خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول کریم ﷺ کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا، میں اسے جنت کی ضمانت دوں، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث 1643) اس حدیث شریف میں صرف ایک عمل پر جنت کی بشارت دی گئی ہے کہ کسی سے نہ مانگے اور یہ بات الحمد للہ ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو حاصل ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کی بات تو بالکل سچی ہے لیکن کیا مانگنا صرف اس کو کہتے ہیں جو آج کل عرفِ عام میں ہے جیسے بھیک مانگنے والے جن کو ہم مانگنے والے سمجھتے ہیں یا اس کی کچھ اور بھی تفصیلات ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائيں۔
جواب:
اس قسم کی جو احادیث شریفہ ہیں ان میں سے بعض خاص ہیں اور بعض عام ہیں۔ مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ یہ بات اُسی وقت کے لحاظ ہو تو اس وقت جس نے اس کو avail کر لیا تو وہ اس انعام کا مستحق ہو گیا۔ اور بعض بزرگوں کے یہاں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص معاملے میں کسی کے لئے دعا کر دیتے ہیں تو اللہ پاک ان کا وہ کام بنا دیتے ہیں پھر باقی سارے کام خود set ہو جاتے ہیں چنانچہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اکثر میں عرض کرتا ہوں کہ اگر احادیثِ شریفہ ایسی general ہوں، جیسے یہ مشہور حدیث شریف ہے جو میں بیان کیا کرتا ہوں: "اَفْشُوا السَّلامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صِلُو الْاَرْحَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيامٌ، تَدخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلامٍ" ( المستدرك على الصحيحين، حدیث نمبر 4283) تو اس قسم کی احادیث سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہمیں اس وعدے پر یقین کر کے ان اعمال کو کرنا چاہیے، باقی جو باتیں اس کے لئے ضروری ہوں گی وہ اللہ پاک خود ہی کر لے گا، جہاں تک اس سوال کی بات ہے کہ مانگنا کس کو کہتے ہیں؟ مانگنے کی واقعتاً کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو عرفی مانگنا ہوا جس کو بھیک مانگنا یا سوال کرنا کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں تو بڑی وعیدیں ہیں۔ ٹھیک ہے اگر واقعی ضرورت اور واقعی مجبوری ہو اس کی اجازت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ اس میں ایک پورا social environment ہے، اس social environment میں اس بات کی تحقیق کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کون واقعی ضرورت مند ہے اور کون نہیں ہے، یہ ایک مسئلے کی دعوت دیتا ہے۔ لہذا اس میں وعیدیں بھی ہیں کہ انسان ڈر جائے اور اس کے قریب نہ جائے۔ ایک دفعہ ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ایک اندھا سانپ ہے اور ایک چڑیا آتی ہے اور اس کے منہ میں خوراک ڈالتی ہے۔ حالانکہ سانپ چڑیا کو کھاتا ہے، لیکن اللہ پاک نے اس چڑیا کی duty لگا دی۔ بہر حال اس نے کہا کہ میں مطمئن ہو گیا ہوں اور اب میں کوئی کام نہیں کروں گا۔ تو حضرت نے ان سے فرمایا کہ خدا کے بندے تو نے سانپ سے سیکھ لیا جو اندھا تھا، چڑیا سے کیوں نہیں سیکھا، وہ بھی تو آخر مخلوق ہے وہ کھلا رہی تھی تو تم وہی بن جاؤ، کما کر دوسروں کو کھلایا کرو۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی اوپر جو دینے والا ہاتھ ہے وہ نیچے لینے والے ہاتھ سے افضل ہے، یہ بات بالکل صحیح ہے، انسان کمائے اور خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔ جیسے عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مال اللہ کے لئے ہوتا تھا، خود اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں کرتے تھے، دوسروں پہ زیادہ خرچ کرتے تھے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھیک مانگنے سے ڈر جائے کیونکہ یہ defuse قسم کی چیز ہے کہ کہاں پر ضرورت کی بات ہے اور کہاں بغیر ضرورت کے مانگنا ہے، چنانچہ اس پر وعیدیں بھی ہیں، لیکن بعض دفعہ گنجائش بھی ہے گنجائش سے مراد یہ ہے کہ اگر واقعی کوئی ضرورت مند ہو اور کام نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنی ضرورت کسی کو بتا سکتا ہے یہ حقیقت ہے۔ البتہ یہ بھی سوال کے زمرے میں آتا ہے کہ انسان تن آسان ہو جائے اور اپنے کام دوسروں پہ ڈالنے لگے اور دوسروں سے ملتجی رہے۔ اور طمع بہت ہی خطرناک چیز ہے، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی سے طمع نہ رکھو، پھر فرمایا: مجھ سے بھی طمع نہ رکھو۔ چونکہ طماع (طمع رکھنے والا) شخص بیچارہ ہر وقت اسی لگن میں رہتا ہے کہ کون مجھے کیا دے گا اگر دروازے پر بھی کوئی آتا ہے تو اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ پتا نہیں میرے لئے کیا لا رہا ہو گا۔ یہ اشراف نفس ہے یعنی دل کا سوال، یہ بھی حرام ہے، لہذا ایسی حرام چیزوں سے بچنا ضروری ہے کہ انسان جواں مرد بنے، خود کام کرے دوسروں کی جیب پر ذرہ بھر بھی نظر نہ رکھے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پر شکر کرے تو تھوڑا بھی کافی ہو جائے گا اور اگر یہ حالت نہیں ہے تو ہمیشہ ہی بھوکا رہے گا۔ کیونکہ پیٹ کی بھوک تو ختم ہو سکتی ہے لیکن آنکھ کی بھوک ختم نہیں ہو سکتی۔ جب دوسرے پہ نظر ہوتی ہے تو وہ ختم نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کا کوئی end نہیں ہے۔ ایک دفعہ کوئی شخص رو رہا تھا، کسی نے اس سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کہنے لگا میرا ایک ٹکا گم ہو گیا تو اس آدمی نے ایک ٹکا نکال کر اس کو دے دیا کہ چلو اب رونا بند کر دو۔ یہ کہہ کر وہ آگے چلا گیا جب واپس آیا تو وہ پھر رو رہا تھا، اس نے کہا اب کیوں رو رہے ہو؟ کہنے لگا: اگر وہ ٹکا گم نہ ہوتا تو اب دو ہوتے۔ حالانکہ دو کیسے ہوتے؟ لیکن طمع ایسی چیز ہے جو بیچاروں کو بالکل بے وقوف بنا دیتی ہے۔ لہذا طمع نہیں ہونی چاہیے، صرف اللہ تعالیٰ پہ نظر ہونی چاہیے۔ میں ایک بات اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ عرب حضرات بہت مہمان نواز ہوتے ہیں، ان کے اندر اتنی مہمان نوازی ہے کہ مثلاً ٹیکسی ڈرائیور بھی آپ کے ساتھ خوب بحث کرے گا کہ نہیں اتنا نہیں اتنا کرایہ ہے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ تو بڑے crazy ہیں، بڑے حریص ہیں۔ لیکن اگر افطاری کا یا کھانے کا وقت آئے گا تو وہ سارا کچھ آپ پہ خرچ کر دے گا۔ گویا ان میں یہ خوبی ہے، اس معاملے میں بہت زیادہ فیاض ہیں۔ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم پاکستانیوں کو کم سمجھتے ہیں۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جب اِن کی نظر اُن کی جیب پر ہوتی ہے تو وہ اِن کو کم سمجھتے ہیں، تو آپ ان کی جیب پہ نظر نہ رکھیں، برابر کا معاملہ رکھیں تو وہ آپ کے بہت زبردست دوست بن جائیں گے۔ الحمد للہ میرا خود کا تجربہ ہے، میں ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا ہوں، اور ابھی بھی اللہ کا شکر ہے کہ میرے خیال میں 5 منٹ بھی کسی عرب کے ساتھ بیٹھ جاؤں تو دوستی ہو جائے گی، وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی جیب پر میری نظر نہیں ہوتی، کیونکہ وہ مجھے کیا دے سکتا ہے؟ بس برابری کا معاملہ ہے اور برابری کے معاملے میں ایسے ہی ہوتا ہے، آپ اندازہ کریں کہ جب میں جرمنی میں تھا تو ایک عرب کے ساتھ نمازوں کے اوقات کے مسئلے پہ میں نے بڑی بحث کی حتی کہ میں نے سخت باتیں کیں، ہماری گھر والی یہ باتیں سن رہی تھیں تو انہوں نے مجھے کہا: کسی کو تو اپنا دوست رکھو، یہ کیا آپ ہر ایک کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں۔ میں نے کہا: جس کے لئے لڑ رہا ہوں وہ دیکھ رہا ہے۔ تو چند دنوں کے بعد میرا دروازہ کھٹکٹایا گیا، میں حیران تھا کہ 72 سیڑھیوں کے اوپر دروازہ کھٹکٹانے والا کون ہو گا؟ یہاں تو یہ رواج ہی نہیں ہے، یہاں تو نیچے سے bell دیتے ہیں پھر دروازہ کھلواتے ہیں، اس کے بعد لوگ آتے ہیں۔ تو دروازہ کس نے کھٹکٹایا ہے؟ جب میں نے دروازہ کھولا تو وہی ابو شعیب اپنی بیوی کے ساتھ اور بہت سارا سامان لئے ہوئے ہیں، fridge بھی ساتھ ہے، oven بھی ہے، پردے ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ کہنے لگے اصل میں ہمارے ایک ساتھی اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں تو ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جو نئے لوگ آئے ہوئے ہوتے ہیں یہ سامان وغیرہ ہم ان کو دیتے ہیں، تو ہم نے چاہا کہ یہ آپ رکھ لیں۔ میں نے کہا خدا کے بندو! اگر لانا ہی تھا تو نیچے سے آپ bell دیتے، کم از کم ہم آپ کے ساتھ سامان اٹھا کے تو لاتے ہیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ آپ دو نے سارا سامان اٹھایا ہے۔ فریج بھی ہے۔ اب 72 سیڑھیوں پہ fridge اٹھانا کوئی معمولی بات ہے؟ بہر حال وہ سامان اندر لے آئے اور بیٹھے بھی نہیں، چائے بھی نہیں پی، اسی وقت روانہ ہو گئے کہ بس ہمیں فلاں کام ہے۔ تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ یہ وہ ہے۔ حالانکہ میں نے اس کو ایک دینی مسئلے پر کتنا سخت لتاڑا تھا، لیکن اس کے دل میں اللہ پاک نے میرے لئے بالکل کدورت پیدا نہ ہونے دی۔ اور پھر خدمت کے طور پہ وہ ساری چیزیں لے آئے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کسی کی جیب پر آپ نظر نہ رکھیں تو وہ آپ کا دوست بن سکتا ہے، ورنہ وہ آپ کو نیچے سمجھے گا۔ تو پھر اس پر کوئی گلہ نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ظرف عظیم عطا فرمائے۔
سوال:
کسی سے عزت کی طلب بھی اس میں شامل ہے؟
جواب:
بالکل عزت کی طلب بھی اس میں آتی ہے، پیسے کی طلب بھی اسی میں آتی ہے، تعاون کی طلب بھی اسی میں آتی ہے۔ گویا بہت ساری چیزیں اس میں آتی ہیں یعنی تمام چیزیں اس میں ہو سکتی ہیں کیونکہ آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ بلکہ وہ تو عزت ہی نہیں ہوتی جو دوسروں سے مانگی جائے۔ مشہور مقولہ ہے کہ جو عزت مانگ کے لی جائے وہ عزت کہاں ہے وہ تو بے عزتی ہے۔ جیسے اگر کوئی آدمی زبانی کسی کی تعریف کرے تو اس پر جب وہ Thank you کہتا ہے تو میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اس نے Thank you کیسے کہہ دیا، یہ کیسی بات ہے؟ کیونکہ اگر آپ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تو آپ معذرت کر لیں کہ ٹھیک ہے آپ نے اپنے طور پہ تو میرے ساتھ بڑا خیر خواہی کا معاملہ کیا ہے اور میری بڑی عزت افزائى فرمائی لیکن میں اس قابل نہیں ہوں۔ یہ بات صحیح ہے اور دل میں بھی ایسا سمجھیں۔ گویا آپ عزت کے اتنے لالچی ہیں کہ آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کے منہ پر آپ کی تعریف کرے حالانکہ منہ پر تعریف کرنا تو بہت خطرناک بات ہے۔ بہرحال ڈانڈے بہت ساری چیزوں کے ساتھ ملتے ہیں، لیکن ظاہر ہے سب کی تفصیل نہیں ہو سکتی۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ