سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 420

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مراقبہ کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر اَللہ، اَللہ سننے کا تصور ہے۔ یہ تو الحمد للہ پکا ہے۔ پھر پچیس منٹ مراقبۂ احدیت کا دوسرا سبق ہے کہ اللہ پاک کا فیض آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر آرہا ہے، آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ سِر پر۔ الحمد للہ! فیض کا آنا ٹھیک سے محسوس ہو رہا ہے۔ کیفیت کی بات یہ ہے کہ ابھی دو دن پہلے شاہراہ معرفت پڑھنے کے بعد مراقبہ کے لئے بیٹھی، تو دنیاوی نعمتوں کا اتنا زیادہ استحضار ہوا کہ رونا آگیا، اس احساس کے ساتھ کہ اللہ پاک کے شایانِ شان شکر نہیں کرتی، لیکن ساتھ ہی یہ فیض بھی آتا ہوا محسوس ہوا کہ یہ سب کچھ ظاہری نعمتیں ہیں، اصل اور حقیقی نعمت تو اللہ پاک کی ذات پاک کی محبت ہے، جس کا مزہ اب تک خیال میں بھی نہیں آیا۔ اور یہ احساس اس تصور کے ساتھ ہوا کہ جیسے غم سے دل پھٹ جائے گا۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ صحیح بات ہے کہ انسان کو جتنی بھی نعمتیں مل رہی ہیں، ان پر شکر کرنا واجب ہے اور شکر کرنے کا بہترین انداز یہی ہوتا ہے کہ انسان کو ناشکری کا احساس ہو جائے۔ الحمد للہ، اللہ پاک نے آپ کو یہ نصیب فرما دیا۔ اس پر بھی اللہ کا شکر کریں۔ اور دوسری اس سے بھی بڑی نعمت ہے، جو اللہ پاک نے عطا فرمائی ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ظاہری نعمتوں کے مقابلہ میں جو اصل نعمت ہے، اس کا استحضار، یعنی اللہ جل شانہ کی محبت کا تصور کہ وہ حقیقی نعمت ہے اور اسی کی تلاش میں رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جب بھی اس کا ذرہ نصیب فرمائے، تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا تھا، تو مثنوی شریف کے درس کے بعد ایک دفعہ دعا کی کہ اے اللہ! تو نے جو محبت حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب فرمائی تھی، اس کا ایک ذرہ ہمیں بھی عطا فرما۔ پھر فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ عطا ہوا۔ اور پھر یہ فرمایا کہ ایک ذرہ سے زیادہ ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے، کیونکہ پھر تو اس کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ تو انسان کو اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے۔ دینے والی ذات اللہ کی ہے۔ اور ہماری ساری کوششیں اسی کے لئے ہیں کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ پاک کی محبت ہمیں حاصل ہو جائے، بلکہ ذکر کرنے کی جو نیت ہے، وہ بھی اللہ پاک کی محبت کا حصول ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ذکر سے فائدہ نہیں ہوتا، تو لوگوں کو فائدہ کیسے ہو! ذکر کی نیت ہی نہیں کرتے۔ تو کسی نے پوچھا کہ حضرت! ذکر کی نیت کیسے ہوتی ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی محبت کو طلب کرنا یہ ذکر کی نیت ہے۔ واقعتاً بہت سارے لوگ ذکر کے ساتھ کچھ دنیاوی فوائد کو وابستہ کرتے ہیں، مثلاً: مزہ بھی تو دنیاوی فائدہ ہے، یا کچھ ہمارے دنیا کے مسئلے حل ہو جائیں، تو یہ بھی تو دنیا کی چیزیں ہیں۔ اصل جو ذکر کا فائدہ ہے، وہ ہے؛ اللہ پاک کی محبت کا حصول۔ اللہ نصیب فرما دے۔

سوال:

ایک پوسٹ جو ہماری طرف سے شئر کی گئی تھی، وہ کسی اور نے شئر ہے۔ اس کے بارے میں شاید پوچھنا چاہتے ہیں۔ جو پوسٹ شئر ہوئی تھی وہ درج ذیل ہے:

"سیر فی اللہ میں پختگی کی حالت پہ مجاہدہ اور مشاہدہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، تو ایسے حضرات پہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر لمحہ مجاہدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے، کیونکہ ان کے نفس کی رکاوٹ بالکل ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اعمال تو نفس کے ذریعے ہی ہوتے ہیں اور نفس کی اپنی جو فطرت ہے، وہ آرام چاہتا ہے۔ تو جس قدر بھی مجاہدہ ہو رہا ہوتا ہے، اس لمحہ ان کا اتنا مشاہدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے، تو یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ البتہ جو ناپختہ لوگ ہوتے ہیں، ان میں ہو سکتا ہے کہ دو طرح کے لوگ ہوں۔ ایک وہ کہ جن میں مجاہدہ ہی نہ ہو اور دوسرے وہ کہ جن میں مجاہدہ تو ہو، لیکن مشاہدہ نہ ہو۔ اور نفس اس کے اعمال میں سے کچھ حصہ اپنے لئے رکھ لیتا ہے یا اپنے اوپر نظر چلی جاتی ہے، تو جو کیفیت لِلّٰہیّت کی ہے، جو اس کے ساتھ مقصود ہے، وہ حاصل نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے مجاہدہ کا کچھ حصہ بغیر مشاہدہ کے ضائع ہو جاتا ہے، تو اس میں کافی باریک نقطہ ہے"۔

اس پہ سوال کیا ہے کہ حضرت! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ یہاں پر جو بات ہو رہی ہے کہ سیر فی اللہ میں مجاہدہ اور مشاہدہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے، وہ بات تو کچھ سمجھ میں آگئی، لیکن آگے جو ناپختہ لوگوں کے بارے میں لکھا ہوا ہے، وہاں کچھ کچھ سمجھ میں نہیں آرہی کہ مجاہدہ کرنے کے ساتھ بھی نفس کی وجہ سے مشاہدہ نہیں ہو پاتا، مجاہدہ کا کچھ حصہ بغیر مشاہدہ کے ضائع ہو جاتا ہے، تو پھر کیا کرنا چاہئے۔ مجھے سمجھنے کی ضرورت ہو، تو جواب عنایت فرمائیں۔

جواب:

واقعی چونکہ باریک نقطہ ہے، اس لئے پہلے ہی عرض کیا گیا ہے کہ نقطہ باریک ہے، تو کسی کو سمجھ نہ آئے، تو اس کا قصور نہیں ہے۔ اصل میں پختہ لوگوں کے بارے میں پہلے بات ہوئی، پختہ لوگوں سے مراد یہ ہے کہ جن کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہوتی ہے۔ تو ان کا مجاہدہ اپنے ظرف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اپنی جبلت کی وجہ سے مجاہدہ ہوتا ہے، کیونکہ جبلت ہر شخص کی اپنی اپنی ہے، جیسے: پٹھان کی اپنی جبلت ہے، پنجابی کی اپنی جبلت ہے، عرب کی اپنی جبلت ہے، عجم کی اپنی جبلت ہے، شہری کی اپنی ہے، دیہاتی کی اپنی ہے، تو ہر شخص کی اپنی اپنی جبلت ہے۔ جبلت کے خلاف جب چیز آتی ہے، تو مجاہدہ تو ہوگا۔ تو یہ جو مجاہدہ ہوتا ہے، اس میں چونکہ اس کا نفس پختہ ہوتا ہے، لہذا وہ سب کچھ اللہ کے لئے کر رہا ہوتا ہے، تو اس کا مجاہدہ بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ابھی ناپختہ ہے، ناپختہ سے مراد یہ ہے کہ ابھی نفس کی مکمل اصلاح نہیں ہوئی، تو ایسی صورت میں مجاہدہ تو وہ کر ہی رہا ہوتا ہے، بلکہ اس کو دو مجاہدے کرنے ہوتے ہیں۔ ایک اپنی جبلت کے خلاف اور ایک اپنے نفس کے خلاف۔ ابھی چونکہ اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی، تو اپنے نفس کے خلاف بھی تو مجاہدہ ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن نفس اور جبلت کے خلاف جو مجاہدہ ہوتا ہے، وہ کیش اس لئے نہیں کرتا (فائدہ اس لیے اٹھا پاتا کیوں) کہ اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی، لہذا وہ اس چیز کو اپنے نفس کے لئے وصول کر لیتا ہے، یعنی اس کو اس پہ عُجب ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنے اوپر نظر چلی جاتی ہے کہ میں نے یہ کام کیا، میں نے یہ اتنا کام کیا۔ خواتین میں یہ مرض بہت زیادہ عام ہوتا ہے کہ جو بھی یہ کام کر لیں، دوسروں کو بتاتی ہیں کہ میں تو یہ کرتی ہوں، میں تو روزانہ دو پارے پڑھ لیتی ہوں۔ بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے!! اللہ کے لئے پڑھ رہی ہو یا ان کے لئے پڑھ رہی ہو؟ یا اپنی تعریف کے لئے پڑھ رہی ہو؟ اب جیسے بتا دیا، تو وہ عمل ضائع ہوگیا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کچھ فرما رہے تھے کہ ہمارے والد جو فوت ہوئے تھے، تو ان کو ایصالِ ثواب کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا ہوا تھا۔ جیسے حضرت نے بتایا، تو رنگ زرد ہوگیا اور فرمایا: او ہو! سارا کچھ ضائع کر دیا۔ حالانکہ ضائع نہیں ہوا تھا، کیوں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اور بھی بہت سارے بزرگوں نے لکھا ہے کہ شیخ کی ریا مرید کے اخلاص سے افضل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ جو کچھ کر رہا ہے، وہ مریدوں کی اصلاح کے لئے کر رہا ہوتا ہے۔ وہ ان کو اپنا ایک تجربہ بتا رہا ہوتا ہے۔ شیخ کے لئے تو ریا ہے ہی نہیں، ریا تو اُس کے لئے ہے، جو اپنے نفس کے لئے کر رہا ہوتا ہے۔ تو ان کے لئے تو یہ بات تھی ہی نہیں، لیکن بہرحال! چونکہ ان کو اس کا استحضار اتنا زیادہ تھا کہ فوراً گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ شاید میرا سارا کچھ ضائع ہوگیا۔ بزرگ اپنے اوپر بد اعتمادی تو کرتے ہی ہیں، اس لئے اپنے اوپر تو بدگمانی کرنی ہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پختہ لوگ ہوتے ہیں، تو ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ ان کا جو مجاہدہ ہو رہا ہوتا ہے، ان کو ساتھ ساتھ فائدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے، ان کو مشاہدہ بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہوتا ہے، لیکن جو ناپختہ ہوتے ہیں، ان کا کچھ حصہ ان کے پاس چلا جاتا ہے، نفس کے لئے ہو جاتا ہے، لہذا مکمل مشاہدہ نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے کچھ چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

سوال:

السلام علیکم۔

حضرت جی! آپ کی برکت سے معمولات بہت اچھے جاری ہیں، تقریباً دو بیان ہم سنتے ہیں روزانہ اور اس پر بات چیت بھی ہوتی ہے۔ الطافُ القدس بھی شروع ہوگئی ہے اور الحمد للہ! ساتھیوں کو حقیقتِ جذب و سلوک تو زبانی یاد ہوگئی ہے۔ الحمد للہ! آپ کی برکت سے مقصد اور ذرائع جذب و سلوک، افراط و تفریط، اختیاری اور غیر اختیاری؛ ان تمام اصولوں سے لوگ واقف ہو چکے ہیں۔ حضرت جی! اللہ کی بہت مدد ہے، سب آپ کے لئے دعاگو ہیں۔

جواب:

یہ ہمارے ایک ساتھی ہیں، جو باہر گئے ہیں۔ تو ما شاء اللہ دوسرے لوگ جو وہاں کے ہیں، ان تک یہ باتیں پہنچائی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک ان حضرات کے ذریعے سے ہمارے بزرگوں کا یہ پیغام جگہ جگہ پہنچا رہے ہیں۔ نظام تو اللہ کا ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم تو کچھ نہیں کر سکتے، لیکن جب اللہ کے لئے ایک چیز ہوتی ہے، تو اللہ پاک اس کو جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے، وہاں وہاں پہنچا دیتے ہیں۔ الحمد للہ! اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ پیغام سب تک پہنچا دے۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! پچھلے دو ہفتوں سے حالات بالکل ٹھیک نہیں ہیں، ذکر نہیں کیا، نمازیں بھی تقریباً سب قضا ہوئی ہیں، باقی اعمال بھی کچھ نہیں ہوئے۔ پچھلے مہینہ چارٹ بھی نہیں بھرا، شرمندہ ہوں اور دوبارہ سے معمول پر آنا چاہتا ہوں۔ آخری دفعہ ذکر لئے ہوئے مہینہ ہو چکا ہے۔ 500 دفعہ اَللہ اور باقی پہلے والا ذکر تھا، یہ ذکر دو ہفتہ تو بلا ناغہ ہوا، پھر نہیں ہوا۔

جواب:

جو آدمی اپنا دشمن ہو، اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ مثلاً: کوئی خود کشی کرنا چاہتا ہو، تو اس کو بچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اب ہر وقت ان کے سر پہ سوار تو نہیں رہ سکتے۔ تھوڑی دیر کے لئے بھی غفلت ہوگئی، تو وہ اپنے آپ کو مار دے گا۔ زہر کھانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ تو ڈاکٹر کے پاس جا کر کہہ دیں کہ میں کیا کروں، دو چار مہینہ کے بعد میں زہر کھا لیتا ہوں، میں اس سے نہیں رک سکتا، تو جو وہ بتا دے، تو پھر مجھے بھی بتا دیں، تاکہ کچھ لوگوں کو آپ کا یہ نسخہ کام آجائے۔ اصل میں لوگوں نے اس تصوف کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ یہ باقاعدہ اسباب کے دائرے میں ہے، البتہ دنیا کے اسباب اور ہیں اور دین کے اسباب اور ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہ یہ کوئی چھف والا معاملہ ہے، بس شیخ چھف کر لے گا اور سارا کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ چھف والا معاملہ نہیں ہے۔ یہ باقاعدہ ایسا ہی ہے، جیسا کہ اسباب کا نظام ہے۔ اسباب اختیار کرنے پڑتے ہیں، بیماری میں جیسے آپ پیرا سیٹامول کی گولی کھاتے ہیں تو تصوف میں آپ اس طرح ذکر کرتے ہیں یا مجاہدہ کرتے ہیں، اس کے لئے بالکل اس قسم کے اسباب ہیں۔ اب ایک آدمی کو بزرگی چڑھ جائے اور کہہ دے کہ میں نے پیرا سیٹامول کی گولی نہیں کھانی، بس ڈاکٹر چھف کر لے اور میں ٹھیک ہو جاؤں۔ اگر کوئی ایسا ہے، تو پھر ہم اس کے پاگل ہونے کا اعلان کر لیں۔ اب اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے موقع پر فرمایا کہ بھائی! میں لا علاج آدمی کا علاج نہیں کر سکتا۔ حضرت صاف فرماتے تھے جس نے اپنا علاج نہ کرانا ہو، وہ میرے پاس نہ آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے آج کل ذہن میں یہ بات رکھی ہے کہ شیخ میرے اوپر کوئی تصرف کرے گا اور میرے سارے کام خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جب اللہ پاک فرماتے ہیں کہ کیا ہم تمہیں ہدایت دیں گے اور تم اس سے کراہت کرو گے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ﴿اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ(ھود: 28) اللہ پاک ہدایت دیتے ہیں، جب اللہ پاک خود یہ فرماتے ہیں، تو پھر دوسرا آدمی کیا کر سکتا ہے؟ طلب اس کے اوپر لازم ہے۔ طلب کرے گا، محنت کرے گا، کوشش کرے گا، مجاہدہ کرے گا، تو پھر اللہ کا فضل ہوگا۔ بلکہ یہاں تک اللہ کا قانون ہے، صاف صاف بتاتا ہوں، تاکہ سب پر کھل جائے۔ اللہ کا قاعدہ ہے کہ پہلے مانو گے، پھر دوں گا۔ یہ نہیں کہ پہلے دے دوں، پھر مانو گے۔ یہ والی بات نہیں ہے۔ نتیجہ بعد میں ظاہر ہوتا ہے، ماننا پہلے ہوتا ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَاپہلے ہے، ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 69) بعد میں ہے۔ کیا اس سے بڑی دلیل بھی کوئی اور ہو سکتی ہے؟ یہ قرآن پاک کی دلیل ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 69)

ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی جو لوگ مجھ تک پہنچنے کے لئے کوشش اور محنت کرتے ہیں، میں ان کو ضرور بضرور ہدایت کے راستے سجھاؤں گا۔ کوئی کوشش کرے گا، تو ہدایت کے راستے سجھائے گا۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت! یہ کام تو نہیں ہو سکتا۔ حضرت نے فرمایا کہ تو نے شروع کیا ہے؟ تجھے یہ کہنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ جب تو نے کام شروع ہی نہیں کیا، تو تو پہلے ہی کیسے کہتا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ آج کل ہمارے کلچر کے اندر یہ چیز رچ بس گئی ہے کہ دنیا کے اسباب تو اختیار کرتے ہیں، دین کے اسباب اختیار نہیں کرتے۔ اصلاح کے اسباب اختیار نہیں کرتے۔ اس کے لئے آدمی بزرگ ہو جاتا ہے۔ بس وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ خود بخود انسان ٹھیک نہیں ہوتا، خود بخود خراب ہوتا ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشمس: 9) کسی بھی عربی دان سے پوچھو کہ اس کا ترجمہ کیا ہے۔

ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس: 10)

ترجمہ: "اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص، جس نے اس کو ویسے چھوڑ دیا۔ تو چھوڑنے پہ خود بخود تباہی ہے۔ اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ چھوڑنے پہ خود بخود تباہی ہے۔ تو خود بخود انسان خراب ہوتا ہے، خود بخود ٹھیک نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہونے کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے، کوشش کرنی ہوتی ہے، مانگنا پڑتا ہے، ماننا پڑتا ہے، پھر انسان ٹھیک ہوتا ہے۔ یہ خود بخود ٹھیک ہونے والی بات اپنے دماغوں سے ہم نکال لیں، ایسا نہیں ہوا کرتا۔ میں کہتا ہوں کہ ہماری کوشش بہت کمزور کوشش ہوگی، چاہے ہم اپنی جان بھی ہلاک کر دیں، پھر بھی اتنی بڑی چیز کے لئے ہم کچھ بھی نہیں ہیں، لیکن اللہ پاک اس پہ فضل فرماتے ہیں کہ وہ دے دیتے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش ہوتی ہے، اس پہ اللہ پاک دے دیتے ہیں۔ اس کے مطابق تو کوشش کرنی پڑے گی۔

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 69)

ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

تو بس یہ والی بات ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں تو کچھ نہیں کر سکتا، بس اللہ ہی کچھ کرے، تو موسیٰ علیہ السلام کی قوم والی بات ہو جائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بتایا گیا تھا کہ تم جاؤ، تم فتح حاصل کر لو گے۔ لیکن وہاں جاؤ۔ قرآن میں ہے:

﴿قَالُوْا یٰمُوْسٰی اِنَّا لَنْ نَدْخُلَھَا اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ(سورۃ المائدۃ: 24)

ترجمہ: "وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے۔ (اگر ان سے لڑنا ہے، تو) بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی بات ہے۔ اور پھر آپ ﷺ کے وقت میں جب لڑنے کا وقت آیا، تو صحابہ کرام نے جو تقریر کی، وہ کیا تھی؟ صحابہ نے کہا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح نہیں ہیں کہ ان کی طرح کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے، آگے سے بھی لڑیں گے، پیچھے سے بھی لڑیں گے، یعنی جو ہم کر سکتے ہیں، وہ سب ہم کریں گے۔ یہ ہے مسلمان کی شان۔ تو یہ جو درمیان میں ہمارے نظریاتی خیالات (Theoretical ideas) بیٹھ گئے ہیں دماغ کے اندر کہ خود بخود ہی سارا کچھ ہو جاتا ہے، خود بخود نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔ مجھے ایک صاحب ڈرائیونگ کے بارے میں بتا رہے تھے کہ ڈرائیور کو ابتدائی طور پہ یہ غلطی لگتی ہے کہ جب تک اس نے خود گاڑی نہیں چلائی ہوتی اور وہ دوسروں کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے، تو اس کے نزدیک گاڑی خود بخود مڑ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈرائیور نے موڑی ہوتی ہے، اس نے تو نہیں موڑی ہوتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید گاڑی خود بخود مڑ جاتی ہے۔ تو جب موڑ آتا ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ خود بخود مُڑ جائے۔ خود بخود تو مڑتی نہیں، اسی سے نقصان ہو جاتا ہے۔ اس میں انسان نے اپنی تربیت (training) کرنی ہے۔ تو خود بخود یہ چیزیں نہیں ہوا کرتیں، اس کے لئے کچھ کرنا پڑے گا۔ خیر! الحمد للہ، وہ ساتھی بہت اچھے ساتھی ہیں، انہوں نے تو فوراً کہہ دیا کہ حضرت! میں سمجھ گیا، ان شاء اللہ آئندہ ناغہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ میں نے دوسرے ساتھیوں کو سمجھانے کے لئے بیان کیا ہے۔ مسئلہ چونکہ عام ہے، تو اس وجہ سے اس بنیاد پر میں نے سوچا کہ باقی ساتھیوں کو بھی فائدہ ہوگا، اس لئے میں نے بات کی، ورنہ ان کو جب میں نے کہہ دیا، تو انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ، آئندہ ناغہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔ ہماری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! مراقبۂ روح کو ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے اور اسکے ساتھ یہ عمل بھی جاری ہے؛ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ، حَقْ‘‘ 600 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ، مراقبۂ قلب دس منٹ، مراقبۂ روح پندرہ منٹ۔ موجودہ کیفیت یہ ہے کہ میں نے آپ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ حضرت! مراقبات میں کیسے پتا چلتا ہے کہ جو ذکر محسوس ہو رہا ہے، وہ حقیقت ہے یا میرا وہم ہے۔ دراصل مجھے اکثر ایسا لگتا ہے کہ حقیقت میں مجھے ذکر محسوس نہیں ہوتا، بلکہ میرا وہم ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ جس کا جواب مل گیا تھا۔ اور پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ مراقبہ روح کو شروع کئے ہوئے مجھے ایک مہینہ پورا نہیں ہوا تھا، لیکن لطیفہ روح پہ ذکر محسوس ہو رہا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ ذکر محسوس ہوتا ہے، پر اپنی مرضی سے ہوتا ہے، کبھی پانچ منٹ ہوتا ہے، کبھی دس منٹ ہوتا ہے، کبھی پندرہ منٹ ہوتا ہے۔ اور دن میں بھی کافی مرتبہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ ذکر چل پڑا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان چیزوں پر انسان کا کنٹرول نہیں ہے، البتہ جب انسان اپنے وقت پہ (جس وقت پہ بتایا گیا ہے کہ کام کرو) کوشش کرتا ہے، تو اس وقت کی بنیاد پر ہی بعد میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ بے شک اس وقت محسوس نہ ہو، لیکن اس کا جو اثر ہے، وہ اس نے حاصل کیا ہوتا ہے۔ اور پھر بعد میں دوسرے وقت میں وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ بعد میں بعض دفعہ ظاہر ہو جاتا ہے، بعض دفعہ اسی وقت ہی ظاہر ہو جاتا ہے، لہٰذا اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اپنی محنت جاری رکھیں، یہ خود بخود ان شاء اللہ بہتر ہوتا جائے گا۔ آپ کی محنت ضروری ہے۔

سوال:

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اللہ کے صفاتی ناموں کی تسبیح کر سکتا ہوں؟

جواب:

آپ کو کس وقت کون سا ذکر دینا ہے، وہ میرا کام ہے اور میں اس سے غافل نہیں ہوں۔ جب ضرورت پڑے گی، تو میں آپ کو بتا دوں گا۔ اپنی طرف سے یہ چیزیں شروع کرنا؛ یہ کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ بعض لوگ کتابوں سے شروع کر لیتے ہیں، دیکھا دیکھی شروع کر لیتے ہیں، یہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں۔ جیسے قرآن پاک کے بارے میں آتا ہے کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن کی صحیح تفسیر کی، تو پھر بھی اس نے غلطی کی ہے۔ تو جس نے اپنی مرضی سے اصلاحی ذکر صحیح بھی لے لیا، تو پھر بھی اس نے غلطی کی۔ جیسے کیمسٹ کی دکان پر کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے اور وہ ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کوئی دوائی کھا لے اور اس نے بالکل صحیح دوائی کھائی، تو پھر بھی اس نے غلطی کی۔ اصولاً غلطی کی۔ کسی وقت بھی یہ غلطی اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بے شک اس وقت نقصان نہیں کیا، اس وقت تو اس نے صحیح کیا، لیکن اصول جب اس نے ایسا بنایا کہ ڈاکٹر سے پوچھے بغیر وہ لے رہا ہے، تو کسی وقت بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ ساری دوائیاں ڈرگز (Drugs) ہیں، اور ڈرگس اصل میں زہر ہوتا ہے، لیکن یہ علاج بھی ہوتا ہے۔ اس کی تجویز کردہ خوراک ہوتی ہے، اس کے حساب سے علاج ہوتا ہے۔ دوائی اگر زیادہ مقدار میں لی جائے، تو دوا نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اب پیراسیٹامول کی کتنی گولیاں کھائیں، ایک وقت میں دس گولیاں کھائیں، تو ظاہر ہے کہ نقصان ہوگا۔ حالانکہ اس سے بخار اتر جاتا ہے۔ دس گولیاں کھائیں، تو ہسپتال جانے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ہر چیز کی اپنی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔ تو اپنی طرف سے ذکر نہ لیا کرو۔ میری تو یہ عادت ہے کہ کوئی اپنی طرف سے صحیح ذکر بھی لے، تو میں اس کو تبدیل کر دیتا ہوں، تاکہ اس کو عادت نہ پڑ جائے، کیونکہ یہ عادت ہی بری ہے۔ اپنی طرف سے ذکر اپنے لئے منتخب کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کی اپنے شیخ پر بے اعتمادی بھی ہے کہ سمجھتا ہے کہ شاید شیخ مجھ سے غافل ہے۔ مجھے دینا نہیں چاہتا یا کوئی اور بات ہے یا میں زیادہ جانتا ہوں، تو یہ دونوں باتیں کتنی غلط ہیں۔ تو نقصان کا اندیشہ ہے، اس وجہ سے مناسب نہیں ہے۔

سوال:

تیسرا سوال یہ ہے کہ تصوف پہ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ بہت سارے صوفیاء نے عجیب عجیب دعوے کئے ہیں اور اکثر منصور الحلاج کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے خود کو اللہ کہنا شروع کر لیا تھا اور علمائے حق نے ان کو سزائے موت دی تھی، پھر بھی صوفیاء ان کو غلط نہیں کہتے۔ اس بات کو ذرا واضح فرما دیں۔ اگر سوال برا لگے، تو معافی چاہتا ہوں۔

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ جو تنقید کرنے والے ہیں، ان کو تو ہم خاموش نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے تو ایک جواب کافی ہے، جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ دیا کرتے تھے۔ وہ فرماتے تھے:

بامدعی مگوید اسرار عشق و مستی

تا بے خبر بہ میرد در رنج خود پرستی

ترجمہ: "جو انکار کرنے والے ہیں، ان کو عشق و مستی کے اسرار نہ سناؤ، ان کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ وہ اس سے محروم ہیں"۔

اس وجہ سے ان کے ساتھ الجھنا بھی نہیں چاہئے، خواہ مخواہ مغز ماری ان کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔ بس جو ماننے والا ہے، سمجھنے والا ہے، اس سے بات کریں۔ بلکہ میں تو آپ کو ایک بات بتاؤں، ہمارا تو ایک عجیب اصول ہے، تجربہ کی بنیاد پر ہے کہ ہم تو بوڑھوں کو دعوت نہیں دیتے۔ ہم جوانوں پہ اور عورتوں پہ محنت کرنے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بوڑھے پر جب میں محنت کرتا ہوں اور وہ جتنا اثر لیتا ہے، اتنے وقت میں سو جوانوں اور خواتین کو میں متاثر کر سکتا ہوں، کیونکہ ان میں انفعالیت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اثر جلدی لیتے ہیں یا لیتی ہیں۔ اور بوڑھے صرف کٹھ حجتی کرتے رہتے ہیں۔ نہیں، یہ تو اس طرح ہے، یہ تو اس طرح ہے۔ تو حجت بازی ہی کرتے رہیں، ان کی اپنی مرضی ہے۔ جو خوش قسمت ہوتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں، لیکن جو سمجھنا نہیں چاہتے، ان کے ساتھ ہم کیوں مغز ماری کریں۔ البتہ ان کے ساتھ بات کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی اولاد پہ محنت کرتے ہیں، وہ جب اپنی اولاد کو دیکھتے ہیں کہ ان کو فائدہ ہو رہا ہے، تو پھر وہ بھی آجاتے ہیں۔ ہمارے ساتھی ہیں، نوجوان طالب علم ہیں، الحمد للہ! ان کو کافی فائدہ ہوا، تو ان کے والد صاحب بھی آئے، وہ بھی بیعت ہو گئے۔ ان کی والدہ بھی بیعت ہوگئیں۔ شاید ان کی خالہ وغیرہ بھی بیعت ہوگئیں۔ تو ان کے والد صاحب میرے پاس آئے، مجھے کہتے ہیں کہ کمال ہے، الٹی بات ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ لوگ بڑوں کے پیچھے جاتے ہیں، ہم چھوٹوں کے پیچھے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو ہمارا تجربہ ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو ہمارا اصول یہی ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا، اس کو ہم نہیں سناتے، بلکہ میرا ایک شعر ہے:

کم ظرف کو کبھی بھی پلایا نہیں کرتے

یعنی جو لینا نہیں چاہتا، تو ان کو ہم کیوں دیں؟ ان پہ اپنا وقت کیوں ضائع کریں؟ البتہ عمومی دعوت مثلاً: ممبر پہ بیٹھ کے ہم بات کرتے ہیں، جس نے سن لیا اور جس نے مان لیا، تو اس کی اپنی خوش قسمتی ہے کہ مان لیا اور جس نے نہیں مانا، تو اس کی اپنی مرضی ہے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنا نہیں چاہئے۔ ہم نے سب کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ علمائے کرام اپنے بیانوں کے آخر میں الفاظ کہتے ہیںوَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغُ“ یعنی ہمارے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے۔ آپ ﷺ سے بھی اللہ پاک فرماتے تھے کہ ﴿وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا اَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا(سورۃ النساء: 80)

ترجمہ: "اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے، تو (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب) ۔ جب یہ والی بات ہے، تو ہم کیوں اس کو نہیں مانتے۔ باقی اس کا جو جواب ہے، تو وہ بہت آسان ہے۔ بھائی! حضرت منصور الحلاج رحمۃ اللہ علیہ کو وحدت الوجود ہوا تھا، وحدت الوجود ایک کیفیت ہے، اس کیفیت میں انسان کو اللہ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ اس کو صرف اللہ ہی نظر آتا ہے، لہذا اس حالت میں وہ اور کیا کہہ سکتا ہے؟ حضرت کے جو شیخ تھے یعنی جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، وہ ان سے فرماتے تھے کہ تم خاموش رہا کرو اور کچھ نہ کہو۔ تو وہ کہتے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا، میں کنٹرول نہیں کر سکتا۔ حضرت نے ان کو کافی سمجھایا، اخیر میں فرمایا کہ پھر تیرا علاج سولی پر چڑھنا ہوگا۔ حالانکہ وہ ان کے شیخ تھے۔ تو جس وقت علماء نے ان کے اوپر فتویٰ لگایا، تو وہ فتویٰ انتظامی تھا۔ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بھی عالم تھے، تو ان سے بھی دستخط لینا چاہا، تو حضرت خانقاہ کو چھوڑ کر دار الافتاء تشریف لے گئے اور مفتیوں والا لباس پہن لیا، پھر اس پہ دستخط کر دیئے کہ میں اس حیثیت سے اس پر فتویٰ دے رہا ہوں، شیخ کی حیثیت سے نہیں، کیوں کہ شیخ کی حیثیت سے تو وہ بات جانتے تھے کہ یہ تو بڑے ولی اللہ ہیں۔ لیکن اب اگر کسی کو یہ چیز سمجھ نہیں آرہی، تو بس ٹھیک ہے جسے فرمایا:

بامدعی میگوید اسرار عشق و مستی

ان کو یہ نہ بتاؤ، یہ تفصیلات ہیں اور ان تفصیلات میں ہر شخص کے لئے جانا ضروری نہیں ہے۔ جن کو یہ حالت پیش آجاتی ہے، وہ سب خود ہی سمجھ لیتے ہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، یہ جو دل کا ذکر ہے یا لطائف کا ذکر ہے، جن کو یہ حاصل ہوتا ہے، تو ساری دنیا ایک پاؤں پہ کھڑے ہو کر چیخ چیخ کر کہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، تو کیا اس پر کوئی اثر ہوگا؟ بھائی! اس کو محسوس ہو رہا ہے، تو سارے لوگ چیخ چیخ کر کہیں، تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ وہ ان کو کہے گا کہ بس ٹھیک ہے، تمہیں نہیں ہو رہا، تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ باقی لوگوں کو بھی نہیں ہوتا۔ جن کو ہوتا ہے، تو ان کو ہوتا ہے اور جن کو نہیں ہوتا، تو ان کو نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ اپنے راستہ پہ رہیں۔ اگر آپ ان سے متاثر ہو رہے ہیں، تو میں آپ کو کچا آدمی سمجھوں گا کہ آپ خود کچے ہیں۔ اگر آپ ان سے متاثر ہو رہے ہیں، تو آپ خود کچے ہیں۔ آپ خود کچے نہ رہیں، آپ خود پکے ہو جائیں، پھر لوگوں کی پرواہ نہ کریں۔ پھر اخیر میں کہہ دیں "وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغُ" بس ٹھیک ہے، بات ختم۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

Respected حضرت جی I hope you are fine and doing well. الحمد للہ recently, I got married. My ولیمہ ceremony was on Sunday. I invited many colleagues but none of them came to the event. My father said that you should give love to the people then they would come. I started thinking that perhaps I should have listened to the people when they requested me to come to the ladies section of the ولیمہ ceremony and sat with my wife so that the people got to take pictures. I had refused on that point and I noticed that my mother-in-law appears ناراض on this. I am thinking that perhaps I am not abiding by Sunnah of Prophet Muhamamd ﷺ who said that the person who doesn't love and is not loved has no خیر in him. Respected حضرت جی, can you please guide me about the حقوق of Allah and حقوق of مخلوق because I think that sometimes I focus too much on حقوق of Allah and neglect حقوق of مخلوق. For example, the reason I don’t interact too much with my colleagues is because I think that office time is for work only and I should not be engaging in love talk with my colleagues. Sometimes I think to diffuse the impression that I am cold hearted and another reason is that I don’t take too much to endure. Don’t I open up to people because I think that the person should only open up in front of Allah? Can you please guide me on how I should conduct myself with people and how I should maintain my حقوق اللہ ?

جزاک اللہ خیرا for your time حضرت

جواب:

یہ ایک صاحب ہیں، جو نئے نئے اس لائن میں آئے ہیں، تو ایسے لوگوں کو مسائل تو ہوتے ہیں۔ حالات بھی قابو میں نہیں آتے، کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی اصلاح چاہتے ہیں۔ مثلاً: کوئی اللہ والوں کے پاس جاتا ہے، تو کہتا ہے کہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن یہ بات تب ٹھیک ہو گی کہ وہ اللہ والا ہماری بات مانے۔ ان کو کہتے ہیں کہ اس کو یہ کہو، اس کو ایسا کرو، ایسا کرو، تو پھر ٹھیک ہوگا، ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ ہم روز دیکھتے ہیں، کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک طالب علم بیعت ہوا، لاہور کا تھا۔ اس کے والد صاحب کو پتا چل گیا، تو اس کے والد صاحب حضرت سے کہتے تھے کہ میرے بیٹے کو یہ کہو، میرے بیٹے کو یہ کہو، میرے بیٹے کو یہ کہو۔ حضرت مدارات کیا کرتے تھے، لہذا ان کو کہہ دیتے تھے۔ آخر تنگ آگئے۔ ایسی حالت میں انسان تنگ تو آ جاتا ہے۔ تو حضرت نے ان سے فرمایا کہ بھائی! ہم نے کبھی بھی یہ نہیں سنا، نہ کسی کتاب میں پڑھا کہ کوئی شخص کسی بزرگ سے بیعت ہو جائے، تو وہ بزرگ اس کے والد سے بیعت ہو جائے، جو اس کا والد کہتا جائے، تو وہ اس کو کرتا جائے، لہذا آپ اپنے بیٹے کو لے جا سکتے ہیں، میں اس کی تربیت سے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہوں، میں اس کی تربیت نہیں کر سکتا۔ یہ واقعہ چونکہ ہمارے سامنے موجود تھا، لہذا الحمد للہ ہم تو پہلے سے اس چیز کو جانتے تھے۔ میرے ساتھ بھی ایک event ہوا کہ ایک صاحب مجھ سے بیعت ہوئے، ما شاء اللہ بہت اچھا فائدہ ان کو ہونے لگا، ان کے والد صاحب میرے پاس آتے تھے اور مجھے کہتے کہ آپ ان کو یہ کہیں، آپ ان کو یہ کہیں۔ چونکہ مجھے حضرت صاحب والا کیس یاد تھا، میں نے کہا کہ میں نے آپ کی بالکل نہیں سننی، نہ آپ کی بات ماننی ہے۔ پہلے مجھے بتاؤ کہ آپ کے بیٹے کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ بہت ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ ان شاء اللہ مزید بھی ہوگا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اس کی تربیت کر سکتے ہیں، تو میں تربیت سے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہوں، بس آپ کر لیں، آپ اس کے والد ہیں۔ حالانکہ اس کے والد صاحب کے ساتھ کچھ حالات بھی نارمل نہیں تھے۔ وہ کہنے لگے کہ نہیں، نہیں، یہ تو میں نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا کہ پھر آپ اس کے سامنے میرے ساتھ ملیں بھی نہیں، کیونکہ وہ سمجھے گا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اور وہ آپ کے ساتھ ہے نہیں، لہذا مجھ سے بھی دور ہو جائے گا، جو کام ہو رہا ہے، وہ بھی نہیں ہوگا، لہٰذا مہربانی کر کے اس کے سامنے میرے ساتھ ملیں بھی نہیں، اور نہ میں نے آپ کی ماننی ہے، ان شاء اللہ اس کو فائدہ ہوگا۔ بعد میں الحمد للہ! سب سے زیادہ اپنے والد کی خدمت وہی کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔ اب دیکھیں! اصلاح ہوگئی، تو بس ہوگئی۔ لوگ جلدی مچاتے ہیں، یہ بھی اسی قسم کی بات ہے، کوئی دوسری بات نہیں ہے۔ ان کو میں نے یہ جواب دیا کہ حدیث شریف میں آیا ہے: "لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ" (المعجم الکبیر للطبرانی: 381)

ترجمہ: "خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے"۔

اس لئے اگر کوئی آپ سے گناہ پر خوش ہو اور ثواب پر ناراض ہو، تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ نے اسی پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہے۔

فَإِنۡ اٰمَنُواْ بِمِثۡلِ مَآ اٰمَنتُم بِهٖ فَقَدِ اهۡتَدَواْ وَّإِنْ تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّمَا هُمۡ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكۡفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِيْعُ الۡعَلِيْمُ (البقرۃ: 137)

ترجمہ: "اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں، جیسے تم ایمان لائے ہو، تو یہ راہِ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں، تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں، پھر تو وہ خسارے سے بچ جائیں گے، اور کامیاب ہو جائیں گے۔ اور اگر انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا، تو وہ خسارے میں چلے جائیں گے۔ تمہارے لئے اللہ پاک کافی ہے۔

لہذا آپ ان کے حقوق میں کمی نہ کریں، لیکن ان کی ناجائز باتوں کو ماننا آپ کے اوپر لازم نہیں ہے۔

مجھے یہ بھی title ملتے ہیں کہ ان کے مرید نافرمان ہو جاتے ہیں۔ آخر نافرمان تو ہونے ہی ہیں، کیونکہ منفی کو منفی سے ضرب دیں، تو مثبت ہوتا ہے۔ لہٰذا نافرمانی کی نافرمانی فرمان برداری ہو گی۔ جو اللہ کے نافرمان ہیں، تو ان کی نافرمانی کی نافرمانی کرنا اللہ کی فرمان برداری ہے۔ اور میں اللہ کی فرمان برداری سے کسی کو نہیں روک سکتا۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

کچھ سوالات پیشِ خدمت ہیں، اگر احمقانہ ہوں، تو پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ (ما شاء اللہ! یہ عالم ہیں، کوئی معمولی شخص نہیں ہیں، اس لئے ہم احمقانہ بات ان کی طرف منسوب نہیں کر سکتے)

حضرت جی! کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ آن لائن دعا میں شرکت ہو جائے، لیکن اکثر دعا کی ریکارڈنگ آتی ہے۔ تو اس پر آمین کہنے سے بھی دعا میں شرکت شمار ہو گی؟

جواب:

اگر آپ اس معنی میں دعا پہ آمین کہتے ہیں کہ یہ دعا میں کر رہا ہوں، گویا کہ یہ میری دعا ہے، مثلاً: کاغذ پہ دعا لکھی ہوئی ہے اور آپ اس پہ آمین کہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ بھی وہ دعا کر رہے ہیں، لہذا امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ دعا شمار ہو گی۔ لیکن کافی دن ہوئے ہیں، میں اس پر پہلے بات کر چکا ہوں کہ آن لائن اسی وقت سننے پر فائدہ ہوگا، خواہ دعا ہو یا ذکر۔ جو ذکر ہم ادھر کریں گے، اگر میرے ساتھ کوئی انگلینڈ میں بھی ذکر کر رہا ہو، تو وہ میرے ساتھ شامل ہے، لیکن ریکارڈنگ کے ذکر کے ساتھ ذکر کرے گا، تو وہ میرے ساتھ شامل نہیں ہوگا، ریکارڈنگ کے ساتھ شامل ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ سیکھنے کی نیت سے تو ٹھیک ہے، کیونکہ ریکارڈنگ سے بھی اگر آپ ذکر اس کے ساتھ ملاتے ہیں، تو سیکھ تو لیں گے۔ سیکھنے کا فائدہ تو ہوگا، لیکن وہ والی بات نہیں ہو گی، کیونکہ لاؤڈ سپیکر پر جب رائیونڈ میں اجتماع ہوتا ہے، تو وہاں پر بہت دور دور تک tents لگے ہوتے ہیں، جو شخص بول رہا ہوتا ہے، وہ بعض لوگوں کو نظر ہی نہیں آ سکتا، وہاں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا، لیکن اگر وہاں سے دعا ہو رہی ہے اور ساتھ کوئی آمین کہے، تو اس کا آمین ان کے ساتھ شامل ہوگا۔ اگر لاؤڈ سپیکر پر ایسا ہے، تو ریڈیو پر بھی اسی طرح ہے۔ اگر ریڈیو پر وہ دعا کر رہا ہے اور سب لوگ اس کو سن رہے ہوں اور اس پر آمین کہہ دیں، تو بے شک وہ دوسرے بر اعظم میں سن رہا ہو، اس کی دعا ہو جائے گی، وہ اس کے ساتھ شامل ہوگا۔ انٹرنیٹ پر بھی یہی صورتحال ہے۔ انٹرنیٹ پر آن لائن اگر کوئی دعا کر رہا ہے، تو بے شک امریکہ میں اگر اس پہ کوئی آمین کہنے والا ہے، تو وہ اس کے ساتھ شامل ہے، کیونکہ اسی وقت ہی ہو رہا ہے۔ اس کو ہم کہتے ہیں Real time process۔ تو Real time میں صحیح ہے۔

سوال:

حضرت! میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ جب ہفتہ میں کسی دن آپ کی زیارت ہو جائے یا جمعۃ المبارک میں شرکت ہو جائے، تو پھر جوڑ میں شرکت کا جذبہ کم ہو جاتا ہے، اس لئے جوڑ میں ناغہ بھی ہو جاتا ہے۔

جواب:

دیکھیں! میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ غلط کر رہے ہیں، البتہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ابھی ارادہ میں تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ آپ کا ارادہ اصلاح کا ہے یا ملنے کا ہے؟ اگر ملنے کا ہے، تو آپ کی بات صحیح ہے اور اگر اصلاح کا ہے، تو پھر ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ جوڑ میں اصلاح زیادہ ہے، جوڑ میں اور لوگ بھی آتے ہیں اور اصلاحی معمولات بھی ہوتے ہیں۔ البتہ اگر آپ جوڑ کو بھی بیان سمجھ لیں اور آ کر واپس چلے جائیں، تو پھر تو آپ کا معاملہ ایسا ہی ہوگا، لیکن ہم اس کو کافی نہیں سمجھتے۔ جوڑ میں وہیں پر ٹھہرنا ضروری ہے۔ آپ ٹھہریں، رات بھی گزاریں، رات کے معمولات میں بھی شامل ہوں، تہجد کے معمولات میں بھی شامل ہوں، پھر اشراق کے بعد کے معمولات میں بھی شامل ہوں، تو پھر آپ جوڑ میں شامل ہیں، ورنہ بیان میں شامل ہیں، جوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھی زیادہ بزرگ بن گئے ہیں، تو ان بزرگوں کا تو کوئی علاج نہیں کر سکتا۔ یہ میں عام لوگوں سے کہہ رہا ہوں، جو تھوڑا سا سن سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں۔ بزرگوں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔

سوال:

تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے بیان میں فرمایا تھا کہ اگر کسی کے لطائف جاری نہ ہو رہے ہوں، تو اطلاع کر لیں، تاکہ متبادل طریقہ اختیار کیا جائے۔ میرا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اتنے عرصہ میں ابھی تک پندرہ منٹ والا مراقبہ ٹھیک سے نہیں ہو پا رہا۔ باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں۔

جواب:

ٹھیک ہے، آپ نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ اگر آپ سے لطائف نہیں سنبھالے جا رہے، تو صرف یہ ایک طریقہ نہیں ہے، بلکہ اور طریقے بھی ہیں۔ کوئی اور طریقہ بھی شروع کر سکتے ہیں، ان شاء اللہ۔

سوال:

السلام علیکم۔

I am فلاں from UK. As per your advice, I continue my ذکر and تسبیحات رمضان without any change. Now it's more than three months of following ذکر

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 times

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 times

حق 600 times

And ten minutes مراقبہ on لطیفہ قلب and ten minutes on لطیفہ روح. I can’t say what effects I am having. I sometimes feel fed up with the world and feel this life is full of problems. I feel that peace can only be attained after death. I don’t know if this feeling is because of life problems or the effects of ذکر. I feel less attracted to نفسانی گناہ. I do دعا to اللہ سبحانہ و تعالیٰ to make me strong to carry out as much as possible. I also feel my ذکر and نماز worthless in front of اللہ سبحانہ و تعالیٰ greatness as so much thoughts come in ذکر and نماز but also sometimes I feel خشوع and خضوع in نماز as well in routine life. I feel ذکر قلب almost all the time now. It feels like I am talking to myself in my heart and repeating Allah Allah but it has no specific place in the chest all over, not at قلب ریا. Kindly advise what I should do next?

جواب:

ما شاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ آپ جو کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں، الحمد للہ۔ اور یہ آپ کے ذکر کے اثرات ہیں۔ ذکر کی برکات اور اثرات یہ ہوتے ہیں کہ انسان کو اللہ کے ساتھ محبت ہو جائے، موت یاد آنے لگے، اس کی تیاری کی توفیق ہونے لگے اور دنیا کی لذات انسان کے سامنے ہیچ ثابت ہونے لگیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ ان کو محسوس کر رہے ہیں۔

باقی! قلبی ذکر اگر آپ مختلف جگہوں پر محسوس کر رہے ہیں، تو ایسا ہوتا رہتا ہے، البتہ آپ نے خاص جگہ پہ کرنا ہے، بے شک وہ کسی بھی جگہ ظاہر ہو جائے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس کو ایک منظم (systematic) طریقے سے ہی کرنا ہے، وہ جہاں بھی ظاہر ہو جائے۔ اس وجہ سے اگر آپ کا لطیفہ روح پر ذکر کا مہینہ پورا ہوگیا ہے، تو پھر لطیفہ سِر پر بھی شروع کر لیں، یعنی دس منٹ لطیفہ قلب، دس منٹ لطیفہ روح اور دس منٹ لطیفہ سِر۔ سِر کی جگہ آپ کو میرے خیال میں ہماری ویب سائٹ پر اس کو جو نقشہ بنا ہوا ہے وہاں سے پتا چل جائے گی۔ اگر پتا نہ چلے، تو مجھ سے پوچھ لیں، میں بتا دوں گا، ان شاء اللہ۔

سوال:

السلام علیکم۔

حضرت جی! میرا ذکر 200، 400، 600 اور 400 مرتبہ اَللہ ہے۔

جواب:

ابھی باقی چیزیں تو وہی رکھیں، البتہ اَللہ کا ذکر 500 دفعہ کر لیں۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

حضرت جی! آپ سے مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ تعلیم ہوا تھا، تقریباً دو ماہ ہونے کو ہیں، درمیان میں کچھ ناغے بھی ہوتے رہے، پھر الحمد للہ شروع کر لیا۔ اس کے ساتھ ذکر بالجہر 100، 100، 100 اور 100 ملا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو بہت گناہگار پا کر یہ خیال آجاتا ہے کہ میری اصلاح نہیں ہو سکے گی، مگر آپ کی تعلیمات کی روشنی میں اس کو وسوسہ سمجھتا ہوں اور آپ سے اور خانقاہ سے جڑے رہنے کا عہد کرتا رہتا ہوں۔

حضرت جی! انٹرنیٹ کے تنہائی کے گناہوں سے اللہ کا بہت ڈر محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کا غصہ بالکل پاس محسوس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کوئی ڈرامہ یا ویڈیو دیکھنے کا خیال تو آتا ہے، مگر ایسا کر نہیں پاتا، کسی اور کام میں مشغول ہو جاتا ہوں۔ مزید یہ کہ نوافل پڑھنے کو بالکل جی نہیں چاہتا اور صرف فرائض تک محدود ہوں۔ اکثر مسجد سے بھی جلدی نکلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاہم فرضوں میں دل جمعی حاصل ہوتی ہے۔

جواب:

اچھی بات ہے۔ ابھی چونکہ دو مہینہ ہونے کو ہیں، تو مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کے بعد چوتھا مراقبہ جو لطیفۂ خفی پر ہے، وہ آپ شروع کر لیں۔ جس میں صفاتِ سلبیہ کا استحضار ہوتا ہے۔ اصل میں یہ مراقبۂ تنزیہ ہے۔ مراقبۂ تنزیہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نیند سے پاک ہے، اللہ پاک اونگھ سے پاک ہے، اللہ بھوک سے پاک ہے، اللہ پیاس سے پاک ہے، یعنی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو انسانوں میں تو ہوتی ہیں، لیکن اللہ ان سے پاک ہے۔ پس اب مراقبۂ تنزیہ شروع کر لیں۔

نوافل میں تو اختیار ہے، البتہ ایسا نہ ہو کہ سنتوں کو بھی ترک کرنا شروع کر لیں۔ فرائض، واجبات اور سننِ مؤکدہ کا اہتمام ضروری ہے۔ مؤکدہ کا مطلب ہے کہ ان کی تاکید ہے۔ نوافل اگر نہ پڑھ سکیں، تو علیحدہ بات ہے، البتہ سنن کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اور نوافل بھی چھوڑنے کے لئے نہیں ہیں۔ میں ایک بات بتاتا ہوں کہ اصل کام تو فرائض کو پورا کرنا ہے، لیکن نوافل کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اس سے انسان اتنی ترقی کرتا ہے، اتنی ترقی کرتا ہے کہ پھر اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اس کے پیر بن جاتا ہوں، جن سے وہ چلتا ہے۔ میں اس کی زبان بن جاتا ہوں، جس سے وہ بولتا ہے۔ تو یہ کیفیت تو نوافل سے حاصل ہو گی۔ باقی! ہر شخص کی اپنی مرضی ہے۔

سوال:

السلام علیکم!

جواب:

آج ایک صاحب نے مجھے کچھ کیفیات بھیجی ہیں، لیکن چونکہ آڈیو ہے، تو اس کی آواز سے پتا چل جائے گا کہ کون ہے۔ اس لئے ہم آواز نہیں سناتے۔ اگر وہ آج کے سوال و جواب کا پورا سیشن سن لے، تو میرے خیال میں اس کے لئے بھی اچھا خاصا مواد اس میں موجود ہے، ان شاء اللہ اس کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا، کیونکہ اس قسم کی بات دوسرے لوگ بھی کر چکے ہیں۔

سوال:

Dear حضرت شاہ صاحب I will get surgery on 29th July. I request you for dua. I still continue my previous ورد too. Also is there any دعا to cure a physical pain or at least be patient with it?

جواب:

Dear brother may اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant you صحت and you should recite سورۃ فاتحہ and make it دم on water and drink that water. ان شاء اللہ it will help you and I make دعا for you ان شاء اللہ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ will give you صحت and when you get صحت ان شاء اللہ tell me I shall give you new ورد ان شاء اللہ.

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت! صحیح مسلم کی حدیث نمبر 203 ہے، جس میں ہے کہ اللہ پاک شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں بھیج دیں گے، کیونکہ انہوں نے وہ سب اعمال اپنے نفس کے لئے کئے ہیں کہ مجھے بہادر کہا جائے، عالم کہا جائے اور سخی کہا جائے۔ حضرت! جب اتنے بڑے اعمال والوں کو بھی جہنم میں بھیج دیا جائے گا، تو بہت مایوسی ہو جاتی ہے کہ میں تو پتا نہیں، دن میں کتنے کام نفس کے لئے کرتا ہوں۔ اپنی اصلاح کی کوشش تو کر رہا ہوں، لیکن اصلاح ہونے کا کوئی وقت متعین تو ہے نہیں۔ اگر اپنے نفس کے لئے کام کرتے ہوئے موت آگئی، تو کیا ہوگا۔ کیونکہ جب اتنے اونچے اعمال کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا، تو میری کیا حیثیت ہے۔

جواب:

اصل میں میں اس پہ ایک تبصرہ کروں گا کہ افراط و تفریط سے بچنا لازم ہے۔ اگر آدمی کو اس قسم کی بات سے ڈرایا جائے، جس سے ڈرانا ضروری ہے، تو پھر وہ ڈر کے مارے مایوس ہو جائے اور اگر نہ ڈرایا جائے، تو نڈر ہو جائے اور اپنی اصلاح کی فکر بھی نہ کرے، تو پھر آدمی کیا کرے؟ پھر آدمی بات کرنا چھوڑ دے؟ لہٰذا انسان کو ان باتوں پر یقین کرنا چاہئے کہ ایسا ہی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور اللہ پاک سے اچھی امید بھی رکھنی چاہئے۔ حدیث شریف ہے: "اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ" ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ لہذا اللہ سے امید قائم رکھو اور ہمت کو جوان رکھو، اسباب کو اختیار کرو، اللہ مدد فرمائیں گے۔ میرے خیال میں میری یہ چار باتیں یاد رکھ لیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

اب اگر دوسرے سیشن میں دوسرے گروپ پر کوئی سوال ہو، تو چونکہ ہم بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ سوالات کے لئے نمبر دوسرا ہے، اس پر بھیجنے چاہئیں۔ لہذا اگر کسی نے اس پر بھیجا ہے، تو ہم معذور ہیں، کیونکہ میرے پاس بہت سارے میسجز آتے ہیں، تو وہ ان میں گم ہو جاتا ہے۔ غلطی ان لوگوں نے خود کی ہے کہ سوال کو وہاں بھیجا ہے۔ لہذا آئندہ کے لئے میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ سوال و جواب کا نمبر میں بتا دیتا ہوں، وہ نمبر ہے: 5195788-0315، اس کے اوپر سوال بھیج دیا کریں، کیونکہ اگر آپ 5010542-0300 جو میرا ذاتی نمبر ہے، اس پر سوال بھیجیں گے، تو اس نمبر پر تو سوالوں کے علاوہ بھی کچھ لوگ آڈیوز بھیج رہے ہیں، کچھ لوگ ٹیکسٹ بھیج رہے ہیں، مختلف لوگ اس پر مختلف چیزیں بھیجتے ہیں۔ لہذا مجھے بھی نہیں پتا چلتا کہ کون سی چیز کہاں پر ہے، اس لئے مجبوراً میں نے اس کو باقی تو رکھا ہے، لیکن سوال و جواب کو اس سے علیحدہ کیا ہوا ہے۔ سوال و جواب والے نمبر پر کوئی سوال ہو، تو لے آئیں، ورنہ پھر حاضرین کے جو سوال ہوں گے، تو ان کے جوابات دیئے جائیں گے۔


مجلس میں موجود حاضرین کے سوالات کے جوابات:

سوال:

حضرت! خانقاہ میں دنیاوی باتیں کرنا یا فضول باتیں کرنا جائز ہے؟

جواب:

دیکھیں! جو بھی جگہ جس مقصد کے لئے بنی ہو، اس میں اس مقصد کے خلاف کام کرنا ٹھیک نہیں ہے اور اس سے نقصان بھی ہوتا ہے، اس وجہ سے خانقاہ میں دنیاوی باتیں نہیں کرنا چاہئیں۔ البتہ جو حضرات یہاں پر مقیم ہیں اور ان کی ڈیوٹی ہے، تو جو صحیح دنیاوی معاملات ہیں، جن کی یہاں پر مجبوری ہے، ان کے لئے ان کی بات کرنا، جیسے: کپڑوں کی بات کرنا یا کسی اور چیز کی بات کرنا؛ درست ہوگا، لیکن جو لوگ یہاں پر اصلاح کے لئے آتے ہیں، ان کو اپنی دنیاوی باتیں ادھر نہیں کرنی چاہئیں۔

سوال:

حضرت! ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں، شیخ کے کیا آداب ہیں؟ یعنی شیخ کے ساتھ کیسا معاملہ رکھا جائے؟

جواب:

یہ آداب دو باتوں میں تو نہیں بیان کئے جا سکتے، لیکن اگر ایک بات کی جائے کہ شیخ کے ساتھ محبت ہو، تو محبت اتنا بڑا استاذ ہے کہ وہ ساری چیزیں خود ہی سکھا دیتا ہے۔ میرے خیال میں مختصر ترین بات تو یہی ہو سکتی ہے۔ باقی آدابِ شیخ کے اوپر صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بھی ہے، اور بزرگوں کی بھی ہے، اس کو پڑھ لیں۔ اور میری کتاب "فہم التصوف" میں بھی اس پر لکھا ہوا ہے۔

سوال:

حضرت! جب جذب پیدا ہو جائے، تو اس سے کام کس طرح لیں؟ اور جذب کس کا پیدا ہوا؟ اور کیسے پیدا ہوا؟

جواب:

اصل میں ہماری خانقاہ میں ایک مسئلہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہم اس سے بچ نہیں سکتے۔ وہ یہ ہے کہ یہاں پر تعلیمی ماحول ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہاں کچھ ایسی چیزوں کو بھی سکھایا جاتا ہے، جو باقی خانقاہوں میں نہیں سکھائی نہیں جاتیں۔ پہلے وہ چیزیں بتائی جاتی ہیں، پھر دکھائی جاتی ہیں۔ اس میں اور تو کچھ نہیں ہوتا، البتہ سکھانے کی وجہ سے سائیڈ ایفکٹ یہ ہے کہ جو کام شیخ کے ذمہ ہے، مرید اس کو بھی اپنے ذمہ لے لیتا ہے، کیوں کہ وہ تھیوری سن رہا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جذب حاصل ہونے کی تھیوری تو ہم بتا دیتے ہیں، لیکن جذب حاصل ہوا نہیں، اب یہ ذمہ داری شیخ کی ہے کہ وہ معلوم کر لے کہ مطلوبہ جذب حاصل ہوا یا نہیں ہوا۔ اگر اس کو پتا چل گیا کہ حاصل ہوا، تو فوراً آپ کی پٹڑی تبدیل کر لے گا، آپ کو سلوک پہ ڈال دے گا، آپ کو کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، لیکن اگر ابھی وہ کیفیت نہیں آئی، تو شیخ جو اس کو بتاتا جائے، وہ اس پر عمل کرتا جائے اور یہ معاملہ اس کے ساتھ ہی رکھے کہ وہ جب بھی اس کے اوپر اس کو لے آئے تو ٹھیک ہے۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب ہوگا؛ کیوں کہ ہر ایک شخص کی اپنی اپنی استعداد ہے، کسی کو جلدی حاصل ہو جاتا ہے، کسی کو دیر سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: مجھ سے دو خواتین بیعت ہوئیں، دونوں بچیاں تھیں، ان کو ایک مہینہ میں جذب حاصل ہوگیا تو ان کو میں فوراً سلوک کی طرف لے آیا۔ میں نے کہا کہ اب سلوک طے کرو۔ ان کو ایک خاتون کے حوالہ کر دیا۔ وہ کافی روئیں بھی کہ ہمیں کیوں دوسری طرف بھیجا جا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے فائدے کے لئے بھیج رہے ہیں، اب سلوک طے کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا جو مطلوبہ جذب تھا یعنی نرمی، جس کو ہم کہتے ہیں کہ جیسے لوہا نرم ہو جاتا ہے، تو پھر جس طرف بھی موڑنا چاہیں، تو مڑ جائے گا، تو یہ جذب ہے اور سلوک تھوڑا سا سخت معاملہ ہے۔ جیسے ٹھنڈے توے پہ آٹا ڈالنے والی بات مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی تھی۔ ان کے کوئی ساتھی تھے، جو کافی عرصہ ان کے ساتھ رہے تھے۔ حضرت کو اندازہ ہو گیا کہ شاید ان کو ابھی حاصل ہو چکا ہے، میں ان کو بات کر سکتا ہوں، تو انہوں نے ان سے کہا کہ آپ داڑھی رکھ لیں۔ ان کی داڑھی نہیں تھی۔ تو وہ غائب ہو گئے۔ حضرت کو اتنی تکلیف ہوئی کہ کہا: اف! میری غلطی کی وجہ سے وہ ضائع ہوگئے۔ پھر فرمایا کہ میں نے ٹھنڈے توے پہ آٹا ڈال دیا، آٹا بھی ضائع ہوگیا۔ اس وجہ سے دو تین دن تک حضرت کو نیند نہیں آئی۔ پس وہ جذب ان کو حاصل نہیں ہوا تھا، جس کا حضرت نے اندازہ لگایا تھا۔ میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ بعض ساتھی سمجھتے ہیں کہ ہمیں حاصل ہوگیا ہے، لیکن جب وقت آتا ہے، تو پھر پتا چلتا ہے کہ ابھی حاصل نہیں ہوا۔ معاملہ کرتے وقت پتا چل جاتا ہے، کیونکہ اس وقت اگر اس کو وہ کام دے دیا جائے، تو وہ نہیں کر سکے گا، بلکہ شاید چھوڑ ہی دے۔ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے، جیسے وہ شخص چلا گیا۔ اس وجہ سے یہ فیصلہ کافی مشکل ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے نہیں ہو سکتا۔

سوال:

حضرت! کل کے بیان میں آپ نے سورت کوثر کی تشریح بتائی تھی۔ آخری آیت کی تشریح دوبارہ بتا دیجئے۔

جواب:

بتا تو دی تھی۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر: 3)

ترجمہ: "یقین جانو، تمہارا دشمن ہی وہ ہے، جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

آپ ﷺ کے دشمن کہتے تھے کہ آپ ﷺ کا نام کوئی نہیں لے گا، کیونکہ ان کی اولاد نہیں ہے۔ عربوں میں یہی تھا کہ جن کی اولاد ہوتی تھی، ان کی بات آگے چلتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نسل بھی نرینہ اولاد سے چلتی ہے۔ ان کی چونکہ نرینہ اولاد نہیں ہے، لہذا یہ ختم ہو جائے گا (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکْ) تو اللہ پاک نے فرمایا: اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر: 3) ابتر اس کو کہتے ہیں، جس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ تمہارے دشمنوں کے ساتھ ایسا ہوگا۔ اور ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ ابو لھب، ابو جہل اور امیہ بن خلف کا نام کوئی بھی اچھائی سے اب نہیں لیتا۔ گالیاں ہی گالیاں ہیں۔ اور ما شاء اللہ آپ ﷺ کا تذکرہ پوری دنیا میں ہے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ