنی وہ اس کے وقوع کا حکم کرتا ہے۔ مگر (دنیا میں) رویت بصری کے متعلق اس طائفہ میں سے کوئی ناقص ہی ہوگا جو اس کے وقوع کے وہم میں پڑا ہو۔ کیونکہ یہ اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے اجماع کے خلاف ہے۔
حضرتؒ نے اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ جیسے دیکھنے سے یقین ہوتا ہے تو یہاں یقین سے عالم مثال میں دیکھنے کی صورت پیدا ہوتا ہے پس جب اس کو غیب کی خبروں پر یقین کامل حاصل ہوتا ہے اور نفس اس کی ممانعت سے باز رہتا ہے تو یہی یقین کامل عالم مثال میں رویت کی شکل بن جاتی ہے اس عالم تمثیل سے جب کوئی غافل ہوتا ہے تو وہ اس مثالی رویت کو حقیقی رویت سمجھ لیتا ہے اور جب صوفی کا باطن اس کے ظاہر پر غایت اثر انداز ہو جائے تو وہ اس کو ظاہر میں بھی محسوس ہوسکتا ہے جس سے رویت بصری کا بھی دھوکہ ہوسکتا ہے لیکن چونکہ یہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کا عین مخالف ہے اس لئے کوئی ناقص ہی ہوگا جو اس وہم سے متاثر ہو جائے۔
متن: سوال: جب عالم مثال میں موقن بہ کی صورت پیدا ہوگئی تو لازم ہوا کہ حق سبحانہ کی وہاں کوئی شکل و صورت ہے۔
خود ہی سوال اٹھایا ہے۔
متن: جواب: یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اگرچہ حق سبحانہ کی کوئی مثل نہیں لیکن مثال ہے۔ اور جائز ہے کہ مثال میں کسی صورت پر بھی ظہور فرمائے جیسا کہ صاحب فصوص قدس سرہ نے رویت اخروی کو بھی صورت جامعہ کے ساتھ "لطیفہ مثالیہ" مقرر کیا ہے۔ اور اس جواب کی تحقیق یہ ہے کہ موقن بہ کی وہ صورت، مثال میں حق تعالیٰ کی صورت نہیں ہے بلکہ صاحب ایقان کے مکشوف کی صورت ہے
تشریح: یعنی وہ شبہ اور مثال اصل نہیں ہے وہ اس کا ایقان متمثل ہوگیا ہے۔
متن: کہ اس کے ایقان نے اس کے ساتھ تعلق حاصل کر لیا ہے اور وہ مکشوف حق سبحانہ کی ذات کے بعض وجوہ و اعتبارات میں سے نہ کہ حق جل و علا کی ذات۔
تشریح: اعتبارات کے لحاظ سے ذات کے متعلق نہیں ہے
متن: لہذا جب عارف کا معاملہ ذات جل سلطانہ تک پہنچ جاتا ہے تو اس قسم کے خیالات پیدا نہیں ہوتے اور کوئی رویت و مرئی متخیل نہیں ہوتی، کیونکہ حق سبحانہ کی ذات کے لئے مثال میں کوئی صورت موجود نہیں کہ اس کو مرئی صورت کے ساتھ ظاہر کرے اور اس کے ایقان کو رویت کی صورت میں جانے۔
حضرت ؒ اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور ایک سوال قائم کرتے ہیں کہ عالم مثال میں اگر رویت کی کوئی صورت مکشوف ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عالم مثال میں حق تعالیٰ کی کوئی صورت موجود ہے تو اس کے جواب کے طور پر فرماتے ہیں کہ جو صورت مکشوف ہوتی ہے وہ دیکھنے والے کے اس یقین کی مثالی صورت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس پر صاحب فصوص کی رائے بھی بتاتے ہیں کہ وہ تو رویت اخروی کو بھی صورت جامعہ کے ساتھ لطیفہ مثالیہ کا انکشاف ہوگا اور وہ اللہ تعالی ٰ کی ذات کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعض وجوہ اور اعتبارات کا مظہر ہوتا ہے لہٰذا عارف کا معاملہ جب ذات جل شانہ تک پہنچ جاتا ہے تو اس کو اس قسم کی صورت کا پھر وسوسہ بھی نہیں آتا کیونکہ اس کا یقین لیس کمثلہ شئی پر قائم ہوچکا ہوتا ہے۔
متن: یا ہم یہ کہتے ہیں کہ عالم مثال میں معانی کی صورتیں ہیں نہ کہ ذات کی صورت اور چونکہ عالم کل کا کل اسماء و صفات کا مظہر ہے اور ذاتیت سے بہرور نہیں
تشریح: سبحان اللہ بڑی گہری بات ہے عالم صفات کا مظہر ہے ذات کا نہیں۔
متن: جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق مختلف مقامات پر کی ہے۔ لہذا لازمی طور پر وہ (مرئی) بتمامہ معانی کی قسم سے ہوگا اور عالم مثال میں اس کی صورت ثابت ہوئی ہے۔ اور کمالات وجوبی میں جس جگہ بھی صفت و شان ہے اس کا قیام ذات پر ہے اور وہ معانی کی جنس سے ہے۔ اگر مثال میں اس کی کوئی صورت ہو اگرچہ نقص کے ساتھ اس کی گنجائش ہے۔ لیکن اس ذات سبحانہ کے ہرگز مراتب میں سے کسی مرتبہ میں بھی صورت نہیں ہو سکتی کیونکہ صورت سے تحدید و تقیید لازم آتی ہے (یعنی محدود و مقید ہو جانا) اور وہ خواہ کسی مرتبہ میں بھی ہو جائز نہیں ہے تمام مراتب جو کہ اس سبحانہ کی ؐمخلوق ہیں اس کی کہاں گنجائش رکھتے ہیں کہ اپنے خالق کو محدود و مقید کر لیں۔ جس کسی نے بھی حضرت جل شانہ کے لئے مثال تجویز کی ہے وہ وجوہ و اعتبارات کے اعتبار سے ہے نہ کہ عین ذات تعالیٰ کے اعتبار سے۔ اور اگرچہ حضرت ذات تعالیٰ کے لئے وجوہ و اعتبارات کی مثال کی تجویز بھی اس فقیر پر گراں ہے مگر یہ کہ دور کے ظلال میں سے کسی ظل کے لئے اس کو تجویز کیا جائے۔
یا اس کی تشریح یوں ہوسکتی ہے کہ عالم مثال میں معانی صورت کا روپ دھار لیتے ہیں نہ کہ ذات باری تعالی ٰ کی صورت ظاہر ہوتے ہیں لہٰذا وہاں ظہور معنوی انداز کا ہوگا اور عالم چونکہ اسماء و صفات کا مظہر ہے، ذات کے ساتھ اس کی کوئی نسبت نہیں لہٰذا اس عالم میں صفات باری تعالی ٰ کا چونکہ ذات پر قیام ہے اس لئے نقص کے ساتھ سہی اس کی مثال میں کچھ گنجائش ہوسکتی ہے لیکن لیکن ذات کے ساتھ بلکل نہیں کیونکہ اس طرح اللہ تعالی کی تنزیہہ پر یقین نہیں رہتا کیونکہ صورت سے تحدید اور تقئید کی طرف ذہن چلتا ہے جو اللہ تعالی کی شان سے بعید ہے ۔حضرت ؒفرماتے ہیں کہ وجوہ و اعتبارات کے لحاظ سے بھی مثال بار خاطر ہے مگر یہ اصل کے بجائے کسی دور کے ظل پر بات منطبق ہو۔
متن: اس بیان سے واضح ہوگیا کہ عالم مثال میں معانی اور صفات کی صورتوں کے نقوش تو موجود ہیں نہ کہ ذات تعالیٰ کے۔ لہذا جو کچھ صاحب فصوص نے رویت اخروی کے بارے میں مثالی صورت تجویز کی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے وہ بھی حق تعالیٰ کی رویت نہیں ہے بلکہ حق سبحانہ کی صورت کی رویت بھی نہیں ہے کیونکہ اس سبحانہ کی کوئی صورت نہیں کہ جس سے رویت تعلق پیدا کرے۔ اور اگر مثال میں کوئی صورت ہے تو وہ ظلال بعیدہ میں سے کسی ظل کی صورت ہے لہذا اس کی رویت حق سبحانہ کی رویت کیسے ہوگی۔ شیخ قدس سرہ رویت حق جل و علا کی نفی میں معتزلہ اور فلاسفہ سے کچھ کم نہیں ہیں بلکہ رویت کا اثبات ایسے طریقے پر کرتے ہیں جس سے رویت کی نفی لازم آتی ہے اور وہ نفی صریح نفی کے مقابلے میں زیادہ بلیغ ہے کیونکہ کنایہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے البتہ اس قدر فرق ضرور ہے کہ اس جماعت کے پیشوا کی عقل ان کی عقیل ہے اور شیخ کا مقتدا بعید از صحت کشف ہے (یعنی غلط ہے)۔ شاید کہ مخالفین کے نا تمام دلائل نے جو شیخ کے تخیل میں بیٹھے ہوئے تھے ان کے کشف کو بھی اس مسئلہ میں صواب سے منحرف کر دیا ہے اور ان کے مذہب کی طرف مائل کر دیا۔ اور چونکہ وہ خود اہل سنت سے ہیں اس لئے اثبات کی صورت پیدا کی ہے اور اسی پر اکتفا کیا ہے اور اسی کو رویت گمان کیا ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (بقرہ 2 آیت 286) (اے ہمارے رب! ہماری بھول چوک اور خطاؤں پر مؤاخذہ نہ فرما)
تشریح: کیونکہ ہمارا عقیدہ آخرت میں رویت کا ہے۔ حضرت نے اس عقیدہ کو لے کر خیالات کے ذریعے سے اس چیز کو پیدا کر لیا۔ چونکہ بنیاد اصل عقیدہ تھا، لہٰذا ایک اجتہادی غلطی ہوگئی۔
متن: اور وہ جو اجماع کے بارے میں آپ نے تحریر کیا تھا تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک ایسا اختلاف جو اعتبار کے لائق ہو ظہور میں نہ آیا ہو یا اپنے زمانے کے مشائخ کا اجماع مراد ہو۔ و اللہ سبحانہ اعلم بحقیقۃ
ایک بہت عجیب اور اہم تحقیق حضرت ؒ یہاں بیان فرما رہے ہیں کہ عالم مثال میں معانی اور صفات کے نقوش مانے جائیں اور ذات سے اس کی نفی ہو تو اس کی بنیاد پر جو صاحب فصوص نے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کے لئے جو صورت مثالی کا نقشہ کھینچا ہے تو وہ تو پھر حق تعالی کی رؤیت نہیں ہوئی بلکہ کسی ظل کی ہوئی جس سے حقیئقی رؤیت کی نفی لازم آتی ہے جو حضرت ؒ کو اس مسئلے میں معتزلہ اور فلسفہ سے ملا دیتا ہے اور کنایہ ہونے کے لحاظ سے یہ نفی زیادہ بلیغ ہوگی۔ چونکہ یہ ساری کشفی باتیں ہیں اور اس میں شیخ سے خطا ہوئی ہے جس کی وجہ اس کے مخالفین کے ناتمام دلائل ہوسکتے ہیں کہ ان کو چپ کرنے کی نیت سے ایک اثبات کی صورت پیش کردی ہے جو ہے تو غلط لیکن خطائے اجتہادی ہونے کی وجہ قابل معافی ہے۔
مکتوب نمبر 17 کے عقیدہ نمبر6 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
متن: حق تعالٰی آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے، پہاڑوں اور سمندروں کا خالق ہے درختوں اور پھلوں کا خالق ہے، کانوں اور نباتات (غرض ہر چیز کا) خالق ہے۔ چنانچہ آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انسان کی پیدائش کے ساتھ زمین کومزیّن فرمایا۔ اگر (کوئی چیز) بسیط ہے تو اس تعالٰی کی ایجاد ہی سے موجود ہوئی ہے، اور مرکب ہے تو وہ بھی اس کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئی ہے مختصر یہ کہ اس نے تمام چیزوں کو عدم کے پردے سے وجود میں لاکر حادث بنایا ہے۔ حق سبحانہ کے علاوہ کسی کے لئے قِدم (ہمیشگی) نہیں ہے۔ اور اس سبحانہ کے علاوہ کوئی چیز قدیم نہیں ہوسکتی۔ تمام اہلِ ملّت و مذاہب اس سبحانہ کے علاوہ (ہر شے کے) حدوث پر اجماع رکھتے ہیں اور بالاتفاق اس سبحانہ کے علاوہ کسی کو قدیم نہیں جانتے۔ اور جو شخص بھی ان چیزوں کے قدیم ہونے کا قائل ہے اس کو گمراہ بلکہ اس کی تکفیر کا حکم کرتے ہیں۔۔۔ حجتہ الاسلام امام (غزالیؒ ) نے اپنے رسالہ "مُنْقِذٌ عَنِ الضَّلَالِ" میں اس معنی کی تصریح کی ہے اور اس جماعت کو جو غیرِ حق کو بھی قدیم جانتے ہیں تکفیر کا حکم کیا ہے، اور وہ لوگ جو آسمانوں، ستاروں اور ان جیسی چیزوں کے قدیم ہونے کے قائل ہیں قرآن مجید نے بھی ان کی تکذیب فرمائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اَللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ﴾ (سجدہ۳۲ آیت۴) (اللہ تعالیٰ ہی وہ (ذاتِ اقدس) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا) ۔۔۔ اور قرآن مجید میں اس قسم کی آیتیں بہت ہیں۔ وہ بہت ہی بے وقوف ہے جو اپنی عقلِ ناقص کی وجہ سے نصوصِ قرآنی کی خلاف ورزی کرتا ہے: ﴿وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ﴾ (نور۲۴ آیت۴) (اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کوئی نور نہ بنائے اس کے لئے کوئی نور نہیں)۔
تشریح: یوں سمجھ لیں کہ قدم اور ازل کی بات بیان کی ہے۔ تقدیر کے مسئلہ کی خوبصورت اور مختصر ممکن تشریح کی ہے۔ یہ بھی ایک معرکۃ الآرا مسئلہ ہے لیکن حضرت نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اس کی تشریح بیان کی ہے۔
انتہائی وضاحت کے ساتھ حضرت ؒ نے تمام ممکنات کی پیدائش کو کارخانۂ عدم کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے جس کو اللہ تعالی نے عدم کے پردے سے وجود بخش کر حادث بنایا ہے اور ساتھ یہ فرمایا کہ یہ سب حادث ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔ ان چیزوں میں کسی کی قِدم پر یقین رکھنے والے کی تکفیر کی تصریح فرمائی۔
تقدیر کے مسئلے کی خوبصورت اور مختصر ممکن تشریح ۔
اسی مکتوب کے عقیدہ نمبر7 ارشاد فرماتے ہیں
متن: ”اور جس طرح بندے حق سبحانہ کی مخلوق ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی حق تعالیٰ کی مخلوق ہیں، کیونکہ پیدا کرنا اس کے سوا کسی کو لائق نہیں، اور ممکن سے ممکن کا موجود ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ بات قصور قدرت سے داغدار ہے اور نقص علم سے متصف ہے جو کہ ایجاد اور خَلق کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اور بندہ جو کچھ اپنے افعالِ اختیاریہ میں دخل رکھتا ہے وہ اس کا کسب ہے جو بندہ کی قدرت و ارادہ سے واقع ہوا ہے اور فعل کا پیدا ہونا حق سبحانہ کی طرف سے ہے اور فعل کا کسب بندہ کی طرف سے ہے۔ لہٰذا بندہ کا فعل اختیاری بندہ کے کسب اور حق جل و علا کی خلق (پیدائش) کے مجموعے سے واقع ہوتا ہے۔
تشریح: یعنی مرکب ہے
متن: اگر بندہ کے کسب اور اختیار کو فعل میں بالکل دخل نہ ہو تو وہ حکمِ مرتعش (رعشہ والے کا حکم) پیدا کرے گا
تشریح: مرتعش یعنی جس کو رعشہ ہوتا ہے۔ رعشہ کے وقت اختیار نہیں ہوتا، اگر کوئی معذور آدمی ہو، اس کے ہاتھ کو رعشہ ہو، اسے کوئی چیز لگ جائے ٹوٹ جائے تو اس سے کوئی ناراض ہوگا؟ کہے گا میرے بس میں نہیں تھا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے اس کی بڑی عمدہ مثال دی ہے۔ فرمایا: دیکھو اتنا تو کتا بھی جانتا ہے کہ اس کو کوئی پتھر مارتا ہے تو پتھر کو نہیں بھونکتا اس کو بھونکتا ہے جس نے پتھر مارا ہوتا ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ فاعل کون ہے۔
متن: اور وہ محسوس وہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔
اس میں حضرتؒ نے تقدیر کے مسئلے کی بنیاد کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بندوں کے افعال بھی اسی طرح اللہ تعالی ٰ کی مخلوق ہیں جیسے وہ خود ہیں البتہ جبر کا عقیدہ بھی اہل سنت والجماعت کا نہیں اس لئے ساتھ ہی تشریح فرمائی کہ جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اختیار دیا ہے ان کا ارادہ اور وہ اختیاری فعل اس کا کسب ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اے معاذ اگر یہ سارے لوگ مل کر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کا نہ ہو تو وہ نہیں پہنچا سکتے اور اس کا بالعکس بھی ہے۔ اگر بندے کے کسب سے بھی صرف نظر کی جائے تو وہ رعشہ والے کی صورت بن جائے گی جو کہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔
متن: یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ رعشہ والے کا فعل اور طرح ہے اور مختار کا فعل اور طرح اور اسی قدر فرق بندہ کے فعل میں اس کے کسب کے دخل کے لئے کافی ہے۔ حق سبحانہ و تعالٰی نے اپنی کمال مہربانی سے اپنی خَلق (پیدا کرنے) کو بندہ کے فعل میں بندہ کے ارادہ کے تابع کر دیا ہے۔
تشریح: جس طریقہ سے وہ بندہ کرنا چاہتا ہے، اللہ اس طرح ہی کر لیتا ہے۔ جب اللہ چاہے۔
متن: اور اللہ تعالٰی بندہ کے (کسی کام کے) قصد کے بعد بندہ میں فعل کی ایجاد فرماتا ہے تو پھر بندہ (اچھے کام کی وجہ سے) مدح و تعریف کا اور (بُرے کام کی وجہ سے) ملامت کا مستحق بن جاتا ہے اور عذاب و ثواب کے لائق ہو جاتا ہے۔۔۔ اور قصد و اختیار جو حضرتِ حق سبحانہ و تعالٰی نے بندہ کو دیا ہے وہ فعل اور ترکِ (فعل) دونوں جہت (اچھائی اور برائی) رکھتا ہے، اور (حق تعالیٰ نے) فعل اور ترکِ کی اچھائی اور برائی کو تفصیل کے ساتھ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی زبانی بیان کر دیا ہے، باوجود اس کے کہ بندہ ایک جہت اختیار کرتا ہے اس کے علاوہ چارہ نہیں ہے کہ یا تو وہ ملامت کے لائق ہو یا تعریف کے قابل۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ حضرتِ حق سبحانہ نے بندہ کو اسقدر قدرت و اختیار عطا کیا ہے کہ وہ شرعی اوامر و نواہی سے عہدہ برآں ہو سکے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ بندہ کو قدرتِ کاملہ عطا کریں اور اختیارِ تام بخشدیں، غرض جس قدر مناسب تھا اس کو اختیار دیدیا۔ اس بات کا منکر ظاہری طور پر اس سے متصادم ہے اور وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہے اور شریعت (کے احکام) کی بجا آوری میں عاجزو درماندہ ہے۔ ﴿كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ إِلَيْهِ﴾ (شوری۴۲ آیت۱۳) (مشرکین پر یہ بات بہت گراں ہے جس کی طرف تم ان کو بلاتے ہو)۔۔۔ یہ مسئلہ علمِ کلام کے دقیق مسائل میں سے ہے۔ اور اس مسئلہ کی شرح و بیان کی انتہا یہی ہے جو اِن اوراق میں تحریر ہوئی۔ وَاللہُ سُبْحَانَہُ الْمُوَفِّقُ (اور اللہ سبحانہ ہی توفیق دینے والا ہے) (غرض کہ) جو کچھ علماء اہلِ حق نے فرمایا ہے اس پر ایمان لانا چاہئے اور بحث و تکرار میں پڑنا نہیں چاہئے۔
بیت: نہ ہر جانے مرکب تواں تاخین کہ جا ہاسِپر باید انداختن
(ترجمہ) ہر جگہ گھوڑے کو دوڑاتے نہیں ڈھال کیا آخر کو رکھ جاتے ہیں۔
تشریح: ہر جگہ گھوڑے نہیں دوڑایا کرتے، ہر جگہ بات نہیں چھیڑا کرتے۔ کیونکہ بعض باتیں بعض جگہ ایسی ہوں گی جہاں پر بات کرنے سے بہت کام خراب ہو جاتا ہے۔
الحمد للہ! جتنا لکھا تھا وہ آج اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پورا ہوا۔ ورنہ میں تو ڈر رہا تھا کہ یہ پورا ہوگا یا نہیں ہوگا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ پورا ہوا اور امید کرتا ہوں کہ کافی حد تک سمجھ بھی آیا ہوگا۔ البتہ آئندہ اگر اس پر کوئی اشکال وغیرہ ہو تو سوال وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال جواب کے سیشن میں اس کا جواب دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ العَالَمِیْن۔ ابھی ہم ذکر کر لیتے ہیں
حضرتؒ نے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے اپنے فعل کو بندے کے ارادے اور کسب کا تابع بنایا پس جب بندہ ارادہ کرتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے تو جب اللہ تعالیٰ چاہے تو بندے کے اس ارادے کے مطابق وہ کام کرلیتا ہے جس پر اجر یا سزا پاتا ہے اور جو اختیار اللہ تعالیٰ نے بندے کو دیا ہوتا ہے وہ دونوں جانب مؤثر ہوتا ہے چاہے وہ کرے یا نہ کرے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے ذریعے رہنمائی فرمائی ہے کہ کیا کرنا چاہئیے اور کیا نہیں اور بندے کے ساتھ چونکہ نفس بھی ہے تو وہ بھی اس کے کام پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی نفس کی مخالفت کرکے نبی کے بتائے ہوئے طریقے پر کام کرے تو اجر کا مستحق ہوتا ہے بصورت دیگر عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا اختیار دے دیا اور جتنا چاہا نہیں دیا لیکن بندہ اتنے ہی کا مکلف ہوتا ہے جتنے کا اختیار دیا ہوتا ہے۔