سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 492

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

20201116_QA

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 1:

Assalam o alaikum sir Alhamdulillah from yesterday and right now after Isha after reciting surah mulk and منزل I did the remaining muraqabah faiz done with more energies previously I was able to do the muraqabah zikir and faiz muraqabah faiz due to less time between Asar and Maghrib I do the remaining مراقبہ and فیض later I use to do when I go to sleep due to which I slept while doing to night before 9 pm with the tofeeq of Allah I have completed.

جواب نمبر 1:

الحمد للہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ اس کا خیال رکھ رہی ہیں کیونکہ یہ علاج ہے اور علاج میں سستی مریض کے لئے بڑی نقصان دہ ہوتی ہے اگر کوئی ناسمجھ ہو اس کو پتا ہی نہ ہو کہ میں مریض ہوں تو پھر ظاہر ہے اس سے گلہ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر کسی کو سمجھ آ چکی ہو کہ میں مریض ہوں اور مجھے علاج کی ضرورت ہے اس کے باوجود اگر علاج پہ توجہ نہ دے تو وہ ایک عجیب بات ہوتی لہذا اگر آپ کو اللہ پاک نے اس کی سمجھ کی توفیق دی ہے تو ماشاءاللہ یہ اللہ پاک کا فضل سمجھیں اور اس کو مزید بڑھائیے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم حضرت جی اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت میں رکھے میرے علاجی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا تھا، پہلے سے لطائف پر دس منٹ ذکر تھا اور ساتھ میں آپ نے مراقبہ احدیت پہلے چار لطائف پر باری باری پندرہ منٹ دیا تھا۔ لطیفہ اخفیٰ کے علاوہ، پھر پچھلے ماہ سب لطائف پر پانچ منٹ ذکر دیا تھا اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ قلب کے مقام پر دیا تھا۔ شروع کے ہفتوں میں قلب اور روح کے مقام پر ذکر اکثر زیادہ محسوس ہوتا تھا قلب، بعد میں سب لطائف پر ہلکا ہلکا سا ہو گیا۔ مراقبہ تجلیات افعالیہ میں آپ نے فیض کے تصور کے بارے میں فرمایا تھا کہ (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) حضرت جی اس میں بھی عام ذکر کی طرح محسوس ہوتا ہے آپ نے قلبی ذکر کا وقت 25 منٹ کم بھی کر دیا لیکن صرف اس مراقبہ میں 15 منٹ بہت زیادہ محسوس ہوتے ہیں مطلب ایسا لگتا ہے کہ 1 گھنٹہ کا مراقبہ ہے کیا یہ میرے نفس کی وجہ سے ہے؟ اب تو زیادہ دیر کے ذکر کی عادت بن چکی تھی تو کم ہونے کے بعد آسان لگنا چاہیے تھا پھر زیادہ تر وقت بوجھ کیوں ہونے لگا، مجھے آپ جیسے فرمائیں گے میں ویسے ہی کروں گی کیونکہ اس معاملے میں دوائی تو اپنی مرضی سے نہیں لے سکتی لیکن ایسا محسوس ہوا اس لئے آپ کو بتا رہی ہوں آخر کے چند دنوں میں یہ بوجھ والا مسئلہ کچھ بہتر ہو گیا اور محسوس ہونا بھی ہلکا ہلکا ہو گیا، ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا صرف فیض کا تصور ہونا چاہیے یا اس کیفیت کے حال کے درجے میں بھی حاصل کرنا مقصود ہے کہ اللہ پاک ہی ہر کام کرتا ہے جیسے چاہتا ہے کیونکہ مجھے ویسے ہی کیفیات کا زیادہ پتا نہیں چلتا۔ جب آپ کوئی ذکر یا مراقبہ دیتے ہیں تو اس کے بارے میں معمولات کی app سے پڑھ لیتی ہوں تا کہ سمجھ آ جائے اس میں حال کے درجے میں حاصل کرنے والی بات لکھی تھی اس لئے پوچھ رہی ہوں زیادہ تفصیلات کے لئے معذرت۔

جواب نمبر 2:

ماشاء اللہ آپ نے صحیح باتیں پوچھی ہیں اس پہ معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے یاد رکھیے کہ میں نے آپ سے عرض کیا ہو گا کہ پہلے جو لطائف کا ذکر تھا وہ گویا کہ ذکر کی جگہوں سے مانوس ہونے کی بات تھی کہ ذکر کون سی جگہوں پہ آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے ویسے تو جو مشاق لوگ ہوتے ہیں ان کو بعد میں جسم کے کسی بھی حصے میں ذکر محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن چونکہ ابتدا میں یہ سب سے زیادہ accessible points ہیں۔ قلب سب سے زیادہ اس کے بعد لطیفۂ روح، پھر لطیفۂ سر، پھر لطیفۂ خفی، پھر لطیفۂ اخفیٰ یہ سب مقامات ذکر کی جگہ گویا کہ جاننے کے لیے تھےکہ آپ نے الحمد للہ دیکھ لیا اور ماشاء اللہ آپ کو حاصل ہو گیا پھر مراقبہ احدیت اس مقصد کے لئے تھا کہ اس سے آپ کو فیض کا آنا محسوس ہو، general فیض اس کو کہتے ہیں کہ جس سے بھی آپ کو آخرت کے لحاظ سے ترقی ہوتی ہو، اللہ تعالیٰ کا قرب محسوس ہوتا ہو، اس کو فیض کہتے ہیں مثلاً آپ کو نماز کی توفیق ہو گئی یہ بھی فیض ہے آپ کو روزے کی توفیق ہو گئی یہ بھی فیض ہے آپ کو معاملات صحیح کرنے کی توفیق ہو گئی یہ بھی فیض ہے جیسے مثال کے طور پر کسی کی صحبت میں بیٹھنے سے یہ چیزیں حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو اس کا فیض ہوتا ہے، شیخ کا فیض ہوتا ہے اس طرح سلسلے کا فیض ہوتا ہے آپ ﷺ کی سنتوں کا فیض ہوتا ہے تو وہ general فیض ہے۔ اس کے بعد آپ کو (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) کا مراقبہ بتایا گیا تھا یہ ایک خصوصی فیض ہے کیونکہ general فیض تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک خصوصی فیض کا مراقبہ کرانا تھا تا کہ آپ کا یہ حال بن جائے، جس طرح عیوب کو باری باری نکالا جاتا ہے اس طرح اخلاق حمیدہ یعنی اچھی باتیں جو ہونی چاہئیں وہ بھی باری باری لانی ہوتی ہیں مطلب کہ اگر اکھٹےکوشش کریں گے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔

جب آپ بہت ساری چیزوں پہ محنت کریں گے توکچھ بھی نہیں ہو گا لیکن باری باری آپ سب کچھ حاصل کر سکیں گے۔ جیسے مثال کے طور پر آپ سیڑھیوں پر چڑھ رہی ہیں تو بیسویں سیڑھی پر آپ کی نظر نہیں ہوتی بلکہ پہلی سیڑھی پہ نظر ہوتی ہے پھر دوسری سیڑھی، پھر تیسری سیڑھی پر نظر ہوتی ہے تو اس طریقے سے آپ باری باری تمام چیزوں کو حاصل کر لیتی ہیں یعنی جن چیزوں سے بچنا ہوتا ہے وہ بھی باری باری کرنی ہوتی ہیں اور جن چیزوں کو حاصل کرنا ہوتا ہے وہ بھی باری باری حاصل کرنی ہوتی ہیں تو مراقبۂ تجلیات افعالیہ یہ ایک خاص فیض ہے اور وہ(فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) اسی آیت کا فیض ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ کرتا ہے تو آپ کا حال کس طرح بنے گا؟ وہ اس طرح بنے گا کہ آپ کو محسوس ہو گا اللہ پاک ہی سب کچھ کرتا ہے۔ یہ جو انسان اپنے نفس کی طرف دیکھتا ہے کہ میں بھی کچھ کرتا ہوں یہ اصل میں حجاب ہے، تو نفس انسان کے لئے حجاب ہوتا ہے، یہ حجاب جتنا جتنا کم ہوتا جائے گا اتنا اتنا آپ کو زیادہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا، جتنا نفس کا حجاب کم ہو رہا ہے اس مراقبے میں یوں سمجھ لو کہ یہی فیض ہے تو اس خاص فیض کو حاصل کرنے کے لئے جو محنت ہے وہ آپ کو مراقبۂ احدیت کے بعد کرائی جاتی ہے کیونکہ مراقبہ احدیت میں general فیض ہے عام فیض ہے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں محض فیض ہے اس میں آپ کوئی تخصیص نہیں کرتے کہ فلاں فیض ہے لیکن جو مراقبہ تجلیات افعالیہ کا ہے یہ ایک خاص فیض ہے اور خاص فیض اس چیز کا ہےکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ کرتا ہے۔ جیسے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاذ یاد رکھو کہ اگر یہ سارے لوگ مل کر بھی کچھ دینا چاہیں اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو نہیں دے سکتے اور اگر یہ سارے لوگ مل کر بھی تجھ سے کوئی چیز روکنا چاہیں اور اللہ پاک نہ روکنا چاہے تو نہیں روک سکتے۔ تو مطلب ہے کہ اس کا فیض آپ کو محسوس ہو یعنی نفس کا جو حجاب ہے کہ آپ اپنی طرف بھی کچھ کرتے ہیں کہ میں بھی کچھ کرتا ہوں، اس حجاب کو دور کرنا ہوتا ہے۔ قارون کو یہ غرور سب سے زیادہ تھا تو قارون کہتا تھا کہ میں نے خود اپنے طور پر یہ ساری چیزیں حاصل کی ہیں، اپنے علم کے ہنر کے ذریعے سے حاصل کی ہیں اور اللہ کا انکار کر دیا تو کہاں پہنچ گیا؟ شیطان کو بھی اس پر ناز تھا کہ میں اچھا ہوں تو کہاں پہنچ گیا؟ اب یہ چیزیں دور کرنا بہت ضروری ہیں تو آپ کو جو چیزیں حاصل کرنی ہیں وہ بھی باری باری حاصل کرنی ہیں اور جو چیزیں چھوڑنی ہیں وہ بھی باری باری چھوڑنی ہیں اور مراقبہ جو تجلیات افعالیہ ہے یہ آپ کو اس لئے کرایا جاتا ہے تاکہ آپ اس کو حال کے درجے میں حاصل کریں اور جیسے جیسے آپ کے اوپر اس کا حال طاری ہوتا جائے گا آپ کے احوال بدلتے جائیں گے اور آپ جب بتائیں گی تو اس کے مطابق پھر آپ سے بات ہو گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 3:

حضرت جی السلام علیکم ان لوگوں کے لئے بھی لازمی دعا کیجئے جنہوں نے میرے operation کے لیے help کی اللہ پاک دونوں جہانوں میں ان کو اس کا اجر دیں آمین ثم آمین اللہ پاک تمام لوگوں پر اپنی خاص رحمت نازل کرے جنہوں نے مجھے دعاؤں میں یاد رکھا اور خاص کر آپ کی کوشش دین کی راہ میں قبول فرمائے اور آپ پر اپنا خاص کرم کرے، اللہ پاک آپ کو سلامت رکھےاور آپ کی اولاد پر بھی اپنی رحمتیں نازل کرے آمین ثم آمین۔

جواب نمبر 3:

ماشاءاللہ کہتے ہیں (هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ) (الرحمن :60)"احسان کا بدلہ نہیں ہے مگر احسان" احسان کا بدلہ تو یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی جائے۔اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی کے ذریعے کوئی چیز دی ہے یا نعمت حاصل ہوئی ہے تو اس کا بدلہ اس طرح دے کہ اس کے لئے دعا کرے، آپ ماشاء اللہ دعا کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرمائے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، میرا بارہ تسبیح کا ذکر ہو رہا ہے اور اس میں اللہ کا ذکر بھی سو دفعہ ہو رہا ہے، آخری مراقبہ جو دیا گیا تھا وہ لطیفہ نفس پر فیض کا محسوس کرنا تھا۔ اللہ کی ہر لمحہ ایک نئی شان کا۔ ابھی تک کئی مہینے گزر گئے ہیں اس کہ باوجود بلا ناغہ پورا نہیں ہو سکا، عید کے بعد سے اب تک مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ مجبوراً مراقبہ رہ جاتا ہے کئی بار شروع کیا لیکن پھر بھی کہیں جانا پڑ جاتا ہے تو رہ جاتا ہے، دل بے زار ہے اپنی اس بے ہمتی پر، حالات کی وجہ سے دنیاوی کاموں میں بھی دل نہیں لگتا مصروفیت زیادہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد اور ساتھ ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے خود پر نظر دوڑاوں تو صرف سلسلے کی برکت محسوس ہوتی ہے اپنی نظروں میں دن بہ دن گرتا جا رہا ہوں، ایسے حالات میں حضرت جی آپ کی زیارت کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی معمولات چارٹ پر ہر مہینے شروع کرتا ہوں کچھ دن تک تو routine fill کرتا ہوں لیکن پھر ایسی مصروفیات ہو جاتی ہیں کہ آٹھ دس دن موقع نہیں ملتا حضرت جی اصلاح فرما دیں جزاک اللہ خیر۔

جواب نمبر 4:

پہلی دفعہ بھی آپ نے یہی بھیجا تھا، یہ کافی پرانا ہے لیکن پتا نہیں کہ غلطی کیسے ہوئی ہے آپ نے سننے میں غلطی کی ہے یا میری غلطی ہے و اللہ اعلم۔ نفس پر ہم کبھی بھی توجہ نہیں کراتے یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے نفس پہ محنت ہوتی ہے سلوک کے ذریعے سے یہ مراقبے کی چیز نہیں ہے باقاعدہ سلوک طے کرنا ہوتا ہے نفس کے لئے تو مجھے نہیں علم کہ کیسے ہوا ہے لیکن بہرحال جیسے بھی ہوا اللہ تعالیٰ معاف کر ے آپ کو یا مجھے جو بھی ہو۔ہمارے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے کہ نفس کو نہیں چھیڑنا نفس کو تو بس دبانا ہے یعنی جو عالمِ امر کے لطائف ہیں ان کا تعلق ہے مراقبات کے ساتھ، ذکر کے ساتھ کیونکہ وہ روح کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو ان کو تو ذکر کے ذریعے سے صاف کیا جاتا ہے لیکن وہ جس کا تعلق عالمِ خلق یعنی نفس کے ساتھ ہو اور جو چار عناصر ہیں اس کے ساتھ ہو ان کے لیے مجاہدات ہیں اور سلوک طے کرنا ہے تو وہ اس کے ذریعے سے کرائے جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں تو اس وجہ سے یہ باقاعدہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے کہ وہ نفس کو نہیں چھیڑتے، ہاں خود بخود اگر ہو جائے کسی اور چیز سے اثر لےکر تو کوئی مسلئہ نہیں ایسا ہوتا ہے۔ نفس دل و عقل سے اثر لیتا ہے مطلب ظاہر ہے وہ تو آپس میں integrated ہیں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ جانور اپنے سینگ آپس میں اڑا دیتے ہیں ایک دوسرے کو دبا رہا ہے دوسرا پہلے کو دبا رہا ہوتا ہے،تو ایک دوسرے کو گویا متاثر کر رہے ہوتے ہیں اور یہ چیز ہمیشہ ہر چیز کے اندر ہے۔ دنیا میں بھی ہر آدمی دوسرے کو متاثر کر رہا ہے ہر چیز دوسرے کو متاثر کر رہی ہے یعنی گرم، سرد کو متاثر کر رہا ہے سرد، گرم کو متاثر کر رہا ہے تیز، slow کو متاثر کر رہا ہے slow، تیز کو متاثر کر رہا ہے حتی کہ table tennis میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اگر اچھا کھلاڑی کسی کمزور کھلاڑی کے ساتھ کھیلے تو اس کا کھیل خراب ہو جاتا ہے اور اس کمزور کھلاڑی کا کھیل اچھا ہو جاتا ہے، مطلب یہ کہ اپنے برابر کے کھلاڑی سے اگر کوئی نہ کھیلے تو اس کے کھیل پہ اثر پڑتا ہے تو یہ بات صحیح ہے وہ اثر تو لیتے ہیں اور اگر آپ عقل پر محنت کر رہے ہیں تو اس کا نفس کے اوپر اثر ہو سکتا ہے، اگر آپ قلب پر محنت کر رہے ہیں تو اس کا بھی نفس کے اوپر اثر ہو سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں تو بات تو صحیح ہے کہ تجلیات افعالیہ کا اثر نفس کے اوپر ہو گا یا نہیں ہو گا؟ تو اس کا بھی اثر ہو گا اس طرح باقی لطائف کا بھی ہو گا لیکن ھم نفس کے اوپر بذات خود مراقبات کے ذریعے سے کام نہیں کرتے،اس کا تعلق سلوک کے ساتھ ہے اور بہرحال خیر جو بھی ہے اب ماشاء اللہ آپ کو پتا چل گیا۔ دوسری بات جو آپ نے بتائی کہ وقت کا نہ ملنا یہ اصل میںpriority کی بات ہے۔جب انسان بیمار ہو جاتا ہے تو اس کے دفتر کے جتنے بھی کام پڑے ہوتے ہیں کیا وہ ذریعہ بن سکتے ہیں اس کو ہسپتال جانے سے روکنے کے لئے؟ اس وقت ساری چیزیں suspend ہو جاتی ہیں اس وقت اسے اپنا علاج چاہیے، چاہے وہ chief justice کیوں نہ ہو، چاہے chief of army staff کیوں نہ ہو، چاہے وہ کوئی وزیر کیوں نہ ہو،ساری کام رک جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ صحت وہ بنیادی چیزہے جس کے لئے انسان کو کوشش کرنی پڑتی ہے، اس کے لئے تمام priorities surrender کرنی پڑتی ہیں تو اگر آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی باقی activities کو arrange کرنا ہو گا اپنی اس requirement کے مطابق جو چیز آپ کو بتائی جاتی اور ہم نے اتنا نہیں دیا جتنا کہ آپ سمجھ رہے ہیں بعض دفعہ آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا، میں حیران ہوں جب لوگ ہمارے دوسرے سلسلوں میں جاتے ہیں پتا چلتا ہے دو دو تین تین گھنٹے لگے رہتے ہیں ہمارے ہاں تو اتنا زیادہ نہیں ہے اب اس کو بھی اگر کوئی زیادہ سمجھےاس کے بارے میں کیا کیا جائے، مطلب اس میں کام تو کرنا پڑے گا اس کے بغیر کام نہیں ہوتا بس بات سے بات نکل آتی ہے اور کام سے کام بن جاتا ہے، اس وجہ سے آپ تھوڑا سا اپنی priorities کو set کر لیں اور پھر مجھے بتائیں اس کے بارے میں ہم discuss کر سکتے ہیں، ممکن ہے آپ کے ذکر کو ہم کم کر دیں لیکن کم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی speed کم ہو جائے گی یعنی جتنی دیر میں آپ آگے پہنچ سکتے تھے اس کے بعد تھوڑا عرصہ اور زیادہ لگے گا یہ adjustment ہو گی لیکن چھوڑنا کسی بھی صورت میں نہیں ہے ہاں البتہ کمی کی گنجائش ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کمی کروانا چاہے تو ٹھیک ہے بتا دے اس کے لئے کمی بھی کی جا سکتی ہے لیکن وہ کمی at the cost of progress ہو گی مطلب وہ progress میں کمی ہو گی تو اس لحاظ سے اگر کوئی کمی کروانا چاہے تو بے شک کروا دے لیکن ناغہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، اس کے لئے میرے خیال میں regularity بہت ضروری ہے اور ورزش کے بارے میں آپ لوگ جانتے ہیں کہ اگر ورزش کوئی regular نہ کرے بلکہ کبھی کرے کبھی نہ کرے تو پھر فائدہ ہو گا؟ نہیں، ممکن ہے اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہو جائے تو آپ کو یہ چیزیں کرنی پڑیں گی۔ اس کے بارے میں، میں یہی عرض کر سکتا۔ہوں اللہ جل شانہ ہم سب کو بہتر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم کیسے ہیں آپ، اللہ آپ کو تا دیر تندرستگی والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ جناب میرا تیسرا ذکر آج complete ہو گیا ہے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 200 مرتبہ حق 200 مرتبہ اور اللہ سو مرتبہ، اگلے سبق کی درخواست ہے۔

جواب نمبر 5:

اب آپ اس طرح کر لیں کہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ ہی رکھیں اور لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو اور حق 300، 300 مرتبہ کر لیں اور اللہ 100 مرتبہ ہی ہو، ان شاء اللہ یہ ایک مہینے کے لئے جاری رہے گا۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم حضرت

I met you once last year and you got I got your number and through and though I should ask you a few question some out of curiosity and some out of personal problem all aimed at ان شاء اللہ getting closer to اللہ

Question No. 1

I have done some surface level investigation on the Sufi philosophy while it sounds very appealing and every conversation seems to help me be a better Muslim some question seems problematic.

Some of the powers some of these people possess seems like something the prophet ﷺ or his companions never showed or exhibited knowing what people do at-live so much detail etc. It seems they have access to جنات etc. which as per my knowledge is not allowed to begin with be conversation with past Faqeers fill of prophet etc. again seem seem to rude from a knowledge that Islam never presented as per understanding Quran clearly mentions that those in the grave cannot hear you but some people are having gathering with them it seems after listening to most sufies as that getting close to اللہ is complex process in which you will fail miserly unless to get hold on of a guide different level station various verse etc. all of which doesn’t seem to be coming from any صحیح حدیث. These why is the way worth exploring in an attempt to get closer to اللہ

Question No. 2

This is personal some, so personal that I have never discussed it with any one.

جواب نمبر 6 حصہ 1:

بھائی صاحب ہم نے کچھ باتیں آپ کی سن لی کچھ باتیں ہم سے بھی سن لیں۔

اول تو آپ کی یہ بات غلط ہے کہ "صوفی فلاسفی"۔ تصوف،فلسفہ نہیں ہے اس کو جو فلسفہ سمجھے گا تو وہ گمراہ ہو جائے گا۔ یہ ایک procedure ہے کچھ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، مقصد کیا ہے؟ شریعت پر آنا ہے۔ شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی آپ نے جو فرمایا ہے کہ یہ صحیح حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے وہ چیز شریعت کے لئے ہے کیوں کہ شریعت میں کوئی نئی چیز آ نہیں سکتی اور جب نئی آ نہیں سکتی تو قرآن کا معاملہ مکمل ہو چکا ہے (اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً) (المائده: 3) دین بھی مکمل ہو گیا ہے احادیث شریفہ بھی آپ ﷺ کی پوری ہو گئی ہیں آپ ﷺ نے جتنا بتانا تھا بتا دیا آپ دنیا سے تشریف لے گئے ہیں اب مزید اس میں اضافہ نہیں ہو سکتا دین سارا قرآن و سنت پر منحصر ہے لہذا اس کے اندر کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا اور نہ کمی کی جا سکتی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے ساتھ اب ذرا غور فرمائیں اگر کوئی دین پر نہیں چل رہا تو پھر کیا کریں؟ مثال کے طور پر ایک شخص صحت مند ہے وہ سارے کام کر سکتا ہے تو کیا اس کو علاج کی ضرورت ہے؟ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا patient آ جائے جو بالکل ٹھیک ہو test result سارے صحیح ہوں کیا آپ اس کاعلاج کریں گے؟ ظاہر ہے آپ کہیں گے کہ بھائی آپ patient ہی نہیں ہیں علاج کی ضرورت نہیں ہے اسی طریقے سے اگر کوئی صحت مند ہے اس کو کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام آپ ﷺ کے قرب کی وجہ سے صحت مند تھے، آپ ﷺ کے قرب کی وجہ سے ان کی اصلاح ہو گئی تھی ان کو مزید اصلاح کی ضرورت نہیں تھی وہ اپنی اصلاح خود کر سکتے تھے ان کو پتا ہوتا تھا کہ کون سی چیز کم ہو گئی ہے لہذا اس کے حساب سے وہ کمی پوری کر لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک دن بیت المال کی بوریاں خود اٹھانے لگے تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیوں اٹھا رہے ہیں خادم نہیں ہے؟ فرمایا: خادم ہے لیکن چونکہ میں بحثیت امیر المومنین کچھ وفود سے ملا ہوں تو اپنے نفس کی اصلاح کے لئے میں ایسا کر رہا ہوں سبحان اللہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آستینیں کاٹ دی تھیں اپنے نفس کی اصلاح کے لئے تو ان حضرات کو کمی کا احساس ہو جاتا تھا اور کمی کا علاج کرنے کا طریقہ بھی ان کو آپ ﷺ کے ذریعے سے معلوم ہو گیا تھا لہذا ان کے دل حاضر باش تھے اور جو ضرورت ہوتی تھی ان کو پتا چل جاتا تھا اس کے مطابق کام کر لیتے ان کو مزید کسی اور سے اصلاح لینے کی ضرورت نہیں تھی لیکن بعد میں تبدیلی آ گئی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو ہم نے آپ ﷺ کی قبر مبارک کی مٹی سے ہاتھ جھاڑے ہی تھے کہ ہمیں اپنے دلوں میں فرق محسوس ہونے لگا، صحابی کو فرق تو محسوس ہوا لیکن چونکہ ان کو طریقہ آتا تھا لہذا وہ اس کے مطابق manage کر لیتے تھے اس کے بعد تابعین جب آ گئے تو تابعین کو فرق بھی محسوس ہوتا تھا ساتھ ساتھ کچھ تھوڑا سا طریقہ بھی بتانا پڑ جاتا تھا زیادہ نہیں کیوں کہ deviation تھوڑی تھی۔ تبع تابعین کی deviation اور زیادہ ہو گئی تو بتانے کی ضرورت بھی زیادہ پڑ گئی کچھ practices کرنی پڑ گئی، فلسفہ نہیں بلکہ practice اس کے بعد سلسلہ بڑھتا گیا، بھڑتا گیا اب ہمیں بہت کچھ کرنا پڑ جاتا ہے یہ بہ ضرورت ہے بلا ضرورت نہیں ہے تو جو بہ ضرورت ہو اس میں صرف یہ ہے کہ کس چیز سے ضرورت پوری ہو رہی ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون سی چیز ثابت ہے، مثال کے طور پر آپ لاہور جا رہے ہیں لاہور کا ایک راستہ بند ہو گیا ہڑتال وغیرہ ہے اب کوئی شخص دوسرا راستہ آپ کو بتائے تو کیا آپ اس سے پوچھیں گےکہ یہ راستہ ثابت ہے یا نہیں راستہ مل رہا ہے تو بس آپ اس راستے پہ جائیں گے اگر پہلا راستہ موجود ہے تو اسی پہ جائیں گے ورنہ دوسرا نہیں تو تیسرا، تیسرا نہیں تو چوتھا، چوتھا نہیں تو پانچواں، آپ کو راستے سے کیا غرض آپ کو تو پہنچنے سے غرض ہے۔ تو مقصد سے غرض ہونا چاہیے شریعت پر آنے سے غرض ہونی چاہیے procedure سے غرض نہیں ہے، procedure کوئی بھی ہو وہ حدیث شریف سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جیسے علاج کے لئے مثال کے طور پر مسلمان ڈاکٹرز غیر مسلم ڈاکٹروں کی reaserchکو مسلمان مریضوں پر استعمال کرتے ہیں یا نہیں کرتے ڈاکٹر صاحب؟ بلکہ اولیاء اللہ کے علاج کے لئے بعض دفعہ اولیاء اللہ بھی بیمار ہو جاتے ہیں تو ان کے علاج کے لئے غیر مسلم ڈاکٹروں کی، یہودی ڈاکٹروں کی، عیسائی ڈاکٹروں کی، ہندو ڈاکٹروں کی research کو استعمال کر کے ان کا علاج کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ ثابت ہے، جائز ہے تو یہ علاج ہے procedure ہے یہ فلسفہ نہیں ہے۔ آپ کا پہلا سوال ہی غلط ہے یہ فلسفہ نہیں ہے جب آپ نے اس کو فلسفہ سمجھ لیا تو مجھے پتا چل گیا کہ مجھے بات ذرا اس انداز میں کرنی پڑے گی کیونکہ فلسفہ ہے ہی نہیں ہم اس کو فلسفہ سمجھتے ہی نہیں یہ تو procedure ہے، اس لئے اس کو طریقت کہتے ہیں تو طریقت procedure سے ہے لہذا ہم طریقے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ آپ کے کئی سوالوں کے جواب ہو گئے ایک تو یہ ہے کہ فلسفہ نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ طریقے ہیں، طریقوں کے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، طریقوں کی افادیت کی بات ہوتی ہے اور تجربے سے ثابت ہوتے ہیں، وہ revealed نہیں ہوتے وہ developed ہوتے ہیں یہ دو فرق ہیں، ایک ہوتا ہے revealed یعنی وحی کے ذریعے سے آنا یا الہام کے ذریعے سے آنا اور دوسرا ہوتا ہے developed یعنی آپ نے کچھ دیکھا اس سے فائدہ ہو گیا، آپ کو بھی یاد ہو گیا دوسروں کو بھی پتا چل گیا اور مجھے جس وقت اس کام کا پتہ چلا تو بہت ساری چیزیں میں نہیں جانتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ پتا چلتا رہا خود بخود بہت ساری چیزوں کا پتا چل رہا اور اس طرح تجربے سے انسان بہت ساری چیزیں حاصل کر لیتا ہے البتہ بنیادیں معلوم ہونی چائیں تو اگر وہ معلوم ہوں تو پھر اس کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ایک تو یہ والی بات ہے۔ جہاں تک آپ نے جنات کی بات کی ہے تو یہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے۔ سورۂ جن باقاعدہ موجود ہے اور احادیث شریفہ میں بھی موجود ہے آپ ﷺ نے جنات کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتیں کی ہیں ان کے فیصلے کیے ہیں، صحابہ کرام نے بھی کیے ہیں اسی طرح بڑے بڑے اولیاء عظام نے بھی کیے ہیں تو جنات کے ساتھ بات چیت ناممکن نہیں ہے البتہ ہر ایک نہیں کر سکتا،یہ normal routine کی چیز نہیں ہے، extraordinary چیز ہے۔جس کو اس کی practice ہو،جس کو اس کا فن آتا ہو،جس کو اس کے بارے میں علم ہ،جس کو اس کے بارے میں کچھ تحقیق ہو تو وہی بات کر سکتا ہے ہر ایک نہیں کر سکتا تو یہ بات بھی مکمل ہو گئی۔اب اہل قبور کی بات کے بارے میں آپ کو شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی ایک تحقیق سنا دوں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: روح کیا ہے؟ پورا chapter ہے حضرت کا "الطاف القدس" میں تو اس میں حضرت فرماتے ہیں کہ (وَ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي) (اسراء:85) اس آیت کریمہ سے استدلال فر ما کر کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ اس آیت سے سمجھتے ہیں کہ روح کے بارے میں تھوڑا علم دیا گیا ہے لہذا زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے۔ فرمایا: وہ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ يَسْئَلُونَكَ والی جو بات ہے یہ یہودیوں کے لئے ہے، یہودیوں نے پوچھا تھا تو جواب بھی یہودیوں کو دیا گیا ہے کہ ان کو کہہ دو یہ امر ربی ہے اور تمہیں اس کا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے تو یہودیوں کو تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ مومن کے لئے یہ نہیں کہا گیا اللہ تعالیٰ مومن کو جتنا بھی علم عطا فرما دے۔ تو پتا چل گیا کہ یہ جو فرمایا کہ تم نہیں سنا سکتے مردوں کو یہ نہیں کہ اللہ نہیں سنا سکتا اللہ سنا سکتا ہے آپ کی بات، اللہ اس کے بعد بھی سنا سکتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کی بات اس کو سنا دے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کسی کو بھی حیرت نہیں ہو سکتی تو جو باتیں اس کی ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کراتے ہیں۔ ہم کرامت اولیاء کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ کرنے والا ہے، ولی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتا ہے لہذا اس پر کسی کو اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ یہ کام ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا جب اللہ پاک کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے اور اگر آپ کی بات اللہ تعالیٰ کسی کو سنائے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔جہاں تک آپ ﷺ کی بات ہے وہاں معاملہ مختلف ہے عِنْدَ قَبْرِیْ فرمایا کہ وہاں میں خود سنتا ہوں اس کا جواب بھی دیتا ہوں وہ ایک special case ہے اور special case ہر جگہ نہیں ہوتا تو آپ ﷺ نے چونکہ خود فرمایا لہذا یہ سند نص سے ثابت ہے مطلب حدیث شریف سے ثابت ہے۔ اور یاد رکھیے قرآن کی تشریح حدیث کرتی ہے قرآن میں اجمال ہے حدیث میں تفصیل ہوتی ہے۔ نماز کے کتنے مسئلے قرآن سے آپ کو معلوم ہیں نماز سب سے بڑی عبادت ہے یا نہیں ہے؟ سب سے بڑی عبادت ہے، اس کے مسئلے قرآن میں بہت تھوڑے ہیں،ساری تفصیل حدیث شریف سے ثابت ہے بلکہ کسی نے یہاں تک کہا کہ قرآن بھی حدیث شریف سے ثابت ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہ قرآن ہے تو یہ حدیث شریف نہیں ہے؟ تو آپ حدیث شریف کی نا قدری نہ کریں،حدیث شریف بہت بڑی چیز ہے البتہ حدیث شریف میں قرآن کے خلاف بات نہیں ہوتی، یہ الگ بات ہے کہ آپ کو پتا نہ چلے کیونکہ آپ ﷺ کی بات ہے حدیث شریف،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تو یہ قرآن ہی نے بتایا کہ آپ ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات ہی نہیں کرتے جو بات بھی کرتے ہیں وحی سے کرتے ہیں لہذا آپ ﷺ کی قبر کے نزدیک اگر کوئی سلام کہتا ہے تو وہ خود سنتے ہیں تو اس پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے ہاں باقی قبروں میں باقی مردوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ جب سنانا چاہے تو سن لیتے ہیں اور نا سنانا چاہے تو آپ نہیں سنا سکتے۔ اللہ پاک نے خود فرمایا ہے کہ نہیں سنا سکتے اور ہمارا کام ہی نہیں ہے۔ جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے تو میرے خیال میں ایک sitting میں یہ چیزیں معلوم ہی نہیں ہو سکتیں اس کے لئے کافی بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن جب چند چیزیں آپ کو پتا چل گئیں کہ ان کا جواب موجود ہے تو میرے خیال میں آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا بہت ساری باتوں کا جواب بھی موجود ہے البتہ ٹائم کم ہونے کی وجہ سے ہم بہت زیادہ بات نہیں کر سکتے یہ کوئی ایسا issue نہیں ہے جس پر انسان پہ full stop لگ جائے کہ اب آگے بڑھنا منع ہے ہاں یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو سمجھ آئے گی تو اگر آپ چاہتے ہیں تو کسی وقت تشریف لائیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کو بہت ساری چیزوں کا پتا چل جائے گا،جیسے آپ نے اپنے personal problem میں بات کی ہے تو کچھ چیزوں کے اثرات ہوتے ہیں ان اثرات کو دور کرنا الفاظ سے ممکن نہیں ہے اور اگر چیزوں کے اثرات ہیں تو چیزوں سے دور ہوں گے وہ کون سی چیزیں ہوں گی؟ اس کے لئے تفصیلات ہیں بہرحال جن چیزوں کے اثرات ہیں تو اس کے لئے کچھ اور چیزوں کے اثرات استعمال کرنے پڑیں گےکچھ چیزوں سے گزرنا پڑے گا۔ بیماری دو لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے لیکن علاج دو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے کوئی کہہ دے کہ اس کو tuberculosis ہے مختصر سی بات ہے بس tuberculosis ہے تو کیا علاج بھی اس طرح دو لفظوں میں ہو جائے گا؟ وہ ایک chapter ہے اس پر ٹائم لگانا پڑتا ہے مستقل محنت ہے تب کبھی وہ بیماری دور ہو گی تو اسی طریقے سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں کوئی دو لفظ کہہ دوں گا اور آپ کی بیماری دور ہو جائے گی، اس کا نہ ہم دعویٰ کرتے ہیں اور نہ اس کے بارے میں کوئی بات کر سکتے ہیں البتہ اگر آپ واقعی اس کو بیماری سمجھتے ہیں اور دور کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے آپ کو محنت کرنی پڑے گی اور آپ بیشک ہمارے پاس نہ آئیں کسی اور کے پاس چلے جائیں جس پر آپ کو اطمینان ہو ان سے آپ اپنا باقاعدہ علاج کرائیں سبحان اللہ۔

سوال نمبر 6 حصہ 2:

السلام علیکم حضرت جی! عرض یہ ہے کہ میرا ابتدائی ذکر 10 منٹ دل پر 10 منٹ لطیفۂ روح پر 10 منٹ لطیفۂ سر پر 10منٹ لطیفۂ خفی پر 15 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر سننے کا تھا، ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ شروع کے دن صحیح محسوس ہوتا رہا ہے لیکن وقت کبھی کبھی کم زیادہ ہوتا ہے اور ایک دو دن ناغہ بھی ہوا ہے۔

جواب نمبر 6 حصہ 2:

ماشاءاللہ بڑی اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ استقامت نصیب فرمائے لیکن ناغہ سے بالکل پرہیز کریں ناغہ سے بہت تنزلی ہو جاتی ہے ۔ الحمد للہ بہت اچھی جا رہی ہیں تو speed کو کم نہ کریں، ابھی آپ اس طرح کریں ک لطائف کے اوپر جو ذکر ہے وہ 5، 5 منٹ کر لیں لیکن مراقبہ احدیت 15 منٹ کر لیں۔ مراقبہ احدیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات اعلیٰ صفات اپنی شان کے مطابق جیسے اس کی شان ہے اور اس سے فیض آ رہا ہے اور فیض کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی چیز اپنی آخرت کے لیے آپ کو چاہیے کے لئے وہ آپ کو حاصل ہو رہی ہے اس کو فیض کہتے ہیں۔تووہاں سے فیض آ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے آپ کے شیخ کے قلب مبارک پر اور آپ کے شیخ کے قلب مبارک سے وہ آپ کے قلب پر آ رہا ہے 15 منٹ کے لئے یہ آپ تصور کریں اور باقی 5، 5 منٹ ان شاء اللہ ایک مہینے کے لئے کریں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی الحمد للہ اللہ کے فضل سے اور آپ کی تربیت اور دعاؤں کی بدولت معمولات پر اللہ نے استقامت عطا فرمائی، اطمینان رہتا ہے۔ حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے تھا 200، 400، 600 اور 5000 مرتبہ اَللہ کا اور 5 منٹ کا مراقبہ دل میں اللہ اللہ کو محسوس کرنا اور نماز کے بعد ایک سانس میں اللہ اللہ 60 مرتبہ اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا ہے۔ ہر نماز کے بعد اللہ کی تعداد 75 تک بڑھائی تھی لیکن سانس کم پڑ جاتی تھی اس لئے پھر اس کو 60 مرتبہ پڑھنے لگا اس کے علاوہ جو مسجد میں نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کا آپ نے کہا تھا وہ بھی جاری ہے الحمد للہ، دل میں اللہ اللہ محسوس نہیں ہوتا حضرت جی سینے میں بھی سکوت رہتا ہے۔


جواب نمبر 7:

سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے اب آپ اس کو ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ اللہ اللہ کر لیں اور باقی چیزیں اپنی جگہ پر رہیں گی ان شاء اللہ العزیز۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی خوشیوں سے آپ کو نوازتا رہے مجھے آپ کا سایۂ شفقت دائمی نصیب فرمائے حضرت آپ کی دعا کی برکت سے الحمد للہ اللہ پاک نے بہت عافیت فرمائی۔

الحمد للہ اب آپ کی برکت سے روزے رکھنے کی توفیق ہو گئی ہے۔ آج میرے تین روزے مکمل ہو گئے ہیں، بقیہ نو مکمل کرنے پر ان شاء اللہ اطلاع کر دوں گا۔

جواب نمبر8:

ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ مزید استقامت نصیب فرمائے اور علاج کو اپنے لیے جیسا آپ نے بہتر سمجھا اور اس پر آپ نے ماشاء اللہ توجہ دی۔ اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے لئے بہت زیادہ نافع بنا دے۔

سوال نمبر 9:

اسماء اور صفاتِ الہیہ کے مخلوق کے مظاہر کی تحقیق میں پڑنا چاہیے تا کہ حقائق اشیاء کھلیں یا اس میں نہ پڑیں؟کیا یہ ذہن پر بوجھ تو نہیں ڈالے گا یا اس میں کوئی بے فائدہ کام تو نہیں۔؟

جواب نمبر 9:

اصل میں یہ بے فائدہ کام بھی نہیں ہے اور یہ بوجھ بھی نہیں ڈالتا لیکن ہر چیز person to person vary کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ بعض چیزیں بعض لوگوں کے لئے مسئلہ بن سکتی ہیں۔ ایک دفعہ مولانا اشرف صاحبؒ نے مجھے تمام کتابیں پڑھنے سے روکا تھا سوائے حضرت تھانویؒ کے مواعظ اور ملفوظات کے اور جس کتاب کی وجہ سے روکا تھا وہ کتاب ایک بہت بڑے بزرگ کی ہے، نام بھی اس لئے میں نہیں لے رہا کہ بے ادبی ہو جائے گی تو حضرت نے مجھے فرمایا: نہیں کہ یہ کتاب غلط ہے یا باقی کتابیں غلط ہیں کتابیں بالکل صحیح ہیں لیکن بعض دفعہ ڈاکٹر مریض کو ملائی بھی کھانے کو روک دیتا ہے اس میں مریض کا مسئلہ ہوتا ہے، ملائی کا مسئلہ نہیں ہوتا ملائی تو اچھی چیز ہے لیکن مریض کا معدہ صحت مند ہو اس کو ہضم کر سکتا ہو تو پھر ٹھیک ہے تو اس وجہ سے ہر کام اپنے طریقے پر ہو تو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ جو اس مقام تک پہنچ چکے ہوتے ہیں ان کے لئے تو بالکل کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جو ابھی نہیں پہنچے ان کو step by step پہنچنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض حضرات کی طبیعتوں میں ذرا یکسوئی سے کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں یعنی ان کو کچھ دماغی مسائل ہوتے ہیں تو وہ trigger ہو جاتے ہیں ان کو اگر آپ بوجھ سمجھتے ہیں تو واقعی وہ بوجھ ہو گا لیکن ہر ایک کو نہیں جن کو مسئلہ ہے ان کو بوجھ ہو گا۔ تو جس طریقے سے بتایا جائے اسی طریقے پہ کریں باقی اپنی طرف سے کچھ نہ کریں۔


سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میرا مراقبہ تنزیہ صفاتِ سلبیہ 15 منٹ کے لئے ہے اور اس کو 45 دن ہو چکے ہیں،کچھ سمجھ نہیں آ رہی دماغ میں تناؤ اتنا ہے کہ جسم اور کام پر اثر انداز ہو رہا ہے،چکر آ رہے ہیں بہت کوشش کی پتا نہیں کس گناہ کی وجہ سے حجاب ہے، مراقبہ کے دوران کچھ پتا نہیں چل رہا۔

جواب نمبر 10:

اول تو آپ کی اس چیز کی correction ہونی چاہیے کہ آپ نے جو لکھا ہے غلط لکھا ہے "صفاتِ صلبیہ" نہیں ہے "سلبیہ" ہے سلب "س" کے ساتھ، "ص" کے ساتھ نہیں ہے ایک مجبوری ہے کیونکہ آپ نے بعد میں بھی اس لفظ کو استعمال کرنا ہے اور کسی اور کے سامنے استعمال کریں گے تو مناسب نہیں ہو گا، میرے سامنےکوئی مسئلہ نہیں ہے ایک تو یہ بات ہے، پھر مراقبہ سلبیہ اور مراقبہ تنزیہہ کا مطلب کیا ہے؟ وہ ذرا معلوم کرنا چاہیے اصل میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، ان چیزوں کو step by step arrange کیا ہے کہ اگر اس کا طریقہ سمجھ میں آ جائے تو ماشاء اللہ انسان کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) کا مراقبہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ کرتا ہے پھر صفات ثبوتیہ کا مراقبہ ہوتا ہے لطیفۂ روح پر، جس کا مطلب ہے کہ اپنے صفات کے آئینے میں انسان اللہ پاک کی صفات کو دیکھے اور جیسے میں سن رہا ہوں تو سننا میں اس وجہ سے جان رہا ہوں کہ میں سن رہا ہوں یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے ہی سن رہا ہے لیکن بہرحال اللہ بھی سن رہا ہے۔ تو سننے کا مطلب مجھے معلوم ہے تو اپنے اس علمِ حضوری کے ذریعے سے میں علم حصولی کو سمجھ رہا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو وراء الوراء ہے۔ مثال موجود ہیں یعنی صفات کے لحاظ سے بات کر رہا ہوں ذات کے لئے تو سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا چونکہ میں بھی سن رہا ہوں تو سننا جس کے ذریعے سے اللہ پاک کے سننے کو میں جان رہا ہوں کہ اللہ پاک بھی سنتا ہے البتہ جس طرح اللہ سنتا ہے وہ میرے سننے کی طرح نہیں ہے وہ علیحدہ ہے تو اس طریقے سے اللہ پاک دیکھ رہا ہے، اللہ پاک موجود ہے، اللہ جل شانہ سب کچھ کرتا ہے، اللہ پاک ارادہ فرماتے ہیں یہ ساری چیزیں میں اپنے اندر دیکھ رہا ہوں تو اب میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا مشاہدہ کر رہا ہوں یعنی معلوم کر رہا ہوں یہ دوسری بات ہو گئی۔ اس کے بعد اللہ کی ذات کی طرف جاتا ہوں یعنی تیسرا مراقبہ شیونات ذاتیہ یہ لطیفۂ سر پر ہے اور اس سے میں گویا کہ صفات کے ذریعے سے ذات کی طرف میں جاتا ہوں کہ اس ذات کی ایسی شان ہے کہ اس سے یہ صفات سامنے آ رہی ہیں اور یہ تیسری بات ہو گئی۔

چوتھی بات اور اس بات کو صاف کرنا ہے کہ اللہ پاک کی ذات ایسی نہیں ہے کہ وہ ہماری طرح ہو لہذا اس سے تمام چیزوں کو نکالنا ہوتا ہے، یہ مراقبہ سلبیہ مثلا اللہ تعالیٰ سوتے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ زندہ ہے، اللہ جل شانہ کی اولاد نہیں ہے، اللہ جل شانہ کی بیوی نہیں ہے، اللہ جل شانہ کھاتے نہیں ہیں یہ ساری صفات انسان کے لئے تو ثابت ہیں لیکن اللہ کے لئے ثابت نہیں کی جا سکیں ان کو اللہ کے لئے ثابت کرنا عیب ہے اس چیز کا ادراک مراقبہ سلبیہ ہے اور تنزیہ ہے اور پھر ان چاروں کو اکھٹا کر کے اس سے جو تاثر بنتا ہے وہ مراقبہ شان جامع ہے۔ اب دیکھو کتنے طریقوں سے حضرت مجدد صاحب ہمیں لے جا رہے ہیں تو اس میں کیا tension ہے یہ tension کی بات ہی نہیں ہے tension آپ میں ہے مراقبے میں نہیں ہے۔ تو میرے خیال میں جس میں tension ہو گی اس کو ہر کام میں tension ہو گی پھر وہ کھانا بھی کھا رہا ہو گا تو اس میں tension، وہ کسی سے بات بھی کر رہا ہو گا اس میں tension، وہ سو بھی رہا ہو گا تو اس میں tension، وہ tension اس کے اندر ہے وہ جہاں بھی جائے گا اپنی tension کو ساتھ لے کے جائے گا۔ تو مراقبہ میں tension نہیں ہے یہ آپ کے اندر ہے اس کو دور کر لیں (سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ) (یس:58) 313 مرتبہ روزانہ پڑھا کریں تاکہ tension دور ہو جائے اللہ اکبر۔



سوال نمبر 11:

السلام علیکم امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے میرا ذکر چل رہا ہے 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 600 مرتبہ حَقْ اور اس کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ قلب، 15 منٹ لطیفۂ روح، 10 منٹ لطیفۂ سر اور 10 منٹ خفی پر اس ذکر کو تقریباً اب 11 مہینے ہو چکے ہیں۔ 4 مہینے پہلے آپ نے 10 منٹ کا مراقبہ جس میں اللہ کا فیض حضور اور شیخ کے قلب سے ہوتا ہوئے سینے میں داخل ہونے کا اضافہ فرمایا تھا، باقی مراقبے کی نسبت اضافی مراقبے میں ارتکاز کافی بہتر ہے اور خیالات اتنے نہیں آتے اور یہ تھوڑا ہلکا یا آسان لگتا ہے مراقبہ کا پورا ٹائم نہیں دے پا رہا لیکن کوئی ناغہ بھی نہیں، تقریباً ہر وقت سینے کے درمیان میں اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میں اپنے دل میں بول رہا ہوں قلوب کے مراقبے کو اب تقریباً 11 مہینے اور مراقبہ فیضان کو تقریباً 4 مہینے ہو گئے۔ مراقبہ میں خیالات کی بارش ہوتی رہتی ہے کڑیوں سے کڑیاں ملتی ہیں دور نکل جاتا ہوں، پھر دوبارہ خیالات کو سمیٹ کر واپس اللہ اللہ ہی لے کے آتا ہوں بہت کوشش کے باوجود concentration نہیں ہو پا رہی سوچتا ہوں کیا ایسے مراقبے کا کوئی فائدہ بھی ہو رہا ہو؟ البتہ جو بالکل درمیان والے مراقبے میں ذرا وہ آسان لگتے ہیں لطیفۂ خفی جو center میں ہے اور مراقبہ فیضان بھی آسان لگتا ہے۔کیفیات ملی جلی سی ہیں دنیا سے بیزاری ہے نماز میں خشوع و خضوع ہوتا ہے لیکن ہر نماز میں نہیں کبھی کبھی نماز پڑھنے کا دل چاہتا ہے نماز کا انتظار رہتا ہے کوشش کرتا ہوں ہر وقت ذکر کرتا رہوں لیکن یاد نہیں رہتا اور آخرت کی طرف کافی فکر رہتی ہے،کبھی کبھی عجیب سے خواب نظر آتے ہیں لیکن اہمیت نہیں دیتا ایک دفعہ زلزلہ دیکھا اور کعبہ کا ایک حصہ منہدم ہو گیا۔ پہلے مجھے music کا کافی شوق تھا لیکن اب music سنائی دے تو کوفت سی محسوس ہوتی ہے۔ بدنگاہی پر قابو ہے لیکن ختم نہیں ہے، سوشل میڈیا کی بھی عادت ہے لیکن بنیادی طور پر current affairs معلوماتی اور اسلامی materialکا شوق ہے جو برسوں سے ہے۔ مسلک کے بارے میں کافی وہم آتے ہیں اور کبھی کبھی اللہ کی ذات کے بارے میں بھی، اللہ سے یقین کامل کی دعا مانگتا ہوں کچھ دنیاوی الجھنوں کی وجہ سے لگتا ہے استقامت میں کمی ہو جائے گی اور سب کچھ چھوٹ نہ جائے۔ اور بھی ملی جلی کیفیات ہیں لیکن message لمبا نہ ہونے کے لئے میں رک رہا ہوں۔

جواب نمبر 11:

اصل میں ایک تو اپنا معمولات کا chart باقاعدہ بھیجنا شروع کر دیں یہ ضروری ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مراقبہ کی جو کیفیت ہے وہ مجھے ہر مہینے بتاتے رہیں اس کے حساب سے مزید آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آپ نے کافی محنت کی ہے یہ محنت ضائع نہ ہو اور اس میں جمود نہ آئے اس کے لئے ابھی میں آپ سے عرض کروں گا کہ آپ نے ماشاء اللہ مراقبہ لطائف کا ذکر سیکھ لیا ہے اس کے علاوہ مراقبہ احدیت بھی آپ کر چکے ہیں۔ اب مراقبہ (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) میں آپ کو دیتا ہوں یہ آپ شروع کر دیں 15 منٹ کے لئے 5، 5 منٹ آپ تمام لطائف پہ کریں اور مراقبہ احدیتہو چکا ہے اور مراقبہ احدیت میں general فیض ہے لیکن مراقبہ (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ) (هود:107) میں خاص فیض ہےکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ کرتے ہیں اس کے لئے آپ 15 منٹ تصور کر لیں کہ اللہ پاک کی شان کے مطابق اس کا فیض یعنی کہ اللہ پاک سب کچھ کر رہا ہے یہ آپ ﷺ کے قلب مبارک میں آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب میں آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے قلب میں آ رہا ہے اور وساوس کی طرف بالکل نہ سوچیں وساوس تو آتے رہیں گے اور خیالات بھی آتے رہیں گے لیکن آپ خود نہ لائیں خود بخود آئیں تو اس کی پرواہ نہ کریں بس اس طریقے سے معاملہ چلتا رہے گا اور اسی میں بہتری آتی جائے گی۔ جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے تو بچے کو پتا نہیں چلتا کہ میں بڑا ہو رہا ہوں لیکن وہ بڑا ہو ہی رہا ہوتا ہے دوسروں کو پتا چلتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته۔

Dear beloved hazrat I pray that you are well ان شاء اللہ my wife has completed her forty days starting islahi zikar a few days beyond forty days please inform me of what to tell her to do next

Answer 12:

ماشاء اللہ well done now she should stop this ذکر and she should start another ذکر that is the second ذکر and that is

100 times third kalma سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ

100 times درود شریف صلوۃ النبی

وَ صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْمُحَمَّد

And 100 times استغفار

اَسْتَغفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہ أسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ

one of them she can do and after that for 10 minutes she should face قبلہ and stop her tongue and close her eyes and think as if her heart is saying اللہ اللہ by itself not by her but but by herself by itself so she should do this whether it is done or not done but she should continue to think about it and for thirty days ان شاء اللہ it will be and then she can inform me ان شاء اللہ

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔۔۔ الحمد للہ ذکر کے ساتھ نماز، قرآن، تسبیح اور درود شریف کا کچھ اہتمام ہو رہا ہے۔ آپ اس میں بہتری کے لئے کچھ بتائیں اور social media کے استعمال کو کیسے کم کر سکتے ہیں جزاک اللہ۔

جواب نمبر 13:

ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے آپ کو اس کی فکر ہے اللہ تعالیٰ آپ کی اس فکر کو مزید بہتر فرمائیں آپ نے فرمایا کہ الحمد للہ ذکر کے ساتھ نماز قرآن تسبیحات اور درود شریف کا اہتمام ہے، اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اور مزید کی توفیقات نصیب فرمائے۔ social media میں خوبیاں بھی ہیں اور مسائل بھی ہیں لیکن اس کے مسائل خوبیوں پر غالب ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں اگر آپ کو فائدہ مستحب کا ہو رہا ہے اور نقصان حرام کا ہو رہا ہے تو آپ زیادہ مسئلہ کس چیز کو سمجھیں گے؟ حرام سے بچنا فرض ہے تو دوسری طرف مستحب ہے تو فرض کے حاصل کرنے کے لئے مستحب کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ لہذا آپ سادہ موبائل رکھ لیں اور صرف ایک گھنٹہ کے لئے آپ اس کو ہفتے میں کھولا کریں اور اس پہ جو WhatsApp پہ وہ بیانات جو آپ نے سننے ہوتے ہیں ان کو convert کر لیا کریں پھر اس کو بند کر دیا کریں ایک ہفتے کے لئے اور ایک ہفتے کے لئے صرف اپنے سادہ موبائل سے کام لیں اور کیونکہ اس پہ فون ہی کرنا ہوتا ہے تو فون کے لئے انسان موبائل رکھتا ہے بنیادی چیز تو فون ہی ہے باقی جو کام ہیں ان کو وقت کا پابند کر لیں تو ان شاء اللہ اس کو کم کیا جا سکے گا۔


سوال نمبر 14:

محترم شاہ صاحب السلام علیکم، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سب خیریت سے ہیں میرا ذکر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، 400 مرتبہ اللہُ اللہ، 600 مرتبہ اللہ اور اللہُ اللہ اور 400 مرتبہ اِلَّا اللہ چھ سو مرتبہ اللہُ اللہ اور ڈھائی ہزار مرتبہ اَللہ الحمد للہ ذکر اچھے طریقے سے کر لیتا ہوں نماز کی پابندی، تیسرا کلمہ، استغفار، درود شریف کی پابندی جاری ہے براہ کرم مزید رہنمائی فرمائیں،

جواب نمبر 14:

اب آپ ماشاء اللہ اللہ اللہ ڈھائی ہزار کی جگہ تین ہزار کر لیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم! بروز جمعہ آپ کا بیان سماعت کیا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ہم نے 63 کروڑ مرتبہ درود شریف کا target پورا کیا گیا ہے اس مقدار کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے کس تصدیق شدہ معلومات کی بنیاد پر تقریب میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔

جواب نمبر 15:

یہ پورا ایک system ہے ہمارے پاس، جس میں باقاعدہ لوگ جو پڑھتے ہیں وہ اپنی اطلاع کرتے ہیں ان کو ہم جانتے ہیں اگر میں نہیں جانتا ہوں تو ان کو وہ لوگ جانتے ہیں جو جمع کرنے والے ہیں لہذا جاننے والے جاننے والوں کو بتائیں اس پر تو یقین کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس پورا ایک network ہے network کے باقاعدہ collectors ہیں وہ collect کرتے ہیں پچھلی دفعہ جو collect ہوا تھا وہ اگرچہ ہمارا ٹارگٹ کم تھا 63 کروڑ نہیں تھا 37 کروڑ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے 63 کروڑ دے دیا تو اس دفعہ ہمارا target ذرا اس سے زیادہ ہے ابھی چونکہ اطلاعات آ رہی ہیں تو ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ کتنا ہو گا البتہ الحمد للہ کچھ 9، 10 کروڑ تک تو الحمد للہ ابھی جو موجودہ اطلاعات ہیں تو اس کے مطابق پہنچ گیا ہے امید ہے ان شاء اللہ شاید اور بھی آجائے گا۔ بہرحال میں کہتا ہوں ایک دفعہ بھی اگر درود پاک پڑھنا نصیب ہو گیا تو یہ محنت رائیگاں نہیں گئی بہت بڑی دولت ہے وہ کہتے ہیں (بہانہ می جوید) "زیادہ کو نہیں دیکھتا بہانے کو دیکھتا ہے" ہم نے تو کوشش کرنی ہے ہم نے دوڑ لگانی ہے قبول کرنے والا وہی ہے ہمیں قبول کرنے پہ نظر ہے ہمیں اس پر نظر نہیں کہ ہم نے پڑھا کتنا ہے۔ البتہ target اس لئے رکھتے ہیں کہ کچھ کام کریں یعنی کام کرنے کے لئے target رکھنا ہوتا ہے لیکن پورا ہو نہ ہو یہ ہمارا کام نہیں ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے تو اگر اللہ پاک نے فضل فرمایا ہے تو اس پر شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور ہم نے شکر کے طور پر یہ بات کی تھی، تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کی تھی، دل بڑھانے کے لئے یہ بات کی تھی اور اب بھی ان شاء اللہ یہ بات کریں گے اس پر میرے خیال میں ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے مجھے جو ذکر ایک مہینے کے لئے دیا تھا اس کے لئے ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ پورے مہینے میں دو مرتبہ تہجد کے وقت آنکھ نہ کھل سکی تو یہی دونوں دن ذکر اپنے وقت پر نہ ہوا لیکن پھر بھی ناغہ نہیں ہونے دیا بعد میں پورا کر لیا اور دوسری بات پوچھنی ہے کہ کلمہ سوم، درود شریف، استغفار کے وقت بندہ مسجد کے صحن میں چلنے کے دوران ادا کرتا ہے کیا اس کی اجازت ہے؟

جواب نمبر 16:

بالکل اجازت ہے کیونکہ یہ ماشاء اللہ چونکہ غذائی ذکر ہے تو کوئی چلتے چلتے بھی کھا لےکھانا تو نہیں چاہیے لیکن اگر کھا لے تو پیٹ بھر ہی جائے گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ کسی جگہ بیٹھ کر ذکر کر لیں اس میں فائدہ زیادہ ہے لیکن اگر چلتے چلتے بھی کر لے گا تو ہو جائے گا۔ لیکن جہاں تک علاجی ذکر ہے تو اس میں انسان اپنی مرضی نہیں کر سکتا وہ جیسے بتایا جاتا ہے اسی طریقے سے کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کا ایک پورا set ہوتا ہے اس set میں اگر آپ اپنی اپنی مرضی سے تبدیلی کر لیں تو عین ممکن ہے کہ کوئی اصل چیز اس میں سے رہ جائے اور جس کی وجہ سے فائدہ ہو رہا ہو اور اس کی وجہ سے پھر وہ فائدہ نہ ہو۔ تو اس وجہ سے علاجی ذکر میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں ہوتی as prescribed by the physician دوائیوں کے اوپر لکھا ہوتا ہے۔ جس طرح ڈاکٹر کہتا ہے اس کے مطابق کرنا ہے۔ میں تقریباً تین چار پانچ دن سے اسی پہ لگا ہوا ہوں کہ میں ڈاکٹروں سے پوچھ رہا ہوں کہ جو فلاں دوائی ہے اس کو کھانے کے ساتھ کھانا چاہیے یا کسی اور وقت بھی کھا سکتا ہوں تو کل مجھے ڈاکٹر صاحب کی پوری research آئی تو پھر اس کے بعد میں نے اس پہ سیٹ اپ بنا لی۔ ہم تو اپنی دوائیوں کے لئے اتنے conscious ہیں تو ذکر علاجی ذکر کے لئے conscious نہیں ہوں گے اس کے لئے بھی ہمیں conscious ہونا پڑے گا اور اس طرح کرنا پڑے گا جس طرح بتایا جاتا ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت السلام علیکم!

I have been reciting اللہ Allah 2000 times followed by

یا اللہ یا سبحٰن یا عظیم یا رحیم یا وہاب یا ودود یا کریم

100 times for the past one month kindly advice for the next

Answer:

now you should do ان شاء اللہ twenty five hundred times and the rest will be the same ان شاء اللہ

ماشاءاللہ میرے خیال میں یہاں تک تو بات ہو گئی ہے تو اگر کوئی سوال اس مجلس میں کسی کا ہے تو کر سکتے ہیں باہر سے جتنے سوال آئے تھے پہ بات ہو گئی ہے۔

سوال نمبر 18:

حضرت یہ جو نفس کے متعلق بات ہو رہی ہے اکثر تزکیۂ نفس اور نفس صوفیاء نے جسے نفس کہا ہے یا قرآن نے کہا ہے یہ کون سا نفس مراد ہے؟ یہ نفس ہے کیا چیز جیسے دل ہے یا روح ہے یا انسان کے جسم میں کوئی عضوہے؟

جواب نمبر 18:

ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ اصل میں نفس کے اوپر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے پوری research کی ہے اس کو پڑھنا چاہیے اس سے ان شاء اللہ زیادہ تشفی ہو جائے گی، لیکن میں صرف ذرا اس کا لب لبناب عرض کرتا ہوں حضرت فرماتے ہیں قلب صرف یہ نہیں ہے بلکہ قلب کا جو اثر ہے پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے البتہ اس کا مرکز یہ جگہ ہے، اس طرح نفس بھی پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا مرکز جگر میں ہے اور اسی طرح عقل بھی پورے جسم میں پھیلی ہوئی ہے لیک اس کا مرکز دماغ میں ہے۔ اس پر مجھے بڑی ایک عجیب بات یاد آ گئی ہماری اردو زبان میں بھی کچھ لوگوں نے یہ چیزیں استعمال کی ہیں لیکن کبھی اس کی طرف خیال نہیں گیا تھا جب حضرت کی یہ بات سنی تو پتا چل گیا کہ کئی باتیں ہماری زبان میں پہلے سے رائج ہیں مثلاً کلیجہ منہ کو آ گیا، کلیجہ چھلنی ہو گیا، کلیجہ جگر کو کہتے ہیں قلب و جگر، دل و دماغ گویا کہ دل و دماغ ہی پورا ایک network ہے آپس میں دو bilateral اس میں عقل اور دماغ، یعنی دماغ عقل کا مرکز ہے اور دل روح کا مرکز ہے۔ تو دل و دماغ وہ area ہے جہاں پر انسان علم حاصل کرتا ہے، سوچ سکتا ہے فیصلہ کرتا ہے، قوت اعظمہ ہوتا ہے یہ ساری باتیں دل و دماغ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ قلب و جگر یہ وہ area ہے جہاں پر کام ہوتا ہے جیسے میں دیکھ رہا ہوں تو یہ نفس یعنی قلب و جگر والی بات ہے میں سن رہا ہوں یہ قلب و جگر والی بات ہے میں بول رہا ہوں یہ قلب و جگر والی بات ہے تو ان سب میں نفس بھی ہے اور قلب کا اثر بھی ہے یعنی یہی چیزیں نفس پہ بھی اثر کرتی ہیں دل پہ بھی اثر کرتی ہیں اس طرح دل اور نفس ان چیزوں پر بھی اثر کرتے ہیں، ان کا آپس میں interaction ہے مثال کے طور پر میں اگر کسی اچھے ماحول میں جاؤں اور اچھی چیزوں کو دیکھوں تو میرے نفس اور میرے قلب اثر ہونا شروع ہو جائے گا وہ بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے۔ جیسے ہم ایک دوسرے سے اثر لیتے ہیں اور اگر میں خود گندا ہوں تو میں کسی اور جگہ جاؤں گا تو میں دیکھوں گا تو اس دیکھنے میں بھی گندگی ہو گی، سننے میں بھی گندگی ہو گی۔ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے جتنی بھی حسیں ہیں یہ قلب و جگر کے تابع ہیں اور یہی نفس بھی ہے اور یہی قلب کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ سوچنے اور تمام کے جو ذرائع ہیں وہ دل و دماغ والی باتیں ہیں تو یہ صرف ایک نکتہ کو نہیں کہا جاتا بلکہ پورے جسم میں یہ areas ہیں خواہشات کا پورا domain ہے، یعنی انسان جو چیز چاہتا ہے، اشتہاء کا جس کے ساتھ تعلق ہے جیسے مثال کے طور پر قوتِ شہوت ہے قوتِ غضب ہے تو اسی طرح اشتہاء میں بھی یہ بات ہوتی ہے۔ جیسے شہواتِ نفس تو اس میں آنکھ کی اپنی شہوت ہے،کان کی اپنی ہے، زبان کی اپنی ہے، دماغ کی اپنی ہے یعنی ہر چیز کی اپنی اپنی شہوت ہےمثال کے طور پر کوئی بہت ہی خیالات کی دنیا میں رہتا ہے اس کو ان خیالات میں مزہ آتا ہے تو اس کی شہوت اس میں ہے کسی کے بولنے میں یہ ہوتا ہے شاعر لوگ جو ہوتے ہیں وہ دوسرے کو زبردستی سناتے ہیں وہ پیچھے پڑتے ہیں کہ یہ سن لو یہ سن لو۔ ان کی بولنے میں شہوت ہے۔ کسی کو سننے میں شہوت ہوتی ہے وہ گانے سنتے ہیں اور لغویات سنتے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا سنتے ہیں۔ بعض لوگ اچھی چیزیں سنتے ہیں ان کی اس میں خواہش ہوتی ہے تو یہ ساری باتیں اس میں ہیں لیکن حضرت نے جو تفصیل سے بیان کیا ہے اسی کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔


سوال نمبر 19:

حضرت اس راستے میں جو ابتداء میں چلیں specially جب یہ معلوم ہو کہ نفس کا ٹھیک ٹھاک زور ہے، کیا ہمیں اگر کوئی تبلیغِ دین کا موقع ملے جس طرح specially یہ تبلیغی جماعت والے عموماً کرتے ہیں تو ان کا بہت اختلاف یہ پایا جاتا ہے کہ آپ لوگ چل رہے ہیں پتا نہیں کب تک آپ کی اصلاح چلتی رہے گی، تب تک کیا دین کو اپنے تک رکھیں گے جبکہ ہماری ذمہ داری دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچانے کی ہے اور اس میں تذبذب کا شکار ہو جاتا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ جبکہ مجھے کئی دفعہ ایسے forum مل جاتے ہیں جہاں پر مجھے دین کی بات کرنی ہو اور میں پہلے کرتا رہا لیکن اب چونکہ نفس پہ نظر آنا شروع ہوئی تو اس سلسلے کو کم کر دیا، کیا ہدایت ہیں ان لوگوں کے لئے جو اس سلسلے میں start لے رہے ہیں کیونکہ اب کل پرسوں آپ کے بیان میں تھا کہ جب اپنا ہی نفس خراب ہو تو آپ اگر دوسروں تک تبلیغ کریں گے تو خراب نفس والاکس طرح کرے گا۔

جواب نمبر 19:

ماشاء اللہ بڑی اچھی بات ہے۔ اصل میں ایک دو لفظوں میں تو جواب ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ بہت بڑا chapter ہے۔ اس پہ الحمد للہ ہم نے اپنی فہم التصوف کتاب میں کچھ زیادہ لکھا ہے اس کو آپ پڑھ سکتے ہیں اور چونکہ ہمارا سب کا یہ مسئلہ ہے صرف آپ کا نہیں ہے ہر ایک کا یہ مسئلہ ہے تو تبلیغی جماعت بالکل حق جماعت ہے صرف فرق یہ ہے کہ وہ اپنے domain کو سمجھیں کہ ہمارا domain کیا ہے؟ اگر domain کو نہیں سمجھتے تو پھر بجائے فائدے کے نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہم جماعت میں نکلتے ہیں لوگوں کی اصلاح کے لئے نکلتے ہیں یا اپنی اصلاح کے لئے نکلتے ہیں۔ اپنی اصلاح کے لئے نکلتے ہیں ہمیں تو بزرگ یہی بتاتے تھے۔ اگر آج کل کوئی نئی بات بتا رہا ہو تو مجھے اس کا علم نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بتاتے تھے اپنی اصلاح کے لئے نکلنا ہے تو مقصد اپنی اصلاح ہو گیا اور ذریعہ تبلیغی جماعت ہو گیا یہ مقصد اگر موجودہ تبلیغی طریقے سے پورا ہوتا ہو تو سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے اور اگر نہیں پورا ہو تو پھر کیا کریں پھرکچھ تبدیلی کرنیں۔

سوال نمبر 20:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ، لطیفۂ اخفیٰ 10 منٹ، لطیفہ خفی پر مراقبہ احدیت 15 منٹ یہ ہے۔

جواب نمبر 20:

ابھی اس طرح کر دیں کہ تمام لطائف پر 5، 5 منٹ کا ذکر کریں اور مراقبہ احدیت پورا ہو گی۔ اب آپ یوں کریں کہ لطیفۂ قلب پر مراقبہ تجلیات افعالیہ شروع کر دیں 15 منٹ کے لئے ایسے ہو گا کہ اللہ جل شانہ سب کچھ کرتے ہیں اس کا جو فیض ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب میں اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے ۔

سوال نمبر 2:

لطیفۂ قلب 15 منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔

جواب نمبر 2:

اب اس کو لطیفۂ روح 15 منٹ کا دے دیں اور لطیفۂ قلب 10 منٹ کریں۔

سوال نمبر 3:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ ،لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 15 منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب نمبر 3:

تو اب 10، 10 منٹ لطیفۂ خفی تک اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ کا ان کو بتا دیں۔ جو پہلے نمبر پہ بتایا گیا لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفی 15 منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے تو یہ آپ اس طرح کر لیں کہ آپ ان کو سب کو 10 10 منٹ کر لیں اور مراقبہ احدیت 15 منٹ کا بتا دیں، تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور قلب پر 15 منٹ مراقبہ احدیت۔ تو تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر ہی رہنے دیں اور قلب پر 15 منٹ مراقبہ احدیت مکمل ہو گیا۔ اب اس کو مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ کا جیسے آپ کو بتایا ہے اس طرح بتا دیں۔

سوال نمبر 21:

میری بہن سے صبح کی نماز قضا ہو گئی ہے رات کو allergy کی tablets کھائیں جس کا نشہ چڑھ گیا تھا کیا کریں؟

جواب نمبر 21:

آپ ان کو بتا دیں کہ تین روزے رکھ لیں اگرچہ بیماری ہے لیکن بہرحال اس کے لئے management کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال نمبر 22:

لنڈی کوتل کی طالبات نے ابتدائی وظیفہ پورا کر لیا ہے۔

جواب نمبر 22:

اب ان کے لئے یہ ہے کہ 50، 50 مرتبہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار ان کو بتا دیں اور ساتھ سو مرتبہ اللہ اللہ سب کریں زبان سے۔


آپ کا جو سوال تھا اور جو بنیادی بات میں نے عرض کی تھی کہ اپنی اصلاح کے لئے نکلنا ہے تو اپنی اصلاح کے لئے جو چیزیں ہیں وہ دو ہیں اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش فرمائیں کیونکہ بہت technical چیزیں ہیں، دو چیزیں کرنی ہوتی ہیں اپنی اصلاح کے لئے کرنی چاہے وہ آپ کہیں بھی کر لیں چاہے تبلیغی جماعت میں کر لیں چاہے کسی اور جگہ کر لیں چاہے اپنی سیاست میں کر لیں جہاں پر بھی جائیں گے وہ چیزیں کرنی ہیں اور وہ کیا ہیں؟ نمبر ایک علم حاصل کرنا کیونکہ علم کے بغیر آپ عمل نہیں سکتے، علم حاصل کرنے کے لئے آپ علماء کے پاس جائیں گے۔ تبلیغی جماعت میں آپ کو جو چھ نمبر بتاتے ہیں تو کیا آپ کو پورا علم حاصل ہو جائے گا؟ آپ کو باقی علم بھی حاصل کرنا ہو گا اس کے لئے آپ کو تبلیغ سے باہر کے علماء سے رابطہ کرنا ہو گا یا نہیں ہو گا؟ دوسری بات اصلاح اعمال کیسے کرنی ہے اصلاح اس کو کہتے ہیں کہ جو رکاوٹیں ہیں اس کو دور کرنا ہے اور رکاوٹ نفس و قلب کی دنیاوی محبت ہے تو اس کے لئے آپ کو باقاعدہ اس پر محنت کرنی ہو گی جس کے لئے آپ کو کسی شیخ سے رابطہ کرنا ہو گا اس لیے کہ تبلیغی جماعت میں آپ کو یہ کام نہیں بتائے جاتے آپ کو تبلیغی کام بتائے جاتے ہیں، ان کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن آپ کو اپنی اصلاح کی فکر تو کرنی ہے۔تو اپنی اصلاح کے لئے آپ کسی شیخ کو follow کریں گے اس شیخ سے پوچھ پوچھ کر جائیں گے اس کے بعد تبلیغی جماعت میں بھی جب نکلیں گے تو شیخ کے بتائی ہوئے جو ان کے معمولات ہیں وہ تبلیغی جماعت میں بھی آپ کو کرنے ہوں گے۔ جیسے انسان بیمار ہو اور بیماری میں تبلیغی جماعت میں چل رہا ہو تو دوائی کھائے گا یا نہیں کھائے گا؟ دوائی تو کھائے گا تو اس کے لئے ظاہر ہے وہ اپنے ڈاکٹر سے یعنی اپنے شیخ سے رابطے میں رہے گا اور آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ بعض تبلیغی جماعت والے ان چیزوں پر چونکہ convince نہیں ہیں تو ان کو نہیں کرنے دیتے، یہ غلطی ہے تبھی مشائخ روکتے ہیں تبلیغی جماعت میں جانے سے باقاعدہ مخالفت کرتے ہیں جب وہ ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں تو ان کو اٹھاتے ہیں ذکر کیوں کرتے ہو؟ میرے پاس بڑے case studies ہیں جن کو روکا گیا ہے تو روکنے کی کیا ضرورت ہے؟

جس وقت تبلیغی جماعت کام شروع ہوا تھا اس وقت نظام الدین میں مرکز کے اندر باقاعدہ یہ ذکر کرایا جاتا تھا مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ذکر کیا ہے حضرت دیتے تھے۔ مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ذکر دیا کرتے تھے۔ اب کیوں روکا جاتا ہے کیا مسئلہ ہے تو مسئلہ کچھ لوگوں میں ہے ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ان کو یہ چیزیں سمجھ میں آنی چاہیں کہ بھائی یہ ایک ضرورت ہے جیسے کوئی بیمار ہے اس کی بیماری کی دوائی آپ روک دیں گے تو پھر آپ کیسے ان سے کام لیں گے؟ میں جب کسی کو بتاتا ہوں کہ جماعت میں جاؤ تو ان کو ساتھ بتاتا ہوں کہ اپنا ذکر نہیں چھوڑنا، وہ طریقہ نہیں چھوڑنا، امیر سے پہلے سے بات کر لینا کہ میں تب جاؤں گا کہ آپ مجھے ذکر کی اجازت دیں گے ورنہ نہیں جاوں میں گھر واپس چلا جاتا ہوں اس کی باقاعدہ commitment کر لیں کہ میں تب جاؤں گا جب آپ مجھے ذکر کی اجازت دیں گے نہیں دیں گے تو میں نہیں جاتا کوئی لازمی تو نہیں ہےکہ میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں تو پھر وہ اجازت دیتے ہیں۔ یہاں پر ایک عالم آئے تھے افریقہ سے، بڑی مشکل سے ان کو یہاں آنے کے لئے اجازت باقاعدہ اس نے نیت کی تھی کہ میں ان سے ملوں گایہاں بیٹھے رہے، ان کے سامنے بات نہیں ہو سکی۔ وہ جس وقت ہم نماز کے لئے گئے تو میرے ساتھ مسجد میں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز کے فوراً بعد دوسرے صاحب چونکہ اپنی سنتیں پڑھ رہے تھے تو انہوں نے ہاتھ بڑھایا کہ جی مجھے بیعت کر لیں، اسی وقت وہ بیعت ہو گئے وہ عالم تھے افریقہ سے اس مقصد کے لئے آئے تھے۔ اب ان چیزوں کی اہمیت اگر کوئی نہیں سمجھتا پھر تو مسائل ہوں گے ان چیزون کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس سے آپ کی تبلیغ کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑے گا اگر کوئی اچھے اعمال والا ہو گیا اصلاح اس کی ہو گئی تکبر اس میں نہیں، ریا اس میں نہیں ہے تو کیا تبلیغ خراب ہو جائے گی یا بہتر ہو جائے گی؟ اس کو encourage کرنا چاہیے، ورنہ نہ خود کھیلیں نہ کھیلنے دیں والی بات ہے نہ میں کروں نہ کسی اور کو کرنے دوں، یہ طریقہ غلط ہے تو مسئلہ ان کی طرف سے ہے ہماری طرف سے نہیں ہے۔ ہم تو کہتے ہیں جاؤ تبلیغ میں یہ ایک باقاعدہ پورا میدان ہے اس میدان میں کام کرنا ہے لیکن کام طریقے سے کرنا ہے جس میں آپ کا نقصان نہ ہو فائدہ ہو بلکہ دوسروں کا بھی فائدہ ہو۔ اپنے ہاتھ گندے ہوں تو کسی چیز کو گندے ہاتھوں سے صاف کر سکتے ہیں ظاہر ہے پہلے اپنے ہاتھ دھوئیں گے اس کے بعد اس چیز کو صاف کریں گے ۔ ہمارے پشتو میں اس کے لئے مثال ہے (پهء متیازو باندې غُل وینزل)

یعنی پیشاب سے پاخانہ کو دھونا، تو کیا صفائی اور پاکی حاصل ہو جائے گی؟ تو ان تمام چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے، یہ ساری چیزیں ضروری ہیں۔ (وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ)