خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ علیہ نے سیرت النبی ﷺ کے حصے پنجم میں تقوی کی حقیقت کے عنوان میں فرمایا ہے کہ تقوی ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بنا پر ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک حدیث شریف میں ارشاد فرمایا کہ جب مومن سے گناہ ہوتا ہے تو ایسا ہوتا ہے جیسے اس کے دل پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے جبکہ فاسق جب گناہ کرتا ہے تو ایسا ہوتا ہے جیسے مکھی کہیں بیٹھی ہو اور اڑ جائے یعنی اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ حدیث شریف میں جو فرمایا گیا ہے، کیا ایک انسان کی یہ حالت تقوی کی وجہ سے ہوتی ہے اور کیا انسان کی ظاہری اور باطنی اعمال کی وجہ سے اس تقوی میں فرق آتا ہے؟ وہ کون سے اعمال ہیں جو تقوی کی حفاظت کرتے ہیں اور تقوی کی بڑھوتری کا سبب بنتے ہیں؟
جواب:
اگر اس حديث شریف کو دیکھا جائے تو مومن کی شان کا پتا چلتا ہے۔ مومن کا مطلب ہے ایمان لانے والا، کیونکہ جو ایمان لا چکا ہوتا ہے وہ گناہ اور ثواب کو بھی جانتا ہے، آخرت کو بھی جانتا ہے، تمام چیزوں پر اس کا ایمان ہوتا ہے، جیسے دنیا کا کوئی خسارہ ہوتا ہے۔ دنیا کی چیز چونکہ مشاہدے میں ہوتی ہے کہ مجھے اس چیز کا نقصان ہوا ہے، یا میرے کچھ پیسے کم ہو گئے یا کچھ راحت کم ہو گئی یا کوئی اور نقصان ہوا ہے تو اس پر انسان کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب تک اس کی تلافی نہ ہو اس کو چین نہیں آتا۔ مثلاً کسی کے کچھ پیسے گم ہو جائیں تو وہ مارا مارا پھرتا رہے گا، لوگوں سے پوچھے گا اور مختلف طریقے اختیار کرے گا، جب تک وہ پیسے نہیں ملیں گے اس وقت تک اس کو چین نہیں آتا۔ اسی طرح جو مومن ہوتا ہے اس کا بعد میں آنے والی چیزوں پر بھی اور موجودہ چیزوں کے اثرات پر بھی ایمان ہوتا ہے۔ جن میں سے ایک گناہ بھی ہے اور ثواب بھی ہے۔ اس لئے اگر کوئی نیکی کا کام کرے تو اس کا دل اس بات پر خوش ہو جائے کہ اللہ نے مجھے نیکی کی توفیق دی تو یہ بھی ایمان کی علامت ہے، کیونکہ اس نے بعد میں آنے والی چیز کے بارے میں سوچا ہے، یعنی اس موجودہ زندگی کا نہیں بلکہ بعد میں آنے والی زندگی کا سوچا ہے کہ اس میں مجھے فائدہ ہو گا تو یہ بھی ایمان کی علامت ہے۔ اسی طرح جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس گناہ کا اس کو ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے اوپر پہاڑ گرا ہے اور اس وقت تک اس کو چین نہیں آتا جب تک وہ توبہ نہ کر لے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی توبہ کے قبول ہونے کی نشانیاں شروع نہ ہو جائیں۔ جبکہ فاسق کے لئے چونکہ یہ چیز چھوٹی ہے اور دنیا کی چیز بڑی ہے جیسے اللہ پاک نے فرمایا: ﴿کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ﴾ (القیامہ: 20-21) "ہرگز نہیں بلکہ تم فوری چیز کی محبت میں گرفتار ہو اور بعد میں آنے والی چیز کو چھوڑتے ہو" چونکہ یہ فوری چیز نہیں ہے، بعد میں آنے والی چیز ہے لہذا اس کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اور ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی ہو اور اڑ جائے۔ چونکہ تقوی بھی ایمان کے ساتھ وابستہ ہے کہ اگر کسی میں ایمان نہ ہو تو اس میں تقوی کیسے ہو گا؟ گویا تقوی ایمان کے ساتھ ہی لگا ہوا ہے جو ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بنا پر ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے، تو یہ ایمان کے ساتھ متعلق ہے۔ لہذا جس شخص کا ایمان مضبوط ہو گا تو وہ تقوی کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہو گا۔ اب یہ تقوی کو حاصل کرنے کی کوشش اس پر کچھ مزید اضافہ ہے۔ اور مزید اضافے کا ثبوت قرآن میں بھی ہے، کیوں کہ قرآن پاک میں ہے: ﴿اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ (البقرۃ: 257) یعنی جو اللہ کے ولی ہیں اور مومن ہیں ان کو اللہ نکالتے ہیں۔ گویا اللہ پاک ان کو مواقع دیتے ہیں، ان کی کوشش کو قبول فرماتے ہیں۔ چنانچہ تقوٰی کا تعلق ایمان کے ساتھ ضرور ہے لیکن اس پر کچھ مزید اضافے کی بات ہے اور اضافے کی کیا بات ہے؟ وہ ہے نفس۔ کیونکہ نفس تو موجود ہے، اب نفس کو اگر کھلا چھوڑ دو تو یہ تقوی کے زوال کا باعث ہے، کیونکہ نفس کی جتنی بات مانو گے تو فسق و فجور ہو گا اور فسق و فجور تقوی کی ضد ہے: ﴿فَأَلْھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقْوٰھَا﴾ (الشمس: 8) لہذا جو کوئی جتنا جتنا نفس کی مانے گا اس کا تقوی کم ہوتا جائے گا۔ جیسے حدیث شریف میں ہے کہ اس کے دل پر داغ لگ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تقوی کم ہوتا جائے گا۔ دوسری طرف اگر آپ نفس کے ساتھ مقابلہ کریں اور نفس سے ایسے اعمال کروائیں جو اللہ کو پسند ہیں، جو اللہ چاہتا ہے تو یہ نفس کو قابو کرنے والی بات ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا۔ تو جو نفس کو قابو کرتا ہے اس کا تقوی بڑھتا ہے، کیونکہ تقوی پیدا ہوتا ہے نفس کی چاہت کے مقابلے میں کام کرنے سے، فجور کے مقابلے میں کام کرنے سے۔ چنانچہ اس سے تقوی بڑھتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے جو شریعت نافذ کی ہے اس شریعت پر عمل کرنے سے تقوی بڑھتا ہے اور تقوی بڑھنے سے شریعت پر عمل نصیب ہوتا ہے، گویا یہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ البتہ اس میں تربیت ایک ایسی چیز ہے جو ان دونوں کو join کرتی ہے۔ کیونکہ اگر پہلے سے تقوی نہیں ہے تو عمل کیسے کرے گا؟ یہ start کہاں سے لے گا؟ تو start تربیت ہے، لہذا تربیتی مجاہدے سے ہی نفس قابو میں آتا ہے اور جب نفس قابو میں آ جاتا ہے تو اعمال نصیب ہوتے ہیں، اور جب اعمال نصیب ہوتے ہیں تو تقوی بڑھتا ہے۔ گویا یوں اس تربیت کے ذریعے سے انسان کا untrained نفس trained ہو جاتا ہے اور پھر وہ نفس یعنی نفس مطمئنہ تقوی کی مشین بن جاتا ہے۔ یعنی جب انسان کا نفس مطمئن ہو جائے تو اس کے لئے شریعت پر چلنا کوئی مشکل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی طبیعت ثانی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم لوگوں کو اپنی تربیت کروانی ہے اور اسی کے ذریعے سے تقوی بڑھے گا اور نفس قابو میں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ