سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 497

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ! بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 2000 مرتبہ زبانی طور پر "اللّٰہ اللّٰہ " کرنے کا معمول ہے مہینہ پورا ہو چکا ہے۔

جواب:

اب ایک مہینہ کے لئے 2500 مرتبہ "اللّٰہ اللّٰہ " زبانی طور پر کر لیں۔

سوال 2:

السلام علیکم شیخ

I have been doing initial ذکر for 40 days. Please kindly advise next.

جواب:

و علیکم السلام

Now you should perform 100 time 3rd کلمہ

"سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَ الْحَمْدُ للّٰہ، وَ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہ، وَ اللّٰہ أَكْبَر"

and 100 times صلوۃ علی النبی

"وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ محَمّد"

and 100 time استغفار

"اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہ"

it will be forever ان شاء اللہ daily and also the ذکر which you are will you are doing after صلوۃ thirty three times سبحان اللہ thirty three time الحمد للہ and thirty four times اللہ اکبر and 3 times کلمہ طیبہ three times درود ابراہیمی and 3 times استغفار and 1 time آیۃ الکرسی. This will be ان شاء اللہ these two will be forever and beside this you will be a meditate for 10 minutes as if you are you are you are hearing the sound of اللہ اللہ from your heart it will not be a by tongue your tongue will be stopped and you will be facing towards قبلہ and your eyes will be closed and it will be for 30 days and ان شاء اللہ after 30 days you will inform me ان شاء اللہ

سوال 3:

السلام علیکم امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت آج کل بزرگی کا بہت خیال آتا ہے۔ اللہ معاف فرمائے۔

جواب:

واقعی یہ مرض بہت زیادہ ہے۔ الله جل شانہٗ اس مرض کی جڑ کو اکھاڑ دے اور اس کا اکھڑنا اس میں ہے کہ انسان کے ذہن میں یہ ہو کہ میں تو سراپا شر ہی شر ہوں۔ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عدمات شر ہی شر ہیں اور ہم لوگ عدم سے وجود میں آئے ہیں لہٰذا ہم شر ہی شر ہیں۔ ہمارا نفس شر ہی شر ہے جب تک کہ اس کی تربیت نہ کی جائے۔ شر اس وقت خیر بن جاتا ہے جب اس پر خیر کی نظر ہو، یعنی اللہ تعالیٰ کی نظر جو واجب الوجود ہے۔ خیر عدم کے اوپر وجودی تجلی کی وجہ سے آتی ہے اور ہم سراپا شر ہی شر ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر رحمت کی نظر فرمائیں گے تو پھر ہم خیر کی طرف آئیں گے۔ اس وجہ سے ہمیں جو اپنے اندر خیر نظر آتی ہے وہ اصل میں شر ہے کیونکہ ہم تو سراپا شر ہیں۔ کسی کو زرد رنگ سرخ نظر آئے تو وہ color blind ہے۔ یہ بیماری ہے۔ اسی طرح جب ہمارا نفس بیمار ہوتا ہے تو ہمیں مختلف چیزیں نظر آتی ہے۔ بہر حال آپ کو اگر بزرگی کا خیال آتا ہے تو اس کو عجب کہتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ اگر پہلے میں ٹھیک بھی تھا تو اب خراب ہو گیا ہوں اور خراب آدمی بزرگ نہیں ہو سکتا۔ بس اس کو ذہن میں لا کر اس چیز کا علاج کر لیا کریں۔

سوال 4:

السلام علیکم آج 17 دسمبر ہے، 40 دن پورے ہو گئے الحمد للہ۔ اب اگلا ذکر تعلیم فرمائیں۔

جواب:

اس ذکر کے دو حصے تھے۔ ایک 40 دن کے لئے تھا جو پورا ہو گیا اور ایک ہمیشہ کے لئے ہے۔ نماز کے بعد جو اذکار ہیں وہ جاری رہیں گے اور اس کے بعد تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ روزانہ جو ہمیشہ کے لئے ہو گا۔ اس کے علاوہ روزانہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ" 100 دفعہ، "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" 100 دفعہ، "حَق" 100 دفعہ، " اللّٰہ " 100 دفعہ، یہ علاجی ذکر ہے۔ اس کو ایک مہینہ کر کے پھر مجھے اطلاع دینی ہے۔

سوال 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اعمال کی تفصیل یہ ہے: "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ " 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" 400 مرتبہ، "حَق حَق" 600 مرتبہ اور " اللّٰہ" 100 مرتبہ۔ قلب کا مراقبہ 10 منٹ ہے، روح کا مراقبہ 10 منٹ ہے، سِر کا مراقبہ 15 منٹ ہے۔ مراقبہ سِرّ کو 4 ماہ سے زائد ہو گئے اور ذکر محسوس ہوتا ہے، کبھی 2 منٹ کبھی 5 منٹ۔ آگے رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

آپ یہ مراقبہ ایک مہینہ اور جاری رکھیں تاکہ یہ پورا وقت آپ کو محسوس ہونے لگے۔ البتہ آپ نے حق حق لکھا ہے 600 مرتبہِ یہ حق حق نہیں ہے۔ صرف حق ہے۔

سوال 6:

السلام علیکم شیخ

I have been doing مراقبہ of being silent for initial 15 minutes during any conversation. This has helped in overcoming backbiting and useless talk beside I feel closeness to almighty اللہ during صلوۃ. I once dream you being young and old. Kindly advise next. جزاک اللہ

جواب:

Now ان شاء الله العزیز you will continue this ان شاء اللہ العزیز for 1 month more but you will stop yourself from talking from for 20 minutes ان شاء اللہ and


سوال 7:

شیخ السلام علیکم

After laps of few months I restarted during doing مراقبہ of اللہ اللہ for 10 minutes on the 1st and 2nd points and 15 minutes on the 3rd point. I felt support your kindly advise next,

جواب:

So I don’t know whether you have left the ذکر doing or you are continuing this but you are not informing. If you have left it, so make two صلوۃ two رکعت صلوۃ توبہ because اصلاح is فرض and one should not stop this because this is actually this is not part of دین but this is to put you on دین so therefore it should not be repeated again and you should have two رکعت صلوۃ توبہ and after this you restart this for one month what you are doing already and ان شاء اللہ after 1 month you inform me.

سوال 8:

شیخ السلام علیکم

I have been doing مراقبہ صفاتِ سلبیہ on the 4rth point for 15 minutes. The the feelings have been good and health has improved a lot. Kindly advise next جزاک اللہ

Old lady care of فلاں

جواب:

Ok now you will be doing this on the 5th point and that is شان جامع that فیض of the all you can say شان جامع is coming from اللہ سبحانہ و تعالیٰ towards towards the قلب of رسول اللہ ﷺ and from that towards قلب of your شیخ and from that towards your 5th point, it mean اخفیٰ and it will be for 1 month ان شاء اللہ

سوال 9:

شیخ السلام علیکم

I have been doing “مراقبہ اللہ اللہ” on each of the 5 points for 5 minutes followed by مراقبہ احدیت on the 1st point I do feel improvement this month kindly advise next.

جواب:

Ok now ان شاء اللہ العزیز your مراقبہ احدیت is complete and after that you will do مراقبہ of تجلیاتِ افعالیہ for 15 minutes on قلب and thinking as if فیض of تجلیات افعالیہ it means everything is done by اللہ سبحانہ و تعالیٰ its coming from اللہ سبحانہ و تعالیٰ to the قلب of رسول اللہ ﷺ and from there to the قلب of your شیخ and from there to your قلب and it will be for 1 month ان شاء اللہ and doing all the 5th point 5 points saying اللہ اللہ on those points.

سوال 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! دوسرے ہفتے کی کار گزاری درج ذیل ہے۔ فجر کی نماز اور باقی نمازیں الحمد للہ ثم الحمد للہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا ہونے کی توفیق ہوئی ہے۔ ذکر 200، 200، 200 اور 5000 ہو رہا ہے۔ تاکیدِ دعا نمازوں کی حفاظت کے لئے اور قلب کی حفاظت کے لئے ہر وقت پڑھتا ہوں۔

جواب:

جزاک اللہ۔ اللہ پاک مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال 11:

Next ذکر

حضرت السلام علیکم

I have been reciting اللہ اللہ twenty five hundred times followed by

"یا اللّٰہ یا سبحان یا عظیم یا رحمٰن یا وہاب یا ودود یا کریم"

and after that 100 times for the past 1 month. Kindly advise next جزاک اللہ

جواب:

اب 3000 مرتبہ "اللّٰہ اللّٰہ" کا ذکر کرنا شروع کر دیں اور یا اللہ "یا سبحان یا عظیم یا رحمٰن یا رحیم یا وہاب یا ودود یا کریم" یہ آپ مزید ایک مہینے کے لئے کر لیں۔

سوال 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے. جیسے دل اور دل کے سامنے والے حصہ پہ آواز محسوس ہوتی ہے بالکل اس طرح ماتھے پہ بھی آواز محسوس ہوتی ہے. کبھی کبھار سر پہ کھچاؤ بھی محسوس ہوتا ہے اوپر کی جانب۔

جواب:

سبحان اللہ یہ بنوری طریقہ ہے۔ آپ اس کو پانچ پانچ منٹ سارے points کے اوپر جاری رکھیں۔ دل پر 5 منٹ اور لطیفۂ روح پر 5 منٹ۔ لطیفۂ روح سینے کے دائیں طرف ہے۔ یعنی اگر درمیان میں لکیر کھینچی جائے تو اس لکیر سے دل جتنا بائیں طرف ہے اتنا ہی دائیں طرف جو point ہے وہ لطیفۂ روح ہے۔ لطیفۂ سِر ان کے درمیان ہے اس پر بھی 5 منٹ کریں۔ یہ بنوری لطائف ہیں۔ پھر آپ پیشانی کے اوپر 5 منٹ کریں اور پھر سر کے اوپر درمیانی جگہ پر بھی 5 منٹ کریں۔ سب لطائف پہ 5 5 منٹ ذکر محسوس کرنا ہے۔ یہ ایک مہینے کے لئے ہو گا۔ اس کو مناسبت کہتے ہیں۔ میں نے صرف دل کا بتایا ہے۔ باقی منجانب اللہ جو تقسیم ہو اس میں انسان کچھ نہیں کر سکتا۔

سوال 13:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب! میرا ذکر 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حق اور 500 مرتبہ اللہ اور 10 منٹ دل کا اللہ کا ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ دل کے ذکر میں کچھ دیر دل ذکر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے پھر تھوڑی دیر کے لئے بھول بھول سا جاتا ہے۔ پھر یاد آنے پر دوبارہ شروع کر دیتا ہے۔ یہ ذکر میں تہجد کے وقت کرتا ہوں، آنکھوں سے آنسو جاری رہتے ہیں۔ اللہ سے بلند مقصد کی زندگی کی دعا زبان پر ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس شعبے میں بھی کام کروں اس میں اپنے ملک کے لئے ایسی محنت کروں کہ دنیا میں ایک بار اللہ کا نظام قائم ہو جائے۔

جواب:

آپ 200، 400، 600 اور 500 مرتبہ اسی کو جاری رکھیں اور دل پہ 10 منٹ کی جگہ 15 منٹ، یہی ذکر محسوس کر لیا کریں 1 مہینے کے لئے۔ باقی ترتیب بالکل وہی ہے ان شاء اللہ۔

سوال 14:

السلام علیکم حضرت جی میں راولپنڈی سے ہوں۔ اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور دین کی راہ میں آپ کی کوششیں قبول فرمائے آمین۔ میں تہجد پڑھنے کا بہت پکا ارادہ کر کے سوتی ہوں مگر نیند اور ٹھنڈ کا اتنا زیادہ غلبہ ہوتا ہے کہ لاکھ کوشش کے با وجود میں اٹھ نہیں پاتی۔ برائے مہربانی کوئی حل بتائیں کہ میں تہجد پڑھ پاؤں۔

جواب:

آپ عشاء کی نماز میں سنتوں اور وتر کے درمیان 4 رکعت پڑھیں، اس میں 2 رکعت نماز نفل کی نیت ہو ور 2 رکعت صلوۃ حاجت کی نیت ہو۔ جس میں آپ تہجد کی نماز کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تہجد کی توفیق عطا فرمائے اور اس نماز کو بھی تہجد میں شامل فرمائے۔

سوال 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ کو ہمارے سر پر سلامت رکھے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔ حضرت جی صبح ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے چھ بجے کے درمیان ذکر کرتی ہوں۔ پندرہ، پندرہ منٹ کے مراقبہ روح اور قلب ہیں۔ کوشش کرتی ہوں کہ مرتکز رہوں۔ حضرت جی ذکر کے دوران کبھی کبھی کان میں بھی اثر لگتا ہے۔ کبھی کبھی نماز کے دوران سلام کے بعد دل دل میں ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت جی تہجد کی نماز پڑھنا شروع کر لی ہے۔ کبھی ناغہ بھی ہو جاتا ہے۔ چاشت کی نماز تہجد سے پہلے شروع کر دی تھی۔ حضرت جی میں سارا سال گھر پر ہی رہتی ہوں۔ صرف Federal Board میں ایک ہفتہ اور British Council میں ہفتہ دس دن کے لئے میں امتحان کے دوران باپردہ جاب کرتی ہوں اور نماز کا ناغہ نہیں کرتی۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ میرے بچوں کے لئے بھی دعا فرمائیں کہ ان کو اللہ پاک اپنے راستے میں قبول فرمائے۔

جواب:

اب آپ اس کو بڑھائیں۔ اب دس دس منٹ قلب اور لطیفۂ روح کے اوپر ذکر کریں اور 15 منٹ لطیفۂ سِر پر کریں۔ دل سے چار انگل اوپر ایک نقطہ لگا کے وہاں سے سینے کی طرف دو انگل کے فاصلے پہ نقطہ لگائیں تو یہ point لطیفۂ سِر ہے۔

سوال 16:

السلام علیکم میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے آخری message میں فرمایا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معاملات آپ کو بھیج دیا کروں۔ میرا ذکر 200 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو"، 600 مرتبہ "حَق" اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ پچھلے مہینے آپ نے ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) کے مراقبہ کا ذکر اضافہ فرمایا تھا جو 15 منٹ کا تھا۔ آپ نے ذکر جہری کا کچھ نہیں کہا اس لئے میں نے وہ جاری رکھا۔ لطائف والے مراقبے میں بہت زیادہ خیالات آئے لیکن ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) مراقبے سے نسبتاً کم ہیں اور کافی concentration ہے۔ ایک مہینے میں کیفیات میں کچھ زیادہ رد و بدل نہیں ہے اس لئے دوبارہ نہیں لکھ رہا۔ آپ چاہیں تو پچھلا message پڑھ لیں۔ کچھ دنیاوی الجھنوں کی وجہ سے میرا ذہن منتشر رہتا ہے۔ باقی میری کوشش ہوتی ہے کہ ذکر میں کوئی ناغہ نہ ہو۔ تلاوت کا اہتمام کرتا ہوں اور جب یاد آئے تو ذکر اللہ بھی شروع کرتا ہوں۔ کچھ مہینوں سے کافی زیادہ اعصابی کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ پر توکل کمزور ہے اور وساوس آتے ہیں کہ زندگی کے معاملات میں کہیں یہ نہ ہو جائے اور وہ نہ ہو جائے۔ کوئی بڑی پریشانی یا بیماری نہ آ جائے جس کی وجہ سے ذکر چھوٹ جائے اور زندگی مشکل ہو جائے۔ کسمپرسی اور گناہ کی موت کا بہت خوف رہتا ہے اس لئے اللہ سے سب سے زیادہ دعا زندگی اور موت میں آسانی اور استقامت کی مانگتا ہوں۔ اگر ذہن گناہوں کی طرف جائے تو آسانی سے توجہ ہٹ جاتی ہے، یعنی خیالات قابو میں آ جاتے ہیں۔

جواب:

آپ کا ذکر یہی رہے گا اور پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ بھی لطائف پر جاری رہے گا اور ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) کے مراقبہ کے بعد، اب آپ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ شروع کر لیں جو لطیفۂ روح پر ہو گا۔ یعنی آپ تصور کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہماری صفات کے آئینے میں محسوس ہوتی ہیں یعنی ہم جس طرح سنتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں، اگرچہ وہ اس طرح نہیں ہوتا، اس کے لئے واسطوں کی ضرورت نہیں ہے اور وہ لا محدود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہے ہیں ہم بھی دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا دیکھنا ہماری طرح نہیں ہے۔ چنانچہ صفاتِ ثبوتیہ کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے آپ کے شیخ کے دل پر آ رہا ہے اور آپ کے شیخ کے دل سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ 15 منٹ کے لئے اب شروع فرما لیں۔ اور خوف نہ کریں، غم بھی نہ کھائیں۔ اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ ہمارے ساتھ اللہ پاک مہربانی کا سلوک ہی فرمائے گا۔ البتہ اپنے معمولات جاری رکھیں اور اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

سوال 17:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ الحمد للہ، اللہ کے فضل سے اور آپ کی تربیت اور دعاؤں کی بدولت معمولات پر اللہ نے استقامت عطا فرمائی ہے۔ ذکر 200 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو"، 600 مرتبہ "حَق" اور 5500 مرتبہ " اللّٰہ "۔ اور 5 minutes کا مراقبہ کہ دل میں اللہ اللہ کو محسوس کرنا اور ہر نماز کے بعد ایک سانس میں اللہ اللہ 60 مرتبہ کہنا۔ یہ مکمل ہوا۔ اس کے علاوہ مسجد میں نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنا بھی جاری ہے۔ دل میں اللہ اللہ فی الحال محسوس نہیں ہوتا، سینے میں سکوت رہتا ہے۔

جواب:

اب دل کا مراقبہ 5 منٹ کی جگہ 10 منٹ کر لیں باقی چیزیں اسی طریقے سے رہیں گی۔

سوال 18:

السلام علیکم حضرت جی اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے اوپر قائم رکھے اور آپ کے علم صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔ پچھلے ایک مہینے سے میرے معمولات میں بہت زیادہ بہتری آ گئی ہے۔ دو تین نمازیں قضا ہوئی ہیں اور علاجی ذکر بھی با قاعدگی سے کر رہا ہوں۔ البتہ ایک دو دن کا ناغہ شاید ہو گیا ہے۔ پہلے علاجی ذکر نہیں ہو رہا تھا لیکن جب سے ذکر 100، 100، 100 کیا ہے کچھ time نکال کر کر لیتا ہوں۔ حضرت جی علاجی ذکر اور نماز کے معاملات میں مزید رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

جواب:

اب علاجی ذکر لا الہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ" "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" اور "حَق" 200، 200 مرتبہ کر لیں اور " اللّٰہ" 100 مرتبہ رکھیں اور باقی نمازوں کی پابندی لازمی طور پہ کر لیں۔ ہمارے ہاں ہر نماز کی قضا پر جرمانے کے طور پر 3 روزے ہوتے ہیں، وہ بھی رکھ لیں۔

سوال 19:

السلام علیکم

Sir! I am Major Doctor فلاں from سوڈان I have sent you questions for 2 week but probably they are not being received by you. Telephone calls is not possible from here الحمد للہ completed the prescribed ذکر for 1 month 200 times "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ " four hundred times "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" six hundred time "اللّٰہ ہُو"

four hundred time "اِلَّا اللّٰہ" six hundred times "اللّٰہ اَللّٰہ" and 2000 times "اللّٰہ اَللّٰہ" I have sent you monthly معمولات chart as well please advise for future.

جواب:

آپ کا معمولات کا چارٹ یکم نومبر 2020 کو آیا تھا اور پھر یکم دسمبر 2020 کو آیا تھا۔ تو daily schedule آپ نے بھیج ہی دیا ہے۔ البتہ یکم نومبر کا میں ابھی دیکھ لیتا ہوں۔

سوال 20:

Sir! I am Major فلاں Doctor from سوڈان

الحمد للہ completed the prescribed ذکر for 1 month. four hundred "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ" two hundred times "اِلَّا اللّٰہ" four hundred times six hundred times اللّٰہ ھُو اللّٰہ and fifteen hundred times "اللّٰہ اَللّٰہ".

جواب:

So do now 2000 times "اللّٰہ اَللّٰہ" and the rest will be the same but please correct one thing more that you are doing اللّٰہ ھُو اَللہ. this is not اللّٰہ ھُو اللّٰہ but it is "اللّٰہ اَللّٰہ". and as for as ثوابی ذکر hundred time 3rd کلمہ, hundred time درود شریف and hundred times استغفار. This will be ان شاء اللہ as well as the same.

سوال 21:

میرا علاجی ذکر ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ تمام لطائف پر 5 منٹ کا ذکر اور 15 منٹ مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ، درمیان میں چند دن کے لئے غلط فہمی کی وجہ سے مشرب میں غلطی ہو گئی تھی۔ قلب کی جگہ روح پر کیا تھا۔ طالبات کو مراقبہ صفات ثبوتیہ سمجھایا تھا جس کی وجہ سے غیر اختیاری طور پر روح پر اپنا مراقبہ بھی شروع کر لیا، پھر آپ کا بیان سنا جس سے غلطی پر تنبیہ ہو گئی۔

جواب:

تجلیات افعالیہ کا ہو گیا ہے۔ اب آپ صفات ثبوتیہ کا لطیفۂ روح پر شروع کر لیں اور باقی چیزیں وہی ہوں گی۔ صفات ثبوتیہ جن کو ہم اپنی صفات کے ذریعہ سے جانتے ہٰیں ۔ الله جل شانہٗ کی صفات کامل اور بغیر واسطے کے ہیں لیکن ہم ان کو اپنی صفات کے ذریعے سے جان سکتے ہیں اور صفات میں انسان غور بھی کر سکتا ہے۔ بہر حال یہ لا متناہی ہیں۔ صفات ثبوتیہ کے فیض کو آپ تصور کریں گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیض آپ ﷺ کے قلب اطہر پہ آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب اطہر سے آپ کے شیخ کے دل پر آ رہا ہے اور آپ کے شیخ کے دل سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔

نمبر 2۔

لطیفۂ قلب 10 منٹ، ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب آپ 10 منٹ قلب کا رکھیں اور 15 منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں۔

نمبر 3۔

لطیفۂ قلب 10منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 15 منٹ۔

جواب:

اب تینوں کے لئے 10 منٹ اور لطیفۂ خفی کے لئے 15 منٹ۔

نمبر 4۔

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ دونوں محسوس ہوتے ہیں۔

جواب:

لطیفۂ قلب پہ 10 منٹ، لطیفۂ روح پر 10 منٹ اور لطیفۂ سِر پر 15 منٹ۔

نمبر 5۔

15 منٹ کے لئے نزول رحمت کا تصور، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

رحمت کی ہی وجہ سے تو ہم زندہ ہیں۔ چنانچہ محسوس ہونا چاہیے۔ کیا آپ کو اپنی زندگی محسوس نہیں ہوتی؟ یہ ساری چیزیں اللہ کی رحمت ہی سے اور آپ ﷺ کے تعلق کی وجہ سے مل رہی ہیں کیونکہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں لہٰذا یہی اس کا محسوس کرنا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہو گی جیسے آپ کو ہوا محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو ہر جگہ موجود ہے۔

نمبر 6۔

لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ 1000 مرتبہ اسم ذات کا زبانی ذکر۔ اب قلبی ذکر تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 15 منٹ کر لیں اور 1000 مرتبہ اسم ذات کا زبانی ذکر بھی ساتھ ہو۔

نمبر 7۔

تمام لطائف پر ذکر 10 منٹ اور مراقبہ تجلیات افعالیہ، یہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب مراقبہ تجلیات افعالیہ کی جگہ مراقبہ صفات ثبوتیہ اور باقی تمام اسی طریقے سے جاری رہیں گے جیسے آپ کو بتایا تھا۔

نمبر 8۔

تمام لطائف پر ذکر 10 منٹ اور مراقبہ احدیت 15 منٹ۔ ذکر کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا لیکن نیک اعمال کی رغبت بڑھ گئی ہے۔

جواب:

تمام لطائف پر 10، 10 منٹ کا ذکر اور مراقبہ احدیت کی بجائے ان کو تجلیات افعالیہ کا مراقبہ دے دیں۔

نمبر 9۔

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ 15 منٹ۔ توکل بڑھ گیا ہے۔

جواب:

اب تجلیات افعالیہ کی جگہ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ اور باقی وہی ہو گا۔

نمبر 10۔

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 15 منٹ۔ اس طالبہ نے روح کا مراقبہ نا سمجھی کی وجہ سے قلب کے ساتھ side پر، قلب سے نیچے کیا ہے۔ قلب اور روح کا ذکر صحیح مقام پر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب آپ صحیح جگہ پہ کروا دیں۔ لطیفۂ قلب پہ 10 منٹ، لطیفۂ روح پر 10 منٹ اور لطیفۂ سر پر 15 منٹ۔

سوال 22:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے۔ بندے کو دیئے ہوئے ذکر کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہوا اور ذکر یہ تھا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، ھُو اور حق دو سو دو سو دفعہ۔

جواب:

مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے کیا لکھا ہے۔ بہر حال "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ" "لَآ اِلٰهَ اِلَّا ہُو" "حَق" یہ دو سو دو سو دفعہ ہے اور "اَللّٰہ" 100 دفعہ ہے۔

سوال 23:

بخدمت جناب حضرت شاہ صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے مراقبات کے بارے میں مکتوبات شریفہ اور دیگر نقشبندی مشائخ کی کتب میں یہ تفصیلات موجود ہیں کہ ان میں لطائف عشرہ کی اصلاح ہوتی ہے۔ مثلاً ولایتِ کبریٰ کے مراقبات کے اثرات میں نفس کی تہذیب کو ذکر کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے با وجود نفس کی اصلاح کیوں نہیں ہو پاتی اور مجاہدات کی ضرورت کیوں باقی رہتی ہے؟ مراقبات کا نفس کی اصلاح میں کیا کردار ہونا چاہیے؟

جواب:

اول تو ایک بات سمجھیں کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مقام بہت اونچا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام بھی بہت اونچا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے، لیکن قرآن سے اونچا نہیں ہے۔ حضرت آپ کو قرآن بتائیں گے اپنی طرف سے کچھ نہیں بتائیں گے۔ ہمیں ان کی باتیں سمجھنے میں غلطی لگی ہو گی۔ اس پر میں مسلسل بات کرتا رہا ہوں۔ آپ مکتوب نمبر 287 بہت تفصیل کے ساتھ پڑھ لیں اور ہمارے اس پر جو دروس ہیں وہ بھی سن لیں، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہی باتیں بتا رہے ہیں جو میں عرض کر رہا ہوں۔ ہمارے بزرگوں نے اس کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ سارا کچھ قرآن پاک سے ہے۔ وہ قرآن پاک ہی کو سمجھاتے ہیں اور قرآن پاک اور احادیث شریفہ سے ہی اصلاح کرواتے ہیں۔ البتہ ہمیں بعض دفعہ سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے اور وہ اس لئے ہوتی ہے کہ ہمارے ذہنوں میں کچھ چیزیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ جیسے بادلوں کو دیکھ کر انسان اپنے ذہن کے مطابق تصویریں بنا لیتا ہے حالانکہ بادل کوئی شکل نہیں بنا رہے لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے فلاں شکل بن رہی ہے وغیرہ۔ اب آپ یہ بہت اچھی طرح سن لیں۔

”یہ تو ظاہر ہے کہ بدون دوام و مواظبت اور پابندی کے کوئی عمل معتد بہ نہیں ہے۔ اس پابندی کا نام اصطلاح تصوف میں مرابطہ ہے اور علماء نے بھی مرابطہ کو اس معنی میں لیا ہے۔ چنانچہ بیضاوی نے "رَابِطُوْا" کی تفسیر "وَاظِبُوْا" کی ہے اور اس دوام و پابندی کے لئے اس کی ضرورت ہے کہ نفس کو اول متنبہ کر دیا جائے کہ کام کرنا پڑے گا اور فلاں فلاں کام کرنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ اس تنبیہ کو مشارطہ کہتے ہیں۔“

کیونکہ گڑبڑ نفس ہی کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8) فجور اس میں موجود ہے۔

یعنی اس کو اس شرط پر لاتے ہیں۔ اور اس کی نگہبانی کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی پتا چلنا چاہیے کہ وہ کر بھی رہا ہے یا نہیں؟ اس کا نام مراقبہ ہے۔ فقط گردن جھکانا مراقبہ نہیں ہے

بلکہ اصل میں وہ نگرانی ہے جس کو ہم مراقبہ کہتے ہیں۔

”یعنی فقط گردن جھکانا مراقبہ نہیں بلکہ نفس کو گناہوں سے بچاوے اور نیک اعمال پر پابندی کرائے اور اس کا ہر وقت خیال رہے۔ یہ نگہداشت اصل میں مراقبہ ہے۔“ جو لطائف کو ہم activate کرتے ہیں جیسے مراقبہ تجلیات افعالیہ و تجلیات صوفیہ، صفات ثبوتیہ، شیونات ذاتیہ اور سلبیہ اور شان جامع یہ سب اس کی تیاری کے لئے اور اس چیز پہ لانے کے لئے ہیں کیونکہ اصل مراقبہ نگرانی ہے۔

”پھر کسی خاص وقت میں اس کا حساب لینا چاہیے جس سے معلوم ہو کہ اس نے شرط اور قیودات کو پورا کیا ہے یا نہیں؟ اس کو محاسبہ کہتے ہیں۔ پھر محاسبہ سے اگر معلوم ہو کہ نفس نے شرط پوری نہیں کی تو اس کو کسی مشقت میں ڈال کر اس کا علاج کیا جائے۔ اس کو معاقبہ کہتے ہیں۔ اور گزشتہ کی تلافی کے واسطے کوئی ایسا نیک عمل اس سے کرایا جائے جو اس پر گراں ہو۔ اس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ وقتی علاج بطور سزا اور جرمانہ تو معاقبہ ہے اور دائمی وظیفہ تلافئ مافات کے واسطے مقرر کرنا مجاہدہ ہے۔ پھر اس نفس کو اس کوتاہی پر دھمکانا اور ملامت کرنا اور تلافئ مافات پر برانگیختہ کرنا معاقبہ ہے۔ یہ سب 6 چیزیں ہوئیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ نفس کو کسی وقت آزاد نہ چھوڑے ورنہ یہ سرکش ہو جائے گا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9) اس کی ضمیر نفس کی طرف ہے۔ اللہ پاک نے پوری کامیابی کا دار و مدار کس چیز پر رکھا ہے؟ یہ سوال مجھ سے ایک صاحب نے England سے کیا تھا کہ کمال ہے! حدیث شریف میں قلب کا ذکر ہے اور آپ نفس کی باتیں کر رہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جسم کا ایک حصہ ہے اگر وہ صحیح ہو گیا تو سارا جسم صحیح ہو جائے گا اور اگر وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو جائے گا، آگاہ ہو جاؤ کہ وہ دل ہے۔ میں نے کہا: بالکل حدیث شریف صحیح ہے لیکن قرآن پاک کی آیتیں بھی صحیح ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9) سب حضرات کہتے ہیں کہ اس کی ضمیر نفس کی طرف راجع ہے۔ معلوم ہوا ساری کامیابی نفس کی اصلاح میں ہے۔ لیکن نفس کی اصلاح براہ راست نہیں ہوتی بلکہ وہ دل کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ کیونکہ دل میں قوت عازمہ ہے، وہی کوشش کرے گی کہ نفس کی اصلاح ہو جائے۔ لیکن دل اس وقت تک صاف نہیں ہو گا جب تک نفس ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ چنانچہ قرآن بھی اور حدیث شریفہ بھی دونوں ایک دوسرے کو support کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کر رہے۔ ان کو بات سمجھ میں آ گئی۔ چونکہ ایک وقت سے اس قسم کی باتیں چل رہی ہیں کہ بس صرف دل کی بات ہے۔ لوگوں کے دماغوں میں بیٹھ گیا کہ صرف یہی اصل ہے۔ حالانکہ ہم قرآن کو بھول نہیں سکتے۔ قرآن کی اپنی جگہ ہے اور حدیث شریف کی اپنی جگہ ہے۔ بزرگوں کی تحقیقات قرآن و سنت کے مطابق ہوتی ہیں۔ اگر وہ قرآن و سنت کے موافق نظر نہ آئیں تو پھر ہماری سمجھ میں قصور ہو گا۔ اس کے لئے ہمیں اپنے ذہن کے اوپر زور دینا ہو گا کہ آخر ہم نے کون سی غلطی کی ہے؟ کہاں سے سمجھ نہیں آ رہی۔ مجھے بھی یہی پریشانی تھی، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا سن رہا ہوں اور کیا ہو رہا ہے؟ دماغ پہ ہتھوڑے برس رہے ہوتے تھے لیکن کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے کہ حضرت نے چار سو سال پہلے ہی اس کے بارے میں مکتوب نمبر 287 میں فرما دیا تھا۔ الحمد للہ اسی سے ہماری اصلاح ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم بزرگوں کے طریقے پر ہیں۔ ہمیں اس میں کوئی اشکال نہیں ہے البتہ جن کو اشکال ہے وہ بے شک پوچھ سکتے ہیں۔

سوال 24:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! خانقاہ میں حاضر ہوا تھا اور پھر آپ سے بغیر اجازت طلب کئے نکل آیا۔ اس گستاخی کے لئے بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی کا طلب گار ہوں۔ میرا ذکر بھی مکمل ہو گیا ہے 200، 400، 600 اور 11000 مرتبہ "اللّٰہ اَللہ" کا ذکر ہے۔ 16 نومبر کو ناغہ ہوا تھا جس کے بعد دوبارہ شروع کیا اور ایک ماہ بغیر ناغہ کے پورا کر لیا۔ برائے مہربانی مزید ہدایت فرمائیں۔

جواب:

اب آپ 200، 400، 600 اور 11500 مرتبہ "اللّٰہ اَللّٰہ" کا ذکر کریں۔

سوال 25:

آج کل نفسانی خواہشات کی بھرمار ہے اور ہر وقت دنیاوی اشیا کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ خود پسندی کی بھی عادت بڑھ رہی ہے برائے مہربانی دعا فرمائیے۔

جواب:

دعا ضرور کرتا ہوں البتہ نفسانی خواہشات ہمارے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارا نفس ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے لہٰذا نفسانی خواہشات اسی وقت سے ہیں۔ کسی وقت محسوس زیادہ ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسی کا علاج کرنا ہے اور خواہشات کو اللہ پاک کے حکم کے مطابق لانا ہے۔ یعنی ان کو control کرنا ہے۔ جیسے بچے کی ہر ضد کو پورا نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ کچھ اس کے لئے نقصان دہ بھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح نفس کی ہر خواہش کو پورا نہیں کیا جاتا بلکہ جو شریعت نے جائز کر دیا ہے وہ تو ٹھیک ہے اور جو نا جائز رکھا ہے ان کو پورا نہیں کیا جائے گا۔ ساری محنت اسی کے لئے ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اصل میں طریقت کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ عقائد صحیحہ پہ پختگی آ جائے اور شریعت پر چلنا آسان ہو جائے۔ یعنی انسان اس پہ بے تکلف چلنا شروع کر دے۔ الله جل شانہٗ ہمیں نصیب فرما دے۔

سوال 26:

حضرت جی! ایک شبہ سا پیدا ہو رہا ہے کہ لطائف پہ ذکر کرنے کے جو اثرات کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں مثلاً جب لطیفۂ قلب پہ ذکر ہوتا ہے تو اس سے شہوات پر control حاصل ہوتا ہے۔ روح سے حرص کا control ہوتا ہے۔ اس طرح دیگر لطائف کے اثرات بھی لکھے ہوئے ہیں۔ تو کیا اس کو تزکیہ کہا جا سکتا؟

جواب:

قرآن میں ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾ (العنکبوت: 45) اگر نماز سے پوری اصلاح ہو جاتی تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اصل میں اگر صحیح طور پہ ہو جائے تو بالکل ٹھیک ہے لیکن صحیح طور پر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تمام شرطیں پوری کی جائیں۔ الحمد للہ ہمارا سلسلہ قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ اس میں ہم اپنی ذاتی باتیں نہیں رکھتے ہیں۔

سوال 27:

”فہم التصوف“ میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس میں جو اشغال لکھے ہوئے ہیں وہ کئے جا سکتے ہیں؟

جواب:

جب بتایا جائے تو اس وقت کئے جائیں کیونکہ شغل steroid کی طرح ہے اور steroid بہت ہی زیادہ ماہر ڈاکٹر تجویز کرتا ہے۔ اور وہ ڈاکٹر ہی کے مشورے کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے۔ steroid, life saving drugs ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی اور طریقے سے جذب حاصل نہ ہو رہا ہو تو پھر مجبوراً اشغال کرنے پڑتے ہیں لیکن بنیادی طور پر انسان ذکر یا مراقبہ سے ہی ضروری درجے کا جذب حاصل کر لیتا ہے۔ بعد میں سلوک ہی طے کرنا ہوتا ہے۔ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو نقشبندی نسبت کے حضرت تھے۔ انہوں نے فرمایا: آج کل طبیعتیں بہت زیادہ لطیف ہو گئی ہیں۔ یعنی تھوڑی سی چیز سے بھی بہت زیادہ tune ہو جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ذکر اور مراقبہ سے بہت جلدی جذب حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جذب مقصود نہیں ہے بلکہ اس کو فوراً سلوک پہ لانا چاہیے۔ گڑبڑ یہ ہوئی ہے کہ لوگ جذب ہی میں چل رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر چیز کے لئے theories ہوتی ہیں تو ان کے لئے بھی theories ہیں۔ ایک theory یہ ہے کہ آپ کو ایک plot دے دیا گیا اس کے اوپر بہت سارے گھنے جنگل ہیں اور آپ اس پہ کوئی خاص قسم کی فصل کاشت کروانا چاہیں تو ایک طریقہ یہ ہے کہ وہاں کے سارے درخت کاٹ دیں، اس میں چاہے جتنا وقت بھی لگ جائے۔ اس کے بعد آپ اپنی مرضی کی چیز اس پہ کاشت کریں۔ بعض لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے یا ان کو جلدی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پھر تھوڑا حصہ کاٹ کر اس کو بیج لیتے ہیں اور اس سے جو کمائی حاصل ہوتی ہے اس سے کچھ اور زمین صاف کروا لیتے ہیں۔ جب اس سے کچھ کماتے ہیں تو اگلی صاف کر لیتے ہیں۔ پہاڑی جگہوں پہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح اتنا جذب حاصل کر لے کہ کچھ درجہ کا سلوک طے ہو جائے، اس کے بعد ان چیزوں کے ذریعہ سے مزید جذب پیدا کیا جائے، پھر کچھ سلوک طے کیا جائے۔ پھر اس کے بعد مزید جذب پیدا کیا جائے اور پھر کچھ سلوک طے کیا جائے۔ اور ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے اتنا جذب حاصل ہو جائے جو پورے سلوک کے لئے کافی ہو۔ یہ دونوں طریقے ممکن ہیں۔ ان میں سے کسی ایک طریقے سے بھی علاج ہو سکتا ہے۔

سوال 28:

حضرت مجاذیب اور یہ مجذوب متمکن یہ ایک ہی چیز ہے یا الگ الگ ہیں؟

جواب:

تین قسم کے مجاذیب ہیں۔ ایک پیدائشی طور پر مجذوب ہوتا ہے جس کی عقل بالکل ہی کام نہ کرتی ہو۔ اس لئے شریعت اس پہ لاگو نہیں ہوتی۔ کیونکہ شریعت پر عمل کے لئے عقل کا ہونا لازمی ہے۔ اور اجر بھی "اِلَّا بِقَدْرِ عَقْلِہٖ" یعنی بقدر عقل ہے۔ ایسے شخص کو مجنون بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک شخص پہلے صحیح سالک تھا لیکن اس نے اپنی مرضی کے کچھ مجاہدات یا ذکر اذکار اتنے زیادہ کئے کہ اس کا fuse اڑ گیا اور وہ مجذوب بن گیا۔ دوسرا مجذوب وہ ہوتا ہے جس میں گزشتہ اعمال کی کچھ نشانیاں باقی ہوتی ہیں جیسے کسی پہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کا اثر ہوتا ہے تو وہ مسلسل ذکر کرتا رہتا ہے۔ زیارت کاکا صاحب میں ایک صاحب تھے وہ سب کو کہتے کہ نماز پڑھو، نماز پڑھو، نماز کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ یہی بات ان کی زبان پہ چڑھ گئی تھی۔ یعنی یہ جذب کے عالم میں سلوک طے کرنے کے بعد اتنے راسخ ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ جو بھی عمل کرتے ہیں خاص اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی اور چیز ہوتی ہی نہیں ہے۔ صحیح مجذوب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے جذب وہبی ہوتا ہے۔ تیسرا وہ مجذوب جس کے بارے حضرت سے ہی سنا ہے کسی اور سے ابھی تک نہیں سنا یعنی ”مجذوب متمکن۔“ یہ وہ ہوتا ہے کہ سلوک کے لئے جذب شروع کر لیا لیکن سلوک سے پہلے ہی اس نے اپنے آپ کو کامل سمجھ لیا اور اسی جذب میں رہا۔ لیکن ہوش و حواس ان میں ہوتا ہے جیسے جذب وہبی والے میں بھی ہوش و حواس ہوتا ہے۔ لیکن جذب وہبی والے کا ہوش و حواس سلوک طے کرنے کے بعد ہوتا ہے اور مجذوب متمکن سلوک طے کرنے سے پہلے ہے۔ سلوک طے کرنے کے بعد جس کو جذب حاصل ہوتا ہے وہ بڑا کامل ہے اور سلوک طے کرنے سے پہلے جن میں جذب آتا ہے وہ کامل نہیں ہے۔ دونوں میں ہوش و حواس موجود ہے۔ عوام میں مجذوب متمکن کا بڑا اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ متوسطین میں سے ہوتا ہے اور لوگ متوسط سے بہت زیادہ اثر لیتے ہیں کیونکہ ان میں کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کے لئے بڑی جاذب نظر ہوتی ہیں۔ مثلاً ان کی توجہ کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ لوگ ان سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ بڑے اچھے نظر آتے ہیں لیکن یہ نہ کامل ہوتے ہیں، نہ خود پہنچے ہوتے ہیں اور نہ لوگوں کو پہنچا سکتے ہیں۔ حضرت نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو شیخ نہیں بنانا چاہیے بلکہ کسی منتہی مرجوع سے اپنی مکمل اصلاح کروا کے پھر وہ جیسا کہہ دے تو اس طریقے سے عمل کرنا چاہیے۔

سوال 29:

7 لطائف میں آخری لطیفہ سلطان الاذکار کہلاتا ہے۔ اس کا اصل نام لطیفۂ قالبیہ ہے۔ قالب پورے جسم کو کہتے ہیں۔ یعنی سب پر انسان کا پورا جسم ذکر کرنے اس کا مقام ہمارے مشائخ نے وسطِ سر یعنی سر کے درمیان متعین کیا ہے۔ اللہ کی شان ہمارے مشائخ نے کشف کی نظر سے دیکھ کر لطیفۂ نفس کا مقام پیشانی میں رکھا اور اب دماغ کے اوپر۔ modern research میں یہ بات ثابت ہوئی کہ انسان کے دماغ کا جو حصہ پیشانی کی طرف ہے انسان کے تکبر و عجب کا سارا معاملہ اس جگہ سے وابستہ ہے۔ غور کیجئے کہ سائنس کی دنیا 1400 سو سال بعد تجربات کے ذریعہ سے جو کچھ پہچان رہی ہے وہ ہمارے مشائخ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کشف کی نظر سے پہچان لیا کہ انسان کے اندر عجب و تکبر کا مادہ پیشانی کے اندر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ لطیفۂ نفس پیشانی میں ہے اور نفس کو ہی تو جھکانا تھا اس لئے فرمایا کہ بندہ میرے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب اپنے سر کو اس نے زمین پر ٹکایا ہوتا ہے۔ یعنی نفس کو پامال کیا ہوتا ہے۔ بندہ نفس کو پامال کرنے کی انتہا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اٹھانے کی انتہا کرتا ہے۔

جواب:

یہ بہت اچھی research ہے۔ مجھے ڈاکٹر ارشد صاحب نے بھی اس قسم کی کچھ چیزیں بتائیں ہیں۔ کیونکہ medical terminology میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں پر بھی ایک لطیفہ ہے جو عقل کو sense کرتا ہے۔ یعنی فیصلے یہاں ہوتے ہیں۔ بنوری لطائف میں ایک لطیفہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے۔ اس پر میرے ساتھ کچھ حضرات اختلاف کریں گے لیکن مجھ سے پوچھا گیا ہے تو مجھے جواب دینا پڑے گا۔ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے کچھ خصوصیات دی تھیں۔ یعنی ان میں محبوبیت والی بات موجود تھی۔ حضرت نے بھی ان کو بہت تھوڑے عرصہ میں سلوک طے کرایا تھا اور حضرت ان سے خود بھی متاثر تھے۔ حضرت نے ان سے ایک دفعہ فرمایا کہ سید زادے! تمہارے معارف کو کون سمجھے گا! انہوں نے کہا: حضرت! یہ آپ کی برکت ہے۔ فرمایا: نہیں یہ تیری اپنی استعداد ہے۔ عرض کی: وہ بھی آپ کی برکت ہے۔ یعنی ان کے حضرت خود بھی ان کے معترف تھے۔ لطائف بنوریہ واقعتاً بہت عجیب ہیں۔ ہمیں بھی چونکہ پہلے ہی لطائف بنوریہ کا پتا تھا۔ ہم اسی ذریعہ سے وہ کرتے تھے۔ اس میں پیشانی اور اخفیٰ کا مقام ہے اور سلطان الاذکار صرف اس point پر نہیں ہے جس کو لطیفہ قالبیہ کہتے ہیں بلکہ وہ پورے جسم پر ہے۔ یعنی پورا جسم ذاکر ہو جائے اور ہر بِن مو سے اللہ اللہ کرے۔ آپ نے عقل کے متعلق جو فرمایا وہ درست ہے اور اصل میں پیشانی والی بات میں اختلاف ہے۔ ہمارے نقشبندی بزرگوں میں معصومی حضرات نفس کو پیشانی پہ مانتے ہیں اور بنوری حضرات زیرِ ناف مانتے ہیں۔ آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ ایک جگہ سر ہے اور دوسری جگہ سے وہ گزرا ہے۔ اس وجہ سے دونوں جگہ پر sense ہو جائے گا۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جس وقت انسان نفس کو اللہ کے لئے نیچے کر لے تو اللہ پاک اس کو رفعت دے گا۔ جیسے حدیث شریف ہے: "مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہ فَقَدْ رَفَعَہُ اللّٰہ" لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو surrender کروانا بہت بڑی بات ہے۔ یہ عبدیت کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن عبدیت کس چیز سے پیدا ہو گی! ایک عام مسلمان بھی سجدہ کرتا ہے اور ایک اللہ کا ولی بھی سجدہ کرتا ہے۔ دونوں کے سجدے میں فرق ہے۔ یہ فرق ایک الگ محنت سے بنتا ہے۔ جس نے وہ محنت کی ہوتی ہے وہ اس کا پھل پاتا ہے۔ یعنی عبدیت کا تذلل، عجز و انکسار اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا۔ فنائیت کے ساتھ جو سجدہ کرتا ہے وہ عام سجدہ نہیں ہو گا۔ اس سجدے کو پیدا کرنے کی کوشش اللہ کے اس فرمان میں ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9) باقی ساری چیز اس میں ظاہر ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا حضرت کی بات بھی صحیح ہے اور قرآن نے جو اشارہ کیا وہ بنیاد ہے۔ بزرگوں نے اس کی مختلف تشریحات اپنے اپنے رنگ میں کی ہیں، لہٰذا یہ بالکل صحیح ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے واقعتاً sensing points کے اندر ضرور کچھ چیزیں رکھی ہیں۔ مثلاً بعض لطائف کے روشن ہونے سے بعض چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن supporting چیزوں کے ہوتے ہوئے پیدا ہوتی ہیں۔ بہر حال اگر وہ کم ہوں تو یہاں کم پیدا ہوں گی۔ اگر وہ زیادہ ہوں تو یہاں زیادہ پیدا ہوں گی۔ لیکن ان چیزوں کے ذریعہ سے پیدا ہوں گی۔ میرے خیال میں دونوں باتیں سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ میں نے قرآن پاک کی بہت آسان مثال دی: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45) یہاں دو باتیں ہوئی ہیں۔ نماز کی بھی اور ذکر کی۔ کوئی جیسے بھی نماز پڑھ لے اس کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے لیکن اگر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ چیزیں missing ہیں۔ ان چیزوں کو introduce کرنے میں کافی time لگے گا لیکن کرنا پڑے گا۔

سوال 30:

اہل حدیث بھی کہتے ہیں کہ ہم بھی تصوف کو مانتے ہیں۔

جواب:

جی بالکل ایسا ہی ہے۔ Germany میں جب میں نے عربوں کے سامنے 20 منٹ بات کی تھی تو ان کے منہ سے بیک زبان نکلا کہ اگر یہ تصوف ہے تو ہم سب صوفی ہیں۔ حالانکہ میری عربی اتنی زیادہ فصیح نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ 20 منٹ میں وہ بات سمجھ گئے اور یہاں میں گھنٹوں بولتا ہوں۔ کیونکہ قرآن و سنت میں بڑی طاقت ہے، ان کے سامنے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور ہم زیادہ تر زوائد کے اوپر چلے جاتے ہیں اور زوائد پہ ہر ایک اشکال کر سکتا ہے۔ چنانچہ اصل جڑ پہ بات کریں تو کوئی بھی اشکال نہیں رہے گا۔ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں تجدید کا سلسلہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی سلسلے میں ہیں۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی سلسلے میں ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس سلسلے میں ہیں۔ اس وجہ سے یہاں پر تشریحات کا با قاعدہ بہت زبردست نظام ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ improve ہوتا ہے۔ جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت عمدہ پیرائے میں یہ چیزیں ”الطاف القدس“ میں بیان کی ہیں۔ یعنی لطائف کے اثرات وغیرہ تمام چیزیں بیان کر دی ہیں۔ حضرت نے اس میں نفس کو ایک لطیفہ قرار دیا۔ بنیادی لطائف تین ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ قلب، نفس اور عقل۔ اس سے پھر پانچ لطائف کا ایک اور chapter باندھا ہے کہ جس وقت انسان کی بنیادی اصلاح ہو جائے اور سیر الی اللہ مکمل ہو جائے تو اس کے بعد اسی قلب سے ایک اور لطیفہ وجود میں آتا ہے اور وہ لطیفۂ روح ہے۔ اور عقل کے لطیفہ سے ایک اور لطیفہ آتا ہے جس کو لطیفۂ سر کہتے ہیں۔ چنانچہ قلب کا روح کے ذریعے سے ملاء اعلیٰ سے تعلق ہوتا ہے اور عقل کا سر کے ذریعے سے ملاء اعلیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن