سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 493

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم.

آج پیر کا دن ہے، پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔

سوال 1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

Dear beloved حضرت, I got the answer for the question by listening to a recording of the question answer session جزاک اللہ خیرا. But I have a question. You said that my wife should listen to her heart saying Allah Allah for 10 minutes. Should she focus on her biological heart saying Allah Allah or لطیفہ قلب location?

Answer 01:

She should focus on لطیفہ قلب location but لطیفہ قلب location is that point where the biological heart lies.

Also for her daily 100 درود شریف.

Can she read “صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِّی الاُمِّیِّ”?

Yes, why not. It’s a complete درود شریف and it is good if she recites

“صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِّی الاُمِّیِّ مُحَمَّد”

Question 02:

I also wanted to inform you that my wife just told me that she did complete the 40 days ذکر without missing a day. But after she had completed the 40 days, on the 41st day she fell asleep whilst making the ذکر causing her to not complete the ذکر for that day۔

جواب 02:

Ok she has missed for one day or two day. She should not do it again because missing a day affects the progress, so she should not affect her progress in future. But at this time, it’s okay because she had not missed a single day in forty days. So she should now recite 100 times third کلمہ

" سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ"

100 times درود شریف, and 100 times استغفار. This is forever ان شاء اللہ. And besides this, she should focus on heart for 10 minutes as if her heart is saying Allah Allah.

سوال 03:

السلام علیکم!

ربیع الاول میں بندہ نے 4500 مرتبہ درود شریف پڑھا تھا۔ دوسری بات یہ پوچھنی ہے جیسے کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ "لَا إِلٰہَ" کے ساتھ سب سے کٹ جانے کا تصور اور "إِلَّا ھُو" کے ساتھ آپ نے تصور کا بھی فرمایا تھا۔کیا ہر مرتبہ یہ تصور کرنا ہے یا صرف شروع کرتے وقت؟ اور حق کے ساتھ کیا تصور کرنا ہے؟

جواب 03:

آپ یوں سمجھ لیجئے کہ آپ بار بار کسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ میرا آقا ہے، گویا کہ "ھُو" سے آپ اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، تو ابھی آپ یہی تصور کریں۔ "لَا إِلٰہَ" کوئی معبود نہیں "إِلَّا ھُو" مگر وہ۔ اب "وہ" میں اللہ پاک کا تصور لائیں۔ یہ گفتگو تو "لَا إلٰہَ إِلَّا ھُو"کے متعلق ہے۔ اور حق پڑھنے سے پہلے یہ پڑھ لیں ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (الإسراء: 81) جیسے آپ ﷺ خانہ کعبہ کے اندر اس آیت کو پڑھتے ہوئے تین سو ساٹھ بت جو تھے وہ گرا رہے تھے۔ تو آپ بھی حق حق کرتے ہوئے اپنے دل کے اندر جتنے بت ہیں وہ گراتے ہوئے تصور کریں کہ "حَق" کے ساتھ وہ گر رہے ہیں۔ ہر باطل چیز کو حق گرا دیتا ہے، مثال کے طور پر روشنی اندھیرے کو ختم کرتی ہے، تو باطل کو حق ختم کر رہا ہے۔ آپ جیسے جیسے "حَقْ حَقْ" کرتے جائیں گے تو تصور کریں کہ اس کے ساتھ باطل مٹ رہا ہے، بس یہی مراقبے کا مقصد ہے۔

سوال 04:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی! معذرت چاہتا ہوں، نسیان کی وجہ سے لطیفہ نفس پڑھا گیا تھا، لطیفہ سر پر ہی مراقبہ شیونات ذاتیہ کر رہا ہوں۔ معاملات میں سستی اس وجہ سے نہیں ہے کہ معاملات زیادہ ہیں، بلکہ بلا کی سستی غالب ہے، دن گزر جاتا ہے لیکن کام رہ جاتے ہیں۔ بیان سننے آتا ہوں تو نیند کا بے حد غلبہ ہو جاتا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ آپ کے pant shirt والی بات پر میں نے بھی غیرت کر کے pant shirt پہننا چھوڑ دی ہیں۔ Facebook or Twitter تقریباً چھ ماہ سے چھوڑے ہیں۔ TV بھی تقریباً پانچ سال سے چھوڑا ہوا ہے۔

جواب 04:

در اصل یہ ساری باتیں محبت اور غیرت کے ذریعے سے آسان ہو جاتی ہیں۔ ویسے انسان تو ارادہ کرتا ہے کہ میں یہ کروں گا یہ کروں گا یہ کروں گا، یہ محبت اور غیرت بالکل instant effect ہوتا ہے، یعنی انسان کو محبت اور غیرت کی وجہ سے فوراً اس پر عمل نصیب ہو جاتا ہے۔ تصوف کے اندر اصل میں بنیادی چیز یہی ہے کہ اس محبت کی وجہ سے بہت ساری چیزیں جو انسان planning کرتا ہے اور عمر گزر جاتی ہے اور وہ نہیں ہوتیں، اس کے ذریعے سے وہ چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔

اچھا ہوا کہ آپ نے اپنی تصحیح کر لی، لطیفہ نفس پہ ہمارے ہاں کام نہیں ہوتا، نفس کی تو باقاعدہ اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ نفس لاتوں کا بھوت ہے، اس کو آپ باتوں سے نہیں رام کر سکتے، آپ جتنی کوشش کر لیں یہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گا، اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے کہ اس کی بات نہ مانو۔ اور نفس کی بات نہ ماننا مجاہدہ ہے۔ اگر آپ اس کی بات نہ مانیں گے تو یہ اس کے ساتھ ہی عادی ہو جائے گا، جب یہ عادی ہو جائے تو بس ٹھیک ہو جائے گا۔ مقصد بھی یہی ہے کہ اس کو ختم نہیں کرنا صرف ٹھیک کرنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "عقلمند وہ ہے جس نے نفس کو قابو کیا"، حدیث شریف میں یہ نہیں ہے کہ جس نے نفس کو مار دیا۔ نہ قرآن پاک میں ہے۔ ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا﴾ (الشمس: 9) "یقیناً کامیاب ہو گیا ہر وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا"۔ وہاں قابو کرنے کی بات ہوئی ہے اور یہاں پر پاک کرنے کی، دونوں چیزیں ایک ہی ہیں، لہذا ختم کرنے کی بات نہیں ہے۔ اس کا طریقہ کار صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے کہ اس کی بات نہ مانو۔ جتنی بات آپ اس کی مانیں گے، یہ مزید شیر ہوتا جائے گا، اور جتنی نہیں مانیں گے، مزید آپ کی مانتا جائے گا۔

ہمارے بعض بچے شریر ہوتے ہیں، وہ الٹی حرکات کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ان سے کہتے کہ پانی میں نہ چلو، تو وہ پانی میں چلیں گے۔ اگر آپ اس کو کہیں کہ اوپر پہاڑ پر نہ چڑھو، وہ پہاڑ پر چڑھیں گے۔ اس کو الٹی بات بتانی پڑتی ہے۔ اگر پانی سے بچانا ہے، تو کہتے ہیں پانی میں چلو، تو خشکی میں جائے گا۔ ہمارا نفس بھی بچوں کی طرح ہے، اس کے ساتھ بالکل وہی strategy اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس کو آپ دلائل اور پیاری پیاری باتوں سے نہیں سمجھا سکتے۔ یہ لاتوں کا بھوت ہے اس کو باتوں سے زیر نہیں کیا جا سکتا۔

سستی کا علاج چستی ہے۔ اس صدی کے مجدد فرما رہے ہیں کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ سستی کی ضد چستی ہے۔ آپ چستی دکھائیں گے، تو ابتدا میں یہ باتکلف ہو گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے، فرماتے ہیں: "ابتدا میں باتکلف ہو گا پھر بعد میں بے تکلف ہو جائے گا" اور تصوف کا یہی فائدہ ہے کہ جو کام پہلے باتکلف ہوتے ہیں وہ پھر بے تکلف ہونے لگتے ہیں، یہی اس کی خوبی ہے۔ اس سے کام لینا ہے تو پہلے باتکلف آپ نے کرنا ہے، پھر سستی ختم ہو جائے گی، سستی کی جگہ چستی آ جائے گی۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر لوگ exercise بتاتے ہیں walk بتاتے ہیں صبح کے وقت۔ ایک سست آدمی کے لئے کتنا مشکل کام ہوتا ہے؟ بڑا مشکل کام ہوتا ہے صبح سویرے جانا، یہ کرنا وہ کرنا، لیکن جس وقت انسان باتکلف تقریباً دو تین ماہ کر لیتا ہے، تو پھر عادی ہو جاتا ہے۔ پھر باقاعدہ روز جاتا ہے، اس کا ایک معمول بن جاتا ہے اور کبھی رہ جائے تو پھر پریشان ہو جاتا ہے۔ انسان کو اپنے آپ کو اس کا عادی کرنا پڑے گا۔ بغیر اس کے کوئی اور طریقہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

سوال 05:

السلام علیکم محترم شیخ صاحب! مجھے 10 منٹ دل کا، 10 منٹ روح کا، 15 منٹ لطیفہ سر کا مراقبہ اور اللہ اللہ کا ذکر 4000 مرتبہ دیا گیا تھا۔ تقریباً دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ذکر محسوس ہوتا رہتا ہے۔ لطیفہ سر کی سمجھ نہیں آئی، کبھی کبھی لگتا ہے کہ محسوس ہو رہا ہے، کبھی لگتا ہے کہ دل والے کو ہی سر سمجھ رہی ہوں۔ رہنمائی فرما دیں! محترم ان دونوں مہینوں میں چھوٹی کے تنگ کرنے کی وجہ مجھ سے بہت زیادہ غفلت ہوئی ہے۔ ذکر اور مراقبہ کی دی گئی تعداد پوری نہیں کی، معذرت اور شرمندگی کی وجہ سے دو ماہ بتایا نہیں۔

جواب 05:

ایک چیز کا تو فوراً علاج کیجئے، جس کا تعلق سمجھ سے ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کو اگر آپ اپنی بیماری نہیں بتائیں گے تو مجھے بتائیں علاج کی کون سی صورت ہے جو بغیر بتائے ہو۔ اگر شرمندگی کی وجہ سے ہو یا معذرت کے لحاظ سے ہو، تب بھی ڈاکٹر کو نہ بتانے کا کتنا فائدہ ہو گا؟ اپنا ہی نقصان ہے۔ تو ڈاکٹر کو تو بر وقت بتانا ضروری ہے، جتنا بر وقت آپ بتائیں گے تو اچھا ہو گا۔ میں ویسے ہی مثال دیتا ہوں کہ ڈاکٹروں کو اگر لوگ نہ بتائیں ڈاکٹر کہتا ہے چپ رہو پھر بھی بتاتے رہتے ہیں، لیکن یہاں پر معاملہ ذرا مختلف ہو جاتا ہے۔ یہی سمجھنے کی بات ہے کہ اس میں دیر نہ کیا کریں، دیر سے معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے۔

آپ نے جو 10 منٹ لطیفہ دل، 10 منٹ لطیفہ روح، اور 15 منٹ لطیفہ سر کا بتایا، تو بڑی اچھی بات ہے، اس کو ایک مہینہ جاری رکھیں۔ اور لطیفہ سر اس کو کہتے ہیں کہ دل سے چار انگل اوپر ایک لائن کھینچیں، اوپر سیدھا سر کی طرف، پھر وہاں سے سینے کی طرف دو انگل ایک اور لائن کھینچیں، ان دو لائنوں کے سروں کو ملا دیں، یہ آخری جو joining point ہے، یہ در اصل لطیفہ سر ہے۔ اس پر بھی آپ ذکر محسوس کر لیا کریں۔ ان شاء اللہ العزیز اس دفعہ correction ہو جائے گی۔ یہ کام کر لیں پھر مجھے بر وقت بتا دیں۔

سوال 06:

السلام علیکم حضرت جی! میں پشاور سے فلاں بول رہی ہوں۔ میرا ایک ماہ کا تجلیات افعالیہ کا مراقبہ مکمل ہو گیا ہے۔ 15 منٹ لطیفہ قلب پر مراقبہ یہ تھا کہ سب کچھ اللہ تعالی ہی کر رہا ہے، اس کا جو فیض ہے وہ ذات باری تعالیٰ سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، اور پھر وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر، وہاں سے میرے دل پر یہ فیض آ رہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے 5، 5 منٹ کے پانچوں لطائف پر بھی مراقبہ کرنا تھا، محسوس ہونے لگا ہے، ہر طرف بہت ہلکا سا محسوس ہوتا ہے، اور بعض اوقات محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے مزید آپ کے حکم کا انتظار ہے، کہ اب کتنا ذکر کرنا ہے؟

جواب 06:

سبحان اللہ! یہ تو بڑی اچھی بات آپ نے بتائی۔ اب اس کی جگہ آپ نے لطیفہ روح پر کرنا ہے، کہ جتنی ہماری صفات اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرح ہیں، اللہ پاک کی تو صفات ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، وہ لامتناہی ہیں اور ہماری محدود ہیں، لیکن بہرحال سنتے ہم بھی ہیں اللہ بھی سنتا ہے لیکن اللہ کا سننا اور ہے۔ اس طریقے سے ہم بھی بولتے ہیں، اللہ پاک بھی کلام فرماتے ہیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں، اللہ پاک بھی دیکھتے ہیں۔ ہم بھی ارادہ کرتے ہیں، اللہ پاک بھی ارادہ کرتے ہیں۔ یہ جو آٹھ صفات ثبوتیہ ہیں آپ یہ تصور کریں، کہ اس کا فیض اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے، اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے، اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفہ روح پہ آ رہا ہے۔ اس کو ابھی 15 منٹ کرنا ہے۔ اس کو تصور میں ہی آپ نے کرنا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" (بخاری شریف، حدیث نمبر 7066) "میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں"۔ اللہ تعالی کے ساتھ آپ جو بھی اچھا گمان رکھتے ہیں تو وہ ایسا ہی کر دیتے ہیں۔ اگر ہم لوگ یہ تصور کریں گے اور سمجھیں گے تو ان شاء اللہ، اللہ پاک ایسا ہی فرمائیں گے۔ یہ اصل میں ہماری training ہے، کیونکہ تجلیات افعالیہ سے مراد تو یہ تھا کہ ہر کام اللہ کرتے ہیں، اور اس کی ”توحید افعالی“ ہمارے اندر آ جائے، یعنی ہم اس کو سمجھ جائیں کہ ہر کام اللہ پاک کرتا ہے۔ انسان میں توکل پیدا ہو جاتا ہے۔ اور جو صفات ثبوتیہ ہیں وہ اصل میں اپنی صفات کے آئینے میں ہم اللہ پاک کی صفات لامتناہی کا ادراک کرنے لگتے ہیں۔ صفات میں تحقیق ہو سکتی ہے، کیونکہ صفات کے بارے میں فرمایا گیا ہے، لیکن ذات میں نہیں ہو سکتی۔ لہذا یہ صفات کے ذریعے سے اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق کو بنانے کا ذریعہ ہے۔ اب آپ ایک ماہ یہ کر لیں۔

سوال 07:

سلام حضرت!

I have been offering تہجد every day now and then at your suggestion though I am still trying to be regular in فجر prayer but I have shown some improvements also. I read منزل جدید regularly. Please pardon me for asking again and again to interpret dreams. I don’t know whom I should ask. I saw that I read تعوذ for three to four times and meanwhile all the effects of magic were being eliminated. Then I saw I was laughing at شیطان. Before this, I saw my hand in the mouth of a black dog. Please tell me if there is any piece of guidance for me.

جواب 07:

Of course there is right guidance آپ منزل جدید پڑھ رہے ہیں، اس کا آپ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اور تہجد کی نماز کا بھی آپ کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ تہجد ولایت کی کنجی ہے، اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرماتے رہیں۔ آپ نے جو خواب دیکھا ہے، خواب میں یہ بات ہے که شیطان سے بچنے کا جو کام آپ کر رہے ہیں، اللہ تعالی آپ کو شیطان پہ فتح دلا رہا ہے، لیکن ابھی آپ نفس سے جان نہیں چھوڑا سکے، وہ black dog نفس ہے، آپ کا ہاتھ اس کے منہ میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی آپ نے نفس سے جان نہیں چھڑائی۔ نفس بہت بڑا مسئلہ ہے جبکہ شیطان اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطانِ کانَ ضَعِیفاً﴾ (النساء: 76) کہ شیطان کا جو کید یا مکر ہے وہ کمزور ہے، لیکن نفس کے لئے اللہ پاک نے ایسا نہیں فرمایا۔ لہذا آپ اپنے نفس کے علاج کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس میں ایک اور ثبوت بھی ہے کہ دیکھیں پڑھنے سے، ذکر کرنے سے اور وظائف کرنے سے شیطان پہ آپ فتح پا سکتے ہیں نفس پہ نہیں۔ نفس کے لئے آپ کو کچھ اور کرنا پڑے گا۔ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس کے لئے آپ کو مجاہدات اور ریاضتیں اور اس قسم کے جو جو مشقت والے کام ہیں، جو نفس کے خلاف ہیں، وہ کرنے پڑیں گے۔ اس کے لئے آپ تیار رہیں ان شاء اللہ جیسے جیسے آپ کو بتایا جائے گا آپ کرتے جائیں۔

سوال 08:

السلام علیکم حضرت جی! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! میرا علاجی ذکر مکمل ہوا ہے، جو کہ بالترتیب 200، 400، 600 اور 2000 مرتبہ ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب 08:

ماشاء اللہ ابھی آپ 200، 400، 600 اور 2500 مرتبہ ایک مہینے کے لئے کریں۔

سوال 09:

السلام علیکم! حضرت آپ بتاتے ہیں، کہ اللہ اللہ کرتے ہوئے تصور کروں کہ میرا دل محبت کے ساتھ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، آج تھوڑی سی اچھی کیفیت محسوس ہوئی، شاید کسی قسم کی محبت ہو۔ لیکن کچھ دیر بعد ایک شخص آیا اور دل بند یا قبض قسم کا ہو گیا۔ کیونکہ چند چیزوں کی وجہ سے مجھے اس سے حسد ہے، احساس کمتری محسوس کرتا ہوں اور اس کا سامنا نہیں کر سکتا۔

جواب 09:

ذکر کرنے سے واقعی انسان کو اللہ کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں ذکر سے فائدہ نہیں ہوتا۔ فرمایا: فائدہ ان کو کیوں ہو جب یہ ذکر کی نیت ہی نہیں کرتے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ذکر کی نیت کیا ہوتی ہے۔ فرمایا اللہ تعالی کی محبت کا حصول۔ جذب بھی تو محبت کا شعبہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ بھی اس کو یاد رکھتا ہے۔ تو جو یاد رکھتا ہے تو پھر ادھر سے جذب نہیں ہو گا؟ یہ حدیث شریف سے ثابت ہے، اس طریقے سے انسان کو ذکر کرتے کرتے یہ چیز حاصل ہو جاتی ہے۔

ایک دفعہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے کسی ساتھی سے کہا کہ ذکر کرتے رہو ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ ہم نے سن لیا اور تقلیداً مان لیا، لیکن وہ تحقیقاً والی بات چونکہ تھی نہیں تو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ یعنی سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے، کیونکہ سب کچھ میں بہت کچھ یعنی سارا کچھ آتا ہے۔ میں ایک دفعہ قرآن پاک پڑھ رہا تھا، اس میں یہ آیت آئی ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ﴾ (البقرة: 152) گویا کہ ایک ایسی light سی ہو گئی جیسے بالکل ساری بات کھل گئی۔ جب اللہ پاک فرماتے ہیں: "پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا"، جس کو اللہ یاد رکھتا ہے پھر اس کے لئے کیا کمی ہو سکتی ہے۔ ساری چیزیں اس کے لئے نارمل ہو سکتی ہیں، ٹھیک ٹھاک ہو سکتی ہیں۔ یہی بات ہے کہ ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے، لیکن اس میں یہ بات ہے کہ انسان مستقل مزاجی کے ساتھ کرے، یہ نہیں کہ کبھی کرے کبھی نہ کرے، یہ اعراض ہے، اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔

آپ ﷺ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ اُس کی طرح نہ ہو جانا کہ جو چند رکعتیں پڑھتا تھا اور اب نہیں پڑھتا۔ پابندی کے ساتھ ذکر کرنے کے فائدے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی سے لیا ہوا ذکر ہو تو اس کا effect بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عام ذکر سے درود شریف افضل ہے، کیونکہ اس میں تین چیزیں ہیں: دعا بھی ہے، درود بھی ہے اور ذکر بھی ہے۔ اور مشائخ سے لیا ہوا ذکر درود شریف سے بھی افضل ہے۔ مشائخ سے جو ذکر لیا جاتا ہے، اس کو کرنے سے فائدہ ہوتا ہے، بے شک انسان سمجھے نہ سمجھے وہ علیحدہ بات ہے، وہ اپنی اپنی جگہ ہے، بعض دفعہ سمجھ نصیب ہو جاتی ہے، بعض دفعہ ذرا دیر لگتی ہے، لیکن بہرحال اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔

باقی جو آپ نے کہا کہ کسی کے آنے سے قبض ہو گیا، آپ اس کو حسد اور احساس کمتری سمجھتے ہیں۔ یہ دو بیماریاں ہیں اور دونوں کا route ایک ہے۔ اور route ان کا یہ ہے کہ دنیا کی محبت ہے، کیونکہ احساس کمتری بھی دنیا کی محبت سے ہوتی ہے، جب انسان اپنے آپ کو دنیا میں کسی سے کم سمجھتا ہے تو احساس کمتری ہو جاتی ہے۔ مثلاً کسی کا قد چھوٹا ہے تو جو قد آور لوگ ہیں ان کے سامنے اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے۔ تو کیا یہ آخرت کی وجہ سے ہے؟ آخرت میں تو ان چیزوں کا اعتبار ہی نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے لئے ہے۔ کوئی مال دار ہے اس کے سامنے اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے کہ میرے پاس مال کم ہے، یہ بھی دنیا کی محبت کی وجہ سے ہے۔ کوئی ہم سے بہت زیادہ educated ہے، یہ بھی دنیا کی وجہ سے ہے۔ دنیا کی محبت کی وجہ سے انسان compare کرتا ہے اپنے آپ کو دوسروں سے۔ اور اپنے سے بڑوں سے وہ جب دبتا ہے تو یہ دبنا احساس کمتری ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ اس کے ساتھ یہ چیز نہ رہے یہ حسد ہے۔ ان دونوں چیزوں کا route ایک ہی ہے، لہذا دنیا کی محبت کو آہستہ آہستہ کم کرنا پڑے گا، اللہ کی محبت کو بڑھانا پڑے گا، اور نفس پہ پیر رکھنا پڑے گا، تب ان شاء اللہ العزیز یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

سوال 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی! پریشانیوں نے مجھے جکڑا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ غم مجھے کھا رہا ہے۔

جواب 10:

بعض دفعہ انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف لانا چاہتا ہے، تو اس کے لئے مختلف نظام ہیں۔ اس کا رخ نیک لوگوں کی طرف کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنی طرف بلانا ہوا، یا پھر برے لوگ اپنے سے اس کو بھگاتے ہیں، کہ وہ اس کو خراب کرتے ہیں، یہ پھر آہستہ آہستہ اللہ کی طرف ہی آ جاتا ہے۔ مشکلات اور یہ ساری پریشانیاں اس دنیا کا خاصہ ہیں۔ مجھے دنیا میں کوئی ایسا شخص بتا دو جس کو کوئی غم نہ ہو؟ مجھے تو نہیں معلوم کہ کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو کوئی غم نہ ہو۔ ہر شخص کا غم ہے لیکن الگ الگ ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ کچھ لوگ بتاتے ہیں کچھ لوگ نہیں بتاتے۔ اور کچھ لوگ جو بتاتے ہیں وہ کتنا بتاتے ہیں، کیسے بتاتے ہیں، یہ بھی ہر ایک کا اپنا اپنا ہے، لیکن غم سب کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ ﴿لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (يونس: 62)۔ یہ وعدہ بڑے لوگوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اپنے آپ کو فنا کر چکے ہیں، تقویٰ حاصل کر چکے ہیں، نفس کو کچل چکے ہیں۔ وہ لوگ اس آیت کا مصداق ہیں۔ باقی تو ظاہر ہے خوف اور غم تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ آپ اس کے بارے میں یہ کریں کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں ان کے ذریعے سے آپ اللہ کے ساتھ لو لگائیں۔ کسی نے یوں ہی کوئی افسانہ سا لکھا ہے، افسانہ افسانہ ہی ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا، لیکن بعض دفعہ اس میں کسی حقیقت کا رنگ جھلکتا ہے۔

کوئی شخص کسی بزرگ سے ملتا ہے اور اس سے کچھ مانگتا ہے۔ بزرگ کہتا ہے آج کے بعد آپ کو یہ چیز مل جائے گی کہ آپ ضمیر کی آواز بھی سن سکیں گے۔ ضمیر کی آواز یہ ہوتی ہے کہ وہ مخفی آواز جو انسان اپنے اندر سے آتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ کسی اور کے سامنے نہیں بتاتا۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی آیا اور آپ اس کو بہت برا سمجھتے ہیں، لیکن زبان سے کہتے ہیں: واہ واہ کیا بات ہے، بڑا اچھا ہوا کہ آپ تشریف لائے، اور اندر سے کہہ رہے ہیں کیا چہرہ دکھا دیا، خواہ مخواہ سارا دن اب خراب ہو گا۔ اب اندر یہ کہہ رہا ہے اور باہر کچھ اور کہہ رہا ہے، یہ تو clash ہے۔ تو وہ شخص بے چارا پاگل ہو گیا کیونکہ اس کو ضمیر کی آواز سنائی دیتی تھی، سوچتا تھا کہ کیا کروں کوئی بھی مخلص نہیں ہے، بیوی بھی مخلص نہیں ہے، بھائی بھی مخلص نہیں ہے، باپ بھی نہیں، یعنی کوئی بھی مخلص نہیں۔ ہر ایک کا معاملہ اس کے ساتھ ایسا ہی تھا کیونکہ ہر ایک کا اپنا ڈبل سلسلہ چل رہا تھا۔ وہ بیوی کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ لڑ پڑتا که آپ تو اس طرح کہہ رہے ہیں، وہ کہتا ہے: میں کہاں کہہ رہا ہوں؟ اس کو اندر کی آواز آ رہی تھی، وہ باہر کی آواز تو ہوتی نہیں تھی۔ تو یہ بہت تنگ ہو گیا، بیوی کے ساتھ لڑ کے چلا گیا۔ پھر کوئی چیز اس کی گھر میں پڑی ہوئی تھی، اس کو یاد آئی تو گھر دوبارہ آیا، تو ایک بچہ اس کو کہنے لگا کہ آپ اچھے نہیں ہیں۔ اس کے اندر سے بھی آواز آئی تو اچھا نہیں ہے یعنی اس کی باہر کی آواز اور اندر کی آواز اکھٹی ایک ہی بات ہو گئی۔ تو کہتا ہے: الحمد للہ ایک بات ہو گئی، یعنی اب مجھے آرام ہو گیا تو ایسا ہوتا ہے۔ یہ معاملہ بہت گڑبڑ ہے۔ اس وجہ سے آپ کسی سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتے ہیں۔

حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرمایا: اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی سے طمع نہ رکھو۔ پھر فرمایا: مجھ سے بھی طمع نہ رکھو۔ یعنی expectation ساری چیزوں کی بنیاد ہے، آپ لوگوں سے جب expectation کرتے ہیں، کہ یہ ایسے ہوں گے ویسے ہوں گے، آخر وہ بھی تو انسان ہیں، ان کے بھی اپنے اپنے مسائل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں tension میں ہوں اور tension کی وجہ سے میری زبان سے کچھ ایسی بات نکل جاتی ہے جو میں نکالنا نہیں چاہتا، تو میں خود اپنے آپ کو تھوڑا سا سمجھتا ہوں کہ چونکہ میں tension میں ہوں اگر مجھ سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں یار بس معاف کرو میں tension میں ہوں۔ تو کیا یہ latitude ہم دوسروں کو نہیں دے سکتے؟ ہم دوسروں کے بارے میں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بھی tension میں ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر اس طرح کہہ رہے ہیں، تو کم از کم مجھے بھی ان کو معاف کرنا چاہیے۔ خیر اگر آپ نے پریشانیوں کو ختم کرنا ہے تو وہ جنت میں ختم ہوں گی، جنت دنیا میں نہیں ہے، تو ابھی سے جنت کی تیاری شروع کر لو تاکہ وہاں تو مل جائے۔ یہاں تو جنت نہیں ہے، یہاں تو یہی پریشانیاں ہیں، لیکن آپ وہاں کی جنت کو اس کے ذریعے سے حاصل کر سکتے ہیں ان شاء اللہ۔ اور تکالیف اور پریشانیاں پر اگر کوئی صبر کرتا ہے تو اس پر اجر ملتا ہے۔ ﴿إنّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ (البقرة : 153)۔ اللہ پاک کی معیت کو اگر حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت اچھا نسخہ ہے۔

سوال 11:

السلام علیکم حضرت جی! میرا چالیس دن کا وظیفہ آج پورا ہو گیا۔ تیسرا کلمہ 300 مرتبہ پہلا حصہ اور 200 مرتبہ اس کا دوسرا حصہ یعنی تیسرے کلمے کا۔ اب میں آگے کیا کروں؟

جواب 12:

ماشاء اللہ مبارک ہو کہ آپ نے کامیابی کے ساتھ پورا کر لیا۔ اب تیسرا کلمہ پورا، درود شریف اور استغفار 100 100 دفعہ عمر بھر کے لئے کریں گی۔ اس کے علاوہ آپ 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے، قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کریں گی کہ چونکہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے تو میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ آپ نے کروانا نہیں ہے بلکہ وہ خود کر رہا ہے، بس آپ نے اس کو سننے کی کوشش کرنی ہے، focus آپ نے اپنے دل پہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر بہت ساری آوازیں اکھٹی آ رہی ہوں، جیسا کہ بازار میں ہوتا ہے، اور آپ ایک خاص آواز پر focus کرتے ہیں، کہ میں وہ سنوں۔ باقیوں کو بند تو نہیں کر سکتے، آپ کسی کو نہیں کہہ سکتے کہ یار چپ رہو۔ گھر میں تو کہہ دیں گے کہ چپ رہو میں یہ سننا چاہتا ہوں، لیکن بازار میں آپ focus کریں گے، کوشش کریں گے کہ میں وہی آواز سن لوں جو سننا چاہتا ہوں۔ اس طرح اپنے دل کے اوپر focus کرنا ہے۔ یہ 10 منٹ روزانہ ایک مہینے کے لئے کریں گی۔

سوال 13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! غلط فہمیوں کا ازالہ کا درس نمبر 9 بہت بہترین تھا، اس میں مجھے کافی سوالات کے جوابات مل گئے۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ بیان میرے لئے ہوا ہے۔ اس بیان کے بعد کچھ سوالات اور ذہن میں آئے ہیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سوالات کے جواب بھی عطا فرما دیں۔

نمبر 01:

اس درس میں ہے کہ مرید کے لطائف کا جاری ہونا دراصل شیخ کے لطائف کے ساتھ connected ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کچھ مریدوں کے لطائف جلدی جاری ہو جاتے ہیں، کچھ کو وقت لگتا ہے، تو کیا یہ شیخ کے ساتھ محبت میں زیادتی یا کمی کی وجہ سے ہوتا ہے؟


جواب 01:

یہ شیخ کے ساتھ محبت کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، اپنی استعداد کی کمی زیادتی بھی ہو سکتی ہے اور مزاج کی بات بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو اللہ پاک نے چشتی مزاج کا بنایا ہوا ہے، تو اس کے لطائف اور باقی سلسلوں کے لطائف میں اتنا فرق نہیں ہو گا جیسے ابھی آپ نے دیکھا ہو گا که میں کسی کو چار ہزار مرتبہ، کسی کو ساڑھے چار ہزار مرتبہ اور بعض کو اڑتالیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ اسمِ ذات کا ذکر دیتا ہوں۔ تو ان کو اسی ذریعے سے مل رہا ہے۔ اصل میں تو ذکر تعلق مع للہ ہے، وہ جس ذریعے سے بھی حاصل ہو جائے، لطائف کے ذریعے سے حاصل ہو جائے یا اس ذریعے سے حاصل ہو جائے۔ اور خواتین کا یہ لطائف کا سلسلہ چلتا ہے، ان میں صرف استعداد کی کمی بیشی ہوتی ہے کہ بعض کو ذرا دیر سے ہوتا ہے بعض کو ذرا جلدی ہوتا ہے، یہ بات بھی ممکن ہے۔ اس میں دو طرفہ بات ہو سکتی ہے، استعداد کی بات بھی ہوتی ہے اور محبت کی کمی زیادتی بھی ہوتی ہے، اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔

نمبر 02:

جب مرید سلوک کے درجات طے کر لیتا ہے، نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ کے فضل سے جذبِ وہبی حاصل ہوتا ہے۔ مرید جب فنائیت کے درجے کو پہنچتا ہے تو جذبِ کسبی اس کو کیا فائدہ دیتا ہے؟

جواب 02:

میرے خیال میں وہ بیان شاید پورا نہیں سنا یا پورا سمجھ نہیں آیا۔ جذبِ کسبی کو جذبِ مبتدی بھی کہتے ہیں، اس کا تعلق ابتدا کے ساتھ ہے انتہا کے ساتھ نہیں ہے۔ لہذا جذبِ کسبی کی بات ہی ختم ہو گئی۔ جذبِ کسبی کی جو ضرورت تھی یعنی سلوک پورا کرنا اور طے کرنا وہ اس نے طے کر لیا، تبھی تو جذبِ وہبی حاصل ہوا ہے۔ جذبِ وہبی حاصل ہو گیا تو جذبِ کسبی کی پھر ضرورت ہی نہیں ہے، وہ تو بس اپنا کام کر چکا۔

نمبر 03:

جب مرید فنائیت کے درجے پر پہنچتا ہے اور کوئی شخص اس کو تکلیف یا راحت پہنچاتا ہے، تو کیا اس کو محسوس ہوتا ہے؟ اگر محسوس ہوتا ہے تو کس درجے میں محسوس ہوتا ہے؟

جواب 03:

اگر عروج میں ہے تو شاید محسوس نہ ہو، chance ہے شاید محسوس ہو جائے لیکن اگر نزول ہو چکا ہے تو اور لوگوں سے زیادہ محسوس ہو گا، کیونکہ طبعیت اور لوگوں سے زیادہ لطیف ہو جاتی ہے، لیکن برداشت کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے امر کو پورا کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اگر نزول ہو چکا ہے پھر تو سبحان اللہ، اگر کوئی راحت پہنچاتا ہے وہ بھی محسوس ہوتی ہے، تبھی دل سے شکر ادا کرتا ہے۔ جیسے ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن: 60) اس پر دل سے عمل ہوتا ہے۔ کوئی اس کو راحت پہنچاتا ہے تو دل سے جزاک اللہ کہتا ہے، یعنی وہ رسمی و نمائشی جزاک اللہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ دل سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کو اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ انسان کو احسان کا بدلہ بھی دینا چاہیے، احسان کی صورت میں یا دعا کی صورت میں۔ دوسری طرف یہ ہے کہ تکلیف کوئی پہنچاتا ہے تو تکلیف بھی اوروں سے زیادہ محسوس ہوتی ہے، لیکن اس پر صبر کی توفیق بھی ملتی ہے، چونکہ مقامِ صبر بھی حاصل ہو چکا ہوتا ہے، لہذا صبر کی توفیق ہو جاتی ہے، اور اس پر اس طرح react نہیں کرتا جس طرح باقی لوگ کرتے ہیں۔ reaction اگر کرتا ہے تو اللہ کے حکم کے مطابق اتنا کرتا ہے جتنا کہ کرنا چاہیے۔

نمبر 04:

جب بھی کوئی بیان، کوئی بات یا کوئی خیال ذہن میں آتا ہے، اگر اچھی بات ہو تو اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ مجھے بھی نصیب فرمائے، اور اگر بری عادت ہو تو پناہ مانگتی ہوں۔ کبھی کبھی مکتوبات شریف میں ایسی باتیں آتی ہیں جس کے لئے میں اپنے آپ کو بالکل اہل نہیں سمجھتی، اور میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ اللہ مجھے یہ عطا کرے گا، لیکن دعا پھر بھی مانگتی ہوں۔ کیا ایسا طریقہ ٹھیک ہے؟

جواب 04:

بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ اپنے حال کے مطابق دعا نہیں مانگنی چاہیے کہ میں اس قابل ہوں، بلکہ اللہ پاک کے اوپر نظر کرنی چاہیے، کہ اللہ پاک بہت دینے والے ہیں اور اللہ پاک بہت مہربان ہیں۔ اس کی مہربانی اور قدرت کو دیکھ کر اس پہ نظر کر کے مانگنا چاہیے۔

سوال 14:

اپنی طرف سے کوشش کرتی ہوں کہ آپ کے بیانات ضرور سنوں، چاہے سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، دل میں خیال آتا ہے کہ فائدہ تو ہو گا۔ کیا میرا خیال درست ہے؟

جواب 14:

یہاں پر موجود سب حضرات فرما رہے ہیں کہ درست ہے۔ فائدہ تو یقیناً آپ کی نیت سے ہے، "إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (بخاری شریف، حدیث نمبر 1) "تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے"۔ آپ کی نیت اگر اللہ کے لئے ہے کہ میں اللہ کی بن جاؤں، اس کے لئے آپ بیان سنتی ہیں، تو یہ بالکل درست ہے۔

سوال 15:

السلام علیکم حضرت جی! مجھے جو ذکر اور مراقبہ ملے ہوئے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے: "لَا إلٰهَ إلَّا اللهُ" 200 بار، "إلَّا اللهُ" 200 بار، "اللہُ اللہ" 200 بار اور "اللہ" 100 بار مراقبہ شانِ جامع 15 منٹ۔ اس کے ساتھ تمام لطائف پر ذکر 5، 5 منٹ۔ حضرت جی! کچھ دنوں سے عجیب بات محسوس ہوئی، جس کا بتانا بہت مشکل ہے۔ حضرت جی! جو آپ کا تصور رہتا تھا، آپ کے بارے میں سوچ کا، کچھ غلط ہونے یا آپ سے ڈانٹ پڑنے کا ڈر، آپ کی محبت کا، آپ کی طرف دل کھینچا جانے کا۔ یہ سب اب میں آپ ﷺ کے لئے محسوس کر رہا ہوں، لیکن دل ڈر میں بہت سخت مبتلا ہے، کیونکہ یہاں گڑبڑ پر معاملہ بہت سخت ہے۔ اور مزید یہ بھی کہ گناہوں سے بچنے کا ایک اور آسرا بھی محسوس کر رہا ہوں۔ اس حالت کی مغلوبیت میں آپ ﷺ کو اپنے احوال کے بارے میں بھی خط لکھا ہے، جب آپ ﷺ کے روزہ اقدس پر جاؤں گا تو یہ آپ ﷺ کو سناؤں گا۔

جواب 15:

صحیح بات میں عرض کرتا ہوں که آپ ﷺ کے ساتھ محبت تو ہر سعادت کی کنجی ہے، اس میں تو کوئی دوسری بات ہو نہیں سکتی۔ لیکن procedure یہ ہے کہ آپ سلوک طے کریں، یہ بنیادی بات ہے، جذباتی باتوں کی بجائے آپ سلوک طے کریں۔ جب آپ سلوک طے کریں گے تو اس پر خود ہی عمل ہو جائے گا۔ یعنی کہ وہی بات آپ کریں گے جو آپ ﷺ چاہیں گے۔ سنتوں پر عمل دل سے نصیب ہو جائے۔ آپ ﷺ یہی تو چاہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل ہو جائے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی یہی چاہتا ہے کہ آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل ہو جائے ﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ﴾ (آل عمران: 31) ہر طرف سے اس میں خیر ہی خیر ہے۔ اس وجہ سے آپ جذباتی تصورات کی بجائے اپنا رخ اپنے علاج کی طرف رکھیں۔ میں پہلے بھی آپ کو سمجھا چکا ہوں، کہ آپ ذرا جذباتی باتوں کی طرف جاتے ہیں اور جذبی باتوں میں ٹھہر جاتے ہیں۔ یہ باتیں ٹھیک نہیں ہیں، اس میں آپ نے باقاعدہ ایک ایک کر کے اپنے عیوب نکالنے ہیں، کیونکہ اس مسئلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ آخر اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو آپ ﷺ نے فرمایا تو ہم کون لوگ ہیں۔ آپ ﷺ نے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ (جب ایک شخص کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے "لَا إلٰهَ إلَّا الله" کہنے کے بعد مارا تھا) اگر وہ کل اپنے کلمہ کو لے کر اللہ کے سامنے تیرے خلاف کھڑا ہو جائے، تو میں تو آپ کی مدد نہیں کر سکوں گا۔ اب دیکھ لیں آپ ﷺ نے کیسے کھری کھری بات فرما دی، اس وجہ سے اللہ کی نافرمانی سے بچنا بہت ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کا راستہ کون سا ہے؟ وہ سلوک طے کرنا ہے۔ یہ راستہ مشکل ہے تو ہم دوسری طرف جاتے ہیں، ہم بس ہواؤں میں پھرتے ہیں۔ نہیں بھئی! صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت اور بھی بڑھائیں لیکن اس کا رخ یہ رکھیں کہ آپ عمل پر آ جائیں، ورنہ صرف نعرے لگانا شروع کر لو گے، نعرے نہ تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، نہ آپ ﷺ کو پسند ہیں اور نہ آپ کے شیخ کو پسند ہیں۔ آپ بتائیں کہ کس جگہ پر فائدہ ہو گا؟ لہذا نعرے لگانے چھوڑ دیں اور عمل پہ آ جائیں۔ بعض دفعہ سخت باتیں کرنی پڑتی ہیں۔

سوال 16:

میں نے آپ کا بیان سنا تھا۔ بعض حضرات نے صلاۃ التسبیح، قرآن مجید کے ختم اور نوافل بھی ربیع الاول میں پڑھے تھے۔ اگر کوئی ابھی سے یہ کام شروع کر لے تو کیسا ہو گا؟ آپ سے اس معاملے میں رہنمائی چاہیے۔

جواب 16:

میں نے اس پر بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، میں نے اس میں کوئی چیز چھپائی نہیں ہے آپ لوگوں سے۔ وہ یہ ہے کہ ایک تو آپ ﷺ پہ درود شریف صرف ربیع الاول میں نہیں ہے۔ نوافل بھی، ختم بھی، ذکر بھی، یہ سب ہر وقت انسان کر سکتا ہے اور ہر وقت کی بات ہے، جتنی توفیق ہو جائے۔ البتہ ماحول تھا ربیع الاول کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی لوگوں کو۔ ماشاء اللہ پچیس کروڑ مرتبہ درود شریف ساتھیوں نے پڑھا ہے۔ الحمد للہ کچھ لوگوں نے نوافل پڑھے، کچھ ختم کئے، کچھ سورۃ یسیٰن شریف کے ختم کئے، لیکن اس کا تعلق صرف ربیع الاول کے ساتھ نہیں ہے اور نہ آپ ﷺ کی محبت صرف ربیع الاول میں ہے۔ آپ بے شک ابھی سے شروع کر لیں، ایصال ثواب کا دروازہ بھی بند نہیں ہے، آپ جتنا کرنا چاہتی ہیں ایصال ثواب کرتی رہیں، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے، اس میں ان شاء اللہ العزیز آپ کو فائدہ ہی ہو گا۔

سوال 17:

السلام علیکم شاہ صاحب! اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ میں دو سال پہلے ذکر چھوڑ چکا ہوں، مجھے آخری ذکر اچھی طرح یاد بھی نہیں، لیکن تعداد میں 4000 تک تھا۔ اب میں دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں، اب میں کیا کروں؟

جواب 18:

صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ موت کی شام سے پہلے کوئی آ جائے تو بالکل ٹھیک ہے، فائدہ ہی ہو گا۔ نقصان تو اپنا کر لیا اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ توبہ کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لیکن وہ نیکیاں جو کر سکتا تھا وہ تو گئیں وہ موقع تو چلا گیا، گزرا وقت واپس نہیں آتا۔ دو سال میں آپ جتنا آگے جا سکتے تھے وہ وقت تو ضائع ہو گیا۔ اس کا تو میں کچھ نہیں کر سکتا، البتہ اگر اس کی ندامت آپ کو مزید accelerate کرے اور آپ اپنی ہمت سے کام لے کر دن دگنی رات چگنی ترقی شروع کر لیں تو سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ ہمت کر کے 4000 سے دوبارہ شروع کر لیں، تاکہ کم از کم کمی تو نہ ہو۔ لیکن جس وجہ سے رکاوٹ تھی وہ ذرا مجھے بتا دیں کہ کیا وجہ ہوئی تھی، تاکہ آپ کو اپنا experience کام دے۔ کہتے ہیں غلطی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حادثہ سے انسان کی طبیعت پر اگر منفی اثر پڑ جائے تو وہ بڑا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ پھر بار بار وہ نقصان ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر آپ اس سے سیکھ لیں، تو پھر آپ کو اس کا in cash ملتا ہے، یعنی آپ کو اس کا کچھ فائدہ مل جاتا ہے، آپ اس کو ضرور وصول کر لیں۔

سوال 19:

کسی نے ایک شعر بھیجا ہے کہ اس شعر کا مطلب بتا دیں۔ (اللہ کرے کہ ہم صحیح مطلب بتائیں)

تو نے ان کی راہ میں طاعت کی لذت بھی چکھی

ہاں شکستہ آرزو کا بھی مقام قرب دیکھ

سر فروشی دل فروشی جاں فروشی سب صحیح

پی کے خونِ آرزو پھر کیف جام قرب دیکھ


جواب 19:

حضرت حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم نوا حضرات ساری عمر اسی پر لگے رہے، یہی بات انہوں نے سمجھائی ہے۔ واقعتاً انہوں نے بہت اچھے انداز میں یہ باتیں سمجھائی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شعر کس کا ہے، ممکن ہے کہ انہیں کا شعر ہو۔ اصل میں یہ بات ہے کہ ایک انسان جب ٹوٹ جاتا ہے، شکستہ ہو جاتا ہے اور اس کا دل خالصتاً اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، کسی اور چیز کی طرف اپنی شکستگی کی وجہ سے نہیں دیکھتا، اس وقت اللہ پاک کی خاص نظر اس کے اوپر ہو جاتی ہے، یہی شکستگی کا مطلب ہے۔

علامہ اقبال نے بھی اس کے بارے میں کہا تھا:

تو بچا بچا کے نہ رکھ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

اصل میں یہ وہی چیز ہے کہ اس میں انسان کو جو شکستگی حاصل ہوتی ہے تو تکبر یا غرور سب کی جڑ ختم ہو جاتی ہے۔ تو کتنی زبردست چیز ہے، جو آدمی اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل ہی نہ سمجھے، وہ ریا کر سکتا ہے؟ وہ عجب کر سکتا ہے؟ وہ تکبر کر سکتا ہے؟ ان چیزوں کی جڑ ہی ختم ہو گئی، یہ مقامِ قرب ہے۔

تو نے ان کی راہ میں طاعت کی لذت بھی چکھی

ہاں شکستہ آرزو کا بھی مقام قرب دیکھ

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف ایک روایت منسوب ہے، کہ وہ نیکی جو تجھے عجب میں مبتلا کرے، اس سے وہ غلطی جو تجھے شکستہ کر دے اور اللہ کے قریب کر دے، وہ تیرے لئے اچھی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غلطیاں اپنے قصد سے کرتے رہیں، پھر تو معاملہ ہی خراب ہو گیا، بلکہ اگر غلطی ہو جائے، تو غلطی پہ ناز نہیں کرنا، غلطی سے اللہ کی طرف بھاگنا۔ بعض لوگ اس کو ناز کا مقام دیتے ہیں، یہ غلط بات ہے، ناز تو نیکی پر نہیں کر سکتے، تو غلطی پر کیسے کرو گے؟ ناز تو کسی چیز پہ بھی نہیں کر سکتے۔

سر فروشی دل فروشی جاں فروشی سب صحیح

یعنی تین بڑے مقامات ہیں: سر فروشی یعنی اللہ کے لئے سر کٹانا، دل فروشی یعنی دل کی محبت کو اللہ تعالی کے لئے قربان کرنا، جاں فروشی اپنی جان کو اللہ کے راستے میں قربان کرنا۔

پی کے خونِ آرزو پھر کیف جام قرب دیکھ

خون آرزو کا مطلب خواہش نفس کو ذبح کرنا۔ یہ حضرت حکیم اختر صاحب کا خصوصی اسلوب تھا، فرماتے تھے کہ ارے نفس کو ذبح کرو اس کی چیخ نکلے۔ مثال کے طور پر آپ کو بہت خواہش ہے کہ میں اس غیر محرم کو دیکھوں، اس وقت آپ کو مزا آئے تو نکالو اس سے چیخ، نہ دیکھو۔ نفس کی جو چیخ ہے، وہ بڑی قیمتی ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے غیر محرم سے اللہ تعالی کے ڈر سے اپنا چہرہ ہٹایا، تو اللہ پاک اس کو زندگی میں ایسا کوئی عمل نصیب فرماتے ہیں، کہ ایمان کی حلاوت کو خود محسوس کر لے گا۔ یہ وہ جام قرب ہی ہے۔


سوال 20:

جي! ځهٔ دَ شانګلے يم، ما دَ اولې ورځې نه څلويښتو ورځو والا وظيفه پوره کړه، اوس ماله دويمه وظيفه راکړئ۔

یہ فرما رہے ہیں کہ میں شانگلے کا ہوں اور میں نے چالیس دن کا وظیفہ پورا کر لیا ہے۔ مجھے اگلا وظیفہ دے دیں۔

مجھے نہیں معلوم که یہ سائل اُردو جانتا ہے یا نہیں، لہذا پشتو میں جواب دوں گا۔


جواب 20:

اوس تاسو داسې کار وکړئ چې دريمه کلمه پوره سل ځله، درود شريف سل ځله، استغفار سل ځله، دا خو به ټول عمر کوئ۔ دې نه علاوه "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، سل ځله۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، سل ځله۔ "حَقْ"، سل ځله۔ اؤ "الله"، سل ځله۔ پهٔ دومره آواز سره څنګه چې ما ووې، دا به يو مياشت وکړئ بيا به ما ته اطلاع راکړئ۔


سوال 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ اللہ کا ذکر 5000 مرتبہ ہے اور 15 منٹ دل پر اللہ اللہ کرنا ہے۔ دل پر اللہ اللہ ابتدا اور اخیر میں صحیح ہوتا ہے، درمیان میں تھوڑے سے خیالات آتے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے 100 فیصد توجہ کسی کام کو نہیں دے سکتا، مثلاً پڑھائی پر بھی مکمل توجہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ناجائز خیالات سے کس طرح چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟

جواب 21:

آپ 5000 کی جگہ اب 5500 کر لیں اور 15 منٹ دل پر ہی رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کو خیالات آتے ہیں، تو خیالات کی طرف پروا نہ کرنا آپ کا assignment ہے، خیالات کو ہٹانا آپ کا assignment نہیں ہے، اور نہ ہی خیالات آپ ہٹا سکتے ہیں۔ بس اس کی پروا نہ کریں، جیسے کتے بھونک رہے ہیں اور آپ راستے پر جا رہے ہیں۔ ہماری پشتو میں اس کے لئے ضرب المثل ہے (سپی به غاپی اؤ کاروان پهٔ لار تيريږي) "کتے بھونک رہے ہوں گے اور کوے اپنے راستے پر چل رہے ہوں گے"۔ ان کو کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ کتے ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ کوے اڑ رہے ہوتے ہیں، کتے ان کی طرف اوپر جا تو نہیں سکتے۔ اسی طریقے سے یہ خیالات ہمارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لہذا ان کی پروا بالکل نہ کریں، اس کا علاج یہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ناجائز خیالات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جیسے نفس کی کمزوری کا آپ کو پتا ہے اس طرح نفس کی کوئی ایسی جائز خواہش جس میں آپ فوری طور پر پناہ لے سکیں۔ مثلاً میری ریاضی ہے اب اگر مجھے کچھ اس قسم کے خیالات آئیں اور نہ ہٹتے ہوں، تو میں ریاضی کے کسی مسئلے میں اپنے آپ کو مشغول کر دیتا ہوں۔ بس وہ جانے اور اس کا کام جانے، ہمارا کام تو شروع ہو جاتا ہے۔ ہر ایک کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا جائز مباح طریقہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے ڈاکٹر صاحب کا کوئی patient وغیرہ ہو، کہ اگر یہ problem ہو تو اس کو کیسے حل کروں؟ مفتی کا کوئی فتویٰ وغیرہ کا مسئلہ ہو گا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ کوئی جائز مباح چیز کو اپنے سامنے رکھیں اور اسی میں پناہ لے لیں، اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔


سوال 22:

آج بھی آپ نے یہ فرمایا اور پہلے بھی میں نے سنا ہے کہ لطیفہ نفس پہ ذکر نہیں ہے، بلکہ مجاہدہ ہے۔

جواب 22:

نقشبندیوں کے مختلف حضرات سے میں نے سنا ہے جیسے مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں فرمایا تھا کہ نفس کو بالکل نہیں چھیڑنا، حالانکہ وہ نقشبندی تھے۔ ممکن ہے تحقیقات میں فرق ہو، لیکن لطیفہ نفس کے اوپر اس طرح کام نہیں ہوتا جس طرح باقی لطائف پر ہے، کیونکہ یہ جو لطائف ہیں کچھ عالم امر کے ہیں، کچھ عالم خلق کے ہیں۔ لطیفہ نفس عالم خلق کا لطیفہ ہے۔ ایک یہ ہے اور چار عناصر: آب، آتش، باد اور خاک ہیں۔ یہ پانچ لطائف عالم خلق کے، اور پانچ لطائف عالم امر کے ہیں جیسے قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ۔ لیکن عالم خلق میں لطیفہ نفس اس کی مخالفت ہے، اس کی ترتیب ہی یہی ہے کہ وہ اسی سے سیدھا ہوتا ہے، ذکر وغیرہ سے سیدھا نہیں ہوتا۔


سوال 23:

مراقبات مشارب میں بھی اسے نہ چیھڑا جائے؟

جواب 23:

ہماری تحقیق کے مطابق نہیں چھیڑنا، ہم نہیں چھیڑتے، بعض دفعہ خود ہو جاتا ہے، خود تو من جانب اللہ ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے سے متاثر ہو کے ہو جاتا ہے، جیسے میں نے ایک بھی نہیں چھیڑا تھا، اور میرا ہو گیا تھا۔ ہمارا تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں پرانے بنوری لطائف چلے آ رہے تھے، تو ابتدا اس سے ہوئی تھی، اس میں یہ ہے کہ لطیفہ اخفٰی جس وقت چل پڑا تو اس کے ساتھ نفس خود بخود چل پڑا تھا، اس کی وجہ شاید یہ ہے که سلطان اذکار والی بات پھر اس میں ہو جاتی ہے، یعنی پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے شاید وہ چل پڑا تھا، میں نے اس پر کوئی محنت نہیں کی۔


سوال 24:

حضرت صاحب! مراقبات کے مشارب میں آپ نے جو مختصر نیت بتائی، اس میں کیا اور تفصیل بھی ہے؟ مثلاً انبیاء کے حوالے سے۔

جواب 24:

اصل میں اس کو بھی ہم نے تھوڑسی تبدیلی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس میں صرف الفاظ تک رہ جاتے ہیں۔ چونکہ اس میں حدیث شریف ہے کہ "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ گمان کرتا ہے۔ تو میں جو یہ گمان کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے فیض آ رہا ہے میرے شیخ کے قلب پر، اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ ایک میرا گمان ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی تو ہمیں اجازت ہے، دوسرا اس میں آپ نے ایک اور چیز بھی نوٹ کی ہو گی کہ کتابوں میں یہ بات ہے کہ لطیفہ روح یعنی آپ ﷺ کا لطیفہ روح کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ سر کی یہی بات ہے۔ اس پر مجھے بہت سخت اشکال ہوا تھا اور حیرت کی بات ہوئی تھی کہ میں نے کہا کہ یہ لطائف ظنی ہیں اور آپ ﷺ کی طرف کوئی ظنی قول کی نسبت کرنا تو مجھے بڑا ہی عجیب لگتا ہے۔ اسی مخمصے میں گرفتار تھا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ علیہ کی زیارت ہوئی اور حضرت نے فرمایا آپ کی بات زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کا لطیفہ قلب تو قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث شریف سے بھی ثابت ہے، اس پہ تو کوئی بات نہیں ہوتی، لیکن باقی لطائف ظنی ہیں۔ آپ ﷺ کے بارے میں آتا ہے که ایسی کوئی بات نہ ہو جو اس نہ فرمائی ہو۔ میرے ذہن میں یہ بات تھی تو اس پر الحمد للہ تائید بھی ہو گئی، بس منجانب اللہ یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ اور آج کل کے دور کے لحاظ سے اصل میں یہ چیز ضروری ہے، کیونکہ ہمارا یہ آج کل دور بڑا ہی مشکل دور ہے، اس میں لوگوں کے ذہن میں بڑے اشکالات آتے ہیں، پھر ان کو جواب دینے ہوتے ہیں۔ مطلب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پہلے احناف حضرات احادیث شریف نہیں بتاتے تھے، صرف مسئلہ بتاتے تھے۔ اس وقت کیا آپ direct مسئلہ بتا سکتے ہیں؟ سارے مفتی اب مجبور ہیں یا نہیں ہیں؟ اب ساتھ میں ساری چیزیں بتاتے ہیں کہ یہ اس طرح ہے، یعنی باقاعدہ ہمارے علماء احناف نے اپنی strategy تبدیل کر لی، انھوں اب یہ رخ اختیار کر لیا کہ ان کو ساتھ ساتھ ان چیزوں کا بھی بتانا چاہیے، تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن پہلے وقتوں میں ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ پہلے وقتوں میں اعتماد پہ بات چلتی تھی، اب اعتماد پہ نہیں اسناد پہ بات چلتی ہے، اعتماد سے معاملہ shift ہو گیا اسناد کی طرف۔ بس ٹھیک ہے، جس طرح وقت ہے اس کے مطابق بات کرنی چاہیے۔

ہمارے حضرات جیسے سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ حتی کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، ان سب کا رجحان اسی طرف چلا آ رہا ہے که دلائل کی روشنی میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کرتے رہتے تھے۔ جیسے توجہ والی بات ہے کہ اس میں پہلے ہمارے بزرگوں کے ہاں تصورِ شیخ ہوتا تھا، اس میں کوئی حرج بھی نہیں تھا، اس وقت چل رہا تھا، آج کل مسئلہ یہ ہے کہ اس سے اور چیزیں بن جاتی ہیں، تصور شیخ سے بھی شرک تک معاملہ پہنچ گیا۔ ان سب سے پہلے نقشبندی بزرگ نے اس کا انکار کیا تھا۔ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے انکار کیا تھا، کہ یہ مجھے تو صریح شرک لگتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو گلے سے لگا لیا کہ میں آپ کو دوسری side پہ لے جا رہا ہوں، سلوک نبوت پہ ان شاء اللہ آپ کو چلاؤں گا۔ اسی طرح توجہ یعنی تصرف والی بات بھی ہمارے بزرگوں نے چھوڑ دی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا بالکل غلط مطلب لینا شروع کر لیا، خود کام کرنا چھوڑ دیا بس شیخ پہ چھوڑ دیا کہ شیخ تصرف کرے گا اور ہمیں چلائیں گے۔ انہوں نے شیخ کے تصرف کی بجائے اب القائی نسبت کی طرف مرید کو لے گئے تاکہ وہ ذکر اذکار سے خود چلے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو باقاعدہ اس پہ اتنا زیادہ لکھا ہے، اور فرمایا ہے کہ کام تو خود کرنا پڑے گا طریقہ ہم بتائیں گے، الحمد للہ ہمارے ہاں جن کا کام شروع ہو جاتا ہے پھر وہ رکتا نہیں ہے، کیونکہ خود شروع ہوتا ہے، ہم نے تو نہیں شروع کرایا ہوتا۔ تو پھر وہ الحمد للہ جہاں بھی جائیں گے اپنے ساتھ تو لے جائیں گے، یعنی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر ہم نے شروع کروانا ہو تو ہمارے سامنے تو ہو گا باہر جائیں گے نہیں ہو گا۔ یہ ضرورت کی وجہ سے ہے ورنہ پرانی باتیں بھی صحیح ہیں غلط نہیں ہیں۔


سوال 25:

حضرت جی! نفس کو کچلنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟

جواب 25:

در اصل نفس کو کچلنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کو قابو رکھنا، یعنی اس کی باتوں میں نہ آنا۔ اس کا یہی طریقہ ہے کہ باتکلف پہلے اس کا انکار کرو، اس کی نہ مانو۔ آپ نے آسان طریقہ پوچھا ہے، اس چیز پہ آنے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ جیسے آپ کو ایک چیز کی خواہش ہو جائے مثلاً پراٹھے چاہئیں، آپ کہہ دیں ٹھیک ہے، پراٹھے کھلا دوں گا لیکن آج نہیں کل۔ اس کو ایک دن delay کریں، پھر دو دن delay کریں، پھر تین دن delay کریں، آپ آہستہ آہستہ اس کو لائن پہ لائیں۔ یک دم چھڑوانے والی بات چونکہ زیادہ مشکل تھی تو آپ نے اس کو آہستہ آہستہ چلایا۔ یہ آہستہ آہستہ حکمتاً ہے، اس طریقے سے وہ ماننا شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ بہت ساری باتیں ایسی ہوتیں ہیں جو ہو سکتی ہیں لیکن بڑا step لینے کی وجہ سے انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے پھر نہیں ہوتیں، آدمی سمجھتا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتیں۔


سوال 26:

اگر اس نفس کو قرآن و سنت کے احکامات پہ چلایا جائے، تو سب سے آسان طریقہ نہیں ہے؟

جواب 26:

بالکل صحیح ہے، قرآن و سنت کے احکامات پر چلانے کے لئے ہی تو اس کو دوسری طرح چلایا جا رہا ہے۔ قرآن کے احکامات پہ وہ ضد کرے گا یا نہیں کرے گا؟ آپ اس کی مخالفت کریں گے، تو یہ وہی چیز بن جائے گی۔


سوال 27:

ابتدائی وظیفہ پورا کر لیا ہے۔

جواب 27:

اس کو اب لطیفہ قلب والا 10 منٹ کا دے دیں۔


سوال 28:

لطیفہ قلب 10 منٹ کا ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب 28:

اس کو اب لطیفہ قلب پر 10 منٹ اور لطیفہ روح کا 15 منٹ کا دے دیں۔


سوال 29:

لطیفہ قلب 15 منٹ ہے، ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب 29:

لطیفہ قلب 15 منٹ کی جگہ اب 10 منٹ کریں، اور لطیفہ روح 15 منٹ کا دے دیں۔


سوال 30:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر ہے اور 15 منٹ مراقبہ تجلیات افعالیہ ہے۔

جواب 30:

ٹھیک ہے ماشاء اللہ۔ تجلیات افعالیہ کا تھوڑا سا بتا دیں که ان کی کیفیت کیا ہے، پھر اس کے بعد میں دے دوں گا۔


سوال 31:

ان میں سے ایک نے مراقبہ کچھ یوں کیا ہے، کہ اللہ کی طرف سے فیض آتا ہے حضور ﷺ کے قلب مبارک پر، حضور ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر، میرے شیخ کے قلب سے باجی کے قلب پر اور باجی کے قلب سے میرے قلب پر۔ میں نے کہا: آپ مجھے درمیان میں کیسے لے آئیں میں آپ لوگوں سے مراقبہ میں پیچھے ہوں۔ اس نے جواب میں کہا کہ آپ ہی ہمارے لئے اس خیر کا ذریعہ بنی ہیں۔ اب یہ طالبہ کیا کریں؟


جواب 31:

ان کو کہیں کہ آپ کو اس کا ثواب مل گیا، اور وہ آپ کے لئے دعا کر لیا کریں کہ آپ ان کے لئے خیر کا ذریعہ بنی ہیں، لیکن جیسا ان کو بتایا گیا ہے اسی طرح کر لیں، وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنا ذہن نہیں لڑانا پڑتا۔ یہ عادت بری ہے، اس وجہ سے اس عادت کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ جیسے بتایا گیا اسی طریقے سے کر لیں، آپ کو دعا میں یاد کر لیں، وہ دعا آپ کے لئے اس سے زیادہ اچھی ہے۔


سوال 32:

چاروں لطائف پر 5 منٹ کا ذکر اور اخفی پر 15 منٹ ذکر، تمام لطائف پر محسوس ہے۔

جواب 32:

اب 5، 5 منٹ سارے لطائف پر ذکر جاری رکھیں اور 15 منٹ کے لئے مراقبہ احدیت کا بتا یں۔


سوال 33:

نزول رحمت کا تصور 20 منٹ کے لئے محسوس ہوتا ہے۔

جواب 33:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، اب دل کا ذکر ان کو بتا دیں 10 منٹ کے لئے۔


سوال 34:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور 15 منٹ مراقبہ تجلیات افعالیہ۔

جواب 34:

اب ان کو مراقبہ تجلیات افعالیہ کا بتا دیں۔ تمام کیفییت بتا دیں که ان کی کیا کیفیت ہے۔


سوال 35:

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 15 منٹ دو مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ روح پر ذکر محسوس نہیں ہوتا، قلب پر محسوس ہوتا ہے۔

جواب 35:

اب لطیفہ روح پر 20 منٹ کر لیں اور لطیفہ قلب پر 10 منٹ ہی رہنے دیں۔


سوال 36:

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ اور لطیفہ سر 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔


جواب 36:

اب ان کو لطیفہ قلب، روح اور سر پہ 10، 10 منٹ اور لطیفہ خفی پر 15 منٹ کا بتا دیں۔


سوال 37:

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 15 منٹ، ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب 37:

اب لطیفہ قلب، لطیفہ روح اور لطیفہ سر کا 10، 10 منٹ لطیفہ خفی کا 15 منٹ بتا دیں۔


سوال 38:

لطیفہ قلب 15 منٹ اور 1000 مرتبہ اسم ذات کا زبانی ذکر ہے۔ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب 38:

ان کو پھر لطیفہ قلب 15 منٹ کا بتا دیں، 1000 مرتبہ اسم ذات کی بجائے 1500 مرتبہ کر لیں۔



سوال 39:

لنڈی کوتل کی طالبہ کا ابتدائی ذکر پورا ہو گیا اور اس کی عمر ابھی 14 سال ہے۔

جواب 39:

ان کو بتا دیں کہ ماشاء اللہ یہ ابتدائی ذکر تو ان کا پورا ہو گیا۔ اب تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ ایک مہینہ اور پڑھیں۔


سوال 40:

فنا اور استغراق میں کیا فرق ہے؟

جواب 40:

فنا ایک کیفیت ہے کہ انسان اپنے نفس کے اثر میں نہ آئے۔ استغراق میں یہ ہے کہ ارد گرد چیزوں کا پتا نہ چلے۔ فنائیت تو اس کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے کہ ساری چیزوں کا پتا چلے گا لیکن اس کے اثر میں نہیں آئے گا، استغراق میں پتا نہیں چلے گا، جیسے انسان بے ہوش ہوتا ہے، اس میں پتا نہیں چلتا۔ اسی کو استغراق کہتے ہیں۔


سوال 41:

آپ نے فرمایا کہ وجد صاحبِ حال لوگوں کو ہوتا ہے۔ صاحب حال سے کون مراد ہیں؟

جواب 42:

صاحب حال وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر حال اثر کر لیتا ہے۔ حال سے مراد یہ ہے کہ کوئی قلبی حالت ایسی ہو جاتی ہے جو جسم کے اندر تحریک پیدا کر دے، گویا کہ جسم اس سے متاثر ہو جاتا ہے۔ مثلاً بات میں اثر آ جاتا ہے، فکر میں اثر آ جاتا ہے، مضبوطی آ جاتی ہے، یہ صاحب حال لوگ ہوتے ہیں۔ صاحب حال لوگوں کے اعمال جاندار ہو جاتے ہیں۔ وجد بھی صاحب حال لوگوں پہ ہوتا ہے، کیونکہ حال ان میں اثر کرتا ہے۔ جب وہ کنٹرول کرتا ہے تو اس سے عمل پیدا ہو جاتا ہے، کنٹرول نہیں کرتا تو غیر ارادی حرکت پیدا ہو جاتی ہے، غیر ارادی حرکت وجد کہلاتی ہے۔


وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ