ذکر کے حلقے اور دینی مجلسوں کا ذکر

سوال نمبر 261

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم جنت کی کیاریوں میں گزرو تو ان سے خوب کھاؤ، صحابہ رضوان اللہ عليهم اجمعین نے عرض کیا کہ جنت کی کیاریاں کیا ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ذکر کے حلقے۔(ترمذی شریف، حدیث نمبر 3510) اس حدیث شریف میں ذکر کے جن حلقوں کا تذکرہ ہے، کیا ان سے مراد صرف صوفیاء کے حلقے ہیں جہاں ذکر ہوتا ہے یا اس میں علماء کے تدریسی حلقے یا تبلیغی جماعت کے بیانات کے حلقے، اسی طرح دینی جلسے وغیرہ بھی شامل ہیں؟

جواب:

در اصل ایک چیز بالاصل ہوتی ہے اور ایک چیز اس اصل چیز کی طرح ہوتی ہے تو اس کو بھی ہم اس کی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ یہاں ذکر کے حلقے کہا گیا ہے۔ تو جیسے قرآن پاک کے ترجمے اور تشریح کا قانون ہے کہ ضمیر کا جو قریب ترین مرجع ہو اس کی طرف ضمیر راجع ہوتی ہے دُور کے مرجع کی طرف نہیں لوٹتی۔ اب ذکر کے حلقے میں دو چیزیں آ گئیں، ایک ذکر اور دوسرا حلقہ۔ چنانچہ حلقہ ایک سے زیادہ لوگوں کے اجتماع کو کہتے ہیں گویا اس میں اجتماعیت ہے، یعنی جہاں زیادہ لوگ ہوں یعنی کافی لوگ اکٹھے مل بیٹھ کر ذکر کریں، ظاہر ہے آج کل یہ حلقے خانقاہوں میں قائم ہوتے ہیں، آپ ﷺ کے دور میں تو مسجد نبوی میں سب کام ہوتے تھے، لہذا ذکر کے حلقوں میں شمولیت کی کم از کم یہ صورت تو براہ راست ہے۔ البتہ اللہ کو یاد کرنا چونکہ خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے لہذا اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو اپنی باتوں سے یاد کر رہا ہے، مثلاً یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک بڑے ہیں، اللہ پاک غفور ہے، اللہ پاک رحیم ہے، تو یہ سب اللہ پاک كا ذکر ہی ہے لہذا بیان وغیرہ سب صورتیں اس میں شامل ہو جائیں گی۔ اس طرح درس کے وہ حلقے جن میں اللہ تعالیٰ کے احکامات بتائے جاتے ہیں وہ بھی اللہ پاک کی یاد کی ایک صورت ہے، لہذا وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں، دینی جلسے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں لیکن یہ بات بہت غلط ہے کہ باقی چیزوں کو تو آپ ذکر مان لیں اور جہاں سے یہ شروع ہوتا ہے اس سے آپ انکار کر دیں۔ آج کل یہ الٹی بات چل رہی ہے کہ باقی چیزوں کے لئے تو یہ سمجھ لیا گیا ہے یہ ذکر ہیں، لیکن جو اصل ذکر کے حلقے ہیں ان سے اس کو توڑ دیا جاتا ہے کہ یہ ذکر نہیں ہے۔ بہرحال ذکر کے حلقوں کو اگر عام معنوں میں لیں تو یہ عام ہیں اور اگر آپ صرف ذکر کے معنوں میں لیں تو اس کے لئے تو ہے ہی۔ لہذا ذکر کے حلقوں میں بیٹھنا ضروری ہے کیوں کہ آپ ﷺ کی ایک اور حدیث شریف ہے کہ ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اس سے ذکر کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے ذکر کتنا ضروری ہے۔ نیز قرآن پاک میں ہے: ﴿فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ﴾ (البقرۃ: 152) "پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا"۔ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿اُذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا﴾ (الاحزاب: 41) "اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو" یہ ساری نصوص ہمیں ذکر کی اہمیت بتاتی ہیں۔ لہذا ذکر کرنا تو ثابت ہو گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں: ذکر کرنا تو ٹھیک ہے لیکن یہ جو اکٹھے مل کے ذکر کرتے ہو یہ غلط ہے۔ جب کہ ذکر کے حلقے والی اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھے بھی آپ کر سکتے ہیں۔ تاہم علاجی ذکر میں ذرا تفصیل ہے، در اصل علاجی ذکر ایک علاج ہے، وہ ثواب کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ علاج کے لئے کیا جاتا، البتہ جس چیز کا علاج کیا جاتا ہے اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ اپنی تربیت فرض عین ہے تو فرض عین کام کو کرنا کتنا اہم ہو گا؟ لہذا جو ذکر فرض عین کا ذریعہ ہے وہ کتنا فائدہ مند ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذکر علاجی کے ذریعے سے جب آپ کی نماز بن جاتی ہے تو نماز کا اجر بڑھ گیا اور نماز تو آپ پانچ وقت پڑھتے ہیں۔ آپ کا روزہ درست ہو جاتا ہے تو آپ کے روزے کا اجر بڑھ گیا، اسی طرح آپ کے حج کا اجر بڑھ گیا، آپ کی خیرات کا اجر بڑھ گیا۔ چونکہ للّٰہیت اور اخلاص علاجی ذکر کی برکت سے آتے ہیں لہذا جتنی جتنی للّٰہیت اور اخلاص آئیں گے اتنے ہی آپ کے اعمال اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت پائیں گے اور آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ہمارے اکابر یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ جو ہم علاجی ذکر کرواتے ہیں اس میں ہم ثواب نہیں سمجھتے لیکن ہم آپ کو ثواب کے دہانوں پہ بٹھا دیتے ہیں، یعنی آپ جو اعمال بھی کرتے ہیں ان میں ثواب زیادہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میں خود اس بات کا قائل تھا کہ اس میں ثواب نہیں سمجھنا چاہیے تاکہ بدعت کا شائبہ نہ ہو۔ لیکن جب میں نے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مکتوب شریف میں یہ بات پڑھی کہ مشائخ جو ذکر دیتے ہیں اس کا ثواب درود شریف سے بھی زیادہ ہوتا ہے، تو مجھے خیال ہوا کہ اس میں ثواب سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر بعد میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ ضرب و جہر ہے اور مراقبہ کی کیفیت میں ثواب نہیں سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ یہ اضافی چیزیں ہیں، جو صرف اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے بعد میں شامل کی گئی ہیں اور یہ علاجی ہیں۔ لیکن بذات خود اس ذکر میں جو کروایا جاتا ہے اس میں ثواب ہے کیونکہ ذکر تو ثابت ہے۔ چنانچہ ہم لوگ اس کو اس انداز میں لیں کہ اس کے ذکر کا تو ثواب ہے لیکن جو ضرب و جہر یا اضافی چیزیں ہیں ان میں ہم ثواب نہیں سمجھتے۔ یوں اس سے ما شاء اللہ دونوں باتیں طے ہو جاتی ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ثوابی ذکر بھی زیادہ سے زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جن میں قرآن پاک اور درود شریف اور ذکر اللہ کی کثرت آ جاتی ہے اور علاجی ذکر بھی ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ جلد سے جلد ہمیں روحانی طور پر صحت عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ