Majlis_449
Date: 20200113
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف کے متعلق جو سوالات کیے جاتے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال نمبر 01:
السلام علیکم حضرت!
I wanted to tell you that I feel to concentrate on listening to اللہ as you said. It hardly happened two or three times. I am also failing to do it on a regular basis as it demands full concentration. I have two infants and a toddler. All three are below the age of four years. Please advise me.
جواب:
سب سے پہلے میں آپ کو یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ دوائی دوائی ہوتی ہے اور عیش و عشرت کی بات عیش و عشرت کی ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان کے پاس وقت نہ ہو تو وہ عیش و عشرت کو چھوڑ سکتا ہے اور عموماً چھوڑ بھی دیتا ہے، لیکن دوائی کو چھوڑنے کی جرات نہیں کرسکتا، اور نہ اس کے پاس یہ عذر ہوتا ہے کہ میرے تین بچے ہیں یا دو بچے ہیں، اسی میں ہی adjust کر لیتا ہے جس طرح بھی کرے، اور اگر نہ کر سکے تو پھر اس کا نقصان ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی ڈاکٹر کے پاس جا کر ساری فریاد ڈاکٹر کو کرے تو ڈاکٹر کا جو جواب ہو گا وہی جواب ہمارا ہے، اس سے زیادہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ البتہ اس میں دو باتیں ہیں، پہلی میں آپ معذور ہیں مثلاً آپ جو کہتے ہیں کہ مجھے محسوس نہیں ہوا، یا صرف دو یا تین دفعہ ہوا ہے، تو اس میں بھی بعض لوگوں کو ٹائم لگتا ہے، مردوں کو سالوں لگ جاتے ہیں اور عورتوں کو مہینے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے لیے جلدی ہو جاتا ہے تو کسی کو ذرا دیر سے۔ اس وجہ سے اس میں آپ کو الزام نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ایک natural بات ہے۔ البتہ جو آپ کہتے ہیں Also fail to do it on regular basis تو اس میں آپ کا قصور ہے جس کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر کوئی چیز مشکل ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے۔ اس وجہ سے اگر آپ کی concentration ہو یا نہ ہو لیکن جتنا وقت آپ اس کو دے چکی ہیں وہ آپ اس کو دیں گی، پھر اس کے بعد آپ کو فائدہ ہو گا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آسانی ہے۔ ﴿اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا فاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یسْراً﴾ (الانشراح:آیت نمبر5-6) اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ آسانی آئے گی، ابتداء میں آسانی نہیں ہوتی۔ اس مسئلے میں نفس کو قابو کرنا اتنی آسان بات نہیں بلکہ مشکل بات ہے۔ ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ (البقرۃ: آیت نمبر 45-46) نماز کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ ایک مشکل امر ہے لیکن جن کو اللہ پاک سے ملنے کا یقین ہو تو پھر ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے مقصد کو ذہن میں رکھیں پھر آسان ہو جائے گا، اور مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو حاصل کرنا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بنانا کوئی آسان چیز نہیں ہے یعنی جیسے ہی آپ demand کریں گے تو مل جائے گا، نہیں بلکہ اس کے لیے محنت ضروری ہے۔ اس وجہ سے اگر آپ کامیابی چاہتی ہیں، روحانی صحت چاہتی ہیں تو اس کے لیے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی۔ اور اگر نہیں چاہتیں تو پھر اس کے بارے میں، میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا بلکہ میں آپ کے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح طریقہ پر چلائے۔ (آمین)
سوال نمبر 02:
السلام علیکم حضرت جی میں فلاں جگہ سے فلاں بول رہا ہوں۔ میرا ذکر جہری 200، 400، اور 2000 دفعہ "حق" ہے۔ جس کے فوراً بعد 5 منٹ حَق حَق ہونا دل میں محسوس کرنا ہے۔ مراقبہ پانچ لطائف پر 5،5 منٹ ہے اور 20 منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ الله جل شانهٗ کا فیض حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آ رہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے میرے شیخ کے دل میں آ رہاہے، اور شیخ کے دل سے میرے دل میں آ رہا ہے۔ سو سو (100) دفعہ تیسرا کلمہ، درود پاک، استغفار کی تسبیح عمر بھر کے لیے، معافی چاہتا ہوں پانچ لطائف پر مراقبہ کے دوران کبھی کبھی نیند آ جاتی ہے لیکن جب آنکھ کھلتی ہے تو لطائف کے ساتھ منہ کے جبڑوں اور پورے جسم میں کپکپی اور اللہ اللہ ہونا پہلے سے زیادہ صاف محسوس ہوتا رہتا ہے۔
جواب:
اللہ اکبر! بہرحال ابھی جتنا آپ کو بتایا ہے 200، 400، اور 2000 دفعہ "حق" اور اس کے بعد 5 منٹ حَق حَق جو دل میں محسوس کرنا ہے وہ آپ جاری رکھیں۔ باقی یہ ہے کہ جو فیض آ رہا ہے تو اب دل کی بجائے آپ کو لطیفۂ روح میں تصور کرنا ہے۔ یعنی یہ کہ الله جل شانهٗ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل مبارک پہ فیض آ رہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل مبارک سے شیخ کے دل میں آ رہا ہے، اور شیخ کے دل سے آپ کے لطیفۂ روح میں آ رہا ہے۔ اب آپ یہ کریں، باقی چیزیں وہی ہیں جو پہلے سے تھیں۔
صرف ایک مراقبہ آپ کا تبدیل ہو رہا ہے جس میں فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے ہوتے ہوئے اور شیخ کے قلب سے ہوتے ہوئے آپ کے دل میں آ رہا ہے۔ اب آپ تصور کریں گے کہ وہ فیض لطیفۂ روح پہ آ رہا ہے باقی چیزیں وہی ہیں۔
سوال نمبر 03:
حضرت جی میں پشاور سے فلاں بات کر رہی ہوں، اللہ آپ کی صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔ میری ایک ماہ کا مراقبہ مکمل ہو گیا ہے۔ اس سے پچھلے ماہ قبض کی حالت رہی، جس میں کوٸی بھی ذکر کسی بھی عبادت میں محسوس نہیں ہوتا تھا، نہ کسی چیز سے دل لگتا تھا، اس لیے میں نے یہ دن بہت depression میں گزارے کیونکہ دل بھی بہت زیادہ گھبراتا تھا جو اب آہستہ آہستہ کم ہوا ہے۔ جس طرح غصہ پہلے سے بہت آتا تھا اسی طرح depression کا مسئلہ بھی پہلے سے ہی ہے جو کبھی کم تو کبھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ذکر بھی پہلے کی طرح محسوس ہو رہا ہے یعنی اگر توجہ نہ بھی دوں تو بھی تقریباً ہر وقت محسوس ہوتا رہتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا ٹھیک سمت محسوس نہیں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم کے کسی اور حصے میں بھی حرکت محسوس ہوتی ہے، لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مراقبہ کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ البتہ قلب اور سَر پر کبھی کبھی محسوس ہو جاتا ہے لیکن روح پر بالکل نہیں، مراقبہ کے علاوہ ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ میں ذکر 500 مرتبہ کر رہی ہوں اور 10، 10 منٹ قلب اور روح پر اور 15 منٹ سِر پر۔ یہ حالت ہوتی ہےکہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں میرے ساتھ محسوس ہوتا ہے اور ایک منٹ بھی مجھ سے جدا نہیں ہوتا، قبض کی حالت سے پہلے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
جواب:
آپ اسم ذات اَللہ اَللہ 500 کی جگہ 1000مرتبہ کریں اور تین لطائف قلب، روح اور سر پر 10، 10 منٹ کریں اور 15 منٹ لطیفۂ خفی پر ذکر کریں۔ البتہ خواب اچھے ہیں لیکن خوابوں پر مدار نہیں کیونکہ مدار اچھی نیت سے شریعت پر عمل کرنے پر ہے۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم حضرت جی ادھر ہماری یونیورسٹی کا امامِ مسجد مستقل چھٹی پر ہوتا ہے تو مقامی تبلیغ والے کبھی کبھار مجھ سے پڑھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ میں معذرت کر لیتا ہوں لیکن پھر بھی یہ درخواست کر لیتے ہیں۔ یہی مسئلہ گاؤں میں بھی ہوتا ہے کیونکہ ادھر ہمارا مستقل امام تو پہلے سے ہے ہی نہیں، بس جس کی داڑھی ہوتی ہے ان کو پکڑ لیتے ہیں، تو کیا بامر مجبوری نماز پڑھا لیا کروں؟
جواب:
ایسی حالت میں خود پڑھا لیا کریں اور اگر کوئی درخواست کر کے نماز پڑھانے کا کہہ دے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے کیونکہ اپنی مرضی سے آگے ہو جانے میں risk ہوتا ہے اور اگر کوئی درخواست کر لے اور اپنے آپ کو کم سمجھتے ہوئے ان کی درخواست قبول کر کے نماز پڑھا لے، تو اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے۔
سوال نمبر 05:
شیخ صاحب آپ نے کہا تھا کہ دل کا ذکر سننے سے پہلے 500 مرتبہ زبان سے اللہ اللہ کرنا ہے جس کا ایک مہینہ پورا ہو چکا ہے۔ اب کیا کرنا ہے؟
جواب:
میں نے پوچھا تھا کہ کیا دل میں اللہ اللہ محسوس ہو رہا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے، یعنی آپ کو 500 مرتبہ زبان سے اللہ اللہ کرنے سے فائدہ ہوا ہے، لہٰذا اب 1000 مرتبہ زبان سے اللہ اللہ کریں اور دس منٹ کے لیے دل پر محسوس کریں کہ وہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔
سوال نمبر 06:
السلام علیکم نماز میں مراقبہ عبدیت کا استعمال بہت عرصہ سے ہے لیکن کبھی توجہ قائم ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ جبکہ پانچوں لطائف میں 5، 5 منٹ کا مراقبہ ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔ تو میں نے پوچھا کہ پانچوں لطائف ٹھیک چل رہے ہیں؟ تو جواب آیا کہ نہیں، کیونکہ خیالات زیادہ آتے ہیں۔
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ لطائف کا جو مراقبہ ہے وہ تھوڑا سا آپ کو زیادہ کرنا پڑے گا، آپ 5، 5 منٹ کی بجائے 10، 10 منٹ کریں اور خیالات کی پرواہ نہ کریں۔ بلکہ آپ صرف یہ توجہ رکھیں کہ میرے فلاں مقام پر اللہ اللہ ہو رہا ہے، اور اس کا تصور کر کے اس کو سننے کی کوشش کریں یا محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ اور اب پانچ منٹ کی جگہ 10، 10 منٹ کریں اور باقی چیزیں آپ اپنی جگہ پہ رکھیں۔
سوال نمبر 07:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی اعمال سے بہت دور ہو چکا ہوں، اس ڈر سے ملنے بھی نہیں آ سکتا کہ اعمال چھوڑے ہیں۔ حضرت جی دوبارہ اعمال پر آنے کے لیے کچھ تجویز کر لیں۔ جزاک اللہ
جواب:
اللہ اکبر! بات یہ ہے کہ ویسے بزرگوں سے ہم نے دو چیزوں کے بارے میں سنا ہے جس میں ایک شیخ سے تعلق یعنی رابطہ ہے اور دوسرا معمولات۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ معمولات کی حیثیت روپے میں ایک آنے کی ہے اور رابطہ پندرہ آنے کی ہے یعنی گویا کہ رابطے کی ضرورت بہت زیادہ ہے، معمولات اس کے بعد ہے۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ معمولات کھرپا چلانا ہے یعنی زمین کو نرم کرنا ہے جیسے کوئی بیج ڈالنے کے لیے زمین کو نرم کرتا ہے، پھر اس کے بعد اس میں بیج بھی ڈالتے ہیں تو پھر فائدہ ہوتا ہے۔ تو معمولات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ دل کی زمین کو نرم کر رہے ہیں اور پھر شیخ سے رابطہ کی وجہ سے فیوض و برکات سلسلے کے جو ہوتے ہیں ان کے بیج اپنے دل میں ڈالتے ہیں۔ اب اگر معمولات آپ کے چھوٹ گیے اور رابطہ بھی چھوڑ دیا تو یہ آپ کا double نقصان ہو گیا یعنی ایک آنہ بھی رہ گیا اور پیچھے پندرہ آنے بھی چھوڑ دیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کیونکہ اگر معمولات چھوڑنا غلطی ہے تو رابطہ چھوڑنا اس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ اس وجہ سے آپ اس پر استغفار اور توبہ کریں اور صلاۃ التوبہ پڑھیں، اور جلد از جلد یہ دونوں بحال کرنے کی کوشش کر لیں کیونکہ عمر بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے، بعد میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ تو بعد میں افسوس کر نے کے بجائے وقت پر انسان کا ٹھیک ہو جانا اچھا ہے۔
سوال نمبر 08:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا "اللہ اللہ" کا ذکر 3000 مرتبہ ہے جس کے 35 دن گزر چکے ہیں۔
جواب:
اب آپ ایک مہینہ کے لیے 3500 مرتبہ کر لیں ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 09:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ سیدی و مرشدی حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ میری والدہ صاحبہ اور ہمارے سکول کی خالہ صاحبہ نے الحمد للہ چالیس دن کا وظیفہ مکمل کر لیا ہے، اب آگے کیا حکم ہے؟ میری والدہ صاحبہ کی عمر اب ستر سال سے زیادہ ہے، اس وقت وہ قرآن پاک حفظ کر رہی ہیں، اس لیے آسانی کی دعا فرمائیں۔
جواب:
یہ اچھا ہوا کہ آپ نے مجھ سے پوچھ لیا ماشاء اللہ، چالیس دن کا جو آپ دونوں نے مکمل کر لیا۔ بے شک اب ان کو آپ اگلا ذکر دے دیں اور وہ یہ ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ روزانہ عمر بھر کے لیے، نماز کے بعد والا وظیفہ جاری رہے گا اور دس منٹ کے لیے یہ تصور کیا کریں کہ جس طرح ہر چیز اللہ پاک کو یاد کر رہی ہے اسی طرح ہمارا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور اس اللہ اللہ کو ہوتا ہوا محسوس کرنا ہے۔ بس یہی بات ان کو بتا دیں۔ باقی جہاں تک قرآن پاک ستر سال کی عمر میں یاد کرنے کی بات ہے تو قرآن کو یاد کرنا اتنا لازم نہیں ہے جتنا قرآن پاک کو یاد رکھنا لازم ہے، تو یہ اپنے آپ کو زبردستی ذمہ دار بنانے والی بات ہے، اس وجہ سے میں یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ اس وقت قرآن پاک کو یاد کر لیں۔ البتہ چند سورتیں جو ان کو بار بار پڑھنی ہوں گی وہ بے شک یاد کر لیں جیسے سورہ واقعہ اور سورہ ملک۔ اسی طرح سورۂ رحمن اور سورۂ یس یہ سورتیں یاد کر لیں اور ان کو پڑھتی رہیں، باقی قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہیں۔ اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں وہ اپنی والدہ کو سنا دیجئے گا۔ وہ یہ کہ شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی مجلس میں ایک صاحب آیا کرتے تھے، ان کی عمر بھی زیادہ تھی یعنی بوڑھے آدمی تھے تو تہجد کے وقت سے اشراق تک رہتے تھے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ پھر ان کا آنا بند ہوا یعنی وہ نہیں آرہے تھے، تو ایسے حضرات بڑے شفیق ہوتے ہیں ان کو بھی ان کے ساتھ انس ہو گیا تھا تو پوچھا کہ بھئی وہ بڑے میاں جو آ رہے تھے پتا نہیں کدھر ہیں؟ معلوم کر لیں ایسا نہ ہو کہ بیمار ہوں؟ ذرا ان کی عیادت کرلیں۔ لوگوں نے بتایا حضرت اپنے گھر میں ہیں، باقی کاموں کے لیے آتے جاتے ہیں، اچھا! تو پوچھ لیں کہ کہیں ناراض نہ ہوں۔ تو ان کو یہ بات بتائی گئی تو وہ ملنے کے لیے آ گیے۔ انہوں نے پوچھا جی کیا بات ہے؟ کہتے ہیں! حضرت جب میں آپ کے پاس تہجد کے وقت آیا کرتا تھا تو میں نے دیکھا ایک دو نورانی صورت کے بزرگ میرے قریب سے گزر کر مجھے سلام کر لیتے تھے جس میں کافی دن اس طرح گزر گیے۔ پھر میری خیر خیریت پوچھی اور یہ معلوم کیا کہ آپ کہاں ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ یہ سارا کچھ معلوم کرنے کے بعد مجھے بولا کہ بھئی آپ اچھے آدمی لگتے ہیں، اس لیے میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں وہ یہ کہ آپ قرآن پاک حفظ کر لیں کیونکہ قرآن پاک کے حفظ کے بڑے فضائل ہیں، اور بہت سارے فضائل سنا دئیے۔ جس کے بعد میں قرآن پاک کے حفظ پر لگا ہوں، چونکہ حفظ مشکل کام ہے اور میری عمر زیادہ ہے لہٰذا میں گھر میں رہ کر قرآن پاک حفظ کرتا رہتا ہوں۔ تو شاہ صاحب نے ان سے کہا آپ کو پتا ہے وہ کون تھا؟ اس نے کہا حضرت مجھے کیا پتا۔ انہوں نے کہا وہ تو شیطان تھا۔ تو اس نے کہا کہ پھر شیطان مجھے قرآن پاک کے حفظ کے لیے کیوں کہتا؟ تو فرمایا! کیونکہ شیطان کو معلوم ہے کہ تیری عمر زیادہ ہے اور تو قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد باقی نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کو ایسے کام پہ لگا دیا جو آپ کر نہیں سکتے اور ایسے کاموں سے چھڑا دیا جو آپ کر سکتے ہیں۔ جیسے اپنی اصلاح جو فرض عین ہے اور جو آپ کر سکتے تھے اس سے چھڑوا دیا اور ایک مستحب کام پہ لگا دیا جو آپ نہیں کر سکتے۔ اب بتاؤ! کہ فرض کام جس کو آپ کر سکتے ہو، سے چھڑا کے ایسے نفل کام پہ لگانا جس کو آپ نہیں کر سکتے، پہ لگا لیا۔ اب بتاؤ شیطان کی کتنی زبردست planning ہے، بس یہی چیز ہے۔ اس لیے والدہ کو میرا سلام کہیں اور اس کو کہہ دیں کہ اس پر ذرا سوچیں کیونکہ یہ ان کے اعمال کا وقت ہے اور ایسے اعمال کا وقت ہے جس میں یکسوئی ہو۔ لہٰذا اپنی یکسوئی کو disturb نہ کریں اور جو کام اس وقت کر سکتی ہیں اسی پہ رہیں، اس میں زیادہ فائدہ ہے۔ اللہ اکبر!
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت جی
I am فلاں.
حضرت جی I am suffering from severe depression. I don’t know what to do? I am so stressed. I recently lost weight through intermittent fasting at sixteen and now I have started excessive eating which is building stress. Moreover, I am constipated as well. My body system has all messed up. I cannot study nor focus. I want to stay alone and all day, I offer my فرض with struggle and nothing else. I am in so much pain. I just want to go back to اللہ but I haven’t even pleased Him.
حضرت جی میرے لیے دعا کیجیے اور please میری مدد بھی۔ حضرت I know اللہ سے دور کچھ نہیں ہے لیکن میں اپنے رب سے اتنا دور ہوں کہ ہر طرف اندھیرا نظر آ رہا ہے جو مجھے کھا رہا ہے۔ حضرت جی میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بیٹی depression اصل میں ایک بیماری ہے جس کا علاج بھی ہے لیکن بعض چیزیں اس علاج کو تیز کر لیتی ہیں اور بعض چیزیں تھوڑا سا slow۔ اس وجہ سے اگر دونوں چیزیں ساتھ ساتھ رہیں تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ آپ ڈاکٹر سے اپنی consultation جاری رکھیں جو آپ کو ڈاکٹر بتاتی ہیں، البتہ آپ اس کو اپنے سر کے اوپر کچھ زیادہ لے رہی ہیں اس لیے اس سے آپ کو نقصان ہو رہا ہے۔ تو جو علاج ہے وہ آپ کریں لیکن علاج کے نتیجے پہ زیادہ غور نہ کریں کیونکہ بعض چیزیں slow process ہوتی ہیں، جن کو انسان ذرا جلدی چاہتا ہے جس سے مزید stress develop ہو جاتا ہے اور اس سے نقصان ہوتا ہے، تو آپ یہ نہ کریں۔ اور باقی intermittent fasting جس کے کہنے پہ آپ نے شروع کیا ہے وہ تھوڑا سا ان کے ساتھ discuss کر لیں کہ وہ آپ کی time management ذرا بہتر کر لیں۔ اس کے لحاظ کا ان کو پتا ہو گا کہ کس چیز کے کیا consequences ہیں، یہ جو آپ بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوں تو اللہ تعالیٰ سے جو دور ہونا نہیں چاہتا وہ کبھی بھی دور نہیں ہوتا، اور جو اللہ تعالیٰ سے دور ہونا چاہتا ہے وہ خطرے میں ہے، تو آپ تو دور ہونا نہیں چاہتی لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے کیسے دور ہو سکتی ہیں؟ یہ خیال بالکل ذہن میں نہ لائیں بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں۔ یہ مراقبہ آپ آج کل 5 منٹ کے لیے شروع کر لیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مراقبہ 5 منٹ کے لیے شروع کر لیں۔ 5 منٹ روزانہ کر لیں پھر اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کو بتاؤں گا۔ الله جل شانهٗ کے ساتھ اچھی امید لگائے رکھیں کیونکہ یہ چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں، ان شاء اللہ العزیز آپ کو اس طرح depression نہیں ہے جس طرح depression خطرناک ہوتا ہے، آپ الحمد للہ better condition میں ہیں، اس وجہ سے آپ فی الحال یہی کر لیں اور اپنے معمول کی نماز پڑھ لیا کریں اور سورۂ یس شریف کی تلاوت بھی ساتھ کر لیا کریں۔ فی الحال تو میرے خیال میں اتنا کافی ہے، ان شاء اللہ ایک ہفتے کے بعد مجھے report دیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت جی الحمد للہ
With your برکۃ
فجر prayer is now being offered daily but at home. I am struggling to offer in مسجد which I will start ان شاء اللہ soon. ذکر is الحمد للہ regular till now. Your .مرید
جواب:
اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے توفیق دی ہے البتہ ایک قدم اور کہ تھوڑی دیر پہلے جاگ کے مسجد جانا شروع کر دیں، امید ہے ان شاء اللہ العزیز کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ مسجد آپ سے اتنا دور بھی نہیں ہے، تو آپ یہ سلسلہ شروع کر لیں اور شروع کرتے ہی مجھے فوراً بتا دیجیے گا۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت جی company میں جب بھی cost cutting اور resource downsizing کا time چل رہا ہوتا ہے تو میں بہت پریشان اور depress رہتا ہوں کیونکہ اچھی position نوکری کو کھونے کا ڈر رہتا ہے، رہنمائی کی درخواست۔
جواب:
اصل میں انسان جو کر سکتا ہو وہ کرے اور جو نہ کر سکتا ہو اس کو چھوڑے، یہ بنیادی قانون ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کو خواہ مخواہ خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔ تو اس صورت میں آپ محنت کریں تاکہ آپ کو downsizing میں شامل نہ کریں۔ اور دوسری بات یہ کہ اللہ پاک سے دعا کیا کریں اور خیر مانگا کریں کیونکہ جتنا انسان کو ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دعا میں طاقت آتی ہے۔ اس لیے آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونے کے لیے اس کو ایک موقع سمجھیں، تو ان شاء اللہ العزیز بلا وجہ آپ کو depression وغیرہ نہیں ہو گی، آپ اللہ پاک سے دعا کر لیا کریں اور محنت کر لیا کریں، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 13:
حضرت جی میرا فلاں نام ہے اور میرا ذکر 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، حق اور 100 مرتبہ اللہ تھا جس کا ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے، اب مزید کیا کروں؟ تجویز فرمائیں۔
جواب:
سب سے پہلے آپ نے یہ غلطی کی ہے کہ آپ نے مجھے اس نمبر پہ کال کیا ہے اور احوال کا message بھیجا ہے حالانکہ احوال بھیجنے کا نمبر 03155195788 ہے۔ ویسے general بات یہ ہے کہ جو دوسرے لوگ مجھے فون کرتے ہیں یا message بھیجتے ہیں وہ اس نمبر پہ کرتے ہیں تو یہ junk والا نمبر ہے۔ اس میں آدمی کا message گم ہو سکتا ہے تو اس کا risk آئندہ نہ لیا کریں۔ اب 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 300 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 300 مرتبہ حق اور 100 مرتبہ اللہ ایک مہینے کے لیے شروع کر لیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت جی لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 300 مرتبہ، حَقْ 300 مرتبہ، اور اللہ 200 بار، جس پر میں کافی ناغے کے بعد پہنچا تھا، اگست میں آپ نے دوبارہ وہی ذکر ہدایت فرمایا جو مجھ سے نہیں ہو رہا۔ میرے لیے خصوصی دعا فرمائیں کیونکہ اب میں نے پکا ارادہ کیا ہے کہ یہ دوبارہ شروع کر لوں، آپ میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
یہ ذکر آپ سے نہیں ہو رہا تو اس کے بارے میں آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ کیا statement ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا آپ کے ہونٹ بند ہو جاتے ہیں؟ یعنی آپ کی زبان کھڑی ہو جاتی ہے؟ یا کیا ہوتا ہے کہ آپ سے ذکر نہیں ہو رہا؟ یا آپ محنت نہیں کرنا چاہتے؟ اگر آپ محنت نہیں کرنا چاہتے تو مجھے آئندہ اس کے بارے میں نہ لکھیں کیونکہ میں لاعلاج بیماری کا علاج نہیں کرتا، This is not with me آئندہ مجھے تکلیف نہ دیا کریں۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ سے ذکر نہیں ہو رہا، کون سا میں آپ سے دو دو ٹن کا وزن اٹھوا رہا ہوں، یہ کون سی بات ہے؟ I don’t understand this. Please do not tease me آئندہ کے لیے مجھے خط نہ لکھیں نہ مجھے message لکھیں۔ کیونکہ جب تک آپ کا یہ علاج نہیں ہوتا تو مجھے بالکل خط نہ لکھیں۔ معافی چاہتا ہوں جو ابھی میں نے کیا لیکن میں نے دبایا نہیں تھا بلکہ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت جی اس ذکر پر کافی ناغے کے بعد پہنچا تھا اور اگست میں آپ لوگوں نے دوبارہ یہی والا ذکر ہدایت فرمایا جو مجھ سے نہیں ہو رہا، اور میرے لیے خصوصی دعا بھی فرمائیں کیونکہ میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ ذکر دوبارہ شروع کروں گا۔ آپ میری رہنمائی فرمائیں۔
اس میں رہنمائی کی کون بات ہے؟ میں نے جو آپ کو ذکر دیا تھا تو آپ کو کیوں مشکل ہو رہا ہے؟ کیا ذکر کرنا اتنا مشکل کام ہے یا مجھے آپ بے وقوف سمجھتے ہیں، یا آپ بے وقوف ہیں؟ کیونکہ دونوں میں تو کوئی ایک ضرور بے وقوف ہو گا۔ کیا میں نے آپ کو مشکل کام دے دیا ہے؟ یہ کون سی باتیں آپ کر رہے ہیں، کس طریقے سے اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ اگر آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پھر جو بھگتنا ہے تو بھگت لیں۔ آئندہ کے لیے مجھے اس قسم کے message نہ کریں کیونکہ یہ بہت عجیب بات لگتی ہے اور مجھے سمجھ بھی نہیں آ رہی کہ آپ سے یہ ذکر کیوں نہیں ہو رہا؟ اس لیے آپ اگر ذکر نہیں کر سکتے تو پھر message بھی نہ کیا کریں کیونکہ میں لا علاج بیماروں کا علاج نہیں کر سکتا کیونکہ جو لوگ دوائی نہیں کھا سکتے تو کیا میں اس کے منہ میں زبردستی دوائی ڈالوں؟ کیا ڈاکٹر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کو دوائی بھی پلائے گا؟ یہ کون سا طریقہ آپ نے سیکھا ہے،
(اگر آپ حضرات کا کوئی سوال ہو تو کر لیں۔ ادھر سے تو کوئی سوال نہیں ہے۔ اچھا ادھر سے ہے۔ کچھ سوالات پہلے سے موجود ہیں۔
یہ ابھی میں نے کسی کو جواب دیا تھا تو اس پہ کسی جگہ سے یہ response آیا ہے)
حضرت شیخ!
I have never met anyone more شفیق on me than you. My parents are extremely loving and شفیق on me but your love and کرم and تربیت is so subtle and لطیف that sometimes one or two words from you continue to blossom like flower in my soul for weeks and months and only after a long time to realize that my حضرت said this and this is due to the برکۃ of those words and دعا.
I have my ایمان سلامتی due to my تعلق with you. اللہ is the provider of everything but you are the means as my شیخ which اللہ selected for me الحمد للہ. The way you answered the lady’s question about depression was so loving, like a father that hit my heart like an arrow اللہ اکبر.
When you said the word بیٹی, all my previous good کیفیت and strength and vision returned into my heart not just feeling of the best but actual کیفیت of حضوری and مشاہدہ of حقیقت، نفس and دنیا.
The greatest benefit from my بیعۃ with you حضرت شیخ is that you have brought me away from belief in اسباب to stronger یقین in اللہ more یقین in دعا and صلوۃ and masnoon duas.
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ (یہ ابھی کوئی آیا ہے) حضرت جی کچھ خواتین اپنے خاوند کی تعریف میں گھر کے معاملات وغیرہ ایک دوسرے کو بتاتی ہیں کہ میرے خاوند برتن دھوتے ہیں، صفائی کرتے ہیں۔ اپنے نخرے گنواتی ہیں جس سے ایک طرف یہ تاثر دیتی ہیں کہ میں نے کیسے خاوند کو قابو کیا ہے اور کیسے میرے نخرے برداشت کرتے ہیں، بعض مواقع پر تو ان خدمات کا بھی ذکر ہوتا ہے جو ایک life partner کے تحت کرنا تو بنتا ہے لیکن اس کا ذکر اوروں کے سامنے کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ یہ باتیں سن کر کچھ دنوں کے لیے ان عورتوں کے گھر میں بھی چپقلش ہوتی ہے جنہوں نے سن رکھا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس عورت کی برائی اور اس کے خاوند کے بے جا لاڈ پر ان کی برائی ہوتی ہے۔ حضرت جی آپ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایک خاوند کو گھر میں کیسے رہنا چاہیے؟ ضرورت کے موقع پر گھر کے کاموں میں معاون ہونا چاہیے یا معمول کے مطابق وہ کام جو عورتوں کے ہیں، کرنے چاہئیں ؟ کیونکہ عورتوں کو دینی علم حاصل ہوتا ہے وہ ایسے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے حوالے فراہم کرتی ہیں۔
دوسرا سوال حضرت جی یہ ہے کہ میں time management نہیں کر پاتی جس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے، حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاءاللہ ایک عجیب نکتہ آپ نے پکڑا ہے، سبحان اللہ! جو اس موقع پر بہت اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یقیناً ہر حیثیت سے انتہائی مہربان شفیق اور ideal شخصیت تھے تو ازواج مطہرات نے ان کے ساتھ اسی طریقے سے معاملہ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی عمل میں ان کی پیروی کرتا ہے تو پھر اس عمل کے بدلے میں جو ازواج مطہرات وہ کرتی تھیں تو ان خواتین کو بھی وہی کرنا چاہیے۔ tit for tat والی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ بیویوں کے ساتھ ایسا تھا تو بیویوں کو بھی وہی رویہ اپنے خاوند کے ساتھ رکھنا چاہیے جو ازواج مطہرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے یہ اپنی بیویوں کو سمجھانا چاہیے کیونکہ یہ طریقہ ٹھیک تو نہیں ہے کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ demand کیا جائے اور دوسری طرف اپنے آپ کو modern خواتین فرض کیا جائے تو یہ طریقہ unbalanced ہے، اس سے نقصانات ہوتے ہیں۔
کسی نے کہا کہ حضرت ہم تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی طرح دیندار اور باحیا عورت چاہتے ہیں تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، پھر آپ کو بھی علی رضی اللہ عنہ جیسا بننا پڑے گا تا کہ دونوں طرف ایک جیسی بات ہو۔ تو اس وجہ سے یہ والی بات unbalanced ہے اس کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے اور اپنے گھر والوں کی تربیت بھی کرنا چاہیے۔ تربیت سے مراد یہ ہے کہ ان کو یہ باتیں سمجھانی چاہئیں اور ان کو یہ کہنا چاہیے کہ اگر آپ اس طرح نہیں کر سکتیں تو پھر میں مجبور ہوں گا کہ اس طرح نہیں کروں گا، تو اس سے وہ control میں آ جائیں گی۔ کیونکہ ان کو اگر احساس ہو گا کہ ہمارا گھر اس سے خراب ہو رہا ہے تو پھر وہ ان شاء اللہ آئندہ کسی کو نہیں بتائیں گی، اور کوئی اس طرح کام نہیں کریں گی۔ اس کا مختصر سا جواب میں نے دیا حالانکہ اس میں بڑی تفصیل ہیں لیکن یہ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
البتہ Time management انتظام سے تعلق رکھتا ہے جو ہمیں باقاعدہ engineering میں سکھایا جاتا تھا۔ ہمارے ایک subject میں time and motion study باقاعدہ ہوا کرتا تو time and motion management بہت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
ایک دفعہ میں نے کچھ ایسا ہی خط حضرت کو لکھا تھا جس کے جواب میں حضرت نے فرمایا تھا کہ بیٹا کام تو انتظام سے ہوتا ہے، جن میں انتظام نہیں ہوتا ان کا کام نہیں ہوتا۔ لہٰذا انتظام تو ضروری ہے جیسے اللہ پاک نے ہر چیز کا انتظام کیا ہے یا جس طرح شریعت میں فقہاء کرام نے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات۔ پھر حرام، مکروہ تحریمی، مکروہ تنزیہی اور مباح جو درجے مقرر ہیں، کے پوری ترتیب بنائی ہے۔ اس طرح آپ کے بھی کاموں میں یہ درجے ضرور ہوں گے تو
preference should go to فرائض and stop حرام and then to واجبات and stop مکروه تحریمی and then to سنن and stop ۔مکروه تنزیهی
اگر آپ اس پر نظر ڈالیں تو آپ کو زندگی میں ایسی چیزیں نظر آ جائیں گی جیسے یہ categorization جو ہوئی ہے، جو کہ ہمارے لیے ہے اور ہم بھی اس کو use کر سکتے ہیں۔ جیسے ابھی میں نے ایک خاتون سے کہا کہ آپ قرآن پاک کا حفظ نہ کریں کیونکہ آپ کی عمر زیادہ ہے۔ تو یہ میں نے کیوں کہا؟ کیا میں قرآن پاک کے حفظ کے خلاف ہوں؟ نہیں میں خلاف نہیں ہوں یہ صرف وہی management والی بات ہے کہ پھر پورا نہیں کر سکے گی۔ تو اسی طریقہ سے انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ فرائض کون سے ہیں، واجبات کون سے ہیں، سنتیں کون سی ہیں اور مستحبات کون سی ہیں؟ یہ صرف نماز میں نہیں ہے بلکہ یہ سارے کاموں میں یہ ہے۔ ہر کام میں اس قسم کی ترتیب ہے اور پوری زندگی میں یہ ترتیبیں چل رہی ہیں، تو ان کو سیکھیں یہی فرض عین علم ہے، اور اس کے مطابق management کر لیں تو ان شاء اللہ العزیز کوئی مشکل نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 16:
اللہ پاک کی معرفت حاصل کرنا کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ اللہ پاک کو تو کوئی پہچان ہی نہیں سکتا اور نہ دیکھ سکتا ہے تو معرفت حاصل کرنے سے ہمیں کیا ملے گا؟ کیونکہ سب کچھ تو آخرت میں ہے تو دنیا میں اس کا کیا فائدہ ہے جیسے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں اگر پچاس کروڑ مسلمانوں کی تربیت خانقاہوں میں ہو ئی تو ان کو تو اللہ پاک کی معرفت ان شاء اللہ حاصل ہو گئی، لیکن باقی مسلمان جو دین کے کسی نہ کسی شعبے سے جڑے ہوئے، وہ نماز روزہ زکوۃ حج اور باقی چیزیں جس قدر ہو سکے وہ ادا کرتے ہیں اور کبیرہ گناہوں میں مبتلا نہیں ہوتے تو کیا ان کو معرفت حاصل نہ کرنے کے نقصانات ہیں؟ کیا ان کی موت کے بعد ان کے نیک اعمال ان کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔؟
جواب:
پتہ نہیں کس قسم کے سوالات لوگوں کے ذہن میں آ جاتے ہیں؟ اور معرفت کو پتہ نہیں لوگوں نے کیا سمجھا ہوا ہے؟ دیکھیں! اگر میں آپ کو یہ بات بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہیں تو کسی نماز پڑھنے والے کو یہ بھول جانا چاہیے؟ اسی طرح اللہ پاک مہربان ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کرتے ہیں، تو کیا یہ باتیں نماز والوں کو معلوم نہیں ہونی چاہئیں؟ کیا صرف خانقاہوں والوں کو معلوم ہونا چاہیے؟ افسوس ہے آپ کی سوچ پر، میں حیران ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کو آپ نے کیا سمجھا ہے؟ کیا یہاں کوئی میں فلسفہ بگھار رہا ہوں، اللہ تعالیٰ کی معرفت فلسفہ نہیں ہے اس بات کو دماغ سے نکالیں یہ actual facts ہیں، الله جل شانهٗ کی ذات کی معرفت آپ حاصل نہیں کر سکتے باقی صفات کی معرفت آپ کو حاصل کرنی پڑی گی کیونکہ آپ کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ جیسے آپ اللہ سے مانگتے ہیں تو اگر معرفت نہ ہو تو آپ مانگیں گے؟ کون سا شخص ہے جو نماز کے بعد دعا نہیں کرتا تو دعا کیوں کرتا ہے؟ پتہ نہیں آپ لوگ اتنی مجالس میں شریک بھی ہو گیے اور آپ کو معرفت کا پتہ نہیں کہ معرفت کیا چیز ہوتی ہے؟ معرفت اللہ تعالیٰ کے صفات کے پہچاننے کا نام ہے اور الله جل شانهٗ کی ذات کو وراء الوراء ماننا کہ الله جل شانهٗ کی ذات تک ہم نہیں پہنچ سکتے یہ بھی معرفت ہے uncertainty principle کیونکہ یہ بھی ایک سائنس کا اصول ہے کہ آپ جب کسی چیز کے بارے میں جانیں کہ میں یہ نہیں کر سکتا تو یہ بھی ایک معرفت ہے، کسی چیز کو نہ جاننا یہ بھی علم ہے کہ اس کو معلوم ہو کہ میں یہ نہیں جانتا۔ جہل مرکب میں اور جہل مفرد میں یہی فرق ہے کہ جہل مرکب میں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ میں کیا نہیں جانتا اور جہل بسیط میں پتہ ہوتا ہے کہ میں کیا نہیں جانتا۔ تو پتہ نہیں کہ آپ سوال برائے سوال کرنا چاہتے ہیں یا واقعی آپ اس طرح ان چیزوں کو نہیں جانتے؟ بڑی حیرت کی بات ہے جس پر میں بڑا حیران ہو گیا کہ یہ آپ نے کیسے سوال کر لیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کے لیے ہمیں پیدا کیا، جس پر میں نے پتہ نہیں کتنے بیان کیے ہیں کہ ﴿وَما خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْإِنسَ إِلّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (سورہ الذٰاریات، آیت نمبر 56) "نہیں پیدا کیا میں نے انسانوں اور جنات کو مگر اپنی عبادت کے لیے" جس کا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تفسیر کیا ہے کہ عبادت کا مطلب یعنی اپنی پہچان کے لیے، تو جس چیز کے لیے اللہ پاک نے ہمیں پیدا کیا جو اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے تو کیا وہ ایسی چیز ہے جس کو کوئی حاصل نہیں کر سکتا؟ یہ کیسی بات ہے؟ کیونکہ قرآن پاک میں ہے کہ ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها﴾ (البقرۃ: 286) کہ اللہ پاک کسی ایسی چیز کا ذمہ دار کسی کو نہیں بناتے جو وہ کر نہیں سکتا۔
ہر شخص کو اپنے اپنے حال کے مطابق معرفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو معرفت سے مراد مجدد صاحب کی معرفت نہیں بتا رہا کہ آپ مجدد صاحب کی معرفت حاصل کر لیں کیونکہ وہ نہ میں حاصل کر سکتا ہوں اور نہ آپ حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اپنے حال کے مطابق معرفت حاصل کرنا ہر ایک کا فرض ہے، نہ میں نے یہ بتایا ہے کہ آپ مجدد صاحب بن جائیں یا آپ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بن جائیں۔ یہ تو میں نے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ ان سے ہم استفادہ کرتے ہیں، ان کی محنتوں سے ہم اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جو ضروری بات ہے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقوں پر چلتے ہیں، تو کیا ہم صحابہ بن سکتے ہیں؟ تو اگر صحابہ نہیں بن سکتے تو صحابہ کے طریقہ پہ بھی نہ چلیں؟ یہ ساری چیزیں practical ہیں۔ خدا کے لیے! تھوڑا سا اپنے ذہن کو کھولیں اور تھوڑا سا سمجھنےکی کوشش کریں کیونکہ یہ گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں اور نہ اتنی complicated باتیں ہیں۔
یہ عجیب بات آپ نے کی ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمان! کیا وہ خانقاہوں میں آئیں گے؟ خدا کے بندے اس کے لیے خانقاہ میں آنا ضروری ہے کیونکہ جو نہیں آتے تو بھگتیں گے کہ خانقاہ کے ساتھ کیوں تعلق نہیں تھا؟ اب دیکھیں! کتنے بیمار ایسے ہیں جو ہسپتالوں میں نہیں آتے تو اپنی بیماری بھگتیں، تو کیا آپ یہ بھی کہیں گے کہ اتنے سارے لوگ بیمار ہیں تو کیا یہ سارے ہسپتالوں میں آئیں گے؟ تو کیا یہ کوئی سوال ہے؟ کیونکہ ہر شخص اپنے فائدے اور نقصان کو جانتا ہے۔ لہٰذا خانقاہ اگر کوئی نہیں جانتا تو بھگتے گا، اگر مسجد کوئی نہیں جانتا تو بھگتے گا، اگر کوئی مدرسہ کو نہیں جانتا تو بھگتے گا کیونکہ یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ ان کو جان لیں، ہمارا کام صرف بتانا ہے ﴿وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ﴾ اسی کو کہتے ہیں کہ میرا کام صرف پہنچانا ہے، باقی کوئی مانے نہ مانے یہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ جب خانقاہیں زیادہ تھیں تو فائدہ زیادہ تھا اور جب خانقاہیں کم ہو گئیں تو فائدہ کم ہو گیا، اس کو ہم مانتے ہیں۔ میں تو یہاں تک بتاتا ہوں کہ اگر موتی نالی میں گرا ہوا ہے تو اس کو اٹھانا ضروری ہے کیونکہ اگر نہ اٹھائیں تو یہ بہت نقصان ہے لیکن اپنے ساتھ تولیے، پانی اور صابن کا بندوبست کرنا پڑے گا ورنہ نالی کے جراثیم آپ کو لگ جائیں گے اور آپ بیمار ہو جائیں گے۔ اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ چلو موتی نہیں اٹھاتا تو یہ بھی ظلم ہے، اور اگر دوسرا آدمی کہتا ہے کہ موتی اٹھانا تو ہے لیکن تولیہ، پانی اور صابن کا بندوبست نہیں کرتا ہوں تو یہ دوسری غلطی ہے۔ تو اسی طرح معرفت جتنی ضروری ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کی محنت بھی ضروری ہے اور وہ محنت available ہے لیکن کوئی نہیں کرنا چاہتا تو اپنی ذمہ داری پہ نہیں کرنا چاہتا۔
بہر حال یہ ان کی اپنی بات ہے، میں ان پہ کفر کا فتویٰ نہیں لگا رہا ہوں بلکہ میں ان کو محروم کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ وہ جو لوگ جن کا مشائخ کے ساتھ تعلق نہیں ہے، جن کا خانقاہوں کے ساتھ تعلق نہیں ہے وہ خیر سے محروم ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
اگر ایک آدمی بیمار ہو اور ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا تو میں کہوں گا کہ وہ ڈاکٹروں کے علاج سے محروم ہے، کوئی مجھے اس طرح کہنے سے تو روک نہیں سکتا۔ اگر سارے بیمار نہیں ہیں تو آپ کے ذہن کا قصور ہو گا اور اگر بیمار ہے اور اپنے علاج کے لیے نہیں آتا تو پھر ظاہر ہے ان کا قصور ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
یہ ابھی انہوں نے کہا ہے کہ حضرت معافی چاہتا ہوں کیونکہ کسی کے خانقاہی نظام کے بارے میں اور مشائخ کے بارے میں اشکالات تھے،میرا کوئی اشکال نہیں ہے۔
آئندہ کےلیے جب بھی اس قسم کا سوال کریں تو ساتھ بتایا کریں کہ کسی اشکال ہے؟ اگر ایک آدمی مجھے صحت مند لگ رہا ہے اور وہ یکدم ایسی بات کر لے تو مجھے حیرت ہو گی یا نہیں ہو گی؟ مجھے تو غصہ آئے گا۔ اب اگر آپ کسی ایسے آدمی کے اشکال کا بتا دیتے تو مجھے غصہ نہیں آنا تھا کیونکہ مجھے پھر آپ کو اسی بنیاد پر سوال کا جواب دینا ہوگا، تو سوال کرنے کا طریقہ بھی سیکھنا چاہیے۔ آئندہ کے لیے اگر کسی اور کا اشکال ہو، کسی اور کا سوال ہو تو ساتھ لکھنا چاہیے کہ یہ کسی کا اشکال ہے یا کسی کا سوال ہے، اپنے اوپر خود ذمہ داری نہ لیں۔ اب ایک آدمی جس پر میرا بھروسہ ہو کہ وہ جان گیا ہے اور وہ اس قسم کے basic کا سوال اٹھائے تو میں تو آگ بگولہ ہو جاؤں گا، کیونکہ میں کہوں گا کہ میری تو ساری محنت رائیگاں چلی گئی۔ اگر یہ آدمی یہ بات بھی نہیں سمجھا تو مجھے تکلیف ہو گی۔ تو اس میں آپ کی صرف اتنی غلطی تھی کہ آپ نے یہ کہنا تھا کہ یہ سوال میرا نہیں ہے یہ کسی اور کا ہے یا کسی اور نے کیا ہے، اور میں اس کو کیا جواب دوں؟ تو معاملہ بالکل سیدھا تھا پھر کوئی مشکل نہیں تھا۔
اچھا جی اب ذرا سوالات کے جوابات
سوال نمبر 17:
شوہر کا مزاج سخت ہو یا وہ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھائے اور اپنی ہر بات منوائے تو اس کی حدود کیا ہیں؟ اور بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
When the expression came after one question,
جو شوہر کا بیوی کے بارے میں اشکال تھا اب بیوی کا اشکال بھی سامنے آ گیا ہے۔ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں balance ہو جائے گا۔
مرد و عورت زندگی کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
چل نہیں سکتی یہ گاڑی ایک اگر بیکار ہو
ظاہر ہے ہمارے لیے تو دونوں برابر ہیں کیونکہ ہمارے سلسلے میں خواتین بھی بیعت ہیں اور مرد بھی بیعت ہیں، دونوں کے ساتھ ہمارا واسطہ ہے اور دونوں کے ساتھ ہمیں دین کے لحاظ سے واسطہ ہے لہٰذا دونوں کی دین کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ اس میں جائز اور ناجائز کی بات میں نہیں بتا رہا کیونکہ وہ مزید جھگڑے پیدا کرنے والی بات ہو گی۔ اگر اس وقت میں صرف اتنا کہہ دوں کہ فلاں جائز ہے اور فلاں ناجائز ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ معاملہ کیسے settle کیا جائے؟ مثلاً آپ نے کہا شوہر کا مزاج سخت ہے اس کو آپ سمجھ نہیں پائیں اور یہ بات وہ نہیں مانتا تو کیا کرو گی؟ اب ظاہر ہے ہمارے پاس کوئی گیدڑ سنگی تو نہیں ہے کہ ہم آپ کو بتائیں اور اس سے آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں۔ آپ تھوڑا سا تصور کر لیں کہ اگر میں ان باتوں سے اس کو روکوں، اور اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے وہ میرے ساتھ بھی تعلق ختم کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا آپ اس کو برداشت کر سکیں گی؟ اگر اس قسم کے chances ہیں تو پھر طریقۂ کار کچھ اور ہو گا لیکن اگر اس سے مزید بات خراب ہوتی ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ تو اس کو طریقے سے manage کرنا پڑے گا۔ اور طریقہ کار یہ ہے کہ آپ شوہر کے ساتھ بحث میں نہ الجھیں کیونکہ یہ ایک خطرناک game ہے، آپ کو اگر یہ لگتا ہو کہ آپ ان کی ہر بات مان رہی ہیں لیکن علم کے طور پہ جو چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ کچھ ایسی کتابیں ہوں جس میں دونوں کی باتیں ہوں، اس کی اگر تعلیم شروع ہو جائے اور بات دونوں کے سامنے آ جائے تو یہ ایک اچھا طریقہ کار ہے۔ یا ایک طریقہ یہ ہو گا کہ اگر آپ دونوں کا تعلق کسی ایسے شخص کے ساتھ ہو جو آپ دونوں کو جانتے ہوں اور آپ دونوں ان کی بات مانتے ہوں اور پھر اس پر فیصلہ ہو سکے کہ وہ جو بتائے گا تو ہم کریں گے تو یہ بھی ایک solution ہے۔ جس وقت میں کسی کا نکاح کراتا ہوں تو اکثر یہ کہا کرتا ہوں کی اپنے نکاح کو قائم رکھنے کے لیے اور اچھی زندگی گزارنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ دونوں کسی اچھی کتاب پہ متفق ہو جائیں اور عزم کریں کہ ہم دونوں نے ان کو follow کرنا ہے، اگر اختلاف ہو گیا تو ہم اپنا مسئلہ اس سے حل کریں گے تو یہ دوسرا طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی شخص پر متفق ہو جائیں کہ ہم دونوں ان تک appraoch کریں گے اور جو یہ بتائے گا ہم دونوں وہ مانیں گے تو یہ بھی ایک solution ہے، تو ان میں جو solution آپ کے لیے possible ہو تو اس کو اختیار کر لیں کیوں کہ tussle کی صورت میں تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بالخصوص گھر کے مسائل۔ البتہ دونوں کم از کم اتنا کر لیں کہ اپنے children کے سامنے کم از کم نزاع نہ کیا کریں کیونکہ اس میں اور خطرات ہیں یعنی بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا ان کو اس اثر سے دور رکھیں اور آئندہ کے لیے آپ کوئی اس طرح management کر لیں۔
سوال نمبر 18:
دین کے معاملے مثلاً نماز اور قرآن کی یاد دہانی میں بیوی کا اپنے شوہر کو کس حد تک تبلیغ کرنی ہے؟ اگر شوہر چڑتا ہو یا چڑے تو کیا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں؟
جواب:
یہ واقعی touchy مضمون ہے کیونکہ اس میں کافی مسئلے آ سکتے ہیں۔ جیسے اگر کوئی شخص والد ہے اور بگڑا ہوا ہے اور اس کا بچہ صالح ہے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کے حالات ہیں، تو وہ بیٹا نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ اپنے شیخ اور استاذ کو جو ان کے مہربان ہوتے ہیں، سے پوچھتا رہتا ہے کہ میں والد صاحب کے لیے کیا کروں؟ تو اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کم از کم اپنے باپ کو کچھ نہ کہیں کیونکہ اس سے وہ چڑے گا، بیٹے کی بات سے باپ چڑتے ہیں، تو آپ کم از کم باپ کو کچھ نہ کہیں بلکہ کسی ایسے صاحب سے کہلوائیں جو اس کا دوست ہو، جس کی بات وہ پہلے سے مانتا ہو، اس کو اعتماد میں لے کر ان کے ذریعے سے یہ باتیں والد تک آہستہ آہستہ پہنچائیں، پھر اس کو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ تو شوہر اور بیوی کا معاملہ تو بیٹے اور باپ سے کے معاملے سے بھی نازک ہے۔ کیونکہ باپ بیٹے کو طلاق نہیں دے سکتا یعنی رشتہ ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خونی رشتہ ہے وہ تو باقی رہے گا۔ بے شک باپ بڑا جزبز ہو جائے، وہ تھپڑ مار دے، جو بھی کر لے لیکن اس حد تک نہیں جا سکتا۔ لیکن بیوی اور شوہر میں بڑا مسئلہ ہے خدا نخواستہ اگر نزاع اتنا بڑھ گیا اور غصہ میں آ کر شیطان نے اس کے منہ سے دو تین الفاظ نکلوا دئیے تو پھر کیا کرو گی؟ لہٰذا میں اس سلسلے میں کسی فریق کو مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ معاملے کو بگاڑے، اگر مجھ سے شوہر پوچھے گا تو اس کو بھی cool down کرنے کی کوشش کروں گا اور اگر بیوی پوچھے گی تو اس کو بھی cool down کی کوشش کروں گا تاکہ ان کا معاملہ نہ بڑھے اور بہتر انداز میں حل ہو جائے۔ اگر آپ کو کچھ اور بھی اشکال ہو تو پھر فرعون کی بیوی اور نمرود کی بیٹی سے کچھ سیکھ لیں۔ میرے خیال میں فرعون سے برا تو آپ کا شوہر نہیں ہو گا، اور نمرود کی بیٹی کے باپ سے کوئی زیادہ برا نہیں ہو گا، انہوں نے اگر ان کے ساتھ گزارا کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گزارے کی گنجائش ہے۔
مامون الرشید ایک بادشاہ تھے وہ ایک دفعہ جا رہے تھے تو کسی موچی وغیرہ نے بڑی سختی سے اُن کو نصیحت کی چونکہ مامون تحمل میں کافی مشہور تھے کہ وہ تحمل مزاج تھے یعنی بات سن بھی لیتے تھے، تو انہوں نے بڑی سختی سے بات کی، تو انہوں نے کہا: حضرت آپ نے بات جو کی وہ ٹھیک ہے لیکن صرف اتنا بتاتا ہوں کہ فرعون کے پاس جب موسی علیه السلام کو بھیجا جا رہا تھا تو ان سے فرمایا گیا کہ فرعون سے نرمی سے بات کریں تو میں فرعون سے زیادہ برا نہیں ہوں اور تم موسی علیہ السلام سے زیادہ اچھے نہیں ہو۔ یہ اس لیے کہ مامون الرشید بھی عالم تھا، ایسے ویسے خلیفہ تو نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس وجہ سے میں اتنی بات فی الحال کر سکتا ہوں، اس سے زیادہ کرنے کو مناسب نہیں سمجھتا۔
سوال نمبر 19:
شادیوں کے بارے میں کن امور کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ شرعی طریقے سے شادی کرنا کتنا ضروری ہے؟ شادی کا شرعی طریقہ کیا ہے اور اس میں گنجائش کتنی ہے؟ اگر کسی کی family بہت بڑی ہو اور ان کو بلانا ناگزیر ہو تو کیا کریں؟
جواب:
میرے خیال میں یہ سوال تصوف کے بارے میں نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف میں تو اپنی اصلاح مقصود ہوتی ہے، یہ سوال تو دوسروں کی اصلاح سے متعلق چیزوں کے بارے میں ہے۔ اگر ہم بنیادی اصلاح پر زور دیں تو دوسری باتیں خود بخود سمجھ میں آ جائیں گی ان شاء اللہ، اس کے لیے موقع مل جائے گا۔ اتنی تفصیل میں اگر ہم جائیں گے تو وہ تو پورا بیان ہو جائے گا، جو سوال و جواب میں بیان نہیں ہو سکتا۔ اس پہ میرا بیان بھی ہے اگر آپ تلاش کر لیں تو ہماری website پر مل جائے گا ان شاء اللہ۔ لیکن یہ بات ہے کہ میں دوبارہ اس طرح بیان تو نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بیان نما چیزیں میرے خیال میں سوال و جواب میں مناسب نہیں ہیں، فی الحال میرے خیال میں اتنا کافی ہے۔ الله جل شانهٗ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آئندہ کچھ اور سوالوں کے جوابات دئیے جائیں گے۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔
اگر آپ لوگوں کا کوئی سوال ہو تو بے شک کر لیں۔
سوال نمبر 20:
حضرت حق کی بات آج کل کے زمانے میں پہنچانے میں اور بتانے میں ہاتھ سے حکمت بھی نکل جاتی ہے، تو کیا بہتر یہی ہے کہ دعا کریں کہ بات اس کے دل میں بیٹھ جائے، یا کیا کریں؟
جواب:
اصل میں آپ کی بات صحیح ہے اور دعا تو ہر چیز میں لازم ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ دین کا کام کرتے ہیں مثلاً تبلیغ کا کام کرتا ہے یا تدریس کا کام کرتا ہے یا اصلاح کا کام کرتا ہے، تو اس کے ساتھ دعا لازمی ہے اور بالخصوص تہجد کے وقت کی دعائیں، یہ ایسے لوگوں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہوتی ہیں، کیونکہ اپنے اوپر بات نہ آئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں۔ البتہ یہ ہے کہ بات پہنچانے کے لیے امر بالمعروف نسبتاً آسان ہے لیکن نہی عن المنکر کافی مشکل ہے، نہی عن المنکر کو سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ نہی عن المنکر سیکھے بغیر اگر کوئی کرتا ہے تو فتنہ اور فساد برپا ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حدیث شریف میں تین صورتیں بتائی گئی ہیں، ایک یہ فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی کام آپ کے سامنے غلط ہو رہا ہو تو آپ اگر ہاتھ سے روک سکتے ہوں تو ہاتھ سے روکیں لیکن یہ حکومت کا کام ہے یا جن کا influence اتنا ہو کہ ان کے سامنے کوئی نہ آ سکے تو وہ ہاتھ سے روکیں۔ دوسرا یہ ہے کہ زبان سے روکیں۔ میں ٹریفک کے قانون کی مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی violate کرتا ہے تو کیا آپ اس کا چالان کر سکتے ہیں؟ ہاتھ سے تو نہیں روک سکتے کیونکہ اگر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کریں گے تو کیا کریں گے؟ لڑائی ہو جائے گی فساد برپا ہو جائے گا اور کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔ اس وقت آپ صرف میٹھی زبان سے بات کر سکتے ہیں کہ بھائی تھوڑا سا اگر آپ side پہ کھڑے ہو جائیں تو left والے لوگوں کو راستہ ملنا آسان ہو جائے گا، آپ کا بھی بھلا ہو جائے گا ان کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ ایسے میٹھے انداز میں بات کر لیں اگر وہ نہیں مانا تو چھوڑ دیں۔ آپ کا یہ position ہے اور آپ اس طرح کر سکتے ہیں، اور اگر اس کا بھی chance نہ ہو بلکہ پتا ہو کہ اس سے بھی فساد ہو سکتا ہے اور مانیں گے نہیں تو پھر دل سے ان کو برا سمجھنا چاہیے اور یہ اضعف الایمان ہے۔ دل سے کم از کم برا سمجھنا یہ تو ہر صورت میں ہو جاتا ہے، جب ایک انسان کسی چیز کو جانتا ہو اور کہ یہ اچھی چیز ہے یا بری چیز، تو پھر وہ تو یہ کام کرے گا۔ تو تین درجے اس لیے بتائے گیے کیونکہ پہلا کام practical ہے جو حکومت کا ہے، دوسرا کام سمجھ دار لوگوں کا ہے اور تیسرا کام ہر ایک کر سکتا ہے۔