قرآن میں سختی برتنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟

سوال نمبر 257

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر سکینہ نازل ہونے کا بیان آیا ہے، جیسا کہ کل سیرت نبی ﷺ کے درس میں تقوی کے مضمون میں سورہ فتح کی یہ آیت بھی نظر آئی تھی ﴿اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ وَ كَانَ اللهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا﴾ (الفتح: 26) اس کا ترجمہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے یہ کیا ہے: "چنانچہ جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں اس حمیت کو جگہ دی جو جاہلیت کی حمیت تھی تو اللہ نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں پر سکینت نازل فرمائی ان کو تقوی کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اسی کے زیادہ حق دار اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے" سوال یہ ہے کہ سکینہ کیا ہے، اس کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کیا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے اور جس وقت بھی اللہ تعالیٰ کسی پر نازل فرمانا چاہے تو نازل فرما دیتا ہے یا اس کے حصول میں انسانی عمل کو کوئی دخل ہے؟

جواب:

سکینہ کا جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے اس کے مطابق یہ لطائف کے درجے میں ہے، تفصیلی درجے میں نہیں ہے۔ اور وہ سکون کے ساتھ ملتی جلتی ہے، یعنی ابتلا و تکالیف کے وقت انسان کو سکون کی ایسی کیفیت حاصل ہو جائے کہ ان چیزوں سے اتنا اثر نہ لے جتنا عام لوگ لیتے ہیں۔ اور اپنے targets کو manage کرنے کے لئے ان کو قوت حاصل رہے۔ کیونکہ بے اطمینانی میں وہ قوت حاصل نہیں رہتی، چنانچہ وہ disturb ہو جاتا جس کو anxiety کہتے ہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ سکینہ کا لفظ anti-anxiety کے بہت قریب ہے، یعنی anxiety نہ ہونا اور مشکل حالات میں ثابت قدم رہنا اور دل میں ایسی کیفیت پیدا ہو جانا کہ انسان جو بھی برداشت کرنا چاہے کر سکے اور جو ترتیب بنانا چاہے بنا سکے۔ اب تشریح کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے جیسے آگے فرمایا کہ ان کو تقوی کی بات پر جمائے رکھا، یعنی اگر انسان میں anxiety ہو تو وہ تقوٰی پر بر قرار نہیں رہ پاتا، بلکہ بات ضرور آگے پیچھے ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان تقوی کی طرف نہیں جاتا۔ جیسے کسی نے آپ کو گالی دی، اب گالی کی وجہ سے انسان کو اتنا غصہ آ جاتا ہے کہ اس کے پاس اگر pistol ہو تو اس کو گولی مار دے۔ لیکن اس وقت تقوی یہ ہو گا کہ انسان دیکھے کہ برابری کا تو معاملہ maximum ہے اور معافی اللہ کو پسند ہے۔ گویا ایسی صورت میں دو targets ہوتے ہیں ایک یہ ہے کہ آپ maximum اتنا ہی بدلہ لے لیں، چونکہ گالی کے بدلے میں maximum گالی دینا ہے، جب کہ گالی دینا اچھی بات نہیں ہے لہذا ایسے وقت میں تحمل کرنا اور تقوی کے درجے میں رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور یہ سکینہ کی کیفیت ہی کر سکتی۔ مجھے حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آتی ہے، حضرت میرے ساتھ کوئی بات کر رہے تھے اس دوران مجھے فرمانے لگے نہ جانے کاکا خیلوں پر سکینہ اتنی جلدی کیوں طاری ہو جاتی ہے یعنی یہ جلدی disturb نہیں ہوتے۔ چنانچہ disturb نہ ہونا، anxiety کی کیفیت میں مبتلا نہ ہونا کہ کسی بھی چیز کے متعلق یہ احساسات نہ رہنا کہ میں اس میں مبتلا ہو جاؤں گا، یہ سکینہ۔ البتہ یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ یہ تو ہمیں معلوم نہیں، اتنا واضح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: ﴿فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الفتح: 26) " پھر اللہ نے بھی اپنی تسکین اپنے رسول اور ایمان والوں پر نازل کردی اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی نازل فرماتا ہے، انسان کے اندر خود بخود نہیں پیدا ہوتی۔ البتہ اس کے نازل ہونے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں، ان اسباب میں ذکر اللہ بھی ہے، اچھے لوگوں کے ساتھ ہونا بھی ہے، اور کچھ فطری صلاحیتیں بھی ہیں۔ یہ سب اسباب ہیں۔ اور ان اسباب کے بعد جس وقت اللہ تعالیٰ نازل فرمانا چاہے، نازل فرما دیتا ہے۔ یہ اس سوال کا جواب ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تقوی پر جمے رہے، گویا کہ سکینہ کا نتیجہ بھی سامنے آ گیا۔ اور آگے فرمایا کہ وہ اسی کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے، گویا یہ اعمال کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اللہ پاک نے ان کے اوپر جو سکینہ نازل کی یہ منجانب اللہ ہے، پہلے سے یہ چیز ہمیں حاصل نہیں تھی، گویا اسی آیت کے اندر اس کی وضاحت موجود ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو کام کرنا ہوتا ہے اس پر ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً اگر جہاد اگر کرنا ہو تو جہاد پہ جمے رہیں، تقوی اختیار کرنا ہو تو تقوی پر جمے رہیں، کوئی فیصلہ کرنا ہو تو فیصلہ کر سکیں۔ گویا یہ تمام اس کے نتائج ہیں۔ اور یہ جو فرمایا کہ "وہ اس کے اہل تھے" اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر اعمال اور تمام صلاحیتیں رکھی تھیں ان کی بنیاد پر وہ اس کے اہل تھے کہ ان کے اوپر یہ سکینہ اتاری جاتی۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، یعنی اس پر مزید بات نہیں کرنی۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ