سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 462

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 1:

السلام علیکم! حضرت تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100 100 دفعہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ" 200 دفعہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 400 دفعہ، "حَق" 600 دفعہ اور "اللہ" 400 دفعہ پڑھ لیا ہے۔ مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ آگے کیا کرنا ہے؟

جواب:

اللہ 500 دفعہ پڑھ لیا کریں اور باقی اذکار پرانی ترتیب پر پڑتے رھیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم! شاہ صاحب آج صبح سے کاروباری tension کی وجہ سے طبیعت بوجھل سی تھی، کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا، اداسی سی تھی، کسی طرح سکون نہیں آ رہا تھا، ابھی مغرب کی نماز کے بعد آپ کی برکت سے نفس سے بات کی کہ یہ سب تمہاری عیاشیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، تمہاری وجہ سے دل بوجھل ہو رہا ہے، مت گاڑی میں گھومو، اچھے کھانے مت کھاؤ، مہنگا لباس مت پہنو۔ نفس کو خوب ڈانٹا کہ خود بھی پریشان ہوتے ہو، یہ تم ہی ذلیل ہو رہے ہو، اچھا ہے۔ اب الحمد للہ دل سے بوجھ ہٹ گیا ہے۔

جواب:

نفس کے احتساب سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ نفس کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آسانی سے سمجھتا نہیں ہے۔ اس کی مثال بالکل بچے کی طرح ہوتی ہے کہ جیسے بچہ نا سمجھ ہوتا ہے اس کو آپ لاکھ سمجھاؤ لیکن وہ صرف معمولی مزے کے لئے اور اپنی معمولی ضد کے لئے اپنا بھی اور اپنے والدین کا بھی بہت بڑا نقصان کر لیتا ہے۔ لہذا ان کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح نفس کو کبھی للکارنے سے فائدہ ہوتا ہے، کبھی چمکارنے سے فائدہ ہوتا ہے کبھی کوئی لالچ دے کر کام کروایا جاتا ہے۔ لہذا اس کا یہی طریقہ ہے کہ اس کو سامنے رکھ کر بات کی جائے کہ یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ جیسے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ کافی عرصے کے بعد اپنے ملک بسطام تشریف لا رہے تھے، لوگ چونکہ ان کی بزرگی کو جانتے تھے تو استقبال کے لئے بہت سارے لوگ آ گئے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا، جب حضرت نے دیکھا کہ اتنے سارے لوگ آئے، تو اپنے نفس سے مخاطب ہوئے کہ تو بڑا خوش ہو رہا ہو گا کہ اتنے لوگ تمہارے استقبال کے لئے آئے ہیں، میں تیرا علاج کرتا ہوں، چنانچہ گدڑی سے خشک روٹی نکالی اور لوگوں کے سامنے کھانے لگے تو لوگوں نے کہا اوہ! یہ تو روزہ خور ہے۔ یوں سارے لوگ واپس چل پڑے، صرف چند لوگ رہ گئے۔ تو ان چند لوگوں سے کہا کہ تم کیوں ٹھہر گئے ہو؟ میں تو ایسا ہوں، ویسا ہوں، تم خواہ مخواہ میرے ساتھ ذلیل و خوار ہو گے۔ جیسے باقی لوگ چلے گئے تم بھی جاؤ۔ انہوں نے کہا آپ چاہے کچھ بھی کریں، ہم آپ کے ساتھ ہی ہوں گے کیونکہ ہمیں پتا ہے، لہذا ہم نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا: اگر تم اتنے ہی زیادہ مستقل مزاج ہو تو ٹھیک ہے۔ تو ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جا رہے تھے، راستے میں ان سے کہنے لگے کہ لوگ کتنی جلدی مچاتے ہیں، اتنا بھی نہیں جانتے کہ مسافر کے لئے روزے کی رخصت ہوتی ہے اگر وہ نہ رکھنا چاہے تو کوئی گناہ نہیں ہے، بعد میں قضا کر سکتا ہے۔ چونکہ ابھی تک وہ مسافر تھے، اپنے علاقے میں پہنچے نہیں تھے، لہذا وہ مسافر کے حکم میں تھے، اور مسافر کو کھانا کھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ البتہ یہ بھی شرعی حکم ہے کہ لوگوں کے سامنے نہیں کھانا چاہیے۔ لیکن چونکہ وہ اپنے نفس کی تادیب کر رہے تھے، روزے کی بے احترامی کے لئے قطعاً نہیں کر رہے تھے، بلکہ اپنے نفس کی بے احترامی کے لئے کر رہے تھے۔ گویا نیت کا فرق تھا: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" اس لئے ان کے لئے گنجائش تھی، لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے کھاتے پھریں۔ کیونکہ شریعت میں روزے کا احترام بھی ضروری ہے۔ جب کہ یہ صرف نفس کو سمجھانے کے لئے کیا تھا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حدیث کے مطابق سود کی جو گرد ہم پر پڑ رہی ہے اس سلسلے میں آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

بعض دفعہ بڑے فائدے کی بات ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نا سمجھی کی وجہ سے اسے نقصان کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ اس ميں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کا banking کا سارا نظام سودی ہے۔ لیکن دو الگ الگ نظام ہیں۔ ایک ہمارا personal نظام ہے اور دوسرا ہمارا ملکی نظام ہے۔ ملکی نظام کی اصلاح کا الگ طریقہ ہے اور اپنی personal اصلاح کا الگ طریقہ ہے۔ نیز personal اصلاح کے means مختلف ہیں، اور ملکی اصلاح کے means مختلف ہیں۔ personal اصلاح میں آپ اپنے نفس کو پابند کر لیں گے، کسی صاحب نسبت بزرگ سے بیعت کر لیں گے اور آپ اپنى اصلاح کرانا شروع کر دیں گے۔ جبکہ ملک کے ساتھ آپ ایسا نہیں کر سکتے، ملکی نظام کی اصلاح کے لئے سب لوگوں کو باقاعدہ مہم چلانا ہوتی ہے اور وہ time لیتی ہے۔ لہذا جس چیز کا انسان مکلف نہیں وہ اس پر لازم نہیں ہوتی: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ: 286) چونکہ ملکی نظام ہمارے اختیار میں نہیں ہے لہذا ہم اس کے مکلف نہیں ہیں۔ البتہ حکومت کے لوگ مکلف ہوں گے، ان سے پوچھا جائے گا۔ اور ہمیں بھی سیاسی طور پر ان لوگوں کا ساتھ دینا ہو گا جو ان چیزوں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی اس میں ہمارا یہ contribution ہو گا۔ لیکن ملکی سطح کی چیزوں کے ہم اس طرح personally ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ لہذا انسان جو کر سکتا ہو اسے اس کے لئے نہ چھوڑے جو وہ نہیں کر سکتا ہو۔ جیسے اگر انسان بیمار ہو جائے اور اس بیماری کا علاج کرنے والا ڈاکٹر امریکہ میں بہت بڑا professor ہو، لیکن اس کے پاس نہ امریکہ کا ویزا ہے اور نہ ہی ٹکٹ کے پیسے ہیں تو وہ کیا کرے گا؟ local سطح پر جتنا possible ہے وہ اتنا ہی کرے گا۔ اب وہ کہے کہ میں چونکہ امریکہ نہیں جا سکتا لہذا میں یہاں کے ڈاکٹرز سے علاج ہی نہیں کرواتا۔ تو پھر کیا ہو گا؟ ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی نقصان دینا ہے۔ اور شرعاً بھی انسان ذمہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ جو کام انسان کے بس میں ہے وہ کرے اور جو بس میں نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے اور اس کے لئے جس فکر کی ضرورت ہے وہ جاری رکھے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت آپ نے نزول کے مسئلے میں بيان کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ مولانا زکريا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلفاء سے فرمايا کہ کبھى کبھى اپنے مريدوں پہ شفقت کى نگاه ڈالا کرو اس سے ان کو فائده ہو گا۔ ميرا سوال یہ ہے کہ کيا يہ نگاه ظاہرى آنکھ سے ہى ڈالنا ضرورى ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو عورت اس نعمت سے بھى پردے کى وجہ سے محروم ہو گى۔

جواب:

یہ کسى خاتون کا سوال ہے۔ خواتين میں احساس محرومى بہت زیادہ دیکھا گیا ہے، چونکہ وہ جانتى نہیں ہیں اس لئے پریشان ہوتى ہیں، سب سے بڑی بات یہ کہ دینے والی اللہ کی ذات ہے، پیر کچھ نہیں دے سکتا۔ اگر پیر کی نگاہ کچھ کام کرتی ہے تو اللہ جل شانہ کے حکم سے کرتی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو پیر کیا دے سکتا ہے؟ چنانچہ یہ نظام اگر مردوں کے لئے بنایا گیا ہے تو اللہ نے بنایا ہے۔ اس طرح عورتوں کے لئے بھی بنایا ہو گا۔ اس کے لئے نگاہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ عورتوں کے لئے ضروری یہ ہے کہ جو خواتین اپنے معمولات با قاعدگی کے ساتھ کرتی ہیں، با قاعدگی کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور جو کچھ وہ کر سکتی ہیں اس میں سستی نہیں کرتیں، چونکہ رابطہ رکھنے کی وجہ سے شیخ کو حالات سے آگاہی ہوتی رہتی ہے تو یقیناً ان کی طرف توجہ چلی جاتی ہے کہ وہ بہت اچھا perform کر رہی ہے، یہی توجہ اس کے لئے نگاہ والا کام کر دیتی ہے جس سے ان کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ احساس محرومی نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ انسان جو کر سکتا ہو اس میں سستی نہ کرے۔ عموماً خواتین اس بات کی تاک میں ہوتی ہیں کہ ہمیں کچھ ملے۔ اور مشائخ ان کی مجبوریوں کو جانتے ہیں، جیسے میں جہاں بھی خواتین میں بیان کرنے کے لئے جاتا ہوں تو مختصر بیان کرتا ہوں۔ تو خواتین کی طرف سے پیغام کے طور مجھے اکثر دو باتیں ملتی ہیں جو repeatedly مل رہی ہیں کہ شاہ صاحب آپ لمبا بیان کیا کریں، آپ بہت مختصر بیان سے ہمیں ٹرخا دیتے ہیں۔ گویا یہ ان کی طلب ہے۔ الحمد للہ۔ اس طلب سے ان کو ملتا ہے، لیکن ہمیں چونکہ یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ بیچاریاں اپنے گھروں کے کام کاج کو چھوڑ کے آئی ہوئی ہوتی ہیں، بچے بھی ہوتے ہیں، اور ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر مردوں کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ تو مردوں کی باتوں کو بھی سہتی ہیں۔ اس لئے ہمیں اس کا خیال ہوتا ہے۔ ان کی طلب اپنی جگہ درست ہے لیکن آخر ہماری بھی آنکھیں ہیں، ہمیں نظر آتا ہے کہ آج کیا کیا ہو رہا ہے۔ لہذا اس خیال سے ہم ان کے لئے لمبا بیان نہیں کرتے۔ ان کو کہتے ہیں کہ اگر آپ نے لمبے بیان سننے ہیں تو ہمارے لمبے لمبے بیانوں کی recordings موجود ہیں۔ اپنے گھر میں ان کو سن لیا کریں۔ لیکن خواتین کے لئے ہمارا عمومی بیان مختصر ہوتا ہے۔ البتہ اتوار کے دن 11 سے لے کے 12 بجے تک کا ہمارا بیان ایک typical بیان ہوتا ہے، جس کے لئے ہم نے time دیا ہوا ہے۔ اور وہ وقت بھی ایسا ہے کہ اس میں وہ سن سکتی ہیں، لہذا اس وقت ہم 1 گھنٹے کا بیان ضرور کرتے ہیں۔ اور 3 گھنٹے کے جوڑ میں بھی ان کے لئے time ہوتا ہے وہ اس کو بھی سن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان کا گلہ یہ ہوتا ہے کہ سخت بیان کیا کریں، آپ ہمیں ڈانٹا کریں، آپ کے ڈانٹنے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، یہ بھی ان کی طلب کی دلیل ہے، اور میں ڈانٹتا بھی ہوں۔ بلکہ اچھی طرح ڈانٹتا ہوں، ان کو ڈانٹنے سے جو فائدہ ہو گا وہ تو اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ بہر حال کوشش ہم کرتے ہیں کہ خواتین کے پردے کا نظام بھی disturb نہ ہو۔ نیز ان کا ازدواجی نظام بھی disturb نہ ہو، کسی قسم کی تہمت کی بات نہ ہو۔ کیوں کہ ایک دفعہ آپ ﷺ تشریف فرما تھے اور ایک ام المومنین آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، دو صحابہ جا رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ میرے ساتھ تمہاری فلاں ماں ہے۔ اس پر وہ حضرات کافی فکر مند ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ پر بھی ہم بد گمانی کر سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں آپ لوگ بد گمانی نہیں کر رہے لیکن شیطان انسان کے رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے وہ کسی بھی وقت کوئی شبہ ڈال سکتا ہے اس لئے میں نے آپ کو بتا دیا۔ اس سے پتا چلا کہ خواتین کے ساتھ deal کرنے میں یہ احتیاطیں ضروری ہوتی ہیں، کیونکہ شیطان کسی بھی وقت شبہ ڈال سکتا ہے کہ اوہ! یہ تو فلاں بات ہے۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں "منګې مات شو کهٔ مات نهٔ شو ډز ېٔ لاړو" یعنی گھڑا ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا لیکن اس کی آواز تو گئی۔ لہذا ہمیں بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے ان تمام چیزوں کا۔ یہ شرعی ضرورتیں ہیں۔ البتہ خواتین کا اخلاص اپنی جگہ بجا ہے اور انہیں ان کے اخلاص کا فائدہ ملتا ہے وہ جہاں پر بھی ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو اپنے عورت ہونے پر اطمینان نہیں ہے؟ کیا آپ اس پر شاکی ہیں کہ آپ عورت ہیں؟ یہ بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے، چونکہ عورتیں نازک طبع ہوتی ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ شاید ہم عورتیں کم درجے کی مخلق ہیں، چنانچہ وہ عورت ہونے پر شاکی سی ہوتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں، میں اپنے عورت ہونے پہ راضی ہوں، لیکن اپنے اللہ کو پانے کے لئے جلدی ہے۔ اللہ کی نافرمانیوں سے دل تنگ ہو گیا ہے۔ میں بہت عرصے سے اللہ کی جستجو میں ہوں۔ نفس کی خباثتوں سے بہت بیزار ہوں۔ لیکن نفس کے سامنے بے بس ہوں۔ نفس کی حکومت سے جلد چھٹکارا پانا چاہتی ہوں، اور آپ کو اس کا وسیلہ سمجھتی ہوں۔ میں اپنے اللہ کو راضی کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے آپ میں اس کی صلاحیتیں نہیں پاتی۔ اس لئے آپ کو بہت زیادہ تنگ کر رہی ہوں۔

جواب:

اپنی اصلاح کی فکر کرنا بہت اچھی بات ہے۔ اگر کسی کو روٹی پکانے کی فکر ہو تو اگر اس توے پر روٹی 5 منٹ میں پک سکتی لیکن اس کے پاس 3 منٹ ہوں اور وہ تین منٹ میں پکانا چاہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ جل جائے گی یا کچی رہ جائے۔ یا کچھ حصہ جل جائے گا اور کچھ حصہ کچا رہ جائے گا۔ کوئی کام بھی نہیں ہوگا۔ لہذا time تو لے گا۔

حضرت مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے گپ شپ کے انداز میں کچھ مفید باتیں کی ہیں۔ کہا: سمندر کی سیر کا شوق ہے۔ کہا: کرو۔ کہا: طوفان کا ڈر ہے۔ کہا: طوفان تو ہو گا۔ کہا: اونٹ کی سواری کا شوق ہے۔ کہا: کرو۔ کہا: کوہان کا ڈر ہے، کہا: کوہان تو ہو گی۔ تو اس شعر کے ساتھ میں نے بھی ایک تکا لگایا ہے کہ حضرت نے بات کی ہے تو ہم بھی اس میں ایک بات کر لیتے ہیں۔ کہا: پڑھنا چاہتا ہوں، کہا: پڑھو کہا: امتحان کا ڈر ہے، کہا: امتحان تو ہو گا۔ یعنی کچھ facts ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ان کو بھگتنا ہوتا ہے اور ہر ایک نے بھگتنا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی بھگتے گا اور کوئی نہیں بھگتے گا۔ یہ حقائق ہیں۔ جیسے روٹی کوئی بھی پکائے گا تو اس کو اتنی دیر تو لگے گی۔ لہذا جلدی مچانا ہمیشہ ایک مسئلہ ہے، بلکہ تصوف کے امور میں موانع (موانع سے مراد وہ چیزیں جن سے کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے، جس سے بڑی محنت ضائع ہو سکتی ہے) میں ایک جلدی مچانا بھی ہے۔ کُل پانچ موانع ہیں جن میں سے شیخ کی مخالفت، سنت کی مخالفت اور جلدی مچانا بھی ہے۔ اور جلدی مچانے سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے، مثلاً شیخ کا اپنا ایک نظام ہو گا، ایک ترتیب ہو گی، لہذا وہ ایک ترتیب سے دے گا، تو شیطان سالک کے دل میں وسوسہ ڈال سکتا ہے کہ شیخ آپ کی طرف توجہ نہیں کر رہے۔ حالانکہ کسی میں صلاحیت زیادہ ہو گی تو اس کو جلدی دے گا اور کسی میں صلاحیت کم ہو گی تو اس کو تھوڑا تھوڑا دے رہا ہو گا۔ میرے ساتھ بھی حضرت کا یہی طریقہ تھا کہ مجھے زياده ذکر نہیں دیا کرتے تھے، کم دیا کرتے تھے۔ لہذا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، بلکہ وہ شیخ کی management ہوتی ہے۔ لہذا شیطان اس کے دل میں یہ بات ڈال سکتا ہے کہ تیری طرف توجہ نہیں ہے۔ یہاں سے گره پڑ جائے گی۔ اور یہ بہت ہی آہستہ آہستہ دوری کا باعث بن جائے گا۔ شیطان کامیاب ہو جائے گا۔ ابھی ابھی میں نے ایک گروپ میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ پڑھا ہے کہ: بھائی بات سنو! جب بھی کبھی آپ غلطی کرتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو مجھے تکلیف پہنچی ہے یا میرا نقصان ہوا یہ میرے اعمال کی شامت ہے۔ لیکن یہ کبھی بھی نہ سوچیں کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے، کیونکہ اس سوچ سے آہستہ آہستہ تعلق میں دراڑ پڑ سکتی ہے جو بڑھتے بڑھتے اللہ جل شانہ کے بارے میں غلط گمان کی طرف لے جائے گی۔ جس سے پھر واقعی تعلق دور ہو سکتا ہے اور تعلق ختم ہو سکتا ہے جو بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔ لہذا یہ کبھی بھی نہ کہو کہ اللہ مجھ سے ناراض ہو گا۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ایسا کام کیا ہے جو میرے لئے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قوانین ایسے ہیں اس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ یہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے راستے جو اللہ نے مقرر ہیں وہ آپ اختیار کریں گے، جیسے توبہ وغیرہ ہے۔ بہر حال ناراضگی کا concept نہ ہو بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت عادیہ ہے۔ لہذا جس طرح سنت عادیہ کی وجہ سے میرے اعمال کے باعث مجھے نقصان ہو رہا ہے، اسی طرح جن اعمال کے کرنے سے مجھے فائدہ حاصل ہو رہا ہے وہ بھی اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے۔ چنانچہ اس طریقے سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن "اللہ مجھ سے ناراض ہے" والی سوچ واقعی خطرناک ہے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ جلدی نہ مچائیں، جو طریقہ کار اللہ نے بنایا ہے مردوں کے لئے اور عورتوں کے لئے اس کے مطابق چلیں۔ ہاں! اللہ پاک سے مانگ سکتی ہیں کہ مجھے آسانی کے ساتھ دے دے،کیونکہ دعا کا حکم ہے۔

لیکن میں آپ کو ایک آسان طریقہ بتاتا ہوں اور ایک دفعہ اس طرح ہوا بھی ہے۔ اور بات میری اور آپ کی نہیں ہے۔ بلکہ قدرت اللہ شہاب کی بات ہے جو دنیاوی طور پہ بہت بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے بھی یہی دعا والی بات کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ میں نے اہلِ بیت کے فضائل سنے جس سے میں بڑا متاثر ہوا تو میں نے چند رکعتیں پڑھیں اور ان کا ثواب اماں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بخش دیا اور ساتھ ہی میں نے دعا کی کہ یا اللہ! فاطمہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا تک میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ یا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ اپنے بڑے عظیم باپ سے میرے لئے ایک request کریں کہ میں کمزور آدمی ہوں زیادہ مشکل کام نہیں کر سکتا، مجھے آسانی کے ساتھ کوئی ایسا طریقہ مل جائے جس سے میرا کام بن جائے۔ چنانچہ یہ دعا مانگ لی۔ جرمنی میں قدرت اللہ شہاب کی ایک بھابھی تھی جس کا خط قدرت اللہ شہاب کو ملا۔ یہاں بھی اللہ کی شان دیکھیں کہ چونکہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندگی میں بھی بہت زیادہ حیا دار تھیں۔ لہذا کسی غیر سید کے خواب میں بھی نہیں آتیں۔ یہ بھی ان کی خصوصیت ہے کہ وہ کسی مرد کے خواب میں نہیں آتیں۔ چونکہ سادات فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اپنی ہی اولاد ہیں اس لئے سادات کے خواب میں تو آ سکتی ہے۔ لیکن غیر سادات کے ساتھ یہ معاملہ ابھی تک چل رہا ہے کہ ان کے خواب میں نہیں آتیں۔ قدرت اللہ شہاب چونکہ مرد تھے تو ان کی نو مسلم بھابھی کے خواب میں آ گئیں۔ اس نے انگریزی میں خط لکھا تھا جو انہوں نے کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس خط میں لکھا تھا کہ میں نے اپنے بڑے عظیم باپ سے آپ کے لئے request کی تھی جو اللہ پاک کے فضل و کرم سے میرے عظیم باپ نے قبول بھی کر لی۔ چنانچہ یہ اطلاع پہنچ گئی۔ کچھ عرصے کے بعد میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں حطیمِ کعبہ میں ہوں۔ اور ایک صاحب ہیں جن سے مجھے اپنا کافی تعلق محسوس ہوا، وہ میری طرف تشریف لائے اور فرمایا کہ تم ہمارے group سے نہیں ہو، سید صوفی نہیں ہو، لیکن ایک عظیم شخص نے آپ کی سفارش کی ہے، لہذا میں آپ کو کچھ دینا چاہتا ہوں، چنانچہ میرے سامنے دودھ کا ایک پیالہ رکھا اور پوچھا کہ بتاؤ دنیا لینا چاہتے ہو یا آخرت؟ کہتے ہیں میں گو مگو میں پڑ گیا کہ کیا کہوں۔ تو میں کہنا چاہتا تھا کہ کچھ دنیا، کچھ آخرت۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور اس کے اندر منہ ڈالا۔ حضرت نے فرمایا افسوس! وہ آسانی سے لینے والی بات آپ کی قسمت میں نہیں تھی، وه آپ miss کر گئے، اب مجاہدہ ہو گا۔ چنانچہ ان سے پھر بہت عجیب اور سخت مجاہدہ لیا گیا۔ لہذا آپ دعا کر سکتے ہیں۔ لیکن سنت عادیہ اپنی جگہ پہ قائم رہتی ہے اور وہ اللہ پاک کا اپنا نظام ہے۔ وہ جس کے لئے جو بنانا چاہے تو بنا دیتا ہے۔ اس لئے آپ کو usual طریقے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 5:

انگلینڈ سے کسی نے میرے ساتھ مکالمہ کیا، بڑی مشکل سے میں ان کی بات سمجھا۔ کیونکہ اس نے مجھے کہا تھا:

السلام علیکم!

I want to ask a question regarding crying for اللہ تعالیٰ. Can you show me an easy way to get the condition where you can cry for اللہ تعالیٰ as much as you want without the fear of losing this condition?

مجھے سمجھ نہیں آئی میں نے کہا کیا کہہ رہے ہو؟ مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں نے اسے کہا:

Can you tell me this in urdu in audio because the English words are confusing۔

:اس نے کہا

I can’t speak urdu.

تو میں نے کہا: آپ ذرا درست کر دیں۔

تو اس نے کہا: کیا آپ مجھے کوئی راستہ دکھا سکتے ہیں کہ میں اس حالت کو کھونے کے خوف کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے کس طرح رو سکتا ہوں؟

پتا نہیں اس نے یہ ترجمہ کس سے کروایا۔

میں نے کہا:

Actually the question is not clear to me.

:اس نے کہا

I want to know how you can cry forٰ اللہ ?

تو میں نے اس کا یہ جواب لکھا:

جواب:

During the recitation of the holy quran and when reading verses, when اللہ gives warning of his severe punishment for those who sin and disobey and when reciting verses when the punishment عذاب of the previous nations is mentioned, you should ponder over it and this is the point to shed tears. It means cry is also مستحب for it is mentioned in a hadees:

فَاِذَا قَرَأْتُمُوْہُ فَابْکُوْا فَاِن لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکُوْا‘‘ـ”

So read the Quran and cry but if you cannot cry then at least adopt the appearance of the crying. If a person cannot cry then a person should reflect and ponder over which things اللہ سبحانہ وتعالیٰ in his holy Quran has instructed us to do and which things he has commanded us to refrain from after contemplation. After this, a person should begin to reflect upon his own personal shortcomings in this regard. Doing this will undoubtedly bring remorse and sorrows to the heart and this sorrows and remorse, it means غم, is what will give way to the flowing of tears. When we recite a verse of the holy Quran which mentions hope then make دعا and when reciting verse when the fear of Allah is mentioned then seek refuge and Allah may send his mercy and protection!

یہ جواب میں نے اردو میں لکھا تھا، پھر میں نے انگلینڈ میں ایک ساتھی کو بھیجا کہ اس کا انگریزی ترجمہ کرو۔ پھر میں نے اس کو یہ ترجمہ بھیجا تو اس نے جواب بھیجا کہ ok جزاک اللہ ۔for such complaints

اس میں بھی آخر میں یہی بات تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کیسے رو سکتے ہیں؟ چنانچہ جب اس قسم کی بات ہو تو ہم قرآن و سنت سے help لیں گے، اور سنت میں اس کا یہ جواب پہلے سے موجود تھا کہ آیاتِ عذاب کی تلاوت پر رویا کرو۔ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنا لو۔ چنانچہ یہ تفصیل میں نے ان کو بتا دی تھی۔


سوال نمبر 6:

السلام علیکم! میں فلاں ہوں۔ حضرت جی میرا ایک ماہ کا مراقبہ احدیت مکمل ہو گیا جو 15 منٹ کا تھا، جس میں یہ محسوس کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے فیض آ رہا ہے میرے قلب پر۔ اور 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا اور مراقبے سے پہلے 500 مرتبہ اللہ کا ذکر بھی کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیض آنا محسوس ہوتا ہے۔ مزید یہ عرض کرنا تھا کہ اس ماہ میری طبیعت نہایت خراب رہی، depression کی وجہ سے دل و دماغ بہت زیادہ گھبراتا تھا، بہت زیادہ اداسی اور منفی خیالات اور وسوسے آتے تھے، دماغ control میں نہیں تھا ایسے لگتا ہے کہ ابھی مجھے کچھ ہو جائے گا۔ 2، 3 دن تو تہجد کے لئے بھی نہ اٹھ سکی، اکیلے بیٹھنے سے ڈر لگتا تھا مراقبہ اور نمازیں بھی مشکل سے پڑھتی تھی۔ اب depression کی دوا کھا رہی ہوں تو کچھ بہتر ہوں۔ اس کے ساتھ معدے کا بھی بہت زیادہ مسئلہ تھا کہ کچھ بھی کھا لوں بہت زیادہ درد ہوتا ہے، بس سادہ غذا کھا سکتی ہوں۔ معدے کی بیماری کی وجہ سے خون میں اور تمام جسم میں بہت گرمی محسوس ہوتی ہے۔ آپ سے خاص دعا کی درخواست ہے کہ میری depression ختم ہو جائے تاکہ میں پوری توجہ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کر سکوں۔ لیکن جب میری بہت زیادہ طبیعت خراب ہوتی ہے تو میں اجر و ثواب کی نیت کر لیتی ہوں۔ مزید مجھے آپ کے جواب کا بھی انتظار ہے کہ اس ماه میں میرے لئے کون سا سبق ہے اور کتنا مراقبہ کرنا ہے؟

جواب:

آپ 5، 5 منٹ کا جو مراقبہ پانچوں لطائف پر کر رہی ہیں وہ ٹھیک ہے۔ اور جو آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیض اپنے قلب پر آتا ہوا محسوس کرتی ہیں اسے اب آپ قلب کی بجائے لطیفۂ روح پر 15منٹ فیض محسوس کرنا شروع کر دیں۔ باقی آپ کا ذکر وہی ہے۔ اللہ جل شانہ آپ کو صحت عطا فرمائے اور صحت کے لئے آپ "یا سَلَامُ" 111 مرتبہ روزانہ پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر 7:

کسی نے مجھ سے کہا: السلام علیکم send بیان۔ تو میں نے ان سے پوچھا کون سا؟ جواب ندارد۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس قسم کی باتوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بڑے میاں آئے اور حضرت سے کہا کہ تعویذ دے دیجیے۔ حضرت نے فرمایا باہر جا کر لوگوں سے پوچھو کہ سوال کیسے کیا جاتا ہے۔ تو وہ بہت گھبرا گئے کیونکہ بڑے آدمی تھے اور حیران ہو گئے کہ میں اب لوگوں سے کیا پوچھوں۔ انہوں نے حضرت کی مجلس کے حضرات سے پوچھا کہ میں نے تعویذ مانگا تھا، حضرت نے مجھ سے کہا جاؤ! پہلے لوگوں سے سیکھو کہ بات کیسے کی جاتی ہے۔ لوگوں نے پوچھا آپ نے کون سا تعویذ مانگا تھا؟ تو وہ کہنے لگے اوہ ہو! یہ تو واقعتاً غلط بات تھی کیونکہ میں نے یہ تو کہا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے جا کر حضرت سے کہا کہ حضرت فلاں چیز کا تعویذ چاہیے۔ فرمایا اب بات مکمل ہو گئی۔ چنانچہ اس نے بھی تقریباً یہی بات کی کہ send بیان۔ پھر جب میں نے کہا کہ کون سا؟ تو جواب ندارد۔ اب اس کو کیا کہا جائے؟ پتا نہیں میرا امتحان لے رہے تھے یا اپنا امتحان دے رہے تھے۔ و اللہ اعلم بالصواب


سوال نمبر 8:

السلام علیکم امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے ایک مسئلے سے دوچار ہوں۔ اس کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہیے تھی، دل میں وسوسے بہت آ رہے ہیں، غلط خیالات آ رہے ہیں، کبھی کبھار تو یہ گمان ہوتا ہے کہ ایمان ہی نہ چلا جائے۔ تو آپ سے درخواست ہے اس کے اوپر تھوڑی سی رہنمائی کر دیں۔ اس کی وجہ سے کافی tension ہو رہی ہے۔

جواب:

جس بات کے متعلق سنتِ رسول ﷺ میں رہنمائی موجود ہو اس بارے میں میں مزید کیا کہوں؟ میں آپ کو وہی بتا سکتا ہوں جو احادیث میں موجود ہے۔ آپ ﷺ کے کچھ صحابہ حاضر ہوئے اور یہی بات کی کہ ہمارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے ہمیں یہ بات زیادہ پسند ہے کہ ہم جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا آپ لوگوں کی حالت ایسی ہو گئی ہے تو انہوں نے کہا جی ایسا ہی ہے۔ تو آپ ﷺ فرمايا: "ذاكَ صَرِيحُ الِْإيْمَانِ" یہی تو اصل ایمان ہے جیسے آپ کے پاس ایک قیمتی موتی ہو اور کچھ لوگ آپ سے چھیننا چاہتے ہوں، اور آپ کو بڑی فکر ہو کہ یہ میرے ہاتھ سے چلا نہ جائے۔ ایسی صورت میں آپ کے بارے میں کیا سمجھا جائے گا؟ یہی کہا جائے گا کہ آپ سمجھدار ہیں اور موتی کی قدر و قیمت کو جانتے ہیں۔ اور اسے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ اسی طرح آپ کو اپنے ایمان کی فکر ہے، تو جس کو بھی اپنے ایمان کی فکر ہوتی ہے وہ ايمان والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے اپنا ایمان عزیز ہے۔ یہی آپ ﷺ نے فرمایا: "ذاكَ صَرِيحُ الإِيمانِ" لہذا الحمد للہ آپ ایمان والے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے ایمان پر استقامت اور مزید مضبوطی عطا فرمائے۔ اور ہم سب کا ایمان مضبوط فرمائے۔ کیونکہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ یہی ہے، اس سے بڑا سرمایہ کوئی اور ہو نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلامتی کے ساتھ ایمان لے جانے والا بنا دے یہ کہیں distrub نہ ہو جائے۔ بہر حال آپ کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ماشاء اللہ آپ بہت محفوظ ہیں، لہذا آپ فکر نہ کریں۔ جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہے اس کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا اور اگر آپ کے بس میں ہے تو اسے کریں۔ یعنی یہ خیالات اگر آپ خود نہیں لا رہے تو آپ سے ان کی بابت پوچھا نہیں جائے گا اور اگر آپ خود لا رہے ہیں اور آپ برا کر رہے ہیں، ان کو روک دیں۔ گویا یہاں دو باتیں ہیں کہ آپ کے بس میں ہیں یا نہیں ہیں۔ بس میں نہیں تو ان پر آپ سے باز پرس نہیں ہو گی، اور بس میں ہیں تو control کرو۔ There is no harm in such discussions

سوال نمبر 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ! میں فلاں ہوں۔ راولپنڈی سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت والا میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان شاء اللہ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت تندرستی عطا فرمائے آمین۔ میرا اصلاحی ذکر 200 400 600 اور 500 ہے اور لسانی ذکر 2500 مرتبہ ہے جو ایک ماہ کے لئے پورا ہو گیا اور 19 دن مزید اوپر ہو گٸے۔ احوال کے بارے میں جو ذکر ہے اس سے مکمل یکسوئی حاصل نہیں ہوئى۔ معمولات کا chart کس نمبر پر send کروں؟ حضرت والا الحمد للہ میری گھر والی نے ابتدائی ذکر 40 دن کے لئے پورا کر لیا ہے۔ لیکن آپ سے بیعت نہیں کی۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ۔

جواب:

اب آپ 200، 400، 600، 500 اور 3000 مرتبہ ذکر شروع کر لیں ایک ماہ کے لئے۔ اور معمولات کا چارٹ میرے نمبر پر بھی send کر سکتے ہیں۔ ماشاء اللہ آپ کی گھر والی نے جو ابتدائی ذکر کر لیا یہ بہت بڑی بات ہے۔ اب وہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100 100 دفعہ اور 10 منٹ کے لئے کوئی وقت فارغ کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ ساری چیزیں اللہ اللہ کر رہی ہیں اور میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اگر میں اس کی آواز سنوں تو مجھ سے miss نہ ہو۔ ایک مہینہ تک یہ وظفہ کریں۔ اس کے بعد مجھے بتائیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ حضرت کے بیانات سے کبھی کبھی ایسی بات کا پتا چلتا ہے جو ہم اکثر سنتے تھے مگر سمجھ نہیں آتی تھی۔ دسویں جماعت سے صلح حدیبیہ کے بارے میں فتح مبین کا سننے میں آتا تھا، میں نے مختلف اوقات میں اپنی teacher سے بھی پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے یہی کہا کہ اس کے نتائج بہت اچھے تھے، مگر دل مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ جب آپ کی سیرت النبی ﷺ کا پہلا درس جو "آج کی بات" میں ہوا تھا، سنا، جس میں آپ نے فتح مبین کا مطلب سمجھایا تو دل میں یک دم آواز آئی کہ ہاں یہی جواب ہے، جو میں بیس سالوں سے سوچ رہى ہوں۔ نمبر دو۔ یہ حدیث میں بہت سنتی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ روزہ دار کو افطار کے وقت دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں، دوسری خوشی موت کے وقت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ میرے ذہن میں تھا کہ جنت میں دیدار کے بارے میں بتایا گیا مگر اب معنی واضح ہوئے کہ زندگی بھر مسلمانوں کے لئے روزے کی مثال ہے اور افطاری اس کی موت ہے۔ جب موت ایمان کی حالت میں ہو گی تو اس وقت خوشی کی انتہا حاصل ہو جائے گی۔

جواب :

ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آپ کو اس سے فائدہ ہوا۔

سوال نمبر 11:

الحمد للہ ثم الحمد للہ! آج میں بہت خوش ہوں۔ کبھى کبھى مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بیان آپ میرے لئے فرماتے ہیں۔ کبھی کسی کی اصلاح کی نیت سے آپ کوئی بات فرما رہے ہیں تو میں اس عیب کو اپنے اندر تلاش کرتی ہوں اور واقعی مجھے نظر بھی آ جاتا ہے۔

جواب:

طلب والوں کو اللہ تعالیٰ ضرور دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمیں معلوم بھی ہو کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے۔ لیکن اللہ کو پتا ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ نے کہیں نہ کہیں سے اس کا جواب آپ کو پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ میری زبان سے پہنچا دے تو یہ بھی اس کا مجھ پر کرم ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! حضرت میرا نام فلاں ہے اور میں ٹیکسلا سے ہوں۔ حضرت جی میرا ذکر 200 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا الله"، 400 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا هُو" 400 مرتبہ "حَق" اور 200 مرتبہ اللہ ہے۔ ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ میرے لئے مزید کیا حکم ہے۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا الله" 400 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا" 600 مرتبہ "حَق" اور 100 مرتبہ اللہ کریں۔ ایک مہینے کے لئے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاته!

Hoping for your good health and long life! I am فلاں فلاں sister. حضرت جی It's a very difficult time for all of us praying to bring ease in everybody’s life. رمضان is almost to begin. Please pray that I may be successful in keeping all my fast and be able to do all my prayers as my husband is always around, and it is difficult to do prayers. Pray that everyone's رمضان is successful and accepted by

اللہ سبحانہ تعالیٰ آمین. I hope you are not angry with me. Sorry for mistakes and thanks for everything. Everyone missed prayers. It was festival time and my in-laws were here.

جواب :

ماشاء اللہ!

May اللہ help you! You are doing well and may

اللہ سبحانہ تعالیٰ remove all your problems and make you successful in the things you need specially keeping fast in رمضان. It's the greatest opportunity in our life to gain. So we should try our best to keep fast in رمضان and also do all the prayers and whatever which are missed because it's not your fault. So you can make قضا of things.

یہ اصل میں بڑے مشکل حالات میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسانی پیدا فرمائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہندو گھرانے کا ایک بچہ مسلمان ہو گیا تھا، اس کا والد مسلمان نہیں تھا تو مجھے اس نے text بھیجا کہ میں صبح سویرے اٹھا اور وضو کیا تو میرے والد بھی میری وجہ سے اٹھ گئے اور مجھے ڈانٹا کہ ابھی جاگنے کا وقت نہیں ہے سو جاؤ۔ کیونکہ اس کو پتا نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ لہذا میں نے لحاف کے اندر نماز پڑھی۔ اس نے لحاف کے اندر نماز کیسے پڑھی ہو گی؟ اور وہ اللہ کو کتنی پسند ہو گی؟ یہ بہت بڑی بات ہے، بسا اوقات بہت مشکل حالات ہوتے ہیں اور ان مشکل حالات میں اللہ پاک اگر توفیق دے دیں تو یہ بڑی بات ہوتی ہے۔


سوال نمبر 15:

السلام علیکم! حضرت جی میرا ذکر 200 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ" 400 دفعہ "اِلَّا اللّٰہ" 600 دفعہ "اللّٰہُ اللّٰہ" اور 1000 دفعہ اللہ زبان سے، کافی عرصے سے یہ ذکر ہے ۔ آپ سے اپنے مدرسے کے اوقات میں بات ہوئی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ آپ ذکر قضا نہیں گے تو میں الحمد للہ پابندی سے یہ کر رہا ہوں لیکن جیسے اہتمام سے کرنا چاہیے اس طرح نہیں ہو رہا۔ یہ میری کمزوری ہے جسے جلدی دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ ذکر کا کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ کبھی صبح، کبھی عصر کے بعد اور کبھی عشاء کے بعد۔ لیکن میری کوشش ہے کہ صبح نماز سے پہلے کا وقت متعین کر لوں، کیونکہ اس وقت ذکر بہت اچھا ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے کبھی کبھی اچانک توجہ دل کی طرف ہو جاتی اور تھوڑا سا یوں محسوس ہوا جیسے دل پر قلبی ذکر جاری ہونے والا ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ کا بیان سنتا ہوں تو آپ کے بیان کے دوران بھی دل کی طرف توجہ ہو جاتی ہے تو زبردستی ہٹاتا ہوں کہ یہ وقت اس کے لئے نہیں ہے پھر مجھ سے بے احتیاطی ہوئی اور بد نظری ہوئی جس سے دل کی طرف وہ توجہ ختم ہوگئی۔ اب افسوس ہوتا ہے کہ مجھ سےکتنی بڑی غلطی ہوئی۔ نظر کی حفاظت میں کمزوری ہے۔ خود نمائی کا مرض ہے۔ ہمت و استقامت کی بہت کمی ہے۔ حبِ جاہ اور حبِ باہ بنسبت مال کے بہت زیادہ ہے۔ اور حبِ مال کے نہ ہونے کا دعوی تو نہیں ہے۔ لیکن اس طرح محسوس نہیں ہوتی جس طرح پہلی دو ہیں۔

جواب:

ہمتِ مرداں اور مددِ خدا۔ جو انسان ہمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ مدد کرتے ہیں۔ ذکر میں باقاعدگی سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ ہمارے شیخ نے ایک دفعہ کسی کو کہا تھا کہ ذکر کر لیا کرو ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ تو میں حضرت کی یہ بات سن کر بہت حیران ہوا۔ لیکن ایک دن قرآن پاک پڑھ رہا تھا، جب یہ آیت آئی: ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ (البقرۃ:152) "پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا" تو مجھے ساری بات سمجھ آ گئی کہ اللہ تعالیٰ جس کو یاد رکھے اس کو کیا کمی ہو گی۔ لہذا ذکر میں باقاعدگی لانا چاہیے۔ نیز ہمت کی ضرورت ہے۔ ہمت کرنی چاہیے، نا جائز سے بچنا چاہیے اور احکام کو پورا کرنا چاہیے۔ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں؟ یہ ہماری ہمت پر موقوف ہے۔ لہذا ہمت کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ بچپن میں ہم نے پشتو کی کچھ نظمیں یاد کی تھیں جس کے کچھ اشعار مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ اس کا میں نے اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ لیکن وہ ترجمہ یاد نہیں ہے۔ "همت کوه همت کوه همت کوه همت، کوم کار چې درته ګران شي داسې ګران ېٔ مهٔ پريږده، کوم شے چې درنه وران شي داسې وران ېٔ مهٔ پريږده، همت کوه همت کوه همت کوه همت" یعنی ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو۔ جو چیز تم سے بگڑ جائے اور اسے یوں ہی بگڑا ہوا نہ چھوڑو۔ جو کام تمہارے لئے مشکل ہو اس کو اسی طرح نہ چھوڑو بلکہ ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو۔ بغیر ہمت کے اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا بہت آسان algorithem بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ فرمایا ہمت کے ساتھ ہی کام ہو گا۔ البتہ ابتدا میں ہمت کرنا مشکل ہو گا۔ لیکن جب آپ ہمت کرتے رہیں گے تو یہ آسان ہوتی جائے گی۔ آسان ہوتے ہوتے ہوتے ایک وقت آئے گا کہ بالکل ہی آسان ہو جائے گی اور پھر آپ کا معمول بن جائے گی اور پھر آپ کی عادت ہو جائے گی۔ چنانچہ نفس کو control کرنے کا راستہ یہی ہے کہ اس کی مخالفت کرنا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ عموماً لوگوں نے آج کل اس کو bypass کر دیا ہے۔ bypass اس طرح کہ کہتے ہیں شیخ توجہ کرے اور بس میری ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں۔ یقیناً شیخ توجہ کرتا ہے لیکن اس توجہ کا effect عارضی ہوتا ہے، ہر چیز کا اپنا ایک قانون ہے۔ اور اس کے عارضی ہونے ہی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ کیونکہ آپ کو اپنی effort پر اجر ملتا ہے۔ شیخ کی effort پر آپ کو اجر نہیں ملتا۔ شیخ کا کام اسی کے لئے اجر کا ذریعہ ہو گا۔ اگر اس نے کسی پہ توجہ کی تو اس کا اجر بھی اسی کو ملے گا۔ اس سے آپ کو کوئی اجر نہیں ملتا۔ کیونکہ وہ کام آپ نے تو نہیں کیا۔ لہذا آپ اپنا حصہ بڑھائیں۔ شیخ کا حصہ کیوں بڑھاتے ہو؟ جس کے لئے خود ہمت کرو۔ جہاں شیخ کی ضرورت ہو گی، وہاں اللہ تعالیٰ کروا دے گا۔ لیکن اگر کوئی شیخ کی توجہ کے انتظار میں رہے اور کہے کہ شیخ توجہ کرے گا تو میں نے کام کرنا ہے تو وہ محروم رہتا ہے۔ آج کل اس وجہ سے ایک دنیا محروم ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمیں اس کا اندازہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم سے لوگ باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں لوگ اپنے بارے میں بتاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح اس سے محروم ہیں۔ اور یہ اتنا chronic problem ہو گیا ہے کہ ہمارے حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے سُدّے پڑے ہوئے ہیں بڑے تیز جلاب کی ضرورت ہے۔ یعنی لوگوں کی عادتیں اتنی پکی ہوگئی ہیں کہ ان کو بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ آپ چاہے جس انداز میں ان کو سمجھائیں لیکن وہ اس کو گول کر دیں گے۔ اور بالآخر اسی پر آجائیں گے کہ بس آپ کریں۔ حالانکہ یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ لہذا یہ کرنا پڑے گا۔ آپ کو ان بہانوں سے اس سے چھوٹ نہیں مل سکتی۔ اور طریقہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آسان ہو گا، آپ پہلی دفعہ کریں گے بہت مشکل لگے گا۔ دوسری دفعہ کریں گے تو اور بھی کم مشکل لگے گا۔ تیسری دفعہ کریں گے اس سے بھی کم مشکل محسوس ہوگا۔ چوتھی دفعہ کریں گے اور بھی کم مشکل لگے گا۔ اور یہ مشکل آسان سے آسان تر اور آسان تر سے آسان ترین بنتی جائے گی۔ اور جب یہ بالکل آسان ہو جائے گا تو آپ کا نفس، نفس مطمئنہ ہو جائے گا۔ چنانچہ طریقہ تو یہی ہے۔


سوال نمبر 16:

Dearest and most respectable شاہ صاحب I have no idea. I have completely forgotten. I am truly ashamed. I will do as per your guidance

ایک صاحب جو ہمارے ساتھ تھے انہوں نے پہلے مجھے بھیجا تھا

Dearest and most respectable شاہ صاحب السلام علیکم

I pray you are in the best possible health and condition! As per Allah’s will, not a single day goes by when I do not feel what I lost. I want to reconnect, and I want to restart the ذکر and rejoin the سلسلہ. I will not give any excuse for why I was unable to continue before but now I realize that this is the only true way towards salvation. I most humbly ask to let me rejoin the way. I could see no other way. I am truly ashamed. Please guide me and do not leave me at the mercy of شیطان my نفس and myself. Thank you.

یہ حقیقت ہے کہ بعض دفعہ چیزیں بالکل مفت میں مل جاتی ہیں جس کی قدر نہیں ہوتی۔ چنانچہ آدمی lose کرتے کرتے بہت دور چلا جاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کو پھر یاد آ جائے اور سمجھ آ جائے کہ میں نے کیا گم کر دیا ہے۔ قوموں کے لحاظ سے علامہ اقبال نے یہ بات کی تھی۔

حکومت کا تو کیا رونا وہ ایک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کا آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

واقعتاً لوگوں نے بہت ساری چیزیں گم کی ہیں۔ اخلاق گم کئے، کردار گم کئے۔ بعض لوگوں نے دین کو گم کر دیا یورپ اور امریکہ وغیرہ میں۔ اور یہ حقیقت ہے، مگر ان کو احساس نہیں ہے کہ ہم نے کیا گم کیا۔ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کو کسی stage پر یاد آ جائے کہ میں نے کیا گم کیا ہے۔ بہر حال اب آپ دوبارہ نئے سرے سے شروع کر لیں۔ البتہ جو وظیفہ آپ نے پہلے کیا 300 اور 200 والا وہ تو اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن start سے شروع کر لیں "لَا اِلٰهَ اِلَّا الله" 100 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 100 دفعہ اور "حَق" 100 دفعہ اور اللہ سو دفعہ۔ یہ ایک مہینہ کریں۔پھر مجھے بتائیں۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ