دل اور نفس سے فتویٰ لینے کا حکم

سوال نمبر 263

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ نے حضرت وابصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ کیا تم میرے پاس نیکی اور گناہ کا سوال کرنے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پس آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو جمع کیا پھر ان کو وابصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے پر مارا اور ارشاد فرمایا کہ فتوی لے اپنے نفس اور اپنے دل سے۔ یہ آپ ﷺ نے 3 دفعہ فرمایا، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ نیکی وہ ہے جس پر نفس کو اطمینان ہو جائے اور دل کو بھی اطمینان ہو اور گناہ وہ ہے جو کھٹکے نفس میں اور کھٹکے سینے میں، اگرچہ لوگ تمہیں فتوٰی دیں۔ اس حدیث شریف میں دل اور نفس دونوں سے فتوی لینے کا فرمایا گیا ہے کیا یہ حکم ہر شخص کے لئے ہے کہ وہ اپنے دل کے اطمینان پر نیکی اور گناہ کے کام کا فیصلہ کرے؟ اگر دل کی گواہی پر ہی فیصلہ موقوف ہو تو پھر ہر بندہ اپنے دل کی بات پر عمل کرے گا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کے دل کی حالت مختلف ہوتی ہے ایسی صورت میں کس کی بات مانی جائے گی؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات کن حضرات سے کی گئی تھی؟ سامنے کون حضرات تھے؟ ظاہر ہے صحابی تھے۔ تو کیا صحابی کا دل اور ہمارا دل ایک جیسا ہے؟ یا صحابی کا نفس اور ہمارا نفس ایک جیسا ہے؟ لہذا ان کی بات ہمارے اوپر fit نہیں آئے گی۔ ہاں اس صورت میں fit آ سکتی ہے جب ہم ان کی طرز پہ آ جائیں گے۔ ان کی طرز پر آنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے؟ اپنی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ تربیت میں کیا ہوتا ہے؟ سَیْر اِلیَ اللہ طے کرنا ہوتا ہے۔ سَیْر اِلیَ اللہ کیا چیز ہے؟ اپنے نفس کی اصلاح ہے اور اپنی قلب کی اصلاح ہے۔ قلب اور نفس کی اصلاح ہو جائے تو سَیْر اِلیَ اللہ مکمل ہو جاتا ہے۔ پھر کتابوں میں جسے سَیْر فِی اللہ لکھا گیا ہے اور ہم اس کو طریق صحابہ کہتے ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ چونکہ اب دل بھی دنیا کی محبت سے صاف ہو گیا اور نفس بھی قابو ہو گیا ہے لہذا اب وہ طریق صحابہ پہ آ گیا ہے تو جو حکم ان کے لئے تھا وہ یہاں پر بھی ہو جائے گا۔ لیکن اس حدیث شریف سے ہمیں پتا چلا کہ یہ دو چیزیں بہت اہم ہیں یعنی نفس اور دل۔ اور قرآن و حدیث دونوں میں ان کا کثرت کے ساتھ ذکر ہے کہ جب دل صاف ہو تو چاہے کوئی آپ کے حق میں بات کر رہا ہو لیکن آپ پھر بھی ڈر رہے ہوں گے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے۔ اور اس وجہ سے آپ بہت deep analysis کریں گے۔ باقی لوگوں کو تو صرف ظاہری چیزوں کا پتا چلے گا لیکن دل کو تو اپنی اندرونی چیزوں کا بھی پتا ہے۔ لہذا وہ نیت کو بھی جانتا ہے، اس وجہ سے وہ گھبرائے گا کہ پتا نہیں یہ بات ٹھیک ہے یا غلط ہے۔ لہذا ٹھیک ہونے کا جو فتوی ہو گا اس کا وہ بہت ہی زبردست ہو گا۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جیسے بعض لوگوں کو شک کی بیماری ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کو ناپاک سمجھتے ہیں اور پاک ہونا ان کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی چیز کو پاک سمجھیں تو پھر کیا ہو گا؟ ظاہر ہے وہ بہت ہی پاک ہو گی، کیونکہ اس نے اسے بڑی گہرائی کے ساتھ دیکھا ہو گا۔ گویا جب دل کہہ دے کہ یہ کام ٹھیک ہے تو چونکہ دل کو ان تمام چیزوں کا پتا ہوتا ہے اور جب دل بھی دل بنا ہو تو یقینًا وہ بات صحیح ہو گی۔

اس طرح جب نفس نفسِ مطمئنہ ہو جائے اور جس پر نفس کو اطمینان ہو جائے (وہ بات بھی ٹھیک ہو گی) جیسے حدیث شریف میں بھی اطمینان کا فرمایا گیا ہے۔ لہذا جب نفس نفس مطمئنہ ہو گا تو اس کو کس بات پر اطمینان ہو گا؟ شریعت کی بات پر ہو گا۔ چونکہ نفس محرک ہے لہذا تحریک بھی صحیح ہو جائے گی اور فیصلہ بھی صحیح ہو جائے گا۔ اور یہاں آپ ﷺ نے فرمایا: چاہے لوگ تمہیں فتوی دیں۔ لوگ صرف external چیزوں پر فتوی دیتے ہیں، جیسے مفتی حضرات بھی یہی لکھتے ہیں کہ صورت مسئولہ۔ تو صورت مسئولہ کا مطلب یہ ہے کہ جو مجھ سے پوچھا گیا اس کا جواب یہ ہے، وہ اپنے آپ کو اس طرح بچاتے ہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ کسی نے سوال بنا کر ہی ایسے دیا ہو کہ مفتی اس میں غلط ہو جائے اور کسی دوسرے کے حق میں فیصلہ دے دے۔ لہذا مفتیان کرام یہ طریقہ اختیار کریں کہ لکھ دیا کریں کہ صورت مسئولہ میں یہ جواب ہے، باقی حقیقت اللہ کو پتا ہے۔ چنانچہ اگر اس کے دل میں حقیقت کچھ اور ہے تو اس کے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بات صحيح ہے۔ مفتی کر بھی یہی سکتے ہیں۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا: چاہے لوگ تمہیں فتوی دیں۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنے نفس کی، اپنے قلب کی اور اپنی عقل کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شریعت کے مطابق ہم سب کو اطمینان نصیب فرمائے اور اس کے اوپر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ مَا عَلَیْنَا إِلَّا الْبَلَاغ