خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! احوال: الحمد للہ حضرت صاحب روزانہ کے معمولات ٹھیک جا رہے ہیں، حضرت کچھ دنوں سے کافی پریشان ہوں، گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے، نماز میں رکعات کا پتا نہیں چلتا کہ تین رکعات پڑھی ہیں یا چار پڑھی ہیں۔ آپ نے جو علاجی ذکر دیا تھا، مسلسل 5 مہینے سے وہی ہے۔
"لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا اللہُ" 400 مرتبہ، "اَللہُ ھُو اَللہ" 600 مرتبہ اور "اللہ" 1500 مرتبہ۔ مراقبہ لطیفۂ قلب 5 منٹ، لطیفۂ روح 5 منٹ، لطیفۂ سر 5 منٹ، لطیفۂ خفی 5 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 10 منٹ۔ اور اس کے ساتھ یہ محسوس کرنا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے قلب سے میرے شیخ کے قلب پر فیض آ رہا ہے اور میرے شیخ کے قلب سے میرے دل پہ آ رہا ہے۔
جواب:
جو ذکر آپ کر رہے ہیں اس میں تھوڑی تصحیح کی ضرورت ہے، اچھا ہوا کہ آپ نے لکھ کر بھیجا ہے کیونکہ اس سے بعض دفعہ پتا چل جاتا ہے کہ آپ نے کس چیز سے کیا سمجھا ہے۔ آپ نے لکھا ہے "اَللہُ ھُو اَللہ" یہ ایسے نہیں ہے بلکہ یہ "اللہُ اللہ" ہے یعنی "ہ" کے اوپر پیش ہے۔ اور "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا اللہ" 400 مرتبہ "اللہُ اللہ" 600 مرتبہ اور "اللہ" 1500 مرتبہ۔ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفٰی پہلے چاروں لطیفوں پہ 5 منٹ اور آخری پہ 10 منٹ ہیں تو آپ اس پر بھی چاہے 5 منٹ کر لیں اور آپ نے 10 منٹ کا جو مراقبہ احدیت بتایا ہے، اب آپ اسے 10 منٹ کی جگہ 15 منٹ کر لیں۔ یہ مراقبہ احدیت کہلاتا ہے لیکن آپ نے پورا نہیں لکھا، اس میں آپ نے یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات عالی سے (جیسے کہ اس کی شان ہے) فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پہ آ رہا ہے۔ اور لطیفۂ خفی پر بھی 5 منٹ کر سکتی ہیں جو ایک مہینہ کر لیں اور گھبرائیں نہیں۔ اس میں اگر کسی کو شک ہوتا ہو تو علماء کرام فرماتے ہیں کہ وہ ظنِ غالب پر عمل کریں۔ ظنِ غالب کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو جس بات پر زیادہ یقین ہو اس پر عمل کر لیں، جیسے اگر آپ کا تین پر زیادہ یقین ہے تو تین ہی سمجھیں اور اگر چار پر یقین ہے تو چار سمجھیں، کیونکہ ایسی صورت میں شکی آدمی کے لئے ظنِ غالب کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ عام آدمیوں کے لئے ایسا نہیں ہوتا، ان کا طریقہ کار الگ ہے۔ لہذا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ چیزیں انسانی زندگی کا حصہ ہیں، بیماریاں بھی ہوتی ہیں، پریشانیاں بھی آتی ہیں، تکالیف بھی ہوتی ہیں، انہی میں انسان کو اللہ پاک کا حکم پورا کرنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی اصلاح فرمائے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی اپنے شیخ سے ملنے والے مجاہدات پر علاجی نیت کرنا ہوتی ہے یا ثوابی؟ حضرت جی کوتاہیوں پر معافی کا طلب گار ہوں۔
جواب:
علاجی مجاہدات میں علاجی کی نیت کرنی ہوتی ہے، کیونکہ مجاہدہ شرعی اور مجاہدہ علاجی میں فرق ہے، مجاہدہ علاجی دین نہیں ہے بلکہ دین پر چلنے کے لئے ذریعہ ہے، لہذا اس میں ثواب نہیں ہے، علاج ہے۔ البتہ اس علاج سے اگر آپ کی چیزیں درست ہو گئیں تو اس سے ہر چیز کا ثواب کئی گنا بڑھ جائے گا، گویا indirect طریقے سے اس کا ثواب ملتا ہے، اور direct علاجی ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔ وظیفہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھوُ" 400 مرتبہ، اور "حَق" 600 مرتبہ، "اللہ" 500 مرتبہ اور مراقبہ 5 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفٰی۔ اور 15 منٹ یہ تصور کرنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک اور وہاں سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے دل پر آ رہا ہے، 30 دن کے لئے الحمد للہ مکمل ہو گیا۔ حضرت جی کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی، البتہ یہ احساس کافی دفعہ ہوا ہے کہ اللہ رب العزت کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ مجھے مسلمان پیدا کیا، ورنہ میرا کیا ہوتا؟ میں تو صرف اس کا ہی شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ حضرت جی اللہ پاک کی توفیق سے مفتی تقی عثمانی صاحب کی قرآن مجید کی تفسیر مکمل پڑھ لی ہے۔ اللہ ہم سب کو قرآن پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین
جواب:
در اصل فیض سے انسان کو دین پر چلنے میں فائدہ ہوتا ہے، یعنی جس چیز سے آپ کو دین پر چلنے میں فائدہ پہنچے تو وہ فیض ہے، وہ چاہے آپ کو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے یا آپ ﷺ کے ذریعے سے ملے یا شیخ کے ذریعے سے ملے یا کسی کتاب سے ملے، یہ ساری چیزیں فیوضات ہیں۔ جیسے ہم یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ سب کے فیوض و برکات ہمیں نصیب فرما دے۔ چنانچہ اللہ پاک نے آپ کو ان اعمال کی جو توفیق دی ہے یہ بھی فیض ہی ہے۔ اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا بھی فیض ہے، کیونکہ شیطان شکر سے ہٹاتا ہے اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ شکر سے انسان کو ہٹائے۔ اور اللہ پاک نے آپ کو اس سے بچایا اور شکر آپ نے ادا کیا تو یہ فیض ہے۔ لہذا مزید شکر کیجئے۔ اور چونکہ مراقبہ احدیت تو آپ نے کر لیا ہے لہذا اب وہی آپ 5، 5 منٹ کے لطائف اور ذکر بھی جاری رکھیں۔ اس کے بعد آپ پہلا مشرب یعنی ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج -16) کا مراقبہ کر لیں جسے تجلیاتِ افعالیہ بھی کہتے ہیں۔ یعنی تجلیاتِ افعالیہ کا خاص فیض (کہ ہر کام اللہ پاک کرتے ہیں) آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ قلب پر آ رہا ہے، یہ پہلا مشرب ہے۔ اور اس کو تجلیاتِ افعالیہ کا مشرب بھی کہتے ہیں۔ اور تجلیاتِ افعالیہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ سب کچھ کرتے ہیں، اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔
سوال نمبر 4:
حضرت پیر مرشد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! الحمد للہ آپ کی دعاؤں کی برکت سے ذکر اذکار، تہجد اور تعلیم جاری ہے۔ اطلاع کی تاخیر پر معذرت۔ میرا سبق صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ ہے جس میں یہ محسوس کرنا ہے کہ جنابِ رسول کریم ﷺ کے سینہ مبارک سے فیض میرے مرشد کے سینہ مبارک پر اور مرشد کے سینے سے میرے سینے پہ آ رہا ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔
جواب:
اس کو ذرا بہتر کرنا پڑے گا، یہ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ ہی ہے البتہ سمجھنے کے لئے آپ اس کو اس طرح کہیں کہ انسانی صفات در اصل اللہ تعالیٰ کی صفات کا آئینہ ہیں۔ یعنی ان میں ہمیں اللہ پاک کی صفات محسوس ہو سکتی ہیں، جیسے ہم دیکھتے ہیں اور اللہ بھی دیکھتا ہے لیکن اس کا دیکھنا بغیر واسطے کے ہے اور کامل ہے۔ ہم سنتے ہیں اور اللہ بھی سنتے ہیں لیکن اللہ کا سننا بغیر واسطے کے ہے اور کامل ہے۔ اس طرح باقی چھ صفات ہیں۔ چنانچہ اس میں تصور کرنا ہے کہ صفاتِ ثبوتیہ کا یہ جو ادراک ہے اس کا فیض اللہ جل شانہ کی شانِ عالی سے (جیسے کہ اس کی شان ہے) آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پہ آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب اطہر سے آپ کے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ یہ آپ نے 15 منٹ کے لئے کرنا ہے۔ چونکہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی ہوئی ہے لہذا اس کو آپ ایک مہینہ مزید کر لیں اور میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ ایک سہ روزے کے لئے یہاں آ جائیں تو ان شاء اللہ زیادہ بہتر ہو گا۔ کیونکہ بہت ساری چیزوں کو ابھی سمجھنے کی ضرروت ہے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت کیا حال ہے؟ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 دفعہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 دفعہ اور "اللہ" 2000 مرتبہ مہینے سے زیادہ ہوا ہے۔ آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
اب آپ 2500 مرتبہ "اللہ" کر لیں اور باقی ساری چیزیں وہی ہوں گی۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم! حضرت جی میں پشاور سے فلاں بات کر رہی ہوں، حضرت جی میری دو بیٹیاں دو ماہ پہلے آپ سے بیعت ہوئی ہیں، آپ نے ان کو ،10 10 منٹ لطیفۂ قلب پر ذکر دیا تھا، میری چھوٹی بیٹی جو computer science میں first year کی طالبہ ہے اس نے مجھے بتایا کہ اسے قلب میں حرکت محسوس ہو رہی ہے (حضرت: خواتین کا معاملہ بڑا آسان ہے) مراقبے میں بھی اور مراقبے کے علاوہ بھی، بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں بھی حرکت محسوس ہو رہی ہے، پھر بند ہو جاتی ہے، کبھی آہستہ اور کبھی تیز، حالانکہ میری بیٹی باقاعدگی سے مراقبہ بھی نہیں کر پاتی، لیکن میں ساتھ ساتھ اسے سمجھاتی رہتی ہوں اور جب کرتی ہے تو پھر بہت شوق اور توجہ سے کرتی ہے، ابھی کچھ دن پہلے اس نے خواب دیکھا کہ لباس میں ملبوس شخص ایک ہے جن کی سفید لمبی سی داڑھی بھی تھی۔ ان کا قلب پر ایک ہاتھ تھا اور ہاتھ کی پانچوں انگلیوں پر تمام پانچوں لطائف کے نام لگے ہوئے تھے، اور ان سے نور نکل رہا تھا اور اس سے ہر طرف سفید روشنی تھی۔ یہ خواب میں نے آپ کو بتانا ضروری سمجھا۔ بڑی بیٹی بھی مراقبہ کر رہی ہے تاہم کبھی کبھی کرتی ہے، لیکن اب آہستہ آہستہ دونوں باقاعدگی سے کرنے لگی ہیں۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ دونوں کو بغیر ناغے کے مراقبہ کرنے کی ضرور توفیق ملے گی۔
جواب:
ماشاء اللہ! ہمارے اوپر مسلسل اللہ پاک کا فضل ہو رہا ہے۔ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سلسلے کی طرف سے آپ کی بیٹی کو الحمد للہ توجہ حاصل ہے اور اس کو پانچوں لطائف کی افادیت بتائی گئی ہے اور وہ ان شاء اللہ اسی کے ذریعے سے روشنی حاصل کرے گی اور اسے فیض ملے گا، لہذا جو مراقبہ وہ کر رہی ہیں اسی کو جاری رکھیں، مجھے نہیں معلوم کہ اس کے کتنے دن ہو گئے ہیں، چنانچہ اگر اس کو ایک مہینہ ہو چکا ہے تو آپ ان کو اگلا لطیفۂ بتا دیں جسے وہ 10 منٹ کر لیں یعنی اسی طرح 10 منٹ ہی لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پہ کر لیں۔ اور بڑی بیٹی کو بھی کہہ دیں کہ باقاعدگی کے ساتھ مراقبہ شروع کریں۔ اللہ تعالیٰ مہربانی فرمائے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم حضرت جی
I have been blessed with the baby boy.
اللہ کا شکر ہے، ماں اور بچہ دونوں ٹھیک ہیں، دعاؤں کا بہت بہت شکریہ۔ حضرت جی
Advise some good Muslim name recommendations and guide me that what should be considered with naming the baby?
جواب:
نام اچھا رکھنا چاہیے، کیونکہ یہ بچے کا والدین کے اوپر پہلا حق ہوتا ہے، اور بہتر نام وہ ہے جو اللہ جل شانہ کے نام کے ساتھ ملا کر رکھا جاتا ہے، جیسے عبد اللہ، عبد الرحمن، عبد الودود وغیرہ۔ اور اس کے بعد آپ ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ جو نام ہیں، پھر صحابہ کے نام، یا گزشتہ انبیاء کرام کے نام کے ساتھ جو نام آتے ہیں۔ لیکن پہلے ذرا یہ بتائیں کہ آپ کے گھر میں کس قسم کے نام چل رہے ہیں تا کہ اسی حساب سے آپ کو بتا دیا جائے، بہرحال ان میں سے کوئی بھی اچھا نام آپ رکھ سکتے ہیں، اور یہ آپ پر آپ کے بچے کا حق ہے کہ آپ اس کا اچھا نام رکھیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم Sir! الحمد اللہ I am getting regular gradually. For three nights, I got drowsiness and slept. Last year I also had my thyroid test. The result came back fine. Starting again as it seems that I get conscious may be due to being busy in a household. I have to get concentration during saying Allah Allah. Even earlier when I started, it was for the first time I was able to concentrate. Now maybe not due to Abdul Rahman's exam preparation. I felt these are my exams. I have to control my panic. That's another problem where I have to calm myself .الحمد اللہ I am able to manage my time. I am grateful to اللہ سبحانہ و تعالیٰ that I left school on time to be able to do what is my responsibility. The last is overcoming fitnas, reciting manzil as well. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ protect our ایمان and bless us here and in the hereafter! In the morning, it came to my mind that now I have no time. I should talk to everyone and pray for wisdom so as to avoid anyone’s taunting words as I told you that our relatives from both sides did our negative publicity. We as a family should have a happy life. I should avoid anger, backbiting and now I am feeling calm. I kept on doing the ذکر and مراقبہ with this is in my mind that اللہ سبحانہ و تعالیٰ will ان شاء اللہ make my heart softer. I told you that I have to get the concentration. Allah knows my intention. Do remember me and my family in your dua’s!
جواب:
ماشاء اللہ! اچھی بات ہے، الحمد للہ آپ کوشش کر رہی ہیں اور اس کوشش کو جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔ البتہ آپ دو کام ضرور کر لیں ایک یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری سے کبھی بھی انحراف نہ کریں، جو ذمہ داری آپ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر کی دی ہے، اپنے بچوں کی دی ہے اس کو آپ ضرور نبھائیں، لیکن وہ ذمہ داری اپنے سر کے اوپر سوار نہ کریں، اپنے حصے کا کام کرتی جائیں، جو آپ کے ذمے due ہے وہ کریں اور جو آپ کے ذمے due نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اسے اپنے ذمے نہ لیں، وہ ہمارا کام نہیں ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔ لہذا جس وقت آپ ذکر کر رہی ہوں یا مراقبہ کر رہی ہوں تو اس وقت بھول جائیں کہ میں کوئی اور کام بھی کروں گی، وہ ٹائم آپ نے اس کو دیا ہے اس میں آپ وہی کریں، اور دوسرے کام اسی کے وقت میں کریں، جیسے کھانے کے وقت کھانا، نماز کے وقت نماز۔ اسی طرح اگر کوئی اور دنیاوی کام ہو تو اسے بھی اس کے وقت میں صحیح طریقے سے شریعت کے مطابق کریں۔ یعنی چیزوں کو mix نہ کریں، کیونکہ ایسی صورت میں جب بھی آپ کو کوئی ضروری دنیاوی کام پیش آئے گا تو آپ کے دینی کام کا حرج ہو گا، جو کہ درست طرز عمل نہیں ہے، اس سے نقصان ہوتا ہے۔ جیسے یہاں ہماری مجلس کے دوران میں کچھ لوگ وضو کے لئے اٹھ جایا کرتے تھے جو ان کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے لئے کوئی بھی اٹھ سکتا ہے، کسی طرح مجھے یہ بات پہنچائی گئی کہ ان کو بتا دیں کہ وضو کے لئے ٹائم دیا جائے گا درمیان میں نہ اٹھا کریں، اس لئے کہ یہ اعراض کی صورت بنتی ہے۔ جب کہ یہ دین کا کام ہے اور دین کے کام سے اعراض کی صورت نہیں بننی چاہیے۔ گویا یہاں صورت سے بھی روکا جا رہا ہے تو اگر حقیقت میں اعراض ہو تو اور بھی خطرناک بات ہے، لہذا جب آپ دین کا کام کر رہی ہوں تو اس میں دنیا کی سوچ نہ لائیں۔ جیسے جب آپ نے نماز کی نیت باندھ لی، تو بے شک پورا دن آپ دنیا کے کام کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت تو آپ نہیں کر سکتیں، لہذا آپ نے یہی کام کرنا ہے اس لئے اس وقت آپ بھول جائیں کہ میں نے کچھ اور کام بھی کرنا ہے، صرف اور صرف نماز ہی پڑھنی ہے، نماز پڑھنے کے بعد ان کاموں کو دعا میں خوب یاد رکھیں۔ دعا میں آپ کی ہمت ہے جتنا بھی یاد رکھ سکیں، دعا میں اللہ تعالیٰ آپ کو نہیں روکیں گے، بلکہ جب آپ اللہ تعالیٰ سے مانگیں گی تو اللہ تعالی خوش ہوں گے۔ بہرحال جو کام جس وقت کا ہے اسی میں کیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی معاملے میں اپنے بس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر نہ ڈالیں۔ کیونکہ اس سے آپ کے حواس اور آپ کے اعصاب متاثر ہو جائیں گے۔ ہماری کیا حیثیت ہے، آپ ﷺ سے اللہ پاک فرمایا کہ ہم نے تمہیں ان پر داروغہ نہیں بنایا۔ یعنی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جیسے فرمایا: ﴿وَانتَظِرْ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ﴾ (السجدة :30) مقصد یہ ہے کہ زیادہ اپنے سر لینا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ جتنی ذمہ داری ہو اس کو پورا کرو، اس سے زیادہ کا بوجھ نہ اٹھاؤ۔ اور ہر کام planning کے ساتھ، مثبت طریقے سے کرو۔ ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں سعودیہ عرب سے فلاں بات کر رہا ہوں، میرے ذکر کی تفصیل اس طرح ہے: "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اللہُ اللہ" 200 مرتبہ اور "اللہ" 100 مرتبہ اور مراقبہ 5 منٹ لطیفۂ قلب، 5 منٹ لطیفۂ روح، 5 منٹ لطیفۂ سر، 5 منٹ لطیفۂ خفی، 5 منٹ لطیفۂ اخفٰی، اور یہ کہ کائنات کی ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے اور میں اس کو تمام لطائف سے سن رہا ہوں اور 15 منٹ مراقبہ ہے جس میں یہ محسوس کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے فیض میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے فیض میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، یہ صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ ہے جو ماشاء اللہ آپ کر رہے ہیں۔ ابھی آپ باقی سارے کام تو وہی جاری رکھیں، لیکن اب لطیفۂ سر کے اوپر شیوناتِ ذاتیہ کا فیض آنے کا تصور کر لیں، شیونات شان کی جمع ہے اور شان سے صفات نکلتی ہیں، شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہوتا ہے لہذا آپ صفات سے ذات کی طرف آ رہے ہیں، تو یہ تصور کریں کہ شیوناتِ ذاتیہ کا فیض اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور اس سے آپ کے لطیفۂ سر پہ آ رہا ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت جی میں بہاولپور سے فلاں بات کر رہی ہوں، حضرت جی آپ نے جو اذکار بتائے ہیں وہ الحمد للہ باقاعدگی سے کر رہی ہوں, قلب پر مراقبہ 15 منٹ کرتی ہوں اور روح پر 20 منٹ مراقبہ ہے، قلب اور روح دونوں پر الحمد للہ، اللہ اللہ محسوس ہو رہا ہے، لطیفۂ روح پہ لگتا ہے جیسے کوئی چیز گھوم رہی ہو۔
جواب:
اب آپ قلب اور روح پر 10، 10 منٹ کریں اور لطیفۂ سر پر 15 منٹ یہی محسوس کریں، یہ ایک مہینے کے لئے ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! محترم حضرت اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے مندرجہ ذیل ذکر و مراقبات کا ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ، "اللہ" 100 مرتبہ، "حَق اللہ" 500 مرتبہ، "ھوُ" 500 مرتبہ، "اللہ ھُو" 200 مرتبہ۔ "حَق اللہ" کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق اللہ تعالیٰ سے راضی رہ کر ادا کر رہا ہوں اور جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے اس پر میں راضی ہوں۔ پہلے مراقبے میں یہ تصور کیا کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہیں جیسے کہ اس کی شان ہے، یعنی جس طرح اللہ جل شانہ کی معیت ہے اللہ پاک اس طرح سے میرے ساتھ ہیں اور جتنی یکسوئی اس تصور پر آ رہی ہے اس کا شکر ادا کیا۔ مقدار 15 منٹ اور دوسرا مراقبہ یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے یعنی نبی کریم ﷺ کی شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ان شاء اللہ اس پر چل کر دکھاؤں گا، 10 منٹ۔ اور غیبت، جھوٹ اور بد نظری پر control۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور آپ کے فیض کی وجہ سے جھوٹ سے بچا رہا الحمد للہ۔ مگر اس ماہ بد نظری اور غیبت پر 100 فیصد control نہ رہا، مکمل control کی کوشش کر رہا ہوں، غصے پر اس ماہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً control رہا۔ الحمد للہ
جواب:
اب آپ باقی چیزیں تو یہی رکھیں لیکن بد نظری اور غیبت پر آپ کو جو %100 control حاصل نہیں ہوا، ان پر 100 فیصد control کرنے کی کوشش کریں، یہی آپ ایک مہینہ کریں۔
سوال نمبر 12:
نمبر ایک:
ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
الحمد للہ! آپ لطیفۂ قلب کا وظیفہ 10 منٹ کا کر لیں۔
نمبر دو:
10 منٹ لطیفۂ قلب ذکر محسوس ہوتا ہے۔ الحمد للہ
جواب:
اب آپ 5 منٹ لطیفۂ قلب کا ہی کریں اور 10 منٹ لطیفۂ روح کا کریں۔
نمبر تین:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ اور لطیفۂ قلب تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
آپ لطیفۂ قلب پر 10 منٹ رکھیں اور لطیفۂ روح کو 20 منٹ کر لیں۔
نمبر چار:
لطیفۂ قلب 15 منٹ ہے، محسوس ہوتا ہے۔ الحمد للہ
جواب:
لطیفۂ قلب کو 10 منٹ رکھیں اور 15 منٹ لطیفۂ روح کر لیں۔
نمبر پانچ:
لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے الحمد للہ
جواب:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ کا کر لیں۔
نمبر چھ:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔
جواب:
چونکہ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے تو لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر اور لطیفۂ خفی پہ 10، 10 منٹ رکھیں اور لطیفۂ اخفیٰ پہ 15 منٹ کر لیں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت امید ہے مزاج بخیر و عافیت ہوں گے، غرض یہ کہ بندہ کو گھر والے منگنی اور شادی کے لئے رضامند کرنا چاہتے ہیں لیکن دو چیزیں بندہ کو اس ارادہ سے روک رہی ہیں تو چاہا کہ پہلے اپنے حضرت کے سامنے ماجرا پیش کروں۔ پہلی چیز یہ کہ منگنی اور شادی کی بعض غیر شرعی رسومات ہیں، رشتے دار کہتے ہیں کہ ان کو کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ نمبر دو ان رسومات کے لئے ایک بھاری رقم کی بھی ضرورت ہے جب کہ بندہ کے ہاں اور گھر والوں کے ہاں وہ رقم مفقود ہے تو پھر بعض، اللہ پر توکل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ اللہ بندوبست کر دیں گے، لیکن جب قرض وغیرہ کی مجبوری ہو تو بندے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جب رزق کا مناسب بندوبست ہو جائے تو پھر دیکھیں گے اور بندہ قرض وغیرہ کا متحمل بھی نہیں ہے۔
جواب:
در اصل شادی سنت ہے اور اگر حرام میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو اس کا حکم بڑھ جاتا ہے۔ بہرحال سادگی کے ساتھ اگر شادی کی جائے تو یہ چیزیں نہیں ہوں گی ان شاء اللہ۔ جو لوگ آپ کو شادی کا مشورہ دے رہے ہیں ان سے اس بات پر یقین حاصل کر لیں کہ شادی میں رسومات نہیں ہوں گی، سادگی کے ساتھ ہو گی، جو شادی کے لوازمات ہیں صرف وہی ہوں گے۔ جیسے نکاح ہے، مہر ہے اور ولیمہ ہے۔ اس سے زیادہ کی بات آپ نہ کریں، ولیمہ بھی سادگی کے ساتھ وسعت کے مطابق کریں۔ اگر وہ نہیں مان رہے لیکن بالآخر وہ آپ کی بات خود بخود ماننے پہ مجبور ہو جائیں گے، کیونکہ اگر آپ اپنا عذر بیان کر دیں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں آپ لوگوں کے پاس بھی نہیں ہیں تو پھر وہ کیا کریں گے؟ ان شاء اللہ العزیز یہ طریقہ مفید ہو سکتا ہے، چنانچہ یوں ایک سنت بھی زندہ ہو جائے گی اور آپ کے لئے بھی آسانی ہو جائے گی۔ تو اس انداز سے آپ اپنے گھر والوں کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر 14:
حضرت شیخ کی مجلس میں جب بندہ آتا ہے تو کس طرح کے فیض کی نیت کی جائے؟ کیونکہ ایک تو براہِ راست علمی فیض ہوتا ہے، اور دوسرا روحانی فیض ہوتا ہے، تو مجلس میں کون سی نیت ہو، کیا دونوں نیتیں ہوں؟
جواب:
ہمیں بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ شیخ کے مجلس میں بیٹھ کر ہمہ تن اس کے دل کی طرف متوجہ رہیں، او یہ تصور کریں کہ شیخ کے دل پہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیضان آ رہا ہے اس میں مجھے بھی اپنا حصہ مل رہا ہے، یعنی الفاظ یہ نہ ہوں لیکن تصور یہی ہو، کیونکہ اس میں الفاظ مقصود نہیں ہیں۔ جیسے آپ کسی جگہ لائن میں کھڑے ہوں اور کسی چیز کا انتظار کر رہے ہوں تو آپ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے، جس میں الفاظ نہیں ہوتے، لیکن آپ کا خیال اسی طرف ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی چیز ہے اور یہ چیز اتنی اہمیت سے بتائی گئی ہے کہ شیخ کی مجلس میں لسانی ذکر روک دینا چاہیے اور شیخ کے قلب کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ اور یہ صحیح بات ہے اور واقعتاً یہ ہو رہا ہوتا ہے، اس میں کسی مبالغے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا، یعنی یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں حضرت کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور اللہ کا شکر ہے حضرت بہت ہی زیادہ شفقت فرماتے تھے، چونکہ حضرت معذور تھے اس لئے لیٹے ہوئے تھے اور کسی سے باتیں کر رہے تھے، تو میں نے آہستہ آہستہ دیکھا کہ جیسے میرے دل کے اوپر کچھ تھوڑی تھوڑی کشش سی محسوس ہو رہی ہے، پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہ ویسے ہی ہے لیکن وہ کشش آہستہ آہستہ بڑھتی رہی، جب میں نے غور کیا تو وہ کشش حضرت کے دل کی طرف تھی، اور ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی چیز کسی چیز کو کھینچتی ہے۔ گویا میرے دل کو حضرت کا دل کھینچ رہا تھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ احساس بڑھتا گیا اور پھر باقاعدہ مجھے physically ایسا محسوس ہوا کہ اگر میں اپنے آپ کو control نہ کروں تو حضرت کے اوپر گر پڑوں گا، تو میں نے پھر اس طرح position لے لی کہ جیسے اپنے آپ کو روک رہا ہوں اور اس طرح بیٹھ گیا کہ جس طرح مجھے نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ مجھے حضرت کی طرف گر پڑنے کا خطرہ تھا اس لئے میں اس طرح بیٹھ گیا۔ گویا یہ چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی دکھائی بھی دیتی ہے، محسوس کرائی جاتی ہے، لیکن ہوتی ضرور ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور آج ایک اور بات میں سن رہا تھا، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ، ڈاکٹر شیخ حسن صاحب جو آج کل حضرت ہی کی خانقاہ پہ بیٹھتے ہیں اور ساتھی بھی آتے ہیں، تو کوئی ساتھی حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی آپ بیتی سنا رہے ہوتے ہیں اور حضرت درمیان میں اس کی تشریح کرتے ہیں، تو تشریح کے دوران یہ بات درمیان میں آ گئی، اگرچہ اردو میں بات ہو رہی تھی لیکن کسی نے کچھ پوچھا تو حضرت نے پشتو میں اس کاجواب دیا کہ اگر آپ مشائخ کو خط لکھیں تو اس سے ایک فائدہ ہوتا ہے کہ خط کا جواب لکھتے وقت یا کسی کو لکھواتے وقت وہ اس مرید کے دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دل میں اللہ پاک سے دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ اے اللہ! ان کا یہ مسئلہ حل کر دے۔ گویا اس طرف ان کا دھیان ہوتا ہے۔ اور حضرت نے فرمایا اسی کو ہم توجہ کہتے ہیں، یہ بہت پاک تعریف ہے اس چیز کی، کیونکہ جو بامعنی تصرف مشہور ہے اس کے اندر ایک مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اس میں انسان کی اپنے اوپر نظر ہو جاتی ہے کہ میں تصرف کر رہا ہوں، یعنی میں اس کے ساتھ اس طرح کر رہا ہوں۔ کہ اس کو یہ چیز مل رہی ہے، جب کہ اس توجہ میں اپنے اوپر نظر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ پہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے تو آپ ویسے بھی مانگ سکتے ہیں اور قلبی طور پر بھی مانگ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے جس طریقے سے بھی مانگیں وہ خیر ہی خیر ہے، اس میں اپنے اوپر نظر نہیں ہوتی۔ لہذا اس میں اپنے نظر پڑنے کا ذرا بھر شائبہ نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ محفوظ طریقہ ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے تو آپ قادر و قدیر کے سامنے اپنا معاملہ پیش کر رہے ہیں لہذا اس سے ان کو بھی فائدہ ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ آج ہی کسی نے مجھے بھیجا ہے جو میں نے کچھ لوگوں کو share بھی کیا ہے در اصل کسی نے حضرت کے بارے میں گمان کیا کہ غالباً حضرت عملِ تسخیر جانتے ہیں جس سے لوگوں کو دین کا زیادہ فائدہ ہو جاتا ہے اور لوگ ان کی طرف زیادہ آتے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں! حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ بھی بہت بڑے شیخ تھے، ان کے بارے میں بھی لوگوں کا یہی خیال تھا۔
تو حضرت تھانوی کے بارے میں جن صاحب کا یہ خیال تھا جب وہ حضرت کے سامنے آئے تو حضرت پہ بات کھل گئی تو انہوں نے فرمایا: توبہ توبہ توبہ استغفر اللہ استغفر اللہ استغفر اللہ۔ یہ عملیات اور تسخیر تو اپنے اوپر نظر ہے۔ یاد رکھو! اس سے حاصل شدہ نسبت بھی سلب ہو سکتی ہے۔ یہ ملفوظ مجھے یاد تھا الحمد للہ۔ میں نے کافی دفعہ آپ لوگوں کو سنایا ہو گا۔ لیکن مجھے اس کا reference معلوم نہیں تھا کہ میں نے کہاں پڑھا ہے، اور اللہ کا شکر ہے وہ share ہو گیا۔ بہر حال عملیات سے بعض دفعہ نسبت اس وجہ سے سلب ہو جاتی ہے کہ اس میں اپنے اوپر نظر ہو جاتی ہے اور اپنے تصرفات نظر آتے ہیں کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا۔ چنانچہ جس چیز میں بھی اپنے اوپر نظر پڑ جائے تو سمجھو کہ معاملہ گڑبڑ ہو گیا۔ اور ان حضرات نے یہ بہت خوبصورت تحقیقات کی ہیں۔ اور انہوں نے بالکل اپنے آپ کو بچایا ہوا ہے، اس طرف جاتے ہی نہیں ہیں جس طرف خطرہ ہو۔ اور آج کل کے دور میں خطرات بہت زیادہ ہیں، ہر چیز میں فتنہ ہے۔ اور ہر چیز میں خطرہ ہے۔ آپ ذرا بھر بھی کسی چیز کو relax کر دیں تو لوگ اس کے ساتھ وہ کچھ کر دیں گے کہ آپ حیران ہوں گے کہ میں نے یہ کیا کیا ہے، جیسے یہ تصویروں والا معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ لہذا پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑے گا اور انسان کو احتیاط کرنی پڑے گی۔ چنانچہ شیخ کی مجلس میں یہی نیت ہونی چاہیے۔
سوال نمبر 15:
اگر انسان کسی دوسرے شیخ کی مجلس میں چلا جائے تو وہاں کیا نیت کرے؟
جواب:
صرف صحبتِ صالحین کی نیت ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ بہت اہم ہے، یہ تو ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ﴾ (الفاتحہ:5-6) لہذا جن پہ بھی اللہ پاک نے انعام کیا ہے ان کا راستہ ہو گا، صحیح ہی ہو گا۔ اس لئے جس محفل میں کوئی جائے تو صحبتِ صالحین کی نیت کرے۔ جب میں نے حضرت سے پوچھا تھا تو انہوں نے مجھے یہی فرمایا تھا۔ چونکہ ہم عزیز الرحمن صاحب کے ساتھ کسی اور بزرگ کے پاس بھی بیٹھا کرتے تھے تو میں نے حضرت سے پوچھا کہ میں وہاں کس نیت سے بیٹھوں؟ تو حضرت نے فرمایا کہ صحبتِ صالحین کی نیت سے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم! حضرت میرے اندر خود پسندی کا مرض ختم نہیں ہو رہا، جب اس مرض کا ذکر آپ سے کچھ عرصہ قبل کیا تھا تو آپ نے فرمایا جب کبھی ایسا خیال دل میں آئے تو اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں۔ اور یہ سوچیں کہ پہلے کچھ اندر تھا، اب نہیں رہا۔ اس سے کافی فائدہ ہوا تھا۔ یہ استحضار عارضی طور پر رہتا ہے، اس پر اکثر اپنے نفاق کا احساس بھر گیا ہے، اس مرض کو حقیقی طور پر کیسے نکالا جائے؟
جواب:
اس کے جواب میں، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ جب بیمار ہوئے تو مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کی عیادت کے تشریف لئے گئے، مفتی صاحب کو دیکھ کر مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت عاجزی سے پوچھا کہ حضرت آج کل یہ جو تبلیغ کا کام پھیل رہا ہے اس سے مجھے اپنے اوپر استدراج کا خوف ہے، تو حضرت نے فرمایا کہ آپ کو تو خیر خوف ہو گا، لیکن جس کو استدراج ہوتا ہے ان کو یہ خیال نہیں آتا۔ چونکہ آپ کو یہ خیال آ گیا ہے تو یہ استدراج نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو عمل بتایا گیا تھا آپ نے اس پر عمل کر لیا اور اس سے فائدہ ہوا تو مرض وہ نہیں رہا، البتہ مرض کا وسوسہ باقی ہے، تو وسوسے کی پرواہ نہ کریں۔ کیونکہ آپ کو بہت آسانی سے مسئلے کا پتا چل گیا ہے کہ جب کبھی آپ کو اس کا احساس ہو تو کہیں کہ اگر میرے اندر یہ عجب پیدا ہو گیا تو یہ چیز مجھ میں نہیں ہے۔ اور جب نہیں ہے تو عجب ختم ہو گیا۔ بس اس کا یہی علاج ہے۔ تو آپ یہی علاج کرتے رہیں اور اس کے علاوہ اگر کوئی چیز رہتی ہے تو وہ وسوسہ ہے اور وسوسے کی فکر بالکل نہ کریں۔ اور آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ نفاق کا احساس ہوتا ہے تو یہ تو اچھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مناسبت ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اپنے اوپر نفاق کا خیال آیا تھا، تو ہماری کیا حیثیت ہے؟ اس لئے آپ بالکل فکر چھوڑ دیں اور بلا وجہ خواہ مخواہ شکوک میں مبتلا نہ ہوں۔ جیسے میں نے حضرت سے اپنے متعلق ریا کے بارے پوچھا تھا تو حضرت نے فرمایا ریا کسی کو خود بخود نہیں چمٹتی، یہ تو ارادے سے ہوتی ہے، لہذا اگر آپ کا ارادہ نہیں ہے تو ریا نہیں ہے بلکہ ریا کا وسوسہ ہے، اس کی آپ بالکل پرواہ نہ کریں۔
سوال نمبر 17:
حضرت ابھی بات ہو رہی تھی کہ اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور شیخ کی صحبت اگر مل جائے تو اس میں صحبتِ صالحین کی نیت کر کے بیٹھنا چاہیے۔ چنانچہ اگر بندہ بیٹھ جاتا ہے تو چونکہ اس نے اپنے شیخ کو اچھی طرح سے دیکھا ہوتا ہے جس سے اسے پتا ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق چلتے ہیں اور کتنی چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ دوسرے شیخ کو دیکھتا ہے کہ وہ کئی چیزوں میں شریعت کو follow نہیں کر رہے، جیسے غیر محرم کا مسئلہ یا خواتین کے پردے کا بھی مسئلہ آتا ہے، جس پر وہ توجہ نہیں کرتے اور اس پر غور بھی نہیں کرتے، تو دل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ ہیں تو بزرگ لیکن یہ شریعت پہ چل نہیں رہے۔ ایسی صورت میں ان کا فیض ملے گا یا الٹا کوئی اور مسئلہ ہو جائے گا؟
جواب:
بڑا زبردست سوال ہے۔ در اصل ہم شریعت کے پابند ہیں اور بزرگوں کے پاس شریعت کے لئے جاتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں شریعت کا مکلف بنایا ہے تو بزرگوں کے پاس بھی ہم اسی مقصد کی خاطر جاتے ہیں کہ ہمیں شریعت پر چلنا آ جائے۔ لہذا بجائے بد گمانی کے جہاں اس قسم کے مسائل ہوں وہاں نہ جائے، وہاں جانا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے خواہ مخواہ ذہن میں وسوسے آئیں گے اور مختلف قسم کی چیزیں آئیں گی، ان کے اوپر حکم لگانا بھی ہمارا کام نہیں ہے۔ لیکن آپ کو جس چیز کی توفیق اللہ نے دی ہے اس کو خراب بھی نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا آپ ایسی مجالس میں نہ جائیں جہاں شرعی طور پر آپ کا کوئی نقصان ہو رہا ہو۔ چنانچہ اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔ البتہ یہ بات ہم ضرور اپنے ذہن میں رکھیں کہ اصل میں انجام کا اعتبار ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا انجام کیسا ہو گا۔ اور اس بارے میں ہمارا علم، علمِ حصولی ہے، علمِ حصولی اس کو کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے بارے میں کسی سے سنا ہے یا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جب کہ آنکھیں بھی دھوکا کھا سکتی ہیں۔ اور سمجھ میں بھی غلطی ہو سکتی ہے، لیکن جو اپنے اندر خامیاں ہیں وہ علمِ حضوری ہے۔ لہذا ہمیں دوسروں کی خامیوں پہ نظر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیوں پہ زیادہ نظر ڈالنی چاہیے۔ لیکن اگر اس قسم کا مسئلہ ہو تو avoid کرنا چاہیے، اور ایسی مجالس میں نہیں جانا چاہیے۔
سوال نمبر 18:
حضرت آپ نے حکم کیا ہے کہ avoid کرنا چاہیے اور اگر ایسا کوئی مسئلہ ہو پرہیز کریں، لیکن بعض اوقات پرہیز کرنے سے مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، مثلاً گھر میں ایک فرد کا شیخ اور ہے اور باقیوں کا شیخ اور ہے، ایک فرد کو پتا ہے کہ میرے شیخ میں فلاں مسئلے نہیں ہیں وہ شریعت کے مطابق ہیں۔ تو جب گھر کے دوسرے افراد کے کوئی شیخ تشریف لاتے ہیں اور وہ وہاں جانے سے انکار کر دے تو بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔
جواب:
اگر وہ مہمان کے طور پر آئیں تو ان کا اکرام ضرور کریں۔ کیونکہ وہ آپ کے گھر آئے ہوئے ہیں اور خاطر داری تو کافر کی بھی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ان کی بھی خاطر داری کی ہے۔ لہذا مہمان کے طور ان کی خاطر داری سے نہیں روکا گیا۔ جب کہ آپ نے ان کے پاس خود جانے کے بارے میں پوچھا ہے۔ لیکن اگر آپ کے گھر کوئی مہمان آ جائے تو مہمان کا حق ہے۔ ایسی صورت میں ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ یہ فاسق فاجر ہے یا کافر ہے یا کوئی اور ہے، بلکہ مہمان کے طور پر ہم اس کا اکرام کریں گے۔ لیکن خواہ مخواہ ان کی مجالس میں جانا ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ اگر ہمیں کوئی فائدہ ہو تو ٹھیک ہے۔
سوال نمبر 19:
اگر کسی شیخ میں کوئی مسئلہ ہو یا کوئی دف کے ساتھ کلام پڑھا جا رہا ہو، کوئی آدمی اگر اس دف سے توجہ ہٹا کے اصل کلام سننا چاہے اور اپنے آپ پر اس کو اعتماد بھی ہو کہ میں صرف کلام سے فائدہ اٹھاؤں گا دف کی آواز یا اس طرح کی کسی اور ناجائز آواز پر توجہ نہیں کروں گا۔ ایسا کلام سننا یا ایسے شیخ کی مجلس میں جانا کیسا ہے؟
جواب:
مقتدا کے لئے تو بالکل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ مقتدا کو لوگ دیکھتے ہیں اور پھر ان کی طرح عمل کرتے ہیں، چنانچہ وہ ایک ثبوت بن جاتا ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ حضرت آپ کے فلاں خلیفہ ایک ایسی مجلس میں تھے جہاں مضامیر کے ساتھ سمع ہو رہا تھا، تو حضرت نے ان کو بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ایسی مجلس میں آپ کیوں گئے جہاں پر مضامیر کے ساتھ سمع ہو رہا تھا؟ انہوں نے کہا کہ حضرت اس وقت میرا کوئی قریبی دوست نہیں تھا جس کے ساتھ مل کر میں منع کرتا اور مجھے ڈر تھا کہ اگر میں کچھ کہوں گا تو فتنہ ہو جائے گا تو فتنے کے ڈر سے میں خاموش رہا۔ تو حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے، فتنے کے ڈر سے خاموش ہونا آپ کے لئے عذر ضرور ہے لیکن وہاں سے اٹھ کر جا سکتے تھے، وہاں بیٹھنا لازم تو نہیں تھا، آپ اٹھ کر چلے جاتے۔ اور یہ میں ان حضرات کی بات کر رہا ہوں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے ہاں چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ اگر وہ اس طرح کرتے تو ہم لوگوں کے لئے تو گنجائش پیدا ہو جاتی۔ لہذا مقتدا کے لئے تو بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ عوام کے لئے یہ حکم ہے اگر کوئی trap ہو جائے جیسے بعض دفعہ بس میں سفر کرتے ہوئے اگر اس قسم کی چیز loud speaker پر چلنا شروع ہو جائے تو وہ بس کو چھوڑ کے تو نہیں جا سکتے بلکہ بس میں ہی بیٹھنا ہو گا، ایسی صورت حال میں اگر وہ یہ نیت کر لے تو ممکن ہے اس کے لئے حفاظت کا ذریعہ بن جائے۔ بلکہ اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے کانوں میں انگلیاں دے لے، کیونکہ فقہ کی روشنی میں دفعِ مضرت جلبِ منفعت سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا اگر آپ وہ کلام نہ سنیں تو گویا جلبِ منفعت نہیں ہو رہی، لیکن اگر آپ ساتھ music نہ سنیں تو دفع مضرت ہے۔ اور دفعِ مضرت چونکہ زیادہ اہم ہے لہذا نہیں سننا چاہیے۔
سوال نمبر 20:
اگر انسان کسی شیخ کی مجلس میں جائے اور وہاں یہ مسئلہ ہو تو پھر کیا کرے؟
جواب:
وہاں بھی یہی حکم ہے کہ وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ ایسی جگہوں پہ نہیں جانا چاہیے جہاں شریعت کے کسی حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اصل میں شریعت کی خلاف ورزیوں کی مختلف ranges ہیں، مستحبات، مندوبات اور سننِ زائدہ کے ترک پر چونکہ ملامت نہیں ہے لہذا ان کے ترک پر کسی کی ملامت نہیں کر سکتے، کیونکہ جب ان پر اللہ پاک ملامت نہیں کر رہا تو تم کون ہو ملامت کرنے والے؟ لہذا اس پہ خاموشی بہتر ہے۔ اور اللہ پاک نے یہ دنیا بڑی وسیع بنائی ہے کسی کو کس طریقے سے دے رہا ہے اور کسی کس طریقے سے دے رہا ہے۔ کیونکہ مستحبات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور سنن مؤکدہ، واجبات، فرائض، ایمانیات، یہ سب red zone ہیں، یہاں اگر کوئی گڑبڑ ہو رہی ہو اس سے بچنا ضروری ہے۔ چونکہ music حرام ہے تو اس سے بچنا فرض ہے۔ لہذا اگر اس قسم کا مسئلہ ہو رہا ہے تو بچنا چاہیے۔ اور آپ جو خواتین کے ساتھ اختلاط کا بتا رہے ہیں یہ بھی اس قسم کی بات ہے، لہذا اس range کی باتیں اگر ہو رہی ہوں تو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ مستحبات کی میں بات نہیں کر رہا۔ کیونکہ اس سے پھر وساوس بڑھ جائیں گے اور آپ کسی بھی جگہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، کیونکہ آپ جہاں بھی جائیں گے کسی نہ کسی مستحب کی خلاف ورزی ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ ممکن ہے ان کو اس کا استحضار نہ ہو یا کوئی اور وجہ ہو۔ لیکن فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ کے معاملے میں غور کرنا چاہیے۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ