Majlis_457
Date: 20200316
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال نمبر 01:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ تعالٰی کا نہایت شکر ہے کہ اس نے مسلمان پیدا کیا اور مزید یہ کہ آپ سے تعلق جوڑا۔ حضرت آپ کے فرمانے پر ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور test کرائے، جو کہ عرض خدمت ہیں، ڈاکٹر صاحب کے مطابق کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر تاخیر ہو گئی جس کے لئے معافی کا خواستگار ہوں۔ حضرت جی میرا ذکر 200 مرتبہ نفی اثبات، 400 مرتبہ "اِلَّا ھُو" 600 مرتبہ "حَق" اور 1500 مرتبہ اسم ذات اور پانچ منٹ مراقبۂ قلب ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
چونکہ آپ نے پانچ منٹ کے مراقبہ کی کیفیت نہیں بتائی اس لئے فی الحال میں کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ اس کی تفصیل مجھے بھیج دیجئے گا۔ اور اب آپ کا ذکر یہ ہے 200 مرتبہ نفی اثبات 400 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو"۔ آپ نے "اِلَّا ھُو" لکھا ہے جب کہ یہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" ہے۔ 600 مرتبہ "حَق" اور دو ہزار مرتبہ اسم ذات کا ذکر کریں۔ پانچ منٹ مراقبۂ قلب کی کیفیت جب بتائیں گے تو اس کے بعد کچھ عرض کروں گا۔
سوال نمبر 02:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
My dear beloved مرشد I hope you are well ان شاء اللہ!
حضرت جی last night, I was praying تہجد. I saw a little light blue color نور on my جبہ and then it disappeared.
جواب:
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دفعہ میں نے کچھ ایسے حالات بتائے تھے تو حضرت نے فوراً فرمایا تھا دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ یعنی ان چیزوں کے اندر زیادہ غور نہیں کرنا چاہیے۔ یہ غیر اختیاری چیزیں ہیں، اگر حاصل ہوں گی تو محمود ہوں گی، نہیں ہوں گی تو پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ اصل مقصود کو حاصل کرنا ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ تعلق حاصل ہو جائے، گناہ ختم ہو جائیں اور نیک کام کرنے کی توفیق ہو جائے، یعنی ہر وقت شریعت پر عمل ہونا شروع ہو جائے۔ اگر انسان شریعت پر عمل کر رہا ہو اور اخلاص کی یہ کیفیت نصیب ہو کہ میں اللہ ہی کے لئے کر رہا ہوں، حضور ﷺ کے طریقے پہ چل رہا ہو۔ چاہے اس کو کوئی ایک خواب بھی نظر نہ آئے، کوئی نور اس کو نظر نہ آئے، اطمینان اور خوشی کی کیفیات اس کو حاصل نہ ہوں، وہ کامیاب ہے۔ کسی کو یہ ساری چیزیں نظر آ رہی ہوں لیکن اعمال شریعت پر نہ ہوں تو وہ ناکام ہے۔ لہذا ان چیزوں کے اندر بالکل نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض دفعہ شیطانی قوتیں بھی یہ چیزیں کرواتی ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بہت مشہور واقعہ ہے، ان کے بیٹے سے روایت ہے کہ میرے والد صاحب مراقبہ کر رہے تھے تو ایک نور سے آواز آئی کہ اے عبد القادر! تیری عبادت قبول کی گئی، اب تو بخشا بخشایا ہے، تجھ سے کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ اگر کوئی عبادت کرنا چاہتے ہو تو اپنے شوق کے ساتھ کر لیا کرو۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سوچا کہ آپ ﷺ نے تو آخری وقت تک اعمال کئے ہیں آپ سے تو میں بڑھ نہیں سکتا، لہٰذا یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ فوراً فرمایا اے ملعون! میں نے تجھے پہچان لیا ہے، تو شیطان ہے تو مجھے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ نور اندھیرے میں بدل گیا اور جیسے کوئی چیز بھاگ رہی ہو اور بھاگتے بھاگتے اس نے کہا: اے عبد القادر! تو مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گیا۔ تو حضرت نے فرمایا: اچھا بھاگتے بھاگتے بھی وار کرتے ہو۔ میں اللہ کے فضل سے بچ گیا ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ جس کیفیت پر آپ ہیں، اس کیفیت پر میں نے تین سو لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ حضرت کے جیسے حالات تھے اس کے باوجود اگر وہ کسی کو گمراہ کرے تو یہ کیا عجیب بات ہے؟ لہٰذا اگر دل سے ان چیزوں کو ہی ختم کیا جائے تو کوئی اندیشہ نہ ہو۔ ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کی سامنے کی دیوار منقش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے دل بٹتا ہے، یعنی نماز کے دوران دل اس میں involve ہو جاتا ہے۔ اور جائے نماز بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے۔ فرمایا یہ بات ٹھیک ہے لیکن میں تو آگے کی بات کروں گا کہ دل بھی منقش نہیں ہونا چاہیے۔ دل کے منقش نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں ان واردات کی اور کیفیات کی طلب نہ ہو۔ خالصتاً لوجہ اللہ سارے اعمال ہوں۔ اور حضور ﷺ کے طریقے پر ہوں بس اتنی بات ہے۔ مزید اگر کچھ ہو تو اگر وہ شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ہے تو سبحان اللہ۔ لیکن اگر نہیں ہے استغفر اللہ۔ یعنی اس بات کو اصول بنایا جائے پھر شیطان دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ورنہ شیطان کے لئے دھوکے کے راستے بہت ہیں، کسی نہ کسی طریقے سے دھوکہ دے دے گا۔ اللہ تعالٰی ہماری حفاظت فرمائے۔ چنانچہ حضرت نے مجھ سے صرف ایک ہی بات فرمائی کہ دور کرو، دور کرو یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی!
Since I joined this سلسلہ, I have started having depression and physical health issues and I have also lost my passions that I once had. I don’t know if it is شیطان or what? But today I was talking to my sister in-law and she said to me, those who recite dua’s don’t get depression that made me feel embarrassed because I recite all duas and do مراقبہ and I get extreme depression over very small reasons. I am at fourth مراقبہ. I am not saying that it’s because of مراقبہ and duas. In fact, I believe I was not part of this سلسلہ. I would have been even worse. This سلسلہ has definitely been saving me from evil but apparently I have lost all the good aspects of my personality like physically, I get tired very soon and have no energy. Mentally I get depressed and sometimes get very panicked, have no patience, get angry very soon, mostly unhappy for no reason, think negative aspects of everything and everyone and so much more while I was the exact opposite four years ago when I did not even pray it regularly and was doing so many bad things. I just want to know where I am doing wrong? I definitely know my prayers and مراقبہ are not upto the standard at all but I am trying my best. Why is it that I am getting down and down every day? I feel like I am letting this سلسلہ down like I shouldn’t belong to it because I don’t deserve this beautiful place. I really need help. I feel شیطان would take me away from اللہ because I have lost all my faith in اللہ. I don’t know why? I remember when I joined سلسلہ and started regular prayers and cried all the time for my sins. I developed this tremendous faith in اللہ to always talk to Him and felt Him and even after physical pain I had extreme faith and satisfaction from اللہ. Those were the most beautiful days of my life for a few months. But after that everything is declining till now.
جواب:
الله جل شانهٗ جس کو قبول فرماتے ہیں پھر اسے ردّ نہیں فرماتے۔ یہ اللہ تعالٰی کا ایک اصول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ پاک کسی کو قبول فرمانے کے بعد پھر رد فرما دیں۔ لیکن چونکہ یہ دنیا جنت نہیں ہے بلکہ اس میں جنت کا سامان ہے، چاہے وہ اعمال ظاہری صورت میں ہوں یا باطنی صورت میں جیسے صبر اور شکر۔ لہٰذا حوصلہ رکھیں شیطان تمہیں اللہ تعالٰی سے دور نہیں کر سکے گا۔ میں آپ کے لئے دعا گو ہوں۔ اور ساتھ ہی میں نے ایک کلام بھیجا ہے۔ اسے آپ پڑھ لیں۔ واقعی ایسے وقت میں صحیح تسلی دینا ضروری ہوتا ہے۔
تکالیف یہاں کوئی کتنی اٹھائے
بالآخر ختم ہو یہاں سے جو جائے
جو تکلیف وہاں کی ہے تکلیف ہے اصلی
وہ تکلیف خدا نہ کسی کو دکھائے
یہاں کی جو تکلیف ہے ویسے نہیں ہے
کہ مومن اگر اس سے خوب خوب پائے
یہاں تک جسے وہ اجر نہ ہو حاصل
لبوں سے اسے دیکھ کے نکلے یوں ہائے
حدیث شریف میں آتا ہے کہ دنیا میں جو تکالیف آتی ہیں ان کا اتنا اجر ملے گا کہ جن لوگوں کو یہ تکلیفیں نہیں پہنچی ہوں گی اور ان کو وہ اجر نہیں ملا ہو گا تو وہ کہیں گے کاش! ہماری جلد قینچیوں سے کاٹی جاتی، لیکن آج ہمیں یہ اجر مل جاتا۔ گویا یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ان کا انعام ہو گا۔ لہذا یہاں جو بھی تکلیف ہوتی ہے وہ تو دینے کے لیے ہے۔
میری جلد کٹی جاتی یہاں قینچیوں سے
مگر کاش اتنا اجر ہوتا پائے
مزے ہیں یہ ایمان بالغیب کے شبیرؔ
بغیر اس کے یہ نعمت ہاتھ کیسے آئے۔
اس کے لئے اللہ پاک نے ایمان بالغیب کی شرط رکھی ہے۔ یعنی جس کو نظر آئے، اسے وہ نہیں ملتیں۔ ایک بزرگ ایک جگہ سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ ایک نوجوان اپنا گھر بنا رہا ہے اور اس میں بہت مصروف ہے، حضرت اس کو ٹکٹکی لگا کے دیکھنے لگے، کبھی گھر کو دیکھتے، کبھی اس کو دیکھتے۔ اس نوجوان نے جب دیکھا کہ بابا جی مجھے دیکھ رہے ہیں اور پتہ نہیں کیوں دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ اس سے انسان کو غیرت تو ہو جاتی ہے۔ تو پوچھا حضرت آپ مجھے بار بار کیوں دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا آپ کے ماتھے پہ خوش نصیبی اور خوش بختی کے آثار ہیں۔ جب کہ کام آپ بدبختوں والے کر رہے ہیں۔ اس نے کہا: حضرت آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ فرمایا پختہ گھر بنانا پسند نہیں کیا گیا۔ اور آپ اس میں اتنے زیادہ مصروف ہیں؟ اس نے کہا: حضرت پھر میں کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا: اگر آپ اللہ کے راستے میں خیرات کر دیں تو اللہ پاک آپ کو وہاں اتنا بڑا گھر دے گا جس میں اتنے کمرے ہوں گے اور اتنے فانوس ہوں گے اور اتنے پردے ہوں گے۔ اس طرح بہت لمبی چوڑی تفصیل اس کو بتا دی۔ اس نے کہا: حضرت یہ لکھ کر دے سکتے ہو؟ یہ اس کی قسمت تھی۔ انہوں نے فرمایا: جی ہاں میں لکھ دیتا ہوں، کاغذ قلم منگوایا اور لکھ کے دے دیا۔ تو جتنے پیسے اس کے پاس باقی تھے اس نے وہ سارے ان کے ہاتھ پہ رکھ دئیے اور کہا کہ یہ مکان جتنا بنا ہوا ہے یہ بھی آپ لے لیں۔ آپ جس طرح اس کو دینا چاہیں دے دیں۔ چنانچہ اس نے وہ سارا مال خیرات کر دیا، سارا settlement کیا اور چلا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے حضرت منبر پہ تشریف لے جا رہے تھے تو دیکھا کہ ایک کاغذ اوپر سے اڑتا ہوا آ کے ان کے اوپر گرا۔ انہوں نے اس کاغذ کو اٹھایا تو اس کے اوپر ایک ایسی روشنائی سے لکھا تھا جو دنیا میں exist نہیں کرتی تھی کہ آپ نے جو اس شخص کے ساتھ وعدہ کیا تھا میں نے اس سے بھی زیادہ اس کو دے دیا۔ جب دوسری side پہ دیکھا تو وہی خط تھا جو اس کو دیا تھا۔ اس پر خود ان کو بہت حیرت ہوئی۔ لیکن جیب میں رکھ لیا کیونکہ خطبے کا وقت تھا نماز پڑھائی اور اس کے بعد اس علاقے میں چلے گئے جس میں اس شخص کا وہ مکان تھا جو انہوں نے دیکھا تھا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ان کے مکان کے اوپر کچھ ایسا نشان لگا ہوا تھا جیسے اُن دنوں فوتگی کی صورت میں لگانے کا رواج تھا۔جس سے انہیں پتہ چلا کہ یہاں کوئی فوتگی ہوئی ہے۔ جب اس نوجوان کا پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ پوچھا: ان کو غسل کس نے دیا ہے؟ لوگوں نے غسالوں کو بلایا۔ ان سے پوچھا کہ کیا اس نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں! ایک کاغذ چھوڑا تھا اور وصیت کی تھی کہ یہ میرے سینے اور کفن کے درمیان رکھنا۔ جو ہم نے رکھ دیا تھا۔ پوچھا کہ وہ کاغذ پہچان لو گے؟ انہوں نے کہا پہچان لیں گے۔ انہوں نے وہ کاغذ دکھایا۔ تو وہ کہنے لگے کہ بالکل یہی ہے۔ مگر یہ آپ کے پاس کیسے آیا؟ یہ تو ساتھ دفن ہو چکا ہے۔ انہوں نے وہ دوسری side دکھائی کہ اس پر یہ لکھا ہے۔ اتنے میں ایک اور نوجوان دوڑتا ہوا آیا اور کہا: حضرت کیا یہ سودا میرے ساتھ نہیں کر سکتے؟ میں بھی سارا کچھ دینے کے لئے تیار ہوں۔ کہا: بیٹا یہ اس کی قسمت تھی۔ اس نے بغیر دیکھے سودا کیا تھا اور آپ دیکھ کے کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایمان بالغیب بہت بڑی نعمت ہے۔ اور ایمان بالغیب کیا چیز ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ قرآن پر یقین اور آپ ﷺ پر یقین ایمان بالغیب ہے۔ یعنی جو قرآن میں ہے آپ اس کے اوپر یقین کریں کہ یہ ایسا ہی ہے۔ اور احادیث میں آپ ﷺ نے جو فرما دیا آپ سمجھیں کہ وہ بھی ایسے ہی ہے۔ یہی ایمان بالغیب ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا مشاہدہ ہے اور مشاہدے میں آپ کو جو نظر آ رہا ہے اگر آپ اس کو ایمان بالغیب سے cancel کر دیں تو یہی کمال ہے۔ اور جن کو یہ نصیب ہو جاتا ہے، ان کو اللہ پاک بہت اونچے حالات نصیب فرما دیتے ہیں۔ جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
جب میں نے ان کو یہ بھیجا تو ان کا جواب آیا:
جزاک اللہ!
After texting you, I opened قرآن پاک randomly and same thing came in front of me like your audio کلام.
میں نے قرآن پاک کھولا تاکہ میں اس سے ہدایت حاصل کروں تو جیسا آپ نے تکلیف کے متعلق کلام بھیجا تھا اسی قسم کا مضمون قرآن پاک میں بھی آ گیا۔ گویا اللہ پاک تو دینا چاہتے ہیں۔ اللہ پاک کمزوروں پہ بہت مہربان ہیں، لیکن ہم لوگ ذرا جلدی مچا دیتے ہیں۔ ہماری سوچ میں ہوتا ہے کہ بس فوراً ہو جائے۔ حالانکہ یہ ایک natural بات ہے کہ آپ جو بھی کام کرتے ہیں اس کے لئے ایک وقت درکار ہوتا ہے، اس کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اسباب ہوتے ہیں، ایک نظام ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی بھی بیماری ہو وہ ٹھیک ہونے میں ٹائم لیتی ہے۔ آپ کھانا کھاتے ہیں تو اس کے ہضم ہونے میں ٹائم لگتا ہے، آپ پڑھتے ہیں تو اس کا نتیجہ کچھ عرصے کے بعد آتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک natural system ہے جس کے ذریعے سے وہ چیز مکمل ہوتی ہے۔ دنیا کے معاملات میں ہم یہ ساری چیزیں مانتے ہیں لیکن جب دین کی بات آتی ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ابھی میں نے کام کیا اور ابھی فوراً نتیجہ آنا چاہیے۔ جب کہ یہ غلط تصور ہے۔ چنانچہ ہمارے مشائخ و علماء کرام فرماتے ہیں کہ تُو عمل کر، عمل کرنا تیرا کام ہے، تجھ سے اسی کا پوچھا جائے گا، نتیجہ خدا کے اختیار میں ہے، وہ اسی کے حوالے کرو، چاہے وہ جلدی دے دے یا دیر سے دے یا بالکل ہی نہ دے۔ پرسوں مجھے ایک text آیا تھا، ایک خاتون کو عمرے کا بڑا شوق تھا اور اللہ پاک نے اس کو chance بھی دیا تھا اور کل اس کی flight تھی اور پابندی لگ گئی۔ اس نے کہا کہ مجھے اس پر صبر ہے، لیکن میرے آنسو نہیں رک رہے، واقعتاً جس کو وہاں جانے کا شوق ہو اس کی یہی حالت ہوتی ہے۔ بالخصوص ladies کا یہ مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے لئے جانے کے chances کم ہوتے ہیں، محرم کا مسئلہ ہوتا ہے، ہر وقت محرم میسر نہیں ہوتا۔ لہذا جب chance بنتا ہے تو وہ تب ہی جا سکتی ہیں ورنہ بہت ساری خواتین اس انتظار میں کڑھ رہی ہوتی ہیں۔ لہذا مجھے اس کا احساس تھا کہ واقعی اس کے جذبات کیسے ہوں گے۔ میں نے اس کو لکھ بھیجا کہ یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ آپ کو عمرے سے زیادہ اجر ملتا یا اب آپ کے ان آنسؤوں کی وجہ سے زیادہ اجر مل رہا ہے۔ عین ممکن ہے آپ کو ان آنسوؤں سے زیادہ اجر مل رہا ہو۔ کیونکہ آپ کی اس کڑھن کو اللہ تعالٰی دیکھ رہا ہے۔
ایک دفعہ میں حرم شریف کے بر آمدے میں بیٹھا ہوا تھا کہ خانہ کعبہ کا دروازہ کچھ VIPS کے لئے کھول دیا گیا، وہ لوگ ایک لائن بنا کر اندر جا رہے تھے اور باقی لوگ حسرت کے ساتھ ان کو دیکھ رہے تھے، کیونکہ وہ اندر نہیں جا سکتے تھے اور میں بر آمدے سے ان کو دیکھ رہا تھا تو میں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ یہ تو اللہ کو ہی پتہ ہے کہ اندر جانے والے زیادہ خوش نصیب ہیں یا ان کو حسرت سے دیکھنے والے۔ یہ معاملہ اللہ تعالٰی نے مخفی رکھا ہے۔ لہذا اللہ کے فیصلوں پہ راضی ہونا اور محبت کے ساتھ اعمال کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میں پشاور سے فلاں عرض کر رہی ہوں۔ حضرت جی میرا ایک ماہ کا مراقبہ اللہ تعالٰی کی مہربانی سے مکمل ہو گیا ہے جو کہ دس منٹ قلب پر، دس منٹ روح پر، دس منٹ سر پر، دس منٹ خفی پر اور پندرہ منٹ اخفٰی پر تھا اور اس سے پہلے 1000 مرتبہ اللہ کا ذکر بھی کرنا تھا۔ شروع میں تو اخفی پر بہت تیز حرکت محسوس ہوتی تھی لیکن اب کم ہے اور باقی تمام لطائف پر بھی بہت کم حرکت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت جی میں نے اس سے پہلے بھی ایک خط آپ کو لکھا تھا شاید آپ کو نہیں ملا، مجھے جواب کا بہت انتظار تھا، ایک ہفتہ کا انتظار کیا، جب جواب نہیں ملا تو دوبارہ لکھا۔ معذت خواہ ہوں اب آپ کے حکم کا انتظار ہے کہ مزید کتنا مراقبہ کرنا ہے۔
جواب:
در اصل لطائف کا دور sensing points ہیں، ان sensing points پر پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ ذکر کا اجرا ہو یعنی یہ ذکر کو sense کریں ذکر محسوس ہو۔ اس پر ہم کہتے ہیں یہ activated ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف آنے والے فیض کا اجرا ہوتا ہے یعنی فیض کو محسوس کیا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی طرف سے جو فیض آتا ہے اس کا ایک channel ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے تمام چیزوں کے لئے اسباب مقرر کر دئیے اور دنیا اسباب کا گھر ہے، اسی طرح روحانیات کے بھی اسباب ہوتے ہیں اور جسمانی چیزوں کے بھی اسباب ہوتے ہیں۔ چنانچہ روحانیات کے اسباب کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیض باقاعدہ ایک channel سے آتا ہے۔ مثلاً ایک water tank ہے جس سے ایک پائپ آ رہا ہے اور نیچے گھر میں اس پائپ پر ایک نل لگا ہوا ہے۔ جب بھی آپ کو tank سے پانی لینا ہو گا تو کہاں سے لیں گے؟ اوپر چڑھ کے ٹینک سے لیں گے؟ نہیں! بلکہ نل سے لیں گے جو آپ کے پاس لگا ہوا ہے۔ کیا اس نل میں پانی ہے؟ نہیں! بلکہ پانی tank میں ہے۔ اگر tank اور ٹیپ کے درمیان یہ نل نہ ہوتا تو پانی نہ آتا۔ لہذا water tank اصل ہے، نل connection ہے اور water tape میں آپ پانی recieve کر سکتے ہیں۔ گویا اصل میں اللہ کے خزانے سے سب کچھ آ رہا ہے اور جس کو بھی فیض مل رہا ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آ رہا ہے اور سب سے پہلے تقسیم کے لئے الله جل شانهٗ نے جو نظام بنایا وہ ہے آپ ﷺ کی ذات۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: "اِنَّمَا اَنَا الْقَاسِمُ وَاللہُ یُعْطِیْ" " بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اللہ پاک عطا فرمانے والے ہیں" یہ چیز ہم لوگ تقلیداً مانتے ہیں، لیکن بزرگوں کو یہ باقاعدہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ہی اول تقسیم کرنے والے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے جن کو دیا ہے وہ آگے دیتے ہیں، پھر انہوں نے جن کو دیا ہے وہ آگے دیتے ہیں۔ پھر انہوں نے جن کو دیا ہے وہ آگے دیتے ہیں۔ یوں یہ پورا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے کے through جو بالآخر شیخ کے دل پر آتا ہے، اور جب شیخ کے پاس پہنچ جائے تو پھر سالک کو اس شیخ سے ملتا ہے یعنی سالک کو شیخ سے ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے آ رہا ہوتا ہے۔ یہ اس چیز کو سمجھنے کا ایک technical point ہے۔ پھر جنہوں نے شیخ پر نظر کی کہ وہ دے رہا ہے اور اللہ کو بھول گئے تو وہ مشرک بن گئے۔ اور جن کو اس چیز کا ادراک ہے کہ دے تو اللہ رہا ہے لیکن اللہ پاک اس کو شیخ کو ذریعہ بنا رہا ہے تو وہ موحد بھی ہیں اور خوش نصیب بھی ہیں کہ وہ فیض بھی لے رہے ہیں۔ بس یہی فرق ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت زبردست technical point ہے جس کے imbalanc ہونے کی وجہ سے بات بہت خراب ہو جاتی ہے، تصوف میں جتنی بھی شرکیات آئی ہیں وہ اسی چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آئی ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ end point شیخ ہی ہے لیکن فیض آپ ﷺ کی طرف سے آ رہا ہے۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی گہری بات فرمائی ہے کہ جو حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تک نہیں پہنچا تو وہ حضور کا عاشق نہیں بلکہ اپنے نفس کا عاشق ہے۔ یعنی وہ حضور کے تعلق کو اپنے نفس کے لئے استعمال کر رہا ہے ورنہ حضور کی دعوت پہ نظر رکھتا۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: "قُوْلُوْا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ تُفْلِحُوْا" چنانچہ حضور ﷺ نے پوری زندگی توحید پہ لگائی ہے۔ جب کہ آپ حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا دعوی کرتے ہو اور توحید کو بھول رہے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی من مانی کر رہے ہو، اور من مانی نفس کے لئے ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا جو حضور کی محبت کا دعوٰی کرتا ہو اور اللہ تک نہ پہنچے تو سمجھو کہ وہ اپنے نفس کا عاشق ہے، حضور کا عاشق نہیں ہے۔ یہی بات شیخ کے لئے بھی کی جا سکتی ہے کہ جو شیخ کے ساتھ محبت کرتا ہو لیکن آگے حضور ﷺ تک نہ پہنچے، اور حضور ﷺ سے اللہ تک نہ پہنچے تو وہ بھی اپنے نفس کا عاشق ہے۔ لہذا صحیح سلسلے میں اور غلط سلسلے میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ بہت کچھ لے بھی جاتے ہیں اور بہت کچھ نقصان بھی کر لیتے ہیں۔ لہذا ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اگر accelerator نہ ہوتا تو گاڑی نہ چلتی اور اگر break نہ ہوتی تو accident ہوتے رہتے۔ لہذا break کی بھی ضرورت ہے اور accelerator کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح تصوف accelerator ہے، اور عقائد breaks ہیں۔ اس لئے عقائد کو بھی صحیح سمجھنا چاہیے اور تصوف کے accelerator کو بھی لینا چاہیے تاکہ دونوں کام ہوں، accident سے بھی بچیں اور اس کے فیوض و برکات بھی حاصل ہوں۔ لہذا فیض اللہ کی طرف سے آتا ہے اس لئے نظر اللہ پر ہونی چاہیے۔ الحمد للہ ہمارے سلسلے میں اس کو محسوس کرانے کا باقاعدہ ایک نظام موجود ہے جس کو مراقبہ احدیت کہتے ہیں۔مراقبہ احدیت یہ ہے کہ انسان یہ محسوس کرے کہ اللہ کی طرف سے فیض حضور ﷺ کے دل پر آ رہا ہے، اور حضور ﷺ کے دل سے شیخ کے دل پر آ رہا ہے اور شیخ کے دل سے اس کے دل پر آ رہا ہے۔ درمیان میں پورا سلسلہ ہے لیکن پورے سلسلے کا اگر سوچا جائے تو مبتدی اس کو محسوس نہیں کر سکتا اور وہ confuse ہو جائے گا۔ یعنی شیخ اور آپ ﷺ کے درمیان پورا سلسلہ ہے۔ ایک نیا آدمی ہمارے ہاں اعتکاف میں آیا تھا جو اہل کشف میں سے تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ جب ذکر کر رہے تھے تو میں نے کشفاً دیکھا کہ جیسے اللہ کی طرف سے چمک کی طرح ایک بجلی کی سی صورت آئی اور میرے سامنے پورا سلسلہ آ گیا کہ وہ چمک آپ ﷺ سے ہوتے ہوئے اور پورے سلسلے سے گزر کر آپ پر آئی اور پھر آپ کی طرف سے سب پہ تقسیم ہو گئی۔ حالانکہ وہ بالکل beginner تھا اس کو ان چیزوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اس نے مجھے صرف اپنا کشفی مشاہدہ بتایا۔ میں نے کہا آپ کا کشف بالکل صحیح ہے، یہی مراقبہ احدیت ہے۔ لہذا مراقبہ احدیت میں یہی محسوس کیا جاتا ہے یعنی اللہ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آتا ہے، آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر، شیخ کے قلب سے سالک کے قلب پر۔ اس مراقبے کو آہستہ آہستہ بڑھایا جاتا ہے، اور سالک کے تمام لطائف کے اوپر کرایا جاتا ہے۔
چنانچہ میں ان کو عرض کروں گا کہ اب آپ پانچ پانچ منٹ اپنے تمام لطائف پر کریں۔ اور یہ جو آپ نے کہا ہے کہ اب کم محسوس ہو رہا ہے، تو اب یہ natural ہے۔ ابتدا میں زیادہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس میں کثافت ہوتی ہے اور جب اس میں لطافت آ جائے تو کم محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی intensity کم ہوتی ہے۔ جیسے بعض نبض بہت تیز محسوس ہوتی ہیں اور بعض بالکل ہلکی ہلکی محسوس ہوتی ہیں۔ میں اس کی ایک اور مثال بتاؤں کہ جیسے کوئی آدمی جب سائیکل پر جا رہا ہو تو بھی محسوس ہوتا ہے، اور جب گاڑی پہ جا رہا ہو تو اس سے کم محسوس ہوتا ہے، اور اگر موٹر وے پر تیز رفتار کار میں جا رہا ہو تو اور بھی کم محسوس ہوتا ہے، اور جہاز میں تو بالکل ہی پتہ نہیں لگتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ viberation کی frequency جتنی زیادہ ہوتی ہے تو محسوسات سے بات نکل جاتی ہے۔ چنانچہ آپ کو جو ابھی کم محسوس ہو رہا ہے، گویا لطافت کی طرف اس کا سفر ہو رہا ہے۔ لہذا مراقبہ احدیت شروع کر لیں۔ یعنی پہلے کی طرح پانچ پانچ منٹ تمام لطائف پر یہ ذکر محسوس کریں۔ اور پھر پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ احدیت کریں، جس میں آپ یہ محسوس کریں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور میرے شیخ کے قلب سے میرے دل پر آ رہا ہے۔
سوال نمبر 05:
السلام علیکم! حضرت ان موجودہ حالات میں (ہفتہ وار) اصلاحی مجالس سے متعلق کیا کرنا چاہیے روک دیں یا جاری رکھیں؟
جواب:
در اصل ہماری اصلاحی مجالس میں جم غفیر نہیں ہوتا، جیسے یہاں کتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں؟ وہ تو تب نقصان دہ ہے جب بہت قریب قریب لوگ بیٹھے ہوں اور احتیاطی تدابیر نہ اختیار کر رہے ہوں۔ تو اس میں risk ہوتا ہے۔ لیکن اس virus سے لوگوں کو جتنا ڈرایا گیا ہے یہ اتنا ڈراؤنا نہیں ہے، کچھ زیادہ ہی ڈرایا گیا ہے۔ اور اوسان خطا کرنے والے ڈرانے کی حد تک ڈرا دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، لوگوں کو ہمت دلانی چاہیے، ہوش میں رہنا چاہیے۔ جو لوگ سانپ کے دسنے سے مرتے ہیں تو ڈاکٹرز کے بقول ان میں زیادہ تر اُس کے خوف سے مرتے ہیں، زہر سے کم مرتے ہیں۔ لہذا اتنا ڈر کہ انسان کا defence system ہی بیٹھ جائے یہ کون سا طریقہ ہے؟ کم از کم defence system کو تو نہیں بٹھانا۔ اگرچہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، جیسے ہاتھ نہ ملائیں، صرف السلام علیکم کہہ دیں۔ کیونکہ السلام علیکم کہنا مسنون ہے جب کہ مصافحہ مستحب ہے، چنانچہ اگر آپ مستحب پر عمل نہ کریں تو اس پہ آپ کی کوئی گرفت نہیں ہے اور عذر بھی ہے۔ لہذا صرف سلام کر لیں اور ہاتھ نہ ملائیں۔ یہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اور direct contact میں نہ آئیں۔ جیسے کسی کو زکام ہے تو وہ mask پہنے یا کوئی رومال وغیرہ لپیٹ لے۔ کیونکہ اس سے نقصان ہوتا ہے اور جس کو زکام نہیں ہے اس کو زکام والے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا جس کو زکام نہیں ہے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ mask پہنے۔ mask وہ پہنے جس کو زکام ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں شاید mask کی وجہ سے بچ جائیں گے، حالانکہ یہ contact سے آپ کو لگے گا، air کے ذریعے سے transfer نہیں ہو رہا۔ کیونکہ یہ virus contact کے ذریعے سے transfer ہو رہا ہے۔ لہذا اگر آپ contact نہ ہونے دیں تو کوئی مسئلہ نہیں اور اگر contact ہو جائے for example تو اس کا remedy یہ ہے کہ آپ 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھو لیں، جس سے یہ ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ یوں ہوش سے کام لیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اتنا زیادہ ڈرنے والی بات نہیں ہے۔ اور ہمارے ہاں چونکہ ایسی مجالس میں اتنے زیادہ لوگ نہیں ہوتے لہذا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جہاں بڑے جم غفیر والی gathering ہو تو اس سے آدمی avoid کرے۔ جیسے اب مختلف جگہوں پہ امتحانات ملتوی ہو گئے ہیں، اور وفاق المدارس کے بھی امتحانات ملتوی ہو گئے ہیں۔ اگرچہ میں فی الحال اس کے ساتھ agree نہیں کرتا۔ لیکن چونکہ administrative problem ہے اور فیصلہ ہو گیا تو فیصلہ ماننا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کو ایک state حاصل ہوتا ہے کہ وہ سب کی بہبود کے لئے اگر فیصلہ کرتی ہے تو اسے ماننا پڑتا ہے۔ لہذا یہ صحیح ہے۔ لیکن اس سے لوگوں پر جو خوف طاری ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ میں ایک analysis کرتا ہوں، میرے سامنے ڈاکٹر صاحب موجود ہیں اگر میں غلط ہوں تو بتا دیں کہ ہمارے پاکستان میں جتنے بھی cases ہیں وہ باہر سے آئے ہوئے ہیں، اور جو case diagnose ہو جاتا ہے تو اس کے گھر والوں کی screening کی جاتی ہے وہ بھی محفوظ ہوتے ہیں اور ان کا negative ہوتا ہے۔ گویا جو ان کے سب سے قریبی لوگ ہوتے ہیں ان کا بھی negative آتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اتنا spreading level پہ نہیں گیا، ورنہ کم از کم ان سے تو کسی کو ہونا چاہیے تھا۔ چنانچہ جو لوگ باہر سے آئے ہیں وہیں پر ان کو لگا ہے اور وہیں diagnose ہوئے ہیں۔ اور ان سے پھر آگے نہیں منتقل ہوا۔ بالخصوص سکھر اور کراچی کے علاقے میں temprature اچھا خاصا high ہے۔ جب کہ اس temprature میں تو وہ رہ ہی نہیں سکتا۔ لہذا اگر کسی کو کہیں سے لگ گیا ہو تو وہ اپنا ایک وقت پورا کرے گا۔ لیکن جس کو نہیں لگا، تو اگر باہر temprature high ہو تو وہ دوسرے کو نہیں لگا سکے گا۔ لہذا اتنا زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں۔ اور اس کا spiritual علاج بھی ہےکہ جب بھی باہر جائیں تو "بِسْمِ اللهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ" پڑھ کے جائیں اور کوئی کھانا وغیرہ کھائیں تو بھی پہلے یہ دعا پڑھ کر کھانا کھائیں۔ اسی طرح وبائی امراض سے بچنے کے لئے معمولات کے نام سے ہماری ایک app بھی ہے، اسے بھی آپ download کر لیں جو play store پر موجود ہے۔ اس میں 100 دفعہ درود شریف کا بتایا گیا ہے، دعائے انس ہے، دعائے حادثات ہے اور منجیات ہیں۔ یہ دعائیں آپ پڑھ لیا کریں، ان شاء اللہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اور "أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" بہت مختصر دعا ہے۔ یہ spiritual حفاظت ہے۔ اور physical حفاظت کے لئے ڈاکٹر حضرات کی ہدایات پر عمل کریں، تو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ جیسے جب تاتاری آئے تھے تو ایک خوف و ہراس چھا گیا تھا اور مسلمانوں پر اتنا زیادہ خوف تھا کہ تاتاری مسلمان سے کہتا ہے کہ تو یہاں لیٹ، میں تجھے مارنے کے لئے چھری لے کر آتا ہوں، تو وہ مسلمان وہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ یعنی خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ اجر دے، انہوں نے اس میں بڑا contribute کیا، انہوں نے مصر کے ایک حکمران کو مقابلے کے لئے تیار کیا۔ اور انہوں نے کہا ہم ضرور جیتیں گے تو علماء نے ان سے کہا ان شاء اللہ بھی کہیں۔ انہوں نے کہا میں "بِعَوْنِ اللہ" کہتا ہوں۔ کیونکہ تم نے ان شاء اللہ کو اپنی کمزوری کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ جو کام تم نہیں کرنا چاہتے اس کو ان شاء اللہ کے ذریعہ سے کہتے ہو۔ لہذا میں "بِعَوْنِ اللہ"کہوں گا کہ اللہ تعالٰی ہمیں کامیابی عطا فرمائیں گے۔ چانچہ انہوں نے اس کو تیار کیا اور وہ واحد جگہ ہے جہاں تاتاریوں کو شکست ہوئی تھی کیونکہ مسلمان اپنی ایک پوری energy کے ساتھ موجود تھے۔ جب کہ خوف energy کو ختم کر دیتا ہے اور اس میں انسان بالکل ہی بے بس ہو جاتا ہے۔ لہذا خوف نہیں ہونا چاہیے مقابلہ کی صورت ہونی چاہیے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حفاظتی تدابیر کرو، حوصلہ میں رہو، ہوش میں رہو۔ تاکہ آپ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرماٸے۔
سوال نمبر 06:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس آپ کی خدمت میں کچھ کیفیات عرض کرنی تھیں۔ کچھ مہینوں سے کیفیت یہ ہے کہ معمولات پر استقامت نہیں ہے۔ ایک مراقبہ کئی مہینوں چلتا ہے اور جب تیس دن بلا ناغہ مکمل ہو جائیں تو حضرت والا کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں، وجوہات ذاتی مصروفیت اور کچھ دل کا نہ لگنا ہے۔ معمولات میں لاپرواہی ہو رہی ہے اور حال یہ ہے کہ حضرت جی آپ کا سامنا کرنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی۔ کئی بار سوچا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کروں کہ مجھ سے اس لائن پر چلا نہیں جا رہا۔ لیکن حضرت کی زیارت سے فیض یاب رہنا چاہتا ہوں تو کیا بنا معمولات اور بنا مقصد حضرت کی خدمت میں رہ سکتا ہوں؟ لہٰذا یہ کہنے کی بھی جرات نہ ہوئی۔ کیونکہ آپ کی شفقت خصوصی طور پہ میسر ہے۔ اب سوال و جواب کے فوراً بعد بھی بلا تامل جواب مل جاتے ہیں تو میسج پر اس لئے عرض کیا کہ حضرت والا کی دل آزاری نہ ہو۔ کچھ دنوں سے معمولات پھر سے موقوف ہیں کسی project کی وجہ سے۔ اور کیفیات کی وجہ بھی غالب ہے، پرسوں ایک خواب دیکھا کہ میں حضرت کے ساتھ سفر میں ہوں اور ہم بہت دور کا سفر کرتے ہیں کہ گاؤں گاؤں پھرتے ہیں اور آخر میں ایک مسجد میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ جو بزرگ ساتھ ہوتے ہیں ان کے متعلق خواب میں یہ خیال ہوا کہ یہ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور آپ سے خلافت ان کو ملی ہے۔ حضرت آپ مسجد میں تشریف لاتے ہیں اور مجھے بلاتے ہیں کہ ادھر آؤ اجازت دے دوں۔ آپ میری کمر پر دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ یا شاید دونوں ہاتھ اوپر رکھتے ہیں اور مجھے اپنا سینہ اندر سے کشادہ ہوتا محسوس ہوتا ہے اور میں رو بھی رہا ہوتا ہوں۔ یہ خواب حقیقت میں آپ کو سنانے کی ہمت نہیں ہوئی، لیکن چونکہ آپ کی زیارت خواب میں ہوئی تو اس پر خاموش بھی نہیں رہا۔ فلاں صاحب سے عرض کیا کہ اس خواب میں میرے لئے کیا تنبیہ ہو سکتی ہے؟ انہوں نے تھوڑا سمجھایا کہ یہ قبض و بسط کی کیفیت ہوتی ہے اور مجھے یہ کیفیت حضرت کی خدمت میں عرض کرنی چاہیے۔ کیونکہ قریب رہنے سے مجھے اتنا فائدہ ہو سکتا ہے اور شیطان بھی اتنا ہی زیادہ محنت کرتا ہے۔
جواب:
در اصل تین بنیادی stages ہیں۔ سب سے پہلے عقل کو سمجھانا ہوتا ہے، پھر دل کو صاف کرنا ہوتا ہے اور اسے بنانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفس کی محنت آتی ہے۔ لیکن بعض لوگ عقل والی بات پر ہی knock out ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی عقل کو سمجھا نہیں سکتے لہٰذا وہ ادھر ہی رہ جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ اس سے آگے بڑھتے ہیں لیکن دل کے stages پر نہیں چل پاتے یعنی ان سے ذکر اذکار نہیں ہو پاتا اور دل کی صفائی کا نظام ٹھیک نہیں کر پاتے تو وہ ادھر رہ جاتے ہیں۔ اور جب کوئی اس سے بھی گزر جائے تو پھر نفس پر بات آتی ہے اور وہ تو ہے ہی بہت مشکل کام، اسے تو سب نے مشکل کہا ہے۔ لیکن کامیابی کی نوید اسی پر ہے: ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَد خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس:9-10) "یقیناً کامیاب ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر دیا اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا" چنانچہ عقل اور دل کی اصلاح اس کی تیاری ہے۔ لہذا سب سے پہلے اپنے آپ کو convince کرنا ہے کہ یہ کام ضروری ہے، نہیں کروں گا تو مار پڑے گی۔ جیسے موت کے بعد آپ کو پتہ چل جائے کہ اوہ! یہ کام تو میں کر سکتا تھا جو میں نے نہیں کیا۔ تو پھر کیا کر سکو گے؟ سوائے افسوس اور حسرت کے اور کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے اپنے آپ سے یہ منوانا ہے۔ جیسے حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی والدہ نے کہا کہ بیٹا اپنے نفس پر بھی کچھ رحم کیا کرو اور اتنا زیادہ مجاہدہ نہ کرو۔ کیونکہ ماں ماں ہوتی ہے، اس کا دل دکھتا ہے۔ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا اماں جان! اپنے نفس کے لئے ہی کر رہا ہوں۔ ورنہ جہنم میں یہی جلے گا۔ لہذا یہ محنت اسی لئے ہے۔
اللہ پاک کسی کا رشتے دار نہیں ہے، اللہ تعالٰی نے قانون بنا دیا ہے دینے کا بھی اور لینے کا بھی۔ اور بتا بھی دیا، پہنچا بھی دیا۔ اب اگر کوئی شخص اس میں سستی کرتا ہے تو اس کا انجام بھی اسی کو بھگتنا ہے۔ اور اگر اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو reward بھی اس کو ملے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ چنانچہ ایک آدمی محنت کرتا ہے اور دوسرا آدمی کہتا ہے مجھے بغیر محنت کے مل جائے۔ کیا دنیا میں ایسا ہوتا ہے؟ کیا مفت میں مل جائے گا؟ نہیں! بلکہ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہاں! تم محنت کے لئے تیار ہو جاؤ اور آگے اللہ پاک کا فضل ہو جائے اور کچھ چیزیں آپ کو مفت میں دے دے تو یہ اس کا طریقہ ہے۔ لیکن تم کام کے لئے تیار ہی نہیں ہونا چاہتے ہو اور کہتے ہو مجھے وہ مل جائے جو کام کرنے والوں کو ملتا ہے، "ایں خیال است و محال است و جنوں" یہ صرف خیالات ہی ہیں، ان خیالات کی دنیا میں رہنا بے عقلی ہے۔ اور یہ خیالات خوابوں میں بھی convert ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ خوابوں میں خیالی خواب بھی ہوتے ہیں۔ جیسے شیطان شیخ کی صورت میں نہیں آ سکتا، لیکن آپ کو خیال تو آ سکتا ہے، خیال میں رکاوٹ نہیں ہے۔ چنانچہ اگر آپ کے خیال پر اپنی خلافت چھائی ہوئی ہو تو وہ خواب کی صورت میں آ سکتی ہے۔ تو یہ خیالات ہیں، ان کو دبانا چاہیے۔ جیسے نفس کو دبایا جاتا ہے۔ اور اپنے آپ کو محنت کے لئے تیار کرنا چاہیے، بغیر محنت کے نہیں ملا کرتا۔ اور چُنے ہوئے لوگ زیادہ محنت کرتے ہیں، ان کو اللہ پاک نے حوصلہ دیا ہوتا ہے اس لئے وہ زیادہ محنت کرتے ہیں۔ جیسے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے، لیکن ان کے مجاہدات بہت زیادہ ہیں، اتنے زیادہ ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اتنے مجاہدات کیسے کرتے تھے۔ جب کہ وہ مادر زاد ولی تھے کیونکہ بعض مادر زاد ولی بھی ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ذرا ان کے عمل کو دیکھو۔ کیا وہ بالکل آرام سے بیٹھ گئے تھے؟ تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اللہ پاک کسی کے رشتہ دار نہیں ہیں۔ لہذا جو قانون اللہ پاک نے بنا دیا ہے وہ اس کے مطابق کرتے ہیں، اللہ پاک نا انصافی نہیں فرماتے۔ اس لئے ہمت کرنی چاہیے، کوشش کرنی چاہیے اور اللہ پاک سے مانگنا چاہیے۔ یہ دونوں طریقے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 07:
ہمارے وظیفے کی مدت پوری ہو گئی ہے آپ نے ہمیں اسم ذات 2000 مرتبہ دیا تھا، وہ ہم نے کر لیا ہے۔ آگے اب ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اسے 2500 کر لیں، اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے مشائخ 24000 تک لے جاتے تھے۔ چانچہ ایسا نہ ہو کہ آپ سوچیں کہ میں نے اتنے ہزار کر لیا تو کیا ہو گا۔ کیا خیال ہے اگر کوئی شخص آپ کو کوئی چیز بہت زیادہ دینا چاہتا ہو جس میں آپ کا فائدہ ہو، کیا آپ اس کو کم کریں گے؟ اسی طرح اس ذکر سے آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ لہذا آپ اسے 2500 کر لیں۔
(ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگ خواب بھیجتے تھے تو حضرت یہ جواب دیتے تھے
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
من ہمہ ز آفتابم و ز آفتاب گویم
کہ نہ میں رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں کہ خواب کی باتیں کروں، میں آفتاب کے ساتھ ہوں اور آفتاب کی باتیں کرتا ہوں۔ یعنی وہ جاگتا ہے کہ اعمال کو درست کروں۔ یہی ہمارا مطلوب ہے اور یہی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں۔ لہذا کم از کم دو مجددوں کا اس پر اجماع ہے۔ اس لئے خوابوں پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے۔ چنانچہ اگر آپ بڑے اچھے خواب دیکھیں جب کہ عملی طور پر آپ کو فائدہ نہیں ہے اور عملی طور پر آپ پیچھے ہیں تو یہ خواب آپ کو آگے نہیں کر سکتے۔ اور اگر آپ عملی طور پر اچھے ہیں تو خوابوں کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا عملی طور پر آگے ہونے کی کوشش کیا کریں۔)
سوال نمبر 08:
I am sick یا حضرت شاہ صاحب. Doctors told me to stay at home. Please I need your duas!
جواب:
May اللہ سبحانہ و تعالٰی grant you صحت کاملہ عاجلہ and follow the instructions of doctors and stay at home. I am praying for you.
سوال نمبر 09:
السلام علیکم! حضرت جن لوگوں نے ابھی ابتدا کی ہے ان کے لئے ذکر قلبی کا طریقہ ارشاد فرما دیں۔ اور لطائف کے بارے میں کوئی بیان یا تحریر ہو تو share کریں۔
جواب:
در اصل یہ education کی بات نہیں ہے، eduacation کی بات تو کتابوں سے مل جاتی ہے۔ میں نے آج ہی اس پر کچھ لکھا ہے تو اس کا لب لباب عرض کرتا ہوں۔
ہمارے حضرات مشائخ فرماتے ہیں کہ جتنے لوگ ہیں، اللہ تعالٰی تک پہنچنے کے لئے بعددِ اَنفاس اتنے ہی طریقے ہیں ۔
یہاں ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں یہ تصدیق کریں گے کہ جتنے لوگ ہیں اتنی ہی قسم کی بیماریاں ہیں، اور اتنے ہی قسم کے علاج ہیں، لیکن آپ کی کتابوں میں کتنے آئے ہوں گے؟ صرف limited grouping کے ذریعے سے چند ایک طریقے بتائے جاتے ہیں، جن سے آپ کو guidance ملتی ہے۔ لیکن ہر شخص کی الگ بیماری ہے، لہذا کتابی علم کے ذریعے سے آپ کسی کو treat نہیں کر سکتے جب تک آپ اپنی understanding، تجربہ اور تمام ضروریات شامل نہ کریں۔ چنانچہ شیخ بھی اسی طرح ہی کرتا ہے۔ اس میں بھی کتابی علم کافی نہیں ہوتا، کتابی علم just ایک guidance ہے، گویا جتنا سمجھنا مقصود ہوتا ہے اس کی ایک خاص قسم کی compilation ہے جس سے آپ کو رہنمائی مل سکتی ہے۔ لہذا اگر میں آپ کو literature دوں بھی تو آپ کو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ اس لئے اگر آپ بیعت نہیں ہوئے تو کسی شیخ سے باقاعدہ بیعت ہو جائیں اور پھر ان کو follow کریں۔ اور جب آپ ان کو وقتاً فوقتاً اپنے احوال بتائیں گے تو وہ آپ کو علاج بتائیں گے۔ ان سے آپ کی جتنی interraction بڑھے گی اتنا زیادہ وہ آپ کو جانتا رہے گا۔ جیسے وہ family doctor جس کے ساتھ انسان full time وابستہ ہوتا ہے وہ آدمی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوتا ہے اور پھر ایک stage آتی ہے کہ اس کو بتانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی بلکہ وہ صرف مریض کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ اس کو آج یہ مسئلہ ہے۔ اسی طرح جب شیخ کے ساتھ کسی کی interraction ہوتی ہے تو ان کے اوپر وہ چیزیں کھلتی جاتی ہیں، جس کے مطابق وہ اس کو guide کرتا ہے۔ چنانچہ یہ بات صرف acadamic point of view سے تو ہو سکتی ہے۔ لہذا آپ تصوف کی کتابیں جہاں سے بھی پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ practically it's not suitable اس مقصد کے لئے آپ کو کسی شیخ کے ساتھ رابطہ کرنا ہو گا اور اس کی بات ماننی ہو گی، گویا تصوف ایک عملی چیز ہے، theoretical نہیں ہے۔ جیسے بیماریوں کا علاج عملی چیز ہے theoretical نہیں ہے۔ یعنی عملی طور پہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ جیسے اگر کوئی بہت ساری دوائیاں جانتا ہو لیکن وہ کوئی دوائی کھائے ہی نہ، تو کیا وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ جیسے ٹی بی کی بیماری جاننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹی بی کا مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ بلکہ اس کا علاج کرنے سے ٹھیک ہو گا جو ایک عملی چیز ہے۔ لہٰذا اپنا وقت ضائع نہ کریں اور صحیح لائن پر آ جائیں۔
سوال نمبر 10:
یا حضرت صاحب
Also I finish اوراد cycle for me
200 “لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ”
400 “لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو”
600 “حَق”
500 “حَق اللہ”
500 “حَق ھُو”
500 “اَللہ”
And 300 “ھُو”
جواب:
So I think you should continue it for one more week because you are at home and you are sick. After that you should ask me ان شاء اللہ I shall give.