کیا طلاق کے لیے عدالت جانا ضروری ہے؟

سوال نمبر 260

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَبِيِيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے اندر بلاؤ یہ اپنی قوم کا بہت ہی برا آدمی ہے، جب وہ شخص اندر آ گیا تو نبی کریم ﷺ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ابھی آپ نے اس کے متعلق کیا فرمایا تھا؟ پھر اتنی نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی؟ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: عائشہ! اللہ کے نزدیک مرتبہ کے اعتبار سے وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کی بد خلقی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر 6131) اس حدیث شریف سے بظاہر معلوم رہا ہے کہ آپ ﷺ نے اس شخص پر انتہائی شفقت اور اس سے نرمی سے گفتگو اس لئے فرمائی کہ کہیں وہ سب سے برا شخص نہ بن جائے۔ کیا اس حدیث شریف کا یہ مطلب صحیح ہے؟

جواب:

در اصل اگر کوئی انسان بد خلق ہو تو اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ آپ بھی اس کے ساتھ بد خلقی کریں۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ اگر کتے نے آپ کو کاٹا ہے تو جواب میں آپ کتے کو نہیں کاٹ سکتے۔ گویا ہر شخص کا اپنا عمل ہے اور ہر شخص کا مقام اس کے عمل سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ انتہائی خلیق تھے اور آپ ﷺ اپنے اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے، یعنی اگر لوگ آپ ﷺ کے ساتھ بد خلقی بھی کرتے تھے تو بھی آپ ﷺ ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے تھے، یہ بہت اچھی صفت ہے۔

ڈاکٹر سرفراز ہوا کرتے تھے اب شاید فوت ہو چکے ہوں، کیونکہ اس وقت بھی ان کو cancer تھا، PIMS میں ہوتے تھے، بہت اچھے medical specialist تھے اور real یعنی صحیح معنوں میں ریسرچر ڈاکٹر تھے، وہ اپنے مریض کو کافی time دیا کرتے تھے اور عصر کے وقت سے دیکھنا شروع کرتے اور رات کے دو دو بجے تک مریض دیکھتے رہتے تھے، کیونکہ ہر مریض کا اپنا case بناتے، بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ مریض باہر انتظار کر رہے ہوتے، بسا اوقات بچے بھی ہوتے تھے، عورتیں بھی ہوتی تھیں۔ اب دیکھا جائے تو یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان کو جب پورا time دیتے تھے یہ بھی مریض کا حق تھا اور جو مریض باہر بیٹھے ہوتے تھے ان کا بھی حق تھا، اپنے نمبر پر ہی لوگ آتے تھے، تو ایسی صورت میں فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا، میں نے appointment لی تھی تو وہ میرے case میں بھی کافی interest لے رہے تھے اور کافی discuss کر رہے تھے۔ ہمارے آفس کے ایک اور آدمی نے بھی appointment لی تھی، مثلاً ان کو appointment آٹھ بجے ملی تھی لیکن رات کے ایک بجے کا وقت ہو گیا تو وہ پھٹ پڑے اور ڈاکٹر صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ میں دیکھ رہا تھا ڈاکٹر صاحب بڑے حوصلے سے جواب دے رہے تھے حالانکہ ان کو بھی یہ کہنے کا حق تھا کہ میں مریض دیکھ رہا ہوں، میں کوئی گپ شپ تو نہیں لگا رہا، اگر آپ میرے طریقے سے مطمئن نہیں ہیں تو کسی اور ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں، لیکن ڈاکٹر صاحب میں بڑا حوصلہ تھا، میں ان کے حوصلے پہ بڑا ہی حیران ہوا، وہ کہہ رہے تھے:جی آئیں، بیٹھ جائیں، چائے پئیں وغیرہ وغیرہ، یوں اس کے ساتھ بڑی نرمی سے بات کر رہے تھے اور میرا وہ colleague ان پر چڑھائی کر رہا تھا، اس نے ذرا بھر بھی خیال نہیں کیا، حالانکہ ڈاکٹر صاحب خود بھی بیمار تھے لیکن tense نہیں ہوئے۔ یہ واقعی ایک اعلی اخلاق کی بات ہے۔ لہذا اگر کوئی برا ہو تو برے کے ساتھ ہم بھی برا سلوک نہیں کر سکتے، اپنا دفاع کر سکتے ہیں، ان کے برے سلوک سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ برا سلوک نہیں کر سکتے۔ ہاں خدا نخواستہ اگر ہمیں کوئی تھپڑ مارے تو ہم اس کو تھپڑ مار سکتے ہیں، لیکن اگر وہ گالی دے تو ہم اس کو گالی نہیں دے سکتے۔ نیز یہاں سے ایک قانون بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ کے نزدیک مرتبہ کے اعتبار سے وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کی بد خلقی کی وجہ سے چھوڑ دیں، لہذا ایسے آدمی کی بد خلقی کو نہ چھیڑیں ورنہ یہ تو پڑ جائے گا۔ لہذا یہ قانون بتا دیا، لیکن خود آپ ﷺ نے اس کے ساتھ نرم گفتگو فرمائی، چنانچہ اس کی بد خلقی کی وجہ سے یہ تو فرمایا کہ یہ برا ہے لیکن آپ ﷺ کا اس کے ساتھ اپنا عمل بد خلقی کا نہیں تھا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ