مذہب اور دین میں فرق

سوال نمبر 262

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

مذہب اور دین میں کیا فرق ہے؟ کیا عیسائیت اور یہودیت کو دین کہا جا سکتا ہے یا یہ مذاہب کہلائیں گے؟

جواب:

در اصل کچھ اصطلاحات لوگوں نے خود بنائی ہوتی ہیں اور کچھ اصطلاحات پہلے سے چلی آ رہی ہوتی ہیں، اور کچھ اصطلاحات ہمیں وحی نے بتائی ہوتی ہیں۔ جیسے "الصلاۃ" ایک اصطلاح ہے جو ہمیں لغت نے نہیں دی۔ بلکہ قرآن نے سنت نے دی ہے ورنہ الصلاۃ کا عربی معنی تو کولہے مٹکانا یعنی dance کرنا بھی ہے۔ اب اگر ہم اس کا شرعی اصطلاحی معنی مراد نہ لیں تو ﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (البقرۃ: 43) کا مطلب ہو گا کہ dance کی محفلیں قائم کرو، ظاہر ہے یہ معنٰی تو ہم مراد نہیں لیں گے ہم وہی معنٰی مراد لیں گے جو شریعت نے بتایا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے یعنی ہم صرف عربی کے قواعد پر نہیں جائیں گے بلکہ اس کے جو مفاہیم متواتر چلے آ رہے ہیں ہم ان کو دیکھیں گے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اسلام متواتر ہے اور تواتر سے ثابت ہے، لہذا تواتر سے جو چیز چلی آ رہی ہے اس میں ہم گڑ بڑ نہیں کریں گے، ورنہ آج اگر کوئی شخص کہے کہ عربی میں اس کا معنی یہ ہے تو کیا ہم اس کو change کریں گے؟ نہیں! change نہیں کریں گے، بلکہ اس کو اسی حالت پہ رکھیں گے، تبھی تو یہ جاہلی اشعار کو محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ اس وقت قرآن و حدیث کے جس لفظ کا جو مفہوم تھا وہ معلوم کیا جا سکے اور اس میں کوئی رخنہ بازی نہ کر سکے، اب اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں گے تو قرآن نے جس کو دین بتایا ہے اسی کو ہم دین کہیں گے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَ۔۔۔﴾ (آل عمران: 19) کہ دین تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسلام ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی مذاہب کو دین نہیں کہا جائے گا۔ تو یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اسلام بالکل ایک مختلف دین ہے۔ لیکن اس میں اصطلاحی طور پر اتنی بات ہے کہ دین منصوصات کا نام ہے، یعنی جو چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آئی ہیں چاہے وحی متلو ہے یا وحی غير متلو، اس کے ذریعے سے جو اصول بنے ہیں وہ اصل میں دین ہے، لہذا اس میں اگر کسی کو اختلاف ہو تو قرآن و سنت پہ پیش کیا جائے گا، درمیان میں کوئی اور بات ہم نہیں کر سکتے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، یعنی اللہ کے ہاں مقبول دین اسلام ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مذہب اگرچہ اس کے ماننے والوں کے ہاں دین ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دین نہیں ہے یعنی وہ خود اس کو دین سمجھ رہے ہوں گے جیسے یہودی اپنے مذہب کو دین سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پہلے وہ دین تھا ایسا نہیں ہے کہ پہلے دین نہیں تھا، لیکن اس دین میں یہ بات بھی تھی کہ جب آپ ﷺ مبعوث ہوں گے تو تم ان پر ایمان لاؤ گے، ان کو ان کے پیغمبروں نے بتایا تھا۔ لہذا اس وقت کا اسلام وہی تھا جو موسی علیہ السلام لے کے آئے تھے یعنی ”تورات“ جس میں یہ بات بھی تھی کہ بعد میں آپ ﷺ تشریف لائیں گے تو تم ان پر ایمان لاؤ گے۔ اور عیسٰی علیہ السلام پر بھی انجیل نازل ہوئی تھی تو اس وقت وہ اسلام تھا اور اس میں بھی یہ تھا کہ جب آپ ﷺ آئیں تو ان پر ایمان لانا۔ جیسے قرآن میں ہے: ﴿وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِىْ مِنْ بَعْدِى اسْمُهٝٓ اَحْـمَدُ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ﴾ (الصف: 6) "اور جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بے شک میں اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں (اور) تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا"۔ گویا اس وقت کے پیغمبر نے جو بتایا ان کے لئے وہ منصوصات تھے، لہذا منصوصات سے جو چیز بنتی ہے وہ دین ہے، پھر ان منصوصات کے اندر غور کرنے سے کسی عالم کی جو اجتہادی فکر بنتی ہے اس میں پھر 2 قسمیں ہیں۔ اگر وہ اعتقادی آراء ہیں تو مسلک ہے اور اگر وہ دین پر چلنے کے نظام سے متعلق ہے تو وہ مذہب ہے، لہذا اختلافِ مذہب اس اختلاف کا نام ہے جو اجتہادات کی بنیاد پر اختلاف ہوا ہے۔ اور اجتہاد ہمیشہ جاری رہے گا، البتہ جو بعض اجتہادات fix ہو چکے ہیں اور ان پر امت مطمئن ہو چکی ہے ان کو نہیں چھیڑا جائے گا کیونکہ پھر اس سے مسئلہ بنے گا، لیکن اگر کوئی ایسا نیا مسئلہ پیش آ گیا جو settle نہیں ہوا جیسے رویت ہلال کا مسئلہ ہے یا بینکنگ کا مسئلہ ہے، اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں ان میں اجتہادات کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن جو چیزیں settled ہیں جیسے نماز کا طریقہ 1400 سال سے زائد عرصے سے مسلسل چلا آ رہا ہے لہذا اس میں علماء کرام کی آراء اب fix ہو چکی ہیں ان پر عمل کریں گے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کا ایک طریقہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی فکر سے بتا دیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی فکر سے اور اپنے اجتہاد سے قران و سنت کی روشنی میں ان چیزوں کو سمجھا ہے تو وہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے، پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے، پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے اور پھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔ ان میں تقریباً دنیا کے اکثر مسلمان تقسیم ہو گئے۔ یعنی More than 60% حنفی ہیں، کچھ More than 20% شافعی ہیں، پھر کچھ %Round about 10 مالکی ہیں پھر ان سے کچھ کم حنبلی ہیں اور جو بالکل فقہی مذہب کو نہیں مانتے وہ بہت تھوڑے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ فکر کی بنیاد پر ہے، اجتہاد کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اگر اجتہادی رائے عقیدے کے مطابق ہے تو اس کو مسلک کہیں گے جیسے مسلکِ اہل سنت و الجماعت ہیں، اسی طرح دوسرے مسالک ہیں، یہ سب اعتقادی آراء کی بنیاد پر ہیں، لیکن کسی اجتہادی رائے کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ جیسے نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ اور ان تمام چیزوں کے بارے میں جاننا مذہب کہلاتا ہے، چنانچہ چار مذاہب زیادہ مشہور ہیں فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی۔ البتہ ایک اور چیز بھی ہوتی ہے اور وہ ہے منہج۔ منہج بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہ کسی کام کو کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ لہذا منہج کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے جیسے دیوبندیت ایک منہج ہے۔ تاہم دین میں کفر اور اسلام کا فرق ہوتا ہے کیونکہ دین تو ایک ہے، اس سے اگر کوئی نکلے گا تو وہ اس دین پہ نہیں رہے گا۔ تو وہ کفر اور اسلام کا مسئلہ ہوتا ہے اور مسلک میں بدعت اور سنت کا فرق ہوتا ہے۔ اور مذاہب میں اختلاف صرف اولٰى اور غیر اولٰى کا ہے، یعنی کس كو ایک اجر ملے گا، کس کو دوسرا اجر ملے گا۔ لہذا ہم چاروں اماموں کے بارے میں نیگ گمان کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم ان کے ساتھ اعمال میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم ان کو اولیاء اللہ مانتے ہیں، کیونکہ یہ اجتہادی اختلاف ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ پیر حنفی ہو اور اس کا مرید شافعی ہو، یا پیر شافعی ہو اور اس کا مرید حنفی ہو، یہ کوئی ناممکن نہیں ہے، اور پیر اس کو منع نہیں کرے گا کیونکہ سب مذاہب حق ہیں لہذا پیر یہ نہیں کہے گا فلاں مذہب چھوڑ دیں اور جس مذہب پر میں ہوں تم اس پر نہیں ہو، کیونکہ یہ اولی اور غیر اولی کا فرق ہے، یہ حرج کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح منہج میں بھی یہی بات ہے کیونکہ وہ بھی ایک طریقہ کار ہے، جیسے تبلیغى جماعت کا اپنا ایک طریقہ کار ہے، اس طرح خانقاہوں کا اپنا ایک نظام ہے، اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ اس کے طریقے سے دین کو پھیلانا چاہتے ہیں اور کوئی اور کسی اور طریقے سے پھیلانا چاہتے ہیں۔ لہذا اس میں صرف اور صرف مناسبت کی بات ہوتی ہے کہ کس کو کس کے ساتھ مناسبت ہے، لہذا مناسبت کے ساتھ کام کریں، آپس میں رائے زنی نہ کریں کہ یہ صحیح اور یہ غلط ہے، گویا اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔، بلکہ سارے حق ہیں، البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ میری مناسبت جس کے ساتھ ہے میں اس کے ساتھ ہوں، لیکن باقی لوگوں کو بھی میں صحیح سمجھتا ہوں۔ چنانچہ اس میں بھی صرف طریقہ کار کا فرق ہوتا ہے۔ لہذا دین تمام چیزوں کی بنیاد ہے اور پھر عقائد کو سمجھنے کے لئے صحیح مسلک کو اپنانا ہوتا ہے اور مذہب اجتہادی آراء کا نام ہے۔ لہذا جو جہاں پیدا ہوا ہے، اور جہاں جو مذہب چل رہا ہے، جہاں جو سہولت ہے، جہاں جس مذہب کے علماء موجود ہیں، ان کی کتابیں موجود ہیں تو ان کے لئے وہ مذہب زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ میں نے تقلید کے موضوع پر اور مذاہب کے حوالے سے بات کی تھی جو 20 منٹ بیان کیا تھا تو اللہ پاک نے ایک فلسطینی کے دل میں بات ڈال دی تو ایک فلسطینی جو جرمنی میں فلسطینی کمیونٹی کے صدر تھے میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے آپ کا جو بیان سنا تھا اس سے میرا بھی ارادہ ہو گیا کہ میں کسی خاص امام کی پیروی کروں، لیکن میں حنفی تو بن نہیں سکتا تو میں کیا کروں؟ میں نے کہا میں نے بیان میں یہ تو نہیں کہا تھا کہ سارے حنفی بن جاؤ، کہنے لگے ہاں۔ میں نے کہا میں اب بھی آپ کو یہ نہیں کہتا چونکہ آپ کے پاس احناف کی کتابیں نہیں ہیں، احناف کے علماء نہیں ہیں لہذا آپ کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ شافعی مسلک اختیار کر لیں وہ آپ کے لئے زیادہ سہولت کا باعث ہو گا، کیونکہ وہاں علماء بھی شوافع کے ہیں اور کتابیں بھی شوافع کی ہیں۔ تو وہ میرے سامنے شافعی مسلک بن گئے۔ حالانکہ میں خود حنفی ہوں لیکن وہ میرے کہنے سے شافعی بنے، کیونکہ مجھے کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ کسی کا ذمے دار بننے کی، جو ان کے لئے بہتر ہے اور جو ان کے لئے آسان ہے وہ اسی کو اختیار کریں کیوں کہ جب سارے حق پر ہیں تو ہم ان میں کیوں فرق کریں۔ الحمد للہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ چاروں کے چاروں مذاہب حق پر ہيں اور ان میں سے جو جس مذہب پر بھی ہے وہ بھی حق پر ہے۔ البتہ جو جس علاقے میں پیدا ہوا ہے تو چونکہ وہاں ان کے علماء بھی زیادہ ہوتے ہیں اور کتابیں بھی موجود ہوتی ہیں تو ان کے لئے اس میں سہولت ہے۔ جیسے یہاں پاکستان میں اگر کوئی حنبلی بن جائے تو کیا کرے گا؟ یہاں لوگوں کے پاس حنبلى علماء ہیں؟ حنبلی کتابیں ہیں؟ میں تو کہتا ہوں کہ کسی کو حنبلی حضرات کی کتابوں کا پتا بھی نہیں ہو گا، علماء کو بھی پتا نہیں ہو گا۔ مجھے بھی اس لئے پتا چلا کہ میں ایک چیز پہ کام کر رہا تھا جس میں آپ سب کی آراء کی ضرورت تھی تو اسی سے مجھے پتا چلا کہ ”المغنی“ بھی ایک کتاب ہے اسی طرح دوسری حنبلی کتابوں کا پتا چلا اور یوں کچھ اندازہ ہوا ورنہ مجھے بھی پتا نہیں تھا۔ چنانچہ اگر میں حنبلی بن جاؤں تو کیا کروں گا؟ اپنی رائے پہ عمل کروں گا؟ مجھے تو علم ہی نہیں ہو گا۔ میرے خیال میں صرف اتنی بات ہے اس پہ مزید بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ایک ہوتا ہے کیڑے نکالنا اور ایک ہوتا ہے کیڑے ڈال کر نکالنا تو کیڑے ڈال کر نکالنا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اس میں پھر never ending والی situation بن جاتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے، بس دل جمعی کے ساتھ صحيح بات پر ہمیں مطمئن ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے مطابق ہم کام کریں اور اپنی زندگی کو ضائع نہ کریں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ