عنوانات:
1- خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے، لیکن یہ غیر کے لئے حجت نہیں ہے۔
2- صوفیہ وجودیہ اور علماء کا نزاع محض لفظی ہے۔
3- نبوت ولایت سے افضل ہے اگرچہ اس نبی ہی کی ولایت ہو۔
4- ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ یہ اربابِ سکر (کی خبر) سے ہے۔
5- کمالاتِ ولایت کا درجہ کمالاتِ نبوت سے بہت کم ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے لیکن یہ غیر کے لئے حجت نہیں ہے
دفتر اول مکتوب نمبر 31 میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خطائے کشفی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے لیکن یہ غیر کے لئے حجت نہیں ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ان میں سے خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے کہ ملامت اور عتاب (ناراضگی) اس سے دور کر دی گئی ہے۔ بلکہ ثواب کے درجوں میں سے ایک درجہ ثواب اس کے حق میں ثابت ہے خطائے کشفی و خطائے اجتہادی کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ مجتہد کی تقلید (پیروی) کرنے والے مجتہد کا حکم رکھتے ہیں اور خطا کے واقع ہو جانے پر بھی ثواب کے درجوں میں سے ایک درجہ پا لیتے ہیں، بر خلاف اہل کشف کی پیروی کرنے والوں کے کہ وہ معذور نہیں ہیں اور خطا کے واقع ہونے پر ثواب کے درجہ سےمحروم ہیں۔ کیونکہ الہام اور کشف (صاحبِ کشف کے علاوہ) دوسرے شخص پر حجت نہیں ہے اور مجتہد کا قول دوسرے شخص (یعنی مقلد) پر حجت ہے. پس پہلی تقلید (یعنی اہلِ کشف کی تقلید) خطا کے احتمال کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اور دوسری (یعنی مجتہد کی تقلید) خطا کے احتمال کے باوجود جائز بلکہ واجب ہے۔
تشریح:
یہ حضرت نے انتہائی اہم علمی نکتہ بیان فرمایا ہے۔ اصل میں تصوف اور طریقت کی بنیاد یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کی تکمیل ہو۔ شریعت ہم تک دو طریقوں سے پہنچی ہے: قرآن اور سنت۔ قرآن و سنت کا فہم ’’فقاہت‘‘ کہلاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ فقہاء مجتہدین حضرات کو نصیب فرماتے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ پیغمبر نہیں ہوتے، لہٰذا ان کی سمجھ میں دونوں باتیں ہو سکتی ہیں، ان کی سمجھ صحیح بھی ہو سکتی ہے جس کو ’’صواب‘‘ کہتے ہیں، اور غلط بھی ہو سکتی ہے جس کو ’’خطا‘‘ کہتے ہیں۔ مجتہد کی صواب والی بات پر اس کو دو اجر ملتے ہیں اور بعض کے نزدیک دس اجر ملتے ہیں اور خطا والے اجتہاد پر اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ گویا خطا کی صورت میں بھی وہ کم از کم ثواب سے محروم نہیں ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ بعینہ اسی طرح کشف بھی علم کا ایک ذریعہ ہے، لیکن علم کا یہ ذریعہ اس بات کا پابند ہے کہ اس کو شریعت کے مطابق ہونا چاہئے، شریعت کے مخالف نہیں ہونا چاہئے۔
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک کتاب کے اندر کوئی مسئلہ لکھا ہوا ہے، جو قرآن پاک کی کسی آیت یا حدیث شریف سے مستنبط ہے۔ اسے ڈھونڈھنے کے لئے ہمیں پوری کتاب کو دیکھنا ہو گا۔ لیکن اگر کسی شخص کو کشف ہو جائے کہ وہ مسئلہ فلاں صفحے پر لکھا ہے، تو اس کے لئے آسانی ہو گئی، لیکن مسئلہ میں کوئی فرق نہیں آیا، مسئلہ تو کتاب کا ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کو دوسرے طریقہ سے پتا چل گیا۔ بعینہ اسی طرح کشف کے ذریعے سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اگر کشف سے حاصل شدہ علم حق کے مطابق ہو، تو اس پہ عمل بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ شریعت کے مطابق ہے۔ اور اگر اس میں خطا ہو یعنی شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس کی تقلید واجب نہیں ہے، کیونکہ کشفی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ مجتہد کی تقلید تو نفس کے شر سے نکلنے کے لئے واجب ہے کہ کہیں نفس کی تقلید نہ ہو، اس لئے کسی ایک مجتہد کی تقلید واجب ہے، لیکن صاحبِ کشف کی تقلید واجب نہیں ہے۔ کشف صرف اسی صورت میں قابلِ عمل ہو گا، جب وہ شریعت کے مطابق ہو۔ لیکن اگر صاحبِ کشف کے اجتہاد میں خطا ہو جائے، تو وہ معذور ہو گا، جب کہ خطائے اجتہادی میں مجتہد ماجور ہوتا ہے۔
اب میں آپ کو اس کا طریقۂ کار بتا دوں کہ اس میں ہوتا کیا ہے۔ شیخ اکبر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے دور میں اپنا کشفی اجتہاد کیا اور کشفی مسائل مستنبط کئے۔ ایک پورا نظام بنا دیا۔ اس میں جو باتیں صحیح ثابت ہوئیں، ان پہ ان کو دو اجر ملے ہوں گے اور اگر بعد میں کوئی بات غلط ثابت ہو گئی تو اس پہ بھی ان کو ایک اجر مل گیا ہوگا۔ لیکن جب پتہ چل گیا کہ ان کے کشفی اجتہاد میں کچھ غلطی ہے تو کیا میں اب بھی اس کو مانوں گا؟ نہیں، جب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ وہ اجتہاد ٹھیک نہیں ہے، تو اب میں نہیں مانوں گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ان کو غلطی پہ بھی نہیں کہوں گا اور ان کی بزرگی کا انکار بھی نہیں کروں گا۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے سائنسدان سائنس میں اینٹ پر اینٹ اور پتھر پر پتھر رکھتے ہیں اور معاملہ آگے بڑھتا ہے۔ جنہوں نے کہا کہ زمین چپٹی ہے، وہ بھی سائنسدان تھے۔ اور وہ جو اَب کہہ رہے ہیں کہ زمین گول ہے، یہ بھی سائنسدان ہیں۔ اگر زمین کو چپٹی قرار دینے والی سائنس نہ ہوتی، تو اس کو گول کہنے والی سائنس بھی نہ ملتی، کیونکہ پتھر پہ پتھر رکھا گیا ہے اور تحقیق پر تحقیق ہو رہی ہے۔ پس کیا میں ان کو سائنس سے نکال سکتا ہوں، جو پہلے والے سائنس دان تھے؟ بالکل نہیں، بلکہ ان کا ذکر بھی کتابوں میں موجود ہے۔ ہم سب ان کو چھوٹے نہیں بلکہ بڑے سائنس دان مانتے ہیں۔ لیکن ان کی ان باتوں کو صحیح نہیں مانتے، بلکہ آج کل کی تحقیق کو صحیح مانتے ہیں۔ پس یہ کشف والا معاملہ تقریباً سائنس جیسا ہی ہے۔ البتہ سائنس اور اس میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ چونکہ دین کے لئے ہے، اس لئے اس میں ثواب اور عدم ثواب کا معاملہ ہے، لیکن سائنس میں یہ چیز نہیں ہے۔ اس میں تو دنیا کا فائدہ ہے، بس دنیا کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن حضرات نے اجتہاد کیا ہے اور اپنے اجتہاد سے ایک نتیجے تک پہنچے ہیں، بعد میں اگر اس کے خلاف ثابت ہوا ہے، تو ہم ان کی برائی نہیں کریں گے، لیکن ان کی اس بات کو بھی نہیں مانیں گے، بلکہ آخری بات جو صحیح ہو گی، اس کو مانیں گے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ میں یہی بات تھی کہ انہوں نے شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی بعض باتوں پر تنقید کی ہے اور خوب ڈٹ کر کی ہے، لیکن ان کی بزرگی سے انکار نہیں کیا، بلکہ ان کو بڑے اونچے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اعتدال اسی کو کہتے ہیں۔
صوفیہ وجودیہ اور علماء کا نزاع محض لفظی ہے:
دفتر دوم کے مکتوب نمبر 44 میں حضرت فرماتے ہیں۔
متن:
صوفیہ وجودیہ اور علماء کا نزاع محض لفظی ہے. جاننا چاہئے کہ صوفیائے کرام میں سے جو لوگ وحدتِ وجود کے قائل ہیں اور اشیاء کو عینِ حق تعالیٰ دیکھتے ہیں اور "ہمہ او ست" کا حکم لگاتے ہیں، ان کی مراد یہ نہیں کہ اشیا حق جلّ و علا کے ساتھ متحد ہیں اور تنزیہ تنزل کر کے تشبیہ بن گیا ہے اور واجب ممکن ہو گیا ہے اور بے چون چون کے ساتھ آ گیا ہے، کیوں کہ یہ سب کفر و الحاد اور گمراہی و زندقہ ہے، وہاں نہ اتحاد ہے، نہ عینیت اور نہ تنزل ہے، نہ تشبیہ، وہ سبحانہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ پس وہ ایسی پاک ذات ہے جو کائنات و موجودات کے حدوث اکوان (نئے تغیرات) سے اپنی ذات و صفات اور اسماء میں متغیر نہیں ہوتا۔ وہ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی اسی صرافت اطلاق (مطلق محض ہونے کی صفت) پر ہے اور وہ وجوب کی بلندی سے امکان کی پستی کی طرف مائل نہیں ہوا۔ بلکہ "ہمہ او ست" کے معنی یہ ہیں کہ اشیاء نہیں ہیں اور وہ ذات تعالیٰ و تقدس موجود ہے۔
تشریح:
یعنی سب اشیاء کالعدم ہیں۔ ساری کی ساری اشیاء عدم سے اللہ کے حکم کے ذریعہ پیدا ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ چیزیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا جن لوگوں پہ الله جل شانهٗ کی ذات مستولی ہوتی جاتی ہے اور انہیں جس قدر حضوری حاصل ہوتی جاتی ہے، اتنا اتنا یہ اشیاء ان کی نظروں سے غائب ہوتی جاتی ہیں۔ لیکن اشیاء غائب ہونے سے وہ خدا نہیں بن جاتیں۔ حضرت کے دوسرے مکتوبات شریفہ کو دیکھ لیں اور اس مکتوب کو دیکھ لیں۔ وہاں جو سختی تھی، وہ بضرورت تھی۔ لوگوں کو غلطی سے نکالنا مقصود تھا، ورنہ حضرت کا اپنا اصل مسلک یہی ہے۔ اور کیسے دفاع کیا ہے۔ اس بات کو غلط طریقے سے سمجھنے کو الحاد بھی کہا ہے، زندقہ بھی کہا ہے، سب کچھ کہا ہے، لیکن ان لوگوں کو نکال لیا۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ اگر انہوں نے واقعی اس کو فلسفہ بنایا، تو یہ الحاد و زندقہ ہے اور اگر صرف حال کے درجہ میں ہے، تو وہ کالعدم ہے۔ لہٰذا ان کے اوپر الحاد و زندقہ کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، وہ معذور ہیں۔ یہ بات حضرت اپنے بہت سارے مکتوباتِ شریفہ میں بیان کر چکے ہیں۔
متن:
منصور نے جو "انا الحق" کہا تو اس کی مراد یہ نہیں ہے کہ میں ہی حق ہوں اور حق کے ساتھ متحد ہوں کیونکہ یہ کفر ہے اور اس کے قتل کا موجب ہے، بلکہ اس کے قول کے یہ معنی ہیں کہ میں نہیں ہوں اور حق سبحانہ موجود ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ صوفیہ اشیاء کو حق تعالیٰ و تقدس کے ظہورات جانتے ہیں اور کسی قسم کے تنزل کی آمیزش اور تغیر و تبدل کے گمان کے بغیر (اشیا کو) اس سبحانہ کی اسماء صفات کے آئینے خیال کرتے ہیں۔
تشریح:
یعنی اس سے الله جل شانهٗ کے اسماء کا ظہور ہوتا ہے۔
متن:
جس طرح اگر کسی شخص کا سایہ دراز ہو جائے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سایہ اس شخص کے ساتھ متحد ہے اور عینیت کی نسبت رکھتا ہے، یا وہ شخص تنزل کر کے ظل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے بلکہ وہ شخص اپنی صرافت اصالت (خالص اپنی اصل) پر ہے اور ظل اس سے کسی تنزل و تغیر کے بغیر وجود میں آیا ہے۔
تشریح:
اگر ہم ایک شخص کے آگے ہزار آئینے لگا دیں اور ہزار آئینوں میں وہ نظر آئے، تو وہ کتنا بڑا ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ وہ اتنا ہی رہے گا۔ ٹیلی ویژن اسٹیشن میں آدمی بیٹھا ہوتا ہے اور ایک لاکھ ٹیلیویژن sets پر نظر آ رہا ہوتا ہے، تو اس میں کچھ بھی فرق نہیں پڑتا، وہ ویسا ہی رہتا ہے۔ ہاں اس کی نقل اصل کی طرح لوگوں کو نظر آ رہی ہے۔ صرف یہی چیز ہے۔ اگر آپ کی مخالف پارٹی کا لیڈر تقریر کر رہا ہے اور آپ غصہ میں ٹیلی ویژن کو مکا مار دیں، تو اس شخص کے چہرے پہ مکا نہیں لگے گا بلکہ آپ کا ہاتھ زخمی ہو سکتا ہے، کیونکہ ٹیلی ویژن کا شیشہ آپ کے ہاتھ میں گھس جائے گا، اور یہ آپ کی حماقت کی سزا ہو گی۔ اسی طرح الله جل شانهٗ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ یہ چیزیں اس کے اوپر کوئی اثر نہیں ڈالتیں۔
متن:
البتہ بعض اوقات ان لوگوں کی نظر سے کمال درجہ محبت کے باعث اس سایہ کا وجود پوشیدہ ہو جاتا ہے جنھوں نے اس شخص سے کمال درجہ کی محبت پیدا کرلی ہے اور اس شخص کے سوا ان کو کچھ مشہود نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت یہ کہہ دیں کہ ظل اس شخص کا عین ہے یعنی ظل معدوم ہے اور وہ شخص موجود ہے اور بس۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ صوفیہ کے نزدیک اشیا حق تعالیٰ کے ظہورات ہیں نہ کہ حق جل سلطانہ کا عین۔
تشریح:
”عین“ کا لفظ بار بار آ رہا ہے، اس سے کوئی پریشان نہ ہو۔ اس کا مطلب وہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں ”بعینہ“ یعنی ”عین وہی چیز“۔ اردو میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
متن:
پس اشیاء حق تعالیٰ سے ہوئیں نہ کہ حق جل شانہ ہیں۔ پس ان کے اس کلام "ہمہ اوست" کے معنی "ہمہ ازوست" ہوں گے جو کہ علمائے کرام کے نزدیک مختار ہیں، اور علمائے کرام و صوفیہ عظام کثَّرَھُمُ اللّٰہ سبحانہ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامِ (اللہ سبحانہ قیامت تک ان کی کثرت فرمائے) کے درمیان حقیقت میں کوئی نزاع ثابت نہیں ہو گا اور دونوں اقوال کا انجام ایک ہی ہو گا۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ صوفیہ اشیا کو حق تعالیٰ کے ظہورات کہتے ہیں اور علما اس لفظ سے بھی اجتناب کرتے ہیں تاکہ حلول و اتحاد کا وہم پیدا ہونے سے بچیں۔
تشریح:
یعنی علماء کرام اس لفظ سے بھی بچتے ہیں کہ کہیں حلول و اتحاد کا وہم نہ پیدا ہو۔ در اصل علماء حال کی بات نہیں کرتے، علماء ہمیشہ قال کی ہی بات کرتے ہیں اور قال میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر قال میں گنجائش ہو گئی، تو وہ فلسفہ ہو جائے گا، پھر اس کی دلیل نص سے لانی پڑے گی، جبکہ یہ چیزیں منصوص نہیں ہیں۔ لہٰذا علماء اس معاملہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر عالم محقق ہو اور ان چیزوں کو جانتا ہو، جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ عالم بھی تھے اور ما شاء اللہ صوفی بھی تھے، ان احوال کو جانتے تھے، لہٰذا حضرت نے ان پہ حکم نہیں لگایا، لیکن تشریح ضرور کر دی۔ علمائے محققین جتنے بھی ہیں، جیسے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، یہ سب حضرات علمائے محققین ہیں۔ علماء بھی ہیں اور محققین بھی ہیں۔ ان حضرات نے اپنی تحقیق کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور ان میں تطبیق پیدا کی۔ جیسے ابھی آپ کے سامنے تطبیق ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس سے لوگوں کو وہ وہم نہیں ہوتا، جو علماء کی باتوں سے ہو سکتا ہے۔ اگر علماء علمی لحاظ سے یہی باتیں کرنے لگیں، تو یہ نہ صرف وہم بلکہ اس سے بڑھ کر فتنہ بن جائے گا، لہٰذا علماء ان چیزوں سے بچتے ہیں۔ ان کا کام ایسی باتیں کرنا نہیں ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ ان کے درمیان نزاع لفظی ہے یعنی علماء وہ الفاظ استعمال کرنا نہیں چاہتے۔ اور صوفی چونکہ حال کے غالب ہونے کی وجہ سے اس پہ قادر نہیں ہیں، لہٰذا انہوں نے ایسے الفاظ استعمال کر لئے، لیکن معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔ جو عالم کہہ رہا ہے، وہ بھی وہی بات ہے، جو صوفی کہہ رہا ہے۔ فرق صرف اپنی اپنی حالت اور اپنی اپنی ذمہ داری کا ہے۔
ایک بہت اہم بات عرض کرنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح طور پہ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ابھی حال ہی میں کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک صاحب نے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف منسوب ایک قول پیش کیا، جو حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں موجود ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: ”اہلِ محبت کی اکثر باتوں کو لوگ کفر سمجھتے ہیں“۔
اس پر میں نے عرض کیا کہ ایسا تب ممکن ہے، جب وہ اہلِ محبت معذور ہو، وہ حال کی بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ حال کے درجہ میں معذوری ہوتی ہے۔ تو جیسے یہ کہنے والا معذور ہے، اسی طرح ان کو کافر کہنے والے بھی معذور ہیں۔ محققین تو صاحبِ حال لوگوں کی کسی ایسی بات پر ان کو کافر نہیں کہتے، لیکن اگر کوئی اپنے علم کی وجہ سے کہہ دے کہ یہ بات غلط ہے، تو اس کی بھی معذوری ہو سکتی ہے۔
اس پر انہوں نے کہا کہ نہیں، یہ اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے مقام کو کوئی نہیں جانتا، اس وجہ سے ان کی بات نہ سمجھتا ہو۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بات کو کوئی نہ جانے، تو اس پر حکم لگا دے کہ یہ غلط ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے صاحبِ حال اور ایک ہوتا ہے صاحبِ مقام۔ صاحبِ حال عروج کے حال میں ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی طرف انتہائی طور پر متوجہ ہوتا ہے، مخلوق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اس پہ غلبۂ حال ہوتا ہے۔ اب وہ اللہ کی طرف متوجہ ہے، مخلوق کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں، لوگ تو ان کے خیال میں ہی نہیں ہوتے، تو وہ لوگوں کے بارے میں کیا خیال کریں گے۔ لہٰذا یہ غلبۂ حال ہوتا ہے اور غلبۂ محبت میں حال کے درجہ میں ایسی باتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے حضرت نے ابھی بیان فرمایا۔ لیکن صاحبِ مقام سے ایسی باتیں نہیں ہوتیں۔ صاحبِ مقام کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نزول کرا دیا جاتا ہے اور واپس بھیجا جاتا ہے۔ جن کو نزول کرا دیا جاتا ہے، ان کو لوگ نظر آنے لگتے ہیں۔ ان کا علم دوبارہ واپس آ جاتا ہے، پھر انہیں لوگوں کا خیال بھی کرنا پڑتا ہے، یہ بات سامنے رکھنی ہوتی ہے کہ لوگ کسی بات سے کیا مطلب لیتے ہیں۔ لہٰذا کوئی تب صاحبِ مقام ہوتا ہے، جب وہ تمام لوگوں کا خیال رکھ سکے۔ اور پھر جس درجہ کا کسی کا نزول ہو گا اسی درجہ میں وہ لوگوں کا زیادہ خیال رکھے گا کہ کوئی میری کسی بات سے گمراہ نہ ہو جائے۔ وہ اپنی بات کو بہت محتاط اور معتدل پیرائے میں بیان کرے گا، تبھی تو وہ صاحبِ مقام کہلائے گا۔ اور اگر اس کی بات سے لوگوں کو شک پڑنے لگے، تو یہ اس کے مقام میں کمی کی دلیل ہے کہ وہ لوگوں کا خیال نہیں رکھ سکا، لہٰذا صاحبِ مقام سب چیزوں کا خیال کرے گا۔ کبھی اس کا قول ایسا ہو گا ہی نہیں کہ جس میں کوئی کفر کا حکم لگا سکے۔ کفر کا حکم تو اس پر لگے گا، جو لوگوں کا خیال نہیں رکھ سکے گا۔ جیسے مخلوق میں آپ ﷺ سے زیادہ اونچا مقام کسی کا نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے جو بھی باتیں کی ہیں، وہ عام سے عام آدمی کی بھی سمجھ کے مطابق ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اتنا زیادہ خیال رکھا ہوتا ہے اور ایسے آسان پیرائے میں بات فرماتے تھے کہ عرب کے بالکل اجڈ اور بدو لوگ بھی جان لیتے تھے۔ آپ ﷺ ان کی سمجھ کے مطابق بات فرماتے تھے۔ تو جن کا مقام زیادہ اونچا ہوتا ہے، ان کی باتیں اتنی ہی زیادہ سمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں۔ اور جس کا مقام حال کے درجہ والا ہوتا ہے جو ابھی عروج میں ہوتا ہے اس کی بعض باتیں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ یہ ہے بنیادی بات۔ عموماً لوگ مقام کی باتوں میں گڑبڑ کرتے ہیں۔ عروج کا مطلب یہ ہے کہ ان کو راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ تعلق نصیب فرما دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر لوگوں کے لئے نزول کرایا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کی خدمت وہ تبھی کر سکے گا جب لوگوں میں ہو گا، لوگوں کی تمام چیزوں کو جانتا ہو گا اور اس کے مطابق بات کر سکے گا۔ یہ جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا تھا کہ پھر وہ روح کے ذریعہ سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعہ سے دیتا ہے۔ وہ یہی بات ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مقام شخص لوگوں کے تمام اشکالات اور تمام باتوں کا خیال کر کے بات کرتا ہے۔ جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے مقام والے تھے، سید الطائفہ تھے۔ وہ کب اس قسم کی بات کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو سمجھ نہ آئے۔ حضرت اس مسئلہ میں بہت خیال رکھتے تھے۔ اور ہمارے جتنے بھی بڑے اکابر ہیں، وہ سب بہت خیال رکھتے تھے کہ لوگ گمراہ نہ ہوں اور لوگوں کو نقصان نہ ہو۔ یہ بنیادی بات ہے۔
نبوت ولایت سے افضل ہے اگرچہ اس نبی ہی کی ولایت ہو
دفتر اول مکتوب نمبر 108 میں حضرت فرماتے ہیں:
متن:
نبوت ولایت سے افضل ہے، اگرچہ اس نبی ہی کی ولایت ہو۔
تشریح:
یہ ایک نزاعی لفظ ہے۔ اس پہ کچھ لوگوں کی آراء ہیں۔
متن:
بعض مشائخ نے سکر کی حالت میں کہا ہے کہ "ولایت نبوت سے افضل ہے"۔ اور بعض دوسرے مشائخ نے اس ولایت سے نبی کی ولایت مراد لی ہے تاکہ نبی پر ولی کے افضل ہونے کا وہم دُور ہو جائے۔
تشریح:
اچھے لوگ بزرگوں کو بچانے کے لئے کچھ بات اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ بزرگوں پہ طعن کریں گے، اس لئے وہ کوئی بات بنا لیتے ہیں۔ نیت اچھی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن دین کو بچانا بزرگوں کو بچانے سے زیادہ ضروری ہے۔ پہلے آپ دین بچائیں گے، کیونکہ بزرگ دین کے تابع ہیں۔ اس لئے پہلے دین کو بچاؤ۔ جن لوگوں پہ شریعت کی بات مستولی (غالب) نہیں ہوتی، ان سے اس قسم کی بات ہو جاتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ مشائخ نے یہ سکر کی حالت میں کہا ہے۔ اگر کسی بزرگ نے کوئی ایسی بات کہی ہو، تو اس کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ انہوں نے سُکر کی حالت میں ایسا کہا ہے۔ لیکن بعض مشائخ نے ان کے دفاع میں یہ کہہ دیا کہ اس ولایت سے نبی کی ولایت مراد ہے۔ یعنی گویا کہ نبی کا جو رخ اللہ کی طرف ہے، وہ ولایت ہے اور جو مخلوق کی طرف ہے، وہ نبوت ہے۔ کیونکہ نبی مخلوق کے لئے مبعوث فرمائے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”بُعِثْتُ“۔ چنانچہ نبی مخلوق کے لئے مبعوث فرمائے جاتے ہیں۔ پھر مخلوق کی طرف ان کا رخ ہوتا ہے، وہ مخلوق کا خیال رکھتے ہیں، مخلوق کے اندر دین کو پھیلاتے ہیں، اس لئے ان کا وہ رخ جو مخلوق کی طرف ہے، وہ نبوت ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف رخ ہے، وہ ولایت ہے۔ پہلے کو آپ نزول والا رخ اور دوسرے کو عروج والا رخ کہہ سکتے ہیں۔ ان میں سے نزول افضل ہے۔ اس لئے کہ نزول عروج کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نزول اس پر مزید فضلیت کا باعث ہے۔ جس کا نزول ہوا ہے، اس کا عروج پہلے ہوا ہے تبھی تو نزول ہوا ہے۔ اس کو دونوں مقامات حاصل ہوئے ہیں۔ اور جن کو صرف عروج حاصل ہے، ان کو صرف عروج حاصل ہوا ہے، وہ ابھی راستے میں ہیں، ابھی واپس نہیں گئے۔ لہٰذا جو عروج میں رہ جائے، اس کو مستہلَک کہتے ہیں۔ وہ مخلوق سے کٹ جاتا ہے۔ اور جو عروج سے واپس کر دیا جائے۔ (یاد رکھئے خود سے واپس نہیں ہو سکتا۔ جس نے خود سے واپس ہونے کی نیت بھی کی، تو معاملہ گڑبڑ ہو گیا۔) عروج کے بعد اللہ کی طرف سے واپس کر دیا جاتا ہے۔ جس وقت انسان اللہ کی طرف رخ کرتا ہے اور اس میں خالص لِوَجْہِ اللہ (اللہ کی رضا کے لیے) آگے بڑھتا ہے، پھر جب اللہ اس کو قبول فرماتے ہیں تو پھر خود اس کا رخ مخلوق کی طرف کرتے ہیں۔ اب مخلوق میں اس سے کام لیا جاتا ہے، اس کو نزول کروا دیا جاتا ہے۔
معراج شریف میں آپ ﷺ پہنچا دیئے گئے۔ لیکن پھر جب معراج شریف سے واپس کیے گئے تو پورا کا پورا نظام دے دیا گیا۔ جیسے کہا گیا ہے: ’’اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمِنِ‘‘۔ ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘۔ نماز میں یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، جو کہ عبدیتِ محضہ ہے۔ لیکن یہ اللہ کے لئے ہے، اور یہ معراج شریف کے موقع پر دی گئی تھی، لیکن دی گئی زمین پر نافذ کرنے کے لئے، کہ امت زمین پہ نماز پڑھے گی۔ خلاصہ یہ کہ پہلے مقامِ عروج ہوتا ہے، اس کے بعد نزول کروا دیا جاتا ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
متن:
لیکن حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ نبی کی نبوت اس کی ولایت سے افضل ہوتی ہے، (مقامِ) ولایت میں (ولی) سینہ کی تنگی کی وجہ سے مخلوق کی طرف توجہ نہیں کر سکتا، (لیکن مقامِ) نبوت میں کمال درجہ شرح صدر ہونے کی وجہ سے نہ تو حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا مخلوق کی طرف متوجہ ہونے سے مانع ہے۔ نبوت میں صرف مخلوق ہی کی طرف توجہ نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے ولایت کو، کہ جس کی توجہ صرف حق پر ہوتی ہے نبوت پر ترجیح دیں، عِیَاذًا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہ کی پناہ)۔
صرف مخلوق کی طرف توجہ کا ہونا عوام کالانعام (نا سمجھ لوگوں) کا درجہ ہے، نبوت کی شان اس سے بلند و برتر ہے، اس حقیقت کا سمجھنا ارباب سُکر کے لئے دشوار ہے لیکن اکابر مستقیم الاحوال اس معرفت سے ممتاز ہیں۔
تشریح:
نقشبندی سلسلے کا باقاعدہ ایک سبق ہے: ’’خلوت در انجمن‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان لوگوں کے درمیان رہ کر بھی لوگوں کے درمیان نہ ہو، بلکہ لوگوں سے علیحدہ ہو۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ مثال چشتی بزرگ کی ہے۔ ویسے مثال بہت مفید ہے۔ سبق نقشبندیہ کا ہے اور مثال چشتی بزرگ کی دیتا ہوں۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب کے خلیفہ ہیں۔ دوستوں کے ساتھ جا رہے ہیں، طبیعت ہشاش بشاش تھی۔ ساتھیوں کو لطیفوں پر لطیفے سنا رہے تھے اور ساتھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ جب اپنی منزل پر پہنچ گئے تو ساتھیوں سے پوچھا: آپ میں سے کون غافل ہو گیا تھا؟ ساتھیوں نے کہا: ہم تو سب غافل ہو گئے تھے۔ فرمایا: الحمد للہ میں غافل نہیں ہوا۔ اب دیکھیں! اتنے ساتھیوں کو ہنسا رہے ہیں، لیکن کس لئے ہنسا رہے ہیں؟ ایک ڈیوٹی کے طور پہ ہنسا رہے ہیں۔ آگے جا کر ان کو اللہ تعالیٰ سے ملانا ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جب خلافت ملی، تو انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن و حسین کو بلاؤ۔ انہوں نے سوچا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما تو مسجد میں ہوں گے، وہاں سے بلا لیتا ہوں۔ مسجد چلے گئے، وہاں دیکھا تو حسن و حسین رضی اللہ عنہما نہیں ہیں۔ وہاں ایک بزرگ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا: کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟ کہا: حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو۔ انہوں نے کہا: کاش حسن و حسین مسجد میں ہوتے۔ ان کو تو مسجد میں لانا ہے۔ جب جاگ گئے تو بڑے حیران ہوئے کہ یا اللہ! اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ بعد میں جب تعبیر کھل گئی، تو معلوم ہوا کہ تعبیر یہ تھی کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں، لہٰذا جوانوں کی طرف اشارہ ہے کہ آج کل کا جوان مسجد میں نہیں ہے۔ اس کو مسجد میں لانا ہے۔ پس حضرت کی تشکیل نوجوانوں کی تربیت کے لئے ہو گئی۔ پھر حضرت یونیورسٹی میں ہوتے تھے اور نوجوانوں کی تربیت فرماتے تھے۔ اب نوجوانوں کی تربیت جیسے ہوتی ہے، ویسے ہی کرنی ہوتی ہے۔ حضرت کے ہاں ہر وقت محفل زعفران زار (ہنسی مزاق کی محفل) بنی ہوتی تھی۔ لوگ ہنس رہے ہوتے تھے اور گپ شپ لگا رہے ہوتے تھے، اسی گپ شپ میں حضرت سمجھا رہے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ایک شادی کی محفل میں تشریف لے گئے، ہم بھی حضرت کے ساتھ تھے۔ ایک ساتھی ذرا سخت مزاج کے تھے۔ جیسے بعض لوگ مزاج کے سخت ہوتے ہیں، اعتراض میں ذرا جلدی کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ غصے ہو کر باہر آئے اور کہنے لگے: یہ کیسے شیخ ہیں، خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں، یہ کوئی طریقہ ہے! میں نے کہا: خیال رکھو، حضرت کے سامنے جو بیٹھے ہوئے ہیں، یہ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ ہیں۔ دنیا کی ہر بد معاشی کر سکتے ہیں۔ اگر حضرت نے چند لطیفوں پر ٹرخا کر ان کو اپنی مجلس میں بٹھا لیا، ان کو دین دار بنا دیا تو اچھا کام کیا یا برا کام کیا؟ میں نے کہا: یہ تو حضرت کا نظام اس طرح ہے کہ اس طریقہ سے ان کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ خیر! ان کو اس وقت پتا نہیں بات سمجھ آئی یا نہیں، بہر حال وہ چپ ہو گئے۔ لیکن بعد میں وہ حضرت کے ایسے عاشق ہو گئے کہ پھر حضرت کو دیکھے بغیر ان کا وقت ہی نہیں گزرتا تھا۔ میں یہی عرض کرتا ہوں کہ در اصل اللہ والے دیکھنے میں لوگوں کے درمیان ہیں، لوگوں کے اوپر محنت کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے، کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ مسجد میں بیٹھ کر کسی کونے میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا بہت آسان ہے، لیکن عین فسق و فجور کی جگہوں پہ رہ کر آپ فسق و فجور میں نہ ہوں، اللہ کے ساتھ ہوں، یہ بہت مشکل کام ہے۔ اور یہ مشکل کام ہر ایک سے نہیں لیا جاتا۔ یہ کام ہر ایک کے ذمہ نہیں ہوتا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ خود سے واپس ہونا جائز نہیں ہے۔ جن کو واپس کر دیا جاتا ہے، ان کو کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک یہ کام نہیں کر سکتا۔ جیسے اکثر میں عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی اپنے محبوب کے ساتھ بیٹھا ہو اور اس کو محبوب کہہ دے کہ جاؤ، بازار سے میرے لئے فلاں چیز لے آؤ۔ محبوب کے پاس کوئی اور شخص بھی بیٹھا ہوا ہے، وہ بھی مُحِب کی صورت میں بیٹھا ہوا ہے، لیکن اس کے دل میں خیال آیا کہ مجھے کیوں نہیں بھیجا؟ کاش! مجھے بازار بھیج دیتے تو میں بازار سے وہ چیز لے آتا۔ تو جس نے کہا کہ کاش مجھے بازار بھیج دیتے۔ یہ بظاہر بیٹھنے کے قابل ہی نہیں ہے، کیونکہ اس کا دل بازار میں لگا ہوا ہے، محبوب کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے اس کو بھیجنا ہی نہیں چاہئے۔ اس کو بھیجیں گے، تو وہ بازار کا ہو جائے گا۔ جب کہ جس کو بھیجا جا رہا ہے، اس پہ یقین ہے کہ یہ یہاں بھی میرا ہے اور بازار میں بھی میرا ہی ہو گا۔ وہ بے شک بازار جا رہا ہے، لیکن اس کا دل بازار میں نہیں ہے۔ اس کا دل اپنے محبوب کے ساتھ لگا ہوا ہے اور وہ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچ رہا ہے کہ اس کے لئے یہ لے لوں اور اس کے لئے وہ لے لوں۔ بظاہر تو وہ ساری چیزیں دنیا کی کر رہا ہے، لیکن اس کا دل اُدھر ہے۔ وہ ضرور واپس آئے گا۔ بس یہی بات ہوتی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام بدرجۂ انتہا اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں، اگرچہ مخلوق میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جن امتیوں کو یہ کام سونپا گیا ہوتا ہے، وہ بھی نبی کی اتباع میں ایسا ہی کرتے ہیں۔
’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ یہ اربابِ سکر (کی خبر) سے ہے۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 251 میں فرماتے ہیں۔
متن:
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ یہ اربابِ سکر(کی خبر) سے ہے جو اولیاء غیر مرجوع میں سے ہیں۔
تشریح:
غیر مرجوع یعنی جن کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا، وہ معذور ہیں۔ کیونکہ وہ ابھی حال میں ہیں، ابھی وہ مقام پہ نہیں آئے۔ ابھی وہ صاحبِ مقام نہیں ہیں۔
متن:
اور جن کو مقامِ نبوت کے کمالات سے زیادہ حصہ حاصل نہیں ہے۔ اور آپ کی نظر سے گزرا ہو گا کہ فقیر نے اپنے بعض رسائل میں تحقیق کی ہے کہ ’’نبوت ولایت سے افضل ہو۔‘‘ اگرچہ اسی نبی کی ولایت ہو، اور حق (سچی بات )بھی یہی ہے۔ اور جس کسی نے اس کے خلاف کہا ہے وہ مقامِ نبوت کے کمالات کی نادانی کی وجہ سے کہا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
تشریح:
یعنی مقامِ نبوت کو جانتا نہیں ہے۔
کمالاتِ ولایت کا درجہ کمالاتِ نبوت سے بہت کم ہے
دفتر دوم کے مکتوب نمبر 46 میں حضرت فرماتے ہیں:
متن:
کمالاتِ ولایت کا درجہ کمالاتِ نبوت سے بہت کم ہے یعنی ولایت کے کمالات، نبوت کے کمالات کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے اور ذرہ کی آفتاب کے مقابلے میں کیا حقیقت ہے۔
تشریح:
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو انسان خود نہیں سمجھ سکتا۔ وہ صرف جاننے والوں کی بات سن کر ہی جان سکتا ہے۔ خود ان کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ مثلاً: نماز ہے۔ نبی کی بھی نماز ہے، صحابی کی بھی نماز ہے اور ولی کی بھی نماز ہے۔ کیا تینوں ایک جیسی ہیں؟ کیا نبی کی نماز میں زیادہ سجدے ہوتے ہیں؟ کیا زیادہ رکوع ہوتے ہیں یا کوئی زیادہ قرات ہوتی ہے؟ نبی کی نماز میں تو یہ حالت ہے کہ بچوں کی آواز سن کر نبی اپنی نماز کو مختصر کر لیتے تھے۔ گویا نماز میں بھی لوگوں کا خیال ہے۔ اور ہمارے ہاں بعض حضرات کا یہ حال ہے کہ چونکہ جمعہ کی نماز میں لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو بعض لوگ دھوپ میں بھی کھڑے ہوتے ہیں، لیکن امام مسجد کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دھوپ میں کھڑے لوگوں کا خیال کرے اور یہ سوچے کہ میں نے نماز مختصر کرنی ہے۔ وہ اس وقت پورے جوش کے ساتھ نماز پڑھا رہے ہوتے ہیں، اپنا سارا جوش اس میں نکال رہے ہوتے ہیں۔ یہی فرق ہوتا ہے۔ نبی کی نماز کا طویل ہونا یا اس کے ارکان میں کوئی فرق ہونا، یہ بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ جو لِلّٰہیت کا مقام ہے اور ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنے کا خیال ہے، وہ نبی ہی کر سکتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ﴾ (الفاتحہ: 5)
ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما‘‘۔
میں آپ کو صراطِ مستقیم کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم انگلینڈ گئے تھے۔ لندن میں ایک جگہ ہے Greenwich۔ Greenwich لیبارٹری ہے۔ وہاں ایک بہت بڑی دور بین لگی ہوئی ہے۔ اس دور بین میں باقاعدہ ایک لائن نظر آتی ہے۔ اس لائن کے اوپر انہوں نے بڑی محنت کی ہے۔ وہ لائن اصل میں دنیا کو تقسیم کر رہی ہے یعنی آدھی دنیا اِس طرف ہے اور آدھی دنیا اُس طرف ہے۔ یہ لائن صِفر طول البلد کی نشان دہی کرتی ہے۔ اور by definition جو طول البلد کی لائن آپ کو بہت باریک سی نظر آ رہی ہے، اصل میں وہ بھی صِفر طول البلد کی لائن نہیں ہے۔ اصل میں اس کا بھی انتہائی درمیان کے بھی درمیان والا حصہ وہ صِفر طول البلد کی لائن ہے۔ اسی طرح صراطِ مستقیم کا نبوت والا وہ مقام ہوتا ہے جس میں کوئی بات ذرا بھر آگے پیچھے نہیں ہوتی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھوڑا سا فرق کے ساتھ ہوتا ہے، جیسے ایک موٹی لائن ہوتی ہے۔ وہ صحابہ کا رستہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد امت کا رستہ ایک وسیع سڑک ہوتی ہے۔ چاہے اِدھر سے جاؤ، چاہے اِدھر سے جاؤ، اس میں گنجائش ہوتی ہے۔ اگرچہ گنجائش تو ہمیں بہت دی گئی ہے لیکن ہم نبوت والی باریک لائن کی طرح نہیں ہیں، وہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے نصیب فرمائے۔
اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ نبوت کے مقام تک کوئی صحابی نہیں پہنچ سکتا اور کسی صحابی کے مقام تک کوئی ولی نہیں پہنچ سکتا۔ نبوت کے کمالات کے مقابلے میں ولایت کے کمالات کچھ بھی نہیں ہیں، لیکن بہر حال ہمارے لئے بہت زیادہ ہیں۔ کیونکہ اللہ کا ولی ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ جب اللہ کا ولی ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے، تو پھر نبی ہونا تو بہت اونچی بات ہو گی۔ اس کو تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
الله جل شانهٗ ہمیں ان بزرگ ہستیوں کا ادب نصیب فرمائے اور شریعت پر استقامت نصیب فرمائے۔ کیونکہ یہ سارے کام شریعت پر استقامت کے لئے ہیں۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ صرف شریعت پر ہی عمل ہے۔ جو جتنا بڑا ولی ہو گا، وہ اتنا زیادہ شریعت پر مستقیم ہو گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کی لائن صراطِ مستقیم کے قریب آتی جائے گی۔ لہٰذا ہمارا کام شریعت پر چلنا ہے اور شریعت پر چلنے کے لئے ہی یہ سارا طریقت والا نظام ہے۔ اس میں کوئی دوئی والی بات نہیں ہے۔ بہر حال! انبیاء کرام کی تربیت اللہ پاک فرماتے تھے۔ ان کی تربیت کوئی انسان نہیں کر سکتا تھا۔ اور اولیاء کی تربیت اولیاء کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے پیچھے چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ