اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ پاک آپ کو عافیت میں رکھے۔ آپ کی دعا سے قضا نماز والے روزوں میں سے تیسرا روزہ بھی رکھ لیا تھا۔ اصلاحی ذکر کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ سب لطائف پہ 10 منٹ اور لطیفۂ خفی پر 15 منٹ کے لئے مراقبہ احدیت ملا ہوا تھا۔ کیفیات یہ ہیں کہ زیادہ تر ذکر ٹھیک محسوس ہوتا ہے کبھی کبھی اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ اب یکسوئی بھی پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ کبھی ذہن خیالات کی طرف چلا جائے اور ذکر میں یکسوئی کم ہو پھر بھی ذکر کی جگہ ہاتھ رکھ لوں تو وہاں ذکر محسوس ہوتا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ذکر کے دوران سینے میں جگہ جگہ دھمک ہو رہی ہے۔ اس سے تھوڑا سا بوجھ بھی محسوس ہوتا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ پانچ پانچ منٹ ہر لطیفہ پہ ذکر کیا کریں اور روزانہ 15 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق اس کی طرف سے تجلیات افعالیہ، ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک میں آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب میں آ رہا ہے اور میرے شیخ کے قلب سے میرے دل میں آ رہا ہے۔
سوال نمبر2:
آج کل technology کا دور ہے، ہر فرد کے پاس موبائل فون ہوتا ہے جس میں غلط چیزیں بھی ہوتی ہیں اور اچھی بھی۔ لیکن زیادہ تر نوجوان غلط چیزیں دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ ان غلط حرکات سے کیسے بچا جائے؟
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے بتانے سے وہی بچ سکتا ہے جو خود بچنا چاہے، جو خود نہیں بچنا چاہتا اسےکوئی نہیں بچا سکتا۔ مثلاً اگر کوئی اپنے آپ کو مارنا چاہتا ہے تو اس کو کون بچائے گا، کوئی کب تک اس کے اوپر پہرا دے گا، کبھی تو وہ اکیلا ہو گا ہی۔ ایسا آدمی اپنے آپ کو کسی بھی وقت ہلاک کر سکتا ہے لہٰذا اگر کوئی خود بچنا چاہتا ہے تو ہم اس کو طریقہ بتا سکتے ہیں۔
اور وہ طریقہ یہ ہے کہ سمارٹ فون کے استعمال میں اچھی چیزیں بھی ہیں بری چیزیں بھی ہیں، اچھی چیزیں یہ ہیں مثلاً دینی بیان وغیرہ سننا، اپنے ضروری پیغامات وغیرہ کو وٹس ایپ کے ذریعے بھیجنا اور موصول کرنا وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں بہت ساری بری چیزیں بھی ہیں جن سے وقت کا ضیاع بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس کے استعمال لئے کچھ وقت مخصوص کر لیں۔ اس وقت میں آپ سمارٹ فون استعمال کرلیا کریں۔ اور باقی وقت میں سمارٹ فون بند رکھیں اور کال وغیرہ کے لئے اپنے پاس ایک سادہ موبائل رکھا کریں۔ سمارٹ فون کو ہر وقت پاس نہ رکھا کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت! الحمد للہ آج 9 اکتوبر کو تیس دن کا ذکر200، 400، 600، 500 بار اور لطیفۂ قلب پر 10 منٹ کا تصور پورا کر لیا۔ زیادہ دن یہ محسوس ہوا کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور کچھ دن کرتے ہوئے دل میں درد محسوس ہوتا رہا اور توجہ کے ساتھ 10 منٹ فوراً گزر گئے۔
جواب:
ماشاء اللہ آپ یہی ترتیب جاری رکھیں بس اتنا اضافہ کریں کہ لطیفۂ قلب پر 10 منٹ تصور کوبڑھا کر 15 منٹ کر لیں۔ باقی چیزیں وہی رہیں گی۔ایک ماہ اسی ترتیب پر عمل کرنے کے بعد بتائیں۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی! عرض ہے کہ میرا ابتدائی ذکر 10 منٹ دل پر، 10 منٹ لطیفۂ روح پر، 10 منٹ لطیفۂ سِر پر اور 15 منٹ لطیفۂ خفی پر ”اللہ “سننا، تھا۔ اس ذکر کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ ابتدائی ایام میں محسوس ہوتا رہا ہے لیکن درمیان میں کچھ دن بالکل محسوس نہیں ہوا۔
جواب:
اب آپ یوں کریں کہ 10 منٹ دل پر، 10 منٹ روح پر، 10 منٹ لطیفۂ سر پر ،10 منٹ لطیفۂ خفی پر اور 15 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر شروع کر لیں ۔ایک مہینے تک اس پہ عمل کرنے کے بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر5:
حضرت جی! عرض یہ ہے کہ میں مراقبہ احدیت 3، 4 ماہ سے کر رہی ہوں۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے 5، 5 منٹ ہر لطیفے پر ذکر محسوس کرنا اور اس کے بعد 15 منٹ لطیفۂ قلب پر یہ تصور کرنا کہ اللہ کی طرف سے میرے شیخ کے قلب پر فیض آ رہا ہے۔ اور کیفیت یہ ہے کہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا مسئلہ پہلے ٹھیک ہو گیا تھا لیکن آج کل پھر طبیعت بہت خراب ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اب آپ یہ کریں کہ اسی طریقے سے پانچ پانچ منٹ ہر لطیفے پہ سننے کے بعد 15 منٹ کے لئے تصور کریں کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے، جیسے کہ اس کی شان ہے: ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج: 16)تجلیات افعالیہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پہ آ رہا ہے۔ یہ ایک مہینہ کرنا ہے۔ باقی بچیوں کو بھی 10، 10 منٹ کے لئے یہی ترتیب بتا دیں۔ یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار تو 100، 100 دفعہ رہے گا اورباقی 10، 10 منٹ کے لئے دل پر ذکر سننے کا طریقہ بتا دیں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی! الحمد للہ اللہ کے فضل اور آپ کی تربیت اور دعاؤں کی برکت سے اللہ پاک نے معمولات پر استقامت عطا فرمائی ہے۔ میرا ذکر ایک مہینے کے لئے یہ تھا:
200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو، 600 مرتبہ حق، 4500 مرتبہ اللّٰہ ، 5 منٹ کا مراقبہ دل میں اللہ اللہ کو محسوس کرنا اور ہر نماز کے بعد ایک سانس میں اللہ 75 مرتبہ۔ یہ ذکر اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ دل میں اللہ اللہ محسوس نہیں ہوتا۔ سینے میں سکوت رہتا ہے۔ دل کی دھڑکن محسوس نہیں ہوتی۔ سوائے اس وقت کے جب زیادہ تھک جاؤں یا شدید ڈر لگے۔ کوشش بھرپور رہتی ہے کہ توجہ مرکوز رہے پھر بھی کبھی کبھار ذکر کے دوران ذہن منتشر ہو جاتا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
آپ یوں کریں کہ 200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو، 600 مرتبہ حق اور 5000 مرتبہ اللّٰہ۔ یہ ذکر شروع کر لیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ معمول بھی شروع کر لیں کہ مسجد سے باہر آتے وقت نمازی حضرات کے جوتے سیدھے کیا کریں۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم حضرت جی!
I have been reciting اللہ اللہ two thousand times followed by
یا اللہ، یا سبحان، یا عظیم، یا رحیم، یا رحمٰن، یا وہاب، یا ودود
100 times for the past one month kindly advise the next
جواب:
Now you should add یا کریم with this and the rest will be the same.
سوال نمبر8:
السلام علیکم۔شاہ صاحب! پہلے میں شادیوں میں جاتی تھی لیکن کھانا نہیں کھاتی تھی۔ اس کے باوجود وہاں کا ماحول مجھ پر اثر انداز ہوتا تھا۔ یہ بات بعد میں بڑے واضح انداز میں محسوس ہوئی۔ اس وجہ سے اب میں شادیوں میں بالکل نہیں جاتی۔ بازار جانا بھی کافی حد تک کم کیا ہے زیادہ تر چیزیں online منگواتی ہوں مگر جوتوں کے لئے مجھے پھر بھی جانا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنی ضروریات اپنی حد تک تو محدود کر لیتی ہوں مگر دوسرے رشتوں کی وجہ سے مجبور ہو جاتی ہوں۔ کبھی بھائی کے بچوں کے لئے، کبھی بہن کے بچوں کے لئے اور کبھی والدہ کے لئے بازار جانے پہ مجبور ہو جاتی ہوں۔ ایسے اوقات میں ان سے کس طریقے سے معذرت کیا کروں کہ وہ خفا بھی نہ ہوں اور میں بازار جانے سے بھی محفوظ ہو جاؤں۔
شاہ صاحب! آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں ہر طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے تاکہ ہم دھوکہ نہ کھائیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر تو ہمارے خیرخواہ نظر آتے ہیں مگر اصل میں ہمارے خلاف بہت زیادہ مکر کرتے ہیں جس کا پتا بعد میں چلتا ہے۔ جب ہمیں خبر ہوتی ہے تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ہم دھوکہ کھا چکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں کچھ لوگ قریبی رشتہ دار بھی ہوتے ہیں، ان سے ملنا جلنا ترک نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کے مکر و فریب سے ہم کس طرح ہوشیار رہیں ااور ان کے دھوکہ سے کس طرح اپنے آپ کو بچائیں۔
جواب:
آپ نے کہا کہ دوسرے رشتہ داروں کے لئے آپ کو بازار جانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو کچھ ہمت کرنی پڑے گی اور احسن طریقے سے انہیں یہ بات بتانی پڑے گی کہ میں نے بازار جانا چھوڑ دیا ہے ، میں خود اپنے لئے بھی نہیں جاتی، اس لئے آپ کے کاموں کے لئے بھی نہیں جاؤں گی، آپ ایسا کیا کریں کہ یہ چیزیں مردوں سے منگوا لیا کریں۔ عورتوں کا بازار جانا ویسے بھی ٹھیک نہیں ہے، مرد جاتے ہی ہیں تو وہ یہ کام بھی کر لیا کریں۔ اس طریقے سے ان سے بات کریں اور جتنا ممکن ہو اتنا بازار جانے سے بچیں۔
دوسری بات آپ نے یہ پوچھی کہ ایسے لوگ جن سے ملنا جلنا ترک نہیں کر سکتے، اور وہ دھوکہ بھی دیتے ہیں، ان کے دھوکے سے کیسے بچیں۔ اس کے لئے اللہ پاک نےعقل دی ہے اسے استعمال کرنا چاہیے اور بنظر غائر جائزہ لینا چاہیے کہ کون سی چیز ایسی ہے جو صحیح طریقے سے ہٹی ہوئی ہے۔ شریعت پر عمل کرنے میں خیر ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کوئی کام خلافِ شرع نظر آتا ہے تو آپ اس پہ کوئی compromise نہ کیا کریں۔ اس طریقے سے کافی حد تک بچت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بات رہ جائے تو انسان معذور ہے۔ آپ شریعت کو اپنی کسوٹی بنائے رکھیں۔ آپ کو تجربہ ہوتا جائے گا، آپ پر بہت ساری باتیں کھلیں گی۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔
سوال نمبر 9:
میرا تیس دن کا ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، حق، اللّٰہ اور لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو 100، 100 مرتبہ ، مکمل ہو چکا ہے۔ اگلا سبق عنایت فرما دیں۔
جواب:
اب آپ ایک مہینے کے لئے درج ذیل ذکر کریں:
200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، 200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو، 200 مرتبہ حق اور 100 مرتبہ اللّٰہ۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔ حضرت جی اپنے اندر موجود برائیاں نظر آنے پر اور خود کو گناہ گار تسلیم کرنے پر جہاں توبہ کی توفیق ہوئی وہاں اپنے عیبوں کی وجہ سے مایوسی بھی ہونے لگی ہے۔ ﴿لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ﴾ (زمر:53) کی آیت ذہن میں آتی ہے لیکن پھر بھی مایوسی ہوتی ہے۔ جب میں اللہ کے حضور دعا کرتا ہوں تو بہت زیادہ شرمندگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک سے باقی دعائیں نہیں مانگ پاتا۔ مجھ میں اعتدال نہیں ہے۔ اللہ پاک آپ کی برکت سے اعتدال نصیب فرمائے اور میرے نفس کی بہترین تربیت فرمائے۔ آمین
جواب:
قدرتی چیز قدرتی انداز میں ہی ٹھیک ہوتی ہے۔ جب بچوں کو بھوک لگی ہوتی ہے اور وہ ضد کر رہے ہوتے ہیں کہ انہیں جلدی روٹی دی جائے تو مائیں کہتی ہیں کہ میں آگ سے زیادہ تیز تو نہیں پکا سکتی۔ جتنی رفتار سے آگ روٹی پکا سکتی ہے اسی رفتار سے پکے گی، اس سے زیادہ تو میں نہیں کر سکتی۔ اسی طرح قدرتی چیزیں قدرتی طریقے، قدرتی انداز اور قدرتی رفتار سے ہی ٹھیک ہوتی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور ایک ہی غلطی مت دوہرائیں۔ جس کا آنے والا کل گزشتہ کل سے بہتر نہ ہو تو وہ نقصان میں ہے۔ ہمارا آئندہ کل گزشتہ کل سے بہتر ہونا چاہیے۔ بہتری کی مقدار اور کیفیت کتنی ہو گی یہ ہر شخص کی اپنی استعداد اور حالات پر منحصر ہے لیکن کم از کم اتنا ضرور ہو کہ گزشتہ نیکیاں نہ چھوٹیں اور مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ہو۔
ہمارے ہاں اس کے لئے طریقہ کار یہ ہے کہ ہم سنتیں عمل میں لاتے ہیں۔ جو سنتیں پہلے سے ہمارے عمل میں ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان کو ہم باقی رکھیں اور مزید سنتوں پر عمل کرنا شروع کر لیں۔ ان شاء اللہ اس طریقے سے روزانہ تھوڑی تھوڑی اصلاح ہوتی رہے گی۔
مایوسی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے ہی نہیں۔
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء (صحیح البخاری کتاب الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، الرقم : 6104)
ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ اس لئے بے خوف بھی نہیں ہونا چاہیے، نا امید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اس طریقے پہ چلیں تو مایوسی بھی نہیں ہو گی اور ہمت بھی برقرار رہے گی۔ اللہ تعالیٰ آسانی نصیب فرمائے۔
سوال نمبر11:
لطیفۂ قلب کی جگہ پر کبھی نور، کبھی ذکر، کبھی آیات اور کبھی باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ آپ کی طرف سے اللہ اللہ کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے ذریعہ یہ حاصل ہو رہا ہے۔آگے کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
میں اپنے احوال و کیفیات اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بتایا کرتا تھا۔ جب کبھی ان میں اس قسم کی باتیں ہوتیں تو حضرت فرماتے: یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔
جو چیزیں کشفی ہوتی ہیں یا غیر اختیاری ہوتی ہیں ان کو توابع کہتے ہیں۔ یہ توابع خود بخود ظاہر ہوتے ہیں اور خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔ نہ ان کے آنے پہ نظر ہونی چاہئے اور نہ ہی ان کے جانے پہ نظر ہو۔ ہماری نظر صرف اسی چیز پر ہو جو ہماری تربیت کے لئے ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ قلب میں اللہ اللہ ہوتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اس کے اوپر نظر رکھیں۔ باقی جو ہو رہا ہے اس پر دھیان مت دیں۔ جب انسان راستے پہ چلتا ہے تو بہت ساری چیزیں سامنے آتی ہیں لیکن انسان ان کی طرف توجہ نہیں کرتا۔وہ آ رہی ہوتی ہیں اور گزر کر جا رہی ہوتی ہیں، لیکن مسافر کی نظر اپنی منزل کی طرف ہوتی ہے۔ آپ بھی اس طریقے سے چلیں۔ ایسی چیزوں کی طرف توجہ نہ کریں جو خود بخود ہو رہی ہیں۔ دھیان صرف ذکر کی طرف ہی رکھیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت والا! آپ کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے۔ الحمد للہ کل کی مجلس سننے کی توفیق ہوئی۔ آپ نے بیان کے دوران حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ پڑھا تھا کہ ”آقا ﷺ کی کامل محبت تکمیل کے بعد یعنی توحید اور فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے “
اس کی تفصیل میں فرمایا کہ فنا میں سالک صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، جب وہ لوٹا دیا جاتا ہے یعنی اسے نزول حاصل ہو جاتا ہے ۔ (جسے آپ نے ”ہوشِ دیوانگی“ سے تعبیر فرمایا۔) تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کا عاشق ہو جاتا ہے اور مخلوق کے ساتھ سنت کے مطابق سب معاملات پورے کرتا ہے۔ اس وجہ سے آقا ﷺ سے اس کی محبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سالک فنا میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف تصوف میں یہ بات بڑے وثوق سے بتائی جاتی ہے کہ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ میں سب سے پہلے شیخ کی محبت میں فنا ہونا ہوتا ہے پھر آقا ﷺ کی محبت میں فنا حاصل ہوتا ہے اور اس کے بعد سالک فنا فی اللہ تک پہنچتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ عروج میں بھی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ تمام سلاسل خصوصاً نقشبندیہ سلسلہ میں، بلکہ پورے دینِ اسلام میں یہ بات مسلم ہے کہ آقا ﷺ کی محبت سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی ذہن میں آئی کہ سلوک کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نزول حاصل ہو جائے اگرچہ سنت کے راستے سے ہی ہو، فنا فی الرسول وفنا فی اللہ کے راستے سے ہی ہو، لیکن یہ فنا فی الرسول، فنا فی اللہ اور اتباع سنت تبھی حاصل ہوتے ہیں جب رہبر و مرشد کی قدر اور اتباع کامل ہو۔ اور مرشد کی کامل قدر تب معلوم ہوتی ہے جب تمام منازل طے ہو چکے ہوں۔ ہمارے رہبر شریعت تو رسولِ کریم ﷺ ہی ہیں تو اللہ پاک کی محبت اور معرفت میں اتنا زیادہ اضافہ ہو گا جتنا آپ ﷺ کی معرفت اور محبت میں اضافہ ہو گا۔
بظاہر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظ اور بعد والی باتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔ لازماً یہ میری نا سمجھی کی وجہ سے ہے۔ اگر حضرت والا اس کو قابلِ جواب سمجھیں تو اصلاح فرمائیں۔
جواب:
بات ایک ہی ہے مگر تعبیریں مختلف ہیں۔ تعبیریں جتنی بھی ہوں ہمیں چاہیے کہ اصل بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
فنا فی اللہ میں تین stages ہیں۔ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔ یہ تینوں سیر الی اللہ کے مراتب ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول یہ جذب کے حصول کے بڑے ذریعے ہیں۔ فنا فی الشیخ کے ذریعے سے جذب حاصل ہوتا ہے اور فنا فی الرسول کے ذریعے سے بھی جذب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہمارے طریقے میں صحبت سے اصلاح ہوتی ہے۔ صحبت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ شیخ کی کیفیت کا عکس سالک پر پڑتا ہے تو اس سے جذب حاصل ہوتا ہے۔ جب شیخ کے ذریعے آپ ﷺ کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے تو جذب مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ سنتوں کی توفیق ہونے لگتی ہے۔ جب سنتوں پر عمل کی توفیق ہوتی ہے تو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق انجذاب ہوتا ہے۔ اور قرآن پاک میں ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران:31)
ترجمہ: (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو سنتوں پہ چلے گا اس کو جذب حاصل ہو گا۔ تو یہاں تک سارا جذب کا معاملہ چل رہا ہے اور یہ جذب عروج کا ہے۔ یہ عروج آگے جا کر فنا فی اللہ پہ پہنچ جاتا ہے لیکن فنا فی اللہ میں جب تک انسان واپس نہیں کر دیا جاتا، اس کا سلوک طے نہیں ہو جاتا اور نزول حاصل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ عروج پہ ہوتا ہے۔ عروج میں پھر سکر کی حالت میں چلا جاتا ہےاور سکر کی حالت میں مستغرق ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں چونکہ اس کا مخلوق کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا لہذا مخلوق کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا لیکن جس وقت اس کو واپس کر دیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ جب اس کو توحیدِ شہودی حاصل ہو جائے تب وہ حقوق کو صحیح طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ جب حقوق ادا کرنا شروع کرلیتا ہے تو اس وقت اس کو حقوق کی ادائیگی کا طریقہ حضور ﷺ کے ذریعے پتا چلے گا کیونکہ حضور ﷺ ہی شریعت کو لائے ہیں۔ جب اس شریعت پر عمل کر کے ادائیگئ حقوق کرے گا تو شریعت کی اتباع ہوگی۔ اتباعِ شریعت میں آپ ﷺ کے ساتھ ہی سب سے زیادہ رابطہ ہو گا۔ نتیجتاً آپ ﷺ کی قدر اور محبت حد درجہ بڑھ جائے گی۔ یہ محبت اللہ تعالی کی طرف سے ہو گی۔ حضور ﷺ کے ساتھ محبت بڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ محبت کم ہو گی بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جتنی جتنی آپ ﷺ کے ساتھ محبت بڑھے گی اتنی اللہ تعالی کے ساتھ محبت بڑھے گی اور ذریعہ آپ ﷺ ہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی پائیدار اور دائمی محبت وہی ہے جو حضور ﷺ کے ذریعے سے ہو۔
جب تکمیل ہو جاتی ہے، بالفاظِ دیگر توحید شہودی حاصل ہو جاتی ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیر عن اللہ باللہ ہونا شروع ہو جاتی ہے، جب سیور اربعہ مکمل ہو جاتے ہیں ، جب انسان کو مقامِ تسلیم حاصل ہو جاتا ہے، اس کے بعد انسان صحیح معنوں میں مسلمان ہو جاتا ہے جس کے بعد مقام رضا حاصل ہوتا ہے اور سیر الی اللہ پوری ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد نفس نفس مطمئنہ بن جاتا ہے اور نفس مطمئنہ کے ساتھ عبدیت حاصل ہو جاتی ہے اور عبدیت میں آپ ﷺ کے طریقے پہ چلنا ہوتا ہے۔
جب ہم تکمیل کے بعد آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہیں تو وہ اتباع بہت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے کیونکہ اس کے اندر نفسانیت کا شائبہ نہیں ہوتا۔
کسی چیز کو سمجھانے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کو بڑا کر کے دکھایا جائے۔ اگر برائی ہو تو برائی بڑی کر کے دکھائی جائے، اچھائی ہو تو اچھائی بڑی کر کے دکھائی جائے۔ اس طرح سمجھانے سے اچھی طرح بات سمجھ میں آتی ہے ورنہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاًاگر میں یہ سمجھنا چاہوں کہ برائی کے حوالے سے نفس کا کیسا اثر ہوتا ہے تو اس کی برائی کو بڑا کر کے دکھاؤں گا۔ بدعت کو سمجھنا چاہوں تو بدعت میں یہ ہوتا ہے کہ بدعتی نام حضور ﷺ کا لیتے ہیں لیکن خواہش اپنے نفس کی پوری کرتے ہیں۔
اب جن لوگوں کو کسی حد تک فنا فی الرسول کی صفت حاصل ہوئی ہے مگر ان کا نفس ابھی فعال ہے، انہیں بھی آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہو تو ہو گی لیکن چونکہ ابھی ان کا نفس فعال ہے لہٰذا اس وقت تک انہیں آپ ﷺ کے ساتھ وہ محبت نہیں ہو سکتی جو کہ تکمیل کے بعد محبت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس میں نفس کا اثر نہیں ہوتا۔ نفس کا اثر دور ہونے کے بعد جو تعلق بنے گا وہ واقعی حضور ﷺ ہی کی محبت ہو گی۔
جو فنا فی اللہ ذات کے ذریعے سے ہوتا ہے وہ کامل ہوتا ہے۔ اسی کو فنا فی اللہ کہہ سکتے ہیں۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو فنا فی اللہ صفات کے ساتھ ہوتا ہے اس میں عود کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر سالک کسی ایک ہی صفت میں فنا ہے تو اس کو فنا فی اللہ نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح فنا فی الشیخ اگر ذات کے اعتبار سے ہے تو وہ مستقل ہے۔ اگر صفات کے لحاظ سے ہے تو وہ مستقل نہیں ہے۔ یہ بات اگر اللہ تعالیٰ کے لئے کی جاسکتی ہے تو آپ ﷺ کے لئے بھی کی جا سکتی ہے کہ اگر فنا فی الرسول صفات کے لحاظ سے ہے تو مستقل نہیں ہے، اگر ذات کے لحاظ سے ہے تو مستقل ہے۔ اسی طرح جب فنا فی اللہ ذات کے ساتھ حاصل ہوتی ہے تو تکمیل ہو جاتی ہے۔
آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ جب محبت ہوتی ہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں رہتی پھر اس میں انسان واقعی خود کو فنا کر لیتا ہے، آپ ﷺ کی بات کو اپنی تمام آراء پر فوقیت دیتا ہے، آپ ﷺ کی سنت کو اپنی تمام عادتوں پہ فوقیت دیتا ہے اورآپ ﷺ کے ساتھ تعلق کو تمام تعلقات پر فوقیت دیتا ہے بلکہ اس طرح ہو جاتا ہے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں تمھیں اپنے والدین، اولاد سے زیادہ بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، بلکہ اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔فنا فی الرسول میں انسان کو یہ کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ تکمیل کے بعد یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میرا 1000 مرتبہ ”اللہ اللہ“ کا لسانی ذکر کرنے کا معمول ہے۔ قلب کے دھیان کے ساتھ یہ ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ پورا ہو چکا ہے۔
جواب:
اب اس کو 1500 مرتبہ کرنا شروع کر دیں۔
سوال نمبر14:
مجھے یہ ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ پورا ہو گیا ہے:
100 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا اللّٰہ 100 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو 100 مرتبہ حق اور 100 مرتبہ اللّٰہ
جواب:
اب اس کو نئی ترتیب کے ساتھ اگلے ایک مہینے کے لئے اس طرح کریں:
200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا اللّٰہ 200 مرتبہ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو 200 مرتبہ حق اور 100 سو مرتبہ اللّٰہ۔
سوال نمبر15:
لطیفۂ قلب پر 10 منٹ کا مراقبہ جاری ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اس کو بڑھا کر 15 منٹ کر دیں۔
سوال نمبر16:
ابتدائی وظیفہ بلاناغہ 40 دن پورا ہو چکا ہے۔
جواب:
10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب کا مراقبہ کریں۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار روزانہ سو، سو مرتبہ پڑھا کریں۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت میرا ابتدائی وظیفہ 40 دن بلاناغہ مکمل ہو گیا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ یوں کریں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ، یہ تو عمر بھر کے لئے کریں۔ نماز کے بعد والے اذکار بھی عمر بھر جاری رکھیں۔اس کے علاوہ اب اگلے ایک ماہ کے لئے درج ذیل ذکر بھی جہری طور پر شروع کر یں۔
لَآ اِلٰہَ الَّا اللّٰہ 100 مرتبہ، لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو 100 مرتبہ، حق 100 مرتبہ اور اللّٰہ 100 مرتبہ۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم!
I pray that you are fine I request دعا for from you since I suffer a lot from a disease may Allah grant us توفیق
Answer:
آمین and I do دعا for you but you did not saying the anything about your ذکر.
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Today is the 36th day ان شاء اللہ I have relatives visiting during third and fourth week so I was busy and couldn’t inform you somehow by the grace of اللہ I manage to extend from eating during fasting hours الحمد للہ but I didn’t make نیت of fasting on some days but fasted to keep the مجاہدہ continues. I hope you understand I will write to you more ان شاء اللہ
Answer:
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ granted توفیق and grant you the ثمرہ the fruit of this مجاہدہ what you have done.
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant you the fruit of this مجاہدہ what you have done.
سوال نمبر20:
السلام علیکم حضرت جی ذکر اور مراقبہ پر تو پابندی تھی لیکن درود شریف، استغفار اور تیسرا کلمہ کی کثرت کا حکم فرمایا تھا۔ الحمد للہ درود پاک اور استغفار کی کثرت رہی۔ علاوہ ازیں حکم ہوا تھا کہ نفس کی تربیت کے لئے ایک ایک رذیلہ بتائیں تاکہ ان پر کام شروع ہو سکے۔ مقام توبہ اور مقام انابت کے بعد مقام قناعت پر کام کرنا ہے۔ اپنے احوال کی تفصیل ان شاء اللہ خدمت میں بھیج دوں گا۔ عجب کے بارے میں عرض کیا تھا اور اس پر ہدایات مل گئی تھیں ان پر عمل کی توفیق ہو جاتی ہے، کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ بے دھیانی میں کوئی نہ کوئی جملہ نکل جاتا ہے، لیکن توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے۔
جواب:
آپ یہی طریقہ جاری رکھیں اور اپنے رذائل کے بارے میں آگاہ کرتے رہیں۔
سوال نمبر21:
I am talking to you in nature and during talk I miss out when I start back biting this intensify if I am grieved and I feel I am righteous and the person for whom for whom I talk is wrong both in my official as well as family life I feel highly insulated and humiliated if someone challenge my point of view this makes me this makes me to raise my voice in front of those who are weaker than me and complain in the absence for those who are stronger strange stronger than me this clearly indicate that I am having shortcomings of صبر and توکل had I توکل I would have been not grieved and not right to show I am better someway, same way if I had صبر on getting a grieved I would have not indulge in غیبت this is making me to me to have following sins غیبت backbiting عُجب feeling myself superior bad temper lack of best manners حسن اخلاق and unable to overcome above .
Answer:
اس میں اصول کی بات یہ ہے کہ ہمت بھی نہیں ہارنی چاہیے اور مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت اپنے ذہن میں رکھیں۔
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء (صحیح البخاری کتاب الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، الرقم : 6104)
شیطان دونوں باتوں میں انسان کو خراب کرتا ہے۔ یا اسے بے خوف کر دیتا ہے یا پھر مایوس کر لیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو اعتدال پہ رکھنا چاہیے۔
جتنی باتیں آپ نے سوال میں ذکر کیں یہ اختیاری ہیں۔ البتہ ان کے لئے تھوڑی سی سپورٹ کی ضرورت ہے اور سپورٹ عین وقت پہ چاہیے ہوتی ہے۔ سپورٹ یہ ہے کہ آپ کے پاس اتنا حوصلہ ہو کہ آپ خاموش رہ سکیں۔ لہٰذا آپ پہلے خاموشی کا مجاہدہ کریں۔خاموشی کا مجاہدہ یہ ہے کہ جس وقت آپ کی پسندیدہ ڈسکشن ہو رہی ہے جس میں حصہ لینے کے لئے آپ کا دل بہت چاہتا ہو اس میں آپ پہلے 10 منٹ خاموش رہیں۔ پھر جو بات کرنی ہو انتہائی calculated انداز میں کر لیا کریں امید ہے اس سے آپ کو کچھ فوائد محسوس ہو جائیں گے۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم!
I have done this ذکر for one month more
2000 times حق اللّٰہ
1000 times اللّٰہ
500 times حق
and 200 times ھُو
جواب:
Now do ھُو 500 times and the rest will be the same ان شاء اللہ.
سوال نمبر32:
حضرت! سوالات کے جوابات میں آپ جو تربیت فرماتے ہیں یہ سلسلہ چشتیہ کے مطابق ہے یا سلسلہ نقشبندیہ کے مطابق ہے، یا پھر ان دونوں سلسلوں کو ملا کے تربیت فرماتے ہیں؟
جواب:
دراصل اللہ تعالیٰ نے مختلف طبیعتیں بنائی ہیں، جس طبیعت کی مناسبت جس طریقہ اور جس سلسلہ کے ساتھ ہوتی ہے، اسی سلسلہ کے مطابق اس کی تربیت کر دی جاتی ہے۔ جیسا کہ طب میں چار طبائع ہیں، مریض کا مزاج جس طبیعت کے موافق ہوتا ہے اس کے مطابق اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہند و پاک میں چار سلسلے زیادہ مشہور ہیں۔ یہ اصل میں چار طبیعتیں ہیں۔ جن کی طبیعت قادری سلسلے کے ساتھ ملتی ہے تو ان کو سب سے زیادہ فائدہ اسی سے ہوتا ہے۔
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ جس کا جو اسم مربی ہوتا ہے، اگر اسی کے ذریعے اس کو آگے چلایا جائے تو اسے بہت جلدی فائدہ ہو جاتا ہے۔ اسم میں بھی اصل بات یہی ہے کہ سالک کا اس اسم کے ساتھ ایک خاص تعلق اور مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ خاموش مزاج ہوتے ہیں وہ جہر کے ساتھ اور اس قسم کی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جن میں آواز بلند کرنی پڑتی ہوبلکہ وہ خاموشی کے ساتھ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مناسبت یقیناً نقشبندی سلسلے کے ساتھ ہے۔
چونکہ خواتین کا زیادہ تر تعلق اخفا کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے ہم ان کی تربیت نقشبندی سلسلہ کے مطابق کرتے ہیں الّا یہ کہ کسی کے بارے میں محسوس ہو جائے کہ اس کی مناسبت کسی اور سلسلہ سے ہے تو پھر اسے دوسرے سلسلوں کی طرف لاتے ہیں، لیکن زیادہ تر خواتین کو نقشبندی سلسلے پہ ہی چلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ عام مریدین میں ہم نے سب سلسلوں کو رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی کو نقشبندی سلسلے کے ساتھ مناسبت ہے تو اسے نقشبندی سلسلے پہ ہی لے جاتے ہیں۔ کسی کو چشتی کے ساتھ مناسبت ہے تو اسے چشتی پہ لے جاتے ہیں۔ کسی کو قادری سلسلے کے زیادہ مناسبت ہو تو اسے قادری سلسلے کے مطابق لے کر چلتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ میں کچھ سالکین کو ”ھُو“ کا ذکر بتاتا ہوں، اور بعض کو یہ ذکر نہیں بتاتا اس کی وجہ یہی ہے کہ ”ھُو“ کا ذکر قادری سلسلے کےساتھ مخصوص ہے۔ جن کو قادری سلسلے کے ساتھ مناسبت ہے ان کو میں اس طریقے سے لے جاتا ہوں اور جن کو چشتی طریقے سے مناسبت ہے ان کو اس طریقے پہ لے جاتا ہوں، جن کو سہروردی سلسلے کے مناسبت ہے ان کو سہروردی طریقے کے مطابق لے کر چلتا ہوں۔
ہم نے چار غزلیں لکھی ہیں۔ وہ چار غزلیں اصل میں چار طبیعتوں کے مطابق ہیں۔ وہ میں نے اپنے ساتھیوں کو سنا ئیں تو جس نے جس غزل سے زیادہ اثر لے لیا اس کا پتا چل گیا کہ وہ کس سلسلے سے مناسبت رکھتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سالکین اپنے احوال مجھے بتاتے ہیں۔ ان کے احوال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس کا ذوق کس طرف زیادہ جا رہا ہے، انہیں اسی سلسلے کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ مثلاً میں کسی کو مراقبات دے رہا ہوں لیکن وہ مراقبات کر ہی نہیں سکتے، ان کے لئے کچھ رکاوٹ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس میں نہیں چل سکتے تو ان کو میں دوسرے طریقے سے چلا دیتا ہوں۔ کیونکہ سارے سلسلوں کے اندر تربیت کے لئے ساری چیزیں موجود ہیں، لیکن ہر ایک کا انداز الگ الگ ہے۔
ہمارے ہاں تربیت کے لئے کسی خاص سلسلے کی پابندی نہیں ہے۔ ہاں میری اپنی ذاتی نسبت نقشبندی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ آپ لوگوں نے کونسی دکانداریاں بنائی ہوئی ہیں۔ چاہیے کہ نقشبندی شیخ کے ساتھ چند مرید چشتی بھی ہوں اور چاہیے کہ چشتی شیخ کےساتھ کچھ نقشبندی بھی ہوں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں شیخ کی رعایت سے زیادہ مرید کی رعایت ضروری ہے۔
سوال نمبر42:
حضرت کسی عالم سے سنا کہ قرآن پاک کی ایک آیت ہے :
﴿فَسْـئَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43)
اس کی تفصیل میں انہوں نے فرمایا کہ اس میں فَسْــٴـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ ہے فَسْئَلُوْا اَھْلَ الْعِلْمِ نہیں ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس آیت کے مطابق اگر اہل الذکر یعنی وہ لوگ جن کی اصلاح ہو چکی ہے، ان سے پوچھا جائے تو زیادہ اچھی رہنمائی ہو گی۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
یہاں ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ فَسْـئَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ میں ذکر سے کیا مراد ہے۔ اس کا پتا بھی قرآن سے ہی چلتا ہے، ایک اور جگہ پر فرمایا گیا ہے:
﴿مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ﴾ (طہ: 124)
یہاں ”ذکر“ سے مراد قرآن ہے۔ اب جو قرآن کا عالم ہو گا، جو اہل علم ہوگا، وہی اہل ذکر بھی ہوگا۔ اس میں مزید تفصیل یہ ہے کہ اصل عالم وہی ہے جس کو علم مستحضر ہو۔مستحضر علم اس کو ہوگا جس سے کوئی بات پوچھی جائے تو کتاب دیکھے بغیر بتا سکے۔ بہرحال آج کل کتاب دیکھ کر بھی بتا سکے تو یہ بھی بڑی بات ہے۔ اس کے علاوہ کامل علم وہی ہے جس میں عمل ہواور عمل صحبت کے بغیر نہیں آتا۔
سوال نمبر52:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا مسئلہ ہے کہ میں احساس کمتری کا شکار ہوں اور شاید اسی باعث میں اپنے بچوں کی تربیت صحیح طور پر نہیں کر پا رہا۔میں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ کافی زیادتیاں کی ہیں اور اب اکثر اس پر شرمندہ ہوتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اس کمتری سے چھٹکارا کیسے حاصل کر سکتا ہوں اور کس طرح اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کی گئی گزشتہ زیادتیوں کی تلافی کروں۔ براہ مہربانی اس سلسلے میں ہدایت فرما دیں۔
جواب:
یہ آپ نے جو اپنی غلطیوں کا اقرار کیا ہے یہ بذات خود ایک بہت بڑی بات ہے۔ احساس کمتری سے نکلنے کا بہت بڑا راستہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوتا ہے کیونکہ احساس کمتری والا کبھی اپنی غلطیوں کا اقرار نہیں کرتا، وہ ہمیشہ اپنا آپ اوپر رکھنا چاہتا ہے لیکن اس سے ہو نہیں پاتا۔ تو جب آ پ نے اقرار کر لیا اور بتا دیا تو آپ کے لئے راستہ کھل گیا۔
اب آپ یہ کریں کہ ان زیادتیوں کی تلافی کے لئے بیوی بچوں کے اوپر مہربانی کرنا شروع کر لیں۔ مہربانی کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی تربیت میں کمی ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ ان کے لئے سہولتیں مہیا کریں اور ان کو وہ شفقت دیں جو ان کا حق ہے۔
احساس کمتری کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ابھی آپ جو دنیا کی چیزوں سے متاثر ہو رہے ہیں تو دنیا کو اپنا مطمح نظر نہ بنائیں۔ احساس کمتری کی جڑ دنیا کی محبت ہے دنیا کی محبت اگر آپ کے دل سے نکل گئی تو خود بخود احساس کمتری ختم ہو جائے گی۔ جس کی اللہ پہ نظر ہوتی ہے اس کو تواضع ملتی ہے وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا وہ متواضع بنتا ہے اور تواضع بہت بڑی صفت ہے۔ لیکن اگر دنیا کی طرف نظر ہو اور دنیا کی بنا پر اپنے آپ کو چھوٹا اور کم سمجھے تو یہ احساس کمتری ہے۔ آپ دنیا پہ نظر نہ رکھیں اللہ پہ نظر رکھیں تو خود بخود احساس کمتری ختم ہو جائے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ