کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال لمبے تھے؟

سوال نمبر 256

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّابَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل کے درسِ قرآن میں عورتوں کے لئے پردہ کے حکم کے بارے میں آیات کریمہ تھیں جس میں عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردہ کرنے کے حکم کا بیان تھا۔ اسی کے متعلق ایک سوال ہے کہ جن گھرانوں میں چچا زاد، خالہ زاد، ماموں زاد وغیرہ سے پردہ نہیں کیا جاتا، اگر اسی گھرانے میں کسی مرد کو یا کسی خاتون کو اللہ تعالیٰ یہ فکر نصیب فرمائے تو اس کو کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ پردے کے حکم پر عمل بھی ہو اور آپس میں ٹوٹ بھی نہ پڑے۔ اگر اکیلا مرد ہو اور اس کی چچا زاد، ماموں زاد بہنیں اس پردے کی قائل نہ ہوں تو وہ کیا کرے اور اگر اکیلی خاتون ہو اور اس کے یہ مرد رشتہ دار پردے کے قائل نہ ہوں تو وہ کیا کرے؟

جواب:

واقعتاً یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے اور آج کل کے دور کا ابتلائے عظیم ہے۔ لوگ مسلمان بھی ہیں اور اسلام کی باتوں میں اپنی دخل اندازی بھی کرتے ہیں، بعض دفعہ ایک شخص گناہ گار ہوتا ہے لیکن وہ سچ کے مقابلے میں نہیں آتا۔ بس خود گناہ گار ہوتا ہے۔ جب کہ بعض لوگ خود اس گناہ میں مبتلا نہیں ہوتے لیکن کسی گناہ گار کی حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اپنے آپ کو بلاوجہ خراب کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ایک ساتھی تھے جو آزاد طبع تھے، بعض دفعہ ان کی نمازیں بھی رہ جاتی تھیں، بعض دفعہ کچھ اور مسائل بھی ہوتے تھے، لیکن ان میں ایک خوبی تھی کہ جب کبھی ہم دین کی بات کرتے تو ان کی زبان سے بے اختیار یہ بات نکلتی this is fact۔ یعنی اس میں ذرہ بھر یہ بات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کے بارے میں دلیل دیں کہ نہیں یہ اس طرح ہے۔ بلکہ اپنے آپ کو خراب کہہ کر آگے چلے جاتے اور کہتے کہ اصل بات یہی ہے لیکن ہم غلط کر رہے ہیں، یہ واقعی ایک quality ہے۔ حق کی بات کو حق سمجھنا بہت بڑی quality ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم پر عمل کرنا چاہتے ہیں، اللہ تعالٰی ایسی نعمت قبول فرمائے، تو اس کے مقابلے میں بڑے بڑے شرفاء آ جاتے ہیں، بعض دفعہ مولوی بھی آ جاتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ پیر بھی آ جاتے ہیں، جس پر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ایک طرف قرآن کا حکم ہے، صاف حکم ہے جس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔ جیسے نامحرم سے پردے کا حکم ہے یا نہیں؟ اور cousin محرم ہے یا غیر محرم ہے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں، اگر محرم ہے تو اس سے شادی کیوں کرتے ہو؟ اور اگر غیر محرم ہے تو اس سے پردہ کیوں نہیں کرتے؟ automatically دو باتیں ہیں ان کے علاوہ تیسری بات تو ہے نہیں۔ کہتے ہیں بہنیں ہیں، اگر بہنیں ہیں تو پھر بہن کے ساتھ شادی کرتے ہو؟ خدا کے بندے کیا عجیب بات کرتے ہو؟ اس کا مطلب بہن نہیں ہے، جب بہن نہیں ہے تو پھر پردہ کیوں نہیں کرتے؟ یہ ایک سوال ہے اور یہ پردہ دار گھرانوں سے سوال ہے، جو بے پردہ لوگ ہیں ان سے تو یہ سوال ہی نہیں کیا جاتا، ان کا تو معاملہ ہی اور ہے، یہ پردہ دار گھرانوں کی بات ہے جو پردہ کرتے ہیں لیکن رواجی پردہ کرتے ہیں۔ اب باقاعدہ شرعی پردے کی ایک اصطلاح بن گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر شرعی پردہ بھی ہوتا ہے۔ چلو آپ لوگوں نے غیر شرعی پردہ کر لیا ہے تو شرعی پردہ کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟ اگر خود نہیں کر سکتے تو دوسروں کی مخالفت تو نہ کرو، جو کر سکتا ہے اس کی مخالفت تو نہ کرو بلکہ اس کے لئے آسانی پیدا کرو۔ جیسے ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو یقیناً یہ غلط کرتا ہے، لیکن دوسرے کسی نماز پڑھنے والے کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے۔ ایک دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھتا لیکن دوسرے کسی آدمی کو نماز پڑھنے سے روکتا بھی نہیں۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ دونوں برابر نہیں ہیں۔ جو خود نماز نہیں پڑھتا ہے گناہ گار تو ہے لیکن ڈبل گناہ گار نہیں ہے کہ دوسروں کو نماز سے بھی روکے۔ لہذا جو پردے سے روکتے ہیں وہ ڈبل گناہ گار ہیں، شریعت کا مقابلہ کر رہے ہیں، مقابلۂ پولیس جرم کی ایک دفعہ ہے۔ اسی طرح شریعت کا مقابلہ بھی ایک جرم ہو گا، تو یہ شریعت کا مقابلہ ہے، اللہ کرے ہم لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے۔ میں اس بارے میں زیادہ detail میں نہیں جاؤں گا ورنہ معاملہ بہت زیادہ آگے چلا جائے گا۔ میں صرف سوال کے متعلق آپ سے بات کرتا ہوں۔ اگر کوئی شخص پردہ کرنا چاہے تو کیا کرے؟ اگر مرد ہے تو کیا کرے گا؟ اگر عورت ہے تو کیا کرے گی؟۔ چنانچہ مردوں کے متعلق مجھ سے میرے شیخ نے کہا تھا، کیونکہ اس قسم کے مسائل میرے لئے بن گئے تھے، تو میں نے حضرت سے پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ جب تم بازار جاتے ہو اور کسی دکان سے سودا لیتے ہو تو پاس ہی تمہارے ساتھ کوئی بے پردہ عورت کھڑی ہو جائے تو اس وقت تمہارا معاملہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا میں آنکھیں نیچے کر لیتا ہوں، انہوں نے فرمایا گھر میں بھی آنکھیں نیچے کر لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنکھوں کے اندر بہت زبردست management دی ہوئی ہے۔ جیسے ایک ہے Cones جس کو کرونیہ کہتے ہیں اور ایک ہے Rods۔ Cones exact image بناتا ہے اور recognizable image بناتا ہے۔ لہذا جو میرے سامنے ہوتے ہیں میں ان کو ٹھیک ٹھیک پہچانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کون ہیں، لیکن جو side پر ہوتے ہیں ان کو میں existence تو مانتا ہوں کہ کوئی موجود ہے، لیکن ان کو میں recognized نہیں کر سکتا کہ کون ہیں، بس اتنا جانتا ہوں کہ کوئی موجود ہے، یہی میرا حال آنکھوں سے تھوڑا سا اوپر ہے اور یہی حال آنکھوں سے تھوڑا سا نیچے ہے، اور بالکل درمیان میں جو circle ہے وہاں recognition ہے، اس سے آگے پیچھے recognition صرف existence کی ہے۔ اور اس میں اللہ پاک کی بہت بڑی حکمت ہے کہ غضِّ بصر یعنی نگاہیں نیچے کرنے کا فائدہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ آپ کو نظر نہ آئے، آپ اس کو پہچان نہ سکیں اور آپ کا دھیان اس کی طرف نہ جائے۔ جیسے اگر میں راستے پر جاتے ہوئے آنکھیں بالکل نیچے کر لوں تو accident کا خطرہ ہے تو میں اتنا نیچے کرلوں کہ مجھے معلوم تو ہو کہ کوئی گاڑی یا کوئی اور چیز آ رہی ہے لیکن میں recognize نہ کر سکوں، بس اتنا ہی کافی ہے۔ یوں ان شاء اللہ حفاظت ہو جائے گی۔ اور ہمارا بنیادی فرض اپنی حفاظت ہے، دوسروں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری تو بعد میں ہے جو اس پر depend کرتا ہے کہ آپ اس پوزیشن میں ہیں یا نہیں، کوئی آپ کی بات سنتا ہے یا نہیں سنتا، کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ اگر نہیں مانتا تو اسے کہنے میں لڑائی ہے اور اپنے گھر میں لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ لہذا پہلی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کی حفاظت کرنی چاہیے، یہ مرد کے لئے ہے۔ عورت کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اتنا حجاب کر لے کہ کچھ چیزیں تو نظر آئیں اس سے زیادہ پردہ نہ اتاریں یعنی اگر وہ غیر محرموں کے سامنے ہو تو بے شک ان کے سامنے کھانا بھی رکھیں، البتہ تنہائی میں نہ بیٹھیں، ان کے ساتھ گپ شپ نہ لگائیں، لیکن کھانا serve کرتے وقت تمام حجاب میں رہیں۔ ہمارے خاندان کی بعض عورتیں اگر کسی کے ہاں چلی جائیں تو برقع نہیں اتارتیں، اسی میں بیٹھی رہتی ہیں، اسی میں سارے کام ان کے ہوتے رہتے ہیں۔ حالانکہ عورتوں کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچانک کوئی آ سکتا ہے، جیسے ایک شخص کمرے میں ہو، گھر کی عورتوں کو بھی پتا ہو کہ وہ اندر ہے باہر نہیں آ رہا ہے، لیکن ممکن ہے وہ اچانک کسی کام سے باہر آ جائے اور اس کو ان خواتین کا علم نہ ہو۔ اس لئے خطرہ تو ہے۔ لہذا وہ برقع نہیں اتارتیں۔ اسی طرح خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر میں اتنا حجاب رکھیں اور اس کے لئے ایک special برقع بنا لیں جو باہر کے لئے نہ ہو، گھر کے اندر استعمال کرنے کے لئے ہو، اور وہ اس میں رہیں۔

ایک فیملی ہے، ان کے ساتھ ہمارا ملنا جلنا ہے۔ تینوں مفتی ہیں، علماء ہیں، غالباً تینوں کی بیویاں بھی عالمات ہیں اور بنات کا ایک مدرسہ چلا رہے ہیں، انہوں نے ایسی ترتیب بنائی کہ گھر کے اندر تین کمرے ہیں، ہر ایک کا ایک ایک کمرہ ہے، drawing room سب کا مشترکہ ہے، lounge سب کا مشترکہ ہے اور گھر بھی چھوٹا سا ہے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی گھنٹی کا الگ کوڈ بنایا ہوا ہے جس سے پتا چل جاتا ہے کہ کون ہے، جب وہ گھنٹی بجتی ہے تو باقی عورتیں اپنے اپنے کمروں میں چلی جاتی ہیں، اسی کی بیوی آتی ہے، گھر کا دروازہ کھولتی ہے اور اس کا شوہر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے، پھر اس کا دروازہ بند ہو جاتا ہے یا پردہ ڈال دیتے ہیں ، اس کے بعد وہ ساری عورتیں باہر آ جاتی ہیں۔ اسی طریقے سے وہ بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں، ما شاء اللہ۔ لہذا جو عمل کرنا چاہیں ان کے لئے کیا مشکل ہے۔ بہر حال عورتوں کو اگر مردوں کے درمیان کام کرنا پڑے تو اسی طریقے سے کام کریں کہ اپنا حجاب نہ اتاریں، تنہائی میں نہ بیٹھیں، گپ شپ نہ لگائیں۔ اور اپنے گھر کے کام کاج کرتی رہیں، بس ان کے لئے یہ کافی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم شریعت کے مطابق عمل کریں۔ جب ہم جرمنی میں تھے تو کبھی کسی کے ہاں جانا ہوتا تو میری اہلیہ بھی میرے ساتھ ہوتیں اور اکثر ہم پیدل ہی جایا کرتے تھے تو جرمن عورتیں بڑے غصے سے میری طرف دیکھتیں کہ تونے اس کو برقع پہنایا ہوا ہے۔ تو میں اشارے سے کہتا کہ مجھ سے بات نہ کرو، ان سے بات کرو، جب وہ میری اہلیہ سے بات کرتیں تو وہ ان کو دعوت دیتیں کہ یہ تو ہمارے فائدے کے لئے ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا ان کو دعوت کا ایک موقع مل جاتا تھا۔ چنانچہ جب خواتین اس طرح کریں گی تو یہ ایک مستقل دعوت ہے جس سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوچ آئے گی کہ یہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرتی مشکلات میں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ