سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 455

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

https://99.cdn.tazkia.org/2020/2/24/20200224_QA455.mp3


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 01:

السلام علیکم!

Question. I know the world hates me but how should I know اللہ سبحانہ و تعالیٰ also hates me or not? What if I seek forgiveness from اللہ for my mistakes and admit all my faults and shortcomings? But despite this, I am not able to overcome them. Will اللہ سبحانہ و تعالیٰ forgive me? How will I know this? How will I know that اللہ سبحانہ و تعالیٰ is not angry with me and he understands me.

جواب

This is just actually an inclination towards one extreme. There are two extremes.

"اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَا"

So on one side, there is خوف and on the other side there is رجا. So if you go to one extreme, for example رجاء, so that is also not good because maybe you will be feeling not bad if you are committing some sins because you know that you will be having good hope that اللہ سبحانہ و تعالیٰ forgives you in any case. So one should take the conseq شریعت applicable for himself as well. So he should follow شریعہ and he needs that much خوف that he should not commit sins. On the other side, if he goes to خوف, that is another extreme. And if a person goes to that extreme, so maybe you will become معطل. It means you will not be able to do any work. So this is also not good. So Islam is between that two.

"اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَا"

One should be so much hopeful that اللہ سبحانہ و تعالیٰ will forgive him and اللہ سبحانہ و تعالیٰ will award him that he is not disappointed of Him. He should not be مایوس but he should not be having that much رجا also (امید, hope) that he should not consider himself questionable to Him if he is committing sins. So it means, in-between thing is very good so اللہ سبحانہ و تعالیٰ says

﴿لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر: 53)

Do not lose hope from the رحمت of اللہ سبحانہ و تعالیٰ. Indeed اللہ سبحانہ و تعالیٰ forgives all the sins. Once I ask this question from an عالم, so he asked me this question in this آیۃ

﴿يَغْفِرُ الذُّنوبَ جَِميعًا (الزمر: 53)

Is my جمیعاً your جمیعا or اللہ’s جمیعا?

So I said it is اللہ’s جمیعا

So he said, can anything be missed from that جمیعا?

I said yes I said not. He said this is Ok. If you seek forgiveness and you make توبہ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ will forgive all the sins الحمد للہ.

So you should not be that much مایوس. I know your condition but at least you should be taking care of yourself and you should not be that much disappointed.



سوال نمبر 02:

السلام علیکم حضرت! آپ کے بتائے ہوئے معمولات پر عمل کر رہا ہوں، میں اپنے والد سے بہت محبت کرتا تھا اور ان کی عزت بھی بہت کرتا تھا۔ 2 مارچ 2018ء کو ان کی وفات ہوئی، میں ان کے لئے ہر ماہ ایک پارہ اور ہر روز چار سورتیں یس، الرحمن، الملک، اور السجدۃ پڑھتا ہوں اور جو بھی تسبیحات اور ذکر کرتا ہوں ان کے لئے ایصال ثواب کی نیت بھی کرتا ہوں، کبھی کبھار بہت دل کرتا ہے کہ کچھ ایسا خاص بھیجوں کہ والد خوش ہو جائیں۔ براہ مہربانی نصیحت فرمائیں۔

جواب:

یقیناً والد صاحب یا والدہ صاحبہ کا بڑا حق ہوتا ہے اور انسان کو اس سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد کی نیکیاں والدین تک بھی پہنچتی ہیں، جو ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ آپ جتنے بھی اچھے کام کریں گے ان شاء اللہ ان کا فائدہ آپ کے والدین کو بھی ہو گا، لہذا آپ اس نیت سے بھی نیک کام کریں کہ آپ کے والدین کو ان کا فائدہ پہنچے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایصال ثواب کا سلسلہ جاری رکھیں اور جتنا چاہیں نفلی اعمال کا ثواب ان کو بھیج سکتے ہیں۔ الله جل شانهٗ نے یہ بہت بڑا دروازہ کھولا ہے اس کے ذریعے سے ہم فوت شدگان میں سے جس کو جتنا چاہیں ایصال ثواب کر سکتے ہیں۔


سوال نمبر 03:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی طبیعت میں اعتدال رہتا ہے، تغیرات زیادہ نہیں ہیں بلکہ استقلال رہتا ہے، اطمینان کی کیفیت ہوتی ہے اور معمولات میں اللہ نے آسانی اور تسلسل دونوں عطا فرمائے ہیں۔ آپ کی دعاؤں اور تربیت کی بدولت کبھی کبھار دنیا سے شدید تنگ ہو جاتا ہوں اور کشمکش کا شکار ہو جاتا ہوں۔ دل کرتا ہے بہت طویل نیند سو جاؤں۔ میں اپنی خامیاں آپ سے share کرتا ہوں۔ مجھ میں ضد پائی جاتی ہے، کوئی اور توجہ نہ دے تو میں بھی نہیں دیتا۔ خود کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ مجھے بہت غصہ آتا ہے ایسا لگتا ہے سینہ پھٹ جائے گا۔ کلام میں بھی بہت جذباتی اور شدید ہوں۔ میرا ذکر ایک مہینے کے لئے یہ تھا 200، 400، 600 اور 2500 یعنی 200 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 400 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 600 مرتبہ "حَق" اور 2500 مرتبہ "اَللہ" اور پانچ منٹ کا مراقبہ دل میں اللہ اللہ کو محسوس کرنا۔ اللہ کے فضل سے، آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ دل میں اللہ اللہ کے محسوس ہونے میں مشکوک رہتا ہوں کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے، کبھی کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ میں ذکر کے دوران کبھی کبھی تخیل میں پڑ جاتا ہوں، خیالات دنیاوی نہیں ہوتے لیکن توجہ پھر مرکوز نہیں رہتی، اللہ بہتر جانے۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

یہ تو اللہ پاک کا بے حد شکر کا موقع ہے کہ طبیعت میں اعتدال ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید استقامت عطا فرمائے اور اللہ کا شکر ہے کہ معمولات پر بھی استقامت ہے۔ یہ بھی ایک بہت اچھا sign ہے ترقی کا۔ یقیناً اگر دنیا صحیح صورت میں انسان کے سامنے آتی ہے تو اس سے انسان تنگ ہوتا ہے لیکن ہم لوگوں کو اسی میں رہنا ہے اور اسی میں اللہ کو راضی کرنا ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے لئے blessing نہیں بلکہ assignment ہے۔ کیونکہ blessing تو جنت میں ہو گی یہاں assignment میں کبھی مشکل ہوتی ہے کبھی آسانی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو صبر کا paper دیا جاتا ہے اور کسی کو شکر کا paper دیا جاتا ہے۔ لہذا کسی کو صبر کرنا ہوتا ہے اور کسی کو شکر کرنا ہوتا ہے۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ جیسے سلیمان علیه السلام اور داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے بادشاہی دی تو وہ شکر کرتے تھے، اللہ پاک نے بھی قرآن پاک میں ان کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ وہ شکر کرنے والے تھے۔ دوسری طرف ایوب علیه السلام کا صبر مشہور ہے۔ گویا دنیا کے یہ حالات ہمارے لئے assignment ہیں، لہذا اگر آپ اس کو assignment سمجھیں گے تو آپ اس سے تنگ نہیں ہوں گے۔ جیسے ICSB کا test جو آرمی والے دیتے ہیں جس میں ان کو obstacles دیئے جاتے ہیں، ان obstacles سے گزرنا ہوتا ہے اور ان کو اپنی خدا داد بصیرت کے ذریعہ سے clear کرنا ہوتا ہے تو جو لوگ جتنا clear کر لیتے ہیں اسی حساب سے نمبر ملتے ہیں۔ تو کیا وہ assignment سے تنگ ہوتے ہیں؟ خود ہی تو گئے ہوتے ہیں۔ اگر تنگ ہوتے تو کیوں جاتے؟ کیوں کہ اسی پہ promotion ہوتی ہے، اسی پہ selection ہوتی ہے، لہٰذا اگر آپ اسے ایک assignment سمجھیں گے تو آپ اس سے تنگ نہیں ہوں گے۔ اور آپ نے یہ جو کہا کہ دل کرتا ہے کہ طویل نیند سو جاؤں۔ در اصل یہ ایک قسم کا فرار کا indication ہے جب کہ حالات سے فرار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور آپ نے جیسے اعتدال کی بات کی ہے تو اعتدال over all ہونا چاہیے یعنی ان چیزوں میں بھی اعتدال یہی ہے کہ نہ ان کو اتنا زیادہ serious لیا جائے اور نہ ہی ان سے غفلت ہو، یہ اعتدال ہے، کیونکہ زیادہ serious لیں گے، اپنے سر پر لیں گے تو اس سے tension آئے گی، anxiety ہو گی۔ اور اگر آپ بالکل ہی غافل ہو جائیں گے تو آپ وہ کام نہیں کر سکیں گے جس کے لئے آپ آئے ہیں۔ اور آپ نے جو دو خامیاں بتائی ہیں کہ ضد اور غصہ بہت ہے، تو یہ فطرتی چیزیں ہیں، کون سا شخص ہے جس میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ ممکن ہے کچھ کمی بیشی ہو، کسی میں کم ہوں، کسی میں زیادہ ہو۔ یہ چیزیں تو ہوتی ہیں، لیکن ان چیزوں کا ہونا ہی ہمارا نفس امارہ ہے۔ اسی نفس امارہ کو آہستہ آہستہ نفس مطمئنہ میں change کرنا ہوتا ہے۔ البتہ اسی نفس امارہ کے شر سے بچنے کے لئے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی جانور کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اس میں ٹائم زیادہ لگے گا، لیکن اس کے کسی خاص عمل کے شر سے بچنے کے لئے آپ کو کچھ tricks آنی چاہئیں تاکہ آپ اس سے بچ سکیں۔ مثلاً وہ مارتا ہے تو کم از کم آپ اس سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اسی طریقہ سے نفس کے شر سے instantly بچنے کے لئے تو سیکھنا ہے لیکن یہ instantly بچنا کافی نہیں ہوتا کیونکہ وہ عام طور وقتی بچاؤ ہوتا ہے۔ جیسے آپ اس جانور کے شر سے istnantly بچ جائیں تو آپ اس پہ بھرسہ نہیں کرتے کہ بس میں کامیاب ہو گیا، بلکہ آپ اس کو سدھانا جاری رکھتے ہیں حتی کہ اس کا یہ شر ختم ہو جائے۔ اسی طرح ہمیں نفس کی تربیت کرنی ہوتی ہے جو کہ آہستہ آہستہ ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ وقتی طور پر اس کے شر سے بچنے کے لئے جو techniques ہیں ان کو بھی استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جیسے غصے کا معاملہ ہے تو اگر کسی کو غصہ آ جائے چنانچہ اگر کم غصہ ہو تو اس کو اپنے سے ہٹا دیں۔ اور اگر زیادہ ہو تو اس سے ہٹ جائیں۔ یعنی اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، پانی پی لے، اپنی position change کر لے، اپنے آپ کو کسی اور چیز میں busy کر لے۔ اس سے اس کی direction اور intensity change ہو جائیں گے۔ گویا یہ techniques استعمال کرنے سے مسئلہ حل ہو سکتاہے۔

آپ نے جو توجہ کی بات کی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ اگر آپ giving کی condition میں آ جائیں یعنی آپ یہ طے کر لیں کہ میں نے لوگوں کو دینا ہے، ان سے لینا نہیں ہے۔ لینا میں نے صرف اللہ سے ہے تو آپ کی condition change ہو جائے گی پھر آپ لوگوں کو دیں گے، ان سے لیں گے نہیں۔ لہذا فرائض کی شکل میں جو آپ کی ذمہ داری ہے اسے آپ پورا کریں، تاکہ لوگوں کے حقوق ادا ہوں، اور لوگوں سے لینے کا ارادہ ہی ترک کر دیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی سے توقع نہ رکھو اور فرمایا: مجھ سے بھی توقع نہ رکھو۔ واقعتاً سب سے بڑا مسئلہ ہی توقع رکھنے کا ہوتا ہے کہ آپ کسی سے توقع رکھتے ہیں کہ یہ مجھے فلاں protocol دے گا یا فلاں چیز دے گا۔ لہذا آپ کسی سے توقع نہ رکھیں، بلکہ یہ سمجھیں کہ میں نے اللہ کے لئے ان سے بات کرنی ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ یہ مجھے کچھ نہیں دے سکتا۔ اس کے پاس ہے ہی کیا مجھے دینے کے لئے۔ البتہ میں نے اللہ پاک سے لینا ہے، کیونکہ اللہ پاک کے پاس سب کچھ ہے۔ لہذا اپنا target اسی کو بنائیں تو ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کی مدد فرمائیں گے۔ باقی یہ ذکر چلتا رہے، اور اب آپ اللہ اللہ کو 3000 مرتبہ کر لیں۔


سوال نمبر 04:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب عرض یہ کرنا تھا کہ میں سلسلہ کا شجرہ مبارک پڑھ سکتا ہوں؟

جواب:

اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، ہم تو پڑھتے رہتے ہیں۔

سوال:

بیماری کے بعد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات نہیں پڑھ سکا۔ کیا دوبارہ شروع کر سکتا ہوں؟

جواب:

بالکل آپ شجرہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور ملفوظات شریفہ بھی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔


سوال نمبر 05:

السلام علیکم!

فلاں here. One more month of meditation is completed. ذکر is continued as well. Meditation was of

15 minutes لطیفۂ روح

And 15 minutes لطیفۂ قلب

I offered ذکر for 4 or 5 minutes in both لطائف

روح and لطیفۂ قلب. Should I continue with this? Three days were skipped.

جواب:

آپ فی الحال اسی کو جاری رکھیں تاکہ پورے پندرہ پندرہ منٹ محسوس ہونے لگیں۔ البتہ آپ نے جس طرح لکھا ہے اگر آپ اسی طرح کر رہی ہیں تو یہ غلط ہے، کیونکہ پہلے لطیفۂ قلب کا ہونا چاہیے، اس کے بعد لطیفۂ روح کا ہونا چاہیے، ممکن ہے آپ نے غلطی سے اس طرح لکھا ہو لیکن اگر ایسا ہے تو یہ غلط ہے، درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے لطیفۂ قلب کو پورا کریں، پھر لطیفۂ روح کی باری آئے گی۔ لہذا آپ اس کو جاری رکھیں اور آئندہ ناغے سے بچیں، کیونکہ ناغے سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔


سوال نمبر 06:

السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں۔ اپنے گناہوں کا ادراک ہو جائے، پھر ان پر توبہ کی توفیق مل جائے، کسی تکلیف پر صبر اور نعمت پر شکر کی توفیق ملے اور تمام نعمتیں بن مانگے اللہ پاک کے فضل سے عطا ہو رہی ہوں تو ایسی صورت میں ان نعمتوں کو کیسے برقرار رکھا جائے، ان پر شکر کیسے ادا کرنا چاہیے کہ جس سے نعمتوں کی قدر اور برکت میں اضافہ ہو، اللہ پاک آپ کی برکت سے میرے نفس کی مکمل تربیت فرمائے.

جواب:

یقیناً الله جل شانهٗ کی نعمتوں کا کوئی شکر ادا نہیں کر سکتا، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر مجھے اتنے منہ عطا ہو جائیں جتنے میرے بال ہیں اور ہر منہ میں ستر ستر (70) زبانیں ہوں اور وہ سب اللہ کا ذکر کریں تو میں اس کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ نے اتنی زبانیں دی ہیں۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ پاک کا شکر کوئی ادا نہیں کر سکتا لیکن جتنا کر سکتے ہیں اس میں کمی نہ کریں۔ لہذا آپ کو جتنی توفیق نصیب ہے اس کے مطابق آپ اللہ پاک کا شکر ادا کر لیا کریں اور الله جل شانهٗ سے اس شکر کی برکت سے راضی رہیں۔ اللہ پاک مزید بھی عنایت فرمائیں گے۔


سوال نمبر 07:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ کتابیں پڑھنی چاہئیں کیونکہ ان کی مثال برتن کی ہے اور پھر آپ نے مقامِ رضا کا مطلب سمجھایا تھا جو کہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ابھی دو دن پہلے مراقبے کے دوران مقامِ رضا کی تعریف سمجھ میں آ گئی لیکن آج ایک اشکال دل میں آیا ہے کہ مقامِ رضا اور مقامِ تسلیم میں کیا فرق ہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ مقامِ رضا کا تعلق حالات سے ہے یعنی آپ کے حالات جیسے بھی ہوں آپ ان پر اللہ سے راضی ہوں، جس کو رضا بالقضا بھی کہتے ہیں۔ اور تسلیم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں یعنی شریعت کے تمام احکام کو آپ دل سے تسلیم کر لیں یہ مقامِ تسلیم ہے۔ گویا حالات پر راضی ہونا چاہیے اور شریعت کے احکامات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اصل میں تسلیم اور اسلام یہ دونوں ایک ہی مادے سے ہیں۔ اسلام بابِ اِفعال سے ہے اور تسلیم باب تفعیل سے ہے۔ لہذا جب انسان surrender کرتا ہے تو اس phenomenon کو اسلام کہتے ہیں اور اس میں جو کرنا پڑتا ہے اسے تسلیم کہتے ہیں، اگر آپ اسے یوں سمجھنے کی کوشش کریں تو میرے خیال میں سمجھ آ جائے گا۔


سوال نمبر 08:

السلام علیکم! میرا مراقبہ دس دس منٹ کا ہے پانچوں لطائف پر۔ لطائف پر کچھ محسوس نہیں ہو رہا مہینہ ہو گیا ہے۔

جواب:

آپ نے پہلے مجھے بتایا تھا کہ آپ کو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے، اور اب آپ کہہ رہی ہیں کہ کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا۔ لہذا مراقبہ قلب کو آپ دوبارہ شروع کر لیں اور اس کو مکمل 15 منٹ دیں، جب وہ چل پڑے گا تو پھر ان شاء اللہ باقی بھی چلیں گے کیونکہ route مقام قلب والا مراقبہ ہے لہذا آپ پہلے اس کو شروع کریں، جب یہ شروع ہو جائے تو اس کے ساتھ دوسرے بھی شروع کر سکتے ہیں۔


سوال نمبر 09:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ شاہ صاحب! اللہ آپ کو دنیا اور آخرت کی ہر ہر نعمت عطا فرمائے (حضرت: آمین) میں دس تاریخ سے شاید hostel میں تھی اپنی بہن کے ساتھ، اس کی اب شادی ہے، اس کو جو بھی دعوت میں بلاتا، میں بھی ساتھ جاتی تھی خوشی سے نعمت سمجھ کے۔ جس سے میں آزمائش میں پڑ گئی۔ سہیلی کے گھر گئے تو جب رزق حلق کے اندر چلا گیا تب پتہ چلا کہ میں نے bank والوں کا کھانا کھا لیا ہے۔ اب کیا کروں؟

جواب:

اب آپ ایسا کریں کہ جتنی amount کا وہ کھانا تھا کسی طریقے سے اس کو gift کر دیں تاکہ وہ آپ کا ملکیتی کھانا ہو جائے۔ اس سے اگرچہ آپ کا گناہ ختم ہو جائے گا لیکن اس کی نحوست باقی رہے گی، کیونکہ حرام کھانے کی نحوست بھی ہوتی ہے اور گناہ بھی ہوتا ہے۔ لہذا آپ گناہ سے تو بچ جائیں گی کیونکہ وہ آپ کا اپنا کھانا ہو جائے گا لیکن چونکہ وہ کھانا آپ کے پیٹ میں گیا ہے اس لئے اس کی نحوست باقی رہے گی جس کے لئے استغفار شروع کر دیں اور آئندہ کے لئے ارادہ کر لیں کہ میں احتیاط کروں گی، اور کسی ایسے شخص کا کھانا میں نہیں کھاؤں گی جس کی آمدن مشتبہ ہو۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ جل شانہ نے یہ دولت عطا فرمائی تھی کہ وہ مشتبہ کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں مولانا امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے یہ واقعہ مجھے personally خود سنایا تھا کہ ہمارے درمیان میں کوئی اور شخص موجود نہیں تھا۔ چونکہ وہ پہلے غیر مقلد تھے، فرمایا کہ اپنے غیر مقلد دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اتنے میں کوئی شخص آیا کہ ہمارے پاس کچھ مشتبہ رقم ہے اگر آپ لوگوں کے پاس اس کو استعمال کرنے کا کوئی مصرف ہو تو ہم آپ کو دے دیتے ہیں، باقیوں نے تو عذر کیا، میں نے کہا مجھے دے دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کے پاس اس کا کیا مصرف ہے؟ میں نے کہا میرے پاس ایک مصرف ہے میں بتا دیتا ہوں۔ تو انہوں نے وہ پیسے مجھے دے دئیے، فرمایا: اس سے ہم نے روٹیاں خریدیں اور ان پہ نشان لگا دئیے اور کچھ اور صحیح مال سے روٹیاں خریدیں جن پہ نشان نہیں تھے، پھر ہم اس نیت سے لاہور گئے کہ چونکہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہم نے سنا تھا کہ وہ مشتبہ کھانا نہیں کھاتے اور ان کو پتہ چل جاتا ہے۔ گویا ہم امتحان کی غرض سے گئے چنانچہ ہم نے حضرت کو gift کے طور پر وہ روٹیاں پیش کیں، حضرت نے ان روٹیوں کو لے کر کیا طریقہ اختیار کیا؟ اس کا تو پتہ نہیں، لیکن وہ نشان زدہ روٹیاں ساری الگ کر دیں اور فرمایا یہ تو آپ اپنے پاس رکھیں اور صحیح روٹیاں اپنے پاس رکھ لیں۔ فرمایا ہم بہت متاثر ہوئے کہ ماشاء اللہ یہ واقعی بزرگ ہیں، جیسے سنا تھا ویسے ہی ہیں۔ میرے ساتھ جو دوسرا ساتھی تھا وہ بھی غیر مقلد تھا، ہم نے حضرت سے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا تو ہم نے کہا کہ حضرت ہم آپ سے بیعت ہونا چاہتے ہیں، حضرت نے فرمایا: تم میرا امتحان لینے کے لئے آئے تھے، میرا امتحان ہو گیا۔ بیعت کے لئے نہیں آئے تھے اب جاؤ اپنا کام کرو۔ یہ سن کر میرا وہ دوست غصے ہو گیا کہ کمال ہے، ہم نے جب توبہ کر لی تو اب اس پہ کیا اعتراض ہے؟ میں نے کہا نہیں نہیں! بزرگوں کا خیال رکھنا چاہیے، ان کا اپنا مزاج ہوتا ہے، لہذا ہم چلتے ہیں، ہم اوکاڑہ سے آئے تھے تو اوکاڑہ چل پڑے، اوکاڑہ پہنچ کر میں اپنے گھر کے اندر داخل ہو کر پھر واپس لاہور چلا گیا اور حضرت سے میں نے کہا کہ اب تو میں امتحان کے لئے نہیں آیا، انہوں نے فرمایا نہیں: ہاں اب میں بیعت کر لیتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لیا۔ پھر حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری جیب میں اتنے پیسے ہیں لہذا جاؤ بازار سے "احیاء العلوم" کتاب خرید لو اور واپس جانے کا کرایہ مجھ سے لے لینا۔ چنانچہ میرے پاس جتنے پیسے تھے اتنے کی ہی احیاء العلوم ملی۔ لہذا میں نے وہ خرید لی اور حضرت کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت نے اس کی پہلی دو جلدیں نکال لیں اور فرمایا یہ تو فقہ شافعی ہے لہذا یہ ہمارے کام کی نہیں ہے اور باقی جلدیں شیخ کی طرح ہیں آپ ان کو پڑھو۔ اور مجھے واپسی کرایہ دے دیا۔ مقصد یہ ہے کہ ان کو یہ نعمت حلال کھانے کی برکت سے ملی تھی۔ اور اتنی احتیاط کرتے تھے جب کبھی کہیں جاتے تھے تو اپنے ساتھ چنے وغیرہ لے جاتے تھے اور پھر جس گھر میں کوئی اشتباہ کا خطرہ ہوتا تھا وہاں کا کھانا کھاتے ہی نہیں تھے۔ اس نحوست سے بچنے کے لئے چنے اور پانی ساتھ لے جاتے تھے۔ گویا extra چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے extra کام کرنا پڑتا ہے اور normal چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے normal کام کرنا پڑتا ہے۔ تو یوں اللہ پاک نے ان کو extra چیزیں عطا فرمائیں۔ اور کس کے پاس ہیں یہ چیزیں؟ اللہ پاک نے ان کو دفاعی نظام دیا تھا جس سے ان کو پتہ چل جاتا تھا کہ کون سی چیز ٹھیک ہے اور کون سی ٹھیک نہیں ہے۔ بہرحال اگر آئندہ کوئی اس قسم کی بات ہو تو اس میں احتیاط کیا کریں۔


سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت جی! فلاں ہوں۔ میرا مراقبہ 15 15 منٹ روح و قلب کا ہے، میں نے الحمد للہ تہجد بھی شروع کر لی ہے اور اب تہجد کے بعد مراقبہ کرتی ہوں کیونکہ دن کے اوقات میں یکسوئی نہیں ہوتی تھی۔ حضرت جی استقامت کے لئے دعا فرمائیں۔ مجھے کچھ تعویذ ملے ہیں ان کو کیسے تلف کروں؟ ان پر بسم اللہ نہیں لکھی ہوئی۔ جس کی وجہ سے وسوسے آ رہے ہیں کہ گھر میں معاشی حالات بھی خراب ہیں اور بھی بہت پریشانیاں ہیں، آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ آج امی کی طبیعت صبح فجر کے بعد بہت خراب ہو گئی جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہے آپ سے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امی کو صحت عطا فرمائیں اور "یَا سَلَامُ" 21 مرتبہ پڑھ کے ان کو دم کر دیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ جس نمبر سے مجھے مسیج بھیج رہی ہیں یہ نمبر سوالات کے لئے اور حال بتانے کے لئے نہیں ہے، یہ عام information کے لئے ہے۔ میں آپ کو نمبر دے رہا ہوں جس پر آپ اپنے احوال بھیجا کریں ورنہ ان کے miss ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔ وہ نمبر یہ ہے:

0315-5195788

بہر حال 15، 15 منٹ روح اور قلب کا آپ کا مراقبہ کیسے چل رہا ہے؟ یعنی آپ نے کہا ہے کہ مراقبہ کرتی ہوں لیکن یہ نہیں بتایا کہ مراقبہ کیسا ہو رہا ہے؟ لہذا وہ مجھے بتا دیں۔ جہاں تک تعویذوں کی بات ہے تو اس حوالے سے مجھے کسی وقت فون کر لیں بارہ اور ایک کے درمیان۔ تاکہ میں آپ سے ان کی کیفیت پوچھ لوں کہ وہ کیسے ہیں۔ تو جو مجھے معلوم ہو گا آپ کو بتا دوں گا۔ ان شاء اللہ۔



سوال نمبر 11:

حضرت جی! ابھی کھانے کے حوالے سے بات ہوئی، میرے سالوں کی انٹرنیٹ اور بلیئرڈ کی دکان ہے، میں نے کئی دفعہ بیگم کو کہا ہے کہ میں وہاں کا کھانا نہیں کھاؤں گا، لیکن وہ لڑنا شروع ہو جاتی ہے کہ اس طرح تو میں بھائیوں سے کٹ جاؤں گی، ایک سالا job بھی کرتا ہے چنانچہ گھر والے کہتے ہیں جب وہاں جاتے ہو تو یہ سمجھا کرو اس کی salary میں سے کھا رہے ہو۔ اس معاملے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

اس خاتون کو تو میں نے ایک generally solution بتایا تھا، آپ اس particular case میں کسی مفتی صاحب سے contact کر لیں جن پر آپ کو پورا اطمینان ہو اور یہ پورا case ان کے سامنے رکھیں پھر وہ آپ کو جو حل بتائیں اس پر عمل کریں۔ کیونکہ میں عموماً اس قسم کے سوالوں کے جوابات نہیں دیا کرتا کیونکہ یہ فقہی مسائل ہیں جن میں مفتی سے پوچھنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ لیکن جو وہ خاتون مجھ سے پوچھ رہی تھیں تو چونکہ خاتون کے لئے مفتی سے contact کرنا نسبتاً مشکل ہوتا ہے لہٰذا جتنا مجھے معلوم تھا میں نے انہیں بتا دیا۔ لیکن میرے خیال میں آپ کے لئے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ لہذا آپ کسی مفتی سے اپنا پورا حال بیان کر کے ان کی ہدایت پر عمل کریں۔ جتنی گنجائش ہو گی وہ آپ کو بتا دیں گے۔ البتہ احتیاط زیادہ بہتر ہے۔


سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، حضرت جی آپ کی برکت سے چند دنوں میں شکر کی توفیق عطا ہوئی ہے اور بہت زبردست کیفیت اللہ پاک نے آپ کی برکت سے عطا فرمائی ہے جس سے پورا جسم مٹھاس سی محسوس کرتا ہے۔ لہذا ایمان، آپ کے ساتھ تعلق، عافیت اور دنیاوی نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہوں، جن کا پہلے ادراک تک نہیں تھا۔ جیسے جیسے شکر ادا کرتا ہوں اتنا ہی اپنے آپ کو ناشکرا پاتا ہوں، پھر اس ناشکری پہ اللہ پاک سے میں توبہ کرتا ہوں، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ میں شکر دنیاوی نعمتوں کی بڑھوتری کے لئے کر رہا ہوں، اللہ کی رضا کے لئے نہیں، لیکن پھر اس خیال کو دل سے نکال دیتا ہوں۔ اللہ پاک آپ کی برکت سے مجھے اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ اللہ میرے نفس کی بہترین تربیت فرما دے۔ اللہ پاک آپ کی قدر دانی کی توفیق دے۔

جواب:

میں بھی اس پر آمین کہتا ہوں۔


سوال نمبر 13:

میرا ایک مہینے کا ذکر یہ تھا 200 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 400 مرتبہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 600 مرتبہ "حَق" اور 500 مرتبہ "اللہ"۔ تاہم اس کے ساتھ مراقبہ نہیں دیا تھا۔

جواب:

اب آپ اس کے ساتھ پانچ منٹ کے لئے یہ سوچیں کہ یہ جو میں اللہ اللہ کر رہا ہوں، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔

سوال نمبر 14:

گھر کی خواتین کو بیعت کروانا ہو تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟

جواب:

سب سے پہلے ان کو ہمارا خواتین کے لئے جو بیان ہو تا ہے اس میں لانا چاہیے تاکہ پہلے ان کا کچھ مزاج بن جائے۔ کیونکہ ایک ہے آپ کے کہنے پر بیعت کرنا، اس میں reaction کا مادہ ہوتا ہے جو نقصان دہ ہوتا ہے اور جو وہ خود convince ہو کر بیعت کرتی ہیں تو اس سے ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ لہذا ان کو آپ باقاعدگی کے ساتھ لاتے رہیں، ان شاء اللہ دوسری خواتین کو دیکھ دیکھ کر ان کو اس چیز سے مناسبت ہو جائے گی۔ ایک صاحب مجھ سے بیعت ہوئے جو کافی modern گھرانے کے تھے، انہوں نے مجھ سے بیعت کے ساتھ ہی پوچھ لیا کہ میری بیوی پردہ نہیں کرتی، کیا میں اس کو پردہ کرنے کے لئے کہہ دوں؟ میں نے کہا بالکل نہیں! آپ اس کو فی الحال صرف یہاں خواتین کے بیان میں لایا کریں، فی الحال آپ کا بس یہی کام ہے باقی کام آئندہ پر چھوڑ دیں۔ چنانچہ وہ سمجھ گئے، لہذا وہ باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے اتوار کے دن لاتے رہے، تین مہینے کے بعد ان کی بیوی نے خود کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ وہ بیعت ہو گئی اور بیعت ہونے کے ساتھ ہی اس نے مثالی پردہ شروع کر دیا۔ اور ایسا مثالی شرعی پردہ شروع کیا کہ ان کے ماموں وغیرہ کا ایسے لوگوں سے تعلق تھا جو ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے تو جب اس نے پردہ شروع کیا تو انہوں نے کہا: کمال ہے، شیخ سے پردہ نہیں ہوتا؟ صرف دوسروں لوگوں سے پردہ ہے؟ ان کا خیال تھا کہ ان کے پیر بھی دوسرے عام پیروں کی طرح ہوں گے، تو خاتون نے کہا کہ ہم نے تو پردہ سیکھا ہی ان سے ہے، ان سے پردہ کیوں نہیں ہو گا؟ ان کی خواتین تو خود پردہ کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ بھی قائل ہو گئے، پھر انہوں نے مجھے بیان کے لئے بلایا، چنانچہ میں ان کے ہاں بیان کے لئے گیا۔ میرا خیال ہے ان کے تقریباً 80، 90 فیصد حضرات خود ہی بیعت ہو گئے۔ حالانکہ پہلے ان کی ہمارے ساتھ مناسبت بھی نہیں تھی بلکہ وہ جن لوگوں سے متعلق تھے وہ نہ ہمیں اچھا سمجھتے ہیں، نہ ہم ان کے قریب تھے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ان کو بات سمجھ آ گئی۔ لہذا یہ طریقہ ان شاء اللہ زیادہ بہتر رہے گا۔


سوال نمبر 15:

حضرت کبھی کبھار مراقبہ کے اندر محسوسات وغیرہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں جب real life میں کوئی چیز ہوتی ہے تو آدمی یہ سوچتا ہے کہ یہ چیز تو مراقبہ میں آئی تھی۔ اس کا کیا کرنا چاہیے؟ خیال رکھنا چاہیے؟

(سوال) آپ کا مراقبہ کیا ہے؟

(جواب) دل کا مراقبہ تھا جو مجھے خود نہیں یاد کہ کونسے پہ تھا۔

(سوال) اب نہیں کرتے؟

(جواب) نہیں۔

جواب:

پھر چھوڑ دیں۔ Forget about it. It was the thing of the past

ان شاء اللہ We shall think about future


سوال نمبر 16:

السلام علیکم (حضرت:وعلیکم السلام) میں آپ سے کافی عرصہ پہلے سے بیعت ہوں لیکن کچھ معاملات اس طرح کے رہے جن کی وجہ سے مسلسل آنا مشکل تھا، اور ان معاملات کو چلانا دل کی غفلت کی وجہ سے ممکن نہ رہ سکا۔ کافی عرصہ تک میرے تہجد کے معمولات بھی تھے جو درمیان میں کچھ عرصے کے لئے چھوٹ گئے تھے، اس کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توفیق دی ہوئی ہے، لیکن میں چونکہ سائنس دان بھی ہوں۔

(حضرت) آپ کی field کیا ہے؟

(سائل) میری فیلڈ لیزر آپٹکس ہے اور میں O-labs میں کام کرتا ہوں، اب کچھ عرصے سے میری کیفیت بہت بے چینی والی ہے، جو میں خود بھی سمجھ نہیں پا رہا، میں اللہ کو محسوس کرنا چاہتا ہوں، رات کے اندھیرے میں محسوس کرنا چاہتا ہوں، میرا دل اندر سے مجھے یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرو۔ میں کر بھی رہا ہوں الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے، میرے ادارے میں کافی اچھے بڑے کام ایسے ہوئے ہیں جن سے ان کو بھی محسوس ہوتا ہے اور مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توفیق دی ہے۔ یہ ساری توفیقات اللہ تعالیٰ نے نفلوں کے ذریعہ سے ہی دی ہیں، کیونکہ وہ کام ایسے تھے جو تیس، تیس سالوں سے ہماری lab میں پھنسے ہوئے تھے، وہ میں نے نفل ادا کر کے کئے، جہاں پھنسا رہتا تھا تین تین مہینے پھنسا رہتا، البتہ نفلوں کی برکات سے اللہ تعالیٰ نے توفیق دے دی۔ اب ایسی حالت ہے جیسے میں ایک بیابان کے اندر گھوم رہا ہوں، بے چینی حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے، آج کل میرا دل پھٹنے کو ہو رہا ہے، بے چینی بے تحاشا ہو رہی ہے، اللہ کی یاد میں کبھی کبھار ایسے آنسو بہتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کروں، کیسے ان کو سمیٹوں اور کیسے اللہ کو محسوس کروں۔ اس حالت میں کافی دنوں سے بے چینی کی حالت میں تھا اور دل آپ کی طرف مسلسل کھنچ رہا تھا۔ آج میں دفتر سے پہنچا ہوں، میری اہلیہ کے دنیاوی معاملات تھوڑے زیادہ ہیں جس سے میری رکاوٹ بڑھ جاتی ہے۔ آج میں بار بار اللہ سے دعا کرتا رہا کہ اے اللہ! شیطان کو میرے اوپر حاوی نہ کرنا۔ کیونکہ آج میں نے آپ کے پاس آنا تھا اپنی اس گزارش اور اس بیماری کے لئے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے استقامت نصیب ہو جائے کیونکہ کسی بھی کام میں سب سے مشکل استقامت ہوتی ہے۔ یہ حالت انسان پہ آتی ہے، کچھ عرصہ انسان اس پہ خوش بھی ہوتا ہے، پھر ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہم سے نکل جاتی ہے۔ میں اللہ سے مسلسل یہ دعا کر رہا ہوں اے اللہ! جو کیفیت رات کے کسی لمحے میں تہجد کے اندر نصیب ہوتی ہے وہ آنکھ بند ہونے تک نصیب ہو جائے۔ (آمین) اور دنیا دل سے نکل جائے اس کے لئے میں آپ کے پاس آج دوبارہ حاضر ہوا ہوں کہ اب آپ مجھے مسلسل اپنی نگرانی میں رکھیں۔

جواب:

یہ آپ نے وہ باتیں بتائی ہیں جو میں لوگوں کو عموماً بتایا کرتا ہوں یعنی امت کی گمشدہ گرہ جو کبھی امت کے پاس تھی وہ آپ کو اللہ پاک نے مفت میں عطا فرما دی ہے، اللہ پاک آپ کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ گمشدہ گرہ ہے تہجد میں اور نوافل کے ذریعے سے اللہ پاک سے مانگنا۔ چنانچہ جب لوگ ہمارے پاس تعویذوں اور وظائف وغیرہ کے لئے آتے ہیں تو ہم ان کو یہی بتاتے ہیں کہ اللہ پاک سے مانگو، تہجد کے ذریعے سے مانگو، نمازوں کی دعا کے ذریعے مانگو، نوافل میں مانگو، نوافل میں مانگنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے ان کو ٹال دیا ہو، گویا میں ان کو صحیح بات نہیں بتا رہا۔ یہ صرف ان کی ناسمجھی ہے حالانکہ اصل چیز تو یہی ہے۔ جیسے اللہ پاک نے آپ کے اوپر یہ کھول دیا کہ اللہ پاک اس کے ذریعہ سے دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ مثلاً آپ کو کسی کان سے ایک diamond مل گیا ہو، تو ایک یہ diamond ہے جو الگ چیز ہے۔ لیکن جو diamond اس سے بنتا ہے اس کے لئے ایک باقاعدہ محنت ہوتی ہے، بے قاعدہ محنت سے نہیں بنتا۔ لہذا اگر آپ اس کے اوپر بے قاعدہ ہتوڑے مارنا شروع کر دیں یا آریاں چلانا شروع کر دیں تو وہ diamond نہیں بنے گا بلکہ ضائع ہو جائے گا۔

It’s some regular activity on it which is required to make it a reasonable diamond.

اسی طرح سلوک بھی ایک باقاعدہ طریقہ ہے، بے قاعدہ نہیں ہے کہ کبھی کچھ کر لیا، کبھی کچھ کر لیا۔ اگرچہ آپ کو کیفیات بے قاعدہ طریقے سے بھی مل جائیں گی لیکن آپ کے مطلوبہ مقاصد حل نہیں ہوں گے، کیونکہ hazard condition ہو گی اور hazard condition میں یہ چیزیں نہیں ملا کرتیں، لہذا آپ کو ایک regular طریقے پہ آنا پڑے گا۔ نیز الحمد للہ ہم نے سائنس دانوں کے لئے ایک forum شروع کیا ہے، آپ جلال صاحب سے مل لیں اور انہیں کہہ دیں کہ وہ آپ کو سائنس و معرفت کے گروپ میں شامل کر لیں۔ اس میں ہم سائنس سے متعلق مذہب کی information شئر کرتے رہتے ہیں، چنانچہ آپ کا ایک کام تو اس میں ہو جائے گا کہ آپ اس گروپ میں settle ہو جائیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سائنس دان اس میں آئیں اور اللہ تعالٰی کی معرفت کو سائنس کے ذریعے سے بھی حاصل کریں۔ کیونکہ اللہ پاک نے اس کی دعوت دی ہے: ﴿إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيٰتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ اَلَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:190-191) کائنات کی تخلیق میں غور کرنا سائنس ہی تو ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ ذکر کے بغیر یہ چیز حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ اس سے آپ کے دنیاوی مقاصد تو حل ہو جائیں گے لیکن اصل چیز آپ کو ذکر کے ذریعے سے ہی ملے گی۔ لہذا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سائنسدانوں میں یہ چیز پیدا کریں، کیونکہ وہ ٪50 محنت تو کر ہی رہے ہیں، ٪50 اور شامل ہو جائے تو ان کا ایک result اور fruit آنا شروع ہو جائے گا، دنیا بھی اچھی ہو جائے گی اور آخرت بھی اچھی ہو جائے گی۔ اسی کے لئے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تین باتیں ہو گئیں۔ اب میں اصل بات پہ آتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ ذکر اذکار کو باقاعدگی سے شروع کریں، جب وہ ایک خاص حد تک پہنچ جائے تو اس کے بعد سلوک طے کرنے کی باری آتی ہے جو کہ اصل چیز ہے۔ ذکر اذکار صرف اس تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں کہ آپ کے اندر اتنا شوق پیدا ہو جائے کہ آپ سلوک کے لئے تیار ہو جائیں۔

حضرت کا سائل سے سوال: کیا آپ نے ابتداٸی ذکر کیا تھا؟

سائل کا جواب: جی کیا تھا۔

کہاں تک پہنچا تھا؟

سائل کا جواب: چالیس دن والا پورا کیا تھا۔

لہذا اب ہم جو ذکر کریں گے وہ آپ ہمارے ساتھ کر ہی لیں گے، پھر وہی آپ نے روزانہ کرنا ہے، اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ روزانہ کرنا ہے۔ یہ دو چیزیں آپ روزانہ کریں، لیکن پہلا ذکر ایک مہینہ کے لئے ہے۔ جب کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار عمر بھر کے لئے ہے۔ لہذا پہلے والا ذکر ایک مہینے کے بعد تبدیل ہو جائے گا، پھر آپ مجھے regularly اپنی information دیتے رہیں، چاہے whatsapp کے ذریعے سے دیتے رہیں، اور جب موقع ملے تو آپ تشریف لے آیا کریں۔ کیونکہ آنے سے جو ملتا ہے وہ دور سے ملنا مشکل ہوتا ہے، سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کے بغیر نہیں ملتا۔

جب کہ خوابوں میں در اصل آپ کو بلایا جا رہا تھا کہ دور نہ رہیں بلکہ قریب ہو جائیں، کیونکہ خواب میں شیخ کا دیکھنا دراصل سلسلے کی طرف سے ہوتا ہے، گویا سلسلے کی طرف سے attraction ہو رہی ہوتی ہے اور آپ کو کھینچا جا رہا ہوتا ہے کہ آپ اور آگے آ جائیں۔


سوال نمبر 18:

کل میں ایک سفر میں جا رہا تھا، مجھے اپنے دل میں ایک بڑی نرمی سی محسوس ہوئی اور مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں اپنے شیخ سے روحانی طور پہ باتیں کر رہا ہوں۔

جواب:

وہ تصورِ شیخ تھا، اور تصور شیخ دو طرح کا ہوتا ہے ایک deliberately ہوتا ہے اور دوسرا خود بخود ملتا ہے۔ تاہم deliberately آج کل نہیں دیا جاتا کیونکہ آج کل لوگوں کی طبیعت میں سلامتی نہیں ہے لہذا وہ اس سے کچھ اور چیزوں کی طرف نکل جاتے ہیں، لیکن جو خود بخود ہوتا ہے وہ منجانب اللہ ہوتا ہے جو شیخ کے ساتھ connect کرنے کا ایک راستہ ہوتا ہے جو مبارک ہے۔


سوال نمبر 19:

میاں بیوی کے مزاجوں کا ملنا ایک بڑا مشکل عمل ہے اور آپ سے بیعت ہونے سے پہلے میرا مزاج بہت غصہ والا اور ضد والا تھا۔ اس کے بعد سے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے کسی بھی چیز کو معاف کر دینا بہت بڑا عمل ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ رہی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات حالات ایسی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں جن میں انسان یہ سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی بے قابو ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

(حضرت: یہ نفس کی وجہ سے ہوتا ہے، اصل میں سوجھ بوجھ عقل میں ہوتی ہے اور نفس اپنے طور پر ہوتا ہے)

اس میں سب سے خطرناک معاملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری باتیں غصہ کے اندر میرے ذہن میں ہوتی ہیں جیسے اگر اہلیہ سے کوئی چپقلش ہو گئی ہو یا کسی بات پہ ناراضگی ہو گئی ہو تو غصے میں ہٹ بھی جاتا ہوں، لیکن خواتین بعض اوقات اس چیز سے چمٹ جاتی ہیں اور وہ ایسے چمٹ جاتی ہیں کہ آپ جدھر جائیں آپ کے پیچھے پیچھے چمٹے ہوئے آپ کے دماغ کو مسلسل اشتعال دلانے کی کوشش کرتی ہیں، اس میں دوسری چیز یہ ہے کہ مثلاً میں اپنی اہلیہ کو آپ کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کرتا ہوں یا نماز کے اندر اس کی کمزوری ہے تو اس حوالے ترغیب دیتا ہوں۔ صبح کی نماز کے لئے اپنے بچوں کو تو میں الحمد للہ اٹھاتا ہوں وہ نماز پڑھتے ہیں، اور مساجد کی طرف آتے جاتے ان کے ساتھ میں تھوڑی discussion بھی کرتا ہوں۔ لیکن اہلیہ کا مزاج چونکہ بہت مختلف ہے اور بعض اوقات نماز کے لئے اٹھتے ہوئے ہر وقت غصہ ہو جاتی ہے اور جیسے شیطان بہت زیادہ حاوی ہو جاتا ہو۔ اس حالت میں انسان غصے کو قابو کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، اس کے باوجود وہ پیچھے لگ کر آپ کے قابو سے باہر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ انسان اس طرح کے معاملے میں خواتین کو کیسے اس طرف لائے کہ ان کے اندر یہ عجز اور یہ چیزیں پیدا ہو سکیں۔

جواب:

اصل میں خواتین کے بارے میں تو special remarks ہیں کہ یہ ٹیڑھی پسلی سے ہیں اس لئے ان کو اگر by force سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ٹوٹ جائیں گی لیکن سیدھی نہیں ہو سکتیں، اس لئے ان کے ساتھ technical deal کرنی ہوتی ہے، ایک طریقۂ کار کے ساتھ۔ لہذا سب سے پہلے جیسے میں نے ابھی ایک خاتون کی مثال دی ہے جو تین مہینے آتی رہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر وہ ساری چیزیں کھول دیں اور اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہر مسئلے میں full cooperate کرتی ہیں۔ تو آپ بھی اسی طرح کر لیں، چنانچہ ہمارے ہاں next اتوار کو خواتین کا جوڑ ہے، جو نو بجے سے لے کے بارہ بجے تک ہو گا۔ اس لئے آپ ان کو کسی طریقے سے تیار کر لیں کہ چلیں آپ ذرا دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے۔ یعنی غصے سے نہیں بلکہ بہت polite اور نارمل طریقے سے ان کو یہاں لائیں۔ نیز بیوی کو خوش کرنے کے لئے جائز دنیاوی طریقے بھی انسان اختیار کر سکتا ہے۔ اور خواتین میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ دنیاوی چیزوں سے خوش بھی جلدی ہو جاتی ہیں، بہت معمولی سی چیزیں ہوتی ہیں لیکن اگر ان کے مزاج کے مطابق آپ کر لیں تو ان میں وقتی خوشی کم از کم لائی جا سکتی ہے۔

تاہم ہر گھر کے اندر تھوڑی بہت misunderstanding create ہو جاتی ہے شیطان کا بھی role ہوتا ہے، لہذا اس کو technically طریقے سے handle کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے گھر والوں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی بھی آپس میں لڑائی ہوتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں! یہ تو ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پوچھا: پھر کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: وہ غصے میں ہوں تو میں چپ ہو جاتی ہوں، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ اس وقت میں اگر کچھ کہوں گی تو بات بڑھ جائے گی اور جب میں غصہ میں ہوتی ہوں تو وہ کوئی بات کر کے مجھے ہنسا دیتے ہیں۔ تو وہ بڑے حیران ہو گئے۔ چنانچہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو اس چیز کو divert کر سکے۔ جس سے ان شاء اللہ آہستہ آہستہ معاملہ سدھر جاتا ہے۔ کیونکہ یہ person to person vary کرتا ہے اس لئے ایک solution سب کے لئے نہیں ہوتا۔ البتہ جو طریقہ انسان اختیار کر سکتا ہو اسے آہستہ آہستہ اختیار کرے۔ اور جو آپ فرما رہے ہیں کہ وہ چمٹ جاتی ہیں یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ وہ ہر وقت excited mode میں ہوتی ہیں لیکن ایسی صورت حال میں اس condition کو divert کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے، بجائے اس کے کہ ان کو response دیا جائے، ان کو divert کرنے کی کوشش کی جائے تو اللہ سے امید ہے اچھے نتائج بر آمد ہوں گے۔


سوال نمبر 20:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سر پر تا دیر قائم رکھے، بڑی کوشش سے موبائل سے جان چھڑائی تھی رات کو سونے سے پہلے۔ سوچا تھا کہ خود پہ قابو پا لوں مگر یہ اب ناگ بن کر سینے پر سوار ہو جاتا ہے جس سے سارے معمولات متاثر ہو جاتے ہیں، نیند کا غلبہ رہتا ہے اور فجر کی نماز کے لئے بھی آنکھ نہیں کھلتی، تہجد تو دور کی بات ہے۔

جواب:

یہ آپ نے بالکل صحیح صورت حال بتائی ہے کیونکہ یہ آج کل تمام قسم کی سستیوں کی بیماریوں کی جڑ ہے، لہذا اس کے لئے طریقہ یہ اختیار کیا جائے کہ اگر کسی کے اوپر یہ اتنا سوار ہو تو اسے ہر وقت اپنے پاس نہ رکھے، بلکہ صرف ایک گھنٹہ کے لئے رکھیں messaging کرنے یا message دیکھنے کے لئے، اور اپنے جاننے والے کو بتا دیں کہ میرے پاس صرف ایک گھنٹہ موبائل ہوتا ہے، اگر فون کرنا ہو تو اسی میں کریں۔ چنانچہ دیگر اوقات میں اس کو silent رکھیں۔ یوں آپ ان شاء اللہ اس سے بچیں گی، کیونکہ بیماری کو full طور پہ کنٹرول کرنا ہوتا ہے ورنہ یہ تھوڑی تھوڑی کنٹرول نہیں ہوتی بلکہ دوبارہ واپس آتی ہے۔ چنانچہ ایک گھنٹہ آپ اس کو دیں جس میں آپ کالز اور میسجز receive بھی کریں اور send بھی کریں۔ جیسے ہم جانتے ہیں کہ شوگر کے مریضوں کے علاج میں یہ بھی ہوتا ہے کہ 22 گھنٹوں میں صرف ایک دفعہ کھانا کھانا بتایا جاتا ہے، اور بعض لوگوں کو 48 گھنٹے میں صرف ایک دفعہ کھانا بتایا جاتا ہے، جس سے وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ علاج کے لئے اس قسم کی چیزوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لہذا آپ صرف ایک گھنٹے کے لئے اس کو استعمال کریں اور اس کے علاوہ اپنے پاس نہ رکھیں، یا silent کر کے اپنی الماری وغیرہ میں رکھ دیا کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ میرا صرف یہی ٹائم ہے لہذا اگر مجھے کوئی میسج یا ٹیلیفون وغیرہ کرنا ہو تو اس وقت میں کر سکتے ہیں کسی اور وقت میں نہیں۔