اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 01:
السلام علیکم! آپ کی سرزنش اور خصوصاً آپ کی خاموشی نے ساری قلعی کھول دی اور اپنی کم عقلی، کم ظرفی، کم بحثی، کم ہمتی اور اس پر اوڑھا ہوا عجب کا پردہ کھل کر سامنے آگیا۔ حضرت جی! آپ سے تعلق اللہ جل شانہ سے دعا کا نتیجہ ہے۔ آپ کے ہاتھ پر آپ کی وساطت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے، آپ کو اپنا استاد، طبیب اور مربی دل سے مانتا ہوں، اور آپ کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے مترادف ہے۔ آپ کی نظر میں اگر اس معیار سے گرا ہوں تو یہ میری انتہائی کم مائیگی ہے۔ حضرت جی! میں نے اللہ جل شانہ سے آپ کے سامنے توبہ کی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ قبول ہو گئی ہے، لیکن اس کے آ گے اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا ہے کہ خود سے اپنی کیفیت کا analysis کبھی کرنے کی کوشش نہیں کروں گا، خود کو آپ کے حوالے کر چکا، آگے آپ کی منشا و اطاعت کے مطابق کرنے کی کوشش کروں گا۔ باقی بندہ بشر ہوں، خود سے کوئی خاص امید نہیں، لیکن آپ پر بھروسہ ہے کہ آپ اس ناکارہ کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اگر مناسب سمجھیں تو آپ کی خانقاہ میں حاضری دے کر اس کا اعادہ کروں۔ بہرصورت احقر کی ضروری رہنمائی فرمائیے!
جواب01:
دراصل ایک صاحب نے مجھ سے پہلی دفعہ خط کے ذریعے سے رابطہ کیا تھا، اس کا میں نے جواب دیا تھا، اس جواب کے بعد انھوں نے اس خط میں یہ بات فرمائی ہے۔
ماشاء اللہ! یہ بہت اچھی بات ہے، یعنی اپنے بارے میں کم مائیگی کا احساس ہونا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ جل شانہ عمل کی توفیق نصیب فرمائیں!
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ساری باتیں اسباب کے رخ سے ہمیں دیکھنی ہوں گی، آگے چل کر اللہ جل شانہ اپنے فضل سے اس میں اپنی مدد شامل فرما دیتے ہیں۔ میں اکثر اس پر بات کرتا رہتا ہوں کہ اللہ جل شانہ کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے جو کوشش کرتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت :69) مفہوم: "جو لوگ مجھ تک پہنچنے کے لیے یعنی مجھے راضی کرنے کے لیے کوشش اور محنت کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بالضرور ہدایت کے راستے سجھائیں گے"۔ یعنی اللہ کی مدد ان لوگوں کے ساتھ ہے جو خود ہمت اور کوشش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو کم سمجھنا بالکل اچھی بات ہے لیکن اس کو بے ہمتی کا ذریعہ بنانا بالکل غلط بات ہے، یعنی جتنی ہمت انسان کے اندر ہے وہ اس کو کرنی پڑتی ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، اگر کوئی شخص کسی عمارت کی بیسویں منزل سے گر جائے اور اس کے ہاتھ لینٹر کا ایک شیڈ آجائے، اس کو وہ پکڑ لے اور اس کو پتا چلے کہ اگر میں اس کو چھوڑوں گا تو بیسویں منزل سے نیچے گر جاؤں گا اور تہس نہس ہو جاؤں گا، تو اگر وہ بہت زیادہ تھکا ہوا بھی ہوگا تب بھی بالکل نہیں چھوڑے گا، بلکہ جتنی اس کی طاقت ہو گی اتنی کوشش کرے گا۔ اسی طرح اللہ نہ کرے اگر کوئی بے ہمتی کی وجہ سے گناہوں کے دلدل میں گر رہا ہے، تو ایسی صورت میں وہ ہمت سے کام لے، یعنی وہ آخری حد تک ہمت کرے گا، اور جو بھی ہمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد ضرور کرتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص نے ایک چور پکڑا، چور نے کہا کہ مجھے معاف کر دیں کیونکہ پہلی دفعہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ کسی کو نہیں پکڑواتا، کم از کم تین دفعہ ہو چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی بے ہمتی کے لیے دلائل بنانا غلط بات ہے، انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آتی ہے۔ البتہ رہنمائی کی ضرورت یقیناً سب کو ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جس کو بھی اللہ کے لیے اپنا رہنما بنایا ہے، اللہ پاک ہی اس کے ذریعے مدد فرماتے ہیں۔ لہذا آپ کا کام یہ ہو گا کہ ہمت کر کے جتنی آپ کر سکتے ہیں اپنی ساری بات سامنے رکھیں، اس کے بعد مزید معلومات اور رہنمائی حاصل کرنے کے طریقے کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یہ نہیں کہ آپ نے ہمت چھوڑ دیں اور سوچیں کہ سب کچھ خود بخود ہو جائے گا، جیسے آج کل تاثر ہے، یہ دراصل بگڑی ہوئی تصوف کی نشانیاں ہیں۔ جو شیخ کی توجہ کا منتظر ہو، شیخ سے ایسی توقع رکھے کہ ہمارا سب کچھ خود بخود ہونے لگے گا، یہ بگڑا ہوا تصوف ہے۔ حالانکہ شیخ کی مثال ایک رہنما اور طریقہ بتانے والے کی ہے۔ مثال کے طور پر چار راستے ہیں، ان میں سے ایک راستہ صحیح ہے باقی غلط ہیں۔ آپ کسی سے پوچھتے ہیں کہ کون سا راستہ صحیح ہے، وہ آپ کو بتاتا ہے کہ تیسرا راستہ صحیح ہے، آپ اس سے یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے اس راستے پر لے چلیں، بلکہ آپ خود جائیں گے لیکن بہرحال راستہ اس نے بتا دیا ہے۔ تو شیخ کا کام راستہ بتانا ہوتا ہے، آگے چلنا خود مرید کا کام ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ العزیز ہم جتنی خدمت کر سکتے ہیں ضرور کریں گے، البتہ آپ سے جو توقع ہے، آپ بھی وہ ضرور کریں۔
سوال02:
میں نے اب الحمد للہ! پانچ وقت نماز کی پابندی شروع کر دی ہے اور ایک ٹائم رکھ کر عصر کے بعد ذکر بھی شروع کر دیا ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جواب02:
شکر اللہ کا، اللہ جل شانہ نے مدد فرمائی اور اس بات کی توفیق عطا فرمائی، اس پہ اللہ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے ۔ نماز کی پابندی بہت بڑی دولت ہے، ﴿إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾ (سورة النساء :103) اللہ پاک نے نمازوں کو وقت پر پڑھنے کا ہمیں پابند کر دیا ہے۔ اس وجہ سے اس میں دو باتیں ہیں: نماز بھی پڑھنی ہوتی ہے اور وقت پہ بھی پڑھنی ہوتی ہے۔ اگر نماز کا وقت نکل جائے تو بعد میں وہ قضا ہو گی، اور اگر قضا ہو گئی تو ساری عمر نفل نماز پڑھتا رہے وہ جو فرض رہ گیا ہے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی، یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے، وہ کبھی بھی دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ جیسے گزرا وقت واپس نہیں آسکتا اسی طرح یہ بھی واپس نہیں آسکتا۔ یہ محرومی ہو گئی۔ قضا سے تو انسان کا وہ گناہ سر سے اتر جاتا ہے، لیکن جو ثواب اس کو ملنا تھا نماز کے ذریعے سے وہ رہ گیا۔ اس وجہ سے وقت کی نماز کی بہت قدر کرنی چاہیے ۔
اور ذکر دو قسم کا ہے، ایک ذکر علاجی ہے، اور ایک ذکر ثوابی ہے۔ ثواب والا ذکر بھی اپنے لیے ضرورت سمجھ کر، جیسے انسان کھانا کھاتا ہے ضرورت ہے، اگر کھانا نہ کھائے تو ظاہر ہے اس کو قوت نہیں حاصل ہو گی، کھانا کھانا بھی ضروری ہے تو ثوابی ذکر غذا کی طرح ہے۔ لیکن علاجی ذکر دوا کی طرح ہے، اور جس وقت انسان بیمار ہوتا ہے تو دوا کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے، اس وجہ سے علاجی ذکر تو بالکل نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ علاجی ذکر کو موخر کر لیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تو کوئی اضافی چیز ہے، اور قرآن پاک کی تلاوت اور ذکر اذکار کرتے رہتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ حتی کہ ہمارے مشائخ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانیؒ سب حضرات اس پر متفق ہیں کہ جب تک انسان کی تربیت چل رہی ہے اس وقت تک ان کو نوافل اور تمام کاموں سے اپنا علاج زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہے۔ اس وجہ سے بعض دفعہ شیخ یہ تمام نفلی چیزیں چھڑوا دیتے ہیں۔ ایک مشہور واقعہ ہے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس طرح ایک بہت بڑے عالم تھے، وہ ایک شیخ سے بیعت ہو گئے، شیخ نے ان کو ان کے معمولات سے روک دیا جو کہ نفلی معمولات تھے، اور ساتھ اس کو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کا ذکر تلقین فرمایا۔ فرمایا بس یہی کرتے رہو، فرض نماز پڑھنے کے بعد یہی کرتے رہو، یعنی فرض نماز کے علاوہ یہی کرتے رہو۔ تو ان کا یہ خیال تھا کہ قرآن پاک کا جو میں درس دیتا ہوں یہ تو چونکہ ہمارا شعبہ ہے، اس وجہ سے اس سے تو نہیں روکا ہو گا، لہذا وہ اپنا درس جاری رکھے ہوئے تھا۔ حضرت کو پتا چل گیا، تو حضرت نے وہ درس بھی موقوف کروا دیا، فرمایا کہ فی الحال اس کو روک لو۔ ان کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ وہ تو اپنے شیخ کے سامنے اپنے آپ کو مکمل پیش کر چکے تھے۔ اس نے روک دیا تو لوگوں میں بہت بڑا غُلْغُلَہ ہوا۔ لوگوں نے کہا مرید بھی زندیق ہو گیا اور پیر بھی زندیق ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ پتا نہیں کیا کیا چیزیں انہوں نے شروع کر لیں۔ خیر نہ پیر کو کوئی اس کا اثر ہوا نہ مرید کو اثر ہوا۔ سلسلہ چلتا رہا، کچھ عرصے کے بعد جو اس کا اثر ہونا تھا وہ شروع ہو گیا۔ تو حضرت نے فرمایا اب قرآن پاک کا درس دینا شروع کر لو۔ تو وہ جو عالم تھے وہ خود فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں جب قرآن کا درس دیتا تھا تو اس درس اور اس سے پہلے والے درس میں بہت فرق تھا۔ کیسے؟ پہلے جو میں درس دیا کرتا تھا وہ میں صرف ان چیزوں کا درس دیتا جو میں نے علماً لوگوں سے سیکھی تھیں یا کتابوں میں پڑھی تھیں یعنی اس میں اضافہ نہیں ہوتا تھا، بس وہی چیزیں میں پڑھاتا تھا جو پڑھی تھیں، لیکن اس کے بعد جب میں درس دینے لگا تو علمِ لدنی کا ایسا ذریعہ کھل گیا کہ اس کے بعد ایک ایک لفظ کے پیچھے علوم کے سمندر نظر آنے لگے، تو پھر اس طرح درس دیا کرتا تھا۔
جو علاجی ذکر ہے یہ حجابات کو دور کرتا ہے، حجابات گناہوں کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں اور رذائل کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔ رذائل جب تک دبے نہیں ہوتے تو وہ حجابات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے بہت قریب ایک چیز ہے، لیکن اس چیز کے سامنے رکاوٹ ہے، تو آپ اس کو دیکھ نہیں سکتے جب تک وہ سامنے سے ہٹے گی نہیں۔ اب حرص ہے مثال کے طور پر، حرص بہت ساری چیزوں کو چھپا دیتی ہے، سستی بہت ساری چیزوں کو چھپا دیتی ہے، بے صبری بہت ساری چیزوں کو چھپا دیتی ہے، جو فجور ہیں وہ بہت ساری چیزوں کو چھپا دیتے ہیں۔ اب یہ سارے حجابات جب تک دور نہ ہوں اس وقت تک وہ چیزیں ہوں گی۔ اس لیے کہتے ہیں طریقت سے حقیقت وجود میں آتی ہے، انسان کے اوپر حقیقت کھل جاتی ہے، حالانکہ طریقت کی وجہ سے وہ نئی چیزیں پیدا نہیں ہوتی پہلے سے وہ چیزیں موجود ہیں صرف نظر آنے لگتی ہیں، پتا چلنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عام ذکر سے درود شریف افضل ہے کیونکہ یہ ذکر بھی ہے دعا بھی ہے اور درود بھی، لیکن جو مشائخ علاجی ذکر دیا کرتے ہیں وہ درود شریف سے بھی افضل ہے، کیونکہ درود شریف بہرحال ایک دفعہ تو واجب ہے، لیکن اس کے بعد تو پھر مستحب ہی ہے، لیکن علاجی ذکر فرضِ عین کا مقدمہ ہے، کیونکہ اپنی اصلاح فرضِ عین ہے۔ اس کے لیے جو ذکر ہے وہ تو اسی کے درجے میں ہے۔ لہذا اس کو چھوڑنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال 03:
السلام علیکم شاہ صاحب! میرے ساتھ آج کل کچھ ایسا ہو رہا ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسی کے بارے میں آیات کریمہ میرے سامنے لاتا ہے اور مجھے عذاب سے ڈراتا ہے۔ کبھی تلاوت کے دوران کبھی تفسیر لکھنے کے دوران کبھی تفسیر پڑھنے کے دوران میری توجہ کسی آیت کے ترجمے کی طرف چلی جاتی ہے، اور اس بات کے متعلق احکام ہوتے ہیں، کبھی کوئی بات جس کا پتا نہیں ہوتا وہ میرے دل میں ہوتی ہے، اسی بات کے متعلق احکام ہوتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اگر کسی بات سے میرا دل دکھتا ہے، یا میرے ساتھ کسی بات پر زیادتی ہو جاتی ہے، یا میں خفا ہو جاتی ہوں، تو اس پر ایسی بات سامنے لائی جاتی ہے جس میں میری دلجوئی ہوتی ہے، اور مجھے یکدم عجیب سا اطمینان ہو جاتا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ پاک نے چودہ سو سال پہلے یہ آیت میرے لیے نازل فرمائی ہیں۔ شاہ صاحب! اب تو حالت ایسی ہوئی ہے جیسے اللہ میرے اندر بیٹھے ہوں، میرے دل و دماغ پر پہرہ دے رہے ہوں، اور مجھے عجیب سا ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو۔ اب کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو جلدی معافی مانگتی ہوں، کیونکہ جب میں معافی نہیں مانگتی تو پھر اللہ سزا بھی دیتا ہے، سزا بھی عجیب دیتا ہے۔ شاہ صاحب! اس دن مجھ سے ایک غلطی ہوئی جس کے بارے میں اللہ نے قرآن سے میری توجہ معافی مانگنے کی طرف کر دی، مگر میں نے معافی نہیں مانگی، پھر اللہ پاک نے مجھے سزا دی، اس وقت میری فجر نماز مجھ سے چھین لی، میں تہجد کے لیے اٹھ گئی اور پھر آنکھ ایسی لگ گئی کہ فجر چھوٹ گئی، الارم بھی نہیں سنا، مجھے ایسے لگتا ہے اللہ پاک مجھے warn کر رہا ہو کہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں اگر میری بات نہیں مانی۔ شاہ صاحب! مجھے اللہ تعالیٰ سے بہت ڈر لگتا ہے، اب تو معافی مانگنے میں بھی دیر نہیں کرتی، اور دل و دماغ میں بھی کچھ ایسے خیالات نہیں لاتی کیونکہ اللہ کو پتا چلتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ کچھ برا لگے تو پھر سزا دے۔ اس ڈر کے ساتھ ساتھ مجھے اللہ پاک سے عجیب طرح سے محبت ہونے لگی ہے۔ میں اللہ پاک کو چاہنے لگی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ اللہ کی مرضی والے کام کروں، اس میں کبھی کامیاب ہو جاتی ہوں کبھی ناکام ہو جاتی ہوں۔ شاہ صاحب کیا یہ سب نارمل انسان کی علامات ہیں؟ کیونکہ کبھی کبھی میرے ذہن میں آتا ہے کہ شاید یہ میرے دماغ کو کچھ ہو گیا ہے اور مجھے اتنا بھی depth نہیں سوچنا چاہیے ۔ شاہ صاحب کیا یہ شیطانی خیال ہے یا واقعی مجھے اتنی گہرائی میں نہیں سوچنا چاہیے ؟ آپ اس کی اصلاح فرما دیں!
جواب 03:
اللہ وہی ہے اللہ تبدیل نہیں ہوئے، اور اللہ کا نظام بھی تبدیل نہیں ہوا، ہماری وجہ سے کچھ تبدیلیاں آتی ہیں، ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾ (سورة الروم :41) جو لوگ اعمال کرتے ہیں تو ان کی وجہ سے کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر لوگ اپنے اعمال درست کر لیں، کوشش اور محنت شروع کر دیں تو اللہ پاک وہی اللہ ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سامان بھی ہوتا ہے۔
اب یہ جو خیالات ہیں تو ایک دفعہ حضرت تھانویؒ کو کسی نے اس قسم کی باتیں لکھیں، انہوں نے بھی یہی کہا کہ شاید یہ خیالات ہیں، حضرت نے فرمایا کہ بھئی اگر خیالات بھی ہیں تو اچھے خیالات ہیں۔ یعنی آپ کو خیر کی طرف ہی لے جا رہے ہیں ناں، شر کی طرف تو نہیں لے جا رہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ پاک کی مدد یقینی ہے۔ دوسری یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ جل شانہ کا پورا نظام قرآن میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر ہم کوئی زیادتی کر لیں تو فوراً معافی مانگنی چاہیے ، اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت تو نہیں ہے۔ کیا قرآن پاک میں نہیں ہے جا بجا؟ ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا﴾ (10)﴿ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا﴾ (11) ﴿وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا﴾ (12) ﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّـهِ وَقَارًا﴾ (13) (نوح :10-13) تو یہ کیا چیز ہے؟ نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کتنے پُر زور انداز میں معافی مانگنے کے لیے فرما رہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں۔ قرآن پاک اس سے بھرا ہوا ہے۔ ہاں البتہ عین موقع پر کسی آیت کی طرف رہنمائی کرنا یہ اللہ پاک کا خصوصی فضل ہے، اور ایسا ہوتا ہے، ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت : 69) بالکل دو حصے ہیں، ایک میں ہماری کوشش، محنت اور طلب ہے، دوسرے میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے، اور اللہ تعالیٰ راستے سجھاتا ہے۔ تو راستے سجھانے کے لیے کبھی کوئی اچھا خواب دیکھ لیا، پتا چل گیا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے، یا پھر کسی نے بتا دیا، کسی کتاب میں پڑھ لیا، یا ویسے خیال آگیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظام ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں۔ لہذا یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی اللہ پاک سے مدد اور ہدایت چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جانا یہ بھی کوئی گھبرانے والی بات نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾ (سورة البقرة : 165) یہ تو پہلے سے ہمیں فرما دیا گیا ہے، البتہ محبت کے انداز کو ہم کیسے محسوس کر یں، یہ ہر شخص کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ تو آپ کے لیے ایسا ہے، بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اللہ جل شانہ ہر جگہ موجود ہے۔ کسی نے کہا کہ میرے دل میں اللہ ہے، تو ایک بزرگ نے فرما دیا کہ اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے دل بھی ایک جگہ ہے، تو وہاں پر بھی ہے۔ آپ کو کیا اس میں شبہ ہے کہ اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے؟ اور پھر اللہ پاک کا نظام ہر جگہ موجود ہے۔ تو یہ بالکل صحیح ہے، یہ کوئی depth نہیں ہے، بلکہ اچھے خیالات ہیں۔ سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، یا رسول اللہ ہم حمام میں کیسے برہنہ ہوں اللہ پاک دیکھ رہے ہیں؟ اب یہ بات ٹھیک ہے بالکل صحیح ہے، ان کو اس بات کی یعنی ﴿اَلْحَیَاءُ نِصْفُ الْاِیْمَان﴾ کا دھیان رہتا ہے۔ تو اگر اللہ پاک سے کسی کو حیا آنے لگے تو گناہوں کی جڑ ختم ہو جاتی ہے، گناہوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ تو یہ ساری اچھی باتیں ہیں اللہ تعالیٰ مزید آپ کو نصیب فرمائے، اور اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس میں کوئی ڈرنے والی بات نہیں ہے، ماشاء اللہ یہ بہت اچھا ہے، اور سب ماشاء اللہ کوشش اور محنت اور اللہ پاک کی طرف بڑھنے کا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات عطا فرمائے۔
سوال 04:
تمام تر آداب کے ساتھ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ جناب! میں نے مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ کی editing شروع کی ہے، composing ہو چکی ہے۔ اب صحیح تر تصحیح اور تخریج کے لیے کتاب کے اصل فارسی متن کی ضرورت ہے۔ فارسی کا ایک نسخہ میرے پاس موجود ہے، لیکن میں زیادہ احتیاط کی خاطر ایک سے زیادہ اصل نسخوں کے ساتھ تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے آپ کے پاس مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ کی فارسی کا کوئی نسخہ موجود ہو تو اس کی ایک کاپی عنایت فرمائیں، تاکہ اس کتاب کی بہتر طریقے سے خدمت کی جا سکے۔
جواب 04:
ہمارے پاس فارسی والا موجود ہے، اور اس کی فوٹو کاپی ہے۔ لیکن بہرحال photostate بھی اللہ کی نعمت ہے۔ اس کے publisher کے بارے میں ان شاء اللہ میں ابھی عرض کرتا ہوں کہ کون ہے۔ جب یہ آجائے گا تو پھر میں آپ کو ان شاء اللہ بھیج دوں گا۔ ہمارے پاس جو نسخہ ہے اس میں جو دیباچہ ہے اس پہ لکھا ہے ”بعدہ مؤلف مسکین عاجز ابو اسد اللہ مھتد اللہ بن عطاء اللہ باعث تالیف کتاب ہذا بیان میکند کہ براہ اہل دانش این امر مخفی نیست“۔ ہمارے پاس یہ نسخہ ہے، اگر آپ کے پاس بھی یہی ہے تو وہ تو آپ کے پاس ہو گا، اگر یہ نہیں تو مجھے بتا دیں تاکہ ہم آپ کو اس کی کاپی send کر سکیں۔
سوال 05:
السلام علیکم، اپنے احوال میں پہلے اپنے رذائل کا ذکر کروں گا، جو آپ کی برکت سے ختم یا کم ہو گئے ہیں۔ آپ سے بیعت ہونے سے پہلے اور اس کے بعد بھی بہت عرصہ مجھ پر جب حبِ شہوات کا بہت غلبہ تھا، کھانے پینے کا اتنا نہیں تھا لیکن جنسی لذات نہیں چھوٹتی تھیں، جس میں بار بار توبہ ٹوٹتی تھی لیکن اب الحمد للہ اتنا powerful ہو چکا ہے کہ نفس کو اللہ کی ناراضگی والے کاموں سے دور رکھتا ہے، جیسے بجلی کی ننگی تار سے۔ بدنظری بالکل نہیں کرتا، کئی ماہ سے اس پر استقامت ہے، حتی کہ محرم رشتوں میں بھی نظر کو control رکھتا ہوں، الحمد للہ! البتہ internet اور mobile کا غلط یا غیر ضروری استعمال ختم ہو چکا ہے۔ زبان کی حفاظت بولنے سے پہلے اور بولتے وقت بھی اللہ کی طرف دعائیہ انداز میں دل مکمل متوجہ رکھتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے جو دل پر آیا ہے وہی بولوں ورنہ خاموش رہوں، جب کوئی بھی کچھ پوچھے تو دل میں یہی آتا ہے کہ میری زبان پر اللہ پاک کی پسند کا جواب ہو۔ جھوٹ سے بہت شدید نفرت ہو چکی ہے، کیونکہ مخلوق کا ڈر دل سے نکل چکا ہے۔ اگر سچ بولنے کا موقع نہ ہو جس سے دوسرے کو نقصان ہو سکتا ہو تو بات کو ٹالنے کی یا خاموشی یا دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ غیبت بالکل چھوڑ دی ہے، اگر کبھی غفلت سے غیبت نکل جائے تو فوری روک کر توبہ شروع کر لیتا ہوں، اور بات کا رخ بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لایعنی بات نہیں کرتا۔ غصہ جب ضروری ہو وہاں اس انداز سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں جیسے ہتھوڑا مارتے ہوئے جتنا ضروری طاقت اور کنٹرول ہونا چاہیے ، اور سوچ لیتا ہوں کہ کہیں اس میں میرے نفس کی آمیزش نہ ہو بلکہ اللہ کے لیے ہو، اور جہاں تک فائدہ ہو فائدے کی امید ہو وہاں تک ہو۔ کانوں کی حفاظت میوزک اور گانا کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا، کہیں بج رہا ہو تو قلبی اور زبانی ذکر تیز ہو جاتا ہے۔ اب غیر محرم عورت کی موجودگی تو اثر کرتی ہے، لیکن کسی عورت کی آواز دل پر اثر نہیں کرتی۔ ذہن کی حفاظت غلط سوچوں میں نہیں پڑتا۔
مجموعی طور پر اللہ کی ناراضگی سے ایسے ڈرتا ہوں جیسے لوگ سانپ بچھو سے ڈرتے ہیں۔ پہلے additional تصویروں اور video کو غلط سمجھنے کے باوجود کچھ بے احتیاطی اور رعایت تھی اب توبہ کر لی، لیکن آپ کے بیانات کی برکت سے تصویر اور video کی حرمت اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ ہر صورت ان سے بچتا ہوں، حالانکہ میری بیوی اس کی بہت شوقین ہے، اب بھی جب بہت مجبور کرتی ہے تب بھی میں اپنی تصویر یا video نہیں بنانے دیتا، پھر وہ اپنی یا اپنی بچی کی تصویر اکیلے بنا لیتی ہے، لیکن میں روز بیوی اور بچی کو بھی طریقے طریقے سے ان کے نقصانات پر قائل کرتا رہتا ہوں، ان شاء اللہ کرتا رہوں گا۔ اب مقاماتِ سلوک کے لحاظ سے اپنا جائزہ لوں تو صبر کے معاملے میں صبر کی کوشش کرتا ہوں، کبھی کبھی بے صبری ہو جاتی ہے لیکن جلدی اس پر قابو پا لیتا ہوں۔ دنیاوی نقصان پر بالکل افسوس نہیں ہوتا اگر اس کا دین میں بالواسطہ یا بلا واسطہ حرج نہ ہو، زہد کے معاملے میں ایک بار English کے بیان میں آپ نے فرمایا تھا کہ luxuries کو چھوڑ دیں تو دوسروں کا محتاج نہیں ہوں گے، اس دن سے الحمد للہ میں نے تعیشات کی طلب اور کوشش بتدریج کم کرنی شروع کر دی ہے۔ اللہ کرے میری بیوی بھی اس کی متحمل ہو سکے لیکن دنیا کی صرف اتنی طلب و کوشش ہے تاکہ فقر کسی فتنہ کے یا کسی یکسوئی میں کمی کا باعث نہ ہو، لیکن کسی کو کھانے پینے کی چیز دینے کے معاملے میں مجھ میں بخل ضرور ہے۔
تقویٰ میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے، مثلاً چھوٹی بچی کے معاملے میں بھی حرمت مسائل سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سردیوں میں ہمارے کمرے سے ہمسائیوں کی آوازیں صاف آجاتی ہیں اس وجہ سے رات کو سب سے زیادہ مسئلہ انابت اور ریاضت میں ہے۔ اعمال بہت کم ہیں فرائض نہیں چھوڑتا مگر ان میں اہتمام کی کمی ہے۔ نمازوں میں تکبیر اولی کی کمی ہے، فجر اکثر بغیر جماعت کے پڑھ لیتا ہوں، نوافل کبھی کبھی پڑھتا رہتا ہوں، تہجد بھی نیند کی کمی کے باعث کبھی کبھی پڑھتا ہوں مگر نیت ہر رات کو کرتا ہوں۔ تلاوت قرآن میں باقاعدگی نہیں ہے۔ میرا بہت بڑا مسئلہ سستی کم ہمتی اور صحت کی خرابی کا ہے، جو دینی و دنیاوی تمام ذمہ داریوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
اصلاحی ذکر نہیں کر رہا۔ آپ نے چونکہ ذکر سلوک طے کرنے والوں کو بتایا تھا وہی کبھی کبھی کر لیتا ہوں مگر ایک آدھ بار بے قاعدگی سے۔ وہ یہ تھا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو اور حق 100،100 مرتبہ اور 1000 مرتبہ اللہ، مراقبہ کا میں نے آپ سے نہیں پوچھا تھا کہ کرنا ہے یا نہیں۔ آپ جو تجویز کریں ان شاء اللہ اس میں کوئی سستی اور کوتاہی نہیں ہوگی۔ اپنی اصلاح اور تربیت کو اولین ترجیح دوں گا اور معمولات کی sheet بھی بھروں گا ان شاء اللہ۔
جواب 05:
سبحان اللہ! یہ فکر قابل رشک ہے۔ الحمد للہ! اللہ کا شکر ہے، اللہ تعالیٰ مزید بہتر فرمائیں۔ جو کمی ہے وہ نفلی کاموں میں ہے تو اس کی بھی ان شاء اللہ، اللہ پاک توفیق دے دے گا، جب آپ ارادہ اور کوشش کریں گے۔ فرائض کے معاملے میں اور حرام سے بچنے میں الحمد للہ کافی بہتری ہے۔ اور یہی دو چیزیں priority کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہیں کہ حرام سے انسان بچے اور فرائض اپنے وقت کے مطابق ادا کرے۔ باقی یہ ہے کہ جو اصلاحی ذکر ہے وہ میں ان شاء اللہ بتا دوں گا آپ کو، فی الحال آپ یہی کرتے رہیں، اس میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، ذکر سے مطلوب اتنا ہی ہوتا ہے که انسان سلوک کے لیے تیار ہو جائے۔ تو ماشاء اللہ آپ سلوک طے کرنے کے لیے تیار ہیں، تو آپ سے مزید مطالبہ اس کا شاید نہ ہی کریں۔ وہ جو سلوک کے مقامات ہیں اس کو ہم دیکھیں گے کہ اس میں اگر کوئی کمی ہے تو اسی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ الحمد للہ اس میں کافی ساری چیزیں اللہ پاک کے فضل و کرم سے نصیب بھی ہیں، لیکن بہرحال وہ کہتے ہیں everything is very good but there is room for improvement تو room for improvement ہے، ان شاء اللہ العزیز اس پہ کوشش کریں گے۔ اللہ جل شانہ مزید بہتری کی صورتیں پیدا فرمائیں اور اس نعمت پر شکر ادا کرنے کی توفیق دے۔
سوال 06:
السلام علیکم حضرت جی! اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔ محترم حضرت جی! وظیفہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ، اللہ 500 مرتبہ اور مراقبہ پانچ منٹ کے لیے لطیفۂ قلب لطیفۂ روح لطیفۂ سر لطیفۂ خفی اور دس منٹ کے لیے لطیفۂ اخفیٰ آپ نے دیا تھا تیس دن کے لیے۔ الحمد للہ وہ مکمل ہو گیا ہے۔ ایک دن دوران سفر مراقبہ نہیں ہو پایا، اس دن دوران سفر کوشش کی وہ بھی صحیح نہیں ہوا۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کبھی نہیں، باقی ہر دفعہ اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔ پہلے مجھے غصہ بھی کافی آتا تھا، لیکن اب الحمد للہ بہت کم آتا ہے، اور غصہ اگر آئے تو برداشت اور قابو ہو جاتا ہے، یہ بہت بڑا فرق محسوس ہوا ہے۔ حضرت جی آئندہ کے لیے میرے لیے کیا حکم ہے؟
جواب 06:
سبحان اللہ بہت عجیب! ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق نصیب فرمائی۔ اب آپ اس طرح کر لیں کہ یہی ذکر کریں جو میں نے دیا ہے، البتہ جو مراقبہ ہے اس میں پانچ پانچ منٹ آپ تمام لطائف پر ذکر کو محسوس کرتے رہیں اور پندرہ منٹ کے لیے آپ یہ تصور کر لیں کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے فیض جیسا که اللہ تعالیٰ کی شان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پہ آرہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آرہا ہے، اور شیخ کے قلب سے میرے دل میں آرہا ہے۔ اس کو فی الحال شروع کر لیں، ایک مہینہ کے بعد آپ مجھے بتائیں گے۔
سوال 07:
السلام علیکم! درجِ ذیل سوالات ایک مسلمان بہن جو کہ حضرت جی سے منسلک ہیں، اور کرغیزستان میں رہائش پزیر ہیں، نے کئے ہیں۔ ان سوالات کی شرعی حیثیت کے لیے مفتی صاحب سے رابطہ کیا گیا تھا، الحمد للہ مفتی صاحب کا جواب موصول ہو گیا ہے، اس فورم پر تربیت کے حوالے سے یہ سوالات کئے جا رہے ہیں۔ سوالات کا تعلق مختلف رسومات سے تھا جو کہ مسئولہ کے سسرال میں رائج ہیں۔ بہن کا کہنا ہے کہ یہ رسومات ان کے والدین کے گھر نہیں ہوتی تھیں، اپنے سسرال میں بھی کوشش کرتی ہیں کہ ان پر عمل نہ ہو۔ ان کے ذہن میں یہ دو اشکال ہیں: "ایک تو یہ کہ ان رسومات کے انکار سے یہ گناہ گار تو نہیں ہو رہی، اور دوسرا سوال سسرال میں ان سے بچنے کا کیا بہتر طریقہ ہے کہ طبیعت میں عجب اور اپنی دینی سمجھ کی فوقیت بھی نہ ہو اور تعلقات میں کشیدگی بھی نہ ہو۔ اگر یہ سوالات تربیت کے حوالے سے مناسب ہوں تو براہ کرم ان کو ignore نہ کیا جائے، نامناسب ہوں تو ignore کیا جائے"۔ [فقہی مسئلہ چونکہ حضرت مفتی صاحب سے واضح ہو گیا ہے۔]
جواب 07:
جو چیزیں ہم پر لازم اور فرض ہیں جیسے فرض نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، کیا اس میں، میں یہ سوچ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ سے کہیں مجھے عجب تو نہیں ہو جائے گا؟ نہیں، ہمیں یہ نہیں سوچنا، ہمیں وہ عمل کرنا پڑے گا، کیونکہ لازم ہے۔
باقی عجب کی دوری کے لیے اپنے اسباب اختیار کرنے پڑیں گے اور وہ بہت آسان ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ جب بھی عجب کا اندیشہ ہو تو یہ سوچے کہ اگر پہلے میں اچھا بھی تھا اب عجب کی وجہ سے تو اچھا نہیں رہا، کیونکہ وہ صورت حال تو بدل گئی ہے۔ مثلاً ایک آدمی اپنی صحت کے بارے میں کہہ دے کہ میں اتنا صحت مند ہوں، یہ ہے، وہ ہے، اور اسی وقت اس کو cardiac pain ہونا شروع ہو جائے، تو اپنے آپ کو صحت مند کہے گا؟ کہے گا بھئی ٹھیک ہے میں پہلے صحت مند تھا لیکن اب نہیں ہوں۔ اسی طریقے سے اپنے آپ کو سمجھائے کہ میں پہلے اگر اچھا تھا بھی جس کی وجہ سے عجب ہونے لگا، اب جب عجب ہے تو عجب بذات خود بہت بڑی بیماری ہے، لہذا اب تو میں اچھا نہیں رہا۔ لہذا یہی اس کا علاج ہے۔ گویا عجب بذات خود عجب کی بیماری کا علاج ہے۔ دوسری بات یہ ہے که ذکر کردہ رسومات کی چونکہ تفصیل مجھے معلوم نہیں ہے، وہ تو مفتی صاحب نے بتائے ہوں گے۔ البتہ اتنا بتا دیتا ہوں کہ جو رسومات حرام کے درجے میں ہیں ان سے بچنا فرض ہو گا، جیسے کوئی بدعت، تو اس سے بچنا فرض ہو گا، لہذا اپنے آپ کو اس قسم کے رسومات سے بچانا ہے۔ باقی اس کی پروا نہیں کرنا کہ اس سے مجھے عجب ہو جائے گا۔ عجب کا علاج موجود ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ رسومات ایسے ہیں جس کی گنجائش ہو سکتی ہے، اگر گنجائش ہے تو ٹھیک ہے۔ اس میں سختی تو بہرحال دونوں صورتوں میں نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ تین صورتیں بتائی گئی ہیں، اگر ہاتھ سے روک سکتے ہو ہاتھ سے روکو، اگر ہاتھ سے نہیں تو زبان سے روکو، اگر زبان سے بھی روکنے پر قادر نہیں تو پھر اس کو برا سمجھو اور یہ کم سے کم درجہ ہے۔ تو ان تینوں باتوں میں سے ایک بات تو انسان کرے گا۔ اگر تعلقات کے بگڑنے، فساد یا نقصان کا اندیشہ ہو تو خود اس میں شامل نہ ہوں۔ اور باقی لوگوں کو فی الحال نہ کہیں۔ لیکن اس کے لیے لمبا طریقہ اختیار کر لیں۔ لمبا طریقہ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جیسے بظاہر کسی کے ساتھ چلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ساتھ نہیں چلتا بلکہ ساتھ چلاتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ طریقہ آتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ میرے ساتھ چل رہا ہے لیکن وہ اصل میں اس کو ساتھ چلا رہا ہوتا ہے۔ تو اس قسم کا طریقہ اگر کسی کو آتا ہے تو ٹھیک ہے، نہیں آتا تو پھر ظاہر ہے وہی طریقہ ہے کہ کم از کم اس کو غلط سمجھا جائے۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ انسان نہی عن المنکر کر سکے، کیونکہ نہی عن المنکر کے لیے حالات اور احوال کا جاننا ضروری ہوتا ہے، اس کے مطابق نہی عن المنکر کی جا سکتی ہے۔ ہر ایک نہی عن المنکر صحیح طور پہ نہیں کر سکتا، اس کو باقاعدہ سیکھنا بھی پڑتا ہے اور اس کو اختیار بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں جو پوزیشن ہے وہ تو مفتی صاحب نے سمجھائی ہو گی کہ کونسا درجہ ہے اس کا، اس درجے کے مطابق عمل کر لے۔ باقی عجب وغیرہ کا میں نے جواب دے دیا ہے۔
سوال 08:
السلام علیکم! حضرت جی میرا نام فلاں ہے، میں راولپنڈی سے ہوں۔ میرا مراقبہ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح جو کہ ایک ماہ کے لیے آپ نے دیا تھا، مکمل ہو گیا۔ جس میں ایک ناغہ بھی ہو گیا، مراقبے کے تیسویں دن اور ایک بار مراقبہ کے گیارہویں دن۔ لطیفۂ قلب دس منٹ کا اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح رہ گیا تھا۔ لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا تھا۔ مجھے لطیفۂ قلب لطیفۂ روح بہت کم محسوس ہوتا ہے، ٹھیک طرح محسوس نہیں ہوتا۔ والسلام۔
جواب 08:
ٹھیک ہے ماشاء اللہ اس کو آپ پندرہ پندرہ منٹ دونوں ایک مہینہ اور کر لیں، پندرہ منٹ قلب کا اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح کا، کیونکہ اکثر لوگوں کو قلب کا محسوس ہوتا ہے روح کا کمزور ہوتا ہے، تو آپ نے چونکہ دونوں کا بتایا ہے لہذا قلب کو بھی زیادہ محنت لگانی پڑے گی تاکہ آپ کو قلب کا پورا محسوس ہونے لگے، پھر اس کے بعد روح کا بھی آسان ہو جائے گا۔
سوال 09:
السلام علیکم حضرت جی! لطیفۂ سر، لطیفۂ قلب اور روح کے درمیان ہے؟
جواب 09:
اگر آپ نقشہ دیکھ لیں، وہ ہمارے ذکر اور مراقبہ کا طریقہ جو ہماری website پر موجود ہے، اس میں اس کا نقشہ بھی دیا ہوا ہے۔ معصومی لطائف کا جو نقشہ ہے اس کو ذرا دیکھ لیں۔ اس میں جو لطیفہ سر ہے، وہ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح کے درمیان نہیں ہے، بلکہ لطیفۂ قلب کے مقام سے چار انگل اوپر ایک خط اگر کھینچیں چار انگل اوپر تک اور پھر وہاں سے دو انگل یعنی درمیانی لائن جو سینے کی ہے اس تک، تو یہ جو triangle بنے گا، جو اس میں آخری نقطہ ہو گا وہ لطیفۂ سر کا ہے۔
سوال 10:
السلام علیکم!
Sir I am فلاں from Sudan, الحمد للہ completed prescribed ذکر for one month:
Due to internet problems, I cannot send you email of monthly معمولات. It is presented briefly. Offering prayers regularly but missing a few with جماعت, reciting قرآن daily سورہ کہف on Friday and سورہ ملک daily at nights, missing the tasbihat, tasbeehs 100 times درود third کلمہ and استغفار occasionally. Please advise further ذکر.
Answer 10:
Your zikar is
This is not اللہ ھو اللہ. It is اللہُ اللہ. This should be changed and 1500 times اللہ اللہ.
And I shall advise you to consider my previous advice because there is no advice for a person who is not following the previous advice. So what you are missing, please correct them. Do not miss them then ان شاء اللہ I shall be available to advise you more. First you should leave missing things. So do not miss جماعت and also do 100 times tasbih; tasbih of each درود شریف and third کلمہ and استغفار regularly because it is like diet. So one should lose diet as well. And I hope ان شاء اللہ you will get more. And for the next month, you should do Allah Allah 2000 times instead of 1500 times the rest will be the same ان شاء اللہ.
سوال 11:
السلام علیکم حضرت! میں فلاں بہاولپور سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت جو مراقبہ آپ نے دیا تھا، وہ میں بلا ناغہ کر رہا ہوں، حضرت نور کا سمندر یا دریا ہے، جس میں آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہوں اور پھر فنا ہو جاتا ہوں۔
جواب 11:
سبحان اللہ! اس کی جو کیفیت ہے وہ تھوڑی سی پھر مجھے بتا دیں، تاکہ اس کے بارے میں آپ کو تفصیل سے بتا دوں، یعنی اس کے کیا اثرات ہیں؟
سوال 12:
السلام علیکم! شاہ صاحب میرا مراقبہ تنزیہ صفات سلبیہ مکمل ہوا ہے۔ الحمد للہ کیفیت یہ ہے کہ مجھے بزرگی کے دورے پڑ رہے ہیں، مجھ میں ناز کی کیفیت ہے اور مجھے اپنے اندر تکبر معلوم ہو رہا ہے۔
جواب 12:
یہ تو خیر آپ کو in general جو تصوف ہے، جو انسان کے اندر ایک alertness پیدا کرتا ہے اور اس کو اپنے عیوب نظر آنے لگتے ہیں، یہ اس کا effect ہے۔ آپ مجھے مراقبہ سلبیہ کا effect ذرا بتائیے۔ کیونکہ یہ جو مراقبہ تنزیہ آپ نے کیا ہے، اس کا کیا اثر آپ نے محسوس کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو as a whole جو تصوف ہے اس کا اثر ہوتا ہے، کہ انسان کو اپنی برائیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ کیونکہ مراقبہ سلبیہ ان صفات کا مراقبہ جو اللہ کے لیے ثابت نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے ہیں۔ مثلاً اولاد بندوں کی ہوتی ہے اللہ کے لیے نہیں ہے، اس طریقے سے بیوی ہے، اللہ پاک سوتے نہیں ہیں، اللہ جل شانہ کو اونگھ نہیں آتی، یعنی آیت الکرسی کا جو مضمون ہے ﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾ (سورة البقرة : 255) تو جو چیزیں مخلوق کے لیے ثابت ہیں۔ صفات ثبوتیہ میں تو دونوں طرف بات ہوتی ہے، لیکن جو صفات سلبیہ ہے یہ وہ صفات ہیں جو کہ مخلوقات کے لیے ثابت ہیں اور اللہ کے لیے نہیں ہیں۔ اس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ اپنے منہ سے بہت بڑی بات نکال رہے ہیں جیسے: ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ ﴿٤﴾ (سورة الإخلاص:1-4) تو جو کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے، تو یہ بہت بڑی بات کر رہے ہیں، مطلب اپنے منہ سے غلط بات نکال رہے ہیں۔ اسی طریقے سے صفات سلبیہ کا مراقبہ تنزیہ اصل میں اس چیز کو پکا کرنا ہے۔ اس کے بارے میں ذرا مجھے بتانا ہے آپ کو۔
سوال 13:
السلام علیکم شاہ جی! میری رہنمائی فرمائیں، کچھ دنوں سے میرے ساتھ ایسا ہو رہا ہے کہ نماز پڑھ کر بھول جاتا ہوں، خاص کر فجر کی نماز کے بعد۔
جواب 13:
اصل بات یہ ہے کہ کئی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں جو mix ہو سکتی ہیں۔ اس کا جو علاج ہوتا ہے by process of elimination ہوتا ہے، یعنی ایک ایک کر کے چھڑایا جاتا ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ اس کا effect کیا ہے۔ کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے، یہاں اسباب کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ طریقہ تھا که جب کبھی کوئی اس قسم کی بات پوچھتے، تو حضرت فرماتے کہ پہلے حکیم یا ڈاکٹر سے معلوم کر لو کہ یہ کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ اگر وہ بتائے کہ بیماری نہیں ہے، تو پھر کچھ اور چیزیں ہیں ان کو بھی clear کرنا پڑتا ہے، جیسے جادو وغیرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایک بیماری کی صورت اختیار کر لیتی ہیں تو ان کو بھی check کرنا پڑتا ہے۔ اس کے check کرنے کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی نہ ہو تو پھر اس کا ایک روحانی عنصر ہو سکتا ہے۔
اس وقت تو نہ آپ کے ساتھ میرا رابطہ ہے نہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ اس وجہ سے مجھے کچھ پتا نہیں ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں، کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ اور علمِ غیب کا دعویٰ ہم نے کبھی نہیں کیا۔ اس لیے پہلے آپ ڈاکٹر یا حکیم سے معلوم کر لیں کہ اس قسم کی کوئی بیماری تو نہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ neurons میں کوئی ایسا change آجاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو چیزیں یاد نہیں رہتیں۔ دو قسم کے memories ہوتے ہیں، ایک ہوتی ہے short term اور ایک ہوتی ہے long term memory تو short term memory اگر کوئی miss کر لے تو قریبی چیزیں اس کو یاد نہیں رہتیں، لیکن بہت دور دور کی باتیں اس کو یاد ہوتی ہیں۔ بعض بوڑھوں کے ساتھ اس قسم کی بات محسوس کی جاتی ہے کہ ان کو پرانی پرانی باتیں تفصیل کے ساتھ یاد ہوتی ہیں، لیکن قریبی بات یاد نہیں ہوتی، کہ جوتے کہاں رکھے ہیں، کون آپ کے ساتھ ملا تھا، صبح کیا کھایا تھا۔ ایسا ہوتا ہے، مطلب وہ قریبی چیزیں یاد نہیں ہوتیں اور دور دور کی چیزیں یاد ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس کے اپنے racks ہیں، دماغ کے اندر مختلف جگہوں پر وہ چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ تو آپ کی کون سے rack تک رسائی ہے، کون سے rack تک رسائی نہیں ہے، اس پہ پوری بات ہے، آج کل اس کا پورا سائنس ہے۔ لہذا ڈاکٹر یا حکیم ہی آپ کو زیادہ بہتر بتا سکتا ہے کہ کہیں وہ بیماری تو نہیں ہے۔ اگر اس قسم کی بیماری ہو تو اس کا علاج لازمی ہے۔ یہ بڑا مسئلہ ہے آج کل، اللہ معاف فرمائے! کیونکہ ڈاکٹر کے پاس جب کوئی جاتا ہے تو وہ جو جادو یا جنات ہوتے ہیں ان کو بھی بیماری consider کرتا ہے۔ اور اگر آپ عامل کے پاس جائیں تو وہ بیماری کو بھی جادو consider کرتے ہیں۔ تو اس سے پہلے آپ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کر کے جائیں۔ اور ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں تاکہ ڈاکٹر کم از کم آپ کو صحیح بات بتائیں۔ اگر کوئی واقعی بیماری ہو تو بیماری diagnose ہو جائے، اس کے test تو ہیں ناں، اس کی clinical evaluation ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اس قسم کی باتیں بتا رہے ہیں۔ تو آپ کسی ڈاکٹر کو consult کر لیجئے گا۔
سوال 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا موجودہ ذکر مندرجہ ذیل ہے: 200, 400, 600, اور 1000 کے علاوہ قلب روح سر اور خفی پر پانچ پانچ منٹ اور اخفیٰ پر دس منٹ کا مراقبہ۔ الحمد للہ تصور کے ساتھ سب پر اللہ اللہ محسوس ہو رہا ہے۔ مہینہ پورا ہو گیا ہے۔
جواب 14:
اب پانچ پانچ منٹ کے لیے یہ کریں ذکر کے ساتھ لطائف پر۔ اس کے علاوہ پندرہ منٹ آپ یہ تصور کر لیں کہ اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق فیض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر آرہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر آرہا ہے، میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آرہا ہے۔ یہ آپ تصور کر لیں ایک مہینے کے لیے۔
سوال 15:
السلام علیکم! میں فلاں from U.K حضرت جی! آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر اور صحت عطاء فرمائے، آمین۔ آپ نے جو تسبیح دی تھی اس کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ تسبیح کی ہے۔ تسبیح یہ تھی 100 دفعہ لا الہ الا اللہ، 100 دفعہ الا اللہ، 100 دفعہ اللہ ھو اللہ، اور 100 دفعہ اللہ۔ اب آپ آگے ذکر کی رہنمائی فرمائیں! تسبیح کبھی تو بہت اچھی ہوتی ہے کبھی لوگوں کی باتیں ذہن میں آجاتی ہیں، ان پر غصہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ بہت دھیان دیتا ہوں لیکن بار بار اسی طرح خیال آجاتا ہے۔
جواب 15:
آپ اس طرح کر لیں که لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 100 دفعہ، اور اِلَّا اللہ بھی 100 دفعہ، لیکن یہ "اللہ ھو اللہ" نہیں ہے، بلکہ "اللہُ اللہ" ہے، یہ جو پہلا والا "اللہ" ہے اس کے ہ کے اوپر پیش ہے، اور پھر سو دفعہ اللہ ہے۔ اب آپ اس طرح کریں کہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 دفعہ کر لیں، اِلَّا اللہ بھی 200 دفعہ کرلیں، اور اللہُ اللہ بھی 200 دفعہ کر لیں، اور اللہ 100 دفعہ ہی رہنے دیں۔ یہ آپ ایک مہینے کے لیے کر لیں۔
وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ