سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 489

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مجلس سوال و جواب 48

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے، پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال 01:

آپ نے جو ذکر بتایا تھا "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 100 دفعہ،"لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 100 دفعہ، "حَقْ" 100 دفعہ اور "اَللہ" 100 دفعہ، اس ذکر کو کرتے ہوئے تیس دن ہو گئے ہیں، مزید راہنمائی فرمائیں۔

جواب 01:

اب آپ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 200 مرتبہ، "حَقْ" 200 مرتبہ اور اَللہ" 100 مرتبہ کیا کریں، یہ بھی تیس دن کے لیے ہے۔

سوال 02:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی اور لمبی عمر عطا فرمائے. حضرت جی! الحمد للہ میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں، اللہ کے فضل سے 313 کا معمول بھی شروع کر لیا ہے. حضرت آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب 02:

اللہ جل شانہ آپ کو وہاں پر سلامت رکھے، ہر قسم کے مشکلات سے بچائے اور دین کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال 03:

السلام علیکم حضرت جی! ذکر کے سلسلے میں ہدایت فرمائیں۔ میں پانچویں ذکر یعنی "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَقْ" 600 مرتبہ اور اَللہ 100 مرتبہ کر رہا ہوں۔ اس ذکر کو بھی ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔


جواب 03:

اب آپ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ،" حَقْ" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 300 مرتبہ، ایک مہینہ کر لیجئے گا۔


سوال 04:

السلام علیکم حضرت جی!

I have a lot of vices that bother me but since doing بیعت with you, I have complete trust that you will guide me through stages of سلوک to overcome these. I believe that my relationship with الله جل شانہٗ and his loved and chosen one has a profound impact on my تزکیہ. I have been doing some wrong things over the years. I tried to overcome these but still sometimes, I have some difficulties to stop my sins especially when there are circumstances available for it. when I make searches for sources to avoid these things, I feel bad for it but I am doing this. what to do?

جواب 04:

دراصل آپ ذرا جلدی یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے کام اتنے جلدی نہیں ہوا کرتے، میری بات کا مقصد یہ ہے کہ لوہا سخت ہوتا ہے، اس کو آپ اپنے ہاتھ سے نہیں موڑ سکتے جب تک که آپ اس کو گرم نہ کریں، جب اس کو گرم کریں گے تو پھر اس کے بعد آپ اس کو معمولی force کے ساتھ بھی موڑ سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے لوہے کو گرم کرنا پڑتا ہے، لوہے کو گرم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کو خود کیفیتِ جذب حاصل کرنی ہو گی۔ کیفیتِ جذب سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے کوئی بھی کام کرنے کے لیے وہ مشکل محسوس نہ کرے. بے شک وہ پروسس for the time being ہوتا ہے لیکن اس وقت تو ہوتا ہے. مثال کے طور پر لوہا جب تک گرم ہوتا ہے اس وقت اس کو جس طرح ڈھالنا چاہئیں ڈھل جاتا ہے. وہ ہمیشہ تو گرم نہیں ہوتا بعد میں ٹھنڈا بھی ہو جاتا ہے، تو اسی گرم حالت میں آپ اس سے اگر کام لیں تو وہ مستقل ہو جاتا ہے، جب وہ ٹھنڈا ہو گیا تو مستقل ہو گیا۔ تو یہی جذب اور سلوک والی بات ہے، چنانچہ آپ نے سلوک کی بات تو کی لیکن وہ جذب والی بات آپ گول کر گئے ہیں، اس وجہ سے آپ کو پہلے جذب حاصل کرنا ہو گا اور اس کے لیے جو ذکر اذکار آپ کو بتائے جائیں ان ذکر اذکار کو مستقل مزاجی کے ساتھ کرنا ہو گا.

اب مثال کے طور پر آپ لوہے کو گرم کرنے کے لیے دس منٹ بھٹی میں ڈالیں، اس کو گرم کریں، پھر ایک گھنٹہ چھوڑ دیں، پھر دس منٹ گرم کریں اور آدھا گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں، پھر آپ گھنٹہ گرم کریں، پھر چھوڑ دیں، تو اس سے آپ کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ میں آپ کو اس کی دوسری مثال دیتا ہوں. اگر آپ کنواں کھودنا چاہتے ہیں یا یوں کہہ لیں که بور کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف دو سو فٹ پر پانی ہو تو آپ پچاس پچاس فٹ کے سو بور بھی کریں گے پھر بھی پانی نہیں نکلے گا، کیونکہ پچاس پچاس فٹ کی گہرائی میں تو پانی ہے ہی نہیں۔ آپ سو بور بھی کر لیں گے، ہزار بھی کر لیں گے، لاکھ بھی کر لیں گے پھر بھی پانی نہیں نکلے گا۔ آپ کو ایک بور دو سو فٹ سے زیادہ کرنا ہوگا، اس کے بعد پانی نکلے گا۔ اسی طریقے سے جذب حاصل کرنے کے لیے آپ کو مستقل محنت اور ہمت کرنی پڑے گی۔ پھر اگر جذب حاصل ہو گیا تو اس سے کام لینا پڑے گا، یہ نہیں که پھر اس کو چھوڑ دیں۔ دراصل یہ دنیا اللہ جل شانہ نے اسباب کے ساتھ آباد فرمائی ہے اور اسباب کو اللہ تعالیٰ نے ہی موثر بنایا ہے۔ لہذا اسباب کو ہم avoid نہیں کر سکتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں تو ہم اسباب مانتے ہیں، لیکن دینی کاموں میں اسباب نہیں مانتے، وہاں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خود بخود ہو جائیں گے۔ نہیں! جیسے دنیا کے لیے اسباب ہیں اس طرح دین کے لیے بھی اسباب ہیں، ہر چیز کے اپنے اپنے اسباب ہیں۔ ایک آدمی کہتا ہے جی میرا دل بڑا صاف ہے لیکن نماز مجھ سے نہیں پڑھی جاتی، تو ایں خیال است و محال است و جنوں۔ مطلب یہ کہ انسان خواہ مخواہ اپنے آپ کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے۔ جیسے آدمی کہتا ہے میرا دل بہت چاہتا ہے لیکن کام کاج کرنے کو جی نہیں چاہتا پتا نہیں مجھے کیوں فائدہ نہیں ہو رہا، تو لوگ اس کو کہیں گے؟ تم پاگل ہو گئے ہو۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس کے اسباب اختیار کرنے پڑیں گے اور ہمت کرنی پڑے گی۔ یہ پیغام ہے آپ کے لیے کہ آپ کو جو ذکر اذکار دیئے جا رہے ہیں اس کو دل جمعی کے ساتھ کرنا ہے اور ناغہ نہیں کریں گے، کیونکہ ناغہ بڑا خطرناک ہوتا ہے، ناغوں پہ لوگ اتنا زیادہ سوچتے نہیں، ناغہ سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ شیطان ناغہ اس لیے کراتا ہے کہ دو تین دفعہ جب ناغے کرا دے تو پھر اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم سے یہ کام نہیں ہو سکتا، یہ تیرا کام نہیں ہے۔ ہمیشہ کے لیے آپ کو اس کام سے کاٹ دے گا۔ اس وجہ سے ناغہ نہیں کرنا، ہمت کرنی ہے۔ جیسے دنیا کے لیے تم محنت کرتے ہو آپ کو کم از کم اتنی محنت تو کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى)(الأعلى:17-16) "تم ترجیح دیتے ہو دنیاوی زندگی کو آخرت پر حالانکہ آخرت اچھی بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے"۔ اللہ تعالیٰ تو زیادہ چاہتا ہے، لیکن آپ کم از کم دنیا کے برابر تو اس کو value دو ناں۔ جیسے دنیا کے لیے محنت کرتے ہو اس طرح آخرت کے لیے بھی محنت کرو پھر کچھ ہمت بندھے گی، اس طرح گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں، ہمیں اس کو اچھی طرح سمجھنا پڑے گا۔


سوال 05:

حضرت! میرا نام فلاں ہے، آج میں نے اپنے شوہر سے بہت بحث کی ہے، جس پر ہمیشہ کی طرح بہت افسردہ ہوں، لیکن وہ بات ہی ہمیشہ ایسی کر دیتے ہیں۔ میرے میکے والے ان کے رشتہ دار ہیں، ان کے رویہ میں فرق ہے۔ اس بحث پر وہ مذاق میں بھی اور کبھی سنجیدہ بھی مجھے باتیں سناتے رہتے ہیں، ان کی باتیں بہت ٹھیک بھی ہوتی ہیں، لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ ان کی شکایت نے میرے اندر بہت زیادہ احساسِ کمتری کو بڑھایا ہے، اس کا انہیں شاید احساس نہیں ہے یا پھر پروا نہیں ہے۔ ان کی اکثر میٹھی بات بھی طنز لگتی ہے۔ اب مجھے بتائیں کہ اپنے معاملات کو کیسے ٹھیک کروں؟ اتنا صبر کیسے لاؤں یا صبر پیدا کرنے کے لیے صبر کہاں سے لاؤں؟ ابھی اس وجہ سے میرے سر میں درد شروع ہو گیا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔


جواب 05:

اس پر میں نے لکھا تھا کہ اس کا جواب مجلس میں ہی دیا جائے گا، اس نے کہا تھا کہ اس کا جواب مجلس میں نہ دیں تو اچھا ہے، تو میں نے کہا اس کا جواب مجلس میں دیا ہے کیونکہ آپ جیسی بے وقوف بہت ساری عورتوں کا مسئلہ ہے جو مفت کا جھگڑا اپنے سر مول لینا چاہتی ہیں۔ اس وجہ سے آپ کو یہ جواب مجلس میں ہی دوں گا کیونکہ نام تو میں لیتا نہیں ہوں، لہذا کسی کو کیا پتا کہ کس کا مسئلہ ہے، لیکن چونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے، لہذا مجھے یہ کہنا پڑے گا۔ ابھی ان کا پیغام آیا ہے کہ حضرت میں نے اپنے رویے کی اپنے شوہر سے معافی مانگ لی ہے اور انھوں نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ الحمد للہ سبحان اللہ دیکھو فائدہ ہو گیا، لیکن اب دوسروں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے ناں۔ لہذا دوسروں کو تو بتانے کے لیے ضرور بتانا پڑے گا، جیسے ان کو فائدہ ہوا۔ وہ یہ ہے کہ اول تو بد گمانی ٹھیک نہیں ہے (إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ) (حجرات:12) جب تک آپ کو یقین نہیں ہو کہ وہ یہ بات اس وجہ سے کر رہا ہے تو آپ بد گمانی کی وجہ سے کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، یہ عام لوگوں کے ساتھ بات ہے۔ جہاں تک اپنے ازدواجی تعلقات کی بات ہے اس میں پھر خاص لوگوں کی بات ہوتی ہے اور خاص یہ ہوتا ہے کہ شیطان اس چیز کے پیچھے پڑا ہوتا ہے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے، یہ گھر تباہ ہو جائے، اس کے پیچھے مسلسل لگا رہتا ہے۔ تو اس کی اس scheme کو ناکام بنانے کے لیے دونوں طرف سے کوشش کرنی پڑے گی اور جذباتیت سے نکل کر عقلمندی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ دو باتیں بہت ضروری ہیں۔ اب یہ ہے کہ بعض لوگوں کے مزاج ایسے ہوتے ہیں، وہ جگت باز ہوتے ہیں، چوٹ کرتے رہتے ہیں، مطلب ان کا مزاج اس طرح ہوتا ہے، ان کے ساتھ انسان اپنے آپ کو adjust کر لیتا ہے، کہ وہ ہے ہی اس طرح، بلکہ اس کو انجوئے کریں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مرید کا خط آیا کہ حضرت میری بیوی مسلسل بولتی رہتی ہے، جس سے میں بہت تنگ ہوتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا تم اس کو شیطان کا مینا (چڑیا) سمجھو، تو مینا سے تو کوئی ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس پہ خوش ہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ جو باتیں مینا کر رہی ہوتی ہے، تو بے شک وہ گالیاں بھی دے رہی ہوتی ہے، تو اس سے کوئی نا خوش تو نہیں، کیونکہ گالیاں اس کی پڑتی تھوڑی ہیں۔ وہ تو اس کو جو پٹی اس نے پڑھائی ہوتی ہے، وہ پٹی وہ پڑھ رہی ہوتی ہے، اس کو یہ تو پتا نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ اس طریقے سے آپ اس کو شیطان کی مینا سمجھیں، کہ شیطان نے اسے جو باتیں بتائی ہیں وہ مسلسل کہے جا رہی ہے۔ تو اس کا خط آیا کہتا ہے الحمد للہ مجھے بہت فائدہ ہوا اب مجھے کوئی tension نہیں ہوتی وہ جو کہہ رہی ہوتی ہے میں اس کو شیطان کی مینا سمجھ کے ignore کرتا رہتا ہوں۔ اب دیکھو کیسا طریقہ بتایا۔ تو اس طرح ایک طرف کا حضرت نے بتایا دوسری طرف کا میں بتا دیتا ہوں کہ آپ اس کو سمجھیں کہ ان کا مزاج ہی ایسا ہے اور آپ نے تو اپنے اخلاق سے اس کو اپنا بنانا ہے؛ کیونکہ اس کی عصمت آپ کے ساتھ وابستہ ہے اور آپ کی عصمت اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ (هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ) (البقرة: 187) ہمارے لیے تو ان کا معاملہ ایسا ہے، تو ایسی صورت میں تو بہت زیادہ محتاط رہنا پڑے گا کہ کہیں یہ معاملہ بگڑ نہ جائے۔ کیونکہ لباس اٹھ جائے تو بے پردگی ہے، اس وجہ سے ہمیں بہت زیادہ خیال رکھنا پڑے گا۔ جہاں تک احساسِ کمتری کی بات ہے تو احساسِ کمتری دنیا کی محبت سے آتی ہے، دنیا کی محبت کو آپ جتنا کم کریں گی اتنا احساس کمتری آپ کی کم ہو گی۔ احساس کمتری میں اور تواضع میں basic فرق یہی ہے کہ تواضع اللہ جل شانہ کی عظمت کے استحضار کی وجہ سے آتی ہے کہ اللہ بڑے ہیں اور میں کچھ بھی نہیں ہوں لہذا اللہ جل شانہ نے جو مخلوق بنائی ہے اس کے سامنے میں کچھ بھی نہیں ہوں میری تو کچھ بھی حیثیت نہیں ہے۔ تو یہ اس استحضار کے ساتھ جو چیز آ رہی ہے یہ تواضع ہے۔ اور احساس کمتری یہ ہے کہ آپ کو جو کوئی چیز پسند ہے اور آپ دوسرے میں دیکھ رہی ہیں اور اپنے آپ پہ نہیں دیکھ رہیں، تو آپ کو احساس کمتری ہو رہی ہے۔ اب اگر دنیا کی محبت آپ کے دل سے نکل جائے تو خود بخود یہ چیز نکل جائے گی۔ لہذا احساس کمتری اس نے پیدا نہیں کی، احساس کمتری آپ کی سوچ نے پیدا کی ہے۔ اپنی سوچ بدل لیں احساس کمتری ختم ہو جائے گی۔ اور جو آپ نے صبر کی بات ہے، یہ تو آپ نے ایسی بات کی کہ اس پہ کیا کہوں، مثال کے طور پر کوئی مجھے کہہ دے که میں کب تک کھانا کھاتا رہوں گا، تو میں اس کو یہی جواب دوں گا، کہ کھانا تو پڑے گا جب تک آپ زندہ ہیں، ﴿إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿سورة البقرة: 153﴾ تو کیا آپ کو اللہ پاک کی معیت نہیں چاہیے؟ اللہ تعالیٰ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر ہی تو پورا دین ہے۔ صبر اس کو کہتے ہیں کہ جس چیز کا اللہ نے حکم دیا ہے اور آپ کا نفس اس پہ تنگ ہے تو اس تنگی کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اور اس حکم پہ عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے آپ کو روکا ہے اور آپ کا نفس اس کی طرف للچا رہا ہے، تو اس کی اس لالچ سے اور حرص پر صبر کرنا اور اس کو نہ ہونے دینا یہ صبر ہے۔ تو مجھے بتائیں پورا دین ہی صبر ہے، آپ کس کس چیز کو کہیں گے صبر میں کب تک کروں گی، صبر تو عمر بھر کرنا پڑے گا، جب تک دنیا ہے اس وقت تک صبر ہے، جب تک زندگی ہے اس وقت تک صبر ہے۔ یہ تو اللہ پاک نے ہمیں بڑی مشقتوں سے بچایا ہوا ہے ورنہ اس پہ بھی صبر کرنا پڑتا، ابھی جو ہم سانس لے رہے ہیں، الحمد للہ! ہمیں کوئی مشقت نہیں، پتا بھی نہیں چل رہا کہ ہم سانس لے رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے الحمد للہ ہمارا دل چل رہا ہے، پتا بھی نہیں چل رہا کہ دل چل رہا ہے، پتا چلنا شروع ہو جائے تو ڈر شروع ہو جاتا ہے۔ تو اللہ پاک نے اس کو آسان کر دیا ہے۔ نیند رات کو آ جاتی ہے اللہ پاک نے اس کو آسان کر دیا۔ مجھے بتائیں جن کو نیند نہیں آتی ہے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ تو یہ اللہ پاک نے جو آسانیاں دی ہیں اس پر شکر کریں اور جو احکامات دیئے ہیں اور آپ کا نفس اس کے لیے مزاحمت کر رہا ہے تو اس پر صبر کر لیں اور اس نفس کی بات نہ مانیں۔ بس اسی سے آپ کو ماشاء اللہ عروج نصیب ہو گا۔ جس سے آپ کو اللہ جل شانہ بندگی کی وجہ سے معرفت نصیب فرمائیں گے اور عروج نصیب فرمائیں گے۔ لہذا آپ اس کو کرتی رہیں، اس پہ آپ تنگ نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو شریعت پر مستقل طور پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔


سوال 06:

السلام علیکم! مہینہ ہو گیا ہے ذکر میں دھیان ادھر ادھر ہو جاتا ہے، concentration نہیں رہتی؟


جواب 06:

بعض لوگ کھانا کھاتے ہیں اور کسی چیز میں مصروف ہوتے ہیں، ان کا خیال ادھر ادھر جا رہا ہوتا ہے لیکن وہ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے کھانا چھوڑا اس کے لیے، چھوڑا ہو تو مجھے اطلاع کر دیں، میری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔ تو بس یہاں پر بھی اس طرح کرو کہ یہ معاملہ ہمارا ہے، اس کو کرنا ہے، دھیان ادھر ادھر جاتا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں، اس کی کوئی وجہ ہے، اس کی وجہ کو آپ نے خود دور کرنا ہے۔ جیسے کھانے کے دوران اگر کوئی سوچتا ہے (جو اختیاری ہے) تو نہ سوچے، جو سوچ خود بخود آ رہی ہے وہ مجبوری ہے، لیکن اس کے لیے کھانا تو کوئی نہیں چھوڑ رہا۔ اسی طریقے سے آپ بھی اپنے ذکر کو کرتے رہیں، اس کے اندر بالکل ذرہ بھر بھی کمی نہ کریں، ہاں البتہ جو اختیاری طور پر خیالات ہیں ان کو آپ اختیاری طور پر دور کریں، جو غیر اختیاری ہے اس پہ صبر کریں، اس کی پروا نہ کریں، اس پر اللہ تعالیٰ اجر دے گا ان شاء اللہ۔

سوال 07:

السلام علیکم!

My name is فلاں from district فلاں. I am under training at فلاں center. Please send me the first ذکر with a proper time table so that I can do ذکر properly during my training. Got your number from Mr. فلاں

جواب 07:

ماشاء اللہ آپ کی طلب کو دیکھ کر میرا دل خوش ہوا اللہ تعالیٰ آپ کو اس طلب کے بہترین نتائج نصیب فرمائے۔ ابتدائی ذکر یہ ہے کہ آپ 300 دفعہ تیسرے کلمے کا پہلا حصہ سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُ لِلہ وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَاللہ أَكْبَرُ اور 200 دفعہ لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم۔ اس کے لیے کوئی وقت مقرر کر کے چالیس دن باقاعدگی کے ساتھ اس وقت پہ کرنا شروع فرما لیں، ناغہ بالکل نہ ہونے دیں کیونکہ اس میں ناغہ ہوتا ہے تو پھر دوبارہ کرنا پڑے گا۔ اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے تو ان شاء اللہ اگلے اذکار پہ چلنا آپ کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔ فی الحال آپ اس کو شروع فرما لیں، ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ، 34 دفعہ اللہ اکبر، 3 دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درودِ ابراہیمی، 3 دفعہ استغفار اور 1 مرتبہ آیت الکرسی، یہ بھی آپ عمر بھر کے لیے شروع فرما لیں۔ پہلا والا تو چالیس دن تک ہی ہے، اس کے بعد آپ نے مجھے بتانا ہے، لیکن یہ عمر بھر کے لیے چلے گا، ان شاء اللہ۔


سوال 08:

السلام علیکم حضرت جی، مجھے ایک سوال نے کافی دیر سے کشمکش میں ڈالا ہوا ہے۔ اسباب اور اللہ پر مکمل یقین۔ اصل سوال تو اسباب کے بارے میں ہے کہ کون سے اسباب پر کس حد تک عمل کرنا ہے، یعنی اپنے شعبے میں یا پھر ہمیں اپنے جائز کام کے لیے تعلقات بنانے پڑتے ہیں، اگر تعلقات نہ ہوں تو کام نہیں ہوتا یا دیر سے ہوتا ہے یا پھر مشکل سے ہوتا ہے اور کبھی کبھار اللہ کی طرف سے ہو بھی جاتا ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ایسے تعلقات بنانے چاہئیں جس میں لوگوں سے غرض ہو کہ میرے دنیا کے جائز کام اس سے ہو جائیں گے، البتہ امید تو اللہ تعالیٰ سے ہی ہو گی، لیکن اس کے سبب کے طور پر استعمال کریں گے یا پھر دوسری صورت؟ بہرحال پھر ہم لوگ اس غرض سے تعلقات سرکاری طریقے سے ہونے دیں جس میں بہت کم چانس ہے کہ آپ کا وہ کام ہو، کیونکہ وہ لوگ جب تک کوئی reference نہ ہو ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔ آج کل معاشرے میں normal بات بن چکی ہے، میرے ساتھ بھی ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے کہ لوگوں سے تعلقات بناؤں تو کام تو ہو جاتے ہیں، نہیں تو کام پھنس جاتے ہیں۔ پھر یہ سوچتا ہوں کہ مجھے صرف اور صرف اللہ پر یقین رکھنا چاہیے اور لوگوں سے اس غرض سے تعلقات نہیں بنانے چاہئیں، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ امید تو اللہ تعالیٰ سے ہے، میرا کام بھی جائز ہو تو اگر جائز کام اس طرح نہ کروں، تو کہیں میں اسباب کو چھوڑ تو نہیں رہا؟ مجھے اندازہ نہیں کہ میں اپنی پوری بات کو آپ کو صحیح سمجھا سکا ہوں یا نہیں، لیکن میں اپنا ایک زاویہ بنانا چاہتا ہوں جس پر عمل کر سکوں، لیکن کہیں بے اعتدالی کی وجہ سے غلط فیصلہ نہ کروں اس وجہ سے کافی تذبذب کا شکار ہوں۔


جواب 08:

ماشاء اللہ آپ نے ایک بہت اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ مجھے اس کو سمجھنے کی اور اس کو صحیح طریقے سے آپ کے لیے بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرے پاس ایک مثال ہے، مثال سے میں ان شاء اللہ شروع کرتا ہوں اور وہ مثال ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم الانساب کے بہت ماہر تھے، یعنی نسبی رشتے حضرت کو بہت معلوم ہوتے تھے۔ تو مکہ مکرمہ میں باہر کے قبیلوں کے ساتھ جب ملاقات ہوتی تو حضرت ان سے پوچھتے کہ آپ کہاں کے ہیں، تو وہ بتاتے فلاں جگہ کے ہیں، آپ کون سے قبیلے کے ہیں، تو قبیلہ بتا دیتے آپ کے والد صاحب کا نام کیا ہے، تو وہ بتا دیتے، بس پھر حضرت کو information ہو جاتی کہ یہ کون سی چیز ہے، link مل جاتا پھر حضرت اپنے شجرے کے ساتھ ان کے شجرے کو اس طرح پوری تفصیل کے ساتھ ملا دیتے کہ آپ ہمارے فلاں طریقے سے تعلق والے ہیں۔ تو ظاہر ہے تعلق والوں کے لیے تو نرمی پیدا ہو جاتی ہے، تو پھر ان کو دین کی دعوت دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسباب کو اختیار کر سکتے ہیں، یہ جائز اسباب ہیں۔ البتہ ایک تو اس میں مقصد پیش نظر ہونا چاہیے کہ کس لیے، دوسری بات یہ ہے کہ کیسے؟ جائز طریقے سے یا ناجائز طریقے سے؟ اور پھر یقین اللہ پر ہو کہ اللہ چاہے گا تو ہو گا۔ تو یہ تین باتیں اس میں ضروری ہیں۔ میرے خیال میں سوال کا جواب تو ہو چکا ہے، اب صرف تفصیل کی ضرورت ہے باقی بات تو پوری ہو چکی ہے کہ اسباب اختیار کرنے ہیں، بس اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ جائز کام کے لیے ہو اور ناجائز طریقے سے نہ ہو۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے تو میرے خیال میں office کا جو کام ہے یہ بھی ہماری duty ہے، اگر وہ جائز کام ہے تو جائز کام کے لیے جائز طریقے سے تعلقات بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یقین اللہ پر ہو کہ اللہ چاہے گا تو ہو گا نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔ یہ بات ضروری ہے، البتہ باتوں کے کھیل نہیں بنانے چاہیے، بعض لوگ باتوں کا کھیل بناتے ہیں یعنی اصل بات کو آگے پیچھے رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے سامنے ایسا شیشوں کا آسمان بنا دیتے ہیں، تو اس سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے پیچھے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ تو غلط بات ہے، اس طرح کرنا ٹھیک نہیں ہے، اس طرح لوگوں نے بڑے experts رکھے ہوتے ہیں اپنی کمپنیوں میں بالخصوص بینکوں میں special اس کے لیے لوگ hire کئے ہوتے ہیں اور وہ باقاعدہ لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں، بڑی بڑی کمپنیوں کی دعوت کرتے ہیں اور بڑے سرمایہ داروں کی دعوت کرتے ہیں، ان کو پارٹیوں پہ بلاتے ہیں اور پھر ان کے پیچھے لوگ لگاتے ہیں۔ مجھے خود ایک آدمی ملا تھا جس کی duty ہی یہ تھی۔ کراچی میں تھے تو اس نے کہا تھا کہ ہمیں training یہ دی گئی تھی کہ کسی اور کو بات نہیں کرنے دینا مسلسل بولتے رہنا ہے، یعنی اس کو سوچنے کی مہلت نہیں دینی اور وہ لگے رہتے تھے، جو انہوں نے dinner وغیرہ دیا ہوتا تھا پھر ٹھیک نہیں ہے، کیوں اصل بات یہ ہے کہ کسی کے ساتھ دھوکہ کر کے اپنا کام کرنا یہ تو جائز نہیں ہے، لیکن اگر آپ کے فائدے میں اس کا بھی فائدہ ہے تو پھر تعلق بنانے میں کون سا مسئلہ ہے؟ اگر جائز مقصد کے لیے ہو، جائز طریقے سے ہو اور بھروسہ اللہ جل شانہ پر ہو۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔


سوال 09:

ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے اسلامی posts send کیا کریں، مجھے اسلامی groups میں add کریں۔


جواب 09:

ضرور، آپ کی خدمت ہم کریں گے ان شاء اللہ، بس تھوڑی سی خدمت آپ ہماری کر دیں کہ اپنا مکمل تعارف کرا دیں کیونکہ تعارف ان چیزوں کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تعارف ہو جائے کہ آپ کو واقعی اس سے فائدہ ہو رہا ہے، تو اس میں ہماری خوشی بھی ہے اور آپ کا بھی فائدہ ہے۔ اور اگر ہمیں پتا چل جائے کہ نہیں ویسے ہی بات ہے، تو پھر اس groups میں آپ کو پتا ہے محدود تعداد ہوتی ہے، تو خوامخواہ ایک seat کو بند کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہم معلومات حاصل کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کس مقصد کے لیے آپ ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں؟ یہ چیزیں ہمیں معلوم ہونی چاہئیں تو پھر کیوں نہیں؟ ہم نے گروپ بنایا ہی اس لیے ہے کہ اس میں ہم طلب کرنے والوں کو add کریں۔


سوال 10:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، آمین! آپ کی برکت سے ایک سوال ذہن میں آیا اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی محبت اور تعلق ہر جگہ سے اور ہر چیز اور چاروں طرف سے محسوس ہوتی ہے، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی چاروں طرف سے محسوس ہو سکتی ہے؟ کیونکہ لگتا ایسے ہے کہ مدینہ منورہ کی کوئی سرحد نہیں اور چاروں طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت موجود ہے؟


جواب 10:

محبت ایک جذبہ ہے اور جذبہ کی کونسی direction ہوتی ہے، مغرب سے آتی ہے، مشرق سے، شمال سے، جنوب سے، آسمان سے، زمین سے؟ اس کا تو مقام دل ہے۔ بس اپنے دل میں محبت اللہ کی رکھو، اللہ کے رسول کی محبت رکھو، دونوں کا امر ہے، لہذا دونوں کے ساتھ محبت رکھنی چاہیے۔ (وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ) (البقرۃ:165) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک مجھ سے اپنے والدین سے زیادہ اپنی اولاد سے زیادہ بلکہ سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔ بلکہ فرمایا کہ اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت کرے۔ اس وجہ سے اللہ کی محبت اور اللہ کے رسول کی محبت بہت بڑی دولت ہے۔ اور یہ تو لافانی جذبہ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرما دے، کیونکہ اسی پر تو نجات ہے۔ (وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ) (البقرۃ:1 65) اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنی محبت کے بارے میں تو اس میں ہمیں بہت sincere بھی ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ یہ ہے کہ ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے۔


سوال 11:

حضرت اس مہینے کی کارگزاری پیش خدمت ہے، 200 دفعہ کلمہ نفی اثبات، 200 اِلَّا ھُو، 600 ھو، 200 حَق اور 200 حَق اَللہ اور 100 خاموش اسم ذات۔


جواب 11:

خاموش اسمِ ذات کو آپ تھوڑا بڑھائیں، پانچ منٹ کے لیے کر لیں، باقی چیزیں بیشک جاری رہیں، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ معاملہ تو اتنا بڑھانا ہے اتنا بڑھانا ہے کہ ہر طرف ہمیں اللہ ہی اللہ محسوس ہونے لگے، اس کے لیے ہمیں اس حد تک جانا ہے۔ تو پانچ منٹ اسمِ ذات خاموشی سے اور دل میں اور باقی وہی جاری رکھیں۔


ایک صاحب نے مجھے خط بھیجا ہے، خط کاغذ پر لکھا ہے اور پھر اس کی مجھے تصویر بھیجی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں اس طرح بھیجنے سے اگر صاف لکھا ہو اور صاف پڑھا جائے۔ لیکن اس میں بعض دفعہ بے احتیاطی ہو جاتی ہے۔ بے احتیاطی سے مراد یہ ہے کہ اس کی orientation اس طرح ہوتی ہے کہ پھر صحیح طور پر پڑھا نہیں جاتا یا خط خراب لکھا ہوتا ہے، تو اس وجہ سے میری درخواست یہ ہے کہ جو بھی مجھے لکھے تو اردو کا keyboard سیکھ لیں اور باقاعدہ اسی پہ لکھا کریں۔ آپ کو ابتداء میں تھوڑی تکلیف ہو گی لیکن میں تکلیف سے بچ جاؤں گا جس کی وجہ سے وقت بچ جائے گا ورنہ مجھے بڑا زور اس پہ دینا پڑتا ہے کہ پتا نہیں کیا لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ اس میں تو ایک لفظ ہاں اور نہیں پر بھی بہت تبدیلی ہو جاتی ہے، جیسے مفتیوں کے تبدیلی ہو جاتی ہے۔ مطلب اگر ہاں اور نہیں پر سارا مسئلہ تبدیل ہو جاتا ہے تو مجھے پورا سمجھنا ہوتا ہے، ورنہ پھر یہ رہ جاتا ہے پھر اس چیز کا میں جواب بھی نہیں دے پاتا، کیونکہ جس میں خطرہ ہو تو اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اس وجہ سے آئندہ کے لیے یہ بات خیال میں رکھیں کہ کوئی اس طرح خط نہ لکھے جو پڑھا نہ جا سکے اس میں خط کے لحاظ سے اور orientation کی وجہ سے تو keyboard سیکھ لیں اردو کا اور پھر اس پر لکھا کریں تھوڑی تکلیف تو آپ کو ہو گی لیکن میں تکلیف سے بچ جاؤں گا۔

سوال 12:

السلام علیکم میں فلاں بات کر رہا ہوں فلاں جگہ سے ہوں۔ امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ فجر کے وقت مجھ سے اٹھا نہیں جاتا، بہت عرصہ ہو گیا میری نماز قضاء ہو جاتی ہے، روزانہ میں نیت کر کے سوتا ہوں الارم بھی لگاتا ہوں لیکن پھر بھی نہیں اٹھ سکتا۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ میں کیسے پانچ وقت کا نمازی بن سکتا ہوں۔ اور میں الحمد للہ حافظ قرآن ہوں لیکن دہرائی نہ کرنے کی وجہ سے میری قرآن کی منزل بہت کمزور ہو گئی ہے اور میں نے اب دوبارہ یاد کرنا شروع کیا ہے۔ میں صبح کالج جاتا ہوں اور واپس آ کر عصر کے ٹائم مسجد میں آ جاتا ہوں اور عشاء کی نماز پڑھ کر گھر جاتا ہوں۔ عصر کے بعد بچوں کو سپارہ پڑھا کر اپنی منزل کی طرف توجہ دیتا ہوں اور مغرب کے بعد بھی منزل کو ٹائم دیتا ہوں اور جو یاد کیا ہوتا ہے وہ سناتا ہوں جس کی وجہ سے جو آپ نے مجھے ذکر دیا تھا سات تسبیح والا وہ میں نہیں کر سکا ایک دو دن کیا لیکن پھر دوبارہ نہیں کر سکا جس کی وجہ سے کافی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی اس میں میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اس پریشانی کو کیسے حل کر سکتا ہوں۔


جواب 12:

ایک شخص ڈاکٹر کے پاس گیا، ڈاکٹر نے اس کو دوائی دے دی اور وہ دوائی لے آیا۔ دو مہینے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون کیا، ڈاکٹر صاحب میں بہت مصروف ہوں مجھ سے آپ کی دوائی نہیں کھائی جاتی تو میں کیا کروں اس کا کوئی حل بتائیں۔ وہ ڈاکٹر صاحب جو حل بتائے گا وہ حل میں آپ کو بتاتا ہوں کیونکہ آپ نے میری کسی چیز پہ عمل تو کیا نہیں تو مجھ سے کونسی رہنمائی چاہتے ہیں۔ اب آپ کو بتاؤں گا تو اس کی کیا guaranty ہے کہ آپ اس پہ عمل کریں گے، آخر دوائی کھانے کے لیے تو دوسری دوائی نہیں دی جاتی ہے۔ تو میں آپ کو وظیفہ کرنے کے لیے کوئی اور وظیفہ دوں یہ کس طریقے سے آپ بات کر رہے ہیں۔ خدا کے بندے تھوڑا سا اپنا ذہن بھی لڑائیں، تھوڑا سا سوچیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، سات تسبیح والا ذکر آپ سے نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ آپ بہت مصروف ہیں، تو مزید میں اب کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ اس وجہ سے آپ مہربانی کر کے کسی اور کو شیخ پکڑیں ان سے اپنا علاج کروائیں جو آپ کی مرضی کے مطابق آپ کو مشورہ دے، جو آپ چاہتے ہیں وہی آپ کو بتائیں تو اس سے آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ایسے لوگوں کو فرمایا کرتے تھے میں لاعلاج بیماروں کا علاج نہیں کر سکتا۔ آپ مشورہ کرنا بھی چاہتے ہیں تو آپ اگر اس کو اتنا اہم سمجھتے ہیں تو کم از کم اتنا ٹائم نکال کر خانقاہ آ جاؤ اور پھر مجھ سے discuss کر لو تاکہ میں آپ کی ساری بات سن لوں اور پھر آپ کو بتا سکوں۔ یہ کوئی گپ شپ تو نہیں ہے، آپ کھانے کے لیے ٹائم نکال سکتے ہیں، آپ سونے کے لیے ٹائم نکال سکتے ہیں، آپ شاید رشتہ داروں کے ساتھ ملنے کے لیے بھی ٹائم نکال سکتے ہوں گے، اس ذکر کے لیے آپ ٹائم نہیں نکال سکتے؟ ہمارے بعض لوگ اپنے بچوں کو بزرگوں کے پاس نہیں بیٹھنے دیتے، وجہ کیا ہوتی ہے ان کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔ حقیقت حال کا پتا چل جاتا ہے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اخبار پڑھنے میں، گپ شپ لگانے میں اچھا خاصا وقت وہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے الحمد للہ یونیورسٹی میں دیکھا کہ ہم حضرت کے پاس جاتے، حضرت کے ہاں ہمارا ایک گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے لگ جاتے۔ لیکن ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی فضول چیزوں سے بچایا جس سے ہمارے پانچ چھ گھنٹے بچ جاتے اور اس کا ہمیں بڑا فائدہ ہوتا۔ اب جو لوگ حضرت کے پاس اس لیے نہیں جاتے تھے کہ ان کے وقت کا حرج ہو گا تو وہاں تو وقت ضائع ہو رہا تھا پھر، تو یہ planning کی بات ہے، آپ نے قرآن کی منزل کچی کی ہے وہ بھی with wrong planning کی ہے غلط planning کی وجہ سے ہوئی ہے۔ آپ نے اس وقت بھی کسی سے مشورہ نہیں کیا ہو گا کہ میں اسے کیسے کروں، آخر اس کے لیے لوگ ہوتے ہیں جو اس قسم کی چیزوں کے بارے میں رہنمائی فرماتے ہیں، جس سے آپ نے قرآن پڑھا ہے کم از کم اس سے ہی اس سلسلے میں رابطہ رکھتے کہ میں قرآن اپنا کیسے محفوظ رکھوں تو وہ آپ کو مشورہ دیتا کہ آپ کو قرآن کیسے محفوظ رکھنا ہے تو وقت پر محفوظ ہو جاتا، تو آپ کو یہ tension ہی نہ ہوتی، وہاں پر بھی آپ نے گڑبڑ کی ہو گی تبھی تو قرآن کی منزل کچی رہ گئی ہے۔ اور فجر کی نماز۔۔ اگر آپ کی flight ہو صبح پانچ بجے اور آپ کو airport ایک گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوتا ہے پھر مجھے بتائیں کہ آپ اس flight کو مس کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ کیونکہ آپ کی نیند بہت سخت ہے۔ یاد رکھئے دنیا کی چیزوں کے ساتھ آپ کا جو معاملہ ہے وہ اللہ کو نظر آ رہا ہے اور دین کے احکام کے ساتھ جو آپ کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کو نظر آ رہا ہے اور فیصلہ بھی اللہ پاک نے کرنا ہے۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو سیدھا کر لیں تو ان شاء اللہ سیدھے راستے پہ چل پڑیں گے۔ یہی ہمارے پاس رہنمائی کے اصول ہیں جس کے لیے کوشش کرتے ہیں ہم خود بھی اس پر چلیں اور دوسروں کو بھی اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ


سوال 13:

السلام علیکم حضرت جی میرا ذکر و مراقبہ سینتالیس دنوں سے جاری ہے۔ ذکر و مراقبہ کے لیے رہنمائی فرمائیں! لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ، اَللہ 2000 مرتبہ، اور مراقبہ پندرہ منٹ دل پر روزانہ۔ چالیس دن پورے کئے یعنی بیس دن اندر اور پچیس دن باہر، کیفیت بہتری کی طرف ہے مراقبہ میں توجہ کم ہوتی ہے۔


جواب 13:

آپ اس طرح کر لیں کہ ذکر آپ صرف 500 بڑھا دیں یعنی ڈھائی ہزار مرتبہ کر لیں، مراقبہ وہی رکھیں لیکن اپنی اختیاری کوشش یہ رکھیں کہ صرف اپنی بات کی طرف توجہ رکھیں۔ وہ یہ ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور کسی چیز کی طرف اختیاری توجہ نہ کریں اور زیادہ فکر نہ کریں باقی الحمد للہ یہ جو مجاہدہ ہے اس کو فی الحال ایک مہینہ برقرار رکھنا ہے وہ آخری یعنی پچیس منٹ والا مجاہدہ پھر بعد میں ان شاء اللہ اس کو دیکھیں گے۔ امید ہے ان شاء اللہ العزیز اس سے مزید بہتری آئے گی۔


سوال 14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ، آج الحمد للہ ثم الحمد للہ میں نے اور میری دو بچیوں نے پہلا سوا لاکھ ختم کر لیا درود شریف کا، پچھلے سال سات ربیع الاول کو میں اور فلاں میرے شوہر عمرے کے لیے گئے تھے تو فلاں باجی سے مسلسل رابطے کی وجہ سے یہ عمرہ بہترین رہا خاص کر مدینہ منورہ میں گزرے ہوئے دن، پورا سال ان دنوں کے تصور میں گزرا اور آج کل بہت یاد آتا ہے، روزانہ وہاں ادب سے قدم اٹھاتے تھے، اٹھاتے وقت اذان کے وقت مطلب عموماً ہر موقع پر مدینہ منورہ کی کوئی نہ کوئی بات یاد آتی رہتی ہے، دل بہت کرتا ہے کہ دوبارہ ان جگہوں کی زیارت ہو، اور اگلی دفعہ جب بھی جاؤں تو مدینہ منورہ میں زیادہ دن گزارنے کا ارادہ ہے۔ دعا کی درخواست ہے۔


جواب 14:

ماشاء اللہ یہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا تھا کہ ہندوستان میں رہ کر دل مدینہ منورہ میں ہونا یا مکہ مکرمہ میں ہونا یہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ میں ہو لیکن دل ہندوستان میں ہو۔ ماشاء اللہ آپ کو یہ چیز حاصل ہے، اللہ جل شانہ اس کو مزید بڑھائے اور ہم سب کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے اس کیفیت کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


سوال 15:

السلام علیکم محترم مرشدی! آج صبح کسی نے مجھے فجر کے وقت کا غلط ٹائم بتایا اور میری فجر میں کافی دیر ہو گئی۔


جواب 15:

کہتے ہیں کہ اپنی غلطیوں کو اصلاح کی بنیاد بنانا بہت بڑی عقلمندی ہوتی ہے۔ تو آپ کو جو غلطی لگی ہے تو اس سے اب آپ سیکھ لیں کہ ان چیزوں کا آپ کے پاس خود انتظام ہونا چاہیے۔ آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی آ گئی ہیں جس پہ ٹائم سیٹ ہوتا رہتا ہے جیسے الفجر ہے، اور دوسری کچھ گھڑیاں بھی ہیں جو اتنی مہنگی بھی نہیں ہیں۔ موبائل پر آج کل یہ سارا کچھ ہوتا ہے، تو موبائل پر اس کو set کر سکتے ہیں اور download کر سکتے ہیں اس کی جو time table ہے وہ download کر سکتے ہیں، تو اس کو اپنے ساتھ رکھیں تاکہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آئندہ ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کریں، اس غلطی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔


سوال 16:

السلام علیکم حضرت جی! مندرجہ ذیل اذکار تیس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللہ 400 مرتبہ، اَللہُ اَللہ 600 مرتبہ، اور اَللہ 3500 مرتبہ ذکر کے بعد دل کی طرف پانچ منٹ توجہ کرنا کہ آیا وہ اللہ اللہ کر رہا ہے یا نہیں۔ عرض یہ ہے که آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہے رہنمائی فرما دیں؟


جواب 17:

یہ آپ نے نہیں بتایا کہ وہ اللہ اللہ کر رہا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں بتا دیں تاکہ پھر میں بتا سکوں۔


سوال 18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ! امید ہے کہ اللہ کے فضل سے آپ ان شاء اللہ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی میں فلاں بنت فلاں ہوں، میرا مراقبہ قلب و روح پندرہ پندرہ منٹ کا جاری ہے، دھیان دینے پر ذکر جاری محسوس ہوتا ہے۔ کیا ذکر کا تعلق شہ رگ سے بھی ہے؟ کیونکہ مجھے گلے میں ذکر محسوس ہوتا ہے، کبھی کبھی جب میں کچھ نہ کچھ کر رہی ہوتی ہوں تو دل ذکر شروع کر دیتا ہے۔ تہجد اب دوبارہ سے نہیں پڑھ پا رہی، منزل جدید مناجات اور چہل درود شریف بھی نہیں پڑھ رہی ہوں، کچھ گھریلو مصروفیات کی وجہ سے، درود شریف جاری ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔


جواب 18:

یہ بات آپ نے جو فرمائی ہے یہ تو اچھی بات ہے کہ ذکر کا اثر ہے۔ الحمد للہ! لیکن اس کو استعمال کرنا ہے اور استعمال اس طرح کرنا ہے کہ دھیان اس سے آ جائے، یعنی آپ جیسے مناجات مقبول پڑھ رہی ہیں تو اس میں دھیان ہو، منزل جدید جو آپ پڑھ رہی ہیں تو یہ بھی قرآن ہی ہے، تو اس میں دھیان حاصل ہو، چہل حدیث شریف جو آپ پڑھ رہی ہوں تو اس میں دھیان حاصل ہو۔ باقی یہ ہے کہ تہجد خیر یہ نفل ہے، نہیں پڑھ سکتی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، حالات آپ کے معلوم نہیں ہیں۔ لیکن منزل جدید پڑھنا آج کل بہت اہم ہے کیونکہ آج کل مسائل بہت زیادہ ہیں، تو اس کو تو بالکل نہ چھوڑیں۔ جہاں تک مناجات مقبول ہیں تو اگر آپ نہ پڑھ سکیں تو اس کے لیے عام دعا بھی کر سکتی ہیں اور چہل حدیث شریف میں درود شریف کثرت سے آپ پڑھ رہی ہیں تو اس کی بھی compassion ہو جائے گی لیکن منزل جدید بالکل نہ چھوڑیں اور کوشش کریں کہ تہجد بھی شروع کر سکیں، آج کل اتنا مشکل نہیں رہا کیونکہ اب راتیں لمبی ہو گئی ہیں۔


سوال 19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت آپ کیسے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہمارے سروں پر آپ کے سائے کو قائم رکھے۔ حضرت اپنا حال آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کاروباری آدمی ہوں اور کاروباری دھندوں میں اتنا پھنسا ہوں کہ جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو بس وہی فکریں مجھے گھیرے رکھتی ہیں، کسی کو مال supply کرنا ہے، کسی کو پیسے دینے ہیں، کسی سے مال مانگنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کبھی تو ایک نماز دو دو دفعہ پڑھنی پڑھتی ہے، یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ۔


جواب 19:

مصروفیت کس کو نہیں ہے، ظاہر ہے دنیا میں تو مصروفیت رہتی ہے، لیکن دنیا میں آپ کیوں مصروف ہیں؟ کیونکہ آپ اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں، آپ کو اس کی ضرورت ہے تو آپ پانچ منٹ کے لیے ایک مراقبہ شروع کر لیں کہ کیا مجھے آخرت کی بھی ضرروت ہے یا نہیں ہے؟ اگر آخرت کی ضرورت ہے تو اس کے لیے اسباب کون سے اختیار کریں؟ مثال کے طور پر آپ اپنا کاروبار کر رہے ہیں تو کاروبار کے دوران کبھی آپ کو نماز کا خیال آیا ہے، کبھی تلاوت کا خیال آیا ہے،کبھی ذکر کا خیال آیا ہے؟ تو پھر یہ بھی ہونا چاہیے۔ تو اس میں آپ تصور کر لیں کہ چونکہ مجھے آخرت کی ضرورت ہے اور موت کا کوئی پتا نہیں اور نماز میرے لیے آخرت کو کمانے کا سب سے اعلیٰ طریقہ ہے اس کو میں ضائع نہ کروں۔ ایک تو یہ پانچ منٹ کے لیے سوچیں پھر اس کے بعد جب کھڑے ہوں اللہ اکبر کہتے ہوئے تو اللہ اکبر کہتے ہوئے تصور کر لیں کہ میں نے دنیا کو پیچھے ڈال دیا اس وقت میں اگر سوچوں گا بھی تو دنیا تو نہیں مل سکتی، وہ تو اس وقت میں چاہوں بھی گا تو میں اور کچھ تو کر نہیں سکتا ہوں جب تک میں سلام نہیں پھیروں گا اس وقت تک تو میں نماز ہی میں رہوں گا، لہذا اللہ اکبر کے ساتھ پوری دنیا کو پیچھے ڈالیں۔ اس کے بعد جو نماز کے الفاظ ہیں یعنی قرات کے وہ آپ کچے حافظ کی طرح پڑھیں، یعنی جیسے رواں حافظ نہیں ہوں کچے حافظ کے طرح جیسے سوچ سوچ کے پڑھنا ہو، اور ہر رکن کے ساتھ اس کی دل میں نیت کیا کریں کہ اب میں رکوع میں جا رہا ہوں اب میں سجدے میں جا رہا ہوں، یعنی اپنے ان قلبی اعمال کے ذریعے سے اپنی نماز میں involve کریں اپنے آپ کو۔ فی الحال اس پر عمل کر لیں پھر جو ہو گا تو پھر مجھے بتا دیں گے، تو ان شاء اللہ کچھ اور عرض کروں گا۔

سوال 20:

سنتوں کو عادت بنانا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے، یہ نہ یاد رہتی ہیں نہ مشقت رہتی ہے کرنے کی، پڑھ بھی لوں تو اس میں یکسوئی بھی نہیں ہوتی، کیا کروں؟


جواب 20:

پانچویں جماعت میں ہمارا ایک ٹیسٹ تھا scholarship exam کے لیے، سردی کے دن تھے، بارش بھی ہو رہی تھی، ہم paper میں مشغول تھے، بچے تھے پانچویں جماعت میں بچہ ہی ہوتا ہے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ paper چیک ہو جاتے تھے تو پھر جن کے نمبر ایک خاص range سے کم ہوتے تھے ان کو رخصت کر دیتے تھے کہ اب تم جاؤ۔ جو director school تھا وہ exam لے رہا تھا، وہ ذرا jolly طبیعت کے تھے۔ تو جن کو رخصت کیا کہتے ہیں ماشاء اللہ سردیاں ہیں جاؤ اپنی ماں کے ساتھ گرم گرم روٹی کھاؤ۔ تو میں آپ کو بھی کہتا ہوں بس آپ بھی گرم گرم روٹی کھاؤ، پھر میں اور کیا کہہ سکتا ہوں؟ بھئی یہ چیزیں مشکل یقیناً ہیں۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ ایک وقت میں سنت پہ چلنا ایسا مشکل ہو جائے گا کہ انگارہ جیسا ہاتھ میں لینا ہو یا جیسے کپڑا کانٹوں پر ڈالا جائے اور اس کو کھینچا جائے، لیکن وہ دوسری سنتیں ہیں وہ یہ عام سنتیں نہیں ہیں۔ اگر آپ کھانا سنت کے مطابق کھائیں، مجھے بتاؤ کون ہاتھ پکڑ رہا ہے کہ آپ سنت کے مطابق کیوں کھا رہے ہیں؟ یا کسی government کی طرف سے letter آیا ہوا ہے کہ آپ سنت کے مطابق نہیں کھا سکتے۔ کوئی کہہ رہا ہو تو مجھے بتا دیں اس کے لیے پھر ہم سوچیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ آسان سنتوں پہ عمل شروع کر دیں تو ان شاء اللہ اس سے اگلی مشکل پہ عمل کرنا آسان ہو جائے گا، step wise چلیں، مشکل سنتوں پہ پہلے نہ شروع کریں، آسان سنتوں پہ پہلے عمل شروع کریں، اور جتنے آپ کے لیے آسان ہیں ان پہ آپ عمل کر کے آگے بڑھیں گے تو آپ کو فائدہ ہو گا۔ لیکن یہ ہے، دل کو چھوٹا نہ کریں، سنت پر چلنے ہی میں کامیابی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تمام چیزوں سے گزر کے جو آخری بات فرماتے تھے وہ یہ که بس اب تو دل چاہتا ہے کسی ترک شدہ متروک سنت کو زندہ کر دوں، بس یہی کام اب رہ گیا ہے، باقی جو اسباق و احوال ہیں وہ میں نے اہلِ ذوق کے سپرد کر دیئے۔ اصل تو ہمارا یہی کام ہے، اپنے بڑوں کے پیچھے چلنا چاہیے۔

سوال 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ محترم حضرت! آپ کی دعاؤں سے میرا ذکر و مراقبات کو ایک ماہ مکمل ہو گیا۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400، حَقْ 600، اَللہ 100، حَق اَللہ 500، ھُو 500، اَللہ ھُو 200۔ حق اللہ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق اللہ تعالیٰ سے راضی رہ کر ادا کر رہا ہوں جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے اس پر راضی ہوں۔

مراقبہ تصور کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آرہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب مبارک پر اور شیخ کے دل سے میرے لطیفہ قلب پر۔ اور اس کا شکر ہے کہ الحمد للہ مقدار پندرہ منٹ ہے۔ اس طرح مراقبہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں ان شاء اللہ اس پر چل کر دکھاؤں گا۔

دس منٹ غیبت جھوٹ اور بدنظری پر کنٹرول، اللہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کے فیض کی وجہ سے بچا رہا، الحمد للہ! مگر بد نظری پر وسوسہ اور شک ہے کہ شاید اس ماہ مکمل کنٹرول نہیں تھا، مگر محتاط اندازے کے مطابق کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جو بد نظری ہوئی ہو، پھر بھی مکمل کنٹرول پر کوشش کر رہا ہوں، کمزوری ہے، ان شاء اللہ غصہ پر اس ماہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً کنٹرول رہا۔


جواب 21:

سبحان اللہ! بہت اچھی بات ہے۔ اس کی بجائے اب تھوڑا سا آپ یہ مراقبہ کر لیں کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہے جیسے کہ اس کی شان ہے یعنی جس طرح اللہ جل شانہ کی معیت اللہ سمجھتا ہے اس طریقے سے اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ پندرہ منٹ آپ یہ مراقبہ کریں اور باقی چیزیں بیشک آپ یہی رکھیں۔

یہ بھی آپ مجھے بھیج دیں۔

سوال 22:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! صلہ رحمی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟


جواب 22:

صلہ رحمی ہے کیا چیز، ذرا اس کو دیکھنا چاہیے۔ اصل میں اللہ جل شانہ نے حقوق اور فرائض کا ایک نظام بنایا ہوا ہے، اللہ کے اپنے حقوق ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے حقوق ہیں علماء کے حقوق ہیں مشائخ کے حقوق ہیں چھوٹوں کے حقوق ہیں بڑوں کے حقوق ہیں رشتہ داروں کے حقوق ہیں اور پڑوسیوں کے حقوق ہیں۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ جو ان کے اوپر حقوق ہیں اس کو پورا کرے۔ لہذا سب لوگ اس پر عمل کریں گے تو سب کے حقوق پورے ہوں گے اور سب کے فرائض ادا ہوں گے اور اگر کسی کا حق پورا نہیں ہو رہا لیکن وہ اپنا فرض پورا کر رہا ہے تو اس کو اعلی درجہ ملے گا۔ اس کو اعلی درجہ ملے گا یہ میں نے کیوں کہا؟ کیونکہ آپ نے سوال ہی ایسا کیا ہے۔ صلہ رحمی کا تعلق رشتہ داروں کے ساتھ ہے اور رشتہ داروں کے ساتھ اوپر نیچے بات ہوتی رہتی ہے، عین ممکن ہے کہ آپ کا بھائی آپ کی بہن آپ کے والدین یا اولاد آپ کا حق ادا نہ کر رہے ہوں لیکن آپ اس کا حق ادا کریں، تو یہ ماشاء اللہ پھر اعلی درجے کی صلہ رحمی ہے، اس کو اعلیٰ ظرفی بھی کہتے ہیں اور ایسی حالت میں یہ ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ بہرحال کیسے پیدا ہوتی ہے؟ تو جب اللہ جل شانہ کی محبت اور تقوی حاصل ہو تو پھر صلہ رحمی بھی ساتھ پیدا ہو گی، کیونکہ اللہ کے لیے ہوتی ہے، حقوق اللہ نے بنائے ہوئے ہیں، یعنی اگر آپ صرف غرض کی بنیاد پر کر رہے ہیں تو یہ بڑا محدود نظریہ ہے، مطلب جو آپ کے ساتھ اچھا کر رہا ہو تو آپ اس کے ساتھ اچھا کریں، جیسے یہ شادی بیاہ میں پیسے دیتے ہیں، ان کو بھی پھر لوگ دیتے ہیں۔ آپ نے ایک دن ان کے ہاں کھانا بھیجا انھوں نے آپ کے ہاں کھانا بھیجا۔ مطلب یہ سلسلہ مروت کا جانبین میں جو ہوتا ہے اس کا صلہ رحمی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اس لیے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے تعلق کی بنیاد پر کرے کہ اللہ چاہتا ہے، تو یہ جب آپ کریں گے تو ماشاء اللہ پھر جب تقوی اور محبت اللہ کی نصیب ہو گی تو اس بنیاد پر جو رشتہ داروں کا حق ادا کریں گے یہ صلہ رحمی ہو گی۔ حدیث شریف ہے (أَفْشوا السَّلامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ،وَ صِلُوْا الأرحام وَصَلُّوا باللَّيْل وَالنَّاسُ نِيامٌ، تَدخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلامٍ قال عبد اللہ بن سلام)۔ یہ حدیث شریف ماشاء للہ ہماری معاشرت کی بہترین خبر دے رہی ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ صلہ رحمی بہت بڑی چیز ہے، اس پہ اللہ تعالیٰ بڑے بڑے فیصلے فرماتے ہیں، اور اگر نہ ہو تو اس پر بھی بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ بعض صحابہ اس میں بہت زیادہ آگے تھے جیسے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تو اگر آپ اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ایک تو کوشش کر لیں اور دوسرا میری طرف سے دل میں جو آ رہا ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ایصال ثواب شروع کر دیں، امید ہے کہ ان کا فیض متوجہ ہو تو ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسباب ایسے بنا دیں جس سے آپ کو یہ نصیب ہو جائے۔


سوال 23:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

Dear beloved حضرت صاحب I pray that you and your family are well آمین! I am فلاں university student from Birmingham. I made بیعۃ with you around the beginning of Ramadan 2020. Alhamdulillah I have completed my 30 days ذکر a few days beyond 30 days two hundred times لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ, four hundred times لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو four hundred حق and hundred times اللہ without missing a single day.

Here is the update on my state: Positive changes I feel like I have abstained from sins and feel guilty if I commit sin or go near a sin. I have been abstaining from animate digital pictures for the past two months. I don’t feel any inclination to looking at such videos and pictures any more الحمد للہ. I haven’t touched bad pictures for around the past two months. I don't recall having done any بدنظری for this time. I have tried to decide some of my free time in دینی work to create صدقہ جاریہ projects for myself. I have been working on creating a دینی website that is searchable for islamic question and answers of Deobandi علماء حق in the English language. I am concerned about other people's feelings in the sense that I care that they are not hurt by my words or actions.

Negative points: I made fajr qaza twice this month unintentionally. I have made the three day mujahida fast for one qaza but I have still one left which I hope I will do soon. I have missed the sunnatul mukkada of zuher salah quite a few times this month out of laziness. Last month I also had this problem. I am doing very less quran recitation as compared to before. I have recently o been reading surah kahf on friday and surah mulk only every night. I don't read tahajjud out of laziness. I have been listening to very little of your bayans this month. Maybe round once every two weeks only. I feel like I am mostly in غفلۃ even when I am engaged in worship. I do not feel the connection with Allah or focus on Allah. I wasted a lot of time in the house in futility such as listening to support commentary through audio and reading sports news. No pictures, videos and I sleep around ten hours. But I am sure that I do not need this much sleep. I have started to eat a lot recently and have gained a lot of weight during the covid lock down, perhaps even double I would normally eat. Please instruct me what to do further? Now this month ذکر has been completed 200 400 400 100

جزاک اللہ خیراً۔

جواب 23:

بھائی صاحب! میں آپ کی صاف گوئی کو بڑا appreciate کرتا ہوں۔ الحمد للہ بڑے اچھے طریقے سے آپ نے اپنے احوال بتا دیئے ہیں۔ اس میں جو آپ کے اچھے احوال ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ان کو باقی رکھیں اور اس پر شکر کریں ان کو باقی رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ ان پر شکر کریں۔ ذکر کا جہاں تک خیال ہے تو وہ آپ hundred time اللہ جو پڑھ رہے ہیں اس کو 300 times کر لیں۔ البتہ جو negative points آپ نے خود بتائے ہیں اس میں آپ جو changes کر سکتے ہیں آسانی کے ساتھ وہ بتا دیتا ہوں۔ باقی ان شاء اللہ پھر بات ہو گی، سب سے پہلے یہ بات ہے کہ فجر کی جو قضا ہے آپ نے تین روزے تو رکھ لیے اب تین روزے مزید رکھ لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سنت المؤکدہ میرے خیال میں وہاں پر England میں کچھ لوگ اس طرح کرتے ہیں، آج کل آہستہ آہستہ سنتوں کی طرف سے دھیان ہٹتا جا رہا ہے، تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے، یہ اچھی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ بات ادھر رکتی نہیں ہے۔ یہ وہاں پر کچھ غیر مقلد یا کچھ اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان سے پھر اس قسم کی غلطی ہوتی ہے۔ تو آپ ماشاء اللہ web site دیوبند کا چلا رہے ہیں تو اس وجہ سے آپ اس چیز کو جو کہ دیوبند کا main concern ہے کہ سنتیں رہ نہ جائیں، تو سنت موکدہ کے چھوڑنے کا تو بالکل امکان نہیں ہونا چاہیے، آپ سنت مؤکدہ بالکل نہ چھوڑیں اس پر استغفار کریں، اور توبہ کی نماز پڑھ لیں، اور پھر اس کے بعد آئندہ کے لیے اس سے توبہ کرلیں کہ آپ نہیں کریں گے۔ قرآن کی recitation کی جہاں تک بات ہے تو میں اگر آپ کو کہوں کہ ایک طرف اگر صرف selected Quran surah ہے اور دوسری طرف رواں ہے تو اس میں تین combination بنتی ہیں، صرف رواں قرآن پڑھنا، قرآن رواں پڑھنا کچھ حصہ اور کچھ حصہ سورتیں پڑھنا، اور کچھ حصہ یہ ہے کہ صرف selected سورتیں پڑھنا، تو best تو second condition ہے کہ دونوں کچھ حصہ رواں پڑھ لے جیسے ایک پاؤ پڑھ لیں آپ یا پھر اس کے علاوہ جو selected سورتیں ہیں وہ پڑھ لیں یہ best ہے۔ لیکن اگر first اور third کو آپ compare کریں تو رواں قرآن selected surah سے best ہے کیونکہ رواں قرآن کے اندر ساری آیت مبارکہ کو آپ پڑھ رہے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے آپ تو ڈاکٹر ہیں جیسے minerals کی ضرورت ہوتی ہے باڈی کو، تو آپ کو جس minerals کے ساتھ بہت محبت ہو اور آپ بہت زیادہ لیں اور جن کی آپ کو ضرورت ہے آپ اس کو بالکل باقی چھوڑ دیں تو کیا خیال ہے کتنا فائدہ ہو گا؟ اس وجہ سے رواں قرآن کو آپ second choice رکھنے کی کوشش کریں، کہ پاؤ قرآن پڑھیں اور باقی جو selected surah ہیں وہ آپ پڑھ لیں، سورۃ کہف ہو گئی یا سورۃ ملک ہو گئی یا اس کے علاوہ اگر کوئی ہے۔ باقی یہ ہے کہ تہجد اب آسان ہو گئی بلکہ آپ لوگوں کے لیے تو زیادہ آسان ہے بالخصوص آپ دس گھنٹے سوتے ہیں تو دس گھنٹے نہ سوئیں آپ سات گھنٹے سوئیں۔ اب تو ماشاء اللہ بہت آسان ہو گیا ہے کیونکہ راتیں لمبی ہو گئی ہیں اور وہاں تو اور بھی لمبی ہوں گی، اس وجہ سے تہجد اب نہ چھوڑیں کیونکہ تہجد ولایت کی کنجی ہے۔ اور یہ جو بیانات ہیں یہ صحبت کے قائم مقام ہیں۔ اگر آپ فائدہ چاہتے ہیں تو فائدہ اس میں ہے کہ آپ یہ regularly سن لیا کریں، کم از کم ایک بیان روزانہ سن لیا کریں، تو ان شاء اللہ آپ اس کا اثر خود ہی محسوس کریں گے، یہ صحبت کے قائم مقام ہے۔ اور باقی غفلت وغیرہ کی جو بات ہے یہ میرے خیال میں اس کے ساتھ خود بخود کچھ تو ٹھیک ہو جائیں گی جو میں نے بتائیں ہیں اور اس کے علاوہ جو ٹھیک نہیں ہوتی اس کے بارے میں پھر مجھے بتائیں ان شاء اللہ اس پر پھر بعد میں غور کریں گے۔


سوال 24:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ حضرت جی کسی تعلق کی طرف سے جب کوئی تعلق کی تکلیف پہنچے، تو اس کا بدلہ لینے یا انتقام لینے کی سوچ پیدا ہوجاتی ہے، جس سے معمولات میں بہت زیادہ گڑ بڑ ہوجاتی ہے ذہن ہر وقت اس سوچ میں لگا رہتا ہے۔ حضرت جی اب خیال آتا ہے کہ نفس کی تربیت نہیں ہے جس کی وجہ سے معاف کرنے کا جذبہ بہت ہی تھوڑا ہے۔ اب تو یہ ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں ان کی زیادتی کی نسبت جواب اگر زیادہ دیا تو اس کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیفیت کو جب نہ معاف کرنے کی ہمت ہو اور دوسری طرف زیادتی کا بھی ڈر ہو تو بہت کرب کی کیفیت ہوتی ہے۔ حضرت جی اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے کہ عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اللہ پاک کی ناراضگی سے بھی بچا جائے؟


جواب 24:

سبحان اللہ! در اصل بات یہ ہے کہ عزت نفس کی حفاظت تو یقیناً چاہیے، لیکن ظاہر ہے اللہ کی نظروں میں انسان ظالم بھی نہ بنے۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو اس کو اللہ کے حوالے کر دیا کریں، اللہ کے حوالے تو کر سکتے ہیں ناں؟ تو پہلے یہ سیکھ لیں tension کو ختم کرنے کے لیے کہ اس معاملے کو اللہ کے حوالے کرنا ہے۔ پھر اس کے بعد ان شاء اللہ آہستہ آہستہ معافی کا نمبر بھی آ جائے گا۔


سوال 25:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو میثاق مدینہ کے نام سے عہد ہوا تھا، اس کی تفصیل بتا دیں؟


جواب 25:

در اصل یہ تصوف سے متعلق سوالات کے لیے بنا ہوا ہے، تو اس سے متعلق اگر کوئی سوال ہو تو ضرور آپ کرلیں۔ باقی یہ ہے کہ آپ سیرت کی کوئی بھی کتاب پڑھ لیں تو ان شاء اللہ آپ کو اس میں معلوم ہو جائے گا۔ اور اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو میں ایک کتاب کا نام بتا دیتا ہوں، سیرت النبی سید سلیمان ندویؒ کی پہلی دو جلدوں میں اس کا جواب آپ کو ملے گا ان شاء اللہ۔ پہلی دو جلدوں میں نہیں تو میرے خیال میں میثاق مدینہ لکھ کر آپ internet پر browse کر لیں تو آپ کو بہت سارے references مل جائیں گے ان کو پھر خود پڑھ لیں۔ صرف internet کی بنیاد پہ فیصلہ نہ کریں، لیکن internet پہ جن جن کے reference موجود ہوں اور وہ کتابیں آپ کے پاس موجود ہوں یا ان تک رسائی ہو تو وہاں سے confirm کر لیں، آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا۔ میرے خیال میں ایسے forum کو ایسی چیزوں کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے جو آپ خود کر سکتے ہیں۔

ابھی میں نے WhatsApp کے بارے میں بات کی ہے، کہ WhatsApp کی ساری باتوں کو نہیں ماننا ہوتا، اس کا reference لے کے اس کو باقاعدہ اصل کتاب میں دیکھنا چاہیے۔ ہمارے جو بزرگوں کی کتابیں ہیں اس میں بھی تحریفیں ہو گئی ہیں، تو کتابوں میں جب تحریفیں ہوں تو نیٹ پر تو تحریف کرنا بہت آسان ہے، اس پہ تو بہت ساری غلط چیزیں میں آپ کو دکھا سکتا ہوں جو چل رہی ہوتی ہیں۔ میں آپ کو ایک اپنا واقعہ بتاتا ہوں، میں اسلامیات پڑھا رہا تھا وہاں دفتر میں تو اس کے لیے مجھے ایک کتاب چاہیے تھی کہ ”اسلام کیا ہے“ یہ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کی کتاب ہے اور بڑی مشہور کتاب ہے بہت اچھا لکھا ہوا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ تو میں نے net پر search کیا تو اسلام کیا ہے کتاب نکل آئی، مولانا منظور نعمانیؒ اس پہ لکھا ہوا تھا وہ میں نے download کر دی، لیکن جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو درمیان میں کچھ چیزوں پہ مجھے شک ہو گیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ یہ کیسے مولانا منظور نعمانیؒ لکھ سکتے ہیں؟ پتا چلا کہ ایک قادیانی مولانا منظور نعمانی کا اسی نام سے کتاب تھا "اسلام کیا ہے"۔ اب بتاؤ وہی نام رکھا تھا اور وہی عالم اس کے لیے ڈھونڈا تھا اسلام کیا ہے اس کا نام تھا اور مولانا منظور نعمانی۔ اب بتاؤ کیا net پر آپ ایک دم یقین کر سکتے ہیں، تو net پر یک دم یقین نہیں کرنا چاہیے۔ آپ پہلے اس کی تحقیق کر لیں اگر ثابت ہو جائے پھر بات کریں گے ان شاء اللہ ورنہ اس پر محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے پاس سب سے precious چیز time ہے، time ایسی چیزوں پہ لگانا چاہیے جس کا فائدہ ہو۔


سوال 26:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، حضرت! جب ہم دعوت دیتے ہیں خصوصی طور پر بچوں کو نوجوانوں کو یا اپنے ملنے جلنے والوں کو، تو عموماً یہ دیکھا گیا ہے که تھوڑے عرصے کے لیے تو ان کی طبیعت میں بڑا جھکاؤ آ جاتا ہے، وہ دین کی طرف آ جاتے ہیں، اعمال اچھے ہو جاتے ہیں، لیکن تھوڑے عرصے بعد ان کے اندر استقامت نہیں رہتی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور ہم اس کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟ جزاکم اللہ۔


جواب 26:

سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ ما شاء اللہ! بڑا اچھا point آپ نے اٹھایا ہے، لیکن یہ تو تصوف کا بالکل وہی پرانا point ہے جس کا ابھی تھوڑی دیر پہلے ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب نئی نئی چیز ہوتی ہے تو شوق ہوتا ہے، شوق کی وجہ سے انسان کام کرتا ہے، بعد میں وہ شوق بیٹھ جاتا ہے لیکن اگر اس نے مستقل مزاجی کے ساتھ کام کیا ہوتا ہے یا ماحول اس کو ملا ہو اور صحبت صالحین اس کو ملی ہو اور اس نے اپنے نفس پہ محنت بھی شروع کی ہو تو وہ تو stable ہو جاتا ہے، نہیں تو وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس ختم ہونے کی دو مسائل ہوتے ہیں، نقصان بھی ہوتے ہیں۔

تو اس کو stable کرنے کے لیے ہمیں دو طریقے میں سے ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان کا کسی اللہ والے کے ساتھ باقاعدہ تربیت کا تعلق قائم ہو جائے، کیونکہ وہی جذب اور سلوک سے stability آتی ہے۔ تو وہ ان کو اس لائن پہ لگا دے۔ دوسری بات اس وقت تک جب یہ نہ ہو سکتا ہو تو پھر جیسے

جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

والی بات ہے۔ کہ پھر تسلسل کے ساتھ محنت جاری رہے، اور مختلف بہانوں سے مختلف طریقوں سے نئے نئے انداز سے ان کے سامنے وہی پرانی چیزیں لائی جائیں، تاکہ وہ اس کے ساتھ use to ہو جائیں، پکے ہو جائیں۔ پھر جب وہ خود چلنا شروع کریں گے پھر بات بنے گی، کیونکہ جب تک آپ ان کو چلائیں گے تو وہ ابھی کچے ہیں یعنی آپ جب ہاتھ چھوڑ دیں گے اور بکھر جائیں تو ظاہر ہے کہ انھوں نے صحیح چلنا نہیں سیکھا لیکن جب آپ خود سے چلنا سیکھ لیں تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر آدمی ان کے اوپر اعتماد کر سکتا ہے۔ تو یہ دو طریقے ہیں پہلا طریقہ جو سب سے اچھا طریقہ ہے یہ ہے کہ کسی اللہ والے سے ان کا تعلق ہو اور باقاعدہ محنت ہو۔ اس میں ان کو ہمت دلایا کریں، اس چیز کی طرف، پھر ایک ہی چیز پر آپ کی محنت ہو گی کہ ان کی طرف آپ توجہ کر لیں، اور وہ چلتا رہے اور دوسرا یہ ہے کہ اگر آپ کو وہ چیز میسر نہیں ہے، تو پھر یہی ہے کہ مسلسل ان پر نئے نئے طریقوں سے وہی چیزیں سامنے لانی ہوں گی۔

سوال 27:

حضرت والا السلام علیکم!

Which masnoon darood shareef does Hazrat wala use in kasrat Aaj kal?


جواب 27:

"وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّد" یہ نسائی شریف کا مسنون درود شریف ہے۔ یہ آج کل ہم پڑھتے ہیں، اس کو آپ پڑھ سکتے ہیں۔ مختصر بھی ہے مستند بھی ہے۔ اس کو کوئی پڑھنا چاہے تو بیشک وہ پڑھ لیا کرے۔

سوال 28:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس! مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ الحمد للہ حضرت کی تعلیمات سے بندہ کو بے حد نفع ہو رہا ہے۔ عرض یہ ہے کہ بندہ کا مستقل طور پر کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، لیکن جب حصول رزق حلال کمانے کا ارادہ ہوتا ہے تو یہ فکر روکتی ہے کہ عالم کو صبر کر کے دین کی خدمت کرنی چاہیے۔ مثلاً کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں ملازمت اختیار کرنے کا جب ارادہ ہوتا ہے، تو یہ فکر ہوتی ہے کہ یہ تو علم کی ناقدری ہے، جیسے کہ بعض کتابوں میں بھی ہے اور بعض اساتذہ سے بھی یہی بات سنتے ہیں اور ساتھ یہ فکر بھی دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں یہ حرکت حق تعالیٰ کی پھٹکار تو نہیں ہے، حالانکہ بندہ کی ذاتی نیت یہ ہوتی ہے کہ عصری اداروں میں بھی مسلمانوں کو دین پہنچ جائے اور بعض اوقات یہ فکر علمی مشغلے کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے اور علم کے لیے تو یکسوئی ہونی چاہیے جیسے کہ اس مشغلے میں یکسوئی فوت ہو جاتی ہے۔ اب حضرت بھی رہنمائی فرمائیں۔


جواب 28:

سبحان اللہ سب سے پہلی بات کہ یہ تردد اسی کو کہتے ہیں، تو یہ تردد ہے۔ تردد کا حل استخارہ ہے، کیونکہ اگر ایک طرف آپ کا ذہن بالکل مکمل ہے تو پھر تو مسئلہ ہی نہیں ہے، لیکن اگر ایک طرف کے بھی دلائل آپ کے پاس ہیں اور دوسری طرف کے دلائل بھی آپ کے پاس ہیں تو پھر تردد ہے اور تردد کو دور کرنے کا طریقہ استخارہ ہے۔ استخارہ کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ جس طرف بھی رہنمائی فرما دے تو اس پر عمل کر لیں۔ یہ تو مختصر جواب ہوا۔ دوسرا یہ که یہ اصل میں مزاجوں کی بات ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کو قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا حضرت نے رد کر دیا جس کی وجہ سے حضرت کو قید کر دیا گیا اور اسی قید میں حضرت کی وفات ہو گئی۔ یہ تو طریقہ ہے امام ابو حنیفہؒ کا، لیکن حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مایہ ناز شاگرد حضرت امام ابو یوسفؒ نے قاضی القضاۃ کا عہدہ لیا اور ان کی برکت سے ما شاء اللہ یہ جو قضا کے قوانین ہیں بہت زبردست مستند طریقے سے develop ہوئے، اور ما شاء اللہ بعد میں جتنی بھی اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں ان کے لیے وہ بنیاد بن گئے۔ اب اگر امام ابو یوسفؒ اس کام کو نہ کرتے تو بعد میں تو ایسے کام اس طرح نہیں ہو سکتے تھے۔ تو اب دیکھو اس کا فائدہ ہوا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ اجتہادی بات ہے۔ جیسے امام ابو یوسفؒ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بہت ساری چیزوں میں امام ابو حنیفہؒ سے اجتہادی اختلاف کیا ہے پھر بھی ان کے شاگرد ہیں۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہی ہوا اور کتنے ہی مسائل میں فتوٰی صاحبین کے قول پر ہے یا نہیں ہے؟ تو کیا اس مسئلہ میں صاحبین کے قول پر فتوٰی نہیں ہو سکتا؟ اگر کوئی مفتی صاحب اس کا فتوی دے دیں اور دوسرا مفتی کہہ دے کہ نہیں۔۔ تو وہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک پر ہے اور یہ امام ابو یوسفؒ کے، تو کون سا غلط ہے؟ غلط تو کوئی بھی نہیں۔ لہذا اگر آپ اس نیت سے اس میں جاتے ہیں کہ وہاں آپ دین کی خدمت کریں گے تو بہت اچھی بات ہے،الحمد للہ مجاہد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فاضل دیوبند تھے، وہ ہمارے اسلامیات کے ٹیچر تھے، ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا تھا، اگر وہ نہ ہوتے تو ہم ان سے وہ چیزیں نہ سیکھ سکتے۔ تو آخر وہ بھی سکول ٹیچر تھے لیکن ماشاء اللہ انہوں نے بڑی حریت کے ساتھ زندگی گزاری اور ہمیں بھی educate کیا۔ تو اس طرح بہت سارے اساتذہ گزرے ہیں جنہوں نے ماشاء اللہ دینی عصری اداروں میں دین کی خدمت کی ہے۔ سید تقویم الحق کاکا خیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ مایہ ناز فاضل دیوبند تھے، وہ KPK کے Secretary Education ریٹائر ہوئے۔ کتنی جگہوں پہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کام لے لیا۔ یہ اجتہادی بات ہے میں ان کو غلط نہیں کہتا، جو کہتے ہیں، نہیں کرنا چاہیے ان کو بھی غلط نہیں کہتا، جو کہتے ہیں کرنا چاہیے ان کو بھی غلط نہیں کہتا، لہذا آپ کے لیے میں کہوں گا کہ اگر آپ کر سکتے ہیں تو میں آپ کو نہیں روکوں گا، لیکن فیصلہ آپ استخارہ پہ کر یں۔ بس صرف میں نے شک دور کرنا تھا اور وہ شک یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ کہتے ہیں اور وہ آپ کے استاذ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اجر دے گا اس پر، کیونکہ ان کی اجتہادی رائے ہے، لیکن دوسری طرف بھی اجتہادی رائے ہے، اور اس کا بھی ایسا وزن ہے جس طرح اس کا وزن ہے۔ لہٰذا اس میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو خیر پر جمع فرما دے۔